قرآن بنا وضو کے چھونا جائز نہیں

syed sadiq qadri

حکیم سید صادق قادری
رکن
قرآن چھونا بنا وضو کے جائز نہیں
*
فی زمانہ چند لوگ یہ تاثر عوام میں پھیلا رہے کہ بغیر وضو کے قرآن کو چھو سکتے ہیں اس سلسلہ میں وہ جتنے دلائل دے رہے ان میں سے ایک بھی دلیل اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ قرآن کو بنا وضو چھونا جائز کہا جائے۔
اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ بنا وضو کے قرآن بنا چھوئے پڑھا جاسکتا ہے مگر چھونے کے لئے وضو ضروری ہے۔یہی آئمہ اربعہ کا مذہب ہے اور اس بات پر امت مسلمہ متفق ہے ۔آج جو لوگ اس مسئلہ کو میں علماء کی مخالفت کررہے ان کا مقصد صرف اور صرف امت میں انتشار پھیلانا ہے ان کے رد کے لئے ہم نے اس مسئلہ کو بیان کرنا ضروری سمجھا۔
قرآن سورہ واقعہ آیت 79 میں ارشاد خداوندی ہے"اس (قرآن) کو صرف پاک لوگ چھو سکتے ہیں۔"اس آیت کے مفہوم میں اگرچہ مختلف اقوال ہیں مگر حضرت قتادہ علیہ الرحمہ نے فرمایا"اس کو صرف وہی مسلمان چھو سکتے ہیں جو نجاست اور ہر قسم کے حدث سے پاک ہوں,یعنی ان پر نہ غسل واجب ہو نہ وضو"(النکت و العیون جلد5 ص 464)
اگر یہاں مراد طہارت لی جائے تو طہارت لفظ وضو اور غسل دونوں کے لئے عام ہے لہذا اس بنا پر دونوں قسم کے حدث سے پاکیزگی لازمی ہے۔امام بخاری کتاب الطہارت میں کتاب الوضو کو سب سے پہلے بیان فرماتے ہیں اسی میں ایک باب کا عنوان لکھا "بغیر طہارت نماز قبول نہیں ہوتی" اور اس باب کے تحت حدیث لائے"جس نے وضو توڑ دیا اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وضو نہ کرئے"(حدیث نمبر 135) اس سے معلوم ہوا امام بخاری کے نزدیک بھی وضو طہارت میں شامل ہے ۔
امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ (606 ہجری کے عالم) تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں
"امام شافعی علیہ الرحمہ نے کہا"بے وضو کے لئے قرآن چھونا جائز نہیں ہے ,ان کا استدلال حضرت عمرو بن حزم رضیﷲعنہ کی حدیث ہے کہ"قرآن مجید کو طاہر کے سوا کوئی نہ چھوئے"
(تفسیر کبیر جلد10)
علامہ ابو عبدﷲمحمد بن احمد مالکی (متوفی 668 ہجری) لکھتے ہیں
"زیادہ ظاہر یہی ہے کہ کتاب سے مراد وہ مصحف ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے,حضرت ابن عمر رضیﷲعنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلیﷲعلیہ وسلم نے فرمایا"قرآن کو صرف اس حال میں چھوؤ جب تم طاہر ہو۔"
(الجامع لاحکام القرآن جز17 ص 204)
امام مالک نے عبدﷲ بن ابی بکر بن حزم سے روایت کی کہ جس مکتوب کو رسولﷲ صلیﷲعلیہ وسلم نے عمرو بن حزم کے لئے لکھا تھا اس میں یہ بھی مرقوم تھا کہ"طاہر کے سوا کوئی قرآن نہ چھوئے"
(موطاء امام مالک جلد 1 ص 478)
یہ حدیث دارمی ,دارقطنی,مصنف عبدالرزاق,مستدرک,سنن الکبری للبیہقی,المعجم الکبیر للطبرانی میں بھی ہے,مجمع الزوائد میں امام ہیثمی نے کہا"اس حدیث کے رجال کی توثیق کی گئی ہے"ابن حجر نے تلخیص الجبیر جلد1 میں اس کا ذکر کیا ہے۔
صحابی رضیﷲعنہ کا عمل
"حضرت سلمان فارسی رضیﷲعنہ نے قضائے حاجت کرکے آئے تو لوگوں نے کہا کہ"اگر آپ وضو کرلیتے تو ہم آپ سے قرآن کریم میں سے کچھ اشیاء کے بارے میں پوچھ لیتے تو آپ رضیﷲعنہ نے فرمایا"تم مجھ سے پوچھو کیونکہ میں اسے مس نہ کروں گا بے شک اسے تو وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں"(تفسیر درمنثور جلد 6 تحت آیت سورہ واقعہ 79,مصنف ابن ابی شیبہ جلد 1 صفحہ 98 حدیث نمبر 1100)
اس روایت سے واضح ہوگیا کہ قرآن پاک کو بنا وضو کے ہرگز نہیں چھو سکتے۔
اس روایت کے علاوہ دیگر آئمہ کرام بھی یہی کہتے تھے
عطاء نے کہا کہ کوئی بنا وضو کے قرآن نہ چھوئے
(مصنف عبدالرزاق ج 1 ح 1335)
جابر بیان کرتے ہیں کہ شعبی,طاؤس,اور قاسم بن محمد بنا وضو کے مصحف چھونے کو مکروہ کہتے تھے۔
(المرجع سابق ح 1338)
حافظ یوسف بن عبدﷲ ابن البر مالکی (463 ہجری میں وصال پانے والے عالم) لکھتے ہیں
"مدینہ,شام اور مصر کے تمام فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ بے وضو قرآن کو نہ چھوئے اور یہ حکم اس آیت (واقعہ 79) کی وجہ سے نہیں بلکہ رسولﷲ صلیﷲعلیہ وسلم کی حدیث کی وجہ سے ہے کہ"قرآن کو طاہر کے سوا کوئی نہ چھوئے"
(موطا امام مالک حدیث نمبر 478)
امام یحیی بن شرف نووی (676 ہجری میں وصال پانے والے عالم) لکھتے ہیں"بے وضو شخص کا قرآن چھونا حرام ہے کیونکہ قرآن میں ہے کہ"اسے صرف پاک لوگ چھوؤئیں"(واقعہ 79) اور حکیم بن حزام نے روایت کیا کہ رسولﷲ صلیﷲعلیہ وسلم نے فرمایا"بغیر طہارت کے قرآن نہ چھوؤ"
(المجموع من شرح المہذب جلد2 صفحہ 693)
علامہ موفق الدین عبدﷲ بن احمد قدامہ حنبلی (620 ہجری میں وصال پانے والے عالم) لکھتے ہیں
"حضرت ابن عمر,حسن بصری,عطا,طاؤس,شعبی,اور قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ جو بے وضو ہو اس کے لئے قرآن چھونا جائز نہیں اور یہی آئمہ اربعہ کا مذہب ہے اور ہمارے علم میں داؤد ظاہری کے علاوہ اور کسی کا اس مسئلہ میں اختلاف نہیں اس نے کہا کہ جنبی اور بے وضو کے لئے قرآن چھونا جائز ہے کیونکہ نبی کریم صلیﷲعلیہ وسلم نے قیصر روم کی طرف ایک آیت لکھ کر بھیجی (وہ آیت سورہ آل عمران آیت 64 ہے بخاری میں اس کا ذکر ہے) ہماری دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ "اسے نہ چھوئیں مگر پاک لوگ"(واقعہ 79) اور عمرو بن حزام والی حدیث (جو اوپر مذکور ہوئی) .
نبی پاک نے قیصر روم کو جو مکتوب لکھا تھا اس سے مقصود پیغام بھیجنا تھا اور اگر کسی رسالہ یا فقہ کی کتاب میں کوئی آیت ہو تو اس رسالہ یا کتاب کوچھونا (بنا وضو کے) ممنوع نہیں ہے ,اس کتاب میں اس آیت کی وجہ سے وہ کتاب مصحف یا قرآن نہیں ہوجائے گی اور اس کی حرمت ثابت نہیں ہوگی۔"
(المغنی و الشرح الکبیر جلد 1 صفحہ 168 تا 170)
علامہ کاسانی علیہ الرحمہ حنفی (587 ہجری میں وصال پانے والے عالم) لکھتے ہیں
"ہمارے نزدیک بغیر غلاف کے بے وضو مصحف کو چھونا جائز نہیں ہے"مزید لکھتے ہیں کہ ہماری دلیل یہ کہ قرآن میں ہے"اس کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں" (واقعہ 79) اور نبی پاک صلیﷲعلیہ وسلم نے فرمایا"غیر طاہر قرآن کو نہ چھوئے"(نسائی 4853)
آخر میں امام کعبہ الشیخ عبدالعزیز بن عبدﷲ بن باز جن کو مخالفین بہت مانتے ہیں ان کے فتوی کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا,شیخ ابن باز لکھتے ہیں
"قرآن کو ہاتھ صرف اسی صورت میں لگانا چاہیئے جب حدث اکبر و حدث اصغر سے طہارت حاصل کرلی گئی ہو"
(فتاوی اسلامیہ جلد 1 وضو,غسل اور تیمم کے مسائل میں پہلا فتوی)
آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ اس امت میں انتشار پیدا کرنے والوں کو ہدایت دے اور ان کے شر سے امت مسلمہ کو بچائے۔آمین
طالب دعا:سید صادق قادری
 
Top