اوجز المسالک شرح موطأ امام مالک - منہج و اسلوب

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
اوجز المسالک شرح موطأ امام مالک: منہج و اسلوب

ڈاکٹر مرسل فرمان
اسسٹنٹ پروفیسر, ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اینڈ ریلیجیس سٹڈیز, ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ
جاوید اقبال
ایم فل ریسرچ سکالر، ہزارہ یونیورسٹی, مانسہرہ
ماخوذ hazaraislamicus.org


تعارف

دوسری صدی ہجری کے اخیر میں امام مالکؒ)م 179ھ) نے ایک مجموعہ حدیث موطأ کے نام سے پیش کیا، جس کی خصوصیات میں سے اہم بات یہ ہےکہ اگر اسکامصنّف ایک طرف امامِ حدیث ہیں تو دوسری طرف فقہ کےبھی امام ہیں،

شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ(م 1239ھ) نے موطأ کے سولہ نسخے شمار کیے ہیں[ii]، مقبولیت کی وجہ سے اس کی کئی شروح، تعلیقات اور حواشی لکھیں گئی ہیں،جن میں سے بعض کو ذکر کیا جاتا ہے،

مثلاً ابن عبدالبرؒ(م 463ھ) نے التمہید اور الاستذکار کے نام سے،
ابن رشیق القیروانی المالکیؒ(م456ھ) نے شرح موطأ کے نام سے،
ابومروان عبد الملک بن حبیب بن سلیمان القرطبی المالکیؒ(م 238ھ) نےتفسیر الموطأ کے نام سے،
احمد بن نصر الداودی المالکیؒ(م402ھ)نے النامی فی شرح الموطأکے نام سے،
ابن العربیؒ(م543ھ) نے القبس فی شرح موطأ مالک بن انس اور المسالک فی شرح المو طأ لمالک کے نام سے،
محمد بن سحنون المالکیؒ (م 256ھ)نے شرح الموطأ کے نام سے،
محمد بن یحییٰ القرافیؒ(م 1008ھ) نے شرح موطأ کے نام سے،
محمد بن سلیمان بن خلیفہؒ(م 500ھ) نے المحلی کے نام سے،
عبد اللہ ابو محمد بن محمد بن ابو القاسم الفرحونؒ(م763ھ)نے کشف الغطاء فی شرح مختصر الموطأ کے نام سے،
جلال الدین سیوطیؒ(م911ھ) نےاسعاف المبطأ فی رجال الموطأ کے نام سے،
قاضی اسماعیل بن اسحاقؒ(م 282ھ) نے شواھد الموطأ اور زیادات الموطأ کے نام سے،
عثمان بن یعقوب بن حسین الکرخیؒ(م 1171ھ)نے المھیأ فی کشف اسرار الموطأ کے نام سے،
اور ابوالولید سلیمان بن خلف باجیؒ (م 474ھ) نے المنتقیٰ کے نام سے شروحات لکھیں ہیں۔

برصغیر پاک و ہند کے علماء میں

مولانا عبد الحئی لکھنویؒ(م 1304ھ)نے التعلیق الممجد کے نام سے،
حضرت شاہ ولی اللہؒ(م 1176ھ) نے المصفی اور المسوی کے نام سے،
ا بو یوسف یعقوب لاہوریؒ(م 1098ھ)نے المصفی فی شرح الموطأ کے نام سے
اور شیخ سلام اللہؒ (م 1229ھ)[iii]نے المحلی کے نام سےاس کی شروح لکھیں ہیں۔[iv]

ان ہی شروح میں سےایک”اوجز المسالک اِلیٰ موطأمالک"بھی ہے، جس میں تقریباً ان تمام شروح کا خلاصہ ہے،

اور یہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ (م 1402ھ)کی تصنیف ہے جو ہر قسم کے مسلکی تعصب سے بالاتر ہے اور اہلِ علم میں اس کو مقبولیت حاصل ہے، اگر اس کے منہج و اسلوب کو سامنے رکھ کر اس کا مطالعہ کیا جائے تو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒکے حالاتِ زندگی
پیدائش

آپؒ اکابر علماء دیوبند میں سے ہیں، مولانا محمد یحییٰ کاندھلویؒ(م1334ھ)کے صاحبزادے ہیں، 11 رمضان المبارک 1315ہجری میں ہندوستان کے شہر کاندھلہ میں پیدا ہوئے۔[v]

تعلیم وتربیت

آپؒ نے اپنے والد ماجد مولانا محمد یحییٰ کاندھلویؒ سے قرآن کریم حفظ کیا،[vi] 1328 ہجری تک گنگوہ میں قیا م رہا، اس عرصے میں آپؒ نے دینی رسائل، بہشتی زیور اور فارسی کی ابتدائی کتابیں گنگوہ میں رہ کر زیادہ تر اپنے چچا مولانا محمد الیاسؒ(م1363ھ) سے پڑھیں،[vii]حضرت رشید احمد گنگوہیؒ(م 1323ھ)کی وفات کے بعد مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ(م 1346ھ) کے اصرار پر مولانا محمد یحییٰ کاندھلویؒ نے سہارنپور آکر مستقل قیام فرمایا، اور مظاہر العلوم کے مدرسین میں شامل ہوگئے، شیخ الحدیث ؒ نے دینی اور عربی علوم کا باقاعدہ آغاز سہارنپور آکر 1328 ہجری میں کیا،[viii]مولانا محمد یحییٰ کاندھلویؒ تعلیم میں انتہائی مجتہدانہ مہارت رکھتے تھے، ان کا اپنا ایک انداز ِ تدریس تھا، چنانچہ انہوں شیخ الحدیثؒ کواسی خاص انداز کے ساتھ پڑھایا۔ آپؒ نے بقیہ درسیات کی تکمیل سہارنپور میں کی۔[ix] منطق آپؒ نے زیادہ تر مولانا عبد اللطیف صاحبؒ)م1373ھ)سے پڑھی[x] اور نصاب کی منتہیانہ کتب آپؒ نے اپنےوالد ماجد مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی ؒ سے پڑھیں۔ 7محرم الحرام 13322 ھ کو ظہر کی نماز کے بعد مشکوٰۃ شریف شروع کی، 1333ھ میں دورہ حدیث کی ابتداء کی۔[xi]آپؒ نے صحاح ستہ ایک مرتبہ اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور دوسری مرتبہ صحیحین، سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، موطأ امام محمد اور شرح معانی الاٰثار مولانا خلیل احمد ایوبی الانصاریؒ سے پڑھیں۔[xii]

تدریسی زندگی کا آغاز

یکم محرم 1335ہجری میں آپؒ نے مظاہر العلوم سہارنپور سےتدریس کا آغاز کیا[xiii] اور اپنی غیرمعمولی اہلیت، قوت مطالعہ، اور فنی مہارت کی بنیاد پر ابتدائی کتب کی ارتقائی تدریس کے بعد 13411ہجری میں حدیث کی تدریس شروع کی۔[xiv]1388ہجری تک حدیث کی تدریس کرتے رہیں، اس کے بعد آپؒ نے اپنے اکثر اوقات کو تصنیف و تالیف میں صرف کیا۔[xv]

مشہور تصانیف

آپؒ کئی کتب کے مصنف ہیں جن میں اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک، لامع الدراری علی جامع البخاری، الکوکب الدری علیٰ جامع الترمذی، الابواب و التراجم لصحیح البخاری، فضائل اعمال، حکایات صحابہ،فضائل صدقات، تاریخ مشائخ چشتیہ، تاریخ مظاہر، تقاریر مشکوٰۃ، یادِ ایام، شرح الفیہ اردو، خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی، شذرات الحدیث، اعتدال فی مراتب الرجال، مقدمات کتب حدیث، جزء افضل الاعمال، سیرتِ صدیق،حواشی اصول الشاشی،حواشی کلامِ پاک،تقریرِ نسائی شریف،مشائخ تصوف،فتنہ مودودیت،آپ بیتی، نظام مظاہر العلوم،مکتوباتِ تصوف اور اکابر کا رمضان وغیرہ مشہور ہیں۔[xvi]

فضائلِ اعمال کی مقبولیت کی وجہ

شیخ ابو الحسن علی ندوی ؒ (م 1420ھ) فرماتے ہیں[xvii]کہ آپؒ کی تصانیف مطبوعہ و غیر مطبوعہ کی تعداد سو سے زائد ہے، لیکن ان میں حکایات صحابہ اور کتب فضائل (یعنی فضائل نماز، فضائل قرآن، فضائل رمضان وغیرہ جن کا مجموعہ فضائل اعمال کے نام سے مرتب ہے) کو تبلیغی جماعت کے نصاب میں شامل ہونے اور افادہ عام کی وجہ سے مقبولیت حاصل ہے جس کے مطبوعہ نسخوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے۔ شیخ ابو الحسن ندویؒ مزید فرماتے ہیں[xviii]کہ”مولانا محمد الیاس ؒ فرماتے تھے کہ فضائل کا درجہ مسائل سے پہلے ہے، فضائل سے اعمال کے اجر پر یقین ہوتا ہے جو ایمان کا مقام ہے، او ر اس سے آدمی عمل کے لئے آمادہ ہوتاہے، مسائل معلوم کرنے کی ضرورت کا احساس تب ہی ہوگا جب وہ عمل پر تیار ہوگا، اس لئے ہمارے نزدیک فضائل کی اہمیت زیادہ ہے" تو اس ضرورت کی تکمیل کے لئے فضائل ِاعمال لکھی گئی ۔

وفات

آپؒ مدینہ منورہ میں 2 شعبان 1402 ھ میں چند روز زیر علاج رہنے کے بعد رحلت فرما گئے، اور جنت البقیع میں تدفین کی گئی۔[xix]

اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک کی وجہ تالیف اور وجہ تسمیہ
شیخ الحدیثؒ نے اوجز المسالک کی تالیف 1345 ہجری میں شروع فرمائی اور اس کی تالیف پر تقریباً 30 سال سے زائد کا عرصہ صرف ہوا۔ [xx] ہندوستان میں اس کی پہلی طباعت چھ جلدوں میں ہوئی جب کہ دوسری مرتبہ اس کی طباعت قاہر ہ اور بیروت سے پندرہ جلدوں میں ہوئی[xxi]، اور اب دارالکتب العلمیۃ بیروت نے اس کی طباعت سترہ جلدوں میں کی ہے۔

آپؒ اوجز المسالک کے مقدمے میں سببِ تالیف کے بارے میں فرماتے ہیں[xxii]کہ مجھ سے بعض مخلص دوستوں نے اصرار کیا کہ موطأ امام مالک کی شرح لکھی جائے کیونکہ اس کو اہل علم میں بہت مقبولیت حاصل ہے اور اس کے مشکل مقامات کو حل کرنے کی شدید ضرورت ہے، اگرچہ اس کی بہت سے شروح لکھی گئیں ہیں، جن میں یا تو بہت اختصار سے کام لیا گیا ہے جو کہ مقصود میں مخل ہے اور یا تھکا دینے والی طوالت سے کام لیا گیا ہے۔

علامہ محمد یوسف بنوریؒ (م 1397ھ) فرماتے ہیں[xxiii] کہ ہندوستان کے اہلِ علم کی تحقیقات چونکہ عرب علماء تک نہیں پہنچیں تھیں اس لئے آپؒ نے موطأ کی شرح لکھی تاکہ اس میں ان تحقیقات کو بھی شامل کیا جائے۔

اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اوجز کے لفظی معنیٰ ہے اختصار ہے[xxiv] تو اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں فقہی مسالک کا بیان جامع مگر مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے اور یہ موطأ امام مالک کی شرح اور ان پر لکھی جانے والی شروحات کا خلاصہ ہے،اس لئے اس کا نام اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک رکھا گیا ہے۔

اوجز المسالک اہل علم کی نظر میں

شیخ ابو الحسن علی ندویؒ فرماتے ہیں[xxv]کہ”میں نے علامۂ حجاز مفتی مالکیہ سیدعلوی مالکی ؒ سے جو کہ اپنے دور کے نہایت متبحر اور وسیع النظر عالم تھے، اوجز کی تعریف سنی وہ اس پر تعجب کا اظہار کرتے تھے کہ خود مالکیہ کے اقوال و مسائل کا اتنا گہرا علم اور اتنی صحیح نقل موجب حیرت ہے، وہ فرماتے تھےکہ” اگر شیخ زکریا ؒ مقدمہ میں اپنے آپ کو حنفی ظاہر نہ کرتے تو میں کسی کےکہنے پر ان کو حنفی نہ مانتا اور میں ان کو مالکی بتاتا، اس لئے کہ اوجز المسالک میں مالکیہ کے جزئیات اتنی کثرت سے ہیں کہ ہمیں اپنی کتابوں میں تلاش میں دیر لگتی ہے"۔

شیخ ابو الحسن علی ندوی ؒ مزید فرماتے ہیں[xxvi] کہ امارات ِخلیج کے چیف جسٹس اور مذہبِ مالکی کے بڑے عالم جناب شیخ احمد عبدالعزیز بن مبارکؒ نے بھی اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک کی طباعت و اشاعت میں بڑی دلچسپی لی ہے۔

اوجز کی مقبولیت کےلئے یہ بہت بڑی بات ہے کہ حنفی مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک کے اہل علم بھی اس کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں، اور دوسرے مسالک کے اقوال و جزئیات کو مسلکی تعصب کے بغیر نقل کرنا بھی مؤلف کی اعتدال پسندی کا ثبوت ہے۔

اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک پر تحقیقی کام کا جائزہ

اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک پر مصر کے ایک سکالر صالح شعبان نے تعلیق کی ہے، جو کہ دارالکتب بیروت نے 1999ء میں شائع کی ہے، اسی طرح ڈاکٹر تقی الدین ندوی صاحب نے بھی اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک پر تعلیق کی ہےجو کہ 2003ء میں دارالقلم دمشق سے شائع ہو ئی ہے۔

مقدمہ اوجز المسالک

مقدمے میں علمِ حدیث کا تعارف،تاریخ اور تدوین حدیث پر بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد موطأاور امام مالکؒ کا مفصل تعارف اور دونوں کی امتیازات و خصوصیات کا تذکر ہ کیا گیا ہے۔ موطأکی شروح اور عہد بعہد خدمات کا بھی جائز ہ لیا گیا ہے، مشائخ اور سلسلۂ اسانید کی تفصیل، امام ابوحنیفہؒ(م150ھ) کا تذکرہ اور ان کی محدثانہ حیثیت اور ان کے اصول و مسلک کا تذکرہ ہے، جس کے بعد متفرق فوائد اور توضیحات بیان کی گئی ہیں۔[xxvii]

مقدمہ کے بعد اوجز المسالک کا منہجِ توضیح

موطأ کی روایت نقل کرنے کے بعد اس کی جزئیات میں تقسیم

مقدمے کے بعد کتاب کے بقیہ حصے میں شیخ الحدیث ؒ کا منہج توضیح یہ ہے کہ آپؒ پہلے موطأکی روایت کو سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں، مثلاً:

وحدثني عن مالك عن جعفر بن محمد بن علي عن أبيه أن عمر بن الخطاب ذكر المجوس فقال: ما أدري كيف أصنع في أمرهم فقال عبد الرحمن بن عوف أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول سنوا بهم سنة أهل الكتاب

اس کے بعد حدیث کوجزئیات میں تقسیم کرتے ہیں، پھرا یک ایک جز کی توضیح کرتے ہیں۔ پہلے حدیث کی سند اور راویوں کو ائمہ جرح و تعدیل کے اصول و اقوال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی توضیح بیان کرتے ہیں، اور حدیث کی حیثیت کو بھی بیان کیا جاتاہے، مثلاً اسی روایت کے ذیل میں ہے کہ : (مالك عن جعفر) الصادق (بن محمد بن علي) بن سبط النبيﷺ (عن ابيه) محمد الباقر(ان عمر بن الخطاب) قال ابن عبد البر هذا منقطع ... الخ"

اس روایت کی سند کی وضاحت کے لئےشیخ الحدیثؒ نے رواۃ کو قوسین کے درمیان ذکر کرنے کے بعد وضاحت کی ہے کہ جعفر سے مراد جعفر الصادقؒ ہے اور” عن ابیہ" میں ”ابیہ "سے مراد محمد الباقرؒ ہے، اس کے بعد حدیث کی حیثیت کو بھی ابن عبدالبرؒکے قول کی روشنی میں بیان فرمایا ہے کہ یہ روایت منقطع ہے، اور اس کے بعد وجہ انقطاع کو بھی بیان فرمایا ہے۔[xxviii]

توابع اور شواہد کا ذکر

مذکورہ روایت کے لئے دیگر کتب حدیث میں اگر توابع یا شواہد[xxix]موجود ہوں تو ان توابع اور شواہد کو بھی ذکر کرتے ہیں اور حوالے کے طور پر صرف کتاب کے نام پر اکتفاء کرتے ہیں مثلاً : مذکورہ روایت کے بارے میں شیخ الحدیثؒ فرماتے ہیں کہ اس کو عبدالرزاق ؒنے اپنی مصنف میں ابن جریج ؒکی سند سے روایت کیا ہے اور اسحاق بن راہویہ ؒنے عبد اللہ بن ادریس ؒکی سند سے روایت کیا ہے، اور یہ بھی منقطع ہے، اور یہ روایت بعض سندوں کے اعتبار سے مرسل ہے اور بعض سندوں کے اعتبار سے متصل ہے اور اس کےلئے طبرانی میں مسلم بن علاء الحضرمی کی روایت شاہد ہے۔

مصدر اصلی سے بلاکسی ترمیم نقلِ عبارت

شیخ الحدیث ؒ نے کتاب کے اکثر حصے میں مصادر اصلیہ سے بلا کسی ترمیم عبارات نقل کی ہیں، اور ساتھ ساتھ تصریح بھی کی ہے کہ یہ عبارت فلاں کتاب سے ماخوذ ہے یا اس کا قائل فلاں شخص ہے، مثلاً فرماتے ہیں کہ شرح اقناع میں ہے کہ :”ولا يأذن له في دخولها الحجاز غير حرم مكة إلا لمصلحة لنا: كرسالة وتجارة فيها كبير حاجة فإن لم يكن فيها كبير حاجة لم يأذن له إلا بشرط أخذ شئ من متاعها كالعشر"یہ عبارت بلاکسی ترمیم نقل کی گئی ہے اور ساتھ بتایا بھی گیا ہے کہ یہ عبارت شرح اقناع کی ہے۔[xxx]

"قلتُ"کے ساتھ زیرِ بحث مسئلے پر تبصرہ

سابقہ روایت کے ذیل میں مذکورہ مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ الحدیثؒ فرماتے ہیں کہ ”قلتُ"میں کہتا ہوں کہ : مجوس سے جزیہ لینے کے سلسلے میں صراحتاً احادیث آئی ہیں۔ ان میں سے مسند احمد، بخاری، ابوداؤد اور ترمذی کی روایات ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے مجوس سے جزیہ نہ لینے کی تھی یہاں تک کہ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے مجوس ہجر سے جزیہ وصول فرمایا ہے۔

ہر جگہ"قلتُ”سے شیخ الحدیث کا قول مراد نہیں ہوتا

شیخ الحدیثؒ زیرِ بحث مسئلے پر "قلتُ"کے ساتھ تبصرہ کرتے ہیں، لیکن ہرجگہ"قلتُ"سے آپؒ کا قول مراد نہیں ہوتا بلکہ جس کتاب سے عبارت ماخوذ ہوتی ہے صاحبِ کتاب کا قول مراد ہوتاہے مثلاً :”فان قلت ما هذه الزیادة؟ اعنی قولہ(الا ان یکون غسیلاً)قلتُ : صحیح"یہ عبارت عمدۃ القاری کی ہے،[xxxi] اور یہاں”قلتُ"کا قائل صاحب کتاب علامہ عینیؒ (م855ھ) ہیں۔[xxxii]

مشکل الفاظ کی لغوی، صرفی اور نحوی تحقیق

شیخ الحدیث ؒمشکل الفاظ کی لغوی، صرفی اور نحوی تحقیق ائمہ فن کے اقوال کی روشنی میں کرتے ہیں، اور اگر کسی جگہ، قبیلے یا قوم کا ذکر ہے تو بقدر ضرورت اس کی بھی وضاحت کرتے ہیں، مثلاً:”جزیۃ اھل الکتاب و المجوس"اس عبارت کی توضیح یوں بیان فرماتے ہیں کہ:”(اما المجوس) مجوس کے بارے میں لسان العرب میں ہے کہ:

”المجوسیۃ" شہد کی مکھی کا نام ہے اور مجوسی اسی کی طرف منسوب ہےاور اس کی جمع مجوس ہے اور ابن سیدۃ ؒفرماتے ہیں کہ : مجوس ایک مشہور فرقہ ہے اور یہ لفظ جمع ہے اور اس کا واحد مجوسی ہے۔ آپؒ کے علاوہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ :یہ لفظ معرب ہے اورفارسی سے لیا گیا ہے جس کی اصل "منج کوش" ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نام کا ایک چھوٹے کانوں والا شخص تھا جس نے سب سے پہلے مجوس کا دین اختیا ر کیا اور لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دینے لگا۔ تو عربوں نے اس نام کو معرب بنا یا اور"منج گوش"سےمجوس کہنے لگے۔ عرب لوگ کبھی کبھی اس لفظ یعنی”مجوس"کو کسی قبیلے کے ساتھ تشبیہ دیتے وقت غیر منصرف بھی پڑھتے ہیں اور یہ اس لئے کہ اس میں عُجمہ اور علمیت جمع ہوجاتےہیں"۔[xxxiii]

مختلف مسالک کا بیان

اگر روایت میں کسی مسئلے کا بیان ہے تو شیخ الحدیثؒ , صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہؒ کے اقوال اور دلائل کے علاوہ اہلِ ظواہر اور دیگر مجتہدین کے مسالک اور ان کی تفصیلی دلائل بھی بیان کرتے ہیں۔نیز ہر مسلک کے فروع کو اصل کتب اور بنیادی مصادر سے بیان کیا جاتاہے، تقریباً کسی بھی مسلک کی کتاب کی اصل عبارت بلا تغیر و تبدل ذکر کرتے ہیں اور ساتھ صراحت بھی کرتے ہیں کہ یہ عبارت فلاں کتاب سے ماخوذ اور اس کا قائل فلاں شخص ہے۔ بعض اوقات شیخ الحدیث ؒ قائل کااصل نام جب کہ بعض اوقات اس کی کنیت یا لقب یا صرف کتاب کےذکر پراکتفا ء کرتے ہیں مثلاً فرماتے ہیں: "یہ قول ابن عبد البر ؒکا ہے"۔[xxxiv] بعض جگہوں میں فرماتے ہیں کہ ”ابو عمرؒ فرماتے ہیں"[xxxv] تو ابن عبد البرؒ اور ابو عمرؒ کا مصداق ایک ہی ہے۔[xxxvi] اس کے ساتھ ساتھ آپؒ توضیح کے دوران فنون کی مختلف اصطلاحات سے بھی مدد لیتے ہیں، مثلاً آپؒ بعض اوقات مسلک کی تصریح کیے بغیر بیان کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ فلاں کتاب سے لیا گیا ہے، یا فلاں شخص کا قول یہ ہے،تو ایسے بیان کے قائلین کے مسلک کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کتاب یا قائل کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ وہ حنفی، مالکی،حنبلی،شافعی، ظاہری یا مجتہد مطلق وغیرہ ہے۔

”اصحابنا" سے ہرجگہ احناف مراد نہیں ہوتے

شیخ الحدیثؒ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی مسلک کو ذکر کرنے کے لئے اس مسلک کی کتب سے بلا ترمیم پوری عبارت نقل کرتے ہیں تو اس میں بعض اوقات یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ ”فقال اصحابنا" تو ان الفاظ سے مراد بعض مقامات پر تواحناف ہوتے ہیں مثلاً یہی عبارت”فقال اصحابنا"امام جصاص ؒ (م370ھ)کی احکام القرآن کی ہے[xxxvii] جو کہ شیخ الحدیثؒ نے بلاترمیم نقل کی ہے[xxxviii] اور اس سے مراد احناف ہیں کیونکہ امام جصاص ؒخود حنفی ہیں۔ لیکن ہر جگہ”اصحابنا"سےاحناف مراد نہیں ہوتے بلکہ جس کتاب سے وہ عبارت ماخوذ ہوتی ہے صاحبِ کتاب کےہم مسلک لوگ مراد ہوتے ہیں مثلاً :”قال القاضی ابو محمد و جماعۃ من اصحابنا"[xxxix]اس عبارت میں اصحاب سے مراد مالکیہ ہیں، کیونکہ یہ عبارت المنتقیٰ شرح الموطأسے لی گئی ہے جو کہ علامہ باجیؒ کی شرح ہے اور وہ مالکی ہیں۔

مطلق لقب یا کنیت کی تحقیق

شیخ الحدیثؒ بعض اوقات مطلقاً کسی قائل کا لقب یا کنیت ذکر فرماتے ہیں، مثلاً یہ کہ ”امام فرماتے ہیں"[xl]تو اس سے ہرجگہ امام ابوحنیفہ ؒمراد نہیں ہوتے یا مطقاً ذکر کرتے ہیں کہ”قاضیؒ فرماتے ہیں "[xli]تو اس سے ہر جگہ امام ابویوسفؒ مراد نہیں ہوتے بلکہ جس کتاب سے عبارت ماخوذ ہوتی ہے صاحب ِ کتاب کے مسلک کو معلوم کیا جائے کہ اس کے مسلک کے لوگ امام یا قاضی کا لقب کس کےلئے استعمال کرتے ہیں یا اس کتاب میں امام یا قاضیؒ سے مراد کون ہے۔ مثلاً ایک جگہ شیخ الحدیثؒ نے ذکر کیا ہے کہ:”ا مام فرماتے ہیں کہ درست بات یہ ہے کہ کفار کے تمام مقاصدمثلاً ان کو ان کے حال پر برقرار رکھنا،ان کےخون کی حفاظت کرنا، ان کی خواتین اور بچو ں کی حفاظت کرنا اور ان سے ہر قسم کے ضرر کو دفع کرنے کو جزیہ کا عوض بنادیا جائے گا"۔[xlii]تو یہ عبارت فروع شافعیہ میں سے حاشیہ بجیرمی سے ماخوذ ہے، اور اس کتاب میں امام سے امام الحرمین عبد الملک بن عبد اللہ بن یوسف بن محمد الجوینی، ابوالمعالی، رکن الدین(م 419 ـ 478ھ) مراد ہیں، کیونکہ شوافع کی دوسری کتب میں یہ قول ان کی طرف منسوب ہے۔[xliii]

ایک ہی نام کے مختلف اعلام کی تحقیق کا طریقہ کار

شیخ الحدیثؒ بعض اوقات ایک ہی نام کے مختلف اعلام ذکر کرتے ہیں جن میں امتیاز کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دیکھا جائے کہ وہ عَلَم کسی حدیث کی سند میں واقع ہے یا عام فقہی عبارت میں۔ اگر حدیث کی کسی سند میں ہے تو اصول جرح و تعدیل کا لحاظ کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ جس سے وہ روایت کررہا ہے وہ اس کے اساتذہ میں سے ہے یا نہیں , ان کا زمانہ ایک ہے یا نہیں۔ اسی طرح راوی کو بھی دیکھا جائے جو اسی سند میں اس سے روایت کررہا ہے وہ اس کے تلامذہ میں سے ہے یا نہیں، ان کا زمانہ ایک ہے یا نہیں ہے، اور اگر عام فقہی عبارت میں واقع ہے تو دیکھا جائے کہ وہ عبارت کس کتاب سے ماخوذ ہے، اس کتاب کی طرف رجوع کیا جائے اور اس میں آگے پیچھے عبارت کو مطالعہ کیا جائے کہ اس میں مذکورہ عَلَم سے کو ن مراد ہے، یا یہ دیکھاجائے کہ جس کا قول نقل کیاجارہا ہے اسی نام کو معجم المؤلفین (تالیف عمر رضا كحالہ)میں تلاش کیا جائے اور اس کی تصنیفات یا تالیفات کو معلوم کیا جائے پھر مذکورہ قول کو اس میں تلاش کیا جائے،جس کتاب میں قول مل جائے تو وہی صاحبِ کتاب مراد ہوگا، مثلاً : شیخ الحدیثؒ بعض اوقات فرماتے ہیں کہ یہ قول قرطبی کا ہے یا قرطبی فرماتے ہیں،[xliv]تو قرطبی نام کے دو عَلَم ہیں، ایک مفسر ہے اور ایک محدث ہے، تو دیکھنا یہ ہوگا کہ بات تفسیر کی ہورہی ہے یا حدیث کی، تو معجم المؤلفین سے ہمیں معلوم ہوگا کہ دونوں اعلام کی تصانیف کونسی ہیں تو تلاش کرنے پر ہمیں معلوم ہوگا کہ ایک قرطبی کی کتاب "المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم" حدیث میں ہے جب کہ دوسری قرطبی کی تفسیر قرطبی ہے۔ لیکن چونکہ عبارت میں مذکورہ مسئلے کا تعلق حدیث کے ساتھ ہے لہٰذا ہم حدیث کی بات کو حدیث کی کتاب میں تلاش کریں گے۔ اگر ہمیں وہ قول "المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم" میں مل جائے توعبارت میں مذکورہ عَلَم سے قرطبی محدث مراد ہوں گے, نہ کہ وہ قرطبی جو مفسر ہیں۔ ایسی صورت میں عَلَم کا تعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے معلوم کیا جائے کہ قول کا تعلق کس فن لغت، صرف نحو، فقہ، تفسیر یا حدیث کے ساتھ ہے، پھر اس فن کے اعتبار سے عَلَم کا تعین کیا جائے ۔

ایک ہی کتاب کے دو مختلف ناموں کا ذکر

شیخ الحدیثؒ بعض اوقات ایک ہی کتاب کے مختلف نام ذکر کرتے ہیں، مثلاً فرماتے ہیں کہ : یہ مسئلہ”اتحاف"نامی کتاب میں ہے،[xlv] جب کہ دوسری جگہ اسی کتاب کو”شرح احیاء" کے نام سے ذکر تے ہیں، [xlvi]حالانکہ یہ ایک ہی نام ہے اور پورا نام ”اتحاف السادۃ المتقین بشرح احیاء علوم الدین"ہے جو کہ علامہ زبیدیؒ(م 1205ھ)کی تالیف ہے۔

ایک ہی نام کی دو مختلف کتابوں میں احتیاط

شیخ الحدیثؒ بعض اوقات دو مختلف کتابوں کا ایک ہی نام مؤلف کے نام کی تصریح کیے بغیر ذکر کرتے ہیں مثلاً فرماتے ہیں کہ : یہ مسئلہ محلی میں ہے۔ حالانکہ محلی نام کی ایک شرح موطأ پرمحمد بن سلیمان بن خلیفہ ؒکی ہے اوراسی نام کی دوسری شرح موطأ پر شیخ سلام اللہؒ جو شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کی اولاد میں سے ہیں،ان کی ہے۔ تو بعض جگہوں میں اول الذکر کتاب جب کہ بعض مقامات میں ثانی الذکر کتاب مراد ہوتی ہے۔ اسی نام کی ایک کتاب علامہ ابن حزم ظاہریؒ کی بھی ہے، اسی طرح شیخ الحدیثؒ بعض اوقات فرماتے ہیں [xlvii]:”کذا فی الفتح"تو فتح سے مراد فتح الباری بھی ہوسکتی ہے اور فتح القدیر بھی مراد ہوسکتی ہے، ایسی صورت میں دونوں کتابوں کی عبارات کو دیکھ کر معلوم کیا جاسکتاہے کہ مذکورہ عبارت کونسی کتاب سے ماخوذ ہے۔

صوفیانہ اصطلاحات اور حکمتوں کا ذکر

شیخ الحدیثؒ جابجا صوفیانہ اصطلاحات اور حکمتیں بھی بیان فرماتے ہیں، مثلاً ایک جگہ علامہ عینیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:”علماء نے کہا ہے کہ محرم پر مذکورہ لباس کی تحریم کی حکمت یہ ہے کہ وہ آسودگی سے دور رہے اور عاجز اور ذلیل کی صفت اپنائے تاکہ اس کو ہر وقت یاد رہے کہ وہ محرم ہے۔ پس وہ اپنےکثرتِ اذکار اور االلہ تعالیٰ کی عبادت کےلئے گناہوں سے بچنےاور ممنوعات سے منع ہونے کےزیادہ قریب ہواور یہ طریقہ اس کے مراقبہ کےلئے زیادہ بلیغ ہے، تاکہ اس کو اس کی موت اور کفن کا لباس اور قیامت کےدِن ننگے پیر او رننگا جسم اٹھ کر عاجزی اور ذلت کے ساتھ چلتے ہوئے پکارنے والے کی طرف چلنا یاد رہے۔ خوشبو کی تحریم میں حکمت یہ ہے کہ وہ دنیا کی زینت سے دور ر ہے۔ اس لئے بھی کہ خوشبو جماع کی طرف راغب کرنے والی چیزہے اور اس لئے بھی کہ وہ حاجی کی منافی ہے پس وہ پراگندہ بال اورغبارآلود ہوتاہے، اور اس کا حاصل یہ ہےکہ وہ اپنے تمام توجہ کو آخرت کے مقاصد کےلئے جمع کردے"۔[xlviii]

اغلاط

اوجز المسالک کا ایک نسخہ وہ ہے جس پر شیخ صالح الشعبان نے تعلیق ہے
اور ایک وہ نسخہ ہے جس پر ڈاکٹر تقی الدین ندوی نے تعلیق کی ہے،

اول الذکر میں بہت زیادہ جب کہ ثانی الذکر میں بہت کم اغلاط پائی جاتی ہیں۔
بعض اوقات یہ اغلاط کتابت کی ہوتی ہیں مثلاً : لفظ مسلم کو معلم یا ساتر کو سائر یا مند ل کو معذل لکھا گیا ہے۔[xlix]
اس قسم کی اغلاط کی تصحیح کے لئے ضروری ہے کہ اوجز کے نسخوں کا آپس میں اور مصدر اصلی کے ساتھ تقابل کیا جائے۔
بعض اوقات یہ اغلاط مصدر اصلی میں غلطی کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں

مثلاً : شرح اقناع کی عبارت شیخ الحدیثؒ نے نقل کی ہے [l]کہ : ”ابواسحاقؒ فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بیت اللہ کا حج ادا نہ کیا ہو"۔
اوجز المسالک میں یہ روایت ابو اسحاق کے حوالے سے نقل کی گئی ہے اور مصدر اصلی شرح اقناع میں بھی اسی طرح ہے۔
لیکن یہ روایت ابن اسحاق سے ہے اور سیرۃ ابن اسحاق، دلائل النبوۃ للبیہقی اور تفسیر روح المعانی میں ابن اسحاق کا ذکر ہے۔[li]تو ایسے اغلاط کی تصحیح کے لئے ضروری ہے کہ دو یا تین کتابوں سے اس کا موازنہ کیا جائے، اور اس کے بعد اس کی تصحیح کی جائے۔

عبارت ماخوذہ میں راویوں کا غیر صحیح اندراج

شیخ الحدیث ؒکا طریقہ یہ ہے کہ مصدر اصلی سے اصل عبارت بلاکسی ترمیم کے نقل کرتے ہیں لیکن بعض اوقات مصدر اصلی میں بھی بشری تقاضے کے تحت راوی کے نام کا غلط اندراج ہوتا ہے تو آپؒ بھی من و عن اسی طرح نقل کرتے ہیں مثلاً : ایک روایت کی سند میں اوجز کے ایک نسخے میں مجالد نقل کیا گیا ہے [lii]جب کہ دوسرے نسخے کے مطابق مجاہد نقل کیا گیا ہے،[liii]اور تفسیر جصاص جو کہ مصدر اصلی ہے اوراس کی عبارت نقل کی گئی ہے اس میں بھی مجالد لکھا گیا ہے،[liv] لیکن اصل میں یہ روایت بجالہ بن عبدۃ التمیمی سے مروی ہے،[lv] تو ایسی صورت میں تصحیح کے لئے روایات کے مصادر اصلیہ کا آپس میں تقابل ضروری ہے۔

عبارت یا روایت میں تسامح

شیخ الحدیثؒ ایک عبارت یاروایت نقل کرتے ہیں تو ساتھ کتاب کی صراحت بھی کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات وہ عبارت یا روایت کسی اور کتاب سے ماخوذ ہوتی ہے، اس قسم کی تسامح شاذ و نادر واقع ہوتی ہے، مثلاً شیخ الحدیثؒ فرماتے ہیں[lvi] کہ: ”و فی شرح الاقناع ھی مغیاۃ بنزول عیسی علیہ الصلاۃ و السلام لما فی الحدیث الصحیح ۔۔الخ"یہ عبارت شرح اقناع کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے، حالانکہ یہ عبارت شرح اقناع کی نہیں ہے بلکہ یہ حاشیہ البجیرمی کی ہے۔[lvii]

ایسی صورت اگر پیش آئے تو جس کتاب کے حوالے سے عبارت مذکور ہوتی ہے اگر اس میں نہ ملے تو اسی موضوع کی دوسری کتب یا اوجز المسالک میں زیادہ تر حوالے کے طور پر استعمال ہونے والی کتب و شروحات میں اس کی تلاش کرنی چاہیے۔

اوجز المسالک کے بعض نسخوں میں عبارات کا سقوط اور اقوال کا غلط انتساب

اوجز المسالک کے بعض نسخوں میں پوری پوری عبارات کا سقوط ہے، اور بعض جگہوں میں اقوال کا غلط انتساب بھی ہے، اوجز کا وہ نسخہ جس پر صالح الشعبان نے تعلیق کی ہے اس میں کئی جگہوں میں عبارات کا سقوط ہے مثلاً : "ومنها سنة تسع او عشر حکاه العيني عن امام الحرمين وبهٖ جزم ابن القيم في الهدی و عزاه الیٰ غير واحد من السلف"یہ عبارت مذکورہ نسخے میں نہیں ہے،[lviii]اور وہ نسخہ جس پر ڈاکٹر تقی الدین ندوی صاحب نے تعلیق کی ہے اس میں یہ عبارت موجود ہے،[lix] اسی طرح کئی دیگر جگہوں میں عبارات کا سقوط ہے، اور دونوں نسخوں میں بعض اوقات اقوال کا غلط انتساب بھی ہے[lx] مثلاً :”قال الزيلعي و يؤيد هٰذ ا المذهب"یہ عبارت دونوں نسخوں میں اسی طرح لکھی گئی ہے لیکن یہ قول امام نووی ؒ کا ہے، اور انہوں نے شرح المہذب میں بعینہٖ یہی عبارت نقل کی ہے۔[lxi] اسی طرح اول الذکر نسخے میں ایک جگہ امام ابویوسفؒ کے قول کا انتساب امام ابوحنیفہؒ کی طرف کیا گیا ہے[lxii] مثلاً : "وهو قول ابي حنيفة المرجوع اليه"حالانکہ درست عبارت ہے :"وهو قول ابي يوسف من الحنفيه المرجوع اليه"۔[lxiii]اس قسم کی اغلاط کی تصحیح کے لئے اوجز کے نسخوں میں آپس کے تقابل کے بعد مصدر اصلی کے ساتھ تقابل کیا جائے۔

اوجز لمسالک کی خصوصیات
1۔ موطأ کے مختلف نسخوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضاحت کے ساتھ روایت اور اس روایت کے توابع کا ذکر

2۔ صحت و سقم کے اعتبار سے جرح و تعدیل کے اصول کی روشنی میں روایت اور اس کے توابع کا جائزہ

3۔ روایت کی جزئیات میں تقسیم اور روایت کے ہر جز کی توضیح وتحقیق

4۔ زیر بحث مسئلے پر قرآن کریم کی آیات سے استدلال, قرآن کریم کی آیات اور روایات میں زیر بحث الفاظ کی لغوی، نحوی اور صرفی تحقیق۔بعض جگہوں میں قرآن کریم کی آیات میں مختلف قراءا ت کی وضاحت اور مختلف معانی کے احتمالات کا ذکر

5۔ بقدرِ ضرورت جگہ، قوم اور قبیلے کی توضیح اور مستند تاریخ کا بیان

6۔ اصل مسئلے کی توضیح، نيزصحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ائمہ اربعہ، اہل ظواہر اور دیگر مجہتدین ؒکے اقوال اور ان کے دلائل کاذکر

7۔ ہر مسلک کی بنیادی مصادر سے مسئلے کی توضیح, ہر مسلک کی مستند کتاب سے اصل عبارت کی نقل اور اس کے ساتھ مصنف یا قائل کی تصریح اور ہر مسلک کی بلاتعصب، اعتدال کے ساتھ وضاحت

8۔ صوفیانہ اصطلاحات اورحکمتوں کابیان

9۔ ایک مسئلہ بیان کرنے کے بعد دوسری جگہ اس کے حوالے پر اکتفاء اور زیربحث مسئلے پرشیخ الحدیثؒ کی رائے

خلاصۃ البحث

موطأ مالک پر عرب و عجم علماء نے کئی شروحات لکھیں ہیں، جن میں ایک شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک بھی ہے، جس میں تقریباً ان تمام شروحات کا خلاصہ ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینؒ کے اقوال و فتاوٰی جات اور مذاہبِ اربعہ کے علاوہ اہل ظواہر کے مسلک کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ شیخ الحدیث ؒنے بہترین اور ایک نئے انداز میں یہ شرح لکھی ہے، لیکن اس کے منہج و اسلوب کو سمجھے بغیر اس سے استفادہ کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، کیونکہ شیخ الحدیثؒ نے مسالک ِمختلفہ کو اصل مصادر سے بلاکسی ترمیم نقل کیا ہے اور من و عن وہی عبارات نقل کی ہیں جو کہ مصادر اصلیہ میں ہیں اور ساتھ ساتھ قائلین یا کتب کی تصریح بھی کی ہے۔ لہذا ان مصادر اصلیہ کے منہج و اسلوب کو سمجھ کر اس کے پس منظر میں اوجز کے منہج و اسلوب کو سمجھا جا سکتاہے۔ فقہ کے میدان میں یہ ایک قابل قدر کام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی وحوالہ جات

بنوری, علامہ محمد یوسف.مقدمہ اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک .تعلیق: ڈاکٹر تقی الدین ندوی. ط: 2003ء، دار القلم دمشق، 1/14
[ii]دہلویؒ, شاہ عبد العزیز محدث. بستان المحدثین. مترجم: عبد السمیع دیوبندی.ط: 1976ء، ایچ ایم سعید کمپنی, کراچی،ص 29-70
[iii] شیخ سلام اللہ ؒ : شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ کی اولاد میں سے ہیں ، آپؒ کی وفات کے بعد یہ شرح چھپ نہ سکی، البتہ نصف ِ اخیر مظاہر العلوم سہارنپور میں موجود ہے۔ [لکھنوی, محمد عبد الحئی.التعلیق الممجد علیٰ موطأ. تعلیق:تقی الدین ندوی .ط: 1991ء، دار السنہ و السیرہ، بمبئی،1/104]
[iv]مقدمہ اوجز المسالک, 1/113
[v]ندویؒ، ابو الحسن علی.حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ.ط: 2003ء،مکتبہ اسلام گوئن روڈ ، لکھنؤ، ص 49
[vi]حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ ، ص54
[vii]أیضاً، ص 55
[viii]أیضاً، ص 56
[ix]أیضاً, ص56، 57
[x]أیضاً، ص 56
[xi]أیضاً، ص60
[xii]مقدمہ اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 1/19، 20
[xiii]حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، ص66
[xiv]أیضاً، ص67
[xv]أیضاً، ص 107
[xvi]مقدمہ اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 1/22،21؛ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ،241 تا 245؛ حافظ محمد اکبر شاہ صاحب بخاری.اکابر علماء دیوبند .ط: 1999ء، ادارہ اسلامیات لاہور، ص 275
[xvii]حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، ص250
[xviii]أیضاً، ص252
[xix]حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، ص 175 تا 183؛ اکابر علماء دیوبند، ص 275
[xx]أیضاً، ص 175 تا 183
[xxi]مقدمہ اوجز المسالک از تقی الدین ندوی، 1/7
[xxii]أیضاًؒ، ص47 تا 48
[xxiii] تصدیر از علامہ محمد یوسف بنوری علیٰ اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک،1/ 24
[xxiv] محمد بن مكرم بن منظور افریقی مصری،لسان العرب، 5/427،دار صادر – بيروت، س ط ن
[xxv] حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاکاندھلویؒ، ص 244
[xxvi]ایضاً
[xxvii]مقدمہ اوجز المسالک، مولانا محمد زکریا ؒ، 1/47 تا 254
[xxviii]اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 6/200
[xxix] غریب اور منفرد حدیث کے راوی لفظ اور معنیٰ میں یا صرف معنیٰ میں دوسرے راوی کی موافقت اور مشارکت کریں، اگر صحابی ایک ہو تو متابع ہے اور اگر صحابی مختلف ہو تو اس کو شاہد کہا جاتا ہے۔ [الطحان, محمو د. تیسیر مصطلح الحدیث . ط: 1999ء، مکتبہ قدوسیہ ، لاہور، ص133]
[xxx] اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 6/233؛ الشربينى, شمس الدين ،محمد بن أحمد الخطيب الشافعی شرح الاقناع. ط:ندارد، 2/225
[xxxi] علامہ بدر الدین عینیؒ. عمدۃ القاری.ط: ندارد، 14/276، 277
[xxxii]اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک 6/389
[xxxiii]أیضاً, 6/189
[xxxiv]أیضاً, 6/241
[xxxv]أیضاً, 6/226
[xxxvi] اس کی دلیل یہ ہے کہ اوجز کے مذکورہ صفحے پر الاستذکار سے عبارت ماخوذ ہے جو کہ ابن عبد البر ؒ کی کتاب ہے اور آپؒ کی کنیت ابو عمر ہے۔ [أبو عمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر النمری.الاستذکار. ط:2000ء،دارالکتب العلمیہ، بیروت، 3/150]
[xxxvii] أحمد بن علی المكنی بأبی بكر الرازي الجصاص الحنفی. احکام القرآن. 1405ھ،دار احیاء التراث العربی، 4/283
[xxxviii] اوجز المسالک الیٰ مؤطا مالک، 6/193
[xxxix]أیضاً، 6/254
[xl]أیضاً، 6/186
[xli]أیضاً، 6/213
[xlii]أیضاً، 6/186
[xliii]تقی الدين أبی بكر بن محمد الحسينی الدمشقی الشافعیؒ. کفایۃ الاخیار.ط: 1994ء، دار الخیر دمشق، 1/ 508
[xliv] اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 6/376
[xlv]أیضاً، 6/272
[xlvi]أیضاً، 6/384
[xlvii]أیضاً، 6/348
[xlviii]أیضاً، 6/364
[xlix]أیضاً، 6/124،113،210
[l]أیضاً، 6/325

[li]محمد بن إسحاق بن يسار. سیرۃ ابن اسحاق.ط: معهد الدراسات والأبحاث للتعريف، 2/73؛ امام بیہقی ابوبکر احمد بن حسین بن علی البیہقی . دلائل النبوۃ.ط: 1988ء، دار الکتب العلمیہ بیروت ، 2/46؛ شهاب الدين محمود ابن عبد الله الحسينی الآلوسی.تفسیر روح المعانی.ط: 1415ھ،دار الكتب العلميہ بيروت، 2 / 230؛ شرح الاقناع، 1/ 230
[lii] اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک ، تعلیق تقی الدین ندوی، 6/193
[liii] اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق صالح الشعبان، 6/104
[liv] أحمد بن علی المكنی بأبی بكر الرازی الجصاص الحنفیؒ.احکام القرآن.ط:1405ھ، دار احياء التراث العربى، بيروت، 4/286
[lv] أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البزارؒ .مسندالبزار .ط: 2009ء ، مکتبہ العلوم و الحکم، مدینہ منورہ، 3 / 268؛ سليمان بن داود بن الجارودؒ.مسندطیالسی .ط:ندارد، الهجر للطباعہ والنشر، 1/181؛ ابو الحسن علی بن عمرالدارقطنیؒ. سنن دارقطنی .ط:ندار، 3/94

[lvi] اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 6/187
[lvii]سليمان بن محمد بن عمر البجيرمی الشافعیؒ . حاشیہ البجیرمی علی الخطیب .ط: 1996ء، دار الكتب العلميہ بيروت،5/158
[lviii]اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک ، تعلیق صالح الشعبان، 6/183
[lix]اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق تقی الدین ندوی، 6/323
[lx]اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک ، تعلیق صالح الشعبان، 6/105؛ اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق تقی الدین ندوی، 6/195
[lxi] أبو زكريا محی الدين یحیی بن شرف النوویؒ. المجموع شرح مہذب للنووی .ط: دار الفکر، بیروت، 19/390
[lxii] اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق صالح الشعبان، 6/165
[lxiii]اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق تقی الدین ندوی، 6/294
 
Last edited:
Top