حسن ظن

مفتی عزیزالرحمان

وفقہ اللہ
رکن
ایک شخص گمان کرتا ہے کہ وہ بیمار ہوجائیگا اور واقعی وہ بیمار ہوجاتا ہے
ایک شخص کو ناکامی کے خوف کا دھڑکا لگا رہتاہے اور پھر وہ ناکام ہو ہی جاتا ہے
ایک عورت کو بچہ پر نظر بد لگنے کا شک ہونے لگتا ہے پھر حقیقت میں اس کے بچہ کو نظر لگ جاتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس بارے میں حدیث قدسی ہماری رہنمائی کرتی ہے
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میں بندہ کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔
جب آدمی گمان کرتا ہے اس کی زندگی خوشحال ہوگی۔ رزق میں فراوانی ہوگی۔ مال و اولاد میں برکت ہوگی تو اللہ تعالٰی پر حسن ظن رکھتا ہے تو اللہ تعالٰی بھی اسے استعمال کے گمان کے مطابق عطا فرماتے ہیں۔ مگر جب کسی شخص کو ہر وقت فقر و مفلسی یا بیماری کا
خوف چمٹا رہتا ہے تو وہ اللہ تعالٰی پر بد گمانی کرتا ہے اللہ تعالٰی بھی اسکے گمان بد کے مطابق اسکے ساتھ معاملہ فرماتے ہیں۔
ارشاد باری تعالٰی کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی مشرک مرد وعورت اور منافق مرد و عورت کو عذاب کرے گا کہ وہ اللہ پر برا گمان رکھتے تھے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ساری بھلائی اللہ کے قبضہ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
ایک بزرگ فرماتے ہیں خدا کی قسم! بندہ کو اللہ تعالٰی پر حسن ظن سے بہتر کوئی چیز نہیں عطا کی گئی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جس نے بھی اللہ تعالٰی پر حسن ظن رکھا اللہ تعالٰی ضرور اسکے حسن ظن پر پورا اترتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین و آسمان کی ساری بھلائی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
سورہ حجر کی آیت نمبر 21 پریشان حال لوگوں کو ایک نئی امید دلاتی ہے۔
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کے خزانے اللہ کے پاس نہ ہوں۔
جب ساری چیزوں کے خزانے اللہ کے پاس ہیں تو مستقبل کی کیا فکر کی جائے۔
انبیاء علیہم السلام اور ہمارے اسلاف کی یہی شان تھی۔
"ماخوذ"
 
Top