قاری ابو الحسن اعظمی تجوید وقراءت کا روشن چراغ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قاری ابو الحسن اعظمی تجوید وقراءت کا روشن چراغ
تحریر: نسیم اختر شاہ قیصر​
دا رلعلوم دیوبند کی تاریخ میں بے شمار افراد ایسے ہیں کہ جن کے ذکر کے بغیر کم از کم ان کے دور کی تاریخ مر تب نہیں ہوتی بڑوں کو چھوڑیئے کہ ان کی خدمات کا دائر ہے حد وسیع ہے خود ہمارے دو رمیں ایسے نا بغۂ لوگ مو جود ہیں جن کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانا ممکن نہیں اور کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ انصاف کے تقاضوں کا خون کرتا ہے،مولانا قاری ابو الحسن اعظمی مد ظلہ العالی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے قاری صاحب سے مجھے نہ تو شرف تلمذ حاصل ہے نہ ہی اتنی قربت کہ میں ان کی خدمات اور کاموں کو مفصل طریقہ پر بیان کر سکوں لیکن اتنی دوری بھی نہیں ہے کہ ان کی تصنیفی اور تالیفی خدمات سے بالکل بے خبر ہوں ، زمانہ با صلاحیت افراد کی قدر دانی میں ہمیشہ بخل سے کام لیتا ہے اور ان کو سر پر چڑھاتا ہے جو بے صلاحیت ہیں اور کوئی کمال بھی انھیں حاصل نہیں مگر آگے بڑھنے کے لئے دوسرے ہتھیاروں سے ضرور لیس ہو تے ہیں بات تلخیوں کی نذر ہو جائے گی اس لئے اس گفتگو کو یہیں ختم کرتے ہیں اور اپنے مقصود کی طرف لوٹتے ہیں ۔
قاری ابو الحسن صاحب اعظمی کا نام اپنے بچپن میں سنا زمانہ ٔ طالب علمی تھا تو اعظمی منزل کے طلباء کے ساتھ بھی اٹھنا بیٹھنا رہا انہیں کی زبان پر قاری صاحب کا تذکرہ رہتا ہمارا زمانۂ طالب علمی ختم ہو گیا اور پھر دا رالعلوم بھی بقول حکیم الاسلام نور اللہ مر قدہ بیمار ہو گیا ۔ یہ بیماری دو ڈھائی سال لمبی ہو گئی یہ سخت وقت گزرا تو کچھ ہی دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ قاری صاحب دا رالعلوم دیوبند میں بحیثیت استاذ تجوید تشریف لا ئے ہیں ۔
پھر یہ بھی اتفاق ہے کہ لمبے عرصہ کے بعد ہی سہی حضرت قاری صاحب نے اسی محلہ (خانقاہ) میں بود وباش اختیار کر لی جس میں سو سال کے عرصہ سے میرے بڑوں اور میری رہائش رہی اور ہے ۔اب قاری صاحب سے سلام ودعا کے مواقع پیدا ہو گئے اور پھر سلام ودعا سے بڑھ کر ان کے فیاضانہ دستر خوان تک پہنچ گئی اس قربت نے قاری صاحب کی شخصیت کے بہت سے پہلو اجا گر کئے اور بہت سی پرتوں کو کھول دیا ۔
انتہائی منکسر المزاج ، بلند اخلاق ، ہمدرد وغمگسار ، مہذب اور مہمان نواز ، معاملات کے کھرے ، نہایت نفیس طبیعت اور اعلیٰ ذوق کے مالک ہیں ، وہ چند انسانی صفات جودوسرے لوگوں کو گر ویدہ بناتی ہیں اور لوگ ایسے آدمیوں سے ملنے میں طمانینت اور خوشی محسوس کرتے ہیں وہ صفات قاری صاحب میں بلا شبہ بدرجہ اتم مو وجود ہیں اسے مبالغہ پر نہ محمول کیا جائے بلکہ اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر یہ سطور سپرد قلم کر رہا ہوں کہ قاری صاحب کی اکثر ادائیں بڑوں کی سی ادائیں ہیں اور جو کچھ ہم نے گزرنے والے افراد کی عادات اور اخلاق کے بارے میں سنا ان میں سے کافی چیزوں کا مشاہدہ قاری صاحب کے یہاں ہو ا۔
وہ چھوٹوں کو جس طرح نوازتے نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ گفتگو کرتے اور ملتے اور ان سے ہر ملاقات پر یہ احساس دل میں جڑ پکڑتا ہے کہ قاری صاحب کو اللہ رب العزت نے بے شمار خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے ۔مختلف خوبیوں کا سامنا تو ملنے پر ہوتا اور کمالات ان کے تصنیفات اور تالیفات سے ظاہر ہو تیں ہیں۔
قاری صاحب کو اللہ رب العزت نے اپنے میدان کا مرد کامل بنایا ہے اور یقنی طور پر صرف دارالعلوم دیوبند ہی میں نہیں بلکہ دور دراز تک تجوید وقراءت کے میدان قاری صاحب جیسے کمال اور اختصاص کے مالک کوئی دوسری شخصیت نہیں ہے ، رب العزت نے انہیں اس کام کے لئے منتخب فر مایا ہے ان کی سو سے زائد کتابیں اس بات کی گواہ اور ثبوت ہیں ۔
جہاں تک فن کا تعلق ہے قاری صاحب کے ہمسر اور ہم پلہ کوئی دوسرا نہیں ہے اور شائد اس فن کی اتنی کتابیں کسی دوسرے صاحب قلم کے ذریعہ منظر عام پر آئی ہوں ۔قاری صاحب کی آواز میں بڑا ٹہراؤ ، بڑی خوبصورتی اور بڑا سوز ہے جب وہ محو قراءت ہو تے ہیں تو ایک سماں بند ھ جاتا ہے جو لوگ فن قراءت کی بنیادوں اور رموز سے واقف ہیں وہ قاری صاحب کے قراءت کی دھمک اپنے سینوں اور دل میں محسوس کرتے ہیں ۔ مخارج کی ادائیگی کا سلیقہ اور تما م قیود وحدود کو برتنے کا اہتمام قاری صاحب کو حاصل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان فن میں ان کامقابل کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ۔
اللہ اپنے بندوںکو کس کس طرح نوازتا اور کیسے کیسے ان پر اپنی عنایات کی بارش کرتا ہے اس کا ایک مظہر قاری صاحب کی ذات ہے جس لگن ، جس شوق اور جس جذبے کے ساتھ وہ اپنے کاموں کے انجام دینے میں مصروف ہیں وہ ایک اکیڈمی اور ایک ادارہ کے حوصلوں سے بڑھ کر دکھائی دیتا ہے اللہ ایک اور صفت جس سے انہیں سر فراز کیا ہے وہ ان کا اللہ کی ذات پر بے انتہا اعتماد اور کا مل بھروسہ ہے ، حالات کیسے بھی ہوں اور مسائل کتنے بھی حوصلہ شکن ہوں ، قاری صاحب کی ہمت پست نہیں ہو تی اور اپنے کاز کے حصول میں منہمک رہتے ہیں روز گار اور معاش کا خوف اور کل کیا ہو گا اس کا اندیشہ ان کے قریب سے نہیں گزرتا اور نہ وہ ہراساں ہو تے ہیں ان میں حوصلہ بہت ہے ہمت بہت ہے اور وہ آگے بڑھکر کام کر نے کی پوری قوت اور جرأت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تھکے نہیں ، مایوس ہو کر گھر نہیں بیٹھے اور نہ ہی قسمت کی کتاب کھول کر وقت کے زمانہ کے افراد کے شاکی ہو ئے وہ نئے عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں ہیں اور جب انسان اس کا تہیہ کر لیتا ہے کہ وہ محنت کر ے گا تو اللہ بھی ایسے انسان کی محنت اور جد وجہد کو ضائع نہیں کرتا نتائج حسب منشاء سامنے آتے ہیں اور سامنے آئیں گے ،
قاری صاحب کے اوقات کا اکثرحصہ لکھنے پڑھنے اور تصنیف وتالیف کا کام انجام دینے میں گزرتا ہے صلہ کی پرواہ اور ستائش کی خواہش انہیں نہ ماضی میں تھی اور نہ آج ہے اور یہی وہ انداز زندگی اور تیور ہیں جن سے ہمارے بڑوں کی زندگی عبارت رہی ہے جن لوگوں کو کچھ سیکھنا ہے اور زندگی کی بنیادی حقیقتوں سے آشنائی حاصل کرنی ہے وہ قاری صاحب کی زندگی کا مطالعہ اور مشاہدہ کریں قاری صاحب سمیت بہت افراد آج بھی مو جود ہیں جن کی زندگی ایک نمو نہ ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جائے کہ کامیاب زندگی کی یہ علامت اور نشانیاں ہیں تو غلط نہ ہو گا ۔
دوسروں کی زندگی دیکھ کر اپنی زندگی کو بلندیوں اور عروج پر لے جا نے والے افراد ان شخصیتوں کی صبح وشام اور رات دن کو چراغ راہ بنائیں تو ان کے لئے آسا نیاں ہیں ۔راحتیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سماج معاشرہ میں با وقار زند گی گزارنے اور با حیثیت بنے رہنے کے مواقع بے شمار ہیں ۔ جو لوگ اپنا سب کچھ قربان کر کے خدائی احکامات کی روشنی میں زندگی گزارنے کے عادی ہیں قدرت کی جانب سے ان کی دست گیری ہو تی ہے اور کبھی ایسے لوگ دشواریوں اور مسائل میں گھر بھی جاتے ہیں تو دست قدرت انھیں ساحل مراد پر پہنچاتا ہے قاری صاحب رابطہ عالم اسلامی کے "لشیوخ الاقراء "کمیٹی کے ممتاز رکن ہیں اور ان کی اسی رکنیت سے میرے دعوے کو استحکام حاصل ہو تا ہے۔ بشکریہ اردو صحافت دہلی
 
Last edited:

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
قاری ابو الحسن اعظمی تجوید وقراءت کا روشن چراغ
تحریر: نسیم اختر شاہ قیصر​
دا رلعلوم دیوبند کی تاریخ میں بے شمار افراد ایسے ہیں کہ جن کے ذکر کے بغیر کم از کم ان کے دور کی تاریخ مر تب نہیں ہوتی بڑوں کو چھوڑیئے کہ ان کی خدمات کا دائر ہے حد وسیع ہے خود ہمارے دو رمیں ایسے نا بغۂ لوگ مو جود ہیں جن کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانا ممکن نہیں اور کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ انصاف کے تقاضوں کا خون کرتا ہے،مولانا قاری ابو الحسن اعظمی مد ظلہ العالی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے قاری صاحب سے مجھے نہ تو شرف تلمذ حاصل ہے نہ ہی اتنی قربت کہ میں ان کی خدمات اور کاموں کو مفصل طریقہ پر بیان کر سکوں لیکن اتنی دوری بھی نہیں ہے کہ ان کی تصنیفی اور تالیفی خدمات سے بالکل بے خبر ہوں ، زمانہ با صلاحیت افراد کی قدر دانی میں ہمیشہ بخل سے کام لیتا ہے اور ان کو سر پر چڑھاتا ہے جو بے صلاحیت ہیں اور کوئی کمال بھی انھیں حاصل نہیں مگر آگے بڑھنے کے لئے دوسرے ہتھیاروں سے ضرور لیس ہو تے ہیں بات تلخیوں کی نذر ہو جائے گی اس لئے اس گفتگو کو یہیں ختم کرتے ہیں اور اپنے مقصود کی طرف لوٹتے ہیں ۔
قاری ابو الحسن صاحب اعظمی کا نام اپنے بچپن میں سنا زمانہ ٔ طالب علمی تھا تو اعظمی منزل کے طلباء کے ساتھ بھی اٹھنا بیٹھنا رہا انہیں کی زبان پر قاری صاحب کا تذکرہ رہتا ہمارا زمانۂ طالب علمی ختم ہو گیا اور پھر دا رالعلوم بھی بقول حکیم الاسلام نور اللہ مر قدہ بیمار ہو گیا ۔ یہ بیماری دو ڈھائی سال لمبی ہو گئی یہ سخت وقت گزرا تو کچھ ہی دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ قاری صاحب دا رالعلوم دیوبند میں بحیثیت استاذ تجوید تشریف لا ئے ہیں ۔
پھر یہ بھی اتفاق ہے کہ لمبے عرصہ کے بعد ہی سہی حضرت قاری صاحب نے اسی محلہ (خانقاہ) میں بود وباش اختیار کر لی جس میں سو سال کے عرصہ سے میرے بڑوں اور میری رہائش رہی اور ہے ۔اب قاری صاحب سے سلام ودعا کے مواقع پیدا ہو گئے اور پھر سلام ودعا سے بڑھ کر ان کے فیاضانہ دستر خوان تک پہنچ گئی اس قربت نے قاری صاحب کی شخصیت کے بہت سے پہلو اجا گر کئے اور بہت سی پرتوں کو کھول دیا ۔
انتہائی منکسر المزاج ، بلند اخلاق ، ہمدرد وغمگسار ، مہذب اور مہمان نواز ، معاملات کے کھرے ، نہایت نفیس طبیعت اور اعلیٰ ذوق کے مالک ہیں ، وہ چند انسانی صفات جودوسرے لوگوں کو گر ویدہ بناتی ہیں اور لوگ ایسے آدمیوں سے ملنے میں طمانینت اور خوشی محسوس کرتے ہیں وہ صفات قاری صاحب میں بلا شبہ بدرجہ اتم مو وجود ہیں اسے مبالغہ پر نہ محمول کیا جائے بلکہ اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر یہ سطور سپرد قلم کر رہا ہوں کہ قاری صاحب کی اکثر ادائیں بڑوں کی سی ادائیں ہیں اور جو کچھ ہم نے گزرنے والے افراد کی عادات اور اخلاق کے بارے میں سنا ان میں سے کافی چیزوں کا مشاہدہ قاری صاحب کے یہاں ہو ا۔
وہ چھوٹوں کو جس طرح نوازتے نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ گفتگو کرتے اور ملتے اور ان سے ہر ملاقات پر یہ احساس دل میں جڑ پکڑتا ہے کہ قاری صاحب کو اللہ رب العزت نے بے شمار خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے ۔مختلف خوبیوں کا سامنا تو ملنے پر ہوتا اور کمالات ان کے تصنیفات اور تالیفات سے ظاہر ہو تیں ہیں۔
قاری صاحب کو اللہ رب العزت نے اپنے میدان کا مرد کامل بنایا ہے اور یقنی طور پر صرف دارالعلوم دیوبند ہی میں نہیں بلکہ دور دراز تک تجوید وقراءت کے میدان قاری صاحب جیسے کمال اور اختصاص کے مالک کوئی دوسری شخصیت نہیں ہے ، رب العزت نے انہیں اس کام کے لئے منتخب فر مایا ہے ان کی سو سے زائد کتابیں اس بات کی گواہ اور ثبوت ہیں ۔
جہاں تک فن کا تعلق ہے قاری صاحب کے ہمسر اور ہم پلہ کوئی دوسرا نہیں ہے اور شائد اس فن کی اتنی کتابیں کسی دوسرے صاحب قلم کے ذریعہ منظر عام پر آئی ہوں ۔قاری صاحب کی آواز میں بڑا ٹہراؤ ، بڑی خوبصورتی اور بڑا سوز ہے جب وہ محو قراءت ہو تے ہیں تو ایک سماں بند ھ جاتا ہے جو لوگ فن قراءت کی بنیادوں اور رموز سے واقف ہیں وہ قاری صاحب کے قراءت کی دھمک اپنے سینوں اور دل میں محسوس کرتے ہیں ۔ مخارج کی ادائیگی کا سلیقہ اور تما م قیود وحدود کو برتنے کا اہتمام قاری صاحب کو حاصل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان فن میں ان کامقابل کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ۔
اللہ اپنے بندوںکو کس کس طرح نوازتا اور کیسے کیسے ان پر اپنی عنایات کی بارش کرتا ہے اس کا ایک مظہر قاری صاحب کی ذات ہے جس لگن ، جس شوق اور جس جذبے کے ساتھ وہ اپنے کاموں کے انجام دینے میں مصروف ہیں وہ ایک اکیڈمی اور ایک ادارہ کے حوصلوں سے بڑھ کر دکھائی دیتا ہے اللہ ایک اور صفت جس سے انہیں سر فراز کیا ہے وہ ان کا اللہ کی ذات پر بے انتہا اعتماد اور کا مل بھروسہ ہے ، حالات کیسے بھی ہوں اور مسائل کتنے بھی حوصلہ شکن ہوں ، قاری صاحب کی ہمت پست نہیں ہو تی اور اپنے کاز کے حصول میں منہمک رہتے ہیں روز گار اور معاش کا خوف اور کل کیا ہو گا اس کا اندیشہ ان کے قریب سے نہیں گزرتا اور نہ وہ ہراساں ہو تے ہیں ان میں حوصلہ بہت ہے ہمت بہت ہے اور وہ آگے بڑھکر کام کر نے کی پوری قوت اور جرأت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تھکے نہیں ، مایوس ہو کر گھر نہیں بیٹھے اور نہ ہی قسمت کی کتاب کھول کر وقت کے زمانہ کے افراد کے شاکی ہو ئے وہ نئے عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں ہیں اور جب انسان اس کا تہیہ کر لیتا ہے کہ وہ محنت کر ے گا تو اللہ بھی ایسے انسان کی محنت اور جد وجہد کو ضائع نہیں کرتا نتائج حسب منشاء سامنے آتے ہیں اور سامنے آئیں گے ،
قاری صاحب کے اوقات کا اکثرحصہ لکھنے پڑھنے اور تصنیف وتالیف کا کام انجام دینے میں گزرتا ہے صلہ کی پرواہ اور ستائش کی خواہش انہیں نہ ماضی میں تھی اور نہ آج ہے اور یہی وہ انداز زندگی اور تیور ہیں جن سے ہمارے بڑوں کی زندگی عبارت رہی ہے جن لوگوں کو کچھ سیکھنا ہے اور زندگی کی بنیادی حقیقتوں سے آشنائی حاصل کرنی ہے وہ قاری صاحب کی زندگی کا مطالعہ اور مشاہدہ کریں قاری صاحب سمیت بہت افراد آج بھی مو جود ہیں جن کی زندگی ایک نمو نہ ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جائے کہ کامیاب زندگی کی یہ علامت اور نشانیاں ہیں تو غلط نہ ہو گا ۔
دوسروں کی زندگی دیکھ کر اپنی زندگی کو بلندیوں اور عروج پر لے جا نے والے افراد ان شخصیتوں کی صبح وشام اور رات دن کو چراغ راہ بنائیں تو ان کے لئے آسا نیاں ہیں ۔راحتیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سماج معاشرہ میں با وقار زند گی گزارنے اور با حیثیت بنے رہنے کے مواقع بے شمار ہیں ۔ جو لوگ اپنا سب کچھ قربان کر کے خدائی احکامات کی روشنی میں زندگی گزارنے کے عادی ہیں قدرت کی جانب سے ان کی دست گیری ہو تی ہے اور کبھی ایسے لوگ دشواریوں اور مسائل میں گھر بھی جاتے ہیں تو دست قدرت انھیں ساحل مراد پر پہنچاتا ہے قاری صاحب رابطہ عالم اسلامی کے "لشیوخ الاقراء "کمیٹی کے ممتاز رکن ہیں اور ان کی اسی رکنیت سے میرے دعوے کو استحکام حاصل ہو تا ہے۔ بشکریہ اردو صحافت دہلی
بہت عمدہ!
 
Top