رمضان اور قرآن

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
  • رمضان اور قرآن
  • ام ہانی
  • رمضان اور قرآن کا آپس میں انتہائی گہرا وپختہ ربط وتعلق ہے ، کیونکہ رمضان شهر القرآن ہے لہذا ماه رمضان کا کثیر حصہ قرآن کی تلاوت میں صرف کرنا چائیے ، کیونکہ اسی ماه مبارک میں یہ کلام عظیم نازل ہوا ، وقال الله سبحانه تعالى : { شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن هدىً للناس وبيناتٍ من الهدى والفرقان فمن شهد منكم الشهر فليصمه }.اور اسی لیئے حضرت جبریل علیه السلام اس ماه مبارک میں رمضان کی ہر رات میں رسول الله صلى الله عليه وسلم کے ساتهہ قرآن کا دور فرماتے ،حدثنا موسى بن إسماعيل حدثنا إبراهيم بن سعد أخبرنا ابن شهاب عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة أن ابن عباس رضي الله عنهما قال كان النبي صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان جبريل عليه السلام يلقاه كل ليلة في رمضان حتى ينسلخ يعرض عليه النبي صلى الله عليه وسلم القرآن فإذا لقيه جبريل عليه السلام كان أجود بالخير من الريح المرسلة . فتح الباري شرح صحيح البخاري​
  • اورآپ صلى الله عليه وسلم کا حال مبارک اس ماه میں بنسبت دیگر مہینوں کے مختلف ہوتا تها ، آپ صلى الله عليه وسلم اس ماه میں صدقه واحسان وتلاوة قرآن وصلاة ودعاء واستغفار وتسبيح وذكر واعتكاف وغیره عبادات وطاعات میں انتہاء درجہ کا مجاهده فرماتے ، الخ​
  • اسی طرح جب ہم سلف صالحین کی سیرتوں کو دیکهتے ہیں کہ کیسے وه رمضان گزارتے تهے ؟ سلف صالحین رحمهم الله عجيب اجتهاد وجدوجہد رمضان میں قراءة القرآن سے متعلق فرماتے تهے ، جس کو دیکهہ کر آدمی حیران ره جاتا ہے ، حتی کہ تلاوت قرآن کے علاوه ان کا کوئی اور شغل ہی نہیں ہوتا تها ، اپنے اوقات کا اکثر حصہ اسی عظیم عبادت میں صرف کرتے تهے ، اور ختم قرآن سے متعلق سلف صالحین کے مجاهدات و واقعات اتنے کثیر ہیں کہ جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا ، ذیل میں بغرض نصیحت چند سلف صالحین احوال ومعمولات پیش خدمت ہیں​
  • جب رمضان داخل ہوتا تو امام الزهري رحمه الله فرماتے تهے کہ : یہ تلاوت قرآن کا مہینہ ہے ، اور کهانا کهلانے کا مہینہ ہے​
  • جب رمضان داخل ہوتا تو امام دارالهجرة امام مالك رحمه الله : حدیث کی قراءة اورأهل علم کی مجالس چهوڑ دیتے تهے ، اور مصحف شریف سے تلاوت قرآن کی طرف متوجہ ہوجاتے تهے​
  • حضرت قتاده رحمه الله ہمیشہ ہرسات راتوں میں قرآن ختم کرتے تهے ، اور رمضان میں ہرتیسری رات میں قرآن ختم کرتے تهے ، اور رمضان کے آخری عشره میں ہر رات میں ایک ختم کرتے ہیں ، اور رمضان میں آپ قرآن کا درس بهی دیتے تهے​
  • حضرت إبراهيم النخعي رحمه الله : رمضان میں ہرتیسری رات میں قرآن ختم کرتے تهے ، اور رمضان کے آخری عشره میں ہر دوسری رات میں ایک ختم کرتے ہیں​
  • جب رمضان داخل ہوتا تو حضرت سفيان الثوري رحمه الله : تمام نفلی عبادات چهوڑدیتے اور تلاوت قرآن کی طرف متوجہ ہوجاتے تهے​
  • حضرت الأسود رحمه الله : پورا مہینہ ہر رات کو دو ختم کرتے تهے​
  • امام شافعي رحمه الله رمضان کے مہینہ میں نماز میں ساٹهہ ( 60 ) ختم کیا کرتے تهے​
  • اسی طرح امام اعظم رحمه الله رمضان کے مہینہ میں ساٹهہ ( 60) ختم کیا کرتے تهے​
  • سیدنا عثمان بن عفان ذو النورين رضي الله تعالى عنه نے ایک رکعت میں قرآن مجید ختم کیا​
  • حافظ ابن كثير رحمه الله نے اپنی کتاب ( فضائل القرآن ) میں اس روایت کو صحیح کہا ہے ، امام الهيثمي رحمه الله نے ( مجمع الزوائد ) میں فرمایا رواه الطبراني وإسناده حسن ، حافظ ابن حجر رحمه الله نے ( فتح الباري ) میں اس روایت کے إسناد کو صحیح قرار دیا .امام ذهبي رحمه الله نے اپنی کتاب ( تاریخ الاسلام ) میں اس کی تصحیح کی ہے ، اور دیگر علماء امت نے بهی اس روایت کو صحیح وحسن قرار دیا ہے​
  • حضرت تميمُ الداري رضي الله تعالى عنه نے ایک رکعت میں پورا قرآن مجید پڑها​
  • حضرت سعيد بن جبير رحمه الله نے كعبه مشرفه میں قرآن ایک رکعت میں پڑها​
  • اور روایت فرمایا کہ : میں نے كعبه میں دو رکعات میں قرآن پڑها​
  • حضرت علقمه ( تابعی ) رحمه الله نے مکہ میں ایک رات میں قرآن پڑها​
  • امام اعظم ابوحنیفہ ( تابعی ) رحمه الله نے ایک رکعت میں قرآن پڑها​
  • امام النووي رحمه الله اپنی کتاب ( التبيان في آداب حملة القرآن ) میں لکهتے ہیں کہ : وأما الذي يختم القرآن في ركعة فلا يحصون لكثرتهم .... یعنی وه حضرات جو ایک رکعت میں قرآن ختم کرتے تهے ان کی تعداد بے شمار ہے​
  • یہ تو رمضان میں سلف صالحین کی معمولات کا ایک مختصر نمونہ تها ، دوسری طرف آج ہماری کیا حالت ہے ؟ الله تعالی معاف فرمائے ہم میں سے اکثر کو تو رمضان کی اہمیت وفضیلت کا ہی پتہ نہیں ، اور رمضان کے لیئے ہم نے تو کوئی معمول سوچا ہی نہیں ہے ، کہ رمضان میں قرآن کے کتنے ختم کرنے ہیں ، کیا کیا معمولات رکهنے ہیں ؟ اپنے حاجات ومصروفیات کو کم کرکے کس طرح رمضان گذارنا ہے ؟ وغیره​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
روزہ افطار کروانا
سعد الله شاہ
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا»[سنن الترمذي :3/ 162رقم 807وقال:«هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ» وھو کذالک]۔
زیدبن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایا تواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں‌ سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔
اس حدیث میں‌ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کرانے کی فضیلت بیان کی ہے اوراس کا فائدہ یہ بتلایا ہے کہ روزہ افطار کرانے والے کوبھی اتنا ثواب ملتاہے جتنا روزہ افطارکرنے والے کو ملتاہے۔
اس حدیث سے متعلق چند باتوں کو سمجھ لینا چاہے:
اولا:پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں‌ روزہ افطار کرانے کا جوثواب بتلایا گیا وہ اسی صورت میں حاصل ہوگا جب افطار حلال کمائی سے کرایا جائے، چنانچہ اس سلسلے میں ایک صریح روایت میں یہ شرط بھی ہے ’’مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ ‘‘ یعنی حلال کمائی سے ۔
ثانیا:اس حدیث سے متعلق دوسری بات یہ کہ اس میں مطلقا کسی بھی شخص کو افطار کرانے کی بات کہی گئی ہے ،اس کے لئے غرباء ومساکین کی تخصیص نہیں ہے، اس لئے اس حدیث‌ میں مذکورہ ثواب حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف غرباء ومساکین ہی کو افطار کرایا جائےتبھی مطلوبہ ثواب ملے گا، بلکہ اگر مالدار اورامیرشخص کوافطار کروادیں تب بھی یہ ثواب حاصل ہوجائے گا، شیخ بن باز رحمہ اللہ کا بھی یہی فتوی ہے۔تاہم بہتریہی ہے کہ افطارکروانے کے لئے غرباء ومساکین ہی کا انتخاب کیا جائے کیونکہ اس میں دو فائدہ ہے ایک تو افطار کرانے والے کو ثواب مل جاتاہے اوردوسرا غریب ومسکین کا بھلا بھی ہوجاتاہے، لیکن اگر غرباء ومساکین نہ ملیں تو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اب اس حدیث پر عمل کرنے کا موقع ہی نہ رہا بلکہ ایسی صورت میں کسی کو بھی افطار کرا کریہ ثواب حاصل کیا جاسکتاہے۔
ثالثا:بعض حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم نے کسی دوسرے کے یہاں افطار کرلیا تو ہمارے روزے کا ثواب افطارکرانے والے کو مل جائے گا یہ سراسر غلط فہمی بلکہ جہالت ہے کیونکہ اس حدیث میں افطار کرانے والے کے لئے جس ثواب کی بات کہی گئی ہے وہ ثواب اسے الگ سے ملے گا، اس کے لئے افطار کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
حدیث میں باقائدہ اس چیز کی صراحت ہے ’’غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا‘‘ یعنی افطار کرنے والے روزہ دارکے ثواب میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔
رابعا:جو شخص کسی کے یہاں افطار کرے تو افطار کے بعد اسے درج ذیل دعاپڑھنی چاہئے:
أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ [سنن أبي داود:3/ 367رقم 3854 واسنادہ صحیح]۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سبق آموز واقعہ
امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ
اصفہان کا ایک بہت بڑا رئیس اپنی بیگم کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا ہوا تھا دسترخوان اﷲ کی نعمتوں سے بھرا ہوا تھا اتنے میں ایک فقیر نے یہ صدا لگائی کہ اﷲ کے نام پر کچھ کھانے کے لیے دے دو اس شخص نے اپنی بیوی کو حکم دیا کہ سارا دستر خوان اس فقیر کی جھولی میں ڈال دو عورت نے حکم کی تعمیل کی جس وقت اس نے اس فقیر کا چہرہ دیکھا تو دھاڑیں مارکر رونے لگی اس کے شوہر نے اس سے پوچھا.. .جی بیگم آپ کو ہوا کیا ہے ؟
اس نے بتلایا کہ جو شخص فقیر بن کر ہمارے گھر پر دستک دے رہا تھا وہ چند سال پہلے اس شہر کا سب سے بڑا مالدار اور ہماری اس کوٹھی کا مالک اور میرا سابق شوہر تھا چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم دونوں دسترخوان پر ایسے ہی بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے جیسا کہ آج کھارہے تھے اتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی کہ میں دو دن سے بھوکا ہوں ﷲ کے نام پر کھانا دے دو یہ شخص دسترخوان سے اٹھا اور اس فقیر کی اس قدر پٹائی کی کہ اسے لہولہان کردیا نہ جانے اس فقیر نے کیا بد دعا دی کہ اس کے حالات دگرگوں ہو گئے کاروبار ٹھپ ہوگیا اور وہ شخص فقیر و قلاش ہوگیا اس نے مجھے بھی طلاق دے دی اس کے چند سال گذرنے کے بعد میں آپ کی زوجیت میں آگئی شوہر بیوی کی یہ باتیں سن کر کہنے لگا
بیگم کیا میں آپ کو اس سے زیادہ تعجب خیز بات نہ بتلاوں؟
اس نے کہا ضرور بتائیں!کہنے لگا جس فقیر کی آپ کے سابق شوہر نے پٹائی کی تھی وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ میں ہی تھا... ( کتاب العبر )
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنت نبوی کی اہمیت و فضیلت
مولانامحمدعبدالرحمن نوشہرہ
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ اپنی ظاہری و باطنی وسعتوں اور پنہائیوں کے لحاظ سے کوئی شخصی سیرت نہیں، بلکہ ایک عالم گیر اور بین الاقوامی سیرت ہے، جو کسی شخص واحدکا دستور زندگی نہیں، بلکہ جہانوں کے لیے ایک مکمل دستور حیات ہے، جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جائے گا اسی حد تک انسانی زندگی کی استواری وہم واری کے لیے اس سیرت نبوی کی پیروی و اتباع شدید سے شدید تر ہوتی جائے گی۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک زمانہ اور اس کا تمدن اپنی ارتقائی منازل کو طے کرتا ہوا کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا اور کل تک نہ معلوم یہ ارتقائی منازل کو طے کرتے ہوئے کہاں تک جا پہنچے، لیکن وہ کہیں بھی پہنچے اور اس کی تمدنی اور تہذیبی زندگی کے گوشے کتنے بھی پھیل جائیں اور پھیل کر زمین و آسمان اور خفاء و خلاء سب ہی کو ڈھانپ لیں، پھر بھی یہ ارتقائی سیرت اور اس کے تدین کے گوشے اسی حد تک تمدنی گوشو ں کی تقویم و اصلاح کے لیے شاخ در شاخ ہو کر نمایاں ہوتے رہیں گے، جیسا کہ وہ اب تک زمانہ کی تہذیبی و تمدنی زندگی کے ساتھ نمایاں ہوتے رہے اور ان میں سکون واطمینان کی روح پھونکتے رہے۔
زمانہ نے کروٹیں لیں اور تہذیبی اور تمدنی ترقی کو عروج پر پہنچایا، لوگوں نے شوروواویلا مچایا کہ سنت و شریعت زمانہ کا ساتھ نہیں دی سکتی، لیکن سنت کے مخفی گوشے اورسنت کے اصلاحی پہلوؤں نے کوئی کمی نہ چھوڑی اور ان پکارنے والوں کو اپنے عملی طریقوں سے بہرہ مند کردیا۔
زندگی میں کسی بھی چیز کی پیروی کرنے کے لیے ایک مکمل شخصیت کا نمونہ ہونا ضروری ہے، خواہ وہ معاشی فلسفہ ہو یا زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ، آج تک جس شخص نے بھی کوئی نظریہ پیش کیا سب سے پہلے اسی کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کی، تب کہیں جا کر لوگوں نے اس کے افکار کو قبول کیا، انبیائے کرام علیہم السلام تو انسانوں کی ہدایت، فلاح و کام یابی کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں، ان کی زندگی تمام کی تمام وحی کی تعلیمات کے مطابق ڈھلی ہوتی ہے۔ (فلسفہ سیرت حاتم الانبیاء ص 65تا 70)
ہم اگر قرآن مجید کی آیتوں کا مطالعہ کریں تو ہزاروں آیتیں در حقیقت سیرت مقدسہ کے علمی اور تعارفی اسلوب ہیں اور ادھر سیرت کے یہ ہزاروں گوشے قرآن کے عملی پہلو ہیں ۔قرآن مجید میں جو چیز قال ہے وہی ذات نبوی میں حال ہے اور جو قرآن میں نقوش ہیں وہی ذات اقدس میں سیرت ہیں۔
قرآن مجید کے مختلف مضامین جو قرآنی سورتوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان سے اپنی اپنی نوعیت اور مناسبت کے مطابق سیرت کے مختلف الانواع پہلو ثابت ہوتے ہیں، قرآن حکیم میں ذات و صفات کی آیتیں آپ کے عقائد ہیں ، احکام کی آیتیں آپ کے اعمال ،تکوین کی آیتیں آپ کا استدلال،تشریع کی آیتیں آپ کا حال، قصص و امثال کی آیتیں آپ کی عزت،تذکیر کی آیتیں آپ کی نیابت،اخلاق کی آیتیں آپ کی عبدیت،کبریائے حق کی آیتیں آپ کا حسن معاشرت،توجہ الی اللہ کی آیتیں آپ کی خلوت ہیں، اس طرح تربیت خلق اللہ کی آیتیں آپ کی جلوت، قہرو غلبہ کی آیتیں آپ کا جلال اور مہرو رحمت کی آیتیں آپ کا جمال، رحمت کی آیتیں آپ کی رجاء،عذاب کی آیتیں آپ کا خوف،انعام کی آیتیں آپ کا سکون و انس ہے۔ غرض ہم کسی بھی نوع کی آیت کا مطالعہ کریں، تفسیر دیکھیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی نہ کسی پیغمبرانہ سیرت اور کسی نہ کسی مقام نبوت کی تعبیر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس کی تفسیر ہے ۔(نقش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمبر130 ۔326)
یہ معلوم اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ثواب اور عذاب، نیکی اور بدی، جھوٹ اور سچ،اچھا اور برا اور اس کا صحیح امتیاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا۔جس چیز کو آپ نے گناہ اور جرم قرار دیا ہو دنیا میں کوئی شخص اس کی خوبی ثابت نہیں کرسکتااور جس چیز کو نیکی قرار دیا دنیاکی کوئی طاقت اس کی برائی ثابت نہیں کرسکتی ۔تمام وہ اخلاق جو اقوام عالم اور نسل انسانی میں مستحسن اور پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں وہ سب الہامات الہیہ اور تعلیمات انبیا خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نتیجہ ہے۔
(راہ سنت ص32/33ترجمان السنہ 1/230، حجة اللہ البالغہ1/ 330)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم عین فطرت انسانی کے موافق اور متوازی ہے اور انسانی فطرت کے دبے اور چھپے ہوئے جملہ تقاضوں کی راہ نمائی ہے اور اس کی خلاف ورزی فطرت سے بغاوت ہے۔اسلام کے تشریعی نظام کی تشکیل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر اہم ترین احکامات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی نافذ فرماتے تھے، ظاہر ہے یہ احکامات وحی الہٰی خفی کے ذریعہ ہی آپ نے جاری فرمائے تھے، لیکن قرآن مجید میں اس وقت تک ان کا ذکر نہیں ہوتا تھا، بعد میں کسی آیت کا نزول ہوتا اور اس حکم کی توثیق و تشریح ہوتی تھی۔ (اسلام میں سنت و حدیث کا تشریح مقام (اردو)جلد اول ص:62 تا90)
اس طرح کی کئی مثالیں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کسی بات کا حکم فرمایا، بعد میں اس حکم کی تصدیق و توثیق کے لیے آیت کا نزول ہوگیا، مثلاً عقیدہ توحید میں سب سے پہلی اہم عبادت نمازہے۔لیلة الاسرا سے پہلے دونمازیں ہوتی تھیں، اسرا کے بعد پانچ نمازیں فرض ہوگئیں ۔قرآ ن مجید میں نماز کا حکم تو موجود ہے، لیکن اس کی ہیئت و طریقہ کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی امت کو معلوم ہوا”صلوا کمارأیتمونی أصلی“آپ کی قولی اور فعلی ہدایت پر معلو م ہوا۔(حجة اللہ البالغة،اردوجلد اول ص:234)
اس طرح نماز کے طہارت وغیرہ کے مسائل دیکھیں تو وہ بھی آپ کے بتائے ہوئے ہیں اور قرآن مجید میں طہارت کے مسائل اٹھارہ سال بعد سورہ مائدہ میں نازل ہوئے۔اسی طرح تحویل قبلہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوا۔دین اسلام ایک وسیع نظام حیات ہے، عقائد،عبادات، احکام، معاملات، آداب و اخلاق، معاشرت کے تمام شعبے،جہاد،وقتال ،صلح و جنگ، حکومت و سیاست وغیرہ انسانی معاشرت و معیشت کے تمام مسائل پر حاوی ہے اور ظاہر ہے تعلیمات نبوت اور احادیث نبویہ ان سب پر حاوی ہے۔اس میں تو ذرہ برابر شک نہیں کہ دین اسلام کا تفصیلی اور عملی نقشہ نہ انفاس قدسیہ یعنی احادیث نبویہ کے انضمام کے بغیر تیار ہوسکتا ہے اور نہ دین متین کی تکمیل و تشریح سنت نبویہ کے بغیر ممکن ہے۔اسلام کی دونوں مشعلیں قرآن و حدیث روشن اور واضح ہیں، یہ ہر قسم کے طوفانوں، آندھیوں اور جھکڑوں سے محفوظ ہیں۔(راہ سنت ص: 50/70)
رسول کی پیروی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب ہم قرآن وحدیث دونوں کو ساتھ ملائیں﴿کیفتکفرون وانتم تتلی علیکم آیات اللہ وفیکم رسولہ﴾(آل عمران)تم کس طرح کفر اختیار کرسکتے ہو دراں حال کہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں تمہیں برابر پڑھ کر سنائی جارہی ہیں اور تم میں اللہ کا رسول بھی موجود ہے؟(حجة اللہ البالغہ1/235)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا وجوب آپ کی زندگی میں
عرب کے ریگ زاروں میں جب توحیدکی رم جم برسنے لگی تو گناہوں میں لتھڑے ہوئے اور بے چین انسانوں کو سکون محسوس ہونے لگا۔اسلام کی سادہ تعلیمات کو قبول کرتے اور پرانے عقائد و تو ہمات سے کنارہ کش ہوجاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو سن کر وہ آپ ہی کی پیروی کرنے لگتے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صحابہ کرام قرآن حکیم کی جو آیات آپ علیہ السلام سے سیکھتے ان سے شرعی احکام کا استفادہ کرتے تھے۔اکثر و بیشتر قرآن مجید کی آیات مجمل نازل ہوتیں ،جن کی کوئی تفصیل نہ ہوتی، یا مطلق ہوتیں ،جن کے ساتھ کوئی قید نہ ہوتی، مثلاً نماز ،زکوٰة وغیرہ کی آیات۔
چناں چہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول کی ذمہ داری یہی بتلائی کہ وہ قرآن کی تفصیل بتانے والے اور اس کی آیات کے معانی ومصادیق کی وضاحت کرنے والے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون﴾(النحل 44)
اور ہم نے یہ ذکر (قرآن)آپ پر اس لیے اُتارا ہے کہ آپ لوگوں کو وضاحت کے ساتھ اس چیز کو بتلائیں جو ان کی طرف اتاری گئی، تا کہ وہ اس میں غورو فکر کریں۔(المصنفات فی الحدیث، ص:50)
اس طرح جب لوگوں کے درمیان اختلاف ہوتو آپ حق کی وضاحت کریں :﴿وَمَا أَنزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ وَہُدًی وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُون﴾(النحل 64)اور ہم نے آپ پر یہ کتاب صرف ا س لیے اتاری ہے کہ جن امور میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں آپ لوگوں پر ان کی وضاحت کر لیں اور ایمان لانے والوں کی راہ نمائی اور رحمت کی غرض سے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کوئی اختلاف نہیں کرسکتا اور نہ خلاف ورزی کر سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو فیصلہ فرمادیں وہی نافذ ہوگا، کسی کو چوں چرا کرنے کی اجازت نہیں ہے اور امت کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہر فیصلہ پر سر تسلیم خم کرنا لازم وضروری قرار دیا ،ارشاد ربانی ہے:﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً﴾․(النساء65)۔ (راہ سنت)
تو (یوں ہی)نہیں ،قسم ہے تمھارے رب کی! یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ آپس میں واقع ہونے والے ہر جھگڑے میں تم سے تصفیہ نہ کرائیں، پھر تمہارے فیصلے سے یہ لوگ اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پورے طور پر اس کو تسلیم نہ کرلیں۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلے بھی سنت کا مصداق اورحجت شرعیہ ہیں اور ان سے امت کا فرار ممکن نہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو تعلیمات دیں ان میں بھی بڑے واضح انداز میں اپنی پیروی کو امت کے لیے لازم قرار دیا، حضرت عرباض بن ساریہ(المتوفیٰ 75)کی روایت میں تصریح ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ، وایاکم ومحدثات الامور، فاِن کل محدثة بدعة“(مستدرک حاکم، ص: 96 بحوالہ راہ سنت)
تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو معمول بناؤ اور اپنی ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے اس کو پکڑو، تم نت نئی باتوں سے پرہیز کرو، کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے۔(راہ سنت، ص: 24)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور تعمیل حکم ہر اس چیزمیں فرض کی گئی ہے جس کا آپ صلی الله علیہ وسلم حکم دیں :﴿مااتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا واتقوا اللہ﴾(الحشر)پھر دوسری آیت میں رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت قراردیا﴿وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون﴾(آل عمران 132)
اللہ تعالیٰ نے سورة نساء میں رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور رسول کی پیروی کو اپنی محبت کا سبب قرار دیا :﴿من یطع الرسول فقد اطاع اللہ﴾(النساء)
”جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی ایمان کے لوازم میں سے قرار دیا ہے کہ جب اہل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی کام میں شریک ہوں تو بغیر آپ سے اجازت لیے کہیں نہ جائیں تو یہ بات بدرجہ اولیٰ ایمان کے لوازم میں سے ہونی چاہیے کہ وہ کوئی بھی قول ، علم ،مسلک آپ کی اجازت کے بغیر اختیار نہ کریں اور آپ کی اجازت کا علم انہی احادیث کے ذریعہ ہوسکتا ہے جو آپ سے مروی ہیں کہ آپ نے اجازت دی ہے (یا نہیں؟)(جامع بیان العلم 1/281)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا وجوب جس طرح آپ علیہ السلام کی زندگی میں لازم و ضروری تھا ،اس طرح آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی امت کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے، اگر کوئی علم و دانش کا دعوی کرنے والا صرف قرآن مجید سے استدال کرنا چاہے اور کہے کہ میں صرف قرآن مجید سے راہ نجات حاصل کروں گا تو یہ اس کی خام خیالی اور عقل کا فتور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جس طرح قرآن مجید نے صراحت کی کہ آپ علیہ السلام کی پیروی لازم ہے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی لازم ہے۔
(المصنفات فی الحدیث ص:30 تا40)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو حدیثوں میں امت مسلمہ کو متنبہ فرمایا:اور وہ دونوں روایتیں معنوی اعتبار سے تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں ۔حاکم اور ابن عبدالبر نے عبداللہ بن عمربن عوف عن ابیہ عن جدہ کی سند سے نقل کیا ہے ”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:”ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ماتمسکتم بھما: کتاب اللہ وسنتی“!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہوگے ہرگز گم راہ نہ ہوگے، ایک اللہ کی کتاب ،دوسرے میری سنت۔
عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:کل امتی یدخلون الجنة الامن ابی قالوا: یارسول اللہ ومن یأبی؟ قال: من اطاعنی دخل الجنة، ومن عصانی فقد أبی(البیھقی)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح انداز میں فرمایا کہ جو سنت اور قرآن کو مضبوطی سے پکڑے گا وہ کبھی گم راہ نہ ہوگا۔ کتاب اللہ وسنة نبیہ۔
(السنة ومکانتھا فی التشریع الاسلامی ص 64و شمائل کبریٰ جلد اول ص:33)
ان احادیث کے ذریعے امت کو ہدایت دی گئی کہ اگر دنیا اور آخرت کی فلاح و کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسول کی اطاعت ضروری واجب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک انسان کے لیے انفرادی واجتماعی ،خانگی وملی،معاشرتی و اخلاقی ،ہر شعبہ، ہر پہلو، ہر گوشہ میں شمع ہدایت ہے اور جو شخص اس زندگی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالے گا وہ دنیا و آخرت میں سرخ رو ہوگا۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو
اداریہ ناصرالدین مظاہری
’’ہم تیل کے کنوؤں کوآگ لگادیں گے اوراونٹنی کے دودھ اورکھجوروالی روایتی زندگی کی طرف واپس لوٹ جائیں گے‘‘
یہ وہ الفاظ ہیں جوسرزمین عرب کے واحدغیوروجسورحکمراں مرحوم شاہ فیصل نے ’’عرب اسرائیل جنگ‘‘۱۹۶۷ء کے اختتام کے فوراًبعدکہے تھے ۔
شروع شروع میں اسرائیل کی شکست اورپھربعض مسلمانوں کے منافقانہ رویہ اور جاسوسی نیزامریکہ کی دوغلی پالیسی کہ اس نے اسرائیل کو اس قدراسلحہ فراہم کردیاکہ مصرسمیت پوراجزیرۃ العرب انگشت بدنداں ہوکریہ سوچنے پرمجبور ہواکہ وہ امریکہ کے اِس دوغلے رویہ پر حیرت کااظہارکرے یاامریکہ کے تعلق سے اپنے اندازوں اورخوش فہمیوں پرخون کے آنسوروئے۔
عرب جنگ میں اسرائیل سے بری طرح ہزیمت اٹھانے کے بعدزخم خوردہ شکست یافتہ عربوں میں غیرت کاایک کام عراق نے بھی کیااوروہ تھاشمالی عراق میں برٹش پٹرولیم اورجنوب میں امریکن تیل کمپنی کوسرکاری تحویل میں لینا،اس اقدام سے امریکی اداروں کوناقابل تلافی نقصان سے دوچارہوناپڑا۔
عراقی رہنماکی وہ تقریربھی بڑی یادگارتھی جس میں انہوں نے عربوں کی غیرت ایمانی اورحمیت جہانبانی کوللکارکر جوانوں کے خون کادوران تیزسے تیزترکردیاتھااورصدرصدام حسین نے سنگ مرمرکے شاندار پتھروں پروہ تقریر کندہ کرواکرعراق کے چوراہوں پرآویزاں کرادی تھی ۔
اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اس وقت مسلمانوں کے خون میں ’’خوئے مسلمانی‘‘ کچھ نہ کچھ توموجودتھی اسی کایہ نتیجہ تھاکہ انہوں نے نئے دم خم کے ساتھ مستقبل کے لئے نئی نسلوں کی تخم کاری اورآب پاشی کاشانداروخوشگوار ماحول سازگارکرناشروع کردیاتھا۔
ایک تویہودی بذات خودایک فتنہ ہیں ان کے کمینہ پن،خساست،رزالت اورعیاری ومکاری کی خودقرآن کریم میں شہادتیں موجودہیں پھران کے ہم پلہ وہم پیالہ عیسائی بھی شامل ہوگئے جس نے ان کی کمینگی میں جلتی پرتیل کاکام کیااوردونوں نے مل کرایک بڑی چال چلی۔
عرب ایک جذباتی قوم ہے ،ان کے اندراب بھی وطنی عصبیت موجودہے،وہ اپنے علاوہ باقی دنیا کو جاہل،گنواراورگونگاجانتی اورمانتی ہے ان کے اسی’’ خیال‘‘کوتقویت دی جائے،عرب کی فوقیت اوربرتری دیگر ملکوں اورقوموں پرظاہرکرکے اس درجہ خوش فہمی کاخوگربنادیاجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کانعرہ لگانے کے بجائے ’’عرب قومیت‘‘ کانعرہ لگانے لگیں،اس کاایک تونتیجہ یہ ہوگاکہ ان کی ایمانی غیرت ختم ہوجائے گی دوسرے غیرعرب ممالک ان کی ہمنوائی میں پس وپیش کریں گے کیونکہ وہ عرب نہیں ہوںگے اوران کے اندریہ بات ڈالی اوربٹھائی جائے کہ یہ جنگ دینی بنیادوں پرنہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر ہورہی ہے،اس کے نتیجہ میں بہت سے وہ لوگ جوفلسطین کاساتھ دین کافرض اوراسلام کاقرض سمجھ کرکررہے ہیں وہ پیچھے ہٹ جائیں گے ۔قوم پرستی کے علاوہ عربوں میں عیش پرستی کابیج بھی بویاجائے کیونکہ جب تک انسان کے اندر’’عیش پرستی‘‘ نہیں آتی وہ جنگوں سے نہیں دبتا،عسکری معاملات میں دلچسپی لیتاہے،خون سے خوف نہیں کھاتا،موت سے نہیں ڈرتاہے بلکہ موت پانے کی خواہش اورتمناکرتاہے کیونکہ وہ ’’شہادت‘‘ کے بلندمرتبہ سے واقف ہوتاہے چنانچہ عربوں سے ان کی جفاکشی رفتہ رفتہ ختم کی گئی ،عرب شاہوں اورشہزادوں کویورپ کی ’’ہوا‘‘کھلائی اوردکھلائی گئی،ان کی’’ تعلیم وتربیت‘‘کایورپ کی یونیورسٹیوں میں’’انتظام‘‘ کیاگیا، دوران تعلیم انھیں یہ باورکرایاگیاکہ تمہارامقام باقی دنیاسے بڑاہے تم عرب ہو،تیل اورسونا تمہارے غلام ہیں،تم شہزادے ہو،اس لئے تمہارامعیارزندگی بھی برترہے ’’برتری اورکمتری ‘‘کاسبق کچھ اس اندازمیں پڑھایاگیاکہ انہوں نے جفاکشی کواپنی شان کے خلاف سمجھا،محنت اورمشقت کودوسروں کے کھاتے میں ڈالا ’’عرب قومیت ‘‘کاکیڑاان کے دماغوں میں اتناکلبلایاکہ توحیدکانعرہ چھوڑکر’’عرب قومیت ‘‘کانعرہ لگانے لگے اوراسی پربس نہیں کیابلکہ مصری صدرجمال عبدالناصرنے تواپنے آپ کو کبرونخوت میں ڈوب کر’’فرعون کی اولاد‘‘تک کہہ دیا۔ استغفراللّٰہ
دوسری طرف ان کی عیش پرستی کااندازہ کرنے کے لئے ہم چندمثالیں بعدمیں پیش کریں گے لیکن اس سے پہلے ان کی دولت کاتھوڑاسانظارہ کرادیں :
عربوں کے پاس ان کی شاہی دولت کے علاوہ دنیاکے پچاس امیرترین عرب شیوخ کی دولت اور جائداد236.24اَرب ڈالرہے،اس میں عرب ممالک کے کسی بھی بادشاہ کی دولت شامل نہیں ہے ۔اب دوسراپہلوبھی دیکھتے ہیں:
شہزادہ ولیدبن طلال عرب کاوہ امیرترین شخص ہے جس سے میڈیانے ایک بارپوچھاکہ ’’آپ کی کل دولت کتنی ہے؟اس سوال کے جواب میںشہزادہ ولیدبن طلال نے پوچھاکہ ’’سوال سے پہلے کی دولت بتاؤں یاسوال کے بعدکی‘‘یہ شہزادہ دنیاکاوہ پہلاشخض ہے جس نے انفرادی حیثیت سے ایک عجیب وغریب بیش قیمت ہوائی جہازخریدااس میں ہرقسم کی آرائش وزیبائش کے لئے باقاعدہ ایک کمپنی سے رابطہ کیاجس نے خطیررقم میں اس ’’ہوائی محل‘‘میں تزئین کاری کی۔
ایک عرب امیراورایک روسی مسلمان ابراہیم دوف کے درمیان بحری جہازکولے کرمقابلہ آرائی چلتی رہی کہ کون کس سے آگے نکلتاہے ،یہ بحری جہازدنیاکی سب سے مہنگی ’’بحری سواری‘‘ہے جواٹلی میں تیارہواہے ، اب ظاہرہے تجارتی سطح پرفائدہ اٹلی کاہواہے جواسلامی ملک نہیں ہے جب کہ دولت دونوں طرف مسلمانوں کی ضائع ہوئی ہے۔
قطرکے شیخ نے وسطی لندن میں تیس کروڑڈالرمیں انتہائی مہنگا،پرتعیش اورپرتکلف کمپلیکس خریداہے جس میں ہرفلیٹ پرجانے کے لئے الگ الگ لفٹ کاسسٹم ہے۔
یہی نہیں لندن کے اکثروبیشترتجارتی اورمالیاتی علاقوں کی زمینیں عربوں نے خریدلی ہیں یہ تب ہے جب عربوں کوبرطانیہ میں ذلت آمیزرویہ اورحقارت آمیزنظریہ سے دیکھاجاتاہے۔
عرب امارات کے شیخ کاوہ جہازجوان کے استعمال میں رہتاہے اورجس سے وہ ہمارے ملک میں ۲۶؍جنوری ۲۰۱۷ء کی تقریبات یوم جمہوریہ میں شرکت کے لئے بطورمہمان خصوصی آئے وہ جہازموضوع بحث بنارہا،اس میں وافرمقدارمیں سونے کے ذریعہ نقش ونقوش اورڈیزائننگ کے دلفریب نظارے ناظرین کو محوحیرت کردیتے ہیں۔
مرحوم شاہ فہدکے بارے میں ایک امریکی تاریخ داں نے لکھاتھاکہ خادم حرمین شریفین کوکم ازکم حرمین کے تقدس کاپاس ولحاظ رکھناچاہئے تھاوہ یہاں لاس ویگاس نامی شہرکے سب سے بڑے جوے خانے ’’کیری پیکر‘‘ میں بڑی شرط ہارگئے اوراس کی وجہ سے انھیں روک بھی لیاگیااورجب تک پیسوں سے بھراہوائی جہازنہیں آگیا انھیں روکے رکھاگیا۔
دبئی عرب ملک کہلاتاہے لیکن وہاں کی عیاشیاں،بداخلاقیاں،حرام کاریاں اورخلاف اسلام انجام پانے والے امورکسی بھی صورت میں’’ اسلامی‘‘کہلانے کے لائق نہیں ہیں،بات یہیں پرختم نہیں ہوجاتی ،قطراوردبئی کے بادشاہوں کااسرائیل کے تئیں رویہ کیاہے ان جملوں سے اندازہ کرسکتے ہیں:
’’اگراسرائیلی سرمایہ کاریہاں آناچاہیں توہمیں اس پرکوئی اعتراض نہیں‘‘
اب آتے ہیں عربوں کی فضول خرچیوں پر،عربوں کاشمار دنیابھرمیں سب سے فضول خرچ لوگوں میں ہوتاہے ،چنانچہ ابھی چنددن پہلے ایک عرب شیخ نے ایک فلائٹ کی 80سیٹیں اپنے عقابوں کیلئے بک کروادیں ۔
مکہ ٹاورسے سبھی واقف ہیں یہ کعبہ کے بالکل قریب میں تعمیرہواہے اوربلندترین عمارتوں میں سے ہے۔
دبئی میں دوعمارتیں بطورخاص لوگوں کی عیاشیوں کااڈہ بنی ہوئی ہیں ،ان میں سے ایک برج خلیفہ ہے جس کی اونچائی ۱۰۵۰۔۸۰۰میٹرہے اوریہ دنیاکی سب سے اونچی عمارت ہے۔دوسری عمارت بھی دبئی ہی میں ہے جو۲۰۰۔۱میٹربلندہے۔
برج الکبیرکے نام سے کویت میں بھی ایک عمارت کامنصوبہ ہے جوپندرہ سو میٹراونچی ہوگی۔
بحرین والے بھی کیوں پیچھے رہیں چنانچہ وہ بھی المرجان نامی پندرہ سومیٹراونچی عمارت بنانے کاارادہ کررہے ہیں۔
فضول خرچی جس سے اسلام نے منع کیا اور فضول خرچ کو شیطان کا بھائی کہاگیا لیکن فضول خرچی کا جو نظارہ عرب میں ہوتا ہے وہ دنیاکے کسی اور خطہ میں نہیںہوتا ، نہایت ہی مہنگے ہوٹلوں میں نہایت ہی قیمتی کھانا اتنی وافر مقدار میںضائع کردیا جاتا ہے کہ غریب ممالک تصور بھی نہیں کرسکتے،صرفبحرین میں تین سوملین ٹن اناج یومیہ بربادہوتاہے۔
عیاشی اورعیاشیوں کے لئے مختلف ملکوں کے انتخاب میں بھی عربوں کی حالت نہایت تکلیف دہ ہے اوراس قصہ کوہم چھیڑنامناسب نہیں سمجھتے۔
امیدکی کرن
مرحوم شاہ عبداللہ کے دورسے شروع میں کچھ مفیداصلاحات ہوئی تھیں ان میں عربوں کو’’کام‘‘کرنے کی ترغیب بھی ہے ،اس کی وجہ سے بہت سے عرب لوگوں کوسرکاری نوکریاں ملی ہیں اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے ،آج کی حالت یہ ہے کہ سعودی عرب میں اکیس ملین افرادہیں اوران کی خدمت کے لئے دس ملین تارکین وطن کام کررہے ہیں۔اگرآپ ہنرمندسعودی دیکھناچاہیں توشایدمایوسی ہوگی۔
مجھ سے میرے ایک دوست نے بتایاکہ انھیں مکہ مکرمہ میں اپنے موبائل میں ریچارج کراناتھا،ایک دوکان پرگیاوہاں ایک سعودی بیٹھاتھا(کیونکہ کاؤنٹرپرسعودی ہوناضروری ہوگیاہے)مگراس سعودی نے کہاکہ مجھے ریچارج کرنانہیں آتااندرآجاؤ،چنانچہ اندرگیاتوہاں ایک انڈین لڑکابیٹھاہواتھااس نے میراکام کیا۔
بہرحال امیدکی ایک کرن موجودہ شاہ حافظ سلمان اورولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان کایہ اقدام لائق تعریف ہے کہ انہوں نے عربوں کی عیاشیوں پرلگام کسنی شروع کردی ہے،تیل جس پرعربوں کونازتھااورجس کی پوری دنیابھوکی تھی لیکن عراق،یمن،مصر،شام،کویت،اردن،تیونس وغیرہ ملکوں میں امریکی دخل اندازی سے امریکہ کواتنافائدہ توضرورہواکہ اب اسے کسی عرب بادشاہ سے دھمکی کاخوف نہیں رہانہ ہی کوئی عرب ملک اب کسی کاتیل بندکرنے کی پوزیشن میں ہے۔
شاہ سلمان نے یہ کام کیاہے کہ اب انہوں نے اپنی توجہ تیل سے کم کرکے سیاحت پرمرکوزکردی ہے اوراس سلسلہ میں ان کاارادہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کوحج کے مواقع فراہم کرنے کاہے اس کیلئے حرمین شریفین کی توسیع بڑے پیمانہ پرکی جارہی ہے اوراللہ نے چاہاتوایک کروڑلوگ بیک وقت حج بیت اللہ سے مشرف ہوسکیں گے۔
یوں توپوری دنیامیں مسلمان سب سے زیادہ مشق ستم بنے ہوئے ہیں لیکن پوراعرب اسلام دشمنوں کے نشانہ اورنرغہ پرہے ،یہودی اورامریکی سازشیں کسی کل اورکروٹ سوچنے اورسمجھنے کاموقع نہیں دیناچاہتی ہیں۔چنانچہ آپ نقشہ اٹھائیں اوردیکھیں تواسرائیل کے قرب وجوارکے ملکوں فلسطین،اردن،عراق،شام، سوڈان، یمن، مصر، ترکی،قبرص جتنے بھی عرب یانیم عرب ممالک ہیں وہ سب کسی نہ کسی آزمائش سے دوچارہیں، کہیں اقتدارکی تبدیلی توکہیں جمہوریت کی دستک،کہیں تیل کی لڑائی توکہیں ظالمانہ ماحول،کہیں خودملک کے سربراہ کے ذریعہ چیرہ دستی اورکہیں دوسرے ملکوں کے اشتراک سے بمباری،کہیں کچھ مسلم ممالک کے امریکہ میں داخلہ پرپابندی توکہیں عرب ممالک سے متصل اسلام دشمن ممالک سے دوستانہ ماحول یہ سب حالات امریکہ محض اس لئے کررہاہے تاکہ دشمنوں میں انتشارکی فضابرقراررکھ کراسرائیل کوسکون فراہم کرسکے اور اسرائیل اپنی اس حکمت عملی میں پورے طورپرفی الحال کامیاب ہے ۔
امریکہ نے سعودی عرب کے تمام پڑوسی ملکوں سے دوستانہ تعلقات اس قدرمضبوط کرلئے ہیں اوران عربوں کے اعصاب پراتنی قوت کے ساتھ اثراندازہوچکاہے کہ عربوں کی کسی بھی طرح کی اسرائیل سے مزاحمت پرامریکہ تھوڑی ہی دیرمیں سعودی عرب کے گرداپناگھیرا تنگ کرسکتاہے اوریہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ امریکی فوجی سعودی عرب سمیت قرب وجوارکے تقریباًتمام ممالک میں موجودہیں۔
ہم عربوں کوبرانہیں کہتے البتہ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے ان سے درخواست کرنے کاایمانی حق رکھتے ہیں اوران کے راستے میں آنے والے خدوخال اورنشیب وفرازسے مطلع کرنابھی ایمانی جذبہ سمجھتے ہیں۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کوبرابھلاکہنے سے منع فرمایاہے اورصاف لفظوں میں ارشادہوا:لاتسبواالعرب فانی اناالعرب‘‘عربوں کوگالی مت دوکیوں کہ میں بھی عرب میں سے ہوں۔
اس لئے کوئی بھی مسلمان عرب کوگالی دینے کاحوصلہ نہیں کرسکتاتاہم آئینہ تودکھاسکتاہے اوریہ امیدتوکرسکتاہے کہ خداراہماراقبلہ اورکعبہ آپ ہیں اورآپ اپناقبلہ وکعبہ کسی اورکونہ بنائیں۔دنیاکی قیادت آپ کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے اپنی قیادت کسی اورکونہ تھمائیں۔
حالات بڑے دھماکہ خیزہیں شاہ سلمان کی بصیرت اورحکمت عملی کواللہ تعالیٰ کامیاب فرمائے کیونکہ دشمن کمین گاہوں میں بیٹھاتاک اورگھات میں صرف موقع کے انتظارمیں ہے ،حرمین شریفین کی حفاظت ہرمؤمن کافرض ہے اورہمیں اپنے قبلہ کی حفاظت کے لئے بہرصورت تیاررہناچاہئے۔یہ ایمان کاتقاضا،حالات کاتقاضا اوروقت کاتقاضاہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کاشغر
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
خوف آخرت
ناصرالدین مظاہری
امیر المؤمنین عمربن عبدالعزیز ؒ سلیمان ابن عبدالمالکؒ کے انتقال کے بعد مسند آرائے خلافت ہوئے۔ اس سے قبل آپ مدینہ منورہ کے گورنررہ چکے تھے۔گویا آئین جہاں بانی سے بخوبی واقف وآشناتھے ۔ یہ ماں کی طرف سے فاروقی اور باپ کی طرف سے اموی تھے ۔نہایت نازونعم میں پرورش پائی تھی لیکن حکومت کے باردوش کے بعد شاہی فقیری میں تبدیل ہوگئی۔
شہزادے توتھے ہی لیکن اس کے ساتھ بڑے نفاست پسند بھی تھے۔ایک بار جو لباس پہنتے اس کو دوبارہ استعمال نہ کرتے۔مدینہ طیبہ کی گورنر ی پرمامور ہوئے تو تیس اونٹوں پران کا ذاتی سامان لدا ہوا تھا۔
ایک بارخلیفہ عبد الملک بن مروانؒ کے ساتھ سفرمیں تھے۔کچھ ساتھیوں کے سامان پیچھے رہ گئے ۔اس وجہ سے شاہی سواری پیچھے ٹھہرگئی جن کے سامان روانہ ہوچکے تھے وہ آرہے تھے لیکن جن کے سامان روانہ نہ ہوئے تھے،ان کے پاس کوئی سامان نہیں تھا ۔بس اتنی سی بات پرعمربن عبدالعزیزؒ کو آخرت یاد آگئی اور آپ فرط تأثر سے روپڑے۔خلیفہ عبد المالکؒ نے رونے کا سبب پوچھا۔فرمایا:
’’کل قیامت کے دن بھی ایسا ہوگا۔جس نے یہاں سے کچھ بھیجا ہوگا اسے تووہاں ملے گا اورجس نے نہ بھیجا ہوگا وہ محروم رہے گا۔‘‘
بس اسی فکر نے دل کی دنیا تبدیل کردی اور پھر موت تک آخرت کی یاد سامنے رہی۔
قرآن حکیم نے اسی لیے کہا ہے:
(یَاأَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْنَفْسٌ مَّاقَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ)۔
’’اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اورہرشخص دیکھتارہے کہ کل (قیامت کے دن) کے لیے اس نے کیا سامان (آگے)بھیجا ہے۔(پھرسن لو!) اللہ تعالی سے ڈرتے رہو۔تم جوکچھ بھی کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھتاہے۔‘‘
چونکہ دل کی دنیا تبدیل ہوچکی تھی،لہٰذا خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد لوگوں کو مسجد میں جمع کرکے خطبہ دیا ۔فرمایا:
’’لوگو! بغیر اس کے کہ مجھ سے رائے طلب کی جاتی یا میں اس کا طالب ہوتا یا عام مسلمانوں سے مشورہ لیا جاتا،مجھ پرخلافت کا بارڈال دیا گیا،لہٰذا تمہاری گردنوں میں میری بیعت کا جوقلادہ ہے اسے میں خود تمہاری گردنوں سے نکال دیتا ہوں۔تم جسے چاہو اسے اپنا خلیفہ بنالو۔‘‘
جب خلیفہ وقت خود اپنی طرف سے ایسی پیش کش کردے تو لوگ ایسے حکمران کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ ہرطرف سے آوازیں بلند ہوئیں ۔ہم نے آپ کو اپنا خلیفہ مقررکیا۔ہم آپ کی خلافت سے راضی ہیں۔
جب سب لوگوں نے آپ کی خلافت کی توثیق کردی تو آپ نے پھرلوگوں کو تقویٰ ،موت کی یاد اورآخرت کی فکرکی طرف متوجہ کیا۔اس کے بعد فرمایا:
’’ لوگو! جوشخص اللہ تعالی کی اطاعت کرے اس کی اطاعت واجب ہے اورجوشخص اس کی نافرمانی کرے اس کی فرمانبرداری جائز نہیں اور اگرمیں اس کی نافرمانی کروں تو تم پرمیری اطاعت اور فرمانبرداری واجب نہیں ہے۔‘‘
اسی مضمون کے خطبات سیدنا فاروق اعظمؓ اورسیدنا صدیق اکبرؓ نے خلافت کا باراٹھانے کے بعد دیئے تھے۔
بارخلافت اٹھانے کے بعد توفکر آخرت اورزیادہ ہوگئی ۔چنانچہ ایک بار اپنے فوجی افسرسلیمان کولکھا:
’’ خداسے سب سے زیادہ اس شخص کو ڈرنا چاہئے جواس مصیبت میں مبتلا ہو جس میں میں مبتلا ہوں ۔اگر میں اللہ تعالی کی نافرمانی کروں توخداکے ہاں مجھ سے زیادہ مستحق عذاب اور ذلیل کوئی نہیں۔میں اپنی اس حالت سے سخت فکرمند ہوں، اورمجھے اندیشہ ہے کہ یہی فکرمیری ہلاکت کا سبب نہ بن جائے۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم جہاد پر جانے والے ہو۔میرے بھائی! صف جنگ میں کھڑے ہونا تو خداسے دعاکرنا کہ حق تعالی شانہ مجھے شہادت عطافرمائیں کیونکہ مجھے سخت حالت اورعظیم خطرہ درپیش ہے۔‘‘
ان کی اہلیہ فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ جو خود ایک خلیفہ کی بیٹی تھیں کہ آپ رات کی تنہائیوں میں رویا کرتے۔ میں نے رونے کی وجہ پوچھی توپہلے توآپ نے ٹالنے کی پوری کوشش کی لیکن جب میں نے اصرار کیا تو فرمایا:
’’ فاطمہ ! میں اس امت کے ہر چھوٹے بڑے کا ذمہ دارہوں اورملک بھرمیں بے کس، غریب محتاج اورفقیر ونادار پھیلے ہوئے ہیں۔قیامت کے دن ان کے بارے میں اللہ تعالی مجھ سے سوال کریں گے۔رسول اللہ ﷺدعویٰ کریں گے۔اگرمیں خدااوراس کے رسول ﷺ کے سامنے کوئی عذرپیش نہ کرسکاتو انجام کیا ہوگا ۔اسی خوف سے مجھ پرگریہ طاری ہوجاتا اورمیں راتوں کواُٹھ کر روتا ہوں۔‘‘
ایک روز آپ کوخلافت سے پہلے کا اطمینان وفراغت کا زمانہ یادآگیا ۔اہلیہ سے فرمایا:’’ ہمارا گذشتہ زمانہ کتنا راحت بخش اور خوش آئند تھا۔‘‘
اہلیہ نے کہا:’’ آج توآپ کو اس زمانہ سے کہیں زیادہ اقتدار واختیار حاصل ہے۔اس وقت آپ صرف ایک صوبہ کے حاکم تھے اورآج پوری مملکت اسلامیہ آپ کے زیراقتدار ہے۔کوئی شخص روک ٹوک کرنے والانہیں۔‘‘ اہلیہ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر آپ نے بڑے پردردلہجے میں فرمایا:
’’فاطمہ ! تم صرف یہ دیکھ رہی ہو کہ میں ساری سلطنت کا فرمانرواہوں ۔ذرا اس ذمہ داری کا بھی خیال کرو جو اس فرمانروائی کی وجہ سے مجھ پرآن پڑی ہے۔میں روز جزاکے خوف سے لرزہ براندام رہتاہوں۔
(انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم)
’’اگرمیں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو(اس کی پاداش میں) ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔‘‘
اس جواب میں ایسا درد اورسوز تھا کہ فاطمہ بھی بے اختیار روپڑیں۔اورخدا سے دعاکرنے لگیں کہ اے اللہ! ان کو جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھیو۔
قرآن حکیم کی تلاوت اور نماز کے وقت بھی آخرت کے خوف سے آپ کا دل معمور اورلرزاں وترساں رہتا تھا۔بلکہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ موت اورآخرت کے ذکرسے آپ اس طرح روتے جیسے کوئی جنازہ سامنے رکھا ہو۔
ایک مرتبہ اپنے ایک ساتھی سے قبرکے تأثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اگرتم مردے کوتین دن کے بعد قبر میں دیکھوتو انس ومحبت کے باوجود اس کے پاس جاتے ہوئے ڈرو تم قبرکوایک ایسا گھر دیکھوگے جس میں خوش وضعی ،خوش لباسی اور خوشبو کے بعد کیڑے رینگ رہے ہیں۔ پیپ بہ رہی ہے اوراس میں کیڑے تیررہے ہیں۔ بدبو پھیل رہی ہے۔کفن بوسیدہ ہوچکاہے‘‘
یہ کہتے کہتے آپ کی ہچکی بندھ گئی اوربے ہوش ہوکرگرپڑے۔ان کی اہلیہ نے پانی چھڑکا توہوش میں آئے۔
ہم بھی روز تلاوت قرآن کرتے ہیں لیکن ہم پراس کی تلاوت کا کوئی اثرنہیں ہوتا۔آپ تلاوت کرتے تو ان آیات پرجن میں قیامت کا ذکرہے،پڑھ کرتڑپ اٹھتے ۔چنانچہ ایک بارگھروالوں نے دیکھا کہ ان کی اہلیہ پھوٹ پھوٹ کررورہی ہیں۔بھائیوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ رات میں نے امیرالمؤمنین کوبڑی دل گداز حالت میں دیکھا ۔وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔جب انہوں نے یہ آیت پڑھی کہ
یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ۔’’جس دن انسان پراگندہ پتنگوں کی طرح ہوجائیں گے اورپہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے۔‘‘
توچیخے،پھر اچھلے اوراچھل کر اس طرح گرے کہ معلوم ہواکہ دم توڑرہے ہیں۔پھر ایسے ساکن وساکت ہوئے میں نے سمجھا کہ دم نکل گیا۔ہوش میں آئے توپھرنعرہ مارا۔پھراُچھلے اورتمام گھرمیں پھرپھرکر کہنے لگے:’’ ہائے وہ دن جس دن انسان پراگندہ پتنگوں کی طرح اورپہاڑدھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے ۔‘‘ پھر گرے اور ایسے حالت ہوگئی کہ میں نے سمجھا کہ کام تمام ہوگیا یہاں تک کہ مؤذن نے فجرکی اذان دی تو ہوش میں آئے۔
مرض الموت میں بھی خوف آخرت دامن گیر رہا۔مرض الموت میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک عجیب کیفیت تھی جس کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔
خلیفہ سلیمان بن عبد الملکؒ نے آپ کواپنا جانشین مقررکیا تھا توآپ کے بعد یزید بن عبد الملک کوخلیفہ نامزد کردیاتھا۔اس لیے جب آپ کو زندگی کی امیدباقی نہ رہی تو اسے بلاکر ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا جس میں لکھا:
’’میں یہ وصیت نامہ اس حالت میں لکھ رہاہوں کہ مرض سے لاغر ہوگیاہوں ۔تم کومعلوم ہے کہ خلافت کے بارے میں خدامجھ سے سوال کرے گا اور اس کا حساب لے گا اور میں اس سے کسی کام کوچھپا نہ سکوں گا۔‘‘
’’اگرخدا مجھ سے راضی ہوگیا تو میرے لیے کامیابی وکامرانی ہے۔مجھے ایک طویل اوردرد ناک عذاب سے نجات مل جائے گی ۔اور اگرخدا مجھ سے ناراض ہواتومیرے انجام پرافسوس ہے۔میں اس خداسے جس کے سوا اورکوئی نہیں ،دعاکرتاہوں کہ مجھے اپنی رحمت سے جہنم کے عذاب سے نجات دے اوراپنی رضامندی سے جنت عطافرمائے۔ تم کوتقویٰ اختیار کرنا چاہئے اور رعایا کاخیال رکھنا چاہئے کیونکہ میرے بعد تم بھی صرف تھوڑے ہی دن زندہ رہو گے ۔تم کو اس سے احتراز کرنا چاہئے کہ تم سے غفلت میں ایسی لغزش سرزد ہو جس کی تلافی نہ کرسکو۔‘‘
آپ کی اہلیہ وفات کے سلسلہ میں یوں بیان کرتی ہیں کہ میں نے آپ سے کہا:’’آپ سوئے نہیں ہیں۔ میں آپ کے پاس سے ہٹ جائوں شاید آپ کونیند آجائے۔یہ کہہ کر وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ وہاں سے میں نے سنا کہ آپ باربار اس آیت کی تلاوت کررہے تھے:
تِلْکَ الدَّارُ الآخِــرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُواًّفِیْ الْأَرْضِ وَلَافَسَـــاداً، وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ) ’’یہ آخرت کاگھر ہم ان لوگوں کیلئے بناتے ہیں جو زمین میں نہ تفوق چاہتے ہیں اورنہ فساد کرتے ہیں۔ اورعاقبت صرف پرہیزگاروں کیلئے ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ نے گردن جھکالی اورکافی دیرتک کسی قسم کی حرکت دیکھنے میں نہ آئی۔فرماتی ہیں کہ میں نے تیمار دارخادم سے کہا:جاکر دیکھوآپ کاکیا حال ہے ؟خادم آپ کودیکھتے ہی چیخ اُٹھا۔فاطمہ نے قریب جاکر دیکھاتو اللہ کا یہ محبوب بندہ جوہروقت اپنے دل میں آخرت کا خوف رکھتاتھا،دارآخرت کوکوچ کرگیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اس آفتاب کے غروب ہونے کے بعد امت مسلمہ میں بڑے چھوٹے ستارے تونمودار ہوتے رہے لیکن پھر ایسا آفتاب طلوع نہ ہوا۔
محمد بن معبد کا بیان ہے کہ میں شاہ روم کے پاس گیا تو وہ نہایت مغموم حالت میں بیٹھا تھا ۔میں نے اس کی حالت دریافت کی بولاتم کومعلوم نہیں مردصالح کا انتقال ہو گیا۔میں نے پوچھا وہ کون؟اس نے کہا: عمربن عبد العزیزؒ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اگر کوئی مردے کو زندہ کرسکتاتو وہ عمربن عبدالعزیزؒ ہی ہوتے۔مجھے اس راہب کی حالت پر کوئی تعجب نہیں جس نے دنیا کی طرف سے اپنا دروازہ بند کرلیا ہواورعبادت میں اپنے کو محو رکھتاہومجھے اس شخص کی حالت پرتعجب ہے جس کے قدموں کے نیچے دنیاتھی اوراس نے اس کوپامال کرکے راہبانہ زندگی بسرکی۔
موجودہ دورمیں ہے کوئی عوامی حکومت کاایسا عوامی نمائندہ جوحکومت کواللہ کی امانت سمجھ کرچلائے اوریوم آخرت کی جوابدہی کی اُسے فکر ہو؟(روزن تاریخ )
٭٭٭
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اسم گرامی محمدواحمدکے فضائل
ناصرالدین مظاہری
حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی جس طرح نوع انسانی کے لئے رحمت ورأفت ہے اسی طرح آپ کے مبارک نام بھی امت کے لئے سراپارحمت ہیں چنانچہ بہت سی روایات اوراسلاف کے آثاراس سلسلہ میں کتابوں میں موجودہیں جن سے مبارک نام محمدواحمدکے فضائل اورمحاسن کااندازہ ہوتاہے ،اورہم لوگوں کوان احادیث سے یہ سبق ملتاہے کہ جدیددورسے مرعوب ہوکرنئے اوربے معنیٰ نام رکھنے سے بہترہے کہ اپنے بچوں کے نام اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی نام محمداوراحمد رکھنے چاہئیں کیونکہ ان ناموں کی برکت دیرپاہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کاارشادپیش کروں گا:
’’جس گھرمیں محمدنام کاکوئی شخص ہوتاہے توحق تعالیٰ شانہ اس گھروالوں کی ہردن ورات برکت کے ساتھ نگہداشت فرماتے ہیں۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جس گھرمیں میرانام ہوگاتواس میں فقرداخل نہ ہوگا۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کے کوئی بچہ پیداہواوروہ بطوربرکت اس کانام محمدرکھے تووہ اوراس کابچہ دونوں جنت میں جائیں گے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دوبندوں کواپنے سامنے کھڑاکریں گے اورپھرجنت میں داخل کرنے کاحکم صادرفرمائیں گے وہ دونوں عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم کس وجہ سے جنت کے مستحق ہیں ہم نے کوئی ایساکام نہیں کیاجس کابدلہ جنت ہے ،حق تعالیٰ شانہ ارشادفرمائیں گے کہ اے میرے بندو!جنت میں چلے جاؤ!میں نے قسم کھالی ہے کہ دوزخ میں احمدیامحمدنام کاکوئی شخص داخل نہ ہوگا۔
حضرت حسن بصریؒکاارشادہے جس میں کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کوعاردلائے گااورفرمائے گاکہ تم نے اپنانام میرے حبیب کے نام پررکھاپھربھی گناہ کرتے ہوئے شرم نہیں آئی وہ بندہ اپنی گردن جھکاکراعتراف گناہ کرے گاتواللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ کسی بندے کانام میرے حبیب کے نام پرہوپھربھی میں اسے جہنم میں داخل کروں۔
یہی نہیں بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جن اہم اموراورکاموں میں کسی محمدنامی شخص سے مشورہ لیاجائے اس میں خیرہوگی اورجس کام میں کسی محمدنامی فردسے مشورہ نہ لیاجائے اس میں خیرنہ ہوگی۔
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جوجماعت کوئی مشورہ کرتی ہواوران کے ہمراہ احمدیامحمدنامی شخص ہوجس کووہ اپنے مشورہ میں شریک کرلیں تویہ ان کے لئے باعث خیرہے۔
اورایک دوسری روایت میں نقل کیاہے کہ:
جوجماعت مشورہ کے لئے اکٹھی ہواوراس میں محمدنامی شخص بھی ہواوروہ اس کواپنے مشورہ میں داخل نہ کرے توبرکت نہ ہوگی۔
اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ جس دسترخوان پرمحمدیااحمدنامی کوئی شخص شریک ہوتووہ منزل دن میں دومرتبہ تسبیح وتقدیس بیان کرتی ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
جب بھی کوئی حلال کھاناکھایاجاتاہے اوراس میں وہ شخص بھی ہوجس کانام میرے نام پرہے توکھانے میں برکت دوچندہوجاتی ہے۔
استاذمحترم استاذ العلماء حضرت مولانااطہرحسینؒشیخ الادب مظاہرعلوم سہارنپورنے علامہ حافظ ابوعبداللہ حسین ابن احمدبن بکیرؒکی کتاب فضل اسم محمدواحمد‘‘ کواردوکے قالب میں بڑی خوبی اورخوش اسلوبی کے ساتھ ڈھال کراس کی اہمیت ،افادیت اورنافعیت میں قابل قدراضافہ فرمادیاہے،اس کتاب میں ادب کی چاشنی بھی ہے فصاحت کی شیرینی بھی،بلاغت کی حلاوت بھی ہے محدثین کے نظریات بھی،محققین کی تحقیقات ونگارشات کانچوڑبھی ہے اورمفسرین کی نکتہ آفرینی بھی،مورخین کی دیدہ ریزی اورعرق ریزی کااظہاربھی ہے اوراعتراف بھی،خودحضرت مولانااطہرحسینؒکے وسعت مطالعہ اورعربی ادب پرکمال ودسترس کے ثبوت اورشواہدبھی۔
حضرت امام ابونعیم نے اپنی کتاب ’’حلیۃ الاولیاء‘‘میں حضرت نبیط بن شریط رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ
’’مجھے اپنی عزت اورجلال کی قسم ہے جس کانام تمہارے نام پرہوگااسے دوزخ کاعذاب نہیں دوں گا۔‘‘
حضرت انس بن مالکؓایک روایت میں نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ٰکاارشادہے :
’’جس کانام میرے محبوب کے نام پرہواس کوعذاب دیتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔‘‘
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒنے ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں ایک حدیث نقل کی ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ جس شخص کانام محمدہوگا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اس کی شفاعت فرمائیں گے۔
قاضی عیاض ؒنے اپنی کتاب’’ شفا‘‘میں لکھاہے کہ
’’ اللہ اوراس کے فرشتے بخشش ورحمت کرتے ہیں اس پرجس کانام محمدیااحمدہو‘‘۔(قصیدہ بردہ)
ابن ابی عاصم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے میرے نام پراپنانام رکھااورمجھ سے برکت کی امیدرکھی تواس کوبرکت حاصل ہوگی اوروہ برکت قیامت تک جاری رہے گی‘‘۔(خصائص الکبریٰ)
بہت سے لوگ ایک گھرمیں ایک نام سے زائدنام کومعیوب سمجھتے ہیں حالانکہ اگرکسی گھرمیں محمدیااحمدنام کے ایک سے زائدافرادہوں تواس گھرمیں اللہ کی رحمتیں اوربرکتیں بہت زیادہ ہوں گی چنانچہ اس بارے میں بھی ابن سعدنے اپنی طبقات میں ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگرتم میں سے کسی کے گھرمیں ایک یادویاتین محمدہوں توکیاحرج ہے تمہارے گھرمیں توبہت برکت ہوگی۔
اسلاف نے بتایاہے اورکتابوں میں بھی موجودہے کہ اگرکسی شخص کانام محمدہوتواس کی برکت صرف اس کے گھرتک ہی محدودنہیں رہتی بلکہ اس کے پاس پڑوس والے بھی اس برکت سے فیضیاب ہوتے ہیں چنانچہ حضرت مالک بن انس ؓسے روایت ہے کہ میں نے مکہ مکرمہ والوں سے سناہے کہ جس گھرمیں محمدنامی کوئی آدمی رہتاہووہ گھربرکت والاہے اوراس کے ہمسایوں کوبغیرکسی خاص مشقت کے رزق ملتارہتاہے۔(احکام شریعت)
’’مدارج النبوۃ‘‘ میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ :کوئی گھرنہیں ہے جس میں محمدنام والے ہوں مگریہ کہ حق تعالیٰ انھیں برکت دے۔
کتابوں میں تویہاں تک لکھاہواہے کہ اللہ تعالیٰ کے رحمت کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جوروئے زمین پرٹہلتے رہتے ہیں اورجب انھیں کوئی گھرایساملتاہے جس میں محمدیااحمدنام کاکوئی شخص ہوتووہ فرشتے وہیں رک جاتے ہیںچنانچہ اس روایت کوقاضی صاحبؒنے اپنی’’ شفا‘‘میں نقل کیاہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’اللہ کے مقررکردہ بعض فرشتے ہیں جوزمین میں گھومتے پھرتے ہیں اورجس گھرمیں کوئی محمداحمدنام کاکوئی آدمی رہتاہواس میں ٹھہرجاتے ہیں‘‘۔
اسی لئے قاضی صاحب نے مشورہ دیاہے کہ ہرمسلمان کوچاہئے کہ اس کے گھرمیں ایک بلکہ دوبلکہ تین لوگ کم ازکم محمدنامی ہوں توزیادہ سے زیادہ برکتوں کاحصول ہوسکے۔
اب سنئے!بہت سے لوگ محمدنامی افرادکے ساتھ عام لوگوں جیساسلوک اورمعاملہ کرتے ہیں اس سلسلہ میں بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات موجودہیں ۔
حضرت جعفررضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’جب تم نے کسی شخص کانام محمدرکھ دیاہوتواس کی تعظیم وتوقیرکرواوراس کوذلیل ورسوانہ کرواورنہ اس کوحقیرسمجھو‘‘۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادنقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’جب تم بچہ کانام محمدرکھ دوتواس کااعزازواکرام کرواورمجلس میں اس کے لئے کشادہ ہوجاؤاوراس کے ساتھ بداخلاقی سے پیش نہ آؤ‘‘۔
چنانچہ اس زمانہ میں جب کہ مشرقی تہذیب کاجنازہ نکل چکاہے،مغربی تہذیب نے اپنے پنجے گاڑلئے ہیں،کفرکی ہوائیں خرمن اسلام کواکھاڑپھینکناچاہتی ہیں،شیطانی موجیں اس کوشش میں ہیں کہ اسلام اوراسلامی نشیمن خس وخاشاک کی طرح بہ جائیں،انگریزی تعلیم اورتہذیب نے ادب کے مفہوم کوبدل کررکھ دیاہے،اب باپ اپنے بیٹے کے ساتھ،بیٹااپنے باپ کے ساتھ،ماں اپنی بیٹی کے ساتھ،بیٹی اپنی ماں کے ساتھ،بیٹااپنی ماں کے ساتھ،بھائی اپنی بہن کے ساتھ اوربہن اپنے بھائی کے ساتھ وہ محبت اوروہ مروت جوکہ محبوب اورمطلوب تھی نہیں کرتے ،وہ نہیں کرتاجس سے ان کارب راضی اورخوش ہوجائے البتہ وہ کرتے ہیں جس سے ان کونئی تہذیب کاپروردہ ودلدادہ تصورکیاجائے،اللہ کی ناراضی کوبھلاکرنئے ماحول اورنئی تہذیب میںمقبولیت حاصل کرناہی معراج سمجھ لیاگیاہے۔نئے نئے بے ہودہ فلمی اسٹائل کے نام رکھنے پرفخرکیاجاتاہے،قدیم ناموں کوبراسمجھاجانے لگاہے،ایسے ہی ناموں کوبگاڑنے اوربدل کرخراب کرنے کارواج چل پڑاہے،اچھے اچھے ناموں کی شکلیں اورحلیے بگاڑدئے گئے،خودنام والوں کواپناصحیح نام معلوم نہیں ہے،اس میں اس جہالت کابھی دخل ہے جس کی وجہ سے ایسی برائیاں اوربیماریاں ہمیں نظرنہیں آتیں اورنظربھی کیسے آئے گی ،مغربی تعلیم کو ’’تعلیم‘‘سمجھاگیا،دینی تعلیم کودقیانوسیت کانام دیاگیا،قرآن کوصرف جہیزمیں دینے سے کام نہیں چل سکتا،مساجدمیں صرف قرآن رکھوانے سے کام نہیں چل سکتا،ضرورت ہے کہ صحیح انسان بناجائے اورصحیح انسان بننے کے لئے روئے زمین کے سب سے صحیح انسان حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوسیکھنا لابدی ہے،جس کیلئے سب سے پہلے کڑی اچھے نام رکھناہے اورپھراس کوبگاڑنے سے بھی محفوظ رکھنابہت ضروری ہے۔
یادرکھئے جن لوگوں نے کسی کانام بگاڑایابگاڑنے کی کوشش کی،غلط ناموں سے پکاراتوایسے لوگ قرآن کی تعلیم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں اورعنداللہ ماخوذہوں گے۔
ناموں کااثرشخصیت پرپڑتاہے،جیسانام ہوگاوہی اثرات نام والے میں آئیں گے اس لئے اگرچاہتے ہوکہ تمہاری ذات سے تمہارے لوگوں کوفیض اورفائدہ پہنچے تونام اچھارکھوتاکہ یہاں بھی اوروہاں بھی دونوں جگہ خیرہمارامقدرہوسکے۔
اس موقع پرمجھے مشہورہندوستانی سلطان اورفاتح محمودغزنویؒکاایک واقعہ یادآتاہے ،محمودغزنوی کے سب سے معتمداورسب سے خاص جلیس اورمصاحب ’’ایاز‘‘تھے،ایازکے بیٹے کانام ’’محمد‘‘تھا،محمودغزنوی جب بھی محمدکوبلاتے توغایت پیاراورشفقت سے پیش آتے ،ایک دفعہ محمودغزنوی نے اس کوبلاناچاہاتوبجائے نام کے ’’اے ایازکے بیٹے‘‘کہہ کرمخاطب کیا۔
ایازبہت دوراندیش،معاملہ فہم اورزیرک تھااس نے غورکیااورسمجھاکہ شایدمیری کسی بات پربادشاہ سلامت خفاہیں اس لئے معلوم کیااورناراضگی کی وجہ پوچھی تومحمودغزنویؒنے کہاکہ میں کسی بات پرخفانہیں ہوں البتہ نام لے کراس لئے نہیں پکاراکہ اس وقت میراوضونہیں تھااورمیری غیرت نے گوارانہیں کیاکہ میں بغیروضوکے ایسانام لوں جوکونین کے سردارحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی پرہے،یہ واقعہ مشہور تفسیرروح البیان میں موجودہے۔
روح البیان ہی میں ایک اورروایت موجودہے کہ آپﷺ نے ارشادفرمایا:جس کسی نے اپنے بیٹے کانام میری محبت اورحصول برکت کے واسطے رکھاتووہ اوراس کابیٹادونوں جنت میں جائیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کی برکت سے بنی اسرائیل کے ایک گنہ گارکی مغفرت کاواقعہ مختلف کتابوں میں موجودہے ،خصائص الکبری اورروح البیان میں بھی اس واقعہ کونقل کیاگیاہے کہ ایک شخص تھا جوبہت گنہ گارتھاجب وہ مرگیاتولوگوں نے اس کودفن نہیں کیاکیونکہ اس کے گناہوں کی وجہ سے لوگوں کواس سے نفرت تھی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایاکہ اے موسیٰ !اس شخص کونہلاؤ!کفناؤاوردفناؤ!حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیاکہ یااللہ!وہ توبڑاگنہ گارہے ؟اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ واقعی گنہ گارہے لیکن یہ شخص جب بھی توریت کھولتااورمیرے محبوب کے نام احمدپرجب بھی اس کی نظرپڑتی تویہ شخص اس کواپنی آنکھوں سے لگاتااورپیارسے چومتاتھا۔
علامہ سیوطیؒکی حدیث دانی اورتاریخ دانی میں علماء کواعتمادہے انہوں نے نقل کیاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جوانگوٹھی تھی اس پرکلمہ طیبہ کندہ تھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناکہ جب مجھے معراج ہوئی اورمیں آسمان کے جس طبقہ پربھی گیاوہاں میں نے ’’محمدرسول اللہ‘‘لکھاہواپایا۔
حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒکے ملفوظات میں ہے کہ اگرکسی شخص کے بچہ نہ پیداہوتاہوتواس کوچاہئے کہ حمل کے شروع میں چالیس دنوں تک اپنی بیوی کے پیٹ پریہ دعاپڑھ کردم کرے ’’انی سمیت محمداًباسم نبیک صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ان شاء اللہ لڑکاپیداہوگا۔
ابن ابی ملیکہ نے بروایت ابن جریج یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ جس کسی کے حمل ہواوروہ پختہ ارادہ کرلے کہ میں اس کانام محمدرکھوں گاتواللہ تعالیٰ اسے لڑکاعطافرمائے گا۔
بعض محدثین لکھتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کاسات بارتجربہ کیااورالحمدللہ ہربارلڑکاہی ہوا۔
اسی طرح ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اورعرض کیاکہ میراکوئی بچہ زندہ نہیں رہتامرجاتاہے توفرمایاکہ ارادہ کرلوکہ اب جولڑکاپیداہوگاتواس کانام محمدرکھوگی توان شاء اللہ لڑکاہی ہوگا،اس عورت نے ایساکیااوراس کے بچہ ہوااورزندہ رہا۔
میرے استاذحضرت مولانااطہرحسینؒکایہ زندگی بھرکامعمول رہاکہ انہوں نے اپنے تمام بچوں کے نام ایسے رکھے جس سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پاک سے انتساب اورنسبت ہومثلاًمحمد،احمد، محمدی، احمدی،محمدہ وغیرہ۔
مظاہرعلوم (وقف) سہارنپورکے موجودہ ناظم حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ نے بھی اپنے تمام بچوں کے نام محمدرکھے ہیں البتہ ان کی عرفیت کے لئے بطورلقب دیگرالفاظ کااضافہ کردیاہے تاکہ باہم امتیازرہوسکے۔
قدیم اسلاف میں بھی اس کی بہت سی نظیریں اورمثالیں ملتی ہیں جن کے نام محمدیااحمدرکھے گئے بلکہ ترمذی شریف کے سبق میں حضرت مولانارئیس الدین بجنوریؒنے کسی محدث کانام ارشادفرمایاتھااوربتایاتھاکہ چودہ پشتوں تک سب کے نام محمدتھے۔
ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اورتعلیمات کواپنی زندگیوں میں شامل کریںکہ دارین کی نجات وفلاح اسی میں مضمروپوشیدہ ہے۔
٭٭٭
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت حافظ فضل حق سہارنپوریؒ
سب سے پہلے واقف…سب سے پہلے خزانچی
ناصرالدین مظاہری
حضرت اقدس الحاج حافظ فضل حق ؒشہرسہارنپورکے صاحب ثروت،رئیس اورامیرالامراء تھے،ایک طویل عرصہ تک مظاہرعلوم(وقف)سہارنپورکے سب سے پہلے محافظ مالیات تھے ،اپنی دیانتداری اورتقویٰ و پرہیزگاری کی بناء پر اپنے عہدزریں کے تمام اکابر کے پسندیدہ اورمحبوب تھے ۔
مظاہرعلوم (وقف)سہارنپورکوموجودہ اورمحلہ میں لانے کیلئے حافظ صاحب نے بے مثال قربانیاں،محنتیں اوراُس زمانہ میں عوام کی مخالفتیں برداشت کرکے اوراپنی قیمتی زمین کا ایک حصہ مدرسہ کو وقف فرماکر فرماکریہاں منتقل کرایااسی کے ساتھ ایک بڑی رقم بھی مدرسہ میں جمع کرائی ۔
مظاہرعلوم(وقف) کی موجودہ سب سے پہلی عمارت جو’’دفترمدرسہ قدیم ‘‘کے نام سے موسوم ہے اورعلیٰ حالہ برقرارہے ،اس کی تعمیر کے دوران آپؒنے بڑی لگن اورجانفشانی کے ساتھ معماروں اورمزدوروںسے کام لیاتھا ،بہ نفس نفیس تمام دن حاضررہ کرنگرانی وخبرگیری فرماتے تھے۔
اس زمانہ میں عمارت میں جوتیارشدہ مصالحہ استعمال ہوتاتھاوہ حافظ صاحب کی ذاتی دلچسپیوں سے آپ کے گھروں اوررشتہ داریوں میں تیارہوکرآتاتھا،گھرکی عورتیں بھی دن رات وہ مصالحہ پیس پیس کربھیجتی رہتی تھیں۔جومعمارحضرات ضرورت کی جگہوں پرصرف کرتے تھے۔
حضرت مولانا عنایت الٰہی سہارنپوریؒ جوبعدمیں مدرسہ کے ناظم ومہتمم بھی ہوئے آ پؒ کے معاون وشریک کاربن کر حساب وکتاب اورتعمیری اخراجات کی دیکھ بھال کرتے تھے ۔
چونکہ اس سے پہلے تک مدرسہ کرایہ کے مکانوں میں تھالیکن ۱۲۹۳ھ میں جب مدرسہ کی ذاتی عمارت مکمل ہوگئی تودیگرمخیرین کے علاوہ حافظ فضل حق صاحب ؒکوبھی بہت خوشی تھی ،چنانچہ آپ ؒنے اس پرمسرت موقع پرایک تقریب کاانعقادفرمایااورتمام شرکاء تقریب کی دعوت کی ۔
آپؒ حضرت مولانا محمد مظہرنانوتویؒ کے خصوصی رفیق ، دست راست ،معاون خاص،خادم وعاشق اورسچے جاں نثاروں میں سے تھے ،چنانچہ حضرت مولانا جتنی دیر تک درس دیتے یہ حاضر خدمت رہتے ،گرمیوں کے زمانے میں مولانا کے پاس بیٹھ کر مسلسل پنکھا جھلتے رہتے تھے ۔
حضرت مولانا خلیل احمدمہاجرمدنیؒنے آپؒ کی خدمات اورللہیت وخلوص کا اعتراف کرتے ہوئے ۱۳۱۴ھ میں مظاہر علوم (وقف)سہارنپورکے جلسہ ٔ سالانہ میں فرمایا تھا کہ
’’مدرسہ کا شہر کے جنوبی کنارہ سے شمالی کنارہ میں منتقل ہونا علماء کے جانثار ،علم کے دلدادہ جناب حافظ فضل حق صاحب مرحوم خزانچی مدرسہ کا جذب طبیعت اوردلی کشش زبردست نہیں رکھتے تھے ۔مدرسہ کی تعمیر کے وقت اکثرحصہ زمین کا مدرسہ کو حافظ صاحب کا عطیہ ہے اورزر نقد سے بھی بہت کچھ امداد واعانت فرمائی‘‘ ۔
آپؒ چونکہ بزرگوں کے صحبت یافتہ ،حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒ کی جماعت کے خصوصی فردتھے اس لئے ان حضرات کی صحبتوں سکاپوراپورااثرآپ میں ہونابدیہی امرہے ،یہی وجہ تھی کہ اعتماد ویقین اوراللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے کی جو دولت حافظ محمد فضل حق صاحب کوعطاہوئی تھی اس کا اندازہ حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ کے تحریرفرمودہ اس واقعہ سے ہوتاہے جو’’ آپ بیتی جلددوم‘‘ میں موجودہے کہ
’’حافظ فضل حق صاحب میرے حضرت(مولاناخلیل احمدؒ)کے استاذشیخ المشائخ حضرت مولانامحمد مظہرنانوتویؒجن کے نام نامی پر مدرسہ کانام مظاہرعلوم رکھاگیا،ان کے بہت ہی جانثار اورمعتقد تھے، ان ہی کی کوشش سے مدرسہ قاضی کے محلہ سے جہاں ابتداء ًقائم ہواتھایہاں منتقل ہواجہاں اب ہے،حضرت مولانامحمدمظہرصاحب قدس سرہ کی خدمت میں ہروقت حاضررہتے ،گرمی میں کثرت سے پنکھاجھلتے، ان کا تکیہ ٔ کلام تھا’’اللہ کے فضل ‘‘سے ۔ہربات میں یہی کہاکرتے تھے کہ اللہ کے فضل سے یہ ہوا،اللہ کے فضل سے وہ ہوا۔
ایک مرتبہ حافظ صاحب نے حضرت مولانا محمد مظہر صاحب سے صبح کویہ عرض کیا ،حضرت جی! رات تو اللہ کے فضل سے اللہ کا غضب ہو گیا تھا ،حضرت قدس سرہ بھی یہ فقرہ سن کرہنس پڑے اوردریافت کیاکہ حافظ جی! اللہ کے فضل سے اللہ کاغضب کیاہوگیاتھا ؟انہوں نے عرض کیا کہ حضرت جی !رات میں سورہا تھااورمکان میں اکیلاہی تھا،میری جو آنکھ کھلی ،میں نے دیکھاکہ تین چارآدمی میرے کوٹھے کے کواڑکوچمٹ رہے ہیں ،میں نے ان سے بیٹھ کرپوچھاکہ ابے تم چورہو؟کہنے لگے ہاں ہم چورہیں! میں نے کہاسنو! میں شہرکے رؤسامیں شمارہوں اورمدرسہ کا خزانہ بھی میرے پاس ہے اوروہ ساراکاسارااسی کوٹھے میں ہے اوریہ تالاجواس کو لگ رہاہے چھ پیسے کاہے ،تمہارے باپ داداسے بھی نہیں ٹوٹنے کا،تم توتین چارہو،دس بارہ کواوربلالاؤ،اوراس تالے کوٹھوکتے رہو،یہ ٹوٹنے کانہیں،میں نے حضرت جی! (مولانامحمدمظہرنانوتویؒ)سے سن رکھاہے کہ جس مال کی زکوۃ دے دی جاوے وہ اللہ کی حفاظت میں ہوجاتاہے ،میں نے اس مال کی جتنی زکوۃ واجب ہے اس سے زیادہ دے رکھی ہے ، اس لئے مجھے اس کی حفاظت کی ضرورت نہیں ،اللہ میاں اپنے آپ حفاظت کریں گے ۔
حضرت جی !اللہ کے فضل سے میں تویہ کہہ کرسوگیا۔میں جب پچھلے پہرکواٹھاتووہ لپٹ رہے تھے میں نے ان سے کہا کہ ارے !میں نے تو پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ دس بارہ کو اوربلالاؤ،یہ تالا اللہ کے فضل سے ٹوٹنے کا نہیں ۔
حضرت جی!یہ کہہ کرمیں تو اللہ کے فضل سے نمازمیں لگ گیااورجب اذان ہوگئی تومیں ان سے یہ کہہ کرکہ میں تونمازکوجارہاہوں تم اس کو لپٹتے رہو،پھرحضرت جی اللہ کے فضل سے وہ سب بھاگ گئے‘‘۔ (آپ بیتی جلددوم)
حضرت شیخ الحدیثؒ نے ایک اورجگہ رقم فرمایاہے :
’’جناب الحاج فضل حق صاحب جواعلیٰ حضرت مولانامحمدمظہرنانوتوی نوراللہ مرقدہ کے خادم خاص اورمظاہرعلوم کے محسن اعلیٰ تھے‘‘
صفرالمظفر ۱۳۰۲ھ میں آپؒ کا انتقال ہوا ،وصال کا سبب وہ زخم بنا جو گنا چھیلتے وقت آپ کے ہاتھ میں لگ گیا تھا ۔
حافظ صاحب مرحوم کے بارے میںجو تاثرات روداد مدرسہ میں شائع ہوئے وہ یہ ہیں ۔
’’اس سال میں چند حادثۂ عظیم مدرسہ ہذا پر بلکہ عام مسلمانانِ شہرسہارنپورپر ایسے واقع ہوئے کہ جن کے بیان سے بد ن کو رعشہ ہوتا ہے اورسننے والوں کو رونا آتا ہے ۔
اول واقعہ: حافظ محمد فضل حق صاحب خزانچی مدرسہ کا ہے کہ جن کی ذات خاص سے مدرسہ کے لئے بہت کچھ امداد واعانت تھی اورنیز کیا مدرسہ اورکیا مسجد اوردوسرے امورخیر ،ہر قسم کا روپیہ حافظ صاحب ممدوح کے پاس امانت اس خوبی سے رہتا تھا کہ جس وقت رات کو خواہ دن کو کوئی جزیا کل امانت طلب کرتا ، فوراًواپس حوالہ ہوتا تھا ،علاوہ بریں باوجود نہ ہونے زیادہ استطاعت کے خیر طبعی بہت تھی ۔اکثر طلباء خواستگار گرد ہی رہتے تھے اوربایں ہمہ بطورخاص ہروقت جان ومال سے مدرسہ خبرگیراں رہتے ، مدرسین اورطلبہ کو ان سے ہر قسم کی معاونت تھی ۔
مدرسہ کو ان کے انتقال سے ایک سخت مشکل یہ پیش آئی کہ تحویل دار مثل ان کے نظر نہیں آتا،واقعی ایسا امانت دار ، دیندار خیر خواہ مسلمین ہونا بہت مشکل ہے ‘‘۔
حضرت مولانا فیض الحسن صاحبؒ ادیب اپنے ماہنامہ اخبار شفاء الصدورمیں حضرت حافظ فضل حق صاحب کے حادثہ وفات کی اطلاع بڑے بلند اوروقیع الفاظ میں دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ۔
’’وھکذا موت الحافظ فضل حق السھارنفوری فانہ کان جواداً کریماً امیناً متدیناً محباً للعلماء معاوناً لمدرسۃ السھارنفور۔
چندسطروں کے بعد مزید تحریر فرماتے ہیں ’’وبالجملۃ عاش ما عاش سعیداً ومات اذ مات حمیداً‘‘۔
حضرت حافظ فضل حق صاحبؒ کے انتقال کے بعد ’’مہتمم مالیات‘‘کے تقررکامسئلہ پیش آیا تو حضرت مولانا فیض الحسن ؒ نے اپنی مؤمنانہ فراست اور عارفانہ بصیرت سے حضرت حاجی الٰہی بخشؒ کونہایت موزوں سمجھا چنانچہ حاجی الٰہی بخش کو’’مہتمم مالیات‘‘کا عہدہ سپردکیاگیا(رودادمظاہرعلوم۱۳۲۱ھ؁)
۱۳۲۱ھ میں جناب حافظ الٰہی بخش صاحب موصوف کا بھی وصال ہوگیا تو مدرسہ کایہ عہدہ حاجی احمد جان صاحب کی طرف منتقل ہوا۔
حضرت حافظ فضل حقؒ کے صاحب زادگان میں دوحضرات کے اسماء گرامی آپ بیتی میں ملتے ہیں ایک حافظ زندہ حسن صاحب اوردوسرے حافظ الحاج شیخ حبیب احمدصاحبان یہ دونوں حضرات بھی والدماجدکے نقش قدم پرچلتے رہے،علماء اوراکابرسے خصوصی تعلق رکھا،خیرکے کاموں میں حصہ لیتے رہے،حضرت گنگوہی اور حضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒ سے خصوصی عقیدت ومحبت تھی،یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒکاوصال ہوااورتدفین کے معاملہ میں عوام میں اختلاف رائے ہواتویہی صاحب زادگان اس بات پر مصرہوئے کہ چونکہ حضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒ کا حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒسے خصوصی تعلق تھا اور حضرت نانوتویؒقبرستان حاجی شاہ کمال میں مدفون ہیں اس لئے آپؒ کی تدفین بھی ان ہی کہ جوارمیں ہونی چاہئے چنانچہ یہی فیصلہ ہوااورحاجی شاہ میں تدفین عمل میں آئی ۔
جس طرح حافظ فضل حقؒنے مدرسہ کی سب سے پہلی عمارت دفترمدرسہ قدیم کے لئے زمین وقف فرمائی تھی ،آپؒ کے فرزندجناب حافظ زندہ حسنؒ مرحوم نے بھی مدرسہ کی دوسری سب سے اہم عمارت ’’دارالطلبہ قدیم‘‘کی تعمیرکے لئے سرائے کیدارناتھ میں واقع اپنی زمین مدرسہ کووقف کی تھی ۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اسلام میںدولت کامقام
ناصرالدین مظاہری
علماء حق کی روح افزا مجلسیںعقل ودانش کی بندگرہوںکوکھولنے کیلئے ہمیشہ آزمودہ رہی ہیں،یہاں خاموشی کے ساتھ بیٹھنے والابھی جو دولت بے بہالے جاتاہے وہ دولت مدرسوںکی ٹوٹی چٹائیاں،کالجوں کی اونچی تپائیاں اوریونیورسٹیوں کی میزوکرسیاں بھی دینے سے عاجزوقاصر رہتی ہیں،شایدہمارے اکابرنے اسی لئے تعلیم سے زیادہ تربیت کواہمیت دی ہے، سالہاسال تعلیم حاصل کرنے والابھی بسااوقات اُس چیزسے محروم رہ جاتاہے جوچیزدینی وروحانی مجالس میں چندگھڑی بیٹھنے سے مل جاتی ہے ۔
۲۰؍ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ پنجشنبہ کومجھے بھی ایسی ہی ایک علمی مجلس میں لکھنے کے لئے ’’عنوان‘‘ مل گیا،ہوایہ کہ راقم مظاہرعلوم( وقف) سہارنپورکے ناظم ومتولی مولانا محمدسعیدی کی خدمت میں اُن کے دولت خانہ پرحاضرتھا،کئی علماء بھی موجودتھے ،مشہورعالم دین مفتی محمدارشدفاروقی اعظمی بھی دیوبندسے تشریف لائے ہوئے تھے ۔اِدھراُدھرکی مختلف باتوں کے درمیان مفتی صاحب حضرت ناظم صاحب سے کہنے لگے کہ میں ایک کتاب کاترجمہ کر رہاہوں ،اس میں حضرت سفیان ثوریؒکاایک ملفوظ پڑھا’’لولاہذہ الدنانیرلتمندل بناھوٰلاء الملوک‘‘ میں نے اس کاترجمہ کیاہے کہ’’اگرکرنسی نہ ہوتی توشاہان وقت ہمیں ٹشوپیپربنادیتے‘‘۔
ٹشوپیپروالی بات پرمجھے بھی ایک صاحب کی تحریرکاایک جملہ یادآیاکہ:جولوگ دوسروں کی زندگیوں کو ٹشوپیپرکی طرح استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں، ان کی اپنی زندگیاں ’’ڈسٹ بین‘‘بن جاتی ہیں۔
حضرت سفیان ثوریؒحدیث وتصوف کے امام ہیں آپ کی نظرکیمیااثراورآپ کے اقوال طیبات نہایت اہمیت کے حامل ہیں چنانچہ درج بالاملفوظ کے علاوہ ایک دوسرے موقع پرارشادفرمایا:
’’میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں ،اس سے بہترہے کہ دس ہزاردرہم چھوڑجاؤں ‘‘
ایک اورموقع پرفرمایا:’’پہلے مال ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھاجاتاتھالیکن ہمارے دورمیں تومال مؤمن کی ڈھال ہے‘‘ (ندائے تربیت بحوالہ سیراعلام النبلاء)
دین کے ساتھ بقدرضرورت دنیابھی ضروری ہے۔اگرخدانخواستہ دولت کی موجودہ تقسیم نہ ہوتی توآج حکومت اورحکمرانوں کی نظرمیں عوام کی کوئی بھی قدرومنزلت نہ رہتی…کیاآپ نہیں دیکھتے کہ حکمراں اپناجانشین اپنی صلبی اولادکوبنانے کے لئے فکرمندنظرآتے ہیں…کیادنیااس حقیقت سے انکارکرسکتی ہے کہ دولت مندوں کی تجوریاں غرباء اورمزدوروں کے خون پسینہ کی جمع پونجی ہیں…کیایہ سچ نہیں ہے کہ مزدور ہی اصل میں حکمرانوں،رئیسوں،امیروں،شاہوں اورنوابوں کے محسن ہوتے ہیں ؟…یہ الٰہی تقسیم ہے جس پرہم خوش ہیں کیونکہ اللہ نے پانچوں انگلیاں برابرنہیں بنائیں…چنانچہ آپ اطراف واکناف پرنظرکریں تومعلوم ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کوچوکیداربنایاتوکسی کوشاہ وقت …کوئی فریادکناں توکوئی ٹیکس خواہ…کسی کورنج ومشقت کاخوگربنایاتوکسی کوسکون واطمینان کی دولت بخشی…کسی کو تاج داربنایا توکسی کو باج دار…ایک کورات گزرانے کے لئے ٹوٹی چٹائی میسرہوئی ہے تودوسرے کوریشمی ومخملی کپڑوں سے مالامال کیا…کسی کوبے سازوسامان بنایاتوکسی کاگھربھردیا…کوئی نامرادہے توکوئی بامراد…کوئی خوش حال ہے توکوئی فارغ البال…ایک کومارتاہے توایک کواٹھاتاہے…ایک تندرست ہے توایک علالت سے دوچار…ایک جوان سال ہے توایک خوردسال…ایک مؤمن صادق ہے توایک کافرمطلق…ایک خوش اخلاق ہے توایک بداخلاق…ایک عشرت میں ہے توایک عُسر ت میں…ایک کے ہاتھوں میں نان وقورمہ ہے توایک کامنہ فقروفاقہ سے کھلاہوا…ایک سرداروزردارہے تودوسرابے نواعیال دار…ایک گلستان راحت کاباشندہ ہے توایک رنج ومحنت کاندیم …ایک کے پاس دولت رکھنے کے لئے جگہ نہیں توایک کے پاس خودکے رہنے کے لئے چھپرنہیں…ایک خوش وخرم ہے اورایک مکروب ومحزون…ایک گناہ گارہے توایک کارعبادت پرمامور…ایک کے ہاتھ میں شراب کی بوتل توایک کے ہاتھ میںتسبیح …ایک عبادت خانہ میں سجدہ ریزتوایک مسافرخانہ میں رسوا…ایک مسجدمیں شاغل توایک بت خانہ میں غافل …ایک کااقبال بلندتوایک کا رُوبہ زوال…ایک سعادت مندیوں پرکمندیں نصب کرنے والاتوایک راستوں میں ڈکیتی پرمامور…ایک ایمان داری کاپیکرمجسم توایک بے ایمانیوں کامعجون مرکب…شاعرنے خوب کہاہے
کم عالم عالم اعبت مذاہنہ
وجاہل جاہل تلقاہ مرزوقاً
ہذالذی یترک الالباب حائرۃ
وصیرالعالم النحریرزندیقاً
بہت سے ہنرمندوں نے حوصلے ہاردئے،تھک کربیٹھ گئے،لیکن ان کے مقابلہ میں ان پڑھ اورجاہل خوش حال اورفارغ البال ہوگئے،بلاشبہ غریبی وہ لعنت ہے جوعقل کوششدراوراچھے اچھوں کوبے دین بنادیتی ہے۔
ایک اورعرب شاعرنے اس پس منظرکوخوبصورت سانچے میں ڈھالاہے:
الرزق کالغیث بین الناس منقسم
ہذاغریق وہذایشتہی المطرا
یسعی القوی فلاینال بسعیہ
حظاویحظی عاجزومہین
روزی تولوگوں میں بارش کی طرح برستی ہے ،کوئی اس میں شرابورہوجاتاہے اورکوئی قطرہ کوترس جاتاہے ،جفاکش اورمحنتی سخت دوڑودھوپ کے باوجودمحروم رہ جاتاہے اورکاہل غبی ڈھیروں اکٹھاکرلیتاہے۔
اِن واضح صداقتوں کی روشنی میں یہ بات صاف اورواشگاف ہوکرسامنے آجاتی ہے کہ یہ دنیاایک چراگاہ ہے…اس کی رنگینی ورعنائی…حسن وخوبصورتی اور اس کی زیبائی ودلفریبی کی طرح انسانی طبائع کا میلان ورجحان بھی ایک فطری اور لابدی چیزہے۔
جولوگ خواہشات نفسانی کا گلاگھونٹ کر،تعیشات زندگی کو خیرباد کہہ کر اور اپنی آرزؤں،امنگوں اور آس وامیدوں پر شرعی تقاضوں کو ترجیح دینے میں کامیاب ہوتے ہیں…جولوگ قرآنی مطالبات کی کسوٹی پر اپنے آپ کو ناپنے اور تولنے کا ہنرجان لیتے ہیں وہ دنیاوی لذات ،نفسانی خواہشات اورتمدنی تعیشات سے خائف نہیں ہوتے۔
امام اعظم ابوحنیفہ ؒ اور شیخ جنیدبغدادی ؒجیسے خداجانے کتنے اکابرعلماء ہیں جن کے دَراور دربارپر دولت کے انبارنظرآتے ہیں… جہاں دولت کی ریل پیل کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں… لیکن ان کی دولت اور ثروت کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں سے نہ معلوم کتنے بھوکوں کو آسودگی میسرہوتی ہے…کتنے بے لباسوں کولباس ملتاہے…کتنے پیاسوں کی سیرابی ہوتی ہے…کتنے ضرورت مندوں کی ضروریات کا تکفل ہوتاہے…کتنے گھروں میں ان درباروں کی وجہ سے چولھے جلتے ہیں…کتنے آشیانوں میں اُن حضرات کی دریادلی کے باعث چراغاں ہوتاہے…اور کتنے ہی مرجھائے اور کمہلائے چہروں پر ہنسی ومسرت کے کنول کھلتے ہیں۔
کاروباری نقطۂ نظرسے ان حضرات کی اقتصادی معیشت اور صنعت وحرفت ترقیات کے اعلیٰ مقا م پر نظرآتی ہے تو دوسری طرف زہدوتقویٰ ، تدین واخلاص کے بے پناہ سمندروں کو پئے ہوئے بھی نظرآتے ہیں۔
ظاہرسی بات ہے انسان خطاؤں کا معجون مرکب ہے،غلطیوں کا صدورممکن ہے،بہکنا، پھسلنا اور پھسل کر گرجانے کا بھی خدشہ واندیشہ ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کیلئے دنیااور دنیاوی خرافات کوناپسندکرکے ان سے دوررہنے کی ترغیب اور ترہیب دی ہے تو اسی کے ساتھ مال ومتاع اوراولادکو زندگیوں کی زینت قراردیاہے… جولوگ مال و اولادوالے ہیں… شریعت کا اتباع ،احکامات قرآنی کی تعمیل، فرمودات رسول کی تعمیر وتشکیل کو حرزجان بنائے رکھتے ہیں… ان کے لئے یہ چیزیں بہرحال زینت ہیں۔
دولت وثروت ،رزق اور روپیہ بقدرکفاف نہ تو براہے اور نہ ہی اس پر وعیدہے بلکہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے بقدر ’’ذخیرہ اندوزی‘‘کی ترغیب بھی دی ہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اور انسان سوال کی ذلت سے بچارہے۔
حضرت طلحہؓ اپنے بعد تین سو بہارچھوڑگئے(ہربہارمیں تین تین قنطار تھے،بہاربوجھ کو کہتے ہیں جو تین سو رطل کا ہوتاہے اور ایک قنطارایک ہزاردوسواوقیہ کا ہوتاہے)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ امیرترین شخص تھے۔ایک بارایک غزوہ میں گھوڑوں کی ضرورت تھی آپ سے کہاگیاتوآپ نے پانچ سوگھوڑے دئے اورایک موقع پرپانچ سو اورایک اورموقع پرپندرہ سواونٹ مجاہدین اسلام کی خدمت میں پیش کئے۔دوبارتوآپ نے چالیس ہزاردرہم راہ خدامیںدئے۔
ایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ عبدالرحمن !میں نے دیکھاکہ تم جنت میں بہت دیرسے داخل ہوئے،میں نے تم سے پوچھاتوتم نے کہاکہ میں اپنے مال ودولت کاحساب دیتارہاکہ کہاں کمایااورکہاںخرچ کیا،یہ سنتے ہی حضرت عبدالرحمن روپڑے اورعرض کیایارسول اللہ !مصرکی تجارت سے میرے سواونٹ مال ودولت سے لدے آرہے ہیں وہ سب کے سب مدینہ کی بیوہ اوریتیم بچوں کے لئے صدقہ کرتاہوںتاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میراحساب آسان کردے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعدآپ نے ہی اعلان کیاتھاکہ تمام ازواج مطہرات کے مصارف کامیں ذمہ لیتاہوں۔
حضرت زبیرؓکا مال پانچ کروڑکاتھااورحضرت ابن مسعودؓ نے نوے ہزارکامال چھوڑا۔
حضرت امیرمعاویہ ؓنے حضرت موسیٰ بن طلحہ سے پوچھاکہ آپ کے والدماجدنے کیاترکہ چھوڑا؟عرض کیاکہ میرے والدنے تاحیات دادودہش،صدقہ وخیرات وغیرہ کے باوجود۲۲؍لاکھ درہم،دولاکھ دیناراوراس کے علاوہ کثیرسونااورچاندی جس کااندازہ نہیں کیاجاسکتا۔
اسی طرح حضرت عثمان غنیؓ،حضرت ابوبکرصدیقؓ،حضرت عمرفاروقؓ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ،حضرت انس بن مالکؓ،حضرت سعیدبن عاصؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،حضرت عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت ابوہریرۃؓ،حضرت حسن بن علیؓ،حضرت عدی بن حاتمؓ،حضرت حاطبؓ،حضرت مقدادبن عمروؓ،حضرت عبداللہ بن عامرؓ،حضرت عبداللہ بن جعفرؓ،حضرت سعدبن ابی وقاصؓ،حضرتابوموسیٰ اشعریؓ،حضرت خالدبن ولیدؓ،حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ،حضرت سعیدبن عامرؓ،حضرت سلمان فارسیؓ،حضرت حجا بن علاطؓ،حضرت ضراربن ازورؓ، حضرت حویطبؓ،حضرت عثمان ابوالعاصؓ،حضرت خبابؓ،حضرت سعدبن عبادہؓ،حضرت یعلیٰ بن سہیلؓ، حضرت صعصعہؓ، حضرت ارقم بن ابوارقمؓ،حضرت اسامہ بن زیدؓ،حضرت قیس بن عاصمؓ،حضرت حکیم بن حزامؓ، حضرت اسیدبن حضیرؓ،حضرت عکرمہؓ،حضرت عثمان بن ابی مظعونؓ،حضرت معاذبن جبلؓ وغیرہ وہ شخصیات ہیں جواپنے عہدکے امیرترین لوگوں میں شمارہوتے تھے۔
ان کے علاوہ صحابیات نیزتابعین کرام میں بھی بے شمارشخصیات امیرترین ہستیاں تھیں۔جن کے اسماء گرامی ہی اگرلکھے جائیں توپوری فہرست بن جائے گی۔
حضرت ابوعبداللہ مقریؒ کواپنے باپ کے ترکہ سے علاوہ اسباب وزمین کے پچاس ہزاردینارورثہ میں ملے تھے۔(تلبیس ابلیس)
دنیااور اسباب دنیا بھی اسی زمرے میں ہیں اس کی طرف رغبت اور بھر پور توجہ جو دنیوی اور اخروی نقصانات کا باعث ہو وہ بہر حال غلط ہے البتہ اس سے اتنا لگاؤاور دلچسپی جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت اور ترغیب دی ہے قطعاً بری چیز نہیں ہے۔
حضرت سعدبن عبادہؓدعامانگاکرتے تھے اور کہاکرتے تھے کہ خداوندا!مجھ کوفراخ دستی عطافرما۔
حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ جب شفاپاچکے تو سونے کی ٹڈیاں ان کے پاس سے گزریں،حضرت ایوبؑ اپنی چادرپھیلاکر ان ٹڈیوں کو پکڑنے لگے تواللہ تعالیٰ کا ارشادہوا کہ ایوب!کیاتیراپیٹ نہیں بھرا؟انہوں نے عرض کیااے پروردگارتیرے فضل سے کس کا پیٹ بھرتاہے؟۔(تلبیس ابلیس)
مقصد ان معروضات کا صرف یہ ہے کہ مال جمع کرناایک ایساامرہے جو انسانی طبائع میں ودیعت رکھاگیاہے اور پھرجب اس سے مقصودخیرہوتووہ خیرمحض ہوگا۔
اسلام نے رہبانیت سے لوگوں کو منع کیاہے ، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لا رہبانیۃ فی الاسلام فرماکررہبانیت کی قباحت پرمہر ثبت فرمادی تاکہ جو لوگ زاہدانہ زندگی گزارناچاہتے ہیںوہ بھی ان حدوداور قیودکے اندررہ کر زندگی گزاریں جو شریعت نے متعین فرمائی ہیں۔
اسلام نے افراط وتفریط سے بھی منع کیا ہے،اس نے ہر موقع،ہر موڑ اورہر زاوئے سے راہنمااصول متعین فرمادئے تاکہ آنے والی نسلیں ان ہی اصول وقوانین کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سنواراور سدھار سکیںاور ان میں سرمو انحراف یا جادۂ اعتدال سے برگشتگی کو گلے لگاکر اپنی زندگی کو مصائب ومشکلات کی نئی ڈگرپر نہ ڈال سکیں۔
جدیدوپرشکوہ تعمیرات کے سلسلے میںاسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بقدر ضرورت سرچھپانے کے لئے اور اپنے بال بچوں کے تکفل کے لئے اپنا آشیانہ بہر حال ہوناچاہئے کیونکہ ہر انسان کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں ،اپنے بیوی ، بچوں کے حقوق اور جائزمطالبات ہوتے ہیں اگر آپ کا اپنا آشیانہ اور اپنا نشیمن نہیں ہے ،آپ کے پاس رہنے اور سرچھپانے کے لئے ذاتی مکان اور جھونپڑا نہیں ہے توآپ خودبھی پریشان رہیں گے اور اپنے بال بچوں کو بھی پریشان رکھیں گے۔
بعض احادیث میں تین چیزوں کوانسان کی خوش نصیبی بتایاگیاہے(۱)اچھاپڑوسی(۲)نیک بیوی (۳)کشادہ مکان،ایک دوسری روایت میں اچھی سواری کوبھی سعادت کی چوتھی علامت قراردیاگیاہے۔
گلوبلائزیشن کے اس دورمیں جب کہ ہر شخص ،ہر قوم ، ہر ملک ترقیات اور اقتصادیات کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دھن میں جائزوناجائز،حلال و حرام اور جاوبے جادولت کمانے میں مصروف ہے … ایسے وقت میں غربا ومساکین اور فقراء ومفلسین کی طرف توجہ دینے کی کسے توفیق ملتی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ حکومتوں نے اپنی رعایاکو ماہانہ وظائف دینے بندکردیے… ضرورت مندوں کی خبرگیری اور دستگیری کے جذبات سردپڑگئے … دولت صرف محلات اور قلعوں میں قید ہوکر رہ گئی…اسلئے اسلام نے خود کو اور اپنے بچوں کو پالنے،سنبھالنے اور خاطرخواہ تعلیم وتربیت کیلئے ذریعۂ معاش کی بھی ترغیب دی ہے…جائزاوردرست کاروبار کرنے اور منافع کمانے کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ مختلف طریقے ، قاعدے ، ضابطے اور فارمولے بھی عطاکئے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس مال اورکھیتیاں کافی مقدارمیں تھیں…حضرت شعیب علیہ السلام بھی کاشتکاری کرتے تھے…حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے…حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سیتے تھے… حضرت لوط علیہ السلام بھی کھیت بوتے تھے…حضرت صالح علیہ السلام سوداگر تھے…حضرت داؤد علیہ السلام زرہیں بناکربیچتے تھے…حضرت موسیٰ علیہ السلام بلکہ ہرنبی نے بکریاں چرائی ہیں اور حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو دنیاجانتی ہے کہ بچپن میں بکریاں چَرائی ہیںاورنوجوانی میں تجارت بھی کی ہے ۔
یہ تو حضرات انبیاء کرام کی بات تھی،صحابۂ کرام اور تابعین کے بارے میں بھی تواترکی حد تک ثابت ہے کہ وہ اپنا مستقل کاروبارکرتے تھے،چنانچہ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت طلحہ ؓ کپڑے بیچاکرتے تھے…حضرت زبیرؓ،حضرت عمرو بن العاصؓ،حضرت عامر بن کریزؓ،محمد بن سیرینؒ،میمون بن مہرانؒ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نیزحضرت جنیدبغدادیؒ جیسے اساطین امت بھی کپڑے کا کاروبارکرتے تھے…حضرت سعدبن وقاصؓ تیربناتے تھے…حضرت عثمانؓ بن طلحہ درزی کاکام کرتے تھے…حضرت ابراہیمؒ بن ادہم کھیتی کرتے تھے…حضرت سلیمان خواصؒ خوشہ چین تھے اورحضرت حذیفہ مرعشیؒ اینٹیں بناتے تھے…یہ تو چندمثالیں ہیں ورنہ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ اپناتجارتی،صنعتی،معاشی اور اقتصادی کام کیاہے۔
ہمارے علماء واکابر نے بھی ہر معاملہ میں بقدرکفاف کے اصول کو حرزجان بنائے رکھا،افراط وتفریط سے بھی بچتے رہے…ضروریات زندگی پربھی اپنی توجہات مبذول کیں…بال بچوں کیلئے ذاتی مکان وآشیانہ کابھی بندوبست کیااس لئے کہ شریعت مطہرہ کا یہی تقاضاہے…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان ہے اور سب سے بڑھ کرخالق کائنات کایہی منشاء ہے ۔
حضرت قتادہؓکاارشادہے کہ
ماکان للمؤ من ان یری الافی ثلثۃ مواطن مسجدیعمرہ وبیت یسترہ وحاجۃ لابأس بھا۔(تنبیہ الغافلین۲۴۰)
مومن کیلئے مناسب نہیں ہے کہ تین چیزوں کے سوااورکی طرف نظرلگائے(۱)مسجد:جسے وہ آباد کرسکے(۲) گھر:جس میں سرچھپاسکے (۳) ضرورت کی چیز:کہ اس میںکوئی حرج نہیں۔
حضرت امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ
خمس کان علیہن ر سول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والتابعون باحسان لزوم الجماعۃ واتباع السنۃ وعمارۃ المسجد وتلاوۃ القرآن والجہاد فی سبیل اللّٰہ تعالیٰ۔ (تنبیہ الغافلین۲۴۰)
پانچ چیزیں ہیں جن پرخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخلص پیروکارپابندی سے لگے ہوئے تھے۔
(۱)جماعت کا اہتمام(۲)اتباع سنت(۳) مسجدکی تعمیر(۴)قرآن پاک کی تلاوت (۵)جہادفی سبیل اللہ۔
سیدالطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ جب ہندوستان سے ہجرت فرماکر ام القریٰ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو اپنے ذاتی مکان کیلئے نہ صرف فکر مند ر ہے بلکہ بارگاہ الہی میں دست بہ دعابھی ہوئے ،چنانچہ ایک عقیدتمند نے ایک مکان کا بندوبست کیاپھر آپ کی طبیعت کو سکون میسرآیا۔
حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ کی بھی یہی رائے گرامی ہے کہ آدمی کااپناذاتی مکان ہوناہی چاہئے تاکہ وہ د وسروں کی نظروں میں ذلیل وخوار نہ ہوسکے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ بھی انسان کے لئے ذاتی مکان اور بقدرضرورت اس کی تزئین کے قائل تھے۔
یہی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہاں تک ارشادگرامی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت دی ہے ، بقدرضرورت رزق عطافرمایاہے، وسعت اور کشادگی ہے تو اپنے رہن سہن،نشست وبرخاست اور لباس وغذا سے بھی اس کا اظہارشریعت کی متعین کردہ حدودوقیودکے اندرہونا چاہئے ۔
چنانچہ ابوداؤدشریف میں ہے کہ
عن أبی الاحوص عن ابیہ قال اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی ثوب دون فقال ألک مال؟ قال نعم! قال من ای المال؟قال قداتانی اللّٰہ من الابل والغنم والخیل والرقیق،قال فاذاأتاک اللّٰہ مالافلیراثرنعمۃ اللّٰہ علیک وکرامتہ ۔ (ابوداؤد ۲/۵۶۲)
حضرت ابوالاحوص اپنے والدسے نقل کرتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں گھٹیا کپڑے پہن کر حاضر ہواتو آپ ﷺنے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس مال نہیں ہے؟میں نے عرض کیا کہ مال تو ہے ،آپ ﷺ نے پوچھاکہ کس قسم کا مال ہے؟میں نے عرض کیا کہ مجھے اللہ نے اونٹ،گائے،بکریاں ، گھورے اورغلام ہر طرح کا مال عطا کیاہے!یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشادفرمایا کہ جب اللہ نے تم کو مال سے نوازاہے تولازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت وکرامت کا اثرتمہارے بدن پر ظاہر ہو۔
اسی طرح ایک صحابی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس حال میں دیکھاکہ میرے جسم پر کم قیمت کے کپڑے تھے تو فرمایاکہ کیاتیرے پاس ازقسم مال ہے؟میں نے عرض کیا کہ ہاں!اللہ نے مجھے ہر قسم کے مال ودولت سے نوزاہے ،پھر فرمایا خداکی قسم نعمت اور اس کی بخشش کو تمہارے جسم سے ظاہر چاہئے۔
مطلب یہ ہے کہ تونگری اور مالداری کی حالت کے مناسب اورموافق کپڑے پہنواورخداکی نعمت کا شکراداکرو۔
امام احمد بن حنبلؒ سے کسی نے حضرت سری سقطیؒ کے بارے میں سوال کیا،جواب دیاکہ وہ بزرگ طیب الطعم تھے،یعنی پاک اور حلال کھانے والے مشہورہیں۔
علامہ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں: جو لباس صاحب لباس کیلئے عیب ناک ہے وہ جس میں زہداورافلاس کا اظہارپایاجائے ایسالباس گویاخداسے شکایت کرنے کی زبان اور پہننے والے کی حقارت کاسبب ہے اور یہ سب مکروہ ہے۔(تلبیس ابلیس)
حضرت ابوالعباس بن عطاؒاپنے زمانہ میں بہت ہی اچھا کپڑاپہنتے تھے۔
آج سلوک وتصوف کامطلب ہی غلط سمجھ لیاگیاہے یاغلط سمجھادیاگیاہے…سادگی وقناعت کاسبق پھرسے احادیث شریفہ کی روشنی میںپڑھنے کی ضرورت ہے۔
بہت سے واعظین اپنے مواعظ میں ’’الفقرفخری‘‘جیسی موضوع روایات بیان کرکے مسلم امت کودولت وثروت سے دورکردیتے ہیں حالانکہ ہمارے نبی نے فقرومفلسی کواپنی امت کیلئے کبھی پسندنہیں فرمایا اور باربارفقروفاقہ سے حفاظت کی دعامانگی ہے۔
کسب حلال اوررزق حلال کاطلب کرناہرفرض کے بعدایک فرض ہے،چنانچہ ارشادہوا:طلب کسب الحلال فریضہ بعدالفریضۃ ۔
مسلمان پرضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان کے تحفظ اوراسلام کی نشرواشاعت کے لئے دولت کمائے …دولت کودین کی حفاظت کاذریعہ بنائے…کیونکہ دین کی صحیح تعمیراورتکمیل بغیردولت کے ممکن نہیں ہے…نمازہی کولے لیں جوبغیردولت کے پڑھی جاسکتی ہے لیکن زکوٰۃ بغیردولت کے نہیں دی جاسکتی،قرآن کی تلاوت توآپ بغیردولت کے کرسکتے ہیں مگرحج بغیردولت کے نہیں کرسکتے…جس طرح نمازکے لئے وضوشرط ہے…بالکل اسی طرح زکوۃ کے لئے کمانااوردولت حاصل کرنابھی شرط ہے…نمازکے لئے پانی تلاش کرناہم ضروری سمجھتے ہیں توپھر زکوۃ دینے کے لئے کمانے کواہمیت کیوں نہیں دیتے ؟اگرغورکریں توقرآن کریم میں جہاں جہاں نمازکی اقامت کاحکم ہے وہاں زکوۃ کی ادائیگی کابھی حکم موجودہے…ایک پرہم عمل کرلیتے ہیں اوردوسری کے لئے اپنی ناداری،غربت،عسرت اورتنگدستی کوبہانہ بناکرزکوٰۃ کومالداروں کے خانے میں ڈال دیتے ہیں…یادرکھیں حج اورزکوۃ کی ادائیگی کے لئے کماناباعث ثواب اورپھران ارکان کواداکرنااخروی زندگی کی سرخروئی کے لئے باعث حصول رضاء رب ہے…بلکہ ہمارے نبی نے مال کی حفاظت میں مرنے والے مسلمان کومقام شہادت کی خوش خبری بھی دی ہے ارشادہوتاہے:ومن قتل دون مالہ فہوشہید۔اورجومال کی حفاظت میں ماراگیاتووہ شہیدہے۔
ہماری پریشانی یہ ہے کہ ہم اگردولت کماتے ہیں تواپنے اوراپنے بچوں کے لئے ،حالانکہ ہمیں اس میں اسلام کی شان وشوکت اوردین کے غلبہ وحشمت کی خاطرکماناچاہئے کیونکہ بچوں کی زندگی ایک نہ ایک دن ختم ہوجانی ہے مگراسلام تاقیام قیامت باقی رہناہے۔
اس موقع پرمیں دنیاکی سب سے ملعون قوم’’یہود‘‘کاحوالہ دوں گا،یہودی اپنی ذات کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں کماتے کل کی کل پونجی وہ اپنے مذہب کی حفاظت اوراسرائیل کے ’’عظیم تر‘‘ ہونے کے خوابات کی ’’تعبیر‘‘پانے کے لئے کماتے ہیں،اسی لئے ہریہودی کارخانہ، فیکٹری، کمپنی، ملٹی نیشنل کاروبارسبھی میں ’’اسرائیل ‘‘کے لئے شئیرزمختص رکھتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ آج عیسائیوں،مسلمانوں اورہندؤں کوکسی بھی رفاہی یاخیراتی کاموں کے لئے چندہ کاسہارالیناپڑتاہے لیکن اسرائیل کوچندہ کی کبھی حاجت اورضرورت نہیں پڑتی۔
اب دیکھئے!ایک طرف یہودی ہیں جن کانہ تومذہب محفوظ ہے ناہی مذہبی کتاب باقی رہی لیکن اسلام کل کی طرح آج بھی روشن ومنورہے اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بایں الفاظ ترغیب دیتے ہیں:
’’مَنِ اِسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَن یَّبْقیٰ دِینَہ وعِرَضہ بِمَالِہ فَلْیَعْمَلْ‘‘(جامع الصغیر)تم میں سے جوشخص مال ودولت سے اپنے دین کی عزت وآبروکی حفاظت کرسکے وہ ضرورکرے۔
آج کاہماراالمیہ یہ بھی ہے کہ اگرہماراکاروبارترقی پرہے توہم دوسرے مسلمان بھائیوں کی رہبری یارہنمائی کرنے اورتجارت کے خدوخال بتانے سے دریغ کرتے ہیں اوربعض بدنصیب، بدقماش اورطبیعت کے خسیس وذلیل افراداپنے بھائیوں کے کاروبارکوختم کرنے کی سازش اورخواہش کرتے ہیں۔
ہمارے نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کامعاملہ دیکھئے:کسی شخص کورسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے بے کاروقت گزاری کرتے دیکھاتوفرمایا:ان اللّٰہ یحب ان یری العبد محترفا‘‘یقیناًاللہ تعالیٰ اپنے بندے کوصنعت وحرفت کی حالت میں دیکھتاہے توخوش ہوتاہے۔
انصارمدینہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس زمینیں تھیں توان سے فرمایا:من کان لہ ارض فلیزرعہا‘‘جن کے پاس زمین ہوتووہ اس میں کاشت کاری کرے۔
مہاجرین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تجارت کاتجربہ تھاتوفرمایا:التاجرالصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء‘‘سچادیانت دار،امانت دارتاجرکل قیامت کے دن انبیاء اورصدیقین کے ساتھ محشورہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پرانصارچلے تووہ اپنے وقت کے بڑے بڑے کسان بنے،مہاجرین نے تجارت کی توتاریخ میں اس وقت کی سپرپاورطاقتوں کوبھی پیچھے چھوڑدیا۔
حضرت ابوذررضی اللہ عنہ دولت کوبہت براسمجھتے تھے لیکن لوگوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں یہ استغاثہ دائرکیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شنوائی کے بعدیہ فیصلہ صادرفرمایا:اے ابوذر!دنیاکاجتناحصہ تم آخرت کی نیت سے حاصل کروگے اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔دنیاکاصرف وہ حصہ مضرہے جس سے صرف دنیاہی مقصودہو۔
مولاناعارف نے کیاعارفانہ بات کی ہے:
چیست دنیا؟ ازخدا غافل شدن؟
نے قماش و نقرہ و فرزند وزن
مولاناکے کہنے کامطلب یہ ہے کہ دنیادولت وثروت اوربیوی بچوں کانام نہیں بلکہ دنیاتواللہ تعالیٰ سے غافل ہوجانے کانام ہے۔
کہتے ہیں کہ دوصحابی تھے جوآپس میں بھائی تھے ان میں ایک کماتاتھادوسراروزوشب عبادت کرتاتھا،صحابہ عابدکی تعریف میں رطب اللسان تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ معاملہ سناتوصحابہ سے پوچھاکہ بتاؤان دونوں میں افضل کون ہے؟صحانہ نے عرض کیاکہ اللہ اوراس کا رسول بہترجانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ شخص زیادہ افضل ہے جومال کماتاہے۔
اچھے اورحلال مال کوخودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے لوگوں کے لئے بہتر قراردیا ہے: نِعَمَ المَالُ الصالحُ للرجل الصالحِ۔(جامع الصغیر)
نہایت ہی تلخ اوربہت ہی کڑوی سچائی یہ ہے کہ آج واعظین کرام ہی امت کی تنگدستی اورمفلسی کاسب سے بڑاذریعہ ہیں کیونکہ وہ دن کے اجالوں اوررات کی تاریکیوں میں امت کوغربت کے فضائل توبتاتے ہیں مگرحلال رزق کمانے کے ذرائع ،واسطے،راستے اوردنیوی واخروی دولت فوائدنہیں بتاتے۔اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل توبتاتے ہیں مگراللہ کے لئے کمانے کے مسائل نہیں بتاتے…زکوٰۃ کی فضیلت اورخیرات کے موضوع پرزوروشورسے تقاریرتوکرتے ہیں مگرزکوٰۃ دینے کے لائق بن جائیں یہ راستہ نہیں سمجھاتے…مشکوک مال سے پرہیزکرناتوبتاتے ہیں مگروافرحلال مال کے ذرائع نہیں بتاتے…زہدوقناعت کاخوگرتوبناتے ہیں مگراسلامی رعب ودبدبہ،شوکت وحشمت،جاہ وجلال اورعظمت رفتہ کی واپسی کے طریقے نہیں بتاتے…
مجھے ایک عالم دین کاواقعہ یادآرہاہے جو الجمعیۃ دہلی کے قدیم ترین شماروں میں پڑھاتھاوہ لکھتے ہیں کہ میں ایک عیسائی ملک (غالباًروم)گیاتووہاں کے علماء نے مجھے ایک کتاب دکھائی جودنیااوردولت کی قباحت وشناعت پرمشتمل تھی ،اس کتاب میں غربت اورغریبی کے فضائل پرخاصاموادجمع کردیاگیاتھا۔میں نے کہاکہ کتاب توبہت عمدہ ہے،وہ علماء کہنے لگے کہ اب سنئے یہ کتاب یہاں مفت میں تقسیم کی جاتی ہے اوراس کامصنف ایک یہودی شخص ہے۔
مقصداس تحریرکاصرف یہ ہے کہ دنیاجس رفتارسے چل رہی ہے امت کودین پرکاربندرہتے ہوئے چلنے دوورنہ آج موبائل اورانٹرنیٹ کے زمانہ میں سادہ ڈاک سے اگرکوئی چیزبھیجی جائے گی تو’’خبرہونے تک‘‘ بہت دیرہوچکی ہوگی۔کمپیوٹرسے کتابت کااگرسہارانہ لیاگیاتودستی کتابت کے لئے کتاب پہلے’’ مسودہ‘‘پھر’’مخطوطہ ‘‘ بن جانے کاخطرہ ہے۔اہم ترین کتابیں جولوگوں نے عوام کی فلاح وبہبودکے لئے انٹرنیٹ پررکھی ہیں اگروہ کتابیں بازارمیں خریدنے کی کوشش کی جائے تویاتوکتاب ہی نہیں ملے گی یاجیب ہی ہلکی ہوجائے گی۔
پتھر،غلیل،تیر،تلوار،زرہ،خود،نیزہ وغیرہ سے بموں میزائلوں،توپوں اورجدیدترین ہتھیاروں کامقابلہ ممکن نہیں ہے،خشکی یادریائی راستے سے اگراب حج پرجانے کی سوچیں تویہ محض’’ خواب‘‘ ہوگا۔
ضرورت ہے کہ ہم تازہ دم رہیں…دین کے ندیم اورایمان پرمستقیم رہیں…نبی کے شیدائی اوردین کے فدائی بنیں…امت کی زبوں حالی پرترس کھاکران راہنمااصولوں کواپنائیں …جن کواپنائے بغیرنہ تم بچ سکتے ہونہ ہم۔
٭٭٭
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اورآج تم سے کیاکہوں لحدکابھی پتہ نہیں
ناصرالدین مظاہری
علامات قیامت کے ایک مخصوص عنوان پر مضمون لکھناتھا،مجھے میرے حلیم استاذحضرت مولانا محمدسلیم قاسمی استاذمدرسہ امدادالعلوم زیدپوربارہ بنکی یادآرہے تھے…اُن سے میں نے ترجمہ قرآن شریف بھی پڑھاتھا … یادوں کے پردے ہٹے اورہٹتے چلے گئے …۱۹۹۲ء کاسال ہے … کتب خانہ امدادالعلوم میں مولانا کی درسگاہ میں سبق ہورہاہے…مولانابے تکلف وبے تکان تقریرکررہے ہیں…علامات قیامت کاذکرچل رہاہے…دجال اوردابۃ الارض کابیان ختم ہواتوحضرت مہدی اورحضرت عیسیٰ کے تذکرہ پرپہنچے…وہاں سے اسرافیل اوران کے صورپرپہنچ گئے… پہلاصور پھونکاگیا …لوگوں پربیہوشیاں اورمدہوشیاں طاری ہوگئیں… دوسرا صورپھونکاگیا…مردے زندہ ہونے لگے…مولانانے فرمایا:ایک ایک بالشت زمین سے سترسترمردے زندہ ہوں گے…اورپھرمولانانے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں درودیواراورچھت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:اِن دیواروں سے بھی مردے نکلیں گے۔
یہ بات اُس وقت سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ عمربہت کم تھی لیکن اب سوچتاہوں تومعصومیت اورلاعلمی کے پردے چاک ہوتے ہیں …حقائق سے پردہ اٹھتاہے …جنۃ القناعۃ یعنی’’ گلستان قناعت‘‘ نامی کتاب میرے سامنے ہے …مشہورعالم دین حضرت اقدس مولانامحمدموسی روحانی بازیؒ اس کے مصنف ہیں …مجھے بنی اسرائیل کی ایک کہانی پڑھنے کی توفیق ملتی ہے…جوں جوں کہانی میں اترتااورآگے بڑھتاجاتاہوں بچپن کے معصوم اشکالات ایک ایک کرکے کافورہوتے جاتے ہیں …کہاجاتاہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص کاانتقال ہوگیا…اس کے دوبیٹے تھے…باپ کے بعدتقسیم وراثت میں ایک دیوارکے معاملہ میں جھگڑاپیدا ہوگیا… اچانک دیوارسے آوازآنے لگی…دونوں بھائی دم بخودہوکرآوازسننے لگے:
’’تم دونوں جھگڑامت کرو،میری حقیقت یہ ہے کہ میں ایک مدت مدیدتک اس دنیاکاعظیم الشان بادشاہ رہا، پھرمیراانتقال ہوگیا…میرابدن سڑگل کرختم ہوگیا…میرے بدن نے مٹی کی شکل اختیارکرلی…کمہارنے وہ مٹی اٹھائی اوراس سے گھڑے بنائے…میں ایک مدت تک گھڑے کی صورت رہا…گھڑاٹوٹ گیاتوٹھیکروں کی صورت میں پڑارہا…رفتہ رفتہ ٹھیکروں نے مٹی اورریت کی شکل اختیارکرلی…پھرلوگوں نے میرے اجزاء بدن سے اینٹیں بنالیں اورآج تم مجھے دیوارمیں لگاہوادیکھ رہے ہو … لہٰذاتم اس مذموم دنیاپرمت لڑو‘‘۔
کہانی کی یہ رِیل آگے آگے بڑھ رہی تھی اورمیرے ذہن ودماغ میں حکم الٰہی گردش کررہاتھا…ہم جب بھی مردے کودفن کرتے ہیں توایک دعاپڑھتے ہیںجودعاکم مگراپنے لئے یاددہانیوں کاذخیرہ سموئے ہوئے ہے…مِنْہَاخَلَقْنٰٰکُمْ…ہم نے تم کواسی زمین (مٹی)سے پیداکیاہے…وَفِیْہَانُعِیْدُکُمْ…اوراسی میں واپس کررہے ہیں…وَمِنْہَانُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی…اورپھردوبارہ اسی سے نکالیں گے…غورکریں …تین مٹھی مٹی…تین وعدے…ہروعدے کابدلتامنظر…اللّٰہ اکبر۔
میں نے عجائب المخلوقات نامی کتاب میںپڑھاتھاحضرت جبرئیل علیہ السلام کہتے ہیں:دنیامیں جہاں پانچ ہزارسال قبل خشکی دیکھی تھی پانچ ہزارسال بعدوہاںسمندر دیکھا۔
عقل والوں کے لئے کتنی عبرت ہے حضرت جبرئیل کے اس مشاہدہ اورشہادت میں…روئے زمین جس پرہم چل پھررہے ہیں ذراسوچیں کہ پہلے یہ سمندررہی ہوگی…جن اینٹوں کوہم اپنی تعمیرات میں لگارہے ہیں …احساس کریں یہ کسی کے ہاتھ…کسی کے دل…کسی کے دماغ…کسی کے پاؤں اورکسی کے جسمانی اعضاء وجوارح کامعجون مرکب ہے…ان میں ہزاروں لاکھوں سال پہلے مرے ہوئے اچھے برے… کالے گورے…جائزناجائزانسانوں کی لاشوں کے اعضاء واجزاء موجودہیں۔
کل پاؤں ایک کاسۂ سرپر جو آپڑا
یکسر وہ استخوان شکستہ سے چورتھا
کہنے لگاکہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھی کسی کاسرِپُرغرورتھا
ذرا توجہ کریں تویہ بھی معلوم ہوگاکہ انسان مرنے کے بعدبھی ایک حالت اورکیفیت پربرقرارنہیں رہتا، قبریں اپنی قدریں کھوتی رہتی ہیں…میرے گاؤں مرزاپورلکھیم پورمیں مسجدکی دیواربنائی جانی تھی… بنیادکھودی جارہی تھی…اچانک مردوں کی ہڈیاں نکلنے لگیں…بعض صحیح سالم جسم نظرآنے لگے …حیرت اور وحشت کاعالم…کیونکہ یہ توگاؤں کادرمیانی علاقہ ہے …جہاں نہ توقبرنہ قبرستان… توپھرمردوں کی یہ ہڈیاں کہاں سے اورکیونکر برآمدہونے لگیں …؟بڑے بوڑھوں سے معلوم کیاگیا…انہوں نے بتایاکہ ہم سے ہمارے بڑے بتایاکرتے تھے کہ جہاں مسجدقائم ہے وہاں کسی زمانے میں قبرستان ہواکرتاتھا۔
جن کی نوبت سے سے لرزتے تھے زمین و آسماں
دم بخودہیں قبرمیں ہوں نہ ہاں کچھ بھی نہیں
اونچے اونچے مکان ومحلات اورپلازے بنانے والو!سوچو!تمہارے یہ مکانات تمہارے بعدکسی اورکے پاس ہوںگے…تمہاری بیوی کسی اورکی بیوی بن سکتی ہے…تمہارے بیٹے تمہارے بعدتمہاری خون پسینہ کی کمائی کولٹارہے ہوں گے…روئے زمین پرکوئی اورتمہاری دولت وثروت سے مزے اڑارہاہوگا … اس کوتمہاری محنتوں کاکوئی احساس نہ ہوگا…تمہاری قبرہوگی…تم ہوگے… اور…تمہارے اعمال ہوںگے … بس …تمہارے گھرکاکوئی فردتمہارے پاس نہ ہوگا…تم نے جس مکان کوبڑی چاہ اوربڑے شوقسے بنایاتھاکسی اورکی ملکیت ہوگا…مکان بھی تمہاری ہڈیوں کی طرح بہت تیزی کے ساتھ بوسیدہ ہورہاہوگا…جس مکان کے دروازے پرتم نے خونخوارکتے …بے تمیزدربان اورآہنی وفولادی سلاخیں لگائی تھیں وہ سب جوں کی توں ہیں صرف تم اس گھرسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال دئے گئے ہو…
برمزارماغریباں نے چراغے نے گلے
نے پرِ پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے
مجھ غریب کے مزارپرنہ توچراغ جلتاہے…نہ پروانوںکے پرجلتے ہیں…نہ کوئی گل کھلتاہے… اور ناہی کسی بلبل کی صداگونجتی ہے۔
۲۰۱۵ء میں دریائے گھاگھرانے ہمارے گاؤں کی زمینوں کے علاوہ قبرستان کوبھی اپنے اندر سمولیا… میرے والدین …عزیزواقارب …گاؤں کے تمام مردے اپنی قبروں سمیت… پانی کے ریلے میں بہہ گئے… اب نہ توقبریں ہیں نہ ہی قبرستان…مگرقبروالے باقی ہیں…کیونکہ وہ مٹی کی شکل میں پانی میں شامل اور ریت میں تحلیل ہوگئے …وہ ریت اورمٹی پانی کے ساتھ نقل مکانی اختیارکریںگے…کہیں کھیت کی صورت توکہیں ریت کی صورت…اب یہ اللہ کانظام ہے کہ کب تک وہ کس صورت پرباقی رہتے ہیں اورکب کسی عمارت کاحصہ بنتے ہیں۔
آہ!بعض شعراء کتنے رقت آمیزاشعارکہہ دیتے ہیں ؎
غرورتھا، نمودتھی، ہٹو بچو کی تھی صدا
اور آج تم سے کیاکہوں لحدکابھی پتہ نہیں
سورۂ مرسلات میں توخوداللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں:
’’کیاہم نے زمین کومردوں اورزندوں کوسمیٹنے والی نہیں بنایا؟‘‘
سورۂ عبس میں اعلان ہوتاہے:
’’پھراس کو موت دے کرقبرمیں پہنچادیاپھرجب وہ چاہے گااسے زندہ کرے گا‘‘۔
جن کے محلوں میں ہزاروں رنگ کے فانوس تھے
جھاڑان کی قبرپرہے اورنشاں کچھ بھی نہیں
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
خوشبودارقبریں
ناصرالدین مظاہری
حضرت اقدس مولانااطہرحسینؒ میرے اُن نیک طینت اساتذہ میں سے ہیں جن سے میں نے کتابیں کم پڑھی ہیں مگران کی صحبت اور’’نرم دم گفتگوگرم دم جستجو‘‘سے زمانۂ طالب علمی سے ہی فیضیاب اورمالامال ہونے کاموقع ملاہے۔آپ کے عجیب وغریب اقوال،حیرت زدہ کردینے والی تحقیقات،پرلطف حکایات ،بصیرت افروزنکات، نصیحت آمیزگفتگو اورقلب ودماغ کے بنددریچوں کوکھول دینے والی باتیں شایدآپ سے زیادہ کبھی کسی اورسے سننے کی سعادت نہیں ملی۔
ایک باردرودشریف کی فضیلت اوراہمیت بتاتے ہوئے فرمایا:
’’ ادیب الہندحضرت مولانا فیض الحسنؒسہارنپوریؒ(متوفی ۱۳۰۴ھ )حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ کے خلیفہ تھے ،مولاناکی وفات کے بعد مولانا کی قبرسے ایک مدت تک خوشبو آتی رہی،کسی عالم نے اس کی وجہ بتائی کہ مولانادرودشریف بکثرت پڑھتے تھے‘‘ ۔
سرسری طورپراس واقعہ میں کوئی عجوبہ نہیں لیکن بہ نظرغائردیکھاجائے تو’’اعجوبہ‘‘ سے کم بھی نہیں… اہل دل کی باتیں اہل دل ہی جانیں…مولاناقحط الرجال کے اس دورمیں آیۃ اللہ تھے ،جب تک رہے اہمیت کااندازہ نہ ہوسکا…اب نہیں ہیں توسوچتاہوں … بڑی دولت چھن گئی…متاع حیات لٹ گئی…کاروان زندگی تھم گیا…ابرکرم رک گیا…فصل بہارچلی گئی…بادبہاری بے کیف ہوگئی…پھولوں میں تازگی اورپھلوں میں چاشنی کااحساس مٹ گیا…
ذہب الذین یعاش فی اکنافہم
بقی الذین حیٰوتہم لاتنفع
سمجھ میں نہیں آتاشجرسایہ دارکی عمرکم کیوں ہوتی ہے…دل اس سوال کاجواب دینے سے عاجزوحیراں ہے کہ پھلداردرخت بہت جلدجھک کیوں جاتے ہیں…پیڑکاخوشبودارہونایہ پیڑکاوصف ہے اوراس خوشبو سے فیضیاب ہونادانائی کاتقاضالیکن یہ کیا…؟یہاں تومعاملہ ہی برعکس نظرآتاہے…جس طرح یورش تاتارکے فسانے سے یہ بات عیاں ہے کہ تاتاریوں نے مسلمانوں کوتہ تیغ بے دریغ کیاتھا…ٹھیک اسی طرح یہ بات بھی عیاں ہے کہ ’’پاسباں مل گئے کعبہ کوصنم خانہ سے‘‘… خوشبودارپیڑپودوں کا قرب پانے کیلئے انسانوں کوآگے آناچاہئے تھالیکن انسانوں سے زیادہ ناگ اورسانپ اس کاقرب پانے کے لئے بے چین وبے قرار ہوتے ہیں…ہمارے استاذمحترم کی کچھ ایسی صفات تھیں جن کومیں نے صرف اورصرف ان میں پایا،نہ ان سے پہلے کسی میں دیکھیں نہ ہی ان کے بعدکسی اورمیں پائیں…
مولاناسادگی کے ساتھ ایسی ایسی باتیں بتادیتے تھے جن کوتلاش کرنے کے لئے عمرنوح اورصبرایوب درکارہوتی ہے…ان کامطالعہ وسیع…ان کافہم جواں…ان کاحافظہ پختہ اورمختلف کتب کے حوالہ جات ازبرتھے … سہل پسندی کے باعث میں نے بھی بارہامولاناسے مطلوبہ معلومات حاصل کرکے مآخذتک رسائی پائی ہے…بے شمارایسی باتیں مولاناسے معلوم ہوئیں جونہ توکتابوں میں پڑھیں اورنہ ہی کسی اورکے بارے میں سنیں…ایک بارفرمایا:
’’ حضرت مولانامناظراحسن گیلانیؒبڑے عالم تھے ،ان کاجب انتقال ہواتوچہرہ پرگوشت ہوگیا،چہرے کی نورانیت میں بھی اضافہ ہوگیااورداڑھی جوسفیدتھی وہ سیاہ ہوگئی …مولاناانتقال سے قبل بہت خوش تھے اورعالم خوشی میں باربارفرمایاکرتے تھے کہ جنت میں کوئی بوڑھانہ جائے گااوریہ صحیح ہے ہرجنتی جنت میں جانے سے پہلے جوان ہوجائے گا۔یہ مولاناکے جنتی ہونے کی بڑی بشارت ہے‘‘۔
بہرحال ’’آمدم برسرمطلب‘‘ اعمال صالحہ کے اثراوراثرات سے کسی کومجال انکارنہیں ہے ،اللہ تعالیٰ کبھی کبھی دنیامیں ہی ایسے مناظردِکھادیتے ہیں تاکہ عقل والے بصیرت حاصل کرسکیں۔
حضرت عبداللہ بن غالب حمدانیؒ:
حضرت عبداللہ بن غالب حمدانیؒکے بارے میں مغیرہ بن حبیب ؒفرماتے ہیں کہ آپ ؒایک معرکہ میں شہیدہوگئے ،جب آپؒکوقبرمیں دفن کیاگیاتولوگوں نے آپ کی قبرسے خوشبومحسوس کی ،کسی نے خواب میں اس خوشبوکارازمعلوم کیاتوفرمایا:
’’یہ خوشبوتلاوت قرآن اورروزوں میں پیاس کی شدت برداشت کرنے کی وجہ سے آرہی ہے‘‘
حضرت مالک بن دینارؒکابیان ہے :
’’ میں خودعبداللہ بن غالب کی قبرمبارک میں اتراتھامیں نے مٹی اٹھائی تومشک کے مانندمعلوم ہوئی ، لوگ مٹی لینے کے لئے ٹوٹ پڑے توفوراًقبرکوبرابرکردیاگیاتاکہ لوگ مٹی نہ لے سکیں‘‘۔(گہرہائے تابدار)
محمدبن مخلددودیؒکابیان:
محمدبن مخلددودیؒکابیان ہے کہ میری والدہ ماجدہ کاانتقال ہوگیا،دفن کرنے کے لئے جب میں قبرمیں اتراتومیری ماں کی قبرسے متصل جوقبرتھی اس میں سوراخ ہوگیامیں نے وہاں دیکھاکہ چنبیلی کاایک تروتازہ گلدستہ تھاجومشک سے زیادہ خوشبودارتھا،میرے ساتھ دوسرے لوگ جوموجودتھے انہوں نے سونگھاپھرمیں نے اس گلدستہ کووہیں رکھ کرقبرکی درازبندکردی اوروالدہ ماجدہ کودفناکرواپس آگیا۔(گہرہائے تابدار)
سات اللہ والے:
علامہ ابن جوزی ؒکی کتاب’’تاریخ ابن الجوزی‘‘میں لکھاہے:
’’۲۷۶ھ میں بصرہ کاایک ٹیلہ ہٹ گیاجس کی وجہ سے سات قبریں کھل گئیں ،یہ قبریں کن کی ہیں اوریہ لوگ کب دفن ہوئے معلوم نہ ہوسکا،لیکن اللہ کی شان کہ ان کے جسم صحیح وسالم تھے اوران کے کفن سے مشک کی خوشبوآرہی تھی۔ان مرحومین میں ایک نوجوان جس کے سرپرکالے کالے بال تھے ہونٹوں پرتازگی تھی اورایسامعلوم ہورہاتھاکہ جیسے اس نے ابھی پانی پیاہے ۔آنکھیں ایسی چمکدارروشن کہ جیسے ابھی ابھی سرمہ لگایاہے،اس کے پہلومیں تلوارکاایک گہرازخم تھا،بعض لوگوں کے دل میں خیال آیاکہ اس نوجوان کے سرکے کچھ بال بطورتبرک لے لیں ،ہاتھ لگایاتوزندہ انسانوں کی طرح اس کے بال مضبوط تھے‘‘ (تاریخ ابن الجوزی)
ابوعبداللہ محمدبن ابی نصرحمیدیؒ:
ابوعبداللہ محمدبن ابی نصرحمیدی ؒاندلس کے رہنے والے تھے ،اخیرعمرمیں بغدادمیں سکونت پذیرہوگئے، نہایت متقی،پابندشرع ولی تھے،۴۸۸ھ میں رحلت فرمائی ،آپ نے بغدادکے رئیس الرؤساء امیرمظفرکووصیت فرمائی کہ مجھ کوحضرت بشرحافیؒکے پہلومیں دفن کرنا…مگرحالات کچھ ایسے بنے کہ ان کی وصیت پرعمل درآمدنہ ہوسکااورشیخ ابواسحاق شیرازی ؒکے پہلومیں دفن کئے گئے،تومتواتردو سال تک امیرمظفرکوخواب میں نظرآتے رہے اورہرباریہ شکوہ کرتے رہے کہ تم نے میری وصیت پرعمل کیوں نہیں کیاآخرکارامیرمظفرنے دوسال کے بعدان کی قبرکھودوائی تولوگوں نے دیکھاکہ پوراجسم صحیح سالم اورتروتازہ تھااوردوردورتک خوشبوپھیل رہی تھی۔(حسن خاتمہ کے پانچ سوواقعات)
حضرت امام بخاریؒ:
مدرسہ مظاہرعلوم (وقف) سہارنپورکے شیخ الحدیث حضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنیؒ افتتاح بخاری کے موقع پرحضرت امام بخاریؒکے حالات وکمالات اورواقعات وکرامات کے ضمن میں یہ واقعہ بھی سنایاکرتے تھے :
’’حضرت امام بخاریؒکوجب قبرمیں دفن کیاگیاتوقبراطہرسے خوشبوآنے لگی‘‘
یہ خوشبوہفتہ دوہفتہ نہیں صدیاں گزرجانے کے باوجودآج بھی آرہی ہے چنانچہ مشہورصاحب قلم ، انشاء پرداز مولاناکوثرنیازی مرحوم اپنے سفرنامہ ’’کوہ قاف کے دیس میں‘‘لکھتے ہیں:
’’جب میں امام بخاریؒکے مزارکے باہرپہنچاہوں گاکہ ایک عجیب سی خوشبوکااحساس ہوا،میں نے امام مسجدسے پوچھاکہ یہاں خوشبوچھڑکی جاتی ہے ؟کہنے لگے نہیں یہ امام بخاری کے مزارکی برکت ہے کہ ہرآنے والے زائرکوخوشبوکاادراک ہوتاہے ،پھرنسلاًنعدنسل سینہ بسینہ چلی آنے والی اس روایت کاتذکرہ کیاکہ جب امام بخاری ؒدفن ہوئے توان کی قبرکی مٹی سے مشک کی خوشبوآتی تھی ،لوگ تبرکاًقبرکی مٹی اٹھانے لگے یہاں تک یہ خطرہ پیداہوگیاکہ آپ کی قبرہی نہ غائب ہوجائے،اس کے بعدقبرکوپختہ بنادیاگیالیکن خوشبوبدستورسابق اب بھی آتی ہے‘‘(کوہ قاف کے دیس میں)
حضرت محمدبن سلیمان جزولیؒ
دلائل الخیرات کے مصنف حضرت محمدبن سلیمان جزولیؒ(متوفی ۸۷۰ھ) کوستترسال کے بعدجب سوس سے نکال کرمراکش میں دفن کرنے کے لئے قبرمبارک سے نکالاگیاتوآپ نہ صرف یہ کہ پوراکفن اورجسم صحیح سالم تھابلکہ جسم کے نکالتے ہی پوری فضامعطرہوگئی اورآج بھی آپ کی قبرسے خوشبوآتی ہے۔(اچھے ماحول کی برکتیں)
حضرت مولاناسیداصغرحسینؒدیوبندیؒ
دارالعلوم دیوبندکے استاذحدیث تھے ۱۹۴۵ء میںانتقال فرمایا،آپ کے انتقال کے بعدلوگوں نے آپ کی قبرمبارک سے خوشبومحسوس کی ،آپ تاحیات دارالعلوم دیوبندمیں درس حدیث دیتے رہے۔(بیس بڑے مسلمان)
حضرت مولانامحمدادریس کاندھلویؒ
عشق الٰہی اورمحبت نبوی سے سرشار،عابدوزاہدِشب زندہ دار،حدیث کے امام اورتصوف کے رمزآشنا تھے،اخیرعمرمیں ضعف ونقاہت کے باوجودبخاری شریف کادرس جاری رکھا،قیام گاہ سے درسگاہ کے درمیان بمشکل چندقدم کافاصلہ ہے پھربھی راستے میں دوبارسستاناپڑتاتھا۔
جب بالکل صاحبِ فراش ہوگئے تووہاں موجوداپنے ایک بیٹے سے فرمایا:
’’دروازے پرجاؤوہاں حضرت اقدس مجددالف ثانیؒ،حضرت مولانااشرف علی تھانویؒاورحضرت مولاناشبیراحمدعثمانیؒتشریف لائے ہوئے ہیں ان کوبٹھاؤ‘‘
نیم بیہوشی کے عالم میں بھی زبان ذکرالٰہی سے تررہی ،جب بھی ہوش میں آتے توکلمۂ طیبہ پڑھناشروع کردیتے ،کبھی یہ آیت پڑھنے لگتے،انمااشکوبثی وحزنی الی اللّٰہ۔
دیدارکے لئے کفن سرکایاگیاتوچشم فلک نے دیکھاچہرہ گلاب کی طرح کھلاہوا،پرنوروپروقار،ہشاش بشاش،تازہ وشگفتہ اورتوانائی لائق دیدتھی،جس قبرمیں آپ کواتاراگیااس میں بھی خوشبواورمہک موجودتھی ،یہی خوشبوآپ کے اس حجرۂ شریفہ سے کئی ہفتوں بعدتک آتی رہی جہاں زندگی کے آخری ایام واوقات گزارے تھے۔(علماء دیوبندکے آخری لمحات)
حضرت مولانامفتی فقیراللہ رائے پوریؒ:
شیخ الہندحضرت مولانامحمودحسن دیوبندیؒکے تربیت یافتہ،جامعہ رشیدیہ ساہیوال کی نشأۃ ثانیہ کے بانی اورمختلف خوبیوں کے مالک حضرت مولانامفتی فقیراللہ رائے پوریؒخلف کے لئے سلف کی یادگارتھے ۔۲۱؍رمضان ۱۳۸۲ھ میں انتقال فرمایا۔
غلہ منڈی ساہیوال کے رہنے والے آپ کے ایک مریدباصفانے اپنے لئے وصیت کی کہ مجھے حضرت مفتی فقیراللہ ؒکے پہلومیں دفن کیاجائے۔اتفاق کی بات ہے کہ حضرت کے پہلومیں ایک ہی قبرکی گنجائش تھی ،چنانچہ ان کے لئے قبرکھودی جارہی تھی کہ اچانک حضرت مفتی صاحبؒکی قبرمبارک کی طرف ایک سوراخ ہوگیا،وہاں سے ذہن ودماغ کومعطرکردینے والی خوشبوآنے لگی توقبرکھودنے والوں نے سوراخ کوکچھ اوربڑاکردیاتووہاں تک روشنی پہنچنے لگی ،لوگوں نے دیکھاکہ حضرت مفتی صاحبؒایک ٹانگ پردوسری ٹانگ رکھے آرام فرمارہے ہیں،چہرہ گلاب کے مانندروشن اورکھِلاہواہے۔
حضرت مولانااحمدعلی لاہوریؒ:
شیخ التفسیرحضرت مولانااحمدعلی لاہوریؒمتبحرعالم،محدث،مفسراورصاحب کشف وکرامات بزرگ تھے، ۱۳۸۱ھ میں ان کاانتقال ہوا،لاکھوں فرزندان توحیدنے آپ کے جنازہ میں شرکت کی،لاہورکے قبرستان میں دفن ہوئے ،دفن کے بعدقبرمبارک سے خوشبوآنے لگی۔معتبرافرادنے پتہ لگانے کی کوشش کی ،حضرت کی قبرکی مٹی کامعائینہ کرایاگیالیکن حیرت اورتعجب کاعالم کہ جانچ میں کوئی فیصلہ نہ ہوسکاکہ یہ خوشبوکیسی ہے؟۔(علمائے دیوبندکے آخری لمحات)
حضرت مولانامحمدموسیٰ روحانی بازیؒ:
محدث عالم،فقیہ ،صوفی،فلکیات کے ماہراورمختلف علوم وفنون پردرک رکھنے والے بزرگ حضرت مولانا محمدموسیٰ روحانی بازیؒکو۱۹؍اکتوبر۱۹۹۸ء میں میانی قبرستان میں دفن کیاگیاتوآپ کی قبراورجسم سے مشک کے مانندخوشبوآنے لگی،خوشبواتنی پھیلی کہ دوردورتک فضامعطراورمعنبرہوگئی۔یہ خبرجنگل کی آگ کے ماننددوردورتک پھیل گئی ،لوگوں کاہجوم امڈپڑا،تبرکاًمٹی اٹھااٹھاکرلے جانے لگے ،مٹی کم ہوجاتی توپھرڈال دی جاتی ،تازہ مٹی بھی مہکنے لگتی ،قبرکے پاس چندمنٹ گزارنے والے کالباس بھی کئی کئی دن تک خوشبوداررہا۔(تذکرہ مولانامحمدموسیٰ روحانی بازیؒ)
یمنی خاتون کی لاش:
روزنامہ نوائے وقت نے ۳۰؍جنوری کو یمن کی ایک خاتون کے بارے میں درج ذیل خبرشائع کی ہے:
’’یمن میں ایک گاؤں کے قبرستان میں چارماہ قبل دفن کی گئی ایک خاتون کی لاش سے آنے والی خوشبوسے قبرستان مہک اٹھا،یمنی میڈیاکے مطابق طوفانی بارش سے قبرستان میں بھی پانی بھرگیااورکئی قبریں ٹوٹ گئیں جب کہ مقامی افرادیہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ خاتون کی لاش کئی ماہ کاعرصہ گزرنے کے باوجودصحیح سلامت تھی‘‘۔(روزنامہ نوائے وقت )
بہرحال کل نفس ذائقہ الموت ایک حقیقت اورکل من علیہافان ایک صداقت ہے،فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ایک اعلان اورومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ ایک فیصلہ ہے ۔ارشادنبوی القبرروضۃ من ریاض الجنۃ ایک بشارت اوراوحفرۃ من حفرالنارایک مذکرہ …ایک الارم …ایک جرس کارواں…صدائے مسلسل…اور…ایک کال بیل ہے۔
اِن اللہ والوں کی زندگیاں بھی قابل رشک اوران کی موتیں بھی قابل غبطہ…اللہ کی طرف سے آنے والے بلاوے پرلبیک وسعدیک کہتے نظرآئے توعین عالم سکرات میں اپنی زبان کوذکرالٰہی اورکلمۂ طیبہ سے ترکرنے میں مصروف…دوران درس وتقریر روانگی کی صدائے دلگدازسماعتوں سے ٹکرائی توسبق بند اور حضورِرب میں بصدشوق حاضر…کچھ وہ لوگ بھی ہیں جوفقہ وحدیث کی الجھی گتھیوں کوسلجھانے میں مصروف مگربلاوے کے لئے گوش برآواز…کچھ ایسے بھی ہیں جونمازکے لئے وضوتودنیامیں کیااورنمازقبرمیں …کچھ ایسے بھی نظرآئے جنہوں نے قیام تودنیامیں کیامگرسجودمیں سامان سفرباندھ لیا…کچھ وہ بھی ہیں جودنیامیں آفتاب بنکرچمکے…تومرنے کے بعدخوشبوبنکرمہکے…کچھ وہ بھی ہیں جن کادنیامیں مشغلہ تلاوت قرآن توقبرمیں بھی رضاء رحمان…کچھ وہ ہیں جنہوں نے جام شہادت نوش کیااورابدی وسرمدی زندگی پاکر خلدآبادکے مکین ہوگئے…کچھ وہ ہیں جن کے بارے میں خودخالق باری نے فرمایا:من المؤمنین رجال صدقواماعاہدوااللہ علیہ…پھران میں سے کچھ وہ ہیں جوفمنہم من قضی نحبہ کامصداق ہوئے اورکچھ وہ ہیں جوومنہم من ینتظرکااوراس پراللہ کااعلان باری ومابدلواتبدیلا۔
ہمیں فرمان نبوی العبرۃ بالخواتیم کومدنظررکھتے ہوئے اپنی اپنی قبروںکوروضۃ من ریاض الجنۃ بنانے کافکروخیال کرناچاہئے کیونکہ کوچ کااعلان ہروقت ہورہاہے…گلستان حیات سے کب کس کاورق الٹ دیاجائے معلوم نہیں…خزانۂ الٰہی سے ہمیں جووقت ملاہے اس کوغنیمت جانیں… وقت اورسمجھ ایک ساتھ خوش قسمت لوگوں کوملتے ہیں کیونکہ اکثروقت پرسمجھ نہیں ہوتی اورسمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا…توبہ واستغفارکے لئے وقت کومؤخرنہ کریں… کیونکہ… وقت آنے پرتوبہ کی توفیق بھی چھن سکتی ہے۔
٭٭٭
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سب ٹھاٹ پڑارہ جائے گا…
ناصرالدین مظاہری
حضرت عمربن عبدالعزیزؒایک بارقبرستان تشریف لے گئے توایک قبرنے آپ کومخاطب بنایااورکہا کہ آپ مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں مردوں کے ساتھ کیامعاملہ کرتی ہوں؟
حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے فرمایاکہ بتاؤکیامعاملہ کرتی ہو؟قبرنے جواب دیاکہ
’’میں مردوں کے کپڑے پھاڑدیتی ہوں…ان کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہوں… ساراخون چوس لیتی ہوں…گوشت کھالیتی ہوں…کندھوںکوبانہوں سے جداکردیتی ہوں… سرینوں کوجسم سے جداکردیتی ہوں…بانہوں کوپہنچوں سے الگ کردیتی ہوں…ٹانگوں کوگھٹنوں سے علیحدہ کردیتی ہوں…گھٹنوں کوپنڈلیوں سے اورپنڈلیوں کوپاؤں سے دورکردیتی ہوں‘‘
یہ سن کرحضرت عمربن العزیزؒخوب روئے اورپھرفرمایا:
’’دنیاچندروزہ ہے …یہاں کاقیام بہت تھوڑاہے…اس کادھوکہ بہت زیادہ ہے…یہاں جوعزیزہے وہ آخرت میں ذلیل ہے …یہاں جودولت مندہے وہ آخرت میں فقیرہے…اس کاجوان جلدبوڑھاہوجائے گا…اس کازندہ جلدمرجائے گا…اے لوگو!دنیاکاتمہاری طرف متوجہ ہوناتم کودھوکہ میں نہ ڈال دے …حالانکہ تم دیکھ رہے ہوکہ یہ کتنی جلدمنہ پھیرلیتی ہے …بے وقوف ہے وہ شخض جواس کے دھوکہ میں پھنسے‘‘
تو دیکھ جب سے آیا ہے کتنے ہی چل بسے
ان رفتگاں میں خود کو بھی اک شمار کر
اے شخص!ذراسوچ!تجھے بھی ایک دن اسی قبرستان کی ایک چھوٹی موٹی تنگ وتاریک قبرمیں تاقیام قیامت جانااوررہناہے…کیاکبھی سوچاکہ ہماراعرصۂ حیات ’’ٹرین‘‘کے مانندہے…جواسٹیشن کی جانب رواں دواں ہے…ہماری قبرآخرت کاپہلاریلوے اسٹیشن ہے…ٹی ٹی کی صورت میں موت کافرشتہ ہماراپیچھاکررہاہے…زندگی کی ریل کہیں تیزہوجاتی ہے توکہیں دھیمی …ٹھیک اسی طرح جیسے ہماری اپنی زندگی کبھی راہ راست پرچلنے لگتی ہے کبھی راستے سے ہٹ جایاکرتی ہے…ٹرین جب راستے سے ہٹ جائے تواسے حادثہ کہتے ہیں لیکن زندگی اگراپنی پٹری بدل دے تواسے موت کہتے ہیں…ٹرین میں ہرشخص کوسیٹ کے کنفرم ہونے کاانتظارہوتاہے،جس کاٹکٹ کنفرم ہوجاتاہے توپوری منزل آسان ہوجاتی ہے توکسی کاویٹنگ میں اٹک کررہ جاتاہے اورپوراسفرپریشان کن ہوجاتاہے… اگردھیان دیں توقبرمیں بھی اتنی ہی جگہ ہوتی ہے جتنی ایک ٹرین کی سیٹ کی ہوتی ہے…پھردیکھیں توٹرین کی سیٹیں اوپرنیچے کئی منزلہ ہوتی ہیں یہی حال قبروں کابھی ہے پرانے مردے کی قبرکودوبارہ کھودکرنیامردہ رکھ دیاجاتاہے…جن لوگوں کاٹکٹ کنفرم ہوگیاہے سمجھوکہ ان کے مزے ہیں اورآنے والے تمام اسٹیشنوں پران کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں بالکل یہی حال قبرکابھی ہے… اگرقبرمیں معاملہ آسان ہوجاتاہے توحشر،نشر،میزان وغیرہ تمام اسٹیشنوں پرآسانی ہے …یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا…خودمیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے… القبرروضۃ من ریاض الجنۃ(قبرجنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے) اورجن لوگوں کاٹکٹ کنفرم نہیں ہواہے ان کے لئے دشواریاں مقدرہیں بالکل اسی طرح جیسے قبرکے بارے میں پیارے نبی فرماتے ہیں اوحفرۃ من حفرالنار(یاجہنم کے گڈھوں میں سے ایک گڈھاہے)
اے دل یہ کہا کس نے جہاں میں قرار کر
اور جانِ نازنیں کو اسیر حصار کر
جس طرح ٹرین میں ریزرویشن کے الگ الگ طبقات اوردرجات ہیںجنرل،سلیپر،اے سی۔ بالکل اسی طرح قبرکے بھی درجات ہیں…انبیاء کرام کے لئے آسائشوں کامعاملہ الگ ہے…مؤمن بندوں کے لئے جدا…شہداء صالحین کے ساتھ معاملہ دوسراہے اورعلماء کاملین کے ساتھ الگ…ٹکٹ بنوانے کے لئے پہلے سے تیاریاں کرنی پڑتی ہیں، ٹائم ٹوٹائم ٹکٹ بننامشکل ہے اسی طرح اخروی معاملہ بھی ہے پیشگی محنت،عبادت،ریاضت اورذکروتلاوت سے اپنے ویٹنگ ٹکٹ کوکنفرم کرایاجاسکتاہے۔
اسٹیشن فنا کی بھی کیا خوب ریل ہے
اس راہ میں ہر ایک پسنجر کا میل ہے
یہ دنیا تھوڑی ہے اورتھوڑی میں سے بھی تھوڑی رہی ہے اور اس کا بھی شبہ ہے کہ تھوڑی بھی ہے یا نہیں ،تو اس قلیل المیعاد اور کثیر الآلام دنیا میں کس طرح مطمئن بیٹھا ہے ، اپنے آپ کو باقی اور ساری دنیا کو فانی سمجھتا ہے ۔
جس زندگی کوتوزندگی سمجھتاہے یہ زندگی نہیں موت کاپیام ہے،موت ہروقت ہرشکل اورصورت میں ہمارے دائیں،بائیں،آگے پیچھے گردش کرتی رہتی ہے اپناوجودجتلاتی اوربتلاتی رہتی ہے ،موت کبھی بیماری کی شکل میں توکبھی حادثہ کی شکل میں،کبھی مصیبت کی شکل میں کبھی بچپن سے جوانی کی شکل میں کبھی جوانی سے بڑھاپے کی شکل میں،کبھی بالوں کی سیاہی سے سفیدی کی شکل میں، کبھی اٹیک اوربرین ہیمرج کی شکل میں کبھی ایکسیڈنٹ کی شکل میں غرض ہرصورت میں ہمارے گردوپیش میں موجودرہتی ہے اورجب بھی موقع ملتاہے دبوچ لیتی ہے ۔
استاذمحترم حضرت مولاناانعام الرحمن تھانویؒ ایک واقعہ سنایاکرتے تھے :
’’قبرکامعاملہ بڑاعجیب ہے اورملک الموت کامعاملہ اس سے بھی عجیب ہے ہروقت گھات اورتاک میں لگارہتاہے کہ کب کس کی کتاب زندگی کاورق پلٹنے کاموقع ملے اوراپناکام کرے چنانچہ ایک بس کاڈرائیوربس چلارہاتھا،ڈرائیورکی موت کاوقت ہوگیااب اگراچانک ڈرائیورکی روح نکالے توبڑے حادثہ کاخطرہ، اچانک ڈرائیورنے بس روک دی اورکنڈیکٹرسے بولاکہ سواری کوبٹھالو،کنڈیٹرنے بس کادروازہ کھول کرچاروں طرف نظردوڑائی کہیں کوئی سواری نہیں تھی ، آخرکارکنڈیکٹرنے ڈرائیورسے کہاکہ استاد!کوئی سواری نہیں ہے گاڑی چلاؤ،مگرگاڑی پھربھی نہیں چلی،کنڈیکٹرنے قریب جاکردیکھا توڈرائیورکی گردن ایک طرف ڈھلک چکی تھی، ہاتھ لگاکردیکھاتوپتہ چلاکہ ڈرائیورمرچکاہے۔
جو کوئی دن کو چلے شب کو ٹھہرجاتا ہے
قاصد عمر رواں آٹھ پہر جاتا ہے
کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے:
’’زندگی سورج کے مانندہے جوچمکتاتوبڑی آب وتاب سے ہے لیکن آخرکارغروب ہوجاتاہے‘‘اسی طرح ایک صاحب نے بڑااچھاجملہ لکھاتھا’’بہت زیادہ دولت مت جمع کرو،کفن میں جیب نہیں ہوتی‘‘
ایک صاحب ِدل کاجب وقت قریب ہواتواس نے اپنے والد،اپنی ماں،اپنی بیوی اوراپنے بیٹوں کوروتے ہوئے دیکھا۔
والدسے پوچھاکہ آپ کیوں رورہے ہیں؟ باپ نے جواب دیاکہ بیٹاتمہاری جدائی پررورہاہوں اب میں کبھی تمہیں نہ دیکھ سکوں گا۔
ماں سے پوچھاکہ آپ کیوں رورہی ہیں اس نے کہاکہ بیٹامیں تمہیں دیکھ کراپنی آنکھوں کوسکون پہنچاتی تھی اب کیسے میری آنکھیں سکون پائیں گی۔
بیوی سے پوچھاکہ تم کیوں رورہی ہو،اس نے کہاکہ اتنے بڑے گھرمیں تمہارے وجودسے رونق تھی اب یہ بڑے بڑے کمرے،کمرے کی سجاوٹ اوربناوٹ آپ کے بغیرکیسے اچھی لگے گی۔
بیٹے سے پوچھاتم کیوں رورہے ہو؟اس نے کہاکہ ابو!اب میں یتیم ہوجاؤں گا، ابوکس کوکہوں گا،ہماری ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟
صاحب دل نے کہامجھے سہارادوتاکہ میں بیٹھ سکوں،سہارادیاگیااوروہ اٹھ کربیٹھ گیاپھرگویاہوا:
’’میں دیکھ رہاہوں کہ تم سب کے سب دنیاہی کے رونے رورہے ہو،تم میں سے ایک بھی ایسانہیں ہے جسے یہ فکرہوکہ میراکیابنے گا…قبرمیں میراکیاحال ہوگا…میں منکرنکیرکے سوالات کے جوابات کیسے دے سکوں گا…کل قیامت کے دن جب اللہ احکم الحاکمین کے سامنے میری پیشی ہوگی تووہاں میزان عدل پرمیرے اعمال کاپلڑاکس طرف کوجھکے گا…نیکیوں کی طرف یابرائیوں کی طرف…اس وقت میری کیاحالت اورکیفیت ہوگی…مطلب یہ ہے کہ میری آنے والی ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں آپ لوگوں میں سے کوئی فکرمندنہیں ہے …فکرہے توسب کواپنی اپنی‘‘۔
یہ الفاظ کہے اوراس نیک شخض کی روح قفس عنصری سے پروازکرگئی۔
شیخ سعدی نے بڑی اچھی بات کہی ہے :
خیرے کن اے فلاں وغنیمت شمار عمر
زاں پیشترکہ بانگ برآیدفلاں نماند
اِذَا جَائَ اَجَلُھُمْ فَلَا یَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَۃً وَلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ جب وقت اجل آجائے گاسب ٹھاٹ پڑارہ جائے گا…کوئی تقدیم اورتاخیرنہیں ہوسکتی…کوئی مہلت نہیں مل سکتی…کوئی رعایت اورکفایت نہیں ہوسکتی…کوئی دراورگھراس کی دسترس سے نہیں بچا…کوئی قوم اورہستی اس کے پنجہ سے خودکومحفوظ نہ رکھ سکی…وہ بھی گئے جن کواپنی خاکساری پرنازتھااوروہ بھی گئے جن کواپنی قوت وطاقت پرغرورتھا…موت کے بے رحم پنجوں سے کوئی بچ بھی کیسے سکتاہے جب کل نفس ذائقۃ الموت کافرمان والاشان خودقادرورحمان کاہے۔ ع ۔أین المفرّوالالٰہ الطالب
فرارکے تمام راستے مسدود…قرارکے تمام دریچے بند…بھاگنے کی مہلت ختم…بچنے کی امیدمعدوم… اللہ کاکیانظام ہے …تمام انسان ایک راستے سے آتے ہیں مگرجانے کے لئے سب کے راستے جداہوجاتے ہیں…کوئی عرش سے گرکرمرتاہے کوئی فرش پرایڑیاں رگڑکرجاتاہے…کوئی ریشمی مخمل پرآخری ہچکیاں لیتاہے توکوئی گھرمیں گھِرکرروانہ ہوتاہے…کوئی دریامیں ڈوبتاہے توکوئی سمندرمیں غرق ہوتاہے …کوئی گولیاں کھاکرمرتاہے توکوئی گالیاں دے کرمرتاہے…کوئی زمینی یاآسمانی آفات ناگہانی میں جان جانِ آفریں کے سپردکرتاہے توکوئی عمارتوں میں دب کرفناہوتاہے …کوئی زلزلوں کی زدمیں آتاہے توکوئی طوفانوں میں راہئی داربقاہوتاہے…کوئی سیلاب کی نذر ہوجاتاہے توکوئی زمین کے دھنسنے سے جاتاہے…کوئی بسترعلالت پرمرتاہے توکوئی اسپتالوں کی چہاردیواریوں میں اپنے آخری سانس گنتاہے…کوئی گاڑیوں کے ایکسیڈنٹ میں مرتاہے توکوئی دل کے دوروں میں چلاجاتاہے…کوئی فالج میں مفلوج ہوکر…توکوئی دماغی مریض بن کر…کوئی سانس کی گھٹن سے …توکوئی حالات کی چبھن سے…کوئی سرراہ چلتے چلتے …توکوئی سجدوں میں سررکھ کر… کوئی شراب خانہ کی سیڑھیوں پرایڑیاں رگڑتے رگڑتے… توکوئی بت خانے میں بتوں کی ’’خدائی‘‘تسلیم کرتے کرتے … کوئی مندرمیں شرک کرتے کرتے… توکوئی کلیسامیں کفربکتے بکتے… کہاں تک کوئی بتائے اورکس طرح کوئی گِنائے… بس یہ سمجھئے! کہ ہرانسان کے آنے کاراستہ ایک ہے مگرجانے کے راستے لاتعداد اوربے شمارہیں بایں ہمہ امرء القیس کی زبانی ؎
وَقَدْطَوَّفْتُ فِیْ الآفَاقِ حَتّیٰ
رَضِیْتُ مِنَ الغَنِیْمَۃِ بَالِایَابٖ
میں دنیابھرمیں بہت پھرا،لیکن آخرکارگھرواپس آنے ہی کوغنیمت جانا۔گھروہ نہیں جسے ہم گھرکہتے ہیں گھرسے مرادتوقبرہے ،جس کے لئے تیاریوں کی ضرورت ناگزیرہے…موت کانقارہ الرحیل الرحیل کی صدائیں لگارہاہے…جووقت گزارچکے وہ بہت ہے …جوباقی ہے وہ نہایت ہی کم ہے …ہوش کے ناخن لیجئے… تیاری کیجئے…تین سوالات کاپرچہ…حالات سے بے خبری…ماحول سے عدم انسیت…منکرنکیرکی ہیبت اور پھراعمال کی نحوست اورعقیدہ کی کمزوری …دین میں فسادفیاللعجب! ۔
لَعُمْرَأبِی اِنَّ البَعِیْدَالَّذِیْ مَضٰی
وَاِنَّ الَّذِیْ یَأتِیْ غَداًلَقَرِیْبُ
میرے باپ کی قسم !جووقت گزرچکاوہ بہت دورچلاگیااورجوکچھ کل پیش آنے والاہے وہ بہت قریب ہے۔
انسان بڑی غلط فہمی کاشکارہے جس کوزندگی سمجھتاہے وہ زندگی نہیں موت ہے، جس کوموت سمجھتاہے وہ موت نہیں حیات ہے …قبرسے جوزندگی شروع ہونے والی ہے وہ ہمیشہ ہمیش باقی رہے گی…تجھے تیرے گھروالے جن سے بیحدپیارکرتاہے قبرمیں اتارکرواپس آجائیں گے…جن کے لئے توحرال مال کماتاہے وہ تیرے بعدتیرانام لینابھی گوارانہ کریں گے…جودولت تونے محنت ومشقت سے حاصل کی ہے اس کوپانی کی طرح اڑائیں گے…بات بات پربرائی کے ساتھ تیرانام لیاجائے گا…ایصال ثواب کی ان کوتوفیق نہیں ملے گی …دعاء مغفرت سے ان کاکوئی واسطہ نہ ہوگا…اچھائی سے یادکرنے کی تونے خودانھیں تربیت نہیں دی…کس لگن اوردلچسپی کے ساتھ تونے ان کے آرام وراحت کاخیال رکھاتھا…کتنے اہتمام سے اس کے معدہ اورجسمانی ساخت کوملحوظ رکھ کراس کی غذاؤں کااہتمام کیاتھا…کس دلچسپی کے ساتھ اس کے سردوگرم پوشاکپرتوجہ دی تھی… مگر…کیاہوئی وہ محبت؟کہاں گیاوہ تعلق ؟کل تم نے چرواہابن کرہرچیزسے اس کی حفاظت کی تھی… مگر…تمہارے دوگززمین کے نیچے جاتے ہی حالات یکسربدل گئے…طوطاچشموں نے رخ پھیرلیا…ابن الوقتوں نے مفادپرستی کالبادہ اوڑھ لیا…اور…اب خودچرواہے بھیڑیابن گئے…کاش کہ توان باتوں پرعمل کرتاجن پرچلنے کے لئے مساجدکے منبرسے صدائیں گونجتی تھیں… تو…آج یہ حالت نہ ہوتی…کاش ان باتوں پرعمل کرتاجواسٹیج سے کہی جاتی تھیں… تویہ نوبت نہ آتی…افسوس کہ تونے ان کی آوازبھی سننی مناسب نہ سمجھی جوگشت اورتبلیغ کے نام سے جماعتیں مفت میں پیام دین سناتی تھیں…قرآن پوری زندگی تیرے گھرکے گردآلودطاق میں پوشیدہ وبوسیدہ جزدان میں لپٹارہا…لیکن… اس کوچھونے تک کی زحمت گوارانہ کی…مدرسے کے قریب ترین گھرہونے کے باوجودخودکوجہالت کی وادیوںکا اسیررکھا…توپھراب پچھتانے سے کوئی فائدہ ہونے والانہیں ہے کیونکہ جہاں تم آج ہوآنے والے کل تمہارے اپنے بھی وہیں پہنچ چکے ہوں گے۔
لَعَمْرُکَ وَالْمَنَایَاغَالِبَاتٌ
لِکُلِّ بَنِیْ أَبٍ مِنْہَاذُنُوبٗ
تیری زندگی کی قسم موت سب پرغالب آجاتی ہے،ایک ہی باپ کے سب بیٹے اس میں سے اپناحصہ پائیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مناجات میں اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ
’’یا اللہ! کتنا اچھا ہوتا اگر چار چیزیں ہوتیں اورچار نہ ہوتیں ،زندگی ہوتی موت نہ ہوتی ، جنت ہوتی دوزخ نہ ہوتی ، مالداری ہوتی درویشی نہ ہوتی ، تندرستی ہوتی بیماری نہ ہوتی ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایااے موسیٰ ! اگر زندگی ہوتی موت نہ ہوتی تو میری ملاقات سے کون مشرف ہوتا ،اگر جنت ہوتی جہنم نہ ہوتی تو میرے عذاب اورعتاب سے کون ڈرتا ،اگر مالداری ہوتی درویشی نہ ہوتی تو میرا شکر گزار کون ہوتا ، اگر تندرستی ہوتی بیماری نہ ہوتی تو مجھے کون یاد کرتا ‘‘
قارون،فرعون،شداد،ہامان،نمرود،عمالقہ،جرہم سبھی افراداوراقوام جن کواپنی قوت وطاقت پرغرہ اورنازتھا آج کہاں ہیں…آج کے ہٹلروچنگیز،مودی وسرکوزی،ٹرمپ اورپوتن ،بشارو ایریل شیرون کے بارے میں سوچوکہ یہ سب کل کہاں ہوں گے؟اُن کے انجام سے عبرت حاصل کرو… بڑھاپا آنے سے پہلے جوانی میں کچھ کرلو …بیماری آنے سے پہلے تندرستی میں کچھ کرلو …تنگی میں آنے سے پہلے خوشحالی میں کچھ کرلو…مصروفیت آنے سے پہلے فرصت میں کچھ کرلو…موت آنے سے پہلے زندگی میں کچھ کرلو…زندگی کوموت سے پہلے…امیری کوغریبی سے پہلے…صحت کوبیماری پہلے …عشرت کوعسرت سے پہلے …عسرکویسرسے پہلے …فرصت کومشغولیت سے پہلے غنیمت جانو…کیونکہ
ع۔سب ٹھاٹ پڑارہ جائے گاجب لادچلے گابنجارا۔
٭٭٭
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
’’ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘‘
اداریہ ناصرالدین مظاہری
حجازمقدس ہماری عقیدتوں کامرکزاورمحورہے اس لئے انھیں حالات اورکیفیات سے روشناس کرانا اوراپنادرددل اورفکرونظراُن کے سامنے رکھنابھی ایک ذمہ داری ہے۔
تالاب کی ساری مچھلیاں خراب نہیں ہوتیں…پوری فصل خراب نہیں ہوتی …اسی طرح ملک کے سارے لوگ خراب نہیں ہوتے …بس کچھ لوگ اورکچھ نظرئیے ہرماحول اورمعاشرہ میں ضرورہوتے ہیں جواپنے کرداروعمل کی گندگی سے دوسروں کی بدنامی کاذریعہ بن جاتے ہیں،لہٰذانہ توتالاب کی ساری مچھلیاں ضائع کی جاسکتی ہیں…نہ ہی پوری کی پوری فصل پھینکی جاسکتی ہے اورنہ ہی تمام اہالیان ملک کوسب وشتم کانشانہ بنایاجاسکتاہے۔
بہت سے لوگ جذبات میں ہی سہی حدودسے تجاوزکرجاتے ہیں اورنوبت گالیوں تک پہنچ جاتی ہے جوظاہرہے کسی بھی ماحول اورسنجیدہ معاشرہ کے لئے شرمناک ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احبواالعرب لثلاث:لانی عربی والقرآن عربی وکلام اہل الجنۃ عربی(شعب الایمان)
تین باتوں کی وجہ سے تم عربوں سے محبت کرو(۱)میں عرب سے ہوں(۲)قرآن کریم عربی زبان میں ہے(۳)جنتیوں کی زبان عربی ہے۔
نیتوں کارازاوربھیداللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں،ہربات کہنے کاایک طریقہ ہوتاہے ،دوااگرکڑوی ہوتواس میں شیرینی کی ملاوٹ کردی جاتی ہے،بات جوسچ ہوتی ہے وہ یقیناکڑوی ہوتی ہے لیکن وہیسچی بات اگرسنجیدگی اوراخلاقی دائرہ میں کہی جائے تواثراندازبھی ہوتی ہے۔
بہت سے لوگ صرف نقداورتنقیدہی کرناجانتے ہیں ،ان کے ناقدانہ چشمے کی یہ ’’خوبی‘‘ ہوتی ہے کہ انھیں اچھائیاں نظرنہیں آتی ہیں صرف برائیوں سے سروکارہوتاہے جواسلامی نقطہ نظرسے غلط ہے۔
اسلام ہم سے یہ تقاضاکرتاہے کہ حسنِ اخلاق،حسنِ سیرت اورحسن کردارکاخوگربن کردوسروں کوراہ راست بتائی اورسجھائی جائے توکوئی وجہ نہیں ہے کہ قبول نہ کی جائے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثرکرتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہاں تک ارشادفرمادیاہے:لاتسبواالعرب فانی اناالعرب: عربوں کوگالی مت دوانھیں برامت کہو،ان کوسب وشتم کانشانہ مت بناؤکیونکہ میں بھی عربی ہوں۔
قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒکامشہورشعرہے۔
امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امیدہے
کہ ہو سگان مدینہ میں میرانام شمار
ہمارے اسلاف اوراکابرکوارض مقدس کی ایک ایک چیزسے پیاررہاہے،حتی کہ وہاں کی گٹھلیاں، کنکرپتھر، پیڑپودے،جانوراورپرندے،گردوغبارسب چیزیں مکرم ومحترم رہی ہیں وہ وہاں کی خاک پاک کوسرمہ کی جگہ استعمال کرگئے…انہوں نے وہاں کی گٹھلیاں بھی ضائع نہیں ہونے دیں اوران کابُرادہ بنواکراستعمال کیا،ہرمسلمان کو الحمدللہ عرب کی ایک ایک انچ سے محبت اورعقیدت ہے اورہونی چاہئے ۔
ہمیں اس پہلوپربھی غورکرناچاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب اللہ رب العزت نے مخلوقات کو پیدافرمایاتوان میں بنوآدم کومنتخب فرمایا،بنوآدم میں سے عربوں کومنتخب فرمایا،پھرعربوں میں سے قریش کو پھر قریش میں سے بنوہاشم کوپھربنوہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایالہٰذامجھے بہترین لوگوں میں سے منتخب کیاگیا ہے ۔
اس حدیث شریف کے آخری جملے بطورخاص یہ ہیں:
فمن احب العرب فبحبی احبہم ومن ابغض العرب فببغضی ابغضہم۔
’’جس نے عربوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اورجس نے عربوں سے بغض رکھاتواس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔
حضرت سلمان فارسی ؓکومخاطب بناکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یاسلمان لاتبغضنی فتفارق دینک،قال قلت یارسول اللّٰہ ،کیف ابغضک وبک ہدانی اللّٰہ ؟قال،لاتبغض العرب فتبغضنی ۔
حضرت سلمان فارسیؓ ہی سے ایک اور روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے سلمان !مجھ سے بغض نہ رکھناورنہ دین سے ہاتھ دھوبیٹھوگے،میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول ! میں کیسے آپ سے بغض رکھ سکتاہوں حالانکہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت عطافرمائی ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا:اگرتم عربوں سے بغض رکھوگے تومجھ سے بغض رکھوگے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کومخاطب بنانے میں ممکن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظریہ مصلحت ہوکہ مستقبل میں سرزمین فارس سے ہی کچھ فتنے اورفتنہ پردازایسے اٹھیں گے جونعوذباللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھیں گے…ارض مقدس سے نفرت ہوگی…عربوں سے مزاحم اورمتصادم ہوں گے…خودکومسلمان جتلائیں اوربتلائیں گے اورخلاف اسلام کام کریں گے…مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ جن کاہدف اورنشانہ ہوگا…خدام حرمین سے دشمنی میں پیش پیش ہوں گے…اسلام کواسلام کی تلوارسے کاٹنے اورخلیج کومزیدگہراکرنے میں آگے آگے رہیںگے… نبی کے دشمن اللہ کے بھی دشمن ہوں گے اورجواللہ ورسول اللہ کادشمن ہواِن شاء اللہ خواری وذلت اس کامقدربنے گی۔
بہت سے لوگ عربوں سے کاروبارکرتے ہیں اورایشیائی ملکوں میں عربوں کی خریداری کاتناسب کافی بڑھاہواہے،ایکسپورٹ امپورٹ کسی بھی کاروبار کی بنیادہوتی ہے ،تجارت میں دھوکہ دیناشرعاًجائزنہیں ہے ، فریب کی اسلام میں اجازت نہیں ہے،اب سنئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :
من غش العرب لم یدخل فی شفاعتی ولم تنلہ مؤدتی۔
جس نے عربوں کودھوکہ اورفریب دیاوہ میری شفاعت کامستحق نہ ہوگااورمیری محبت اورکرم سے بھی محروم رہے گا۔
مذکورہ احادیث سے یہ نہ سمجھاجائے کہ عرب سے صرف موجودہ سعودی عرب مرادہے ایسانہیں ہے ، شام، فلسطین، یمن،اردن ،کویت،عراق وغیرہ بھی عرب کاحصہ ہیں، شام اوریمن وغیرہ کی فضیلت میں مستقل کتابیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں موجودہیں۔
اختلاف رائے کاہونانہ توعجیب ہے نہ ہی جرم تاہم اپنی رائے کوحق اوردرست سمجھ کرباقی تمام آراء کومستردکردینا’’جرم‘‘ ہے۔عرب آج بھی ہرسنجیدہ بات اورمشورہ کودل وجان سے مانتے اوراس پرعمل کرتے ہیں اوراس کے بے شمارشواہداورنظائرموجودہیں ۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم متانت اورسنجیدگی کے ساتھ جوبات حق اورسچ سمجھ رہے ہیں اس کوبذریعہ مکاتبت ومراسلت شاہان عرب تک پہنچائیں…براہ راست پہنچاناممکن ناہوتواپنے ملک کے سفارت خانہ سے رابطہ کریں…انھیں یقین دلائیں کہ ہمارارشتہ دوچارصدی قدیم نہیں چودہ سوسالوں سے قائم ہے…ہم کل کی طرح آج بھی اورآج کی طرح کل بھی آپ کی ہرآوازپرلبیک کہنے کے لئے تیارہیں …ہم حرمین شریفین کے خلاف اٹھنے والی ہرتحریک کوختم کرنے کاجذبہ رکھتے ہیں…ہم اسلام دشمنوں کی کسی بھی تحریک کی آنچ بھی وہاں تک نہیں پہنچنے دیں گے…کعبہ کاتحفظ،مسجدحرام کی حرمت ،مسجدنبوی کاتشخص،روضۂ مقدسہ کی آبرو،مدینہ منورہ کاوقاراِن سب چیزوں کی حفاظت ہی کے لئے تواللہ تعالیٰ نے اسلام کوکرۂ ارضی پرپھیلادیاہے تاکہ جوجہاں ہے وہیں سے جس طرح بھی ممکن ہوحفاظتی تدابیراختیارکرے۔
یوں توپوری دنیامیں مسلمان سب سے زیادہ مشق ستم بنے ہوئے ہیں لیکن پوراعرب اسلام دشمنوں کے نشانہ پرہے ،یہودی اورامریکی سازشیں کسی کل اورکروٹ سوچنے اورسمجھنے کاموقع نہیں دیناچاہتی ہیں۔چنانچہ آپ نقشہ اٹھائیں اوردیکھیں تواسرائیل کے قرب وجوارکے ملکوں فلسطین،اردن، عراق،شام،مصر، ترکی،قبرص اورسوڈان،صومال ،یمن وغیرہ جتنے بھی عرب ممالک ہیں وہ سب کسی نہ کسی آزمائش سے دوچارہیں کہیں اقتدارکی تبدیلی… توکہیں جمہوریت کی دستک…کہیں تیل کی لڑائی توکہیں ظالمانہ ماحول…کہیں خودملک کے سربراہ کے ذریعہ چیرہ دستی اورکہیں دوسرے ملکوں کے اشتراک سے بمباری…کہیں کچھ مسلم ممالک کے امریکہ میں داخلہ پرپابندی توکہیں عرب ممالک سے متصل اسلام دشمن ممالک سے دوستانہ ماحول یہ سب حالات امریکہ محض اس لئے کررہاہے تاکہ دشمنوں میں انتشارکی فضابرقراررکھ کراسرائیل کوسکون سے رکھ سکے اوروہ اپنی اس حکمت عملی میں فی الحال کامیاب ہے ۔
امریکہ نے سعودی عرب کے تمام پڑوسی ملکوں سے دوستانہ تعلقات اِس قدرمضبوط کرلئے ہیں اوراُن کے اعصاب پراتنی قوت کے ساتھ اثراندازہوچکاہے کہ عربوں کی کسی بھی طرح کی اسرائیل سے مزاحمت پرامریکہ تھوڑی ہی دیرمیں ارض مقدس کے گرداپناگھیرا تنگ کرسکتاہے ،یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ امریکی فوجی سعودی عرب سمیت قرب وجوارکے تقریباتمام ممالک میں موجودہیں۔
حالات بڑے دھماکہ خیزہیں شاہ سلمان کی بصیرت اورحکمت عملی کواللہ تعالیٰ کامیاب فرمائے کیونکہ دشمن کمین گاہوں میں بیٹھاتاک اورگھات میں صرف موقع کے انتظارمیں ہے …حرمین شریفین کی حفاظت ہرمؤمن کافرض ہے اورہمیں اپنے قبلہ وکعبہ کی حفاظت کے لئے بہرصورت تیاررہناچاہئے…ارض مقدس کواپنی دعاؤں میں فراموش نہ کریں کیونکہیہ ایمان کاتقاضا…حالات کاتقاضا …اور…وقت کاتقاضاہے۔
بہرحال پوراعرب ہماری عقیدتوں اورمحبتوں کامرکزومحورہے، اس کے ایک ایک چپہ سے ہماری تاریخ ورشتۂ ایمانی پیوستہ اوروابستہ ہے…اس کی ایک ایک بستی تاریخ اسلام کی اولوالعزم ہستیوں کے لازوال کارناموں کی شاہدہے…اس ارض مقدس کوصحابۂ کرام نے اپنے خون سے شادابی بخشی ہے …اور…آج بھی سوادگلشن کی حقیقت کاسراغ لگانے والوں کویہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ یہاں شہدائے کرام خاک وخون میں تڑپے ہیں…یہاں فزت ورب الکعبہ کانعرہ لگایاگیاہے…یہ وہ سرزمین ہے جودنیا کاسب سے وسط حصہ…سب سے بابرکت علاقہ اورسب سے افضل وبرترخطہ ہے…لاکھوں لوگوں کے ہاتھ یومیہ اُس ارض پاک کی سلامتی کے لئے اٹھتے ہیں …یہاں ہزارہاانبیائے کرام آرام فرماہیں…لاکھوں صحابہ اپنی قبروں میں حیات ہیں…بے شماربندگان خداوندالحاح وزاری کے ساتھ روزانہ دست بہ دعاہوتے ہیں…کعبۃ اللہ، مسجدحرام،مسجدنبوی،مسجداقصیٰ وغیرہ وہ یادگارایمانی شعائرہیں جن کودیکھنے سے بھی ایمان میں قوت اورتازگی کااحساس ہوتاہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ حرمین شریفین کے تحفظ اورتشخص کے لئے ہی اپنی نسلوں کوتیارکرنا چاہئے…اسی کی خاطرہماری صبح اوراسی کی خاطرہماری شام ہونی چاہئے…اسی کے لئے شبانہ روزکی محنت اوررات دن کی مشقت اٹھانی چاہئے…اس کی عظمت اوروقار کے لئے ہراس قربانی کے لئے ہمیں تیاررہناچاہئے جس سے ہم حرمین شریفین کی حفاظت کرسکیں…جوکام سعودی عرب اوردیگرمسلم ممالک کے کرنے کاہے وہ کررہے ہیں… وہ دنیابھرمیں غریب ممالک ومملکتوںکی امدادوتعاون کیلئے جانے جاتے ہیں…ان کی تجوریاں غریبوں کی معاونت…مدارس کے تعاون…مساجدکے بناء اوراصلاحی تحریکات کے لئے کھلی ہوئی ہیں…وہ انسانی بنیادوں پرایسے ایسے کام کررہے ہیں جن کی معترف اسلامی سلطنتیں ہی نہیں غیرمسلم حکومتیں اوررعایابھی ہیں…بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایشائی ممالک میں پینے کے پانی کے لئے جوسرکاری سطح پرنل اورہینڈپمپ لگائے جاتے ہیں وہ عرب حکمرانوں کی مرہون منت ہیں …یہ حقیقت بھی شایدلوگ نہیں جانتے کہ غریب ممالک کی مدداورامدادی پیکیج کاسلسلہ بھی مدتوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
ہم بحیثیت مسلمان نہ توعربوں سے کوئی اختلاف کریں…نہ ان سے بداخلاقی سے پیش آئیں …نہ ان کوتنقیدکانشانہ بنائیں …نہ ان کی شان میں گستاخی کریں…نہ ان سے الجھنے کی کوشش کریں…نہ ان کونیچادکھاکراپنی عقبیٰ بربادکریں… نہ عربوں کے دشمنوں کاآلۂ کاربنیں …اور…عربوں سے دشمنی رکھنے والوں کوبھی اپنادشمن تصورکریںکیونکہ دشمن کادشمن دوست ہوتاہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
٭٭٭
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اسلام کانظام صحت وصفائی
ناصرالدین مظاہری
صحت کورس
ہزاروں مرغیاں اوربے شمارمرغ پرمشتمل پولٹری فارم دیکھتے ہوئے ہم ایک ایسے حصہ میں پہنچے جہاں کا منظردیدنی تھا، مرغیاں بے بال وپربالکل برہنہ حالت میں مختلف آہنی پنجروں میں موجودتھیں…مرغیوں کی حالت سے صاف اندازہ ہورہاتھاکہ انھیں پیٹ بھرکھانابھی نہیں دیاجارہاہے…اُن کی اس حالت اورکیفیت کی بابت ہم نے فارم کے مالک نعیم احمدصاحب(جسپور،کاشی پور) سے پوچھاکہ ِان کی یہ حالت کیوں ہے؟ اِن کے پرکہاں گئے؟یہ اس قدرکمزورکیوں ہیں؟میں پے درپے سوالات کرتاچلاگیا۔
انہوں نے جوبات بتائی اُس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملا،نعیم احمدصاحب نے بتایاکہ دراصل یہ مرغیاںسنِّ اِیاس یعنی انڈہ دینے کے لائق نہیں رہ گئی ہیں ،حالانکہ ابھی اِن کی عمرکم ازکم چھ ماہ سے ایک سال تک ہوگی،اب میرے سامنے دوراستے بچے ہیں یاتوان کوکم قیمت پرفروخت کردیاجائے یاطبی کورس کراکرازسرنوتندرست اورانڈے دینے کے لائق بنالیاجائے۔میں نے دوسرے پہلوپرعمل کیااوراب ان کا’’صحت کورس ‘‘چل رہاہے۔
میںنے پوچھاکہ’’ صحت کورس‘‘کی بھی وضاحت کریں،کہنے لگے :ہم انھیں پیٹ بھرکھانانہیں دیتے، جوکھانادیتے بھی ہیں وہ مختلف دوائیں اوربعض ایسے اناج جودواکی حیثیت رکھتے ہیں وہ دے رہے ہیں،رفتہ رفتہ ان کے تمام بال وپرگرجائیں گے جیساکہ آپ دیکھ رہے اس جان جوکھم تنقیہ کے بعدپھرہم کورس میں تبدیلیاں شروع کریں گے،خوراک میں اضافہ کے ساتھ دوائیں بدلتے رہیں گے ،نئے سرے سے بال وپرنکلنے شروع ہوںگے اوررفتہ رفتہ تمام مرغیاں تندرست ہوکرپھرسے انڈے دینے لگیں گی۔
نعیم احمدصاحب( جوپہلے بریلوی مسلک سے وابستہ تھے لیکن تبلیغ کی برکت سے دیوبندی مسلک قبول کرچکے ہیں)مرغیوں کے کورس کی بابت بتارہے تھے اورمیرے دماغ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادگردش کررہاتھا۔
’’معدہ بدن کاحوض ہے ،جسم کی تمام رگیں اسی حوض سے سیراب ہوتی ہیں،لہٰذاجب معدہ صحیح ہوتاہے تورگیں پورے جسم میں صحت کومنتقل کرتی ہیں اورجب معدہ خراب ہوتاہے تورگیں بیماری کومنتقل کرتی ہیں‘‘
ایک توخوداسلام ہی دنیاکاوہ آفاقی مذہب ہے جس میں زندگی کے تمام کلیدی اوربنیادی شعبہ ہائے زندگی کے تعلق سے شارع اسلام حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرّیں ہدایات ملتی ہیں ۔
وضواورصحت:
اگرغورکریں تواسلام کے تمام شعبوں،معاملات،عبادات،معاشرت ہرشعبہ میں اصول صحت کوپورے طورپرملحوظ رکھاگیاہے،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نمازپڑھتاہے…نمازکے لئے پاکی شرط ہے…پاکی کے لئے وضوشرط ہے… وضوکے چارفرائض ہیں جن میں ہاتھوں کوکہنیوںتک…چہرے کوایک کان کی لوسے دوسرے کان کی لوتک…سرکامسح اورٹخنوں تک پاؤں کادھوناضروری ہے…یہی نہیں کہ اعضائِ وضوکوصرف دھونے تک کاحکم ہواَوربس؟نہیں بلکہ تمام اعضاء کوتین تین باردھوناہے تاکہ غلاظت ونجاست جوجسم کے کسی بھی حصہ پرہوختم ہوجائے۔اِس کے علاوہ عموماً منہ میں گندگی ہوتی ہے توکلی کرنامسنون ہوا…ناک میں گندگی کاامکان ہے توناک میں پانی پہنچانااورناک کوانگلی کے ذریعہ صاف کرنابھی مسنون ٹھہرا…کانوں میں گردوغبارجمع ہوسکتاہے توکانوں میں انگلی پھیرنابھی مسنون ہوا…سرپربال ہوتے ہیں اوربالوں کی جڑوں تک گندگی پہنچناممکن نہیں ہے، اس لئے اس کاصرف مسح فرض ہوا،انسان ہروقت چلتاپھرتاہے اس لئے پیروں کاآلودہ ہونابعیدنہیں لہٰذاپیروں کادھونابھی ضروری قراردیاگیا۔پھروضوکے بعداللہ تعالیٰ سے مزیدپاک اورصاف رہنے کی دعابھی یوں مانگی گئی’’اللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِيْمِنَ الْمُتَطَہِّرِیْنَ۔اے اللہ مجھے توبہ کرنے والوں اورپاک وصاف رہنے والوں میں سے بنادیجئے!
محترم پیرذوالفقارنقشبندی مدظلہ اپناواقعہ ارشادفرماتے ہیں کہ مجھ سے جلدکے ماہرایک امریکی انگریزنے کہاکہ اگرمیرابس چلے تومیں پورے ملک میں نمازلاگوکردوں؟میں نے ان سے وضاحت چاہی توکہنے لگے کہ نماز کے اندراتنی حکمتیں ہیں کہ کوئی حدہی نہیں ہے،پھرکہاکہ اگرانسان کے جسم کومادی نظرسے دیکھاجائے توانسان کادل پمپ کی ماننداس اِن پٹ بھی ہے اورآؤٹ پٹ بھی ،سارے جسم میں تازہ خون جارہاہوتاہے اوردوسراواپس آرہاہوتاہے،جب انسان بیٹھایاکھڑاہوتاہے توجسم کے جوحصے نیچے ہوتے ہیں ان میں پریشر نسبتاًزیادہ ہوتاہے اورجوحصے اوپرہوتے ہیں ان میں پریشرنسبتاًکم ہوتاہے مثلاًتین منزلہ عمارت ہواورنیچے پمپ لگاہواہو،تونیچے پانی زیادہ ہوگااوردوسری منزل پربھی کچھ پانی پہنچ جائے گاجب کہ تیسری منزل پربالکل نہیں پہنچے گا،حالانکہ پمپ وہی ہے ،پائپ وہی ہے،اس مثال کومدنظررکھیں اورسوچیں کہ انسان کادل خون کوپمپ کررہاہے اوریہ خون نیچے کے اعضاء میں پہنچ رہاہوتاہے،لیکن اوپرکے اعضاء میں اتنانہیں پہنچ رہاہوتاہے،جب کوئی ایسی صورت آتی ہے کہ انسان کاسرنیچے ہواوردل اوپرتوخون سرکے اندربھی اچھی طرح پہنچ جاتاہے مثلاً جب انسان نمازپڑھتاہے اورسجدے میں جاتاہے تومحسوس ہوتاہے گویاپورے جسم میں خون بھرگیاہے ،اگرآدمی سجدہ تھوڑالمباکرلے تومحسوس ہوتاہے کہ چہرے کی جوباریک باریک شریانیں ہیں ان میں بھی خون پہنچ گیاہے۔
ڈاکٹرصاحب نے اپنی بات جاری رکھی اورکہاکہ عام طورپرانسان بیٹھایاکھڑایالیٹاہوتاہے تینوں حالتوں میں انسان کادل نیچے ہوتاہے جب کہ سراوپرہوتاہے ۔بس ایک صورت اورکیفیت ایسی ہے جب انسان کادل اس کے جسم سے اوپرہوجاتاہے اوروہ ہے سجدہ ،سجدہ کی حالت میں انسان کا دل سر سے اوپرہوتاہے لہٰذااچھی طرح خون کوچہرہ کے ہرحصہ میں پہنچنے کاموقع مل جاتاہے۔(اسلام اورجدیدسائنس ۔اردومجلس ڈاٹ نیٹ)
وضومیں کہنیوں کودھویاجاتاہے جس کی وجہ سے جلدکے بندمسامات کھل جاتے ہیں،دوران خون بڑھ جاتاہے،وضوکاایک عمل گردن پرمسح کرنابھی ہے،گردن پرمسح کی اپنی ایک لذت ہے ،راحت اورسکون کی جس کیفیت سے وضوبنانے والاگزرتاہے اس کامزہ اورلذت وہ صرف محسوس کرسکتاہے بتانہیں سکتا۔
حضرت مولانانسیم احمدغازی مظاہری مدظلہ شیخ الحدیث دارالعلوم جامع الہدیٰ مرادآبادنے فرمایاکہ وضوکی کرامتوں میں ایک کرامت یہ بھی ہے کہ بکثرت وضوبنانے والاکبھی دیوانہ اورپاگل نہیں ہوتا،میں نے وجہ پوچھی توفرمایاکہ کیونکہ دوران وضواپنی گردن پرمسح کرتاہے جس کی وجہ سے جنون کی بیماری سے حفاظت ہوتی ہے۔
نمازاورصحت
اب اگلامرحلہ نمازکاہے جولوگ جانتے ہیں سوجانتے ہیں اورجولوگ نہیں جانتے وہ جان لیں کہ نمازکے شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ انسان پاک وصاف باوضوہوپھرجس جگہ نمازپڑھ رہاہے وہ جگہ بھی صاف ستھری ہو۔
نمازمیں قیام کی حالت میں بالکل تیرکے مانندچست کھڑے ہونے سے ریڑھ کے منکوں کوآرام ملتاہے۔
رکوع اورسجودمیں بکثرت سانس لینے سے خون میں آکسیجن جذب ہوتی ہے ،دوران خون میں فائدہ ہوتاہے،دماغ تیزہوتاہے،دوران سجدہ چہرہ،گردن،ناک ،کان،آنکھیں وغیرہ خون کی زیادتی سے مالامال ہوکرصحت اورنشوونماپاتی ہیں۔
دوران رکوع اپنی کمرکوبرابررکھیں اس سے کمرکی لچک میں فائدہ ہوتاہے جومعالجین کے نزدیک اچھی صحت کی علامت ہے،دوران رکوع پیٹ کے عضلات سکڑتے،آنتوں اورپیٹ کی مشینری کوقوت ملتی ہے،
انسان جب قعدہ میں جاتاہے تواس کے پنجے،پنڈلیاں،کولھے،گھٹنے،رانیں وغیرہ خون کے دوران سے بے انتہافیض پاتی ہیں ۔
حکیم طارق محمودچغتائی لکھتے ہیں:
اگرآپ غورکریں توانسان دوبارکھاناکھاتاہے،کھاناکھانے کے بعدکولیسٹرول بڑھنے کاامکان زیادہ ہوتاہے،شریعت نے اس کابھی لحاظ رکھاہے چنانچہ انسان دوپہرمیں کھاناکھاتاہے اس لئے دوپہرمیں نمازظہرکی کل بارہ رکعات پڑھنے کاحکم دیاگیا۔
رات کوبھی انسان کھاناکھاتاہے توکھانے کے بعدنمازعشاء کل سترہ رکعات پڑھنے کاحکم دیاگیاتاکہ کولیسٹرول کی مقدارمحنت ومشقت کے ذریعہ ختم ہوسکے۔
آج ہرشخص موٹاپے سے پریشان ہے ،کولیسٹرول کے بڑھنے سے ہرفردفکرمندہے،کولیسٹرول گھٹانے کی تدابیر اورمہنگے علاج کئے جاتے ہیں،کولیسٹرول کے بڑھنے سے دل متأثرہوتاہے،اٹیک کے خدشات لاحق ہوجاتے ہیں،نارمل بنانے کیلئے پیدل چلنابتایاجاہے ان تمام معالجوں سے بہترمعالج سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے ایسی ایسی باتیں ارشادفرمادی ہیں کہ قیامت تک کے محققین کوتحقیق کاایک میدان دے دیاہے۔
روزہ اورصحت
اسلام کاایک بنیادی رکن روزہ ہے آئیے! اوردیکھئے !کہ روزہ بھی اصول صحت کاذخیرہ لئے ہوئے ہے،جولوگ معدہ کی بیماریوں میں مبتلاہوں انھیں بکثرت روزہ رکھناچاہئے،روزہ معدہ کے لئے تنقیہ اورصفائی کاسب سے بڑاذریعہ ہے،معدہ کی تمام غلط اورفاسدچیزوں کوصرف اورصرف روزہ ہی نکال کرباہر کرسکتا ہے،اسی لئے امت محمدیہ پررمضان کے روزے فرض کئے گئے یہی نہیں رمضان توسال میں صرف ایک مہینہ ہی آتا ہے جب کہ معدہ میں خوراک دن رات پہنچتی ہے جوظاہرہے کہ اکیلارمضان اس سسٹم پرکیسے قابوپاتا اسلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام بیض کے روزے بھی رکھنے کامعمول بتایاتاکہ ہرماہ پیٹ کاتنقیہ ہوتارہے۔
حج اورصحت
اسلام کاایک رکن حج ہے ،حج تمام عبادات میں سب سے زیادہ صحت کے رازوں کورکھے اورسموئے ہوئے ہے چنانچہ کعبہ کاطواف،صفاومروہ کی سعی،منیٰ کی روانگی،عرفات کااجتماع وغیرہ اس قدرامورہیں جن میں کم سے کم چلنے والے انسان کوبھی بہت زیادہ چلناپڑتاہے۔پیدل چلناصحت کی سلامتی کے رازوں میں سے ایک رازہے جولوگ زیادہ ترپیدل چلتے ہیں وہ اکثربیماریوں کوخودسے دوربھگادیتے ہیں،پیدل چلنااسلام میں تومفیدہے ہی اب جدیدتعلیم یافتہ اطباء نے بھی پیدل چلنے کے فوائدکوتسلیم کرلیاہے۔
زکوۃ اورصحت
اسلام کاایک رکن زکوۃ ہے اور پورے قرآن میں جہاں کہیں زکوۃ کاذکرہے وہاں ’’زکوۃ دینے‘‘ کی بھی تاکیدہے اورزکوۃ دینے کے لئے مستحقین تک جاناضروری ہوتاہے اورجانے کے لئے خواہی نخواہی پیدل چلنا اوربدن کوہلاناضروری ہے،ہم زکوۃ دینے کوہی کارعبادت تصورکرتے ہیں جب کہ زکوٰۃ کومستحقین تک پہنچانے کی ذمہ داری خودصاحبان زکوٰۃ کی ہے،مدارس کے جولوگ زکوۃ وصول کرنے آپ کے گھر،کارخانہ اوردوکان پرپہنچتے ہیں وہ آپ پراحسان کرتے ہیں کیونکہ وہ اس کام کوعملی جامہ پہناتے ہیںجوآپ کے کرنے کاتھا۔
راستوں کی صفائی
ان تمام فرائض کے علاوہ آپ غورکریں تواسلام کی صداقت اورحقانیت پرقربان ہونے کوجی چاہتاہے ، اسلام ماحولیاتی آلودگی کاسب سے بڑامخالف ہے،اسلام ہم سے مطالبہ کرتاہے کہ ایمان کے سترسے زائد درجات میں سے سب سے چھوٹااورکمتردرجہ یہ ہے کہ راستے سے گری پڑی چیزوں کوہٹادیاجائے۔ معلوم ہواکہ راستہ میں گندگی نہ ڈالی جائے ،اگرگندگی پڑی ہوتواس کوہٹادیاجائے،راستے میں تکلیف دہ چیزیں پتھر، رسی، مانجھا اوراس جیسی دوسری چیزیں بھی نہ رہنے دی جائیں کیونکہ یہ سب دوسروں کی اذیت کاباعث بنتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے خودماحولیاتی آلودگی سے بچنے کاحکم فرمایاہے:
وَلَا تَعْثَوْا فِیْ الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ،زمین میں فسادپھیلاتے نہ پھرو۔
ایک جگہ اورفرمایا: وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِیْ الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ اورتم زمین پرفسادپھیلانے کی کوشش نہ کروکیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں فرماتا ۔
روئے زمین پرفسادپھیلانے والے،انتشارجنم دینے والے،صوتی یاماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے، ہرے درخت اورہریالی ختم کرنے والے،کھیتوں اورکھیتیوں کوبربادکرنے والے اِن سب کواللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایاہے :
وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِیْ الْاَرْضِ لِیُْفْسِدَ فِیْہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَاورجب وہ پلٹتاہے توزمین میں فسادبرپاکرتے ہوئے،،کھیتوں اورنسل کوتباہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ،حالانکہ اللہ تعالیٰ کوفسادپسندنہیں ہے۔
ہریالی اوراسلام
ہم اپنے گردوپیش کاجائزہ لیتے ہیں توانسانیت کی آوازیں بلندکرنے والے اورجمہوری قدروں کاراگ الاپنے والے آج سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلاتے نظرآتے ہیں…ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال… لوگوں کی فصلوں اورنسلوں کاخاتمہ…ہریالیوں اورجنگلات کونذرآتش کرنا…پانی بندکرنے کی کوشش کرنا… چیختے اور چنگھاڑتے جہازوں کی گڑگڑاہٹ سے آسمان کوسرپراٹھالینا…بموں کے ذریعہ عمارتوں کوملیامیٹ کردینا… ندیوں ، تالابوں اورسمندروں میں زہرگھول دینا،بری،بحری اورخشکی ہرمیدان اورافق میں فسادبرپا کردینا… پہلے بیماریاں پھیلاناپھرہمدردیوں کے نام پردوائیں تقسیم کرکے عوام کوبیوقوف بنانا…پہلے قتل وغارت گری کابازارگرم کرنا پھرمسیحابن کردوسروں کے گھروں میں سانپ کے مانندکنڈلی مارکربیٹھ جانا…یہ کس کی طبیعت ہے؟ یہ کس کی عادت ہے؟یہ کس کی فطرت ہے؟۔
صوتی اورماحولیاتی آلودگی
اسلام اورمسلمان ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہے وہ بچوں کوبربادنہیں کرتاوہ عورتوں پرہاتھ نہیں اٹھاتاوہ بوڑھوں کی قدرومنزلت کرتاہے،وہ ہریالیوں کوبرقراررکھناچاہتاہے،وہ ناحق کوئی بھی جانی یامالی اتلاف کاقائل نہیں ہے،وہ صوتی آلودگی پربھی کنٹرول رکھتاہے،تکلیف دہ لاؤڈاسپیکر،چیختی چنگھاڑتی گاڑیاں، شورمچاتی سیٹیاں،گانے،باجے،ڈھول تاشے وغیرہ مزامیراسلام میں کیوں ممنوع ہیں ؟غورکریں تواس کی ایک وجہ ماحولیاتی اورصوتی آلودگی بھی ہے،دوسروں کوایذاء دیناحرام قراردیاگیا’’جیواورجینے دو‘‘کافارمولہ سب سے پہلے اسلام نے دیاہے،لاضررولاضرارکااصول سب سے پہلے اسلام نے دیا،ہرے درخت لگانے اوران سے جنگلی اورگھریلوجانوروں کوفائدہ پہنچانے کی ترغیب سب سے پہلے اسلام نے دی ہے،حتیٰ کہ اگرجنگلی جانور اورپرندے آپ کے ہرے بھرے کھیت یاکھلیان سے اپناپیٹ بھرتے ہیں تویہ آپ کے لئے صدقہ کادرجہ رکھتا ہے۔گویااسلام میں ہرے بھرے درخت لگانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے سایہ میں مسافروں کوآرام ملے تواس کے پھلوں سے مسافروطائراپناپیٹ بھرسکیں۔
سڑکوں کے کنارے آموں کے درخت
شیرشاہ سوری وہ زندہ دل اورتابندہ قلب بادشاہ گزراہے جس نے غیرمنقسم ہندوستان میں سب سے پہلے سڑکیں بنوائیں،سڑکوں کے کناروںپرپھلوں خاص کرآموں کے درخت لگوائے تاکہ ایک طرف توراہ گیروں کوآسانی کے ساتھ سایہ اورغذاملتی چلی جائے دوسری طرف ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچاجاسکے۔
بدلتی قدریں،بدلتے نظرئیے
آج پرانی قدریں دم توڑگئیں …اب مفادپرستی کاغلبہ ہوگیا…آمدنی اورانکم ہمارااصول بن گیاتوسڑکوں کے کنارے آموں کی فصلیں ختم ہونے لگیں …وہ پیڑلگائے جانے لگے جونہ توسایہ دارہوتے ہیں نہ ہی پھلدار…نہ تواپنی مشکبارخوشبوسے راہ گیروں کوسستانے کی دعوت دیتے ہیں نہ ہی کسی قسم کا فائدہ۔
محنت اورجفاکشی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت کرنے کی تلقین وہدایت کی،تاکہ جسم سے پسینہ نکلے…پسینہ کے ساتھ فاسدبخارات نکلیں…فاسدبخارات کے نکلنے سے طرح طرح کی بیماریوں سے تحفظ ہوسکے…دھوپ کی شدت سے کیلشیم ہماری ہڈیوں کومضبوط کرسکے…مگراب آرام طلبی اپنی انتہاؤں کوپہنچ گئی…گھرسے کار،کارسے آفس ہرجگہ اے۔ سی۔ نے لے لی… نتیجہ یہ ہواکہ پسینہ کانکلنا’’کتابی چیز‘‘بن گیااورپھرشروع ہوابیماریوں کانہ ختم ہونے والا سلسلہ… خراب گھٹنے…بیکارگلا…کمزورہڈیاں…گردن کااکڑنا…سینہ کا جکڑنا…بینائی کی کمزوری …کیلشیم کی کمی…کمرکادرد،پیٹ کے امراض …شوگرکی آمدیہ سب وہ بیماریاں ہیں جوایک دوسرے سے لازم وملزوم ہیں ۔
ہم اورہمارے نبی
سوالاکھ کے قریب انبیاء کرام اورایک لاکھ سے زائدصحابہ کرام کی تاریخ اٹھاکردیکھ لیجئے ایک فردبھی شوگر اورپیٹ کی بیماریوں میں مبتلانہیں ہوا،وجہ معلوم ہے؟وہ حضرات جفاکش تھے،محنت کش تھے…اپنے دست وبازو سے کھاتے اورکماتے تھے…ان کی انگلیاں ہی ان کاچمچ تھیں…ان کی روکھی سوکھی روٹیاں ہی ان کامرغ ومسلم تھیں…ہمارے آقانے کبھی ایک ساتھ دوسالن جمع نہیں کئے اورہم ہیں کہ کبھی ایک سالن پرگزربسرنہیں کرتے…ہمارے رہنمانے کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی اورہم نے بغیرچھنے آٹے کوکبھی ہاتھ نہیں لگایا…ہمارے راہبرنے کبھی پیٹ بھرکرکھانانہیں کھایااورہم نے کبھی پیٹ کوخالی نہیں ہونے دیا۔
گندگی کون کرتاہے؟
آج لوگ پان کھاتے ،بیڑی پیتے،سگریٹ سے شغل کرتے،طرح طرح کی بازاری چیزیں کھاتے نظر آتے ہیں ،بازارکی چیزیں کھاناضروری سمجھامگراس کی پیکنگ کوکسی کچراگھرمیں ڈالنے کی زحمت نہ کی…بیڑی، سگریٹ اورہرقسم کی نشہ آورپڑیااورتمباکوجوسراسرزہرہے ان کوکھالیااوران کی پیکنگ راستوں پر ڈالدی…پانی کی بوتل خریدی،پانی پیااوربوتل پھینک دی…وہ بوتل حادثہ کاذریعہ بن سکتی ہے…سامان خریدا،استعمال کیااورپولوتھین سڑکوںپر ڈال دی… جوہوا کے ذریعہ ادھرسے ادھرآوارہ اڑتی پھرتی ہے …پتنگ جوخودگناہ کاکام ہے اس سے کھیلتے رہے اوراس کامانجھا روڈپرپھینک کرچلتے بنے …اب چاہے کوئی اس میں الجھ کرگرجائے…ایکسیڈنٹ ہوجائے،گلے میں پھنس کر پھانسی لگ جائے یاگلاکٹ جائے کچھ بھی ممکن ہے اورآئے دن اس کی خبریں اخبارات میں پڑھنے کوملتی رہتی ہیں۔
پٹاخے اوراسپیکر؟
شادیاں ،جلوس ،پروگرام ان سب مواقع پرلاؤڈاسپیکرکااستعمال کچھ اس اندازاورآوازمیں کرتے ہیں کہ کان پڑی آوازنہیں آتی…ہرسننے والاناگفتہ بہ اذیت سے دوچارہوتاہے…بغیرسائلینسرکی گاڑیوں سے قرب وجوار کے لوگ پریشان ہوجاتے ہیں…پٹاخوں،گولوں اورمختلف ملکی اورچائنیزپھلجھڑیوں سے ہرسنجیدہ شخص نالاں ہے…گاڑیاں شوق سے چلائیں لیکن ان سے چمنی کے ماننداٹھتادھواں بہت سے لوگوں کے تنفس کاسبب بن سکتا ہے… اس لئے ایسی گاڑی نہ استعمال کریں جوآلودگی پھیلانے والی ہوں۔
مردے کوآگ لگانے کانقصان
دنیابھرکے مذاہب انسانیت کانعرہ لگاتے ہیں مگرانسانیت کے لئے کام صرف اسلام کرتاہے ،ہندودھرم تواپنے مردوں کے ساتھ سب سے زیادہ ناانصافی کرتاہے ،اپنے مردوں کوآگ کے حوالہ کردیتے ہیں،لکڑی کی بڑی سلیں مردے کے جسم پررکھ کرکیمیکل چھڑک کرآگ لگادی جاتی ہے،مردے کے جسم کو آگ لگتی ہے،اس کاگوشت جلتااورچربی پگھلتی ہے تودوردورتک اس کی بدبوجاتی ہے ،جہاں جہاں بدبوجاتی ہے فضامکرہوجاتی ہے،ماحول متعفن ہوجاتاہے،کبھی کبھی ایسابھی دیکھنے میں آیاہے کہ ہندومردے کوجلتاچھوڑکرآجاتے ہیں،ادھ جلی لاش کوجنگل کے درندے لئے پھرتے ہیں،کتے نوچتے اورکھسوٹتے ہیں،مردے کے جلانے میں راکھ ادھرادھر ہوتی ہے،زمین جلتی ہے تو وہاں پیداوارمتاثرہوتی ہے،چنانچہ اگرآپ غورکریں توشمشان گھاٹ میں ویرانی وبے چینی اورہُوکاعالم ہوتاہے،سناٹوں کی حکمرانی ہوتی ہے،بے کیفی کاادراک ہوتاہے،لوگ وہاں جانے سے ڈرتے اورکتراتے ہیں۔
قبرمیں دفن کرنے کی حکمت
قبرستان جہاں مسلمان اپنے مُردوں کوباقاعدہ انسانی عظمت واحترام کاخیال رکھتے ہوئے قبرمیں دفن کرتے ہیں تووہاں ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے،سبزہ ہی سبزہ ہوتاہے،پیڑپودوں سے پوراقبرستان گل وگلزاربنارہتاہے،پرندے چہچہاتے ہیں،پھرغورکریں تومعلوم ہوگاکہ انسان چونکہ مشت خاکی ہے،خاک سے بناہے ،خاک پررہتاہے،اورخاک ہی میں جارہاہے ،توگویا’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کاخمیرتھا‘‘ کااصول پیش نظرہوتاہے ،امانت لوٹائی جاتی ہے،انسانی جسم جن عناصراربعہ سے مل کربناہے وہ سب اپنے اپنے مقام پرپہنچ جاتے ہیں اورگویاانسان کی تخلیق سے زمین میں جوگڈھاہوگیاتھاوہ بھرجاتاہے،نہ تواوپروالوں کوکسی بدبوکااحساس ہوتاہے،نہ راکھ سے فضامکدرہوتی ہے ،نہ چربی جلنے کی بدبوسے دماغ پھٹتاہے،نہ درندے لاشوں کی توہین کرتے ہیں نہ ہی انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے،ایک وقار،ایک سکون ایک حرمت اورایک عظمت انسان کے دل میں موجزن ہوتی ہے،یادگاربھی باقی رہتی ہے،اگرکبھی طبیعت چاہے توان مردوں کے پاس جاکران کے لئے دعاء مغفرت کی جاسکتی ہے،ان کواپنے حالات بتائے جاسکتے ہیں ان سے دعاء خیرکی درخواست کرسکتے ہیں،وہاں کچھ دیربیٹھ کرقبروالوں کے لئے انس اورغمخواری کاسبب بن سکتے ہیں۔
کچھ لوگ اپنے مردے دریاکے حوالہ کردیتے ہیں ،دریاکاموجیں مارتاپانی مردے کوالٹتاپلٹتا،یہاں سے وہاں، جہاں تہاں بہالے جاتاہے،سڑاتاگلاتا،پانی کوبدبوداربناتامچھلیوں کی غذابنادیتاہے،اوروہی مچھلیاں آخرکار انسان کھاجاتاہے۔غورکریں جس چیزکو مرنے کے بعدہاتھ لگانے میں کراہت محسوس کرتے ہیں وہی چیزبدلی ہوئی شکل میں اپنی غذااورخوارک بنارہے ہوتے ہیں۔
ہندوبھائیو!خدارااپنے مردوں کوزمین میں دفن کرو،ان کی توہین نہ کرو،ان کوآرام پہنچانے کاذریعہ بنو،جن کی زندگی میں تم انھیں ذرہ برابرتکلیف نہیں دے سکتے تھے توپھرکیاوجہ ہے کہ ان کوآگ لگاکربھسم کردیتے ہواورسوچ کاکوئی موقع اورفکرکاکوئی لمحہ اپنے قریب بھی پھٹکنے بھی نہیں دیتے۔
عملی قدم
غورکریں کہ یہ چیزیں اچھے ماحول ،اچھے معاشرہ،مثبت فکر،سنجیدہ نظریہ،صوتی وماحولیاتی آلودگی اورصفائی وستھرائی کے باب میں حارج اورحائل تونہیں ہیں؟اگرہیں توپھرحکومت کے کروڑوں روپے ضائع کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
آئیے! اصلاح اپنے گھرسے شروع کریں…شادیوں میں باجے نہ بجائیں…غیرضروری مواقع پر اسپیکرکی آوازصرف وہاں تک رکھیں جہاں تک متعلقہ لوگ ہیں…دوردورتک آوازپہنچانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے،جوسننے والے ہیں وہ پروگرام کے اندرہیں اورجواس مزاج اورمذاق کے نہیں ہیں انھیں زبردستی آپ سنانہیں سکتے…گولے ،پٹاخے اوراس قبیل کی تمام چیزیں استعمال نہ کریں…پتنگ بازی نہ کریں… راستوں کوصاف ،صحن کوصاف اوراپنے قرب وجوارکوصاف رکھیں کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر اورگھیرکی صفائی کے ساتھ صحن اوراطراف کی صفائی کی بھی حکم دیاہے:نظفواافنیتکم۔
٭٭٭
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
زلزلہ
ناصر الدین مظاہری
آج ۶؍فروری رات دس بج کر ۳۵؍منٹ پر اپنے کمرہ میں بیٹھاتھا کہ اچانک زلزلے کے جھٹکوںنے مظاہر علوم (وقف)کی عظیم وقدیم اورصحیح عمارت دار قدیم کوہلادیا ۔طلبہ اپنے حجروں سے باہر صحن میں آگئے ، ہم اوپرحجرہ کے باہر صحن میں کھڑے ہوکر نیچے طلبہ کے ہجوم اورشور کو سن رہے تھے اورغور کررہے تھے کہ انسان کتنا بے چار وناچار ہے جس نے بڑی بڑی عمارات نوبنادیں مگر انجام پر غورنہیں کیا ، طلبہ کی معصومیت پربھی ہنسی آئی جو مظاہر علوم کے چھوٹے سے صحن میں کھڑے ہوکر خوش فہمی کا شکار تھے کیونکہ ان کے دائیں طرف چارمنزلہ اور ایک طرف تین منزلہ فلک بوس عمارت کھڑی تھی جو ظاہرہے قدرت سے نہ تو مقابلہ کرتی ہیں نہ ہی کرسکتی ہیں ، اونچی عمارات اوراونچے پیڑ اپنے پیرو ں پر نہیں گرتے ،گرد وپیش اورقرب وجوار کو ضرور بالضرور متاثرکرتے ہیں ، مجھے فوراً آیت قرآنی یاد آئی ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ،اینما تکونوا یدرکم الموت ولوکنتم فی بروج مشیدۃ تم جہاں کہیں ہو ،یا جہاں چاہو چلے جاؤ ، پہاڑوں پر چڑھ جاؤ ،سڑکوں پر آجاؤ ،دریاؤں میں گھس جاؤ ، میدانوںمیں دوڑپڑو ،رہگزاروڈ اورریگستانوںمیں ڈیرہ جما لو،جب موت آنی ہوگی تو ہر صورت اورہرآن آکر رہے گی ۔پہاڑوںکی چٹانیںکھسک جایا کرتی ہیں ،فلک بوس عمارات ڈھہ جایا کرتی ہیں ، سڑکیںتو اور بھی موت کا سامان ہیں عمارتوں کا گرنا ، بجلی کے کھمبوںکا تاروں سمیت سڑک پر کھڑے لوگوں پر آنااور پھرتباہیوں ،بربادیوں اورموت کا المناک رقص ،انسان کہاں جاسکتا ہے ،زمینیں دھنس جاتی ہیں ، گاڑیاں الٹ جاتی ہیں ، آسمانی بجلیاں گرجاتی ہیں ، تار ٹوٹ جاتے ہیں ، دماغ کی نسیں پھٹ جاتی ہیں ، دل کی حرکتیں بند ہوجاتی ہیں ، فالج کا شکار ہوکر مفلوج ہوسکتے ہیں ، سانسوں کی آمد ورفت بند ہوسکتی ہیں ، اچانک گولیاں چل سکتی ہیں ، سیلاب تباہی مچا سکتا ہے ، خشک سالی اور قحط سالی آسکتی ہے ، پانی کا وجود ختم ہوسکتا ہے ، پانی سے بھرے بادل گرسکتے ہیں اور بسے بسائے شہر تالاب بن سکتے ہیں ، زلزلوں کی وجہ سے زمینیں الٹ پلٹ جاتی ہیں ، آتش فشاں پھٹ جاتے ہیں ،اب سنئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں’’ موت کا فرشتہ روزانہ تمام گھروں میں جاتا ہے ‘‘یعنی موت تمام دَر،دروازوں کے چکر لگاتی ہے اور جب جہاں جس حال میں جس کا وقت پورا ہوجاتا ہے ، اس کی موت آجاتی ہے ، نہ ایک سیکنڈ پہلے نہ ایک لمحہ بعد اِذَا جَائَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَۃً وَلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ جب ان کی موت آتی ہے تو نہ ایک گھڑی پہلے نہ بعد ۔
سو اے انسان !خواب غفلت میں کب تک ایک دن آخر کار اٹھنا ہے ، اپنے کئے کا حساب دینا ہے تو پھر آخرت کی ندامت اورخجلت سے بچنے کے لئے جاگ جا ، موت سے پہلے موت کی تیار ی کر ، حساب دینے سے پہلے نیکیوں کا ذخیرہ جمع کر ، کیونکہ وہاں ایک ایک چیز کو میزان عدل میں تولا اورایک ایک نیکی وبدی کا بدلہ دیا جائے گا فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ ۔
٭٭٭
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
دراصل مظاہرعلوم کی شان ہی یہ ہے کہ اسے شروع ہی سے اورہردوراورزمانہ میں کچھ ایسے بندگان خداوندملتے رہے جواس ادارہ کی شان میں اضافہ کاباعث بنے،میں نے توحضرت مولانااطہرحسینؒ سے یہ بھی سناہے کہ ایک وقت تھاجب یہاں کاچپراسی بھی صاحب نسبت ہواکرتاتھا،مجھے خوب یادہے فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کادوراہتمام تھامیراتقررسات سواسی روپے ماہوارپرہواتھا،یہ کوئی ز؁ادہ پرانی بات نہیں ہے نہ ہی میرے اخراجات اتنے کم تھے کہ تنخواہ قلیل معلوم نہ ہوتی،عیدالاضحی کی تعطیل کاموقع تھامجھے اپنے وطن جاناتھا،کھانے وغیرہ کی ماہانہ فیس کٹ کرتنخواہ چھ سوتیس روپے ملی ،میں نے سوچاکہ عیدبالاضحی کاموقع ہے اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں اس لئے علی الحساب لے لوں؟حضرت فقیہ الاسلام ؒکی خدمت میں تحریری درخواست گزاری کیونکہ یہاں سارے معاملات تحریری ہی ہوتے ہیں،حضرت نے درخواست پڑھی اورپھرمسکرائے اورفرمایاکہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒسے ان کی بیوی نے عیدکے موقع پربچوں کے لئے کچھ فرمائش کی توحضرت نے فرمایاکہ مجھے بیت المال سے وظیفہ ملتاہے اس کے علاوہ میں کچھ نہیں لے سکتا،بیوی (جوخودشہزادی تھیں)عرض کیاکہ علی الحساب رقم بیت المال سے لے لیں پھرتنخواہ ملنے پروضع کرادینا،حضرت ؒکویہ بات سمجھ میں آئی اورایک پرچہ بیت المال کے خزانچی کے نام پرچہ لکھ دیا،پرچہ بیت المال پہنچاتواسی پرچہ پرخزانچی نے لکھاکہ’’اگلے ماہ تک زندہ رہنے کی آپ کوامیدہے؟فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے اس واقعہ کے بعدکچھ نہیں فرمایااورمیں سب کچھ سمجھ گیا۔
چلتے چلتے ایک اورواقعہ لکھتاچلوں،محترم قاری مرغوب الرحمن صاحب آدم پوری مدرسہ میں شعبہ مالیات میں محررتھے،بمبئی ماہ رمضان میں فراہمی سرمایہ کے لئے جاتے تھے،چونکہ سفرمیں وقت بہت قیمتی ہوتاہے اس لئے کپڑے دھوبی سے دھلوانامجبوری ہے اورمدارس یہ مصارف عموماًبرداشت کرتے ہیں ایساہی واقعہ قاری صاحب کے ساتھ پیش آیا،انہوں نے حسابات کے پرچہ میں مصارف سفرمیں کپڑے دھلائی کی رقم بھی لکھی ،اللہ غریق رحمت فرمائے مرحوم بابومحمدعبداللہ صاحبؒ مہتمم مالیات تھے،انہوں نے پرچہ چیک کیاتوکپڑے دھلائی پرلائن کھنچ دی اورفرمایاکہ مدرسہ کپڑوں کی دھلائی کے پیسے نہیں دے گا،انہوں نے ہرچندصراحت اوروضاحت کرناچاہی مگربات نہیں مانی گئی۔قاری صاحب نے یہ استغاثہ حضرت فقیہ الاسلام ؒکی خدمت میں دائرکیاتووہاں بھی یہ فیصلہ صادرہواکہ واقعی مدرسہ کپڑوں کی دھلائی کے پیسے نہیں دے گاورنہ یہ دوسروں کے لئے ایک نظیربن جائے گی ۔
 
Last edited by a moderator:
Top