اجارہ داری

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
اجارہ داری
محمد اظہار الحق
صحرا تھا اور طویل سفر۔ دور ایک سایہ سا نظر آیا۔ عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے قریب جا کر دیکھا تو ایک بوڑھی عورت تھی۔ انہوں نے السلام علیکم کہا،بڑھیا نے سلام کے جواب میں قرآنی آیت پڑھی۔ سَلَامٌ قَوْلاً مِنْ رَبِّ الرَّحِیْم۔ پوچھا یہاں کیا کر رہی ہو۔ جواب میں اس نے ایک اور آیت پڑھی: جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا کوئی راہنما نہیں۔ (اعراف)
وہ سمجھ گئے کہ راستہ بھول گئی ہے۔ پوچھا کہاں جانا ہے؟ بولی: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی۔ (اسریٰ)
عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سمجھ گئے کہ وہ حج کر کے آرہی ہے اور بیت المقدس جانا چاہتی ہے۔ پوچھا کب سے یہاں بیٹھی ہے؟ اب اس نے ایک اور آیت پڑھی: پوری تین راتیں۔ (مریم)
کھانے کا کیا انتظام ہے؟ وہی کھلاتا پلاتا ہے۔ (الشعراء)
وضو کیسے کرتی ہو؟ پانی نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ (النساء)
کھانا پیش کروں؟ پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔ ( البقرہ)
مگر آج کل رمضان تو نہیں۔ پھر روزہ کیسا؟ جو بھلائی کے ساتھ نفلی عبادت کرے تو اللہ قدردان اور جاننے والا ہے۔ (البقرہ)
سفر کی حالت میں نفلی روزہ ضروری نہیں، تم چھوڑ سکتی تھیں۔ اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو تو۔ (البقرہ)
تم نارمل گفتگو کیوں نہیں کرتیں؟ انسان جو بات بھی کرتا ہے اس کے لیے ایک نگہبان فرشتہ مقرر ہے۔ (ق)
تمہارا کس قبیلے سے تعلق ہے؟ جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو۔ کان، آنکھ اور دل ہر ایک کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (اسریٰ)
مجھ سے غلطی ہو گئی، معافی کا خواستگار ہوں۔ آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے۔ (یوسف)
تم میری اونٹنی پر سوار ہو سکتی ہو۔ تم جو بھلائی بھی کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔ (البقرہ)
عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا تاکہ وہ سوار ہو سکے۔ مگر اس نے ایک آیت پڑھی۔ مومنین سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ (النور)
انہوں نے نگاہیں جھکا لیں مگر اونٹنی بدک گئی اور بھاگ پڑی۔ اس کشمکش میں بڑھیا کے کپڑے پھٹ گئے اس نے اس نے کہا: تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال کی وجہ سے ہے۔ (الشوریٰ)
انہوں نے کہا میں اونٹنی باندھ دیتا ہوں۔ وہ بولی: ہم نے اس مسئلے کا حل سلیمان کو سمجھا دیا۔ (الانبیاء)
اونٹنی کو انہوں نے باندھا اور وہ سوار ہوئی۔ سوار ہوتے وقت دعا مانگی ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کیا اور ہم اسے کرنے والے نہیں تھے۔ (الزخرف)
عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے مہار پکڑی اور چل پڑے۔ وہ تیز تیز دوڑتے جا رہے تھے اور چیخ کر اونٹنی کو ہانک رہے تھے۔ بڑھیا نے آیت پڑھی: اپنے چلنے میں اعتدال سے کام لو اور اپنی آواز پست رکھو۔ (لقمان)
وہ آہستہ ہو گئے اور وقت گزارنے کے لیے ترنم سے اشعار پڑھنے لگے اس پر بڑھیا نے کہا: قرآن سے جتنا حصہ آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ (المزمل)
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھا۔ اس پر اس نے یہ آیت پڑھی: اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھو جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ (مائدہ)
وہ چلتے گئے یہاں تک کہ انہوں نے اس قافلے کو جالیا جس سے وہ بچھڑی تھی۔ عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا اس قافلے میں تمہارا کون ہے؟ جواب میں اس نے یہ آیت پڑھی: مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف)
وہ سمجھ گئے کہ اس کے بیٹے ہیں۔ پوچھا وہ قافلے میں کیا کرتے ہیں؟ کہا: اور علامتوں اور ستاروں ہی سے وہ راستہ معلوم کرتے ہیں۔ (النحل)
وہ جان گئے کہ اس کے بیٹے گائیڈ ہیں۔ اب انہوں نے بیٹوں کے نام پوچھے۔ جواب میں اس نے مختلف آیات کے تین حصے پڑھے۔ اللہ نے ابراہیم کو خالص دوست بنا لیا۔ (النساء) اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا۔ (النساء) اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی سے تھام لو۔ (مریم)
عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے ابراہیم، موسیٰ اور یحییٰ کے نام سے پکارا تو خاتون کے تینوں فرزند آ موجود ہوئے۔ سب بیٹھ گئے۔ پھر بڑھیا نے بیٹوں کو مخاطب کر کے یہ آیت پڑھی: اب کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کی طرف بھیجو وہ دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے پھر اس میں سے کچھ لے آئے۔ (الکہف)
چنانچہ ایک بیٹا گیا اور کھانا لے آیا۔ کھانا سامنے رکھا گیا تو اس نے کہا: مزے سے کھائو اور پیو یہ ان کا بدلہ ہے جو تم نے پچھلے دنوں کیا۔ (الحاقہ)
پوچھنے پر بیٹوں نے بتایاکہ ان کی ماں نے چالیس برس سے قرآنی آیات کے علاوہ کوئی جملہ نہیں بولاتاکہ زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جس پر گرفت ہو۔
یہ ایک مشکل اور نادر کام تھا جو اس پارسا خاتون نے کیا۔ ہم اس طرح نہیں کر سکتے نہ ہی اس کا حکم ہے۔ اس لیے کہ یہ تقویٰ ہے فتویٰ نہیں لیکن ہم تو دوسری انتہا پر ہیں۔

قرآن کریم سے ہمارا تعلق محض اتنا ہی ہے کہ بچپن سے مولوی صاحب سے ٹیوشن پڑھیں پھر کسی کی موت پر ایک دو پارے پڑھ لیں اور بہت تیر ماریں تو ایک ختم رمضان میں کر لیں۔

قرآن کریم کو سمجھنا اور سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونا اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس مضحکہ خیز صورتحال کا تصور کیجیے جس میں ہر شخص اسلام کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اسلام کے نام پر ان گنت تنظیمیں، جماعتیں اور گروہ وجود میں آرہے ہیں جو باہم دست وگریبان ہیں۔ کوئی اسلامی نظام کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کوئی لال قلعہ سے لے کر وائٹ ہائوس تک پر قبضہ کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ گاڑیوں کے پچھلے شیشوں پر اور دکانوں کی پیشانیوں پر سب نے اپنے اپنے عقیدے لکھ رکھے ہیں لیکن اٹھانوے فیصد کو معلوم ہی نہیں کہ قرآن کریم میں لکھا کیا ہے۔ قرآن کریم تو دور کی بات ہے پانچ وقت کی نماز پڑھنے والوں کو یہی نہیں معلوم کہ جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے۔ ظلم کی انتہایہ ہے کہ بھاری اکثریت ہر نماز، ہر رکعت میں سورۃ اخلاص پڑھ رہی ہے حالانکہ نبی اکرمﷺ نے سوائے جمعہ اور عیدکے عام فرض نمازوں میں کوئی ایک یا چند متعین سورتیں نہیں پڑھیں۔

سیدنا عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد اور پھر دادا کے توسط سے روایت کرتے ہیں کہ بڑی یا چھوٹی کوئی سورت ایسی نہیں جسے میں نے نبی اکرمﷺ کو فرض نمازوں میں پڑھتے نہ سنا ہو۔ آج یہ ڈیوٹی صرف نماز پڑھانے والے امام کی ہے کہ وہ مختلف سورتیں پڑھے۔

اس صورتحال کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں بالعموم اور اہل ِپاکستان میں بالخصوص ایک طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو قرآن کے معانی اور مفاہیم کو سمجھ سکتا ہے اور عام مسلمان اس طبقے کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔ آپ نمازِ جمعہ سے پہلے کی جانی والی تقریر کی مثال لیجیے۔ خطیب صاحب کے سامنے جو نمازی بیٹھے ہوتے ہیں ان کی بھاری اکثریت کو بالکل معلوم نہیں کہ جو آیات پڑھی گئی ہیں ان کا معنی مولوی صاحب درست بتا رہے ہیں یا اپنے مطلب کا اضافہ کر رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ خطیب حضرات ایسا کرتے ہیں۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کریں تو سامنے بیٹھے ہوئے دوپایوں کو معلوم ہی نہ ہو۔

کیا قرآن کریم مدارس اور مدارس میں پڑھنے پڑھانے والوں کی اجارہ داری میں مقیّد ہو کر رہ گیا ہے ؟ اس کا الزام مدارس اور اہل مدرسہ پر ڈالنا قطعی ناروا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں بھیج سکتے ہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے بیرون ملک یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوا سکتے ہیں لیکن اس کو اتنی عربی نہیں پڑھوا سکتے کہ وہ قرآن کریم کو سمجھ سکے اور کسی سے اس ضمن میں دھوکہ نہ کھائے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ عام گفتگو میں قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیتے اور اسی کی آیات کے حصے ضرب الامثال کی صورت اختیار کرتے لیکن اسلام کے اس قلعہ میں اٹھانوے،ننانوے فیصد مسلمان کتاب اللہ کے معانی ومفاہیم سے یکسر بے بہرہ ہیں۔ پھر بدقسمتی سے ایسے گروہ بھی پھر رہے ہیں جو لوگوں کو باور کراتے پھرتے ہیں کہ قرآن سمجھنا صرف علماء کا کام ہے اور تم صرف تسبیحات اور وظائف پر گزارہ کرو۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بارہا یہ نہ کہا جاتا: ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا۔ کہیں یہ بتایا: اے نبی! ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان پر سہل بنا دیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الدخان)

قرآن کریم میں یہود اور نصاریٰ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ (التوبہ)
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب عیسائی سے مسلمان بنے تو اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا کہ رب بنانے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا:
جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جسے حلال کہتے ہیں تم حلال مان لیتے ہو۔
سیدنا عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ایسا تو ہے۔ فرمایا بس یہی ان کو رب بنا لینا ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اپنے علماء اور درویشوں کو رب بنا بیٹھے ہیں؟ ؟ ؟ اللہ کے بندو! اپنے بچوں کو قرآن کے معانی سے براہِ راست آگاہ کرنے کا انتظام کرو تاکہ وہ ان لوگوں سے بچ سکیں جو اسے اپنی اجارہ داری بنائے بیٹھے ہیں۔
 
Top