قرآن مجید میں وارد شده چند مختلف المعانی الفاظ

حافظ رحمانی

وفقہ اللہ
رکن
قرآن مجید میں وارد شده چند مختلف المعانی الفاظ

بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين محمد وآله وصحبه اجمعین

اس مختصر مگر اہم ترین مقالہ میں بعض ایسے الفاظ کا تذکره ہے جو قرآن مجید میں ایک ہی معنی کے لیئے استعمال ہوئے ہیں لیکن کسی ایک مقام پر دوسرے معنی میں بهی استعمال ہوئے ہیں


قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الأسف » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی حزن وغم ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی غصہ وغضب ہے . قوله تعالی : فَلَمَّاْ آَسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ . (الزخرف: 55) پھر جب ہم کو غصہ دلایا تو ہم نے اُن سے بدلا لیا پھر ڈبو دیا اُن سب کو . اس آیت میں آَسَفُونَا کا معنی أغضبونا ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « البروج » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ستارے ہیں ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی لمبے مضبوط محلات وقلعے ہے . قوله تعالی : أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ . (النساء:78) جہاں کہیں تم ہو گے موت تم کو آ پکڑے گی اگرچہ تم ہو مضبوط قلعوں میں . اس آیت میں بروج کا معنی مضبوط محلات وقلعے ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « بعل » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی زوج یعنی خاوند ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی بُت ہے . قوله تعالی : أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ . (الصافات: 125) یعنی کیا تم بعل بت کو پوجتے ہو اورچهوڑتے ہوسب سے بہترپیدا کرنے والے الله کو . اس آیت میں بعل کا معنی بُت ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « البُكم » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ایمان سے گونگا ہونا ہے ، لیکن قوله تعالی : وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا . (الإسراء: 97)، اور ہم ان کواٹهائیں گے قیامت کے دن ان کے منہ کے بَل اندهے اورگونگے اور بَہرے . قوله تعالی : وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ.(النحل:76) اور بیان فرمائی الله نے مثال کہ دو مرد ہیں ایک تو گونگا ہے . یہاں پران دونوں آیتوں میں بُكم سے مراد مطلقا کلام اوربات کرنے سے گونگا ہونا ہے یعنی عدم القدرة على الكلام مطلقا

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « حسرة » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ندامت وپشیمانی ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی غم ہے . قوله تعالی : لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ . ( آل عمران: 156) تاکہ کرے الله اس کو حسرت یعنی غم ان کے دلوں میں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « جثيا » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ہے جميعاً یعنی سب کے سب ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی گهٹنوں کے بَل بیٹهنا ہے . قوله تعالی : وَتَرَى كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً. (الجاثية:28) اور تو دیکهے گا ہرامت کو کہ زانو پر بیٹهی ہوگی

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « حسبان » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی حساب ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی عذاب ہے . قوله تعالی : ویُرسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَانًا مِنَ السَّمَاءِ .( الكهف:40) اوراس تیرے باغ پر بهیج دے عذاب آسمان سے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الدحض » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ہے باطل ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی مغلوب ہے . قوله تعالی : فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ. (الصافات:141) وہی مغلوبوں میں سے ہوا

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « ريب » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی شک ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی زمانے کی گردش ہے . قوله تعالی : أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ . ( الطور: 30) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے کہ ہم اس کے حق میں انتظار کرتے ہیں زمانہ کی گردش کا

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الرجم » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی قتل ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی سب وشتم ہے . قوله تعالی : لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ِ . (مريم: 46)، لَأَرْجُمَنَّكَ ، فالمراد لأشتمنك . اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجهے سب وشتم کروں گا اور مجهہ سے دور ہو مدت دراز تک . اورایک مقام پر اس کا معنی ظن ہے . قوله تعالی : وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ . (الكهف: 22)، فمعناه ظنًا . اس آیت میں رَجْم کا معنی ظن ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الزور » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی شرک کے ساتھ جهوٹ ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی جهوٹ بغیر شرک کے ہے . قوله تعالی : وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَ زُورًا. (المجادلة: 2)، اوربے شک وه کہتے ہیں ایک نا معقول بات اور جهوٹ

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « زكاة » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی مال ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی طہارت نفس اور پاکیزگی ہے . قوله تعالی : وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّاَ وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا ً . (مريم: 13) أي طهرًا له. اور ہم نے اس کو رحم دلی دی اپنی طرف سے اور طہارت نفس اور وه تها پرہیزگار

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « زيغ » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی کجی اورمَيل ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی پهرنا ، بدلنا اوراچک جانا ہے . قوله تعالی : إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ َ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا ِ . (الأحزاب: 10)، فمعناها شخصت جب چڑھ آئے تم پر اوپر کی طرف سے اور نیچے سے اور جب بدلنے لگیں آنکھیں اور پہنچے دل گلوں تک اور اٹکلنے لگے تم اللہ پر طرح طرح کی اٹکلیں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « سخر » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی استہزاء ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی تسخير ہے . قوله تعالی : نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّاً . (الزخرف: 32)، فهو من التسخير والاستخدام . ہم نے تقسیم کی ہے ان کی روزی دنیا کی زندگی میں اور ہم نے بلند مرتبہ بنایا ان میں ایک کو ایک پر تاکہ بنائے ایک دوسرے کو محکوم

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « أَصْحَابُ النَّار » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی جہنمی ہیں ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی جہنم کے داروغے اور موکل فرشتے ہیں . قوله تعالی : وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً . (المدثر: 31) اور ہم نے جو رکھے ہیں دوزخ پر داروغہ وہ فرشتے ہی ہیں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « شهيد » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی مقتول نہیں ہے بلکہ وه شخص ہے جو لوگوں کے امور میں گواہی دیتا ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی شركاء ہے . قوله تعالی : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ً . (البقرة: 23)، فالمراد شركاءكم . اور اگر تم شک میں ہو اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندہ پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی اور بلاؤ اس کو جو تمہارا مددگار ہو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « صمم » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی قرآن وایمان سے بہرا ہونا ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی سننے سے بہرا ہونا ہے . قوله تعالی : وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا. (الإسراء: 97) فمعناه فقد السمع . اور ان کو اٹهائیں گے قیامت کے دن ان کے منہ کے بَل اندهے اور گونگے اور بہرے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « صلاة » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی عبادت ورحمت ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی یہودیوں کے کنیسے ہیں . قوله تعالی : وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ً . (الحج: 40 ) فهي كنائس اليهود وهم يسمونها صلوات. اوراگرنہ ہٹایا کرتا الله لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ سے تو ضرور گر دیئے جاتے راہبوں کے خلوت خانے اورنصاری کے گرجہ اور یہود کے کنیسے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « مصباح » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ستاره ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی چراغ ہے . قوله تعالی : اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ . (النــور: 35)، فمعناه السراج . الله نور آسمان و زمین ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں ایک چراغ ہے وه چراغ شیشہ کی قندیل میں دهرا ہوا ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « نكاح » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی شادی ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی بلوغت واحتلام ہے . قوله تعالی : وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آَنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ . (النسـاء: 6)، فمعناه الاحتلام . اور آزماتے رہو یتیموں کو یہاں تک وه بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « اليأس » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی مایوسی ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی علم ہے . قوله تعالی : أَفَلَمْ يَيْئَسِ الَّذِينَ آَمَنُوا أَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا . (الرعد: 31)، فمعناه العلم . سو کیا خاطر جمع نہیں ایمان والوں کو اس پر کہ اگر چاہے اللہ تو راہ پر لائے سب لوگوں کو

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الصبر » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی محمود ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی بتوں کی عبادت پر ثابت قدم رہنا ہے . قوله تعالی : إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آَلِهَتِنَا لَوْلَا أَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا . (الفـرقان: 42)، یہ تو قریب تها کہ ہم کو بہکا دے ہمارے معبودوں سے اگر ہم نہ ثابت قدم رہتے ان پر . قوله تعالی : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آَلِهَتِكُمْ . (ص: 6) فمعناه العكوف على عبادة الأصنام . اور چل کهڑے ہوئے ان میں چند اشراف ( یہ کہتے ہوئے ) کہ چلو جی اور جَمے رہو اپنے معبودوں پر

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الصوم » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی کهانے پینے سے اورجماع سے رکنا ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی بات اورکلام سے رکنا ہے .قوله تعالی : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا . (مـريم: 26)، فهو الإمساك عن الكلام . میں نے رحمن کے لیئے منت مانی ہے صوم کی یعنی بات نہ کرنے کی

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الخرق » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی قطع کرنا اور سوراخ کرنا ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی جهوٹ گهڑلینا ہے . قوله تعالی : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ . (الأنـعام: 100)، اور انهوں نے ٹهہرا لیئے الله کے شریک جنات حالانکہ الله ہی نے جنات کو پیدا کیا اور انهوں نے تراش لیئے الله کے لیئے بیٹے اور بیٹیاں بغیرعلم کے وه پاک ہے اوران باتوں سے بہت بلند ہے جو یہ بیان کرتے ہیں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الظلمات والنور » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی کفر اور ایمان ہے یعنی ظلمات سے مراد کفر اور نور سے مراد ایمان ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی رات کی تاریکی اور دن کی روشنی ہے . قوله تعالی : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ. (الأنـعام: 1)، فمعناهما ظلمة الليل ونور النهار. ہر طرح کی تعریف الله ہی کو زیبا ہے جس نے پیدا کیئے آسمان اور زمین اوربنائے اندهیرے اور چاندنا

وصلى الله وسلم على محمد وآله وصحبه أجمعين
كتبه العبد الفقير إلى رحمة ربه الكبير الحافظ أبو هلال رحماني نقلاً عن كتاب (الإتقان فى علوم القرآن) للإمام السـيوطى رحمه الله
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ بھائی جان۔ یہ بھی بہت عمدہ اور کار آمد پوسٹ ہے۔
آج کل جدید تحقیقات میں حوالہ کچھ یوں دیا جا رہا ہے:
الاتقان فی علوم القرآن جلد۔ صفحہ (مکتبہ یا ناشر)
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
قرآن مجید میں وارد شده چند مختلف المعانی الفاظ

بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين محمد وآله وصحبه اجمعین

اس مختصر مگر اہم ترین مقالہ میں بعض ایسے الفاظ کا تذکره ہے جو قرآن مجید میں ایک ہی معنی کے لیئے استعمال ہوئے ہیں لیکن کسی ایک مقام پر دوسرے معنی میں بهی استعمال ہوئے ہیں


قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الأسف » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی حزن وغم ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی غصہ وغضب ہے . قوله تعالی : فَلَمَّاْ آَسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ . (الزخرف: 55) پھر جب ہم کو غصہ دلایا تو ہم نے اُن سے بدلا لیا پھر ڈبو دیا اُن سب کو . اس آیت میں آَسَفُونَا کا معنی أغضبونا ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « البروج » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ستارے ہیں ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی لمبے مضبوط محلات وقلعے ہے . قوله تعالی : أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ . (النساء:78) جہاں کہیں تم ہو گے موت تم کو آ پکڑے گی اگرچہ تم ہو مضبوط قلعوں میں . اس آیت میں بروج کا معنی مضبوط محلات وقلعے ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « بعل » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی زوج یعنی خاوند ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی بُت ہے . قوله تعالی : أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ . (الصافات: 125) یعنی کیا تم بعل بت کو پوجتے ہو اورچهوڑتے ہوسب سے بہترپیدا کرنے والے الله کو . اس آیت میں بعل کا معنی بُت ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « البُكم » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ایمان سے گونگا ہونا ہے ، لیکن قوله تعالی : وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا . (الإسراء: 97)، اور ہم ان کواٹهائیں گے قیامت کے دن ان کے منہ کے بَل اندهے اورگونگے اور بَہرے . قوله تعالی : وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ.(النحل:76) اور بیان فرمائی الله نے مثال کہ دو مرد ہیں ایک تو گونگا ہے . یہاں پران دونوں آیتوں میں بُكم سے مراد مطلقا کلام اوربات کرنے سے گونگا ہونا ہے یعنی عدم القدرة على الكلام مطلقا

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « حسرة » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ندامت وپشیمانی ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی غم ہے . قوله تعالی : لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ . ( آل عمران: 156) تاکہ کرے الله اس کو حسرت یعنی غم ان کے دلوں میں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « جثيا » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ہے جميعاً یعنی سب کے سب ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی گهٹنوں کے بَل بیٹهنا ہے . قوله تعالی : وَتَرَى كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً. (الجاثية:28) اور تو دیکهے گا ہرامت کو کہ زانو پر بیٹهی ہوگی

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « حسبان » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی حساب ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی عذاب ہے . قوله تعالی : ویُرسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَانًا مِنَ السَّمَاءِ .( الكهف:40) اوراس تیرے باغ پر بهیج دے عذاب آسمان سے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الدحض » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ہے باطل ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی مغلوب ہے . قوله تعالی : فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ. (الصافات:141) وہی مغلوبوں میں سے ہوا

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « ريب » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی شک ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی زمانے کی گردش ہے . قوله تعالی : أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ . ( الطور: 30) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے کہ ہم اس کے حق میں انتظار کرتے ہیں زمانہ کی گردش کا

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الرجم » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی قتل ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی سب وشتم ہے . قوله تعالی : لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ِ . (مريم: 46)، لَأَرْجُمَنَّكَ ، فالمراد لأشتمنك . اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجهے سب وشتم کروں گا اور مجهہ سے دور ہو مدت دراز تک . اورایک مقام پر اس کا معنی ظن ہے . قوله تعالی : وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ . (الكهف: 22)، فمعناه ظنًا . اس آیت میں رَجْم کا معنی ظن ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الزور » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی شرک کے ساتھ جهوٹ ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی جهوٹ بغیر شرک کے ہے . قوله تعالی : وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَ زُورًا. (المجادلة: 2)، اوربے شک وه کہتے ہیں ایک نا معقول بات اور جهوٹ

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « زكاة » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی مال ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی طہارت نفس اور پاکیزگی ہے . قوله تعالی : وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّاَ وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا ً . (مريم: 13) أي طهرًا له. اور ہم نے اس کو رحم دلی دی اپنی طرف سے اور طہارت نفس اور وه تها پرہیزگار

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « زيغ » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی کجی اورمَيل ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی پهرنا ، بدلنا اوراچک جانا ہے . قوله تعالی : إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ َ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا ِ . (الأحزاب: 10)، فمعناها شخصت جب چڑھ آئے تم پر اوپر کی طرف سے اور نیچے سے اور جب بدلنے لگیں آنکھیں اور پہنچے دل گلوں تک اور اٹکلنے لگے تم اللہ پر طرح طرح کی اٹکلیں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « سخر » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی استہزاء ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی تسخير ہے . قوله تعالی : نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّاً . (الزخرف: 32)، فهو من التسخير والاستخدام . ہم نے تقسیم کی ہے ان کی روزی دنیا کی زندگی میں اور ہم نے بلند مرتبہ بنایا ان میں ایک کو ایک پر تاکہ بنائے ایک دوسرے کو محکوم

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « أَصْحَابُ النَّار » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی جہنمی ہیں ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی جہنم کے داروغے اور موکل فرشتے ہیں . قوله تعالی : وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً . (المدثر: 31) اور ہم نے جو رکھے ہیں دوزخ پر داروغہ وہ فرشتے ہی ہیں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « شهيد » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی مقتول نہیں ہے بلکہ وه شخص ہے جو لوگوں کے امور میں گواہی دیتا ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی شركاء ہے . قوله تعالی : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ً . (البقرة: 23)، فالمراد شركاءكم . اور اگر تم شک میں ہو اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندہ پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی اور بلاؤ اس کو جو تمہارا مددگار ہو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « صمم » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی قرآن وایمان سے بہرا ہونا ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی سننے سے بہرا ہونا ہے . قوله تعالی : وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا. (الإسراء: 97) فمعناه فقد السمع . اور ان کو اٹهائیں گے قیامت کے دن ان کے منہ کے بَل اندهے اور گونگے اور بہرے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « صلاة » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی عبادت ورحمت ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی یہودیوں کے کنیسے ہیں . قوله تعالی : وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ً . (الحج: 40 ) فهي كنائس اليهود وهم يسمونها صلوات. اوراگرنہ ہٹایا کرتا الله لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ سے تو ضرور گر دیئے جاتے راہبوں کے خلوت خانے اورنصاری کے گرجہ اور یہود کے کنیسے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « مصباح » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی ستاره ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی چراغ ہے . قوله تعالی : اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ . (النــور: 35)، فمعناه السراج . الله نور آسمان و زمین ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں ایک چراغ ہے وه چراغ شیشہ کی قندیل میں دهرا ہوا ہے

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « نكاح » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی شادی ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی بلوغت واحتلام ہے . قوله تعالی : وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آَنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ . (النسـاء: 6)، فمعناه الاحتلام . اور آزماتے رہو یتیموں کو یہاں تک وه بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « اليأس » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی مایوسی ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی علم ہے . قوله تعالی : أَفَلَمْ يَيْئَسِ الَّذِينَ آَمَنُوا أَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا . (الرعد: 31)، فمعناه العلم . سو کیا خاطر جمع نہیں ایمان والوں کو اس پر کہ اگر چاہے اللہ تو راہ پر لائے سب لوگوں کو

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الصبر » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی محمود ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی بتوں کی عبادت پر ثابت قدم رہنا ہے . قوله تعالی : إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آَلِهَتِنَا لَوْلَا أَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا . (الفـرقان: 42)، یہ تو قریب تها کہ ہم کو بہکا دے ہمارے معبودوں سے اگر ہم نہ ثابت قدم رہتے ان پر . قوله تعالی : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آَلِهَتِكُمْ . (ص: 6) فمعناه العكوف على عبادة الأصنام . اور چل کهڑے ہوئے ان میں چند اشراف ( یہ کہتے ہوئے ) کہ چلو جی اور جَمے رہو اپنے معبودوں پر

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الصوم » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی کهانے پینے سے اورجماع سے رکنا ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی بات اورکلام سے رکنا ہے .قوله تعالی : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا . (مـريم: 26)، فهو الإمساك عن الكلام . میں نے رحمن کے لیئے منت مانی ہے صوم کی یعنی بات نہ کرنے کی

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الخرق » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی قطع کرنا اور سوراخ کرنا ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی جهوٹ گهڑلینا ہے . قوله تعالی : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ . (الأنـعام: 100)، اور انهوں نے ٹهہرا لیئے الله کے شریک جنات حالانکہ الله ہی نے جنات کو پیدا کیا اور انهوں نے تراش لیئے الله کے لیئے بیٹے اور بیٹیاں بغیرعلم کے وه پاک ہے اوران باتوں سے بہت بلند ہے جو یہ بیان کرتے ہیں

قرآن مجید میں جہاں کہیں بهی « الظلمات والنور » کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی کفر اور ایمان ہے یعنی ظلمات سے مراد کفر اور نور سے مراد ایمان ہے ، لیکن ایک مقام پر اس کا معنی رات کی تاریکی اور دن کی روشنی ہے . قوله تعالی : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ. (الأنـعام: 1)، فمعناهما ظلمة الليل ونور النهار. ہر طرح کی تعریف الله ہی کو زیبا ہے جس نے پیدا کیئے آسمان اور زمین اوربنائے اندهیرے اور چاندنا

وصلى الله وسلم على محمد وآله وصحبه أجمعين
كتبه العبد الفقير إلى رحمة ربه الكبير الحافظ أبو هلال رحماني نقلاً عن كتاب (الإتقان فى علوم القرآن) للإمام السـيوطى رحمه الله
بہت خوبصورت مقالہ ہے،جزاک اللہ
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
جزاک اللہ بھائی جان۔ یہ بھی بہت عمدہ اور کار آمد پوسٹ ہے۔
آج کل جدید تحقیقات میں حوالہ کچھ یوں دیا جا رہا ہے:
الاتقان فی علوم القرآن جلد۔ صفحہ (مکتبہ یا ناشر)
علمی ہدایت ہے،ماشاء اللہ
 
Top