امام ابوالحسن کرخی کا اصول اورغلط فہمیوں کا جواب

محمد یوسف

وفقہ اللہ
رکن
امام ابوالحسن کرخی کا اصول اورغلط فہمیوں کا جواب

امام ابوالحسن الکرخی (متوفی 340)فقہ حنفی کے معتبر ائمہ میں سے ہیں۔ وہ امام طحاوی کےہم عصر ہیں اورامام طحاوی کے شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیاتھا۔امام کرخی کے شاگردوں میں بڑے با کمال اور نامورفقہاء ہوئے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ نہایت زاہد وعابد بھی تھے ۔کئی مرتبہ کو ان کے علمی مرتبہ ومقام کی وجہ سے عہدہ قضاپیش کیاگیا لیکن انہوں نے باوجود تنگدستی کے انکار کردیا۔صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شاگردوں میں سے جوبھی فرد قضاء کا عہدہ قبول کرتاتھا۔ اس سے تعلقات ترک کردیتے تھے۔
آخرعمر میں جب فالج کا حملہ ہواتوان کے شاگردوں نے یہ سوچ کرکہ اس بیماری کے علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے۔سیف الدولہ ابن حمدان کو خط لکھ کر ان کے حال کے تعلق سے واقف کرایا۔سیف الدولہ نے ان کیلئے دس ہزاردرہم بھیجا۔ان کو اس سے قبل پتہ چل چکاتھاکہ میرے شاگردوں نے ایساکیاہے۔انہوں نے بارگاہ الہی میں دعاکیاکہ اے اللہ اس رقم کے مجھ تک پہنچنے سے پہلے تومجھ کو اپنے پاس بلالے۔ایساہی ہوا۔سیف الدولہ کی رقم پہنچنے سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

اصول فقہ میں انہوں نے مختصر طورپرایک کتاب لکھی ہے ۔اوراس کو اصول فقہ کیوں کہئے اس کے بجائے مناسب ہے کہ اس کوقواعدفقہ کی کتاب کہئے ۔جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔

اس میں انہوں نے ایک دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہرایسالگتاہے کہ قراان وحدیث پر ائمہ کے اقوال کو ترجیح دی جارہی ہے لیکن درحقیقت ایسانہیں ہے اورجومطلب ہے وہ پوری طرح قابل قبول اورعقل وفہم میں آنے والا اورقرآن حوحدیث کے سے کسی بھی طرح متصادم نہیں ہے۔ اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیر کچھ لوگ فوراتبراشروع کردیتے ہیں اورصرف امام ابوالحسن الکرخی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے بلکہ پورے جمعیت احناف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اورس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراطعن وتشنیع شروع کردینا۔

امام ابوالحسن الکرخی اصول میں لکھتے ہیں۔
ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔

ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق،وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)

(ترجمہ )ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی،یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی۔

یہی وہ عبارت ہے جس کی حقیقت سمجھے بغیر لوگ اناپ شناپ کہتے رہتے ہیں اوراس میں پیش پیش وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا علم اردو کی کتابوں اورچند عربی کتابوں کے اردو ترجمہ کی حدتک محدود ہے ۔اپنے معمولی علم وفہم کو کام میں لاکر کنویں کے مینڈک کی طرح وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جوکچھ میں نے سمجھاہے وہی حرف آخر ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسرانقطہ نظر قابل قبول ہی نہیں ہے۔

امام کرخی کے قول کا مطلب کیاہے اس کا جواب کئی اعتبار سے دیاجاسکتاہے۔

1:کسی بھی قول کابہتر مطلب قائل یاقائل کے شاگردوں کی زبانی سمجھنابہتر ہوتاہے کیونکہ وہ قائل کے مراد اورمنشاء سے دوسروں کی بنسبت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بات کہی گئی ہے یالکھی گئی ہے اس میں کیامطلق اورکیامقید ہے کون سی بات ہے جو بظاہر تومطلق ہے لیکن وہ درحقیقت وہ مقید ہے۔اوراسی وجہ سے محدث الھند شاہ ولی اللہ دہلوی نے ائمہ اربعہ کی ہی اتباع اورپیروی کوواجب کہا ہے اوردیگر مجہتد ین کی پیروی سے منع کیاہے۔(دیکھئے عقد الجید)

امام کرخی کے شاگردوں کے شاگرد ابوحفص عمر بن محمد النسفی ہیں جو اپنے علمی تبحر کیلئے مشہور ہیں اور ان کی کتابیں فقہ حنفی کا بڑا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ان کا انتقال 537ہجری میں ہوا۔انہوں نے اصول کرخی کے اصولوں کی تشریح کی ہے وہ کیاکہتے ہیں۔اسے بھی دیکھیں۔ وہ پہلے اصول ان کل آیتہ کی تشریح اور مثال میں لکھتے ہیں۔

قال(النسفی)من مسائلہ ان من تحری عندالاشتباہ واستدبرالکعبۃ جاز عندنالان تاویل قولہ تعالیٰ فولوا وجوھکم شطرہ اذاعلمتم بہ ،والی حیث وقع تحریکم عندالاشتباہ،اویحمل علی النسخ،کقولہ تعالیٰ ولرسولہ ولذی القربی فی الآیۃ ثبوت سھم ذوی القربی فی الغنیمۃ ونحن نقول انتسخ ذلک باجماع الصحابہ رضی اللہ عنہ او علی الترجیح کقولہ تعالیٰ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا ظاہریقتضی ان الحامل المتوفی عنھازوجھا لاتنقضی عدتھا بوضع الحمل قبل مضی اربعۃ اشھر وعشرۃ ایام لان الآیۃ عامۃ فی کل متوفی عنھازوجھا حاملااوغیرھا وقولہ تعالیٰ اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن یقتضی انقضاء العدۃ بوضع الحمل قبل مضی الاشھر لانھاعامۃ فی المتوفی عنھازوجھا وغیرھا لکنارجحناھذہ الآیۃ بقول ابن عباس رضی اللہ عنھما انھانزلت بعد نزول تلک الآیۃ فنسختھا وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع بین الاجلین احتیاطا لاشتباہ التاریخ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)

ان کل آیتہ تخالف قول اصحابناالخ کی شرح میں وہ لکھتے ہیں۔اس کے مسائل میں سے یہ ہے کہ جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اوروہ غوروفکر کے بعد ایک سمت اختیار کرلے توہمارے نزدیک اس کی نماز جائز ہے (اگر چہ اس نے قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہو)کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قول کی تاویل فولواوجوھکم شطرہ کی یہ ہے کہ جب تم اس کے بارے میں واقف رہو،اوراشتباہ کی صورت میں غوروفکر کے بعد جو سمت اختیار کرو،یاوہ نسخ پر محمول ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ولرسولہ ولذی القربی الخ آیت میں رشتہ داروں کیلئے بھی غنیمت کے مال میں حصہ کا ثبوت ہے اورہم کہتے ہیں کہ یہ صحابہ کرام کے اجماع سے منسوخ ہے ۔ترجیح پر محمول کرنے کی صورت یہ ہے کہ آیت پاک والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا کا ظاہری تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کاشوہر مرجائے تو اس کی عدت وضع حمل سے نہیں ہوگی بلکہ اس کو چارماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے کیونکہ آیت ہرایک عورت کے بارے میں عام ہے خواہ و ہ حاملہ ہو یاغیرحاملہ ہو،اللہ تبارک وتعالیٰ کا دوسراارشاد ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہو اس کا تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کے وضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجائے گی خواہ چارماہ دس دن پورے نہ ہوئے ہوں۔یہ آیت عام خواہ حاملہ عورت کا شوہر مراہو یانہ مراہو۔لیکن اس آیت کو ہم نے اس لئے ترجیح دی کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول موجود ہے کہ یہ آیت پہلی آٰت والذین یتوفون منکم کے بعد نازل ہوئی ہے۔اس سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں قول میں جمع کی صورت اختیار کی ہے احتیاط کی بناء پر۔

قال من ذلک ان الشافعی یقول بجواز اداء سنۃ الفجر بعد اداء فرض الفجر قبل طلوع الشمس لماروی عن عیسی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلی رکعتین بعد الفجر فقال ماھما فقلت رکعتاالفجر کنت الم ارکعھما فسکت قلت ھذا منسوخ بماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لاصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولابعد العصر حتی تغرب الشمس والمعارضۃ فکحدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کان یقنت فی الفجر حتی فارق الدنیا فھو معارض بروایۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھراثم ترکہ فاذا تعارضا روایتاہ تساقطافبقی لنا حدیث ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھرین یدعو علی احیاء العرب ثم ترکہ واماالتاویل فھو ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان اذارفع راستہ من الرکوع قال سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وھذا دلالۃ الجمع بین الذکرین من الامام وغیرہ ثم روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اذاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ قولوا ربنالک الحمد والقسمۃ تقطع الشرکۃ فیوفق بینھما فنقول الجمع للمنفرد والافراد للامام والمتقدی وعن ابی حنیفۃ انہ یقول الجمع للمتنفل والافراد للمفترض(المصدرالسابق)

اس کی شرح یہ ہے کہ امام شافعی طلوع شمس سے پہلے فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کو جائز قراردیتے ہیں ان کی دلیل حضرت حضرت عیسی سے منقول وہ حدیث ہے کہ رسول پاک نے مجھ کو فجر کے بعد دورکعت پڑھتے دیکھا انہوں نے پوچھایہ تم کیاپڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ فجر کی دو سنت رکعتیں جس کو میں نہیں پڑھ سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کو سکوت اختیار کیا۔ میں کہتاہوں کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے منسوخ ہے کہ فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج طلوع ہوجائے اورعصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج غروب ہوجائے ۔
معارضہ کی صورت یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ کی حدیث ہے کہ آپ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے اوراسی معمول پر دنیا سے رخصت ہوجائے ۔یہ حدیث حضرت انس کے دوسری حدیث کے معارض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھاپھر اس کوچھوڑ دیا۔یہ دونوں روایت ایک دوسرے کے معارض ہونے کی بناء پر ساقط ہوگئیں ہم نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث پر عمل کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومہینہ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جس میں عرب کے قبیلوں کیلئے بددعا کی گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیا۔
اورتاویل کی صورت یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منقول ہے کہ آپ جب رکوع سے اپناسراٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد کہتے تھے ۔یہ دونوں ذکر کوجمع کرنے کی دلیل ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناالک الحمد کہاکرو تقسم شرکت کے منافی ہے۔توان دونوں حدیث میں تطبیق اس تاویل کے ذریعہ دی جائے گی کہ دونوں ذکر سمع اللہ لمن حمدہ اورربنالک الحمد کہنے کی صورت منفرد کیلئے ہے اورتقسیم اس صورت میں ہے جب باجماعت نماز ہورہی ہو ۔امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جمع نفل نماز پرھنے والے کیلئے ہے اورافراد فرض نماز پڑھنے والے کیلئے ہے۔

امام کرخی کے قاعدے کی امام نسفی کی وضاحت کی روشنی میں اتنی بات واضح ہوگئی ہے کہ
1: اس قول کا ظاہری مطلب مراد نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہ کا قول کافی ہوگا۔

2:یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخی کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے ۔

3: ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔

میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کسی بھی صحیح الدماغ شخص کو تامل نہ ہوگا۔

2: امام کرخی کی یہ بات کہ ائمہ احناف نے اگرآیت یاحدیث کو چھوڑاہے تواس لئے کہ یاتو وہ ان کی رائے میں منسوخ ہے،یااس کے معارض کوئی دوسری حدیث ہے یاپھروہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں ہے۔

امام کرخی کی بات کاجومنشاء اورمقصد ہے وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اوریہی بات ہردور میں علماء اعلام نے ائمہ کرام کی جانب سے کہی ہیں۔چاہے وہ ابن تیمیہ ہوں یاپھر حضرت شاہ ولی اللہ ۔

امام ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی ہے رفع الملام عن ائمۃ الاعلام ۔اس میں وہ ائمہ کرام کے کسی حدیث یانص قرانی کی مخالفت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

الأسباب التي دعت العلماء إلى مخالفة بعض النصوص،وجميع الأعذار ثلاثة أصناف: أحدها: عدم اعتقاده أن النبي صلى الله عليه وسلم قاله. والثاني: عدم اعتقاده إرادة تلك المسألة ذلك القول. والثالث: اعتقاده أن ذلك الحكم منسوخ. وهذه الأصناف الثلاثة تتفرع إلى أسباب متعددة.(رفع الملام عن ائمۃ الاعلام12)

وہ اسباب جس کی وجہ سے علماء نے بعض نصوص کی مخالفت کی وہ تمام اعذار تین قسم کے ہیں۔ ایک تویہ کہ ان کویقین نہ ہو کہ رسول پاک نے ایساکہاہوگا ۔دوسرے یہ کہ ان کا یقین نہ ہو کہ رسول پاک نے اس قول سے وہی بات مراد لی ہوگی ۔تیسرے ان کا یقین کہ وہ حکم منسوخ ہے ۔

اس کے بعد ابن تیمیہ نے ان تینوں اعذار کی شرح کی ہے اور شرح میں وہ لکھتے ہیں۔
السبب التاسع: اعتقاده أن الحديث معارض بما يدل على ضعفه، أو نسخه، أو تأويله إن كان قابلا للتأويل بما يصلح أن يكون معارضا بالاتفاق مثل آية أو حديث آخر أو مثل إجماع ۔(المصدرالسابق ص30)

اس پیراگراف کو غورسے پڑھئے اوردیکھئے کہ امام کرخی کے بیان میں اورامام ابن تیمیہ کے بیان میں کس درجہ مطابقت ہے۔امام کرخی کی بات اورابن تیمیہ کی بات میں بہت کم فرق ہے اوراگرکچھ فرق ہے توصرف اسلوب اورطرزاداء کا ۔امام کرخی کا اسلوب بیان منفی ہے یعنی ہروہ آیت یاحدیث جوہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہو ،جب کہ ابن تیمیہ کا بیان مثبت ہے یعنی اگرکسی امام نے کسی حدیث پر عمل ترک کیاہے تواس کی وجہ اس کا منسوخ ہونا،کسی دوسرے حدیث کے معارض ہونا وغیرہ ہے۔ اسلوب بیان کے فرق کے علاوہ گہرائی اورگیرائی سے دیکھیں اورپرکھیں تو دونوں میں کوئی فرق نہیں ملے گا۔

23: امام کرخی کے بیان کردہ قاعدہ کاایک اور مطلب ہے۔

امام کرخی نے اپنے بیان میں "ہمارے اصحاب"کا ذکر کیا ہے۔امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کانام خاص طورپر نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے یانادرالوقوع ہے کہ ائمہ امام ابوحنیفہ،امام ابویوسف،امام محمد،امام زفراوراسی طرح ائمہ متقدمین میں سے اورکچھ لوگ تمام کے تمام کسی ایسے قول کے قائل ہوں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو ۔ایسانہیں ہوسکتابلکہ عموماایساہواہے کہ ائمہ احناف کے درمیان مختلف مسائل میں اختلاف رہاہے اوربعض کے ائمہ ترجیح نے دلائل کی بنیاد پر ایک قول کو دوسرے قول پر ترجیح دی ہے ۔ وقف کے مسئلہ میں صاحبین نے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے۔ قرات خلف الامام کے مسئلہ میں امام محمد امام مالک اورامام احمد بن حنبل کی رائے کے قائل ہیں کہ جہری نمازوں میں نہ پڑھی جائے اور سری نمازوں میں پڑھی جائے ۔

اب اگرایسے میں تمام ائمہ احناف نے کسی آیت پر عمل نہ کیاہویاکسی حدیث کو ترک کردیاہوتواس کی وجہ ہوسکتی ہے جوامام کرخی بیان کرچکے ہیں۔ میراخیال ہے کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے بشرطیکہ انسان سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرے اوردل کو ائمہ احناف کی طرف سے عناد اورتعصب کی جذبات سے پاک کرلے۔کسی کے عناد اورتعصب سے ان کا توکچھ بگڑنے والانہیں ہے انشاء اللہ لیکن یہ یہ غریب خسرالدنیاوالآخرۃ کا مصداق ضرور ہوگا۔

امام کرخی کے قاعدہ کے اس مطلب کے قریب قریب بات حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی بیان کیاہے چنانچہ و ہ فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں۔
عرضنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذہب الحنفی طریقۃ انیقۃ ھی اوفق الطرق بالسنۃ المعروفۃ التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری واصحابہ ،وذلک ان یوخذمن اقوال الثلاثۃ قول اقبلھم بھا فی المسئلۃ ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقہاء الحنفین الذی علماء الحدیث(فیوض الحرمین64)

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کوبتایاکہ مذہب حنفی میں ایک ایسابہترین طریقہ وپہلو ہے کہ جوتمام طرق میں سب سے زیادہ ان احادیث کے موافق ہے جن کی تدوین وتنقیح امام بخاری اوران کے اصحاب کے دور میں ہوئی۔
اور وہ طریقہ یہ ہے کہ علماء ثلاثہ (یعنی اما م صاحب اورصاحبین) کے اقوال میں سے جس کا قول حدیث کے معنی سے زیادہ قریب ہو اسے اختیار کیاجائے۔پھراس کے بعد ان حنفی فقہاء کے اختیارات پر عمل کیاجائے جو محدث بھی تھے۔

ایک دوسری جگہ حضرت شاہ ولی اللہ اسی کتاب فیوض الحرمین(ص63) میں لکھتے ہیں۔

"پھر فقہ حنفی کے ساتھ احادیث کو تطبیق دینے کا ایک نمونہ وصورت مجھ پر منکشف کیاگیا اوربتایاگیاکہ علماء ثلاثہ(امام ابوحنیفہ وصاحبین)میں سے کسی ایک کے قول کو لے لیاجائے ،ان کے عام اقوال کو خاص قراردیاجائے،ان کے مقاصد سے واقف ہواجائے۔اوربغیرزیادہ تاویل سے کام لئے احادیث کے ظاہری الفاظ کا جومطلب سمجھ میں آتاہو اس پر اکتفاء کیاجائے ۔نہ تو احادیث کو ایک دوسرے سے ٹکرایاجائے،اورنہ ہی کسی حدیث صحیح کو امت کے کسی فرد کے قول کے پیش نظرترک کیاجائے"۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں مقام پر حضرت شاہ ولی اللہ ائمہ ثلاثہ کا ہی ذکر کرتے ہیں کہ ان کے اقوال سے باہر نہ نکلاجائے ۔بالواسطہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ میں سے تینوں کسی ایسے قول پرمتفق ہوجائیں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو ایسانہیں ہوسکتابلکہ ان میں سے کسی ایک کا قول قرآن وحدیث کی تائید سے متصف ہوگا۔

اگرخدا نے عقل وذہن کی دولت بخشی ہے توامام کرخی کے قول پرغورکریں ۔وہ بھی بالواسطہ طورپر یہی کہہ رہے ہیں لیکن ان کے طرز تعبیر نے ان کو ملامت کا نشانہ بنادیاہے۔

4: کبھی ایساہوتاہے اوربہت ہواہے کہ بات صحیح ہوتی ہے لیکن 47غلط طرز تعبیر سے بات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے اسی جگہ اگر طرز اورتعبیر کو درست کردیاجائے تووہی بات درست اورصحیح لگنے لگے گی۔

بات گرچہ بے سلیقہ ہوکلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے

حضرت معاویہ کے گورنر ابن غیلان نے ایک مرتبہ کسی شخص کے دوران خطبہ کنکرپھینکنے پر ہاتھ کاٹ دیاتھا۔ کچھ لوگوں نے ابن غیلان سے لکھوایاکہ تم کہہ دیناکہ میں نے شبہ کی وجہ سے ہاتھ کاٹ دیاہے پھر اس تحریر کو لے جاکر حضرت معاویہ کو دیکھایااورفریادکناں ہوئے کہ ہمارے ساتھ انصاف کیجئے۔حضرت معاویہ نے اس موقع پر جوجملہ کہاہے وہ یہ ہے کہ "میں ہاتھ کی دیت بیت المال سے اداکردوں گالیکن ہمارے عمال سے قصاص لینے کی کوئی سبیل نہیں ہے"(البدایہ 71/

یہ جملہ کہ ہمارے عمال سے قصاص لینے کی کوئی سبیل نہیں ہے بہت غلط فہمی پیداکرنے والاجملہ ہے۔ اوراس کی وجہ سے مولانا مودودی نے خلافت وملوکیت میں حضرت معاویہ پر عمال اورگورنروں کو قانون سے بالاترقراردینے کا الزام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عائد کیاہے لیکن دیکھئے:

مسئلہ کی صحیح صورت حال یہ ہے کہ اگرشبہ کی وجہ سے حاکم کسی شخص پر کوئی حد جاری کردے تو پھر اس حاکم سے قصاص نہیں لیاجاسکتا۔ لیکن اس کے بغیر اگرکوئی حاکم کوئی جرم کرتاہے توپھراس پر سزا کا نفاذ لازمی طورپر ہوگا۔

اب اگراس جملے کو اس تشریح کے ساتھ پڑھیں توحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس لفظ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ احناف نے بسااوقات ایساموہم طرز اپنی کتابوں میں اختیار کیاہے جس سے کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی اورکچھ لوگ جوپہلے سے جلے بھنے بیٹھے تھے انہوں نے اپنی روٹیاں سینکنے کا اسے اچھاموقع شمار کیا۔

مثلا احناف کاایک اصول ہے کہ کوئی آیت جب عام ہو تواس کی خبرواحد سے تخصیص نہیں ہوسکتی ۔ اس موقع پر احناف نے ایساطرز اسلوب اختیار کیاہے جس سے لگتاہے کہ خبرواحد کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہےکہ احناف کاکہناہے کہ قرآن کی آیت جب عام ہو توخبر واحد سے تخیص درجہ فرض میں نہیں ہوسکتی درجہ وجوب میں ہوسکتی ہے۔ اس کی وضاحت علامہ انورشاہ کشمیری نے فیض الباری کے مقدمہ میں کیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

ان النص اذا جاء ساکتا عن شیء وجاء الخبر یثبتہ فھل تجوز تلک الزیادۃ وتزاد بہ علی القاطع ،فماذکرہ ساداتناالعظام رحمھہم اللہ تعالیٰ انہا لاتجوز لانہافی معنی النسخ وھولایجوز من خبرالواحد ومن اجل تلک المقالٰۃ شنع علیھم بعض المحدثین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فانہم فہمواان امامنا الھمام لایبالی بخبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مبالاۃ ولایہم بالاعمال ھما وھذاکماتری یبنی علی صورۃ التعبر فقط ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فلذا غیرت عنوانہم من السلب الی الایجاب وکم من مواضع فعلت فیمامثل صنیعی،فی ھذاالمقام غیرت العنوان وبقیت المسالۃ علی حالھا فانی اجد کثیرا من اعتراضاتھم علینا من ھذاالقبیل فاذا غیرالعنوان اندفعت وطاحت وھذاکماقیل :والحق قد یعتریہ سوء تعبیر،وبعض الاعتراضات تبنی علی سوء الفہم وفرط التعصب،وھذاایضا من باب:
کم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم
فاقول مغیراکلامہم ان خبرالواحد تجوز منہ الزیادۃ لکن فی مرتبہ النقل فلایزاد بہ علی القاطع رکنا اوشرطا فماثبت من القاطع یکون رکنااوشرطاًوماثبت من الخبر یکون واجبا اورمستحبا حسب اقتضاء المقام ولیس ھذا من باب التغیرفی المسالۃ بل من باب التصرف فی التعبیر،فان الزیادۃ عندھم فی مرتبۃ الرکنیۃ والشرطیۃ ھی التی تسمی زیادۃ اصطلاحا وامامافی مرتبۃ الوجوب والاستحباب ،فلایسمونھازیادۃ فحینئذ معنی قولھم لاتجوزالزیادۃ ای فی مرتبۃ الرکنیۃ والشرطیہ ۔

جب نص کسی کسی مسالہ سے خاموش ہو اورخبرواحد اس کا اثبات کررہاہوتوکیااس خبرواحد کے ذریعہ نص پر اضافہ معتبر ہوگا۔اوراس کے ذریعہ نص قطعی پراضافہ کیاجاسکے گا۔ ہمارے فقہاء نے ذکر کیاہے کہ خبرواحد کے ذریعہ نص پر اضافہ کرنا درست نہیں ہوگا۔کیونکہ وہ نسخ کے معنی میں ہوجائے گا اوریہ خبرواحد کے ذریعہ جائز نہیں ہے اوراسی بات کی وجہ سے بعض محدثین نے احناف پر تشنیع کی ہے۔ان لوگوں نے یہ سمجھاکہ ہمارے امام صاحب رسول پاک کے فرمودات کو اہمیت نہیں دیتے اورنہ ہی اعمال کو ایمان کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔اورجیساکہ آپ جانتے ہیں یہ کہ سب اسلوب بیان اورتعبیر کی وجہ سے ہواہے۔اسی لئے میں نے اس عنوان کو منفی سے مثبت کردیاہے اوردیگر مقامات پر بھی یہاں کاہی عمل دوہرایاہے۔اس مقام پر میں نے صرف عنوان بدلاہے۔نفس مسئلہ سے کوئی تعرض نہیں کیاہے وہ اپنی جگہ پر برقرار ہے۔میں نے پایاہے کہ ہم پر محدثین کے بہت سارے اعتراضات اسی قبیل سے ہیں۔لہذا جب تعبیر بدل دی جائے توان کے تمام اعتراضات ختم ہوجاتے ہیں اورہوامیں اڑجاتے ہیں۔اورویساہی ہے جیساکہ کہاگیاہے۔کبھی کبھار بری تعبیر کی وجہ سے حق بات بری معلوم ہونے لگتی ہے۔ہاں بعض اعتراضات محدثین کے یااحناف پر اعتراض کرنے والوں کے سوء فہم اورتعصب کی وجہ سے ہیں ۔

تومیں ان کی بات کو بدل کر کہتاہوں کہ خبرواحد سے اضافہ درست ہے لیکن گمان کے مرتبہ میں۔ تواب خبرواحد کے ذریعہ نص قطعی پر کسی رکن اورشرط کا اضافہ نہیں کیاجاسکتا جومسئلہ یاجوبات نص قطعی سے ثابت ہوگی تو وہ رکن اورشرط کے درجہ میں ہوگی اورجوچیز خبرواحد سے ثابت ہوگیاتو وہ تقاضائے کلام کے مطابق واجب یامستحب ہوگی۔ میری یہ بات مسئلہ میں ردوبدل نہیں ہے بلکہ صرف تعبیر میں فرق ہے۔ فقہاء احناف کے نزدیک اضافہ اس کو کہتے ہیں جو کہ رکن اورشرط کے درجہ میں ہواس سے کمتر درجہ میں(وجوب یااستحباب) اگرکوئی اضافہ ہورہاہے تووہ اس کو اصطلاحی طورپر اضافہ نہیں مانتے ۔تواب ان کے قول کا مطلب کہ خبرواحد کے ذریعہ نص پر اضافہ درست نہیں ہے یہ ہوا کہ رکنیت اورشرط کے مرتبہ میں اضافہ درست نہں ہے۔

اب ہم اسی طرز پر کہتے ہیں کہ حضرت امام کرخی کی بات کو آپ منفی سے مثبت کردیجئے
""ہمارے اصحاب نے اگرکسی آیت پرعمل کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتووہ آیت منسوخ ہوگی یاپھراس کے ظاہری طورپر معارض دوسری آیت پر عمل کیاگیاہوگااوراس کیلئے ان کے پاس وجہ ترجیح ہوگی بہتریہ ہے کہ دونوں آیتوں میں تطبیق کی صورت اختیار کی جائے۔
ہروہ حدیث جس پر ہمارے اصحاب نے عمل نہیں کیایااس کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتو وہ حدیث منسوخ ہوگی یااس کے معارض دوسری حدیث پر انہوں نے عمل کیاہوگاجس کے ترجیح کے دلائل ان کے پاس ہوں گے یاپھر دونوں حدیث میں تاویل کرکے تطبیق اورتوفیق کی صورت پیداکیاجائے""۔

اب دیکھئے کیااس بیان میں کوئی غلط بات ہے۔ کوئی ایسی بات جس پر کسی بھی گوشہ سے اعتراض کی زد پڑتی ہو حالانکہ نفس مسئلہ میں کوئی تغیرنہیں کیاگیاہے صرف تعبیر اوراسلوب بیان بدل دیاگیاہے۔

یہاں تک توبات یہ تھی کہ امام کرخی کے قول کا مطلب کیاہے اوراس کو پوری وضاحت سے بیان بھی کردیاگیاہے اب جوغلط فہمی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں توانشاء اللہ ان کی غلط فہمیوں کا جواب ہوگیاہے۔اورجن کے اعتراض تعصب اورعناد کی پیداوار ہیں تواس کا کوئی جواب نہیں ہے

5: اگرکسی کو یہ خیال ہو کہ اس تمام قیل وقال کے باوجود ان کی بات غلط اورنادرست ہے توبھی ایسانہیں ہے کہ امام کرخی پر تبراپڑھنا ضروری ہو ۔

بسااوقات ایساہوتاہے کہ انسان جوش عقیدت میں یاکسی خاص لمحے میں کچھ ایسی باتیں کہہ گزرتاہے جو شرعاخلاف ہوتی ہیں لیکن جاننے والے اس کے عذر کو سمجھ لیتے ہیں اورصاحب مقولہ پر طعن وتشنیع نہیں کرتے ۔اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

امام ابن معین کوفی ہیں اورانہیں امام وکیع سے انتہائی عقیدت ہے۔ عقیدت کے جوش میں وہ یہاں تک کہہ گئے

عباس وابن أبي خيثمة ، سمعا يحيى يقول : من فضل عبد الرحمن بن مهدي على وكيع ، فعليه لعنة الله والملامكة والناس أجمعين .
(سیراعلام النبلاء،ترجمہ وکیع بن الجراح)

جوکوئی عبدالرحمن مہدی کو وکیع پر ترجیح دے اس پر اللہ ،فرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہو۔

حالانکہ ظاہر ہے کہ امام وکیع کی فضیلت پر نہ کوئی حدیث موجود ہے اورنہ کوئی آیت اورنہ ہی مسلمانوں کا اجماع لیکن جوش عقیدت میں حضرت یحیی بن معین ایسی بات کہہ گئے۔

قال أبو يحيى الناقد : كنا عند إبراهيم بن عرعرة ، فذكروا يعلى بن عاصم ، فقال رجل : أحمد بن حنبل يضعفه . فقال رجل : وما يضره إذا كان ثقة ؟ فقال ابن عرعرة : والله لو تكلم أحمد في علقمة والأسود لضرهما .(سیر اعلام النبلاء،ترجمہ احمد بن حنبل)

ابویحیی الناقد کہتے ہیں کہ ہم ابراہیم بن عرعرۃ کے پاس تھے انہوں نے یعلی بن عاصم کا ذکر کیاتوایک شخص نے کہاکہ ان کو امام احمد بن حنبل نے ضعیف قراردیاہے۔تودوسرے شخص نے کہاکہ اس سے اس کو کیانقصان ہوسکتاہے جب کہ وہ ثقہ ہو ۔اس پر ابن عرعرہ نے کہاکہ خدا کی قسم اگر احمد علقمہ اوراسود کے بارے میں بھی کلام کرتے توان دونوں کو نقصان پہنچتا۔

حالانکہ سبھی کومعلوم ہے کہ حضرت علقمہ اورحضرت اسود کس پائے کے شخص ہیں۔ اگران پر حضرت امام احمد بن حنبل کلام کرتے تووہ تو مجروح نہ ہوتے البتہ خود ان پر دھبہ اورعیب لگتاجیساکہ حافظ ذہبی نے الرواۃ الثقات المتکلم فیہ میں حضرت ابن معین کے امام شافعی پر جرح کرنے پر لکھاہے کہ اس سے وہ تومجروح نہ ہوئے بلکہ خود ابن معین کو عیب اوردھبہ لگاہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ابن عرعرہ حضرت امام احمد بن حنبل کی تعریف میں ایک نامناسب مبالغہ کررہے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ابن عرعرہ پر تنقید یاانکو لعن طعن کرنا مناسب نہیں بلکہ صرف اتناہوناچاہئے کہ غلطی واضح کردی جائے۔

محمد بن يحيى النيسابوري ، حين بلغه وفاة أحمد ، يقول : ينبغي لكل أهل دار ببغداد أن يقيموا عليه النياحة في دورهم . (المصدرالسابق).

جب محمد بن یحیی نیشاپوری کو حضرت امام احمد بن حنبل کے وفات کی خبرملی تو کہاکہ ہربغدادی کو چاہئے کہ وہ ان پر نوحہ کرے ۔
سبھی کومعلوم ہے کہ روناپیٹنا اورنوحہ کرنا اسلام میں غیرشرعی فعل ہے جس سے شریعت نے منع کیاہے اس کے باوجود ایک عظیم القدر محدث امام احمد کے انتقال پر لوگوں کو نوحہ کرنے کا حکم دے رہاہے۔ کیاجن لوگوں نے امام کرخی پر سخت اورکڑے لفظوں میں تنقید کی ہے کبھی اس کاآدھابھی محمد بن یحیی النیشاپوری کی اس غیرشرعی بات پرتنقید کی ہے؟

وقال آخر : نظرة عندنا من أحمد تعدل عبادة سنة .

ایک شخص نے کہاکہ ہمارے نزدیک امام احمد کی طرف ایک نگاہ دیکھنا ایک سال کی عبادت کے برابر ہے۔
قلت : هذا غلوٌ لا ينبغي؛ لكن الباعث له حب ولي الله في الله .میں(ذہبی)کہتاہوں کہ یہ نامناسب غلو ہے لیکن اس کاباعث اللہ کے ولی کی محبت ہے۔(المصدرالسابق)

قال أبو عبيد الآجري : سمعت أبا داود يقول : قال أحمد بن سنان : سمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول : لو كان لي عليه سلطان -على من يقرأ قراءة حمزة- لأوجعت ظهره وبطنه . (سیر اعلام النبلاء ترجمہ عبدالرحمن بن مہدی)

عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ اگرمجھ کو اقتدار ہوتا توجوشخص بھی حمزہ کی قرات پر قرآن پاک پڑھتاہے اس کی پٹائی کرتا۔

آج امت مسلمہ کا بڑا طبقہ بلکہ اگراس کو 95فیصد بھی کہاجائے تومبالغہ نہ ہوگاکہ وہ حمزہ کی قرات پر ہی قران پاک کی تلاوت کرتے ہیں اوراسی کو اللہ پاک نے قبول عام بخشاہے اس کے باوجود آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ابن مہدی حمزہ کی قرات کے سلسلہ میں کتناسخت رویہ اپناتے ہیں۔

ان تمام میں دیکھ سکتے ہیں کہ محبت یا نفرت میں کچھ ایسے اقوال ہیں جو حدود سے متجاوز ہیں لیکن کیااس کی وجہ سے اب ہم اب معین، عبدالرحمن بن مہدی، ابن عرعرہ اوراسی قسم کے دوسرے لوگوں پر طعن وتشنیع شروع کردیں جو کچھ نام نہاد اہل علم نے امام کرخی پر کررکھاہے۔یاان اقوال اوران کے قائلین کی بہترتاویل کی جائے جس سے کسی پر زد نہ پڑے۔ کچھ لوگوں پر افسوس ہے کہ وہ محدثین کی باتوں کی توتاویل کرلیتے ہیں لیکن جوں ہی بات کسی حنفی عالم کی آتی ہے تاویل کرنا گویا ناجائز اورحرام ہوجاتاہے۔

6:اجتہادی غلطی:یہ معلوم ہے کہ بات اصول فقہ کی ہو، نفس فقہ کی ہو یاپھرحدیث کی صحت وعدم صحت کی ہو اورروایوں پر جرح وتعدیل اورکلام کی ہو غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ کیاہمارایہ رویہ درست ہوگاکہ ہم بقیہ تمام کیلئے تواجتہادی غلطی کے عذر کو قبول کریں لیکن بات جوں ہی امام کرخی کی آئے اجتہادی غلطی کاعذر ناقابل سماعت ہوجائے۔

جہاں ہم ان سارے علماء کے اقوال کو ان کے فقہی اجتہاد کی غلطی سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں اورزبان طعن دراز نہیں کرتے کیاہم یہی سلوک اور رویہ امام کرخی کے ساتھ روانہیں رکھ سکتے۔آخر ابن حزم کے موسیقی کے جواز کو بھی توہم اسی میں شامل کرتے ہیں۔ البانی کے چہرہ کو پردہ میں شامل نہ کرنے عورتوں پر بھی سونا کو حرام سمجھنے کوبھی تواسی میں شامل سمجھتے ہیں۔ اوران کیلئے لمبے چوڑے مضامین لکھ کریہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ یہ ان کی اجتہادی غلطی ہے اس لئے اس سے صرف نظرکرناچاہئے لیکن بات جب امام کرخی کے اس اصول کی آتی ہے تواس کو اجتہادی غلطی تک ماننے میں دشواری ہونے لگتی ہے کیونکہ پھربقیہ احناف کو مورد طعن ٹھہرانے کا ایک اچھاموقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔

7: ہرمسلک اورمذہب میں ایساہواہے کہ بعض علماء اپنے شاذ نظریات رکھتے ہیں۔اس کی وجہ سے پورے مسلک والوں کو مطعون کرنا کسی بھی عقل مند کے نزدیک درست نہیں ہے۔بالخصوص جب کہ دیگرفقہاء نے اس کی تائید نہ کی ہو،ایسے میں اصول یہ ہے کہ جس کی غلطی ہے بات اسی حد تک محدود رکھی جائے اس کو دوسروں تک متجاوز نہ کیاجائے ۔لیکن یہ طرفہ تماشاہے کہ امام کرخی کے نام پر پورے احناف کو پورے زوروشور کے ساتھ اورزبان کی پوری طاقت کے ساتھ لعن طعن کا نشانہ بنایاجاتاہے ۔

لیکن اگراس کی جگہ نام نہاد اہل حدیث حضرات کے تفردات پر ان کی گرفت کرتے ہیں توفوراًیہ ارشاد ہوتاہے کہ وہ ان کا اپنااجتہاد تھاہم اس سے متفق نہیں ہیں۔ لیکن یہی بات ان کو امام کرخی سے گزرکر تمام احناف کو موردن طعن ٹھہراتے وقت یاد نہیں رہتاہے کہ وہ ایک عالم دین کی اپنی ذاتی رائے تھی۔
اگر اہل حدیث حضرات چاہیں توہم ان کے علماء کے تفردات پر بھی ایک دوسرامضمون سپرد قلم کرسکتے ہیں۔

یہ واضح رہے کہ امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔امام بزدوی کی اصول البزدوی ہو،یاپھر جصاص رازی کی الفصول فی اصول الفقہ ہویاپھر امام سرخسی کی اصول السرخی ہو یاپھر امام سمرقندی کی میزان الااصول فی نتائج العقول فی اصول الفقہ ہو،ابن ہمام کی التحریر ہو ،ملامحب اللہ بہاری کی سلم ہویاپھراس کی شرح مسلم الثبوت ہوپھراصول شاشی ہویاپھرنورالانوار ۔کسی بھی فقہ حنفی کی کتاب میں امام کرخی کے اس اصول کا ذکر نہیں ملے گا۔

جب کسی بھی بعد کے حنفی فقیہہ نے اپنی کتابوں میں اس اصول کو ذکر نہیں کیااس کے بعد حنفیوں کو مورد الزام وطعن ٹھہراناکس درجہ دیدہ دلیری اورآنکھوں کاپانی مرنے کی بات ہے وہ صرف قیاس کیاجاسکتاہے۔

میراخیال ہے کہ یہ تمام مضمون اس بات کیلئے کافی ہوگاکہ امام کرخی کی بات کا صحیح مطلب سمجھاجائے۔اللہ ہم سب کو اپنے دین پر چلنے اورعمل کرنے اورقرآن وحدیث کا صحیح فہم اور وہی فہم جو علماء امت نے سمجھاہے سمجھنے اورعمل کرنے کی توفیق دے۔ :والسلام
(ماخوذ)
 
Last edited:

محمد یوسف

وفقہ اللہ
رکن
نہیں بھائی یہ میری تحریر نہیں ہے ایک جگہ اس کو مضمون پوسٹ کرنا تھا تو اس کو یہاں ڈال کر اس کا لنک وہاں دے دیا تھا تا کہ الغزالی کا بھی تعارف ہوجائے ہمارے ساتھیوں کو ۔۔وہ فورم سے ابھی نا آشنا ہیں
 
Last edited:

محمد طلحہ

وفقہ اللہ
رکن
یہ تحریر " القلم فورم " پر " ابن جمال صاحب "کی لکھی ہوئی پڑھی تھی ۔ غیر مقلدین کے شبہے کا عمدہ جواب ہے
 

شیخ بسم اللہ

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اوپر کی تحریر بغور پڑھی۔ خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی ہوا۔ خوشی اس بات کی کہ آج بھی ہم میں ایسے علماء موجود ہیں جو غلط بات کی بھی چار عدد تاویلات کر سکتے ہیں۔ اور افسوس بھی ظاہر ہے اسی بات پر ہوا۔
کیا ضروری تھا کہ اپنے ایک عالم کو بچانے کے لیے اتنی تاویلات کی جاتیں؟ اگر اس کے بجائے صراحتا کہہ دیا جاتا کہ انہوں نے یہ بات غلط کی ہے تو کیا یہ مناسب نہیں تھا۔
اللہ کا نام لے کر عرض کرتا ہوں:
امام ابوالحسن کرخی کا اصول اورغلط فہمیوں کا جواب

امام ابوالحسن الکرخی (متوفی 340)فقہ حنفی کے معتبر ائمہ میں سے ہیں۔ وہ امام طحاوی کےہم عصر ہیں اورامام طحاوی کے شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیاتھا۔امام کرخی کے شاگردوں میں بڑے با کمال اور نامورفقہاء ہوئے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ نہایت زاہد وعابد بھی تھے ۔کئی مرتبہ کو ان کے علمی مرتبہ ومقام کی وجہ سے عہدہ قضاپیش کیاگیا لیکن انہوں نے باوجود تنگدستی کے انکار کردیا۔صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شاگردوں میں سے جوبھی فرد قضاء کا عہدہ قبول کرتاتھا۔ اس سے تعلقات ترک کردیتے تھے۔
آخرعمر میں جب فالج کا حملہ ہواتوان کے شاگردوں نے یہ سوچ کرکہ اس بیماری کے علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے۔سیف الدولہ ابن حمدان کو خط لکھ کر ان کے حال کے تعلق سے واقف کرایا۔سیف الدولہ نے ان کیلئے دس ہزاردرہم بھیجا۔ان کو اس سے قبل پتہ چل چکاتھاکہ میرے شاگردوں نے ایساکیاہے۔انہوں نے بارگاہ الہی میں دعاکیاکہ اے اللہ اس رقم کے مجھ تک پہنچنے سے پہلے تومجھ کو اپنے پاس بلالے۔ایساہی ہوا۔سیف الدولہ کی رقم پہنچنے سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

اصول فقہ میں انہوں نے مختصر طورپرایک کتاب لکھی ہے ۔اوراس کو اصول فقہ کیوں کہئے اس کے بجائے مناسب ہے کہ اس کوقواعدفقہ کی کتاب کہئے ۔جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ ان کی اس کتاب کو قواعد فقہ کیوں کہا جائے؟ اصول فقہ کیوں نہ کہا جائے؟ کیا صاحب تحریر اصول فقہ اور قواعد فقہ کا فرق کسی معتبر کتاب سے بیان کر کے اس کا یہاں انطباق کر سکتے ہیں؟
ان کی کتاب کو خیر الدین زرکلیؒ (1396ھ) نے اس نام سے یاد کیا ہے: " له " رسالة في الأصول التي عليها مدار فروع الحنفية"۔ اور یہی نام ان کے اصول مطبوعہ جاوید پریس کراچی میں بھی ہے۔ نیز یہ غالبا احناف میں اصول کی پہلی کتاب ہے جو موجود ہے تو اگر ہم اصول اور قواعد میں فرق کرتے ہیں تو پھر ان کی تحریر کردہ اشیاء اصول کیوں نہیں کہلائیں گی؟
ابھی تو ہم اس پر بحث نہیں کرتے کہ جب سیف الدولہ اتنا اچھا حکمران تھا کہ اسے ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں حامل لواء الجہاد (جہاد کا جھنڈا اٹھانے والا) اور لہ وقع فی النفوس (ان کی دلوں میں عزت تھی) کے الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے تو ان کے ہدیہ کو قبول کرنے کے بجائے موت کی دعا کرنا کیا جائز تھا؟ لیکن یہ ان کا ذاتی فعل تھا اور وہ اس وقت کے حالات سے زیادہ واقف ہوں گے اس لیے ہم اس پر بات نہیں کرتے۔

جواب طویل ہے اس لیے ان شاء اللہ مختلف حصوں میں تحریر کروں گا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

شیخ بسم اللہ

وفقہ اللہ
رکن
پہلا جواب یہ دیا گیا ہے:
1:کسی بھی قول کابہتر مطلب قائل یاقائل کے شاگردوں کی زبانی سمجھنابہتر ہوتاہے کیونکہ وہ قائل کے مراد اورمنشاء سے دوسروں کی بنسبت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بات کہی گئی ہے یالکھی گئی ہے اس میں کیامطلق اورکیامقید ہے کون سی بات ہے جو بظاہر تومطلق ہے لیکن وہ درحقیقت وہ مقید ہے۔اوراسی وجہ سے محدث الھند شاہ ولی اللہ دہلوی نے ائمہ اربعہ کی ہی اتباع اورپیروی کوواجب کہا ہے اوردیگر مجہتد ین کی پیروی سے منع کیاہے۔(دیکھئے عقد الجید)

امام کرخی کے شاگردوں کے شاگرد ابوحفص عمر بن محمد النسفی ہیں جو اپنے علمی تبحر کیلئے مشہور ہیں اور ان کی کتابیں فقہ حنفی کا بڑا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ان کا انتقال 537ہجری میں ہوا۔انہوں نے اصول کرخی کے اصولوں کی تشریح کی ہے وہ کیاکہتے ہیں۔اسے بھی دیکھیں۔ وہ پہلے اصول ان کل آیتہ کی تشریح اور مثال میں لکھتے ہیں۔

قال(النسفی)من مسائلہ ان من تحری عندالاشتباہ واستدبرالکعبۃ جاز عندنالان تاویل قولہ تعالیٰ فولوا وجوھکم شطرہ اذاعلمتم بہ ،والی حیث وقع تحریکم عندالاشتباہ،اویحمل علی النسخ،کقولہ تعالیٰ ولرسولہ ولذی القربی فی الآیۃ ثبوت سھم ذوی القربی فی الغنیمۃ ونحن نقول انتسخ ذلک باجماع الصحابہ رضی اللہ عنہ او علی الترجیح کقولہ تعالیٰ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا ظاہریقتضی ان الحامل المتوفی عنھازوجھا لاتنقضی عدتھا بوضع الحمل قبل مضی اربعۃ اشھر وعشرۃ ایام لان الآیۃ عامۃ فی کل متوفی عنھازوجھا حاملااوغیرھا وقولہ تعالیٰ اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن یقتضی انقضاء العدۃ بوضع الحمل قبل مضی الاشھر لانھاعامۃ فی المتوفی عنھازوجھا وغیرھا لکنارجحناھذہ الآیۃ بقول ابن عباس رضی اللہ عنھما انھانزلت بعد نزول تلک الآیۃ فنسختھا وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع بین الاجلین احتیاطا لاشتباہ التاریخ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)

ان کل آیتہ تخالف قول اصحابناالخ کی شرح میں وہ لکھتے ہیں۔اس کے مسائل میں سے یہ ہے کہ جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اوروہ غوروفکر کے بعد ایک سمت اختیار کرلے توہمارے نزدیک اس کی نماز جائز ہے (اگر چہ اس نے قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہو)کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قول کی تاویل فولواوجوھکم شطرہ کی یہ ہے کہ جب تم اس کے بارے میں واقف رہو،اوراشتباہ کی صورت میں غوروفکر کے بعد جو سمت اختیار کرو،یاوہ نسخ پر محمول ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ولرسولہ ولذی القربی الخ آیت میں رشتہ داروں کیلئے بھی غنیمت کے مال میں حصہ کا ثبوت ہے اورہم کہتے ہیں کہ یہ صحابہ کرام کے اجماع سے منسوخ ہے ۔ترجیح پر محمول کرنے کی صورت یہ ہے کہ آیت پاک والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا کا ظاہری تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کاشوہر مرجائے تو اس کی عدت وضع حمل سے نہیں ہوگی بلکہ اس کو چارماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے کیونکہ آیت ہرایک عورت کے بارے میں عام ہے خواہ و ہ حاملہ ہو یاغیرحاملہ ہو،اللہ تبارک وتعالیٰ کا دوسراارشاد ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہو اس کا تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کے وضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجائے گی خواہ چارماہ دس دن پورے نہ ہوئے ہوں۔یہ آیت عام خواہ حاملہ عورت کا شوہر مراہو یانہ مراہو۔لیکن اس آیت کو ہم نے اس لئے ترجیح دی کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول موجود ہے کہ یہ آیت پہلی آٰت والذین یتوفون منکم کے بعد نازل ہوئی ہے۔اس سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں قول میں جمع کی صورت اختیار کی ہے احتیاط کی بناء پر۔

قال من ذلک ان الشافعی یقول بجواز اداء سنۃ الفجر بعد اداء فرض الفجر قبل طلوع الشمس لماروی عن عیسی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلی رکعتین بعد الفجر فقال ماھما فقلت رکعتاالفجر کنت الم ارکعھما فسکت قلت ھذا منسوخ بماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لاصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولابعد العصر حتی تغرب الشمس والمعارضۃ فکحدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کان یقنت فی الفجر حتی فارق الدنیا فھو معارض بروایۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھراثم ترکہ فاذا تعارضا روایتاہ تساقطافبقی لنا حدیث ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھرین یدعو علی احیاء العرب ثم ترکہ واماالتاویل فھو ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان اذارفع راستہ من الرکوع قال سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وھذا دلالۃ الجمع بین الذکرین من الامام وغیرہ ثم روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اذاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ قولوا ربنالک الحمد والقسمۃ تقطع الشرکۃ فیوفق بینھما فنقول الجمع للمنفرد والافراد للامام والمتقدی وعن ابی حنیفۃ انہ یقول الجمع للمتنفل والافراد للمفترض(المصدرالسابق)

اس کی شرح یہ ہے کہ امام شافعی طلوع شمس سے پہلے فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کو جائز قراردیتے ہیں ان کی دلیل حضرت حضرت عیسی سے منقول وہ حدیث ہے کہ رسول پاک نے مجھ کو فجر کے بعد دورکعت پڑھتے دیکھا انہوں نے پوچھایہ تم کیاپڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ فجر کی دو سنت رکعتیں جس کو میں نہیں پڑھ سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کو سکوت اختیار کیا۔ میں کہتاہوں کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے منسوخ ہے کہ فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج طلوع ہوجائے اورعصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج غروب ہوجائے ۔
معارضہ کی صورت یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ کی حدیث ہے کہ آپ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے اوراسی معمول پر دنیا سے رخصت ہوجائے ۔یہ حدیث حضرت انس کے دوسری حدیث کے معارض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھاپھر اس کوچھوڑ دیا۔یہ دونوں روایت ایک دوسرے کے معارض ہونے کی بناء پر ساقط ہوگئیں ہم نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث پر عمل کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومہینہ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جس میں عرب کے قبیلوں کیلئے بددعا کی گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیا۔
اورتاویل کی صورت یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منقول ہے کہ آپ جب رکوع سے اپناسراٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد کہتے تھے ۔یہ دونوں ذکر کوجمع کرنے کی دلیل ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناالک الحمد کہاکرو تقسم شرکت کے منافی ہے۔توان دونوں حدیث میں تطبیق اس تاویل کے ذریعہ دی جائے گی کہ دونوں ذکر سمع اللہ لمن حمدہ اورربنالک الحمد کہنے کی صورت منفرد کیلئے ہے اورتقسیم اس صورت میں ہے جب باجماعت نماز ہورہی ہو ۔امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جمع نفل نماز پرھنے والے کیلئے ہے اورافراد فرض نماز پڑھنے والے کیلئے ہے۔

امام کرخی کے قاعدے کی امام نسفی کی وضاحت کی روشنی میں اتنی بات واضح ہوگئی ہے کہ
1: اس قول کا ظاہری مطلب مراد نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہ کا قول کافی ہوگا۔

2:یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخی کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے ۔

3: ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔

میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کسی بھی صحیح الدماغ شخص کو تامل نہ ہوگا۔
صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ کسی قول کا بہتر مطلب قائل یا اس کے شاگردوں سے سمجھنا چاہیے۔ لیکن آگے جو شرح ہے وہ امام کرخی یا ان کے شاگرد کی نہیں بلکہ شاگرد کے شاگرد کی ہے۔ قائل تو ظاہر ہے اپنی بات کی مراد سے واقف ہوتا ہے۔ اور شاگرد نے چونکہ اس کے ساتھ وقت گزارا ہوتا ہے اور اس کے مزاج کو جان چکا ہوتا ہے اس لیے مراد کی بہتر تشریح کر سکتا ہے۔ لیکن بھلا شاگرد کے شاگرد جس نے استاد کے استاد کے ساتھ وقت نہیں گزارا، اس میں اور بعد میں آنے والوں میں کیا فرق ہے جو اس کی بیان کردہ مراد کو ترجیح دی جائے؟؟؟
پھر مزید یہ کہ آگے جو شرح ذکر کی گئی وہ درحقیقت شرح ہے ہی نہیں بلکہ وہ تو صرف مثالیں ہیں حتی کہ ان کی کتاب کا نام ہی الامثلۃ التوضیحیہ ہے۔اب آپ ذرا ان کی شرح کو غور سے دیکھیں۔ انہوں نے بعض وہ مسائل بیان کیے ہیں جن کے دلائل معلوم ہیں حالانکہ کرخیؒ کی عبارت کو دیکھیں تو وہ عام ہے:
ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
اس سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ دلیل کا علم ہو یا نہ ہو جب ائمہ احناف کے قول کے خلاف کوئی آیت آ جائے تو ہم بجائے یہ سمجھنے کے کہ ائمہ احناف سے غلطی ہو گئی ہو گی آیت کو ہی یا منسوخ سمجھ لیں گے اور یا مرجوح۔ اور پھر مزید غضب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آیت میں تاویل کر کے قول احناف سے تطبیق کر دیں گے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا اللہ پاک کا کلام متواتر زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا احناف کے ائمہ کا قول؟؟
یہی بات اگر غامدی یا کوئی اہل حدیث کہہ دے تو آپ حضرات لٹھ اٹھا کر پیچھے نہیں دوڑ پڑتے؟
تقریبا یہی بات حدیث مبارکہ کے بارے میں بھی کی ہے۔ ظاہر ہے جب آیت قرآنی کی قول احناف کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں تو بھلا خبر کی کیوں ہوگی!
اس کے بعد صاحب تحریر نتیجہ یوں نکالتے ہیں:
مام کرخی کے قاعدے کی امام نسفی کی وضاحت کی روشنی میں اتنی بات واضح ہوگئی ہے کہ
1: اس قول کا ظاہری مطلب مراد نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہ کا قول کافی ہوگا۔

2:یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخی کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے ۔

3: ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔

میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کسی بھی صحیح الدماغ شخص کو تامل نہ ہوگا۔
حالانکہ ان میں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔
1: نسفی نے کہیں بھی کرخیؒ کے قول کی تشریح میں ایسی کوئی بات نہیں کی۔
2: یہ بات تو قائل کے الفاظ کے ہی الٹ ہے۔ قائل نے واضح طور پر کہا ہے کہ جو آیت ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی اسے محمول کیا جائے گا۔ یعنی ہم محمول کریں گے۔
3: تیسری بات تو سرے سے ثابت کیا اس کی طرف اشارہ بھی نہیں ہوا۔ صاحب امثلۃ التوضیحیۃ نے تو صرف چند مثالیں دی ہیں۔ ہو سکتا ہے ان مسائل میں ائمہ احناف کے دلائل موجود بھی ہوں اور ہمیں معلوم بھی لیکن یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسئلے میں یہی ہوگا؟؟؟

جاری ہے۔۔۔۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
کیا یہ آپ کی اپنی تحریر ہے؟
یہ مضمون معلوم نہیں کس کا ہے ۔ ابن جمال صاحب کے نام سے ہے ۔

محسوس ہوتا ہے کہ ایک جمشید رحمانی بھائی مختلف فورمز پر لکھتے ہیں ۔ ان سے ملتا جلتا اسلوب ہے ۔واللہ اعلم


السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اوپر کی تحریر بغور پڑھی۔ ۔۔۔دکھ بھی ہوا۔ ۔۔آج بھی ہم میں ایسے علماء موجود ہیں جو غلط بات کی بھی چار عدد تاویلات کر سکتے ہیں۔
کیا ضروری تھا کہ اپنے ایک عالم کو بچانے کے لیے اتنی تاویلات کی جاتیں؟ اگر اس کے بجائے صراحتا کہہ دیا جاتا کہ انہوں نے یہ بات غلط کی ہے تو کیا یہ مناسب نہیں تھا۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کی باتوں سے کچھ میرے ذہن میں جو خیالات آئے ہیں وہ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔
امت میں فروعی اختلاف تو شروع سے ہی ہے ۔ لیکن اگر کسی مسئلہ میں ہم کسی کی نیت کو صحیح نہ سمجھیں تو یہ مناسب نہیں ۔
اب تو یہ دور آگیا ہے کہ فروعی اختلافات ۔۔۔ تفرقہ بازی میں بدل گئے ہیں ۔

اسلام میں حسن ظن کی بہت اہمیت ہے ۔

کیا ہم اسلاف میں چاہے کسی بھی مسلک کا ہو ۔۔۔ متفق علیہ متقی ، عالم ، فقیہ ہواس سے حسن ظن نہیں رکھنا چاہیے ؟۔ اس کے کلام کے صحیح معانی اگر کر دیے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے ۔

اس مسئلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ یہ اعتراض ان پر گیارہ سو سال گزرنے کے بعد کیا گیا ہے ۔

اور کرنے والے بھی ۔۔۔کسی صحیح نیت کے حامل نہیں۔۔۔میری مراد آپ نہیں بلکہ وہ پاک و ہند کے اهلحدیث میں سے کچھ متعصب غیرمقلد ہیں جنہوں نے یہ اعتراض شروع کیا ۔
اب جب آدمی اعتراض کو پہلے دیکھے اور اس کے بعد اصل عبارت کو دیکھے تو اس پر کچھ تو اثر ہوگا ہی ۔
اس کی مثالیں میں نے اشماریہ بھائی سے بات کرتے ہوئے دی ہیں ان کو دوبارہ نقل کر رہا ہوں ۔

صحیح بخاریؒ کی شروع کی احادیث جو بدء الوحي سے متعلق ہیں ۔ان کو کئی بار دیکھا ۔ کبھی کوئی اشکال وہم میں بھی نہیں آیا ۔

ایک دن ایک منکر حدیث کا اعتراض کسی کے توسط سے سنا کہ بخاری پر اعتماد نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کی احادیث میں ایک حدیث ہے جس میں ہے کہ حضورﷺ خود کشی (معاذاللہ) کرنا چاہتے تھے (آپ کے علم میں ہوگا میری مراد کون سی حدیث ہے )۔

جب یہ اعتراض سن کر پھر وہ حدیث پڑھی تو واقعتاََ میرے ذہن پر اثر ہوا ۔ اللہ کا شکر ہے پھر ادھر اُدھر تحقیق سے اس کا پتہ چلا ۔

ایک میرے ذاتی علم میں ہمارے رشتہ دار ہیں ، انہوں نے صحیح بخاریؒ کو دیکھا تک نہیں ۔ اور برق صاحب کی دو اسلام ان کے ہاتھ لگ گئی ۔

اب ان کے نزدیک جو بخاری کا ایمج بنا وہ میں آپ کو کیا بتاؤں۔آپ خود سمجھ سکتے ہیں ۔

موجودہ ہمارے اہل حدیث بھائی اگر امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں کچھ پڑھیں اور شروع ہی ان متعصب غیرمقلد کی کتب ہوں جنہوں نے چن چن کر امام صاحبؒ کے خلاف مواد لکھا اور شائع کیا(مثلاََ تاریخ بغداد سے صر ف امام صاحب ؒ کی سوانح اردو ترجمہ کرنا ، یا مصنف ابن ابی شیبہ سے صرف ایک خاص باب شائع کرنا ۔۔۔اور اس کے علاوہ الگ سے کتب )۔ ان کا ذہن پھر کیسے قبول کرے گا امام ابو حنیفہؒ کی کسی اچھائی کو ۔یا کچھ کرے گا بھی تو وہ مقام نہیں دیں گے ۔

یہی مثال مولانا اسمٰعیل شہیدؒ ، اور مولانا تھانویؒ وغیرہ کے بارے میں بھی ہے ۔

مولانا ادریس کاندھلوی ؒ جو خود دیوبندی عالم ہیں ۔ ان کا جملہ بریلوی مناظرہ کتب میں لکھا ہوتا ہے ۔ کہ حفظ الایمان کو میں نے دیکھا تو مجھ پہ کچھ اثر ہوا ۔

اس کا واضح مطلب ہے کہ انہوں نے جب گستاخی کو ذہن میں رکھ کر پڑھا تو کچھ تو اثر ہونا ہی تھا ۔ لیکن وہ اس کے قائل کیوں نہ ہوئے کیوں کہ ان کی نظر میں مولانا تھانویؒ

کی ساری زندگی تھی ان کا علم اور تقوی تھا ۔ اس لئے ۔

کیا اسلاف کی شخصیات میں ایسا حسن ظن نہیں رکھا جاسکتا ۔اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امام کرخیؒ کی رائے سلف و خلف بیان کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی سوانح بیان کرتے رہے ۔کبھی کسی نے ان پر یہ اعتراض نہیں کیا ۔
کیا بھی تو ہندوستان کے کچھ لوگوں نے جو اپنی نیت میں صاف نہیں تھے ۔
آپ کے علم میں ہو گا کہ جن متعصب حضرات کی طرف سے یہ اعتراض بیان کیا جاتا ہے ۔ وہاں دو اور عالموں پر بھی یہی اعتراض ہوتا ہے ۔

ایک مولانا محمود حسن شیخ الہندؒ کی تقریر بخاریؒ کا ایک مسئلہ،
اور مولانا انور شاہؒ کی وتر کی حدیث والی تشریح ۔

ان کی باتوں کی وضاحت ان کے حلقے کے علما دیتے رہتے ہیں ۔

شخصیت اگر امت میں معتبر ہے تو اس کے کلام میں حسن ظن لیا جاتا ہے ۔

ابھی تو ہم اس پر بحث نہیں کرتے کہ جب سیف الدولہ اتنا اچھا حکمران تھا کہ اسے ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں حامل لواء الجہاد (جہاد کا جھنڈا اٹھانے والا) اور لہ وقع فی النفوس (ان کی دلوں میں عزت تھی) کے الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے تو ان کے ہدیہ کو قبول کرنے کے بجائے موت کی دعا کرنا کیا جائز تھا؟ لیکن یہ ان کا ذاتی فعل تھا اور وہ اس وقت کے حالات سے زیادہ واقف ہوں گے اس لیے ہم اس پر بات نہیں کرتے۔

پہلے تو یوں محسوس ہوا کہ آپ کو ان کی تعبیر اور الفاظ سے اختلاف ہے لیکن یہ جملے دیکھ کر تو محسوس ہوتا ہے آپ کو ان کے الفاظ کی تعبیر نہیں ان کی شخصیت سے ہی اختلاف ہے

یہاں بھی اگر آپ حسن ظن سے اور ٹھنڈے دل سے غور کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ ہدیہ چاہے جتنے مرضی متقی شخص کی طرف سے ہو ۔۔

یہ مانگا گیا تھا ۔ان سے پوچھے بغیر ۔۔۔اور ساری عمر اللہ کے بھروسے پر گزارنے والے نے تقوی کی وجہ سے اس سے بچنا چاہا ۔

اور موت کی دعا کا بلاشبہ حدیث میں منع کیا گیا ہے ۔ اور یہ امام المحدثین بخاریؒ نے بھی مانگی تھی ۔

اس میں حسن ظن رکھنا ہے تو آپ اس حدیث کو پورا دیکھیں ۔

حضور اکرمﷺ نے فرمایا ۔ تم میں سے کوئی بھی خود کو پہنچنے والی تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا یا خواہش نہ کرے،

اگر وہ کرنا ہی ضروری سمجھے تو بس اتنا کہے

’’اے اللہ ۔ اگر زندگی میرے حق میں بہتر ہو تو مجھے زندگی عطا فرما اور اگر موت میرے حق میں بہتر ہو ۔تو مجھے موت عطا فرما۔(بخاری و مسلم)

تو حسن ظن یہی ہے کہ اسلاف میں جس نے موت کی دعا مانگی وہ یہی والی مانگی۔
صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ کسی قول کا بہتر مطلب قائل یا اس کے شاگردوں سے سمجھنا چاہیے۔ لیکن آگے جو شرح ہے وہ امام کرخی یا ان کے شاگرد کی نہیں بلکہ شاگرد کے شاگرد کی ہے۔ قائل تو ظاہر ہے اپنی بات کی مراد سے واقف ہوتا ہے۔ اور شاگرد نے چونکہ اس کے ساتھ وقت گزارا ہوتا ہے اور اس کے مزاج کو جان چکا ہوتا ہے اس لیے مراد کی بہتر تشریح کر سکتا ہے۔ لیکن بھلا شاگرد کے شاگرد جس نے استاد کے استاد کے ساتھ وقت نہیں گزارا، اس میں اور بعد میں آنے والوں میں کیا فرق ہے جو اس کی بیان کردہ مراد کو ترجیح دی جائے؟؟؟
پھر مزید یہ کہ آگے جو شرح ذکر کی گئی وہ درحقیقت شرح ہے ہی نہیں بلکہ وہ تو صرف مثالیں ہیں حتی کہ ان کی کتاب کا نام ہی الامثلۃ التوضیحیہ ہے۔اب آپ ذرا ان کی شرح کو غور سے دیکھیں۔ انہوں نے بعض وہ مسائل بیان کیے ہیں جن کے دلائل معلوم ہیں حالانکہ کرخیؒ کی عبارت کو دیکھیں تو وہ عام ہے:

ذرا مزاج کو اگر ٹھنڈا کر کے غور کریں کہ ۔۔۔آپ اتنی تشکیک کیوں پیدا کر رہے ہیں ۔ ۳۴۰ھ کے ایک امام کی اگر ایک ہی کتاب ہم تک پہنچی ہے تو کچھ مخطوط ہیں ۔ تو کچھ مفقود ہیں ۔ تو عام آدمی کے پاس فی الحال ان کی اپنی مراد جاننے کا ذریعہ نہیں تو کیا کریں ۔اپنی توجیح کیوں کریں ۔ان کے قریب کے عالم سے اس کی توجیح میں کیا برائی ہے ۔

اور کیا معترض کتب حنفیہ میں سے امام کرخیؒ کے مسائل جو بیان ہوئے ہیں ان میں سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ ساری عمر یہی کرتے رہے یعنی فقہ حنفیہ کے مطابق قرآن وحدیث کو ڈھالتے رہے ۔

ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔


Click to expand...

اس سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ دلیل کا علم ہو یا نہ ہو جب ائمہ احناف کے قول کے خلاف کوئی آیت آ جائے تو ہم بجائے یہ سمجھنے کے کہ ائمہ احناف سے غلطی ہو گئی ہو گی آیت کو ہی یا منسوخ سمجھ لیں گے اور یا مرجوح۔ اور پھر مزید غضب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آیت میں تاویل کر کے قول احناف سے تطبیق کر دیں گے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا اللہ پاک کا کلام متواتر زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا احناف کے ائمہ کا قول؟؟
یہی بات اگر غامدی یا کوئی اہل حدیث کہہ دے تو آپ حضرات لٹھ اٹھا کر پیچھے نہیں دوڑ پڑتے؟
تقریبا یہی بات حدیث مبارکہ کے بارے میں بھی کی ہے۔ ظاہر ہے جب آیت قرآنی کی قول احناف کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں تو بھلا خبر کی کیوں ہوگی!



معلوم نہیں بات میں مزید شدت پید کرنے سے کیا حاصل ہو گا میرے بھائی ۔

غامدی یا اہل حدیث ، یا دیوبندی حنفی بھی ہو ۔ شخصیت اگر امت میں معتبر ہے تو اس کے کلام میں حسن ظن لیا جاتا ہے ۔

غامدی یا اہل حدیث جن کے پیچھے لٹھ لے کے پڑا جاتا ہے تو یقیناَ ان میں سے تقوی مفقود ہو تو تبھی کیا جاتا ہے ۔

اگرچہ میرا مزاج یہی ہے کہ انکےبارے میں بھی اصلاحی طریقہ ہی اپنانا چاہیے ۔

پھر آپ اگر حسن ظن رکھتے ہوئے دیکھیں گے کہ

قول اصحابنا۔۔سے آپ نے کون سے اقوال مراد لئے ہیں

اصحابنا کے امام نے اپنے قول کے بارے میں یہ باتیں فرمائی ہیں ۔

۱۔ عجبا للناس يقولون أني أفتي بالرأي!، وما أفتي إلا بالأثر ۔ (موفق)

۲۔ سب سے پہلے مسئلہ کتاب اللہ میں پھر سنت میں ۔ پھر اقوال صحابہ میں ۔ جب تابعین پر بات آئے تو وہ ہم جیسے ہیں ۔ (مشہور روایت کا مفہوم)

اب رہ گئے وہ اقوال جن میں قرآن و سنت سے تصریح نہیں ۔ کیا قول اصحابنا سے وہ مراد ہیں ۔ تو ان کے مقابلے میں آیات و احادیث (جو کہ ظاہر ہے احکام والی ہیں )کہاں سے آگئیں ۔

ایک لطیفہ طبقات حنفیہ میں لکھا ہے ۔
شافعی حنفی علما کی نوک جھونک ہوتی رہتی تھی ۔۔ایک شافعی عالم نے ایک مسئلہ میں اپنے بیان میں یہ کہا کہ اس مسئلہ میں ابو حنیفہؒ اور رسول اللہ ﷺ میں اختلاف ہے ۔
حنفی عالم کو معلوم ہوا تو انہوں نے فقہ شافعی کا مسئلہ ایک بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ میں امام شافعیؒ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اختلاف پیش آگیا ہے ۔

اب یہ لطیفۃ ہی ہے ۔ دونوں میں سے کوئی یہ نہیں سمجھتا تھا کہ معاذاللہ ان ائمہ کا کوئی اللہ تعالٰی اور رسول ﷺ سے اختلاف ہے ۔

آسان لفظوں میں قول اصحابنا (یعنی قرآن و سنت و اجماع و قیاس ) کے مقابلے میں آیت (یہ فرض کی گئی ہے وقوع نہیں۔۔یا مرجوح تفسیر وغیرہ ) وحدیث ہو تو۔۔۔۔۔۔

ایک اور پہلو بھی ہے ۔۔یہ تو ایک انداز کے جملے میں ہے ۔۔۔۔ایک اور انداز کا جملہ ہے ۔۔۔

’’اذا صح الحدیث فھو مذہبی‘‘۔۔۔۔کیا یہ واضح جملہ نہیں ہے ۔۔۔اب کیا کوئی مسلمان جس کے سامنے صحیح حدیث ہو وہ اس کو رد کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ جملہ بھی انہی کی طرف سے زیادہ پیش کیا جاتاہے ۔۔جن کا پہلا اعتراض ہے ۔اور وہ یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ رفع یدین اور آمین کی حدیث صحیح ہے ۔ اب قول ابی حنیفہ کو دیوار پر مار دو۔۔۔

کیا یہاں پہ ظاہری معانی پہ عمل ہو سکتا ہے ۔ یا ۔۔ناواقف اسے استعمال کر رہے ہیں ۔
شافعیہ اور حنفیہ اس واضح جملے ۔۔۔۔کو بھی کہتے ہیں اس کی مکمل مراد ظاہر پر نہیں ۔۔۔۔
(نوویؒ، سبکیؒ، ابن عابدین ؒ وغیرہ نے پورے مضامین لکھے ہیں اس پہ)

آپ کی نیت تو ٹھیک ہے ۔ ان کی عبارت کو جب شک والے اعتراض جس کو سخت سے سخت کر کے پیش کیا جاتا ہے آپ نے اس کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے ۔۔۔۔کے بعد پڑھا جائے تو اس سے غلط تاثر پھیلتا ہے ۔

جیسے مولانا تھانوی ؒ نے عبارت بدل لی ۔اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے نہیں بلکہ عوام کی سمجھ کی وجہ سے کوئی فتنہ نہ پھیلے ۔۔

امام کرخیؒ زندہ ہوتے تو عوام کی گمراہی کے پیش نظر شاید عبارت بدل لیتے ۔

آج کل جو اس کو شائع کرے ۔ اس کو بھی حاشیہ میں وضاحت کردینا چاہیے ۔ تاکہ کوئی فتنہ نہ پھیلا سکے ۔

بلکہ مجھے یاد آرہا ہے کہ قرآن پاک کی ایک آیت جس کے الفاظ میں موجود ہے کہ۔۔۔قاتل ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔۔۔

اس آیت کا ترجمہ معارف القرآن ۔۔مفتی محمد شفیعؒ نے اس ترجمہ میں بریکٹ سے لمبا وضاحتی جملہ لکھا ہے ۔تاکہ اس سے غلط فہمی پیدا نہ ہو ۔جیسا کہ معتزلہ لیتے بھی ہیں اس کے ظاہری معانی۔

اسی طرح اصول کرخیؒ میں بھی کرنا چاہیے ۔

آپ تو پھر شایدمطمئن ہو جاتے ۔۔لیکن کیا وہ بھی مطمئن ہو جاتے جنہوں نے یہ اعتراض پہلی بار پیدا کیا تھا ۔؟

کیا کیا جائے کہ ان ایک ہزار سالوں میں کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا ۔ اور کیا بھی تو کسی صحیح نیت والے نے نہیں کیا ۔

ابھی دو چیزیں حافظے میں آرہی ہیں ۔امام کرخیؒ کے مزاج سے متعلق

مختلف کتب میں ان کا یہ قول مسح علی الخفین کے بارے میں منقول ہوتا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ
’’مجھے ایسے شخص پہ کفر کا اندیشہ ہے جو اس کو نہ مانے ۔۔۔۔احادیث کی کثرت کی وجہ سے ‘‘ (مفہوم)

دوسرا ان کا ایک نظریہ بیان ہوتا ہے ۔کہ بعض ائمہ احناف ایک مرجوح قول کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں غیر فقیہ راوی کی روایت پر قیاس کو ترجیح ہوگی ۔
لیکن دوسرے علما کہتے ہیں کہ نہیں بلکہ روایت کو قیاس پر ترجیح ہوگی ۔ اور یہی صحیح بھی ہے ۔
اور کتب اصول میں اس رائے کے سب سے پہلے حمایتی امام کرخیؒ بیان کیے جاتے ہیں ۔

یہ دو مثالیں تو اردو کتب تک میں موجود ہوتی ہیں ۔ ان سے ان کے مزاج کا پتا چل رہا ہے ۔

اگر ان کی آرا کتب سے اکٹھی کی جائیں تو ان شاء الله کبھی بھی اس سے اس اصول کے ظاہری الفاظ سے مواقفت نہیں ہوگی۔
پھر اگر نہ ہو گی تو پھر ہمیں ان کے کلام میں حسن ظن ہی لینا پڑے گا ۔
ائمہ سے اسی حسن ظن کی بنیاد پر ہی حافظ ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب ’’رفع الملام عن الأئمة الأعلام‘‘ لکھی ۔

اللہ تعالیٰ کوئی کمی و کوتاہی ہوئی ہو تو معاف فرمائے۔۔
 
Top