ہوئے کس درجہ فقہیان حرم بے توفیق

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
ماہ و سال کی گردش میں کچھ واقعات و حادثات اور فیصلے ایسے بھی ہوتے ہیں ،جو تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ، عام طور پر ہر سال کے ختم ہونے پر مختلف طبقے ، ادارے ، افراد و قوم اہم واقعات اور فیصلوں کا ایک اشاریہ یا جائزہ پیش کرتے ہیں ، جیسے کہ ہمارے ملک میں ۲۰۱۱ء کی ایتداء ہی ایک ایسے مالی اسکیڈل سے ہوئی ، جس نے اپنی ایک تاریخ بنائی ، سال گذشتہ ایل کے اڈوانی نے محمد علی جناح کے تئیں جو بیان دیا تھا ، وہ بھی خوب متنازع رہا ، چند سالوں قبل علامہ یوسف القرضاوی کا ’’ خود کش بمباری ‘‘ کے تئیں جو فتوی آیا ، اس نے تو صہیونی دنیا و میڈیا کی چول ہلاکر رکھ دی ؛ بلکہ موصوف ہی کا تخت لیبیا کے بد بخت قابض کے بارے میں جو فیصلہ آیا اس نے ایک تاریخ درج کی ، اسی طرح سیاسی ، معاشی اور قومی سطح پر مختلف باتیں پیش آتی رہتی ہیں ، ۔۔۔۔ ہمیں خیال ہوا کہ فقہ و فتاوی کے اعتبار سے بھی جائزہ لینا چاہئے کہ کون سے فتاوی ایسے ہیں جن کے منظر عام پر آنے سے علمی حلقوں میں کشمکش پیدا ہوئی ہو ، اور بحث ومباحثہ کا ایک بازار گرم ہوگیا ہو ، اسی طرح کے چند فتاوی جو سال ۲۰۱۰ میں سامنے آئے اور شدید تنازعہ یا اختلاف کا باعث بنے ہے ، ان کا جائزہ لیا جائے ، ہمارا مقصد کسی بھی رائے کی تائید و مخالفت نہیں ہے ؛ بلکہ عہد حاضر کے علمی و فقہی رجحانات پر روشنی ڈالنا ہے :

(۱) مرد و زن کا اختلاط جائز ہے ۔

۲۰۱۰ء کی ابتدائی ہی تھی کہ سعودی عرب کے ایک معروف عالم دین اور حکومت سعودی عرب کے ایک ذیلی اہم ترین شعبہ ’’ بورڈ برائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، حلقہ مکہ مکرمہ ‘‘ کے صدر ڈاکٹر احمد الغامدی کا فتوی ’’ مرد و عورت کے اختلاط ‘‘ پر سامنے آیا ، جس میں موصوف نے اجنبی مردو عورت کے ملنے جلنے ، حتی کہ مصافحہ کرنے کو بھی جائز قرار دیا اور یہ دعوی کیا کہ ’’اختلاط ‘‘اور ’’ عدم اختلاط ‘‘ جیسی اصطلاحات بہت بعد کی ایجاد کردہ ہیں ، عہد رسالت اور صحابہ میں نہ ان کا استعمال ملتا ہے ، اور نہ ہی ان کا تصور ۔۔۔ڈاکٹر احمد غامدی نے اپنی تحقیق کی روشنی میں ان لوگوں پر رد کیا ہے جو ’’ اختلاط ‘‘ کو حرام قرار دیتے ہیں ۔

اس فتوی نے سعودی معاشرہ اور خاص طور پر ارباب افتاء کے درمیان ایک نئی بحث چھیڑ دی ، اخبارات و جرائد ، نیز ٹی وی چینلس پر مختلف علماء کے بیانات آنے شروع ہوگئے ، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک ٹی وی چینل نے شیخ غامدی کے ساتھ باضابطہ ایک ’’ مباحثہ ‘‘ ؛ بلکہ زیادہ صحیح تعبیر میں ’’ مناظرہ ‘‘ مرتب کیا ، اسی طرح ڈاکٹر غامدی پر ’’ ملحد ‘‘ اور ’’ لبرل مفتی ‘‘ جیسے طعنے بھی کسے گئے ، یہ بات بھی گشت کرنے لگی کہ غامدی اپنے عہدہ سے معزول کردئیے گئے ہیں ، اگرچہ ایسا کچھ نہیں ہوا ، چنانچہ ماہ اپریل میں خود ان کا بیان آیا کہ نہ وہ عہدہ سے معزول کئے گئے ہیں اور نہ اپنی رائے سے رجوع کیا ہے ۔

ملحوظ رہے کہ ’’ اختلاط ‘‘ کے تئیں یہ نقطۂ نظر پیش کرنے والے شیخ غامدی کوئی پہلے شخص نہیں ہیں ؛ بلکہ ان سے قبل شیخ محمد الغزالی بھی اس طرح کا نظریہ پیش کرچکے ہیں ، چوں کہ غامدی ’’ ہیءۃ الأمر بالمعروف ‘‘ جیسے مؤقر و معتبر ادارہ کے ذمہ دار تھے ؛ اس لئے ان کی رائے کو زیادہ ہی اہمیت اور حساسیت کے ساتھ دیکھا گیا ۔

سعودی عرب کے موجودہ فرماں روا ملک عبد اللہ بن عبد العزیز کا ایک نمایاں اور تاریخی کام ؛ بلکہ کارنامہ ’’ شاہ عبد اللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹکنالوجی ‘‘ کا قیام ہے ، جو اپنے معیار ، انفراسٹکچر اور افراد کے اعتبار سے دینا کی اہم ترین دانش گاہ شمار کی جارہی ہے ، اس یونیورسٹی کے قیام کے موقع پر بھی ’’ مخلوط تعلیم ‘‘ کا مسئلہ بحث و نقاش کا موضوع بنارہا ، سعودی عرب کے بیشتر علماء اسے ناجائز قرار دے رہے تھے ، اور اس کی بنیادی وجہ ’’ اجنبی مرد و عورت کا اختلاط ‘‘ قرار دیا گیا ، مگر اس وقت کے شیخ الازہر ۔۔ جو اب نہیں رہے ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔۔نے پُر زور انداز میں اسی مخلوط تعلیم کی تائید کی تھی ۔

(۲) تجارتی مراکز میں خواتین کا بحیثیت ’’ کاشیئر ‘‘ تقرر

سعودی عرب کے ایک بڑے تجارتی مرکز ۔۔جس کے ملک بھر میں متعدد مراکز قائم ہیں ۔۔نے کاشیئر کی کچھ خالی اسامی پر سعودی لڑکیوں اور خواتین کے تقرر کا فیصلہ کیا ، یہ اعلان فتاوی کی دینا میں گویا کہ ’’ نقارہ جنگ ‘‘ ثابت ہوا ، ایک طبقہ نے اس کی سخت مخالفت کی ، انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے اس کے خلاف فضاء ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ؛ بلکہ اس معروف تجارتی مرکز کے سماجی و معاشی ’’ بائیکاٹ ‘‘ کی بات بھی سامنے آئی ۔

دوسری طرف بہت سے معتبر علماء اور ارباب افتاء نے اس سلسلہ میں جواز کی رائے بھی پیش کی اور دلائل سے یہ ثابت کیا کہ خواتین خود عہد رسالت میں تجارت اور معاشی سرگرمیوں سے براہ راست وابستہ تھیں ، اور کاشیئر کا کام تو اس سے بھی محدود اور محتاط ہے کہ ، ا س میں اس کی ذمہ داری محض خریدار سے رقم کی وصولی ، اور مابقیہ رقم کی ادائیگی ہوتی ہے ، فتاوی کی یہ دو طرفہ سرد جنگ جاری تھی کہ اسی اثناء ماہ اکتوبر کے اخیر میں سعودی عرب کے واحد سرکاری دار الافتاء ’’ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء السعودیۃ ‘‘ کا مؤقر فیصلہ منظر عام پر آگیا ، جو کہ عام طور پر آخری اور حتمی فیصلہ شمار کیا جاتا ہے کہ: ’’بحیثیت کاشیئر خواتین کا ملازمت کرنا ناجائز ہے ‘‘، مگر حیرت کی بات یہ ہوئی کہ اس فیصلہ کے آنے کے باوجود حکومت سعودی عرب کے وزیر برائے لیبر ملازمت عادل فقیہ نے یہ بیان جاری کردیا کہ ’’ خواتین کو کاشیئر کی ملازمت سے قانونی طور پر نہیں روکا جاسکتا ہے اور ہمارے قانون میں شرعی اصولوں کی رعایت کے ساتھ اس کی گنجائش رکھی گئی ہے ؛ لہٰذا عورتیں ان ملازمتوں سے وابستہ ہوسکتی ہیں ‘‘ ، وزیر موصوف کی اس رائے نے مزید کشمکش پیدا کردی ، اور وہ علماء جو اس کے خلاف تھے ، ان کے لئے حکومت کے معزز وزیر کا یہ فیصلہ بے چین و اضطراب کا سبب بن گیا ۔

(۳) قدیم اسلامی و تاریخی آثار کو منہدم کیا جاسکتا ہے ۔

سعودی عرب کے مشہور سلفی عالم شیخ محمد حسان نے ایک سوال کے جواب میں فتوی دیا کہ ’’ وہ آثار قدیمہ جو کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں ہوں ، انہیں منہدم کیا جاسکتا ہے ، یا فروخت بھی کیا جاسکتا ہے ؛ کیوں کہ اس کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے اس شخص کو ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہے ‘‘ ۔

موصوف نے یہ بات ایک ٹی وی چینل کے ’’ فتاوی الرحمۃ ‘‘ نامی پروگرام میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ اگر یہ تاریخی آثار مجسموں کی شکل میں ہوں تو انہیں بھی اکھاڑ پھینکنا چاہئے ، خواہ کسی کے زیر ملکیت ہوں ، شیخ محمد حسان سلفی نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ ’’ یہ آثار قدیمہ حکومت کی زمین یا ملکیت میں ہوں تو عوام کو انہیں منہدم اور فروخت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا ‘‘ ۔

اسلامی آثار و تاریخی مقامات در اصل ماضی سے ، عہد رسالت ا ا ورعہد صحابہ ث سے ہمارا رشتہ جوڑتے ہیں اور مضبوط کرتے ہیں ، جب انسان انہیں چشم بصارت سے دیکھتا ہے تو وہ ’’ بینائی اور بصیرت ‘‘ پاتا ہے ، وہ کچھ دیر کے لئے ماضی کے دریچوں میں کھوکر ان مقدس ہستیوں کے ساتھ چند لمحے بیتاتا ہے ، وہ آثار و نقوش ان کے ایثار و قربانی اور صبرو مشقت کی یاد تازہ کردیتے ہیں ، پھر جب وہ نگاہیں کھول کر اپنی پستی و ذلت کو دیکھتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے :

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام ابنیاء کی امانت کا

شیخ محمد حسان سلفی کا یہ فتوی کسی آتش فشاں سے کم نہیں تھا ، علماء و ارباب افتاء نے تو اس کی سخت مخالفت کی ہی ، دوسری طرف عرب دانشوران اور ماہرین آثار قدیمہ بھی احتجاج پر اترآئے ، مسلمی وتاریخی اعتبار سے ان کے اس رجحان پر رد و قدح کیا گیا ، عالم اسلام کی مؤقر درسگاہ ’’ جامعہ الازہر ‘‘ نے بھی اس رائے سے اختلاف کیا ، اور متنبہ کیا کہ اس جیسے موقف سے اسلامی وتاریخی آثار کی وقعتی ہوتی ہے ؛ بلکہ اس طرح تو آثار قدیمہ کو ختم اور برباد کرنے کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔

(۴) علامہ یوسف القرضاوی اور محمد ابرادعی کو قتل کیا جانا چاہئے ۔

سال ۲۰۱۰ء ختم ہوا چاہتا تھا ، اس سال کے کیلنڈر کی جگہ پانے کے لئے ابناء کیلنڈر تیار کھڑا تھا ، مگر ۲۰۱۰ء کو یہ منظوری نہ تھا کہ وہ یوں دبے قدم گذر جائے ، چنانچہ ماہ دسمبر کے آخری دہے کی کوئی تاریخ رہی ہوگی ایک فتوی اخبارات و جرائد کی زینت بنا ، اس کا مضمون کیا تھا ، گویا کہ کوئی بڑے پیمانے پربربادی پھیلانے والا مہلک ہم ہو ، معرکے ایک سلفی عالم شیخ محمود عامر ۔۔۔ جو جمعیۃ أنصار السنۃ المحمدیۃ کے صدر ہیں ۔۔۔نے فتوی جاری کیا کہ : ’’ بین الاقوامی نیوکلیر ایجنسی کے ذمہ دار ڈاکٹر محمد ابرادعی کو حکومت وقت کی طرف سے پھانسی کی سزا دینا جائز ہے ‘‘ شیخ موصوف نے اپنی اس فتوی کی توجیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’چوں کہ محمد ابرادعی مصر کے آئندہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور موجودہ حکومت ۔۔۔ جو ’’ فرعون مصر ‘‘ کے جانشین حسنی بے مبارک کی حکومت تھی ، اور اب نہیں رہی ۔۔۔کا تختہ الٹ کر معری قوم کا اتحاد توڑنا چاہتے ہیں ؛ اس لئے ان کی سزا یہ ہے کہ حکومت انہیں یا تو قید و بند کی سزا دے یا انہیں قتل کردے ، انہوں نے کہا کہ اس طرح کوئی بھی اقدام در اصل ایک با اختیار ، طاقتور اور ملکی قانون کے مطابق منتخب شدہ مسلم حکمراں کے خلاف بغاوت ہے ، جس کی سزا بطور قتل دی جاسکتی ہے ، شیخ محمود عامر نے مزید یہ بھی کہا کہ ’’ یہ مسئلہ صرف محمد ابرادعی ہی تک محدود نہیں ہے ؛بلکہ جو بھی حاکم وقت کے خلاف خروج ، بغاوت و احتجاج کی حوصلہ افزائی کرے ان سب کا یہی حشر ہونا چاہئے ، بشمول ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے ، بہر حال اسے ان کی بوابعجی کیجئے یا ’’بولہبی ‘‘ تمام علماء نے اسے حماقت پر مبنی اور بیہودہ فتوی قرار دیا ، مفتی مصر نے فرمایا کہ محمود عامل کی رائے پر تبصرہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ؛ کیوں کہ وہ نہ کوئی مستند عالم ہیں اور نہ ہی جامعۃ الازہر کے تربیت یافتہ ہیں ، موصوف جس تنظیم کے رئیس ہیں ، خود اس کے افراد نے اس رائے کی مخالفت کی اور تنظیم کو اس سے بے تعلق ظاہر کیا ۔

حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کا ۔۔ عام طور پر ۔۔جو موجودہ سیاسی نظام ہے ، وہ نہ خلافت پر مبنی ہے ، اور نہ ’’ جمہوریت ‘‘ پر ، چند افراد اور خاندانوں نے دین و شریعت اور قدم و ملت کو اپنے خود ساختہ اصولوں کا اس پر بنا رکھا ہے ، علماء کی جتنی بڑی تعداد ان ممالک میں پس دیوار زنداں ہے ، اس کا عشر عشیر بھی مغربی ممالک میں تلاش کرنے پر نہ ملے ، اسلام شعائر کی بے احترامی اور مصطلحات کی تبدیلی جیسے سنگیں رجحانات کی نہ صرف انہوں نے پیج بویا ہے ؛ بلکہ اس کی آبیاری بھی انہی کے ہاتھوں ہورہی ہے ، یہ لوگ مغربی طاقتوں اور صہیونی ایجنوں کے آلۂ کار بن کر عالم اسلام میں اسلام کی بیخ کنی کا فرض منصبی ادا کررہے ہیں ، افسوس ان سب کے باوجود کچھ ’’ دین فروش ‘‘ علماء ’’ سرفروشان دین ع‘ کے خون کے درپہ ہیں ۔

مقالہ نگار:عمرعابدین قاسمی مدنی
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بہت خوب
جمشید بھائی
بڑازبردست ،معلوماتی مضمون شیئر کر ڈالا
بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کوزہ میں سمندر ۔
 
Top