مالا بارمیں اسلام کی اولین آمد کا واقعہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حاکم مالا بار:سامری​
شیخ زین الدین بن عبد العزیز بن زین الدین بن علی بن احمد معبزی مالا باری اپنی کتاب ڃ تحفۃ المجا ہدین فی بعض أخبار البرتگالی ڃ میں جس کی تالیف سے ۹۹۳ھ میں فارغ ہوئے ، مالا بار کے اندر اسلام کی آمد پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کچھ یہودی اور عیسائی اپنے اہل وعیال سمیت مہاراجہ ڃملیبارڃکی جائے قیام قصبہ ڄکدنکلورڃ ۔کرن گنور۔آئے اور مہاراجہ سے زمینیں باغات اور رہائش کیلئے مکانات کی درخواست کی۔اس کی طرف سے عطا کئے جانے کے بعد یہ لوگ اسی قصبے میں بس گئے۔ اس کے کئی سال بعد ایک سن رسیدہ مسلمان کے ہمراہ چند غریب مسلمان ،حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدم مبارک کی زیارت کے ارادے سے اس شہر میں پہنچے۔جب مہاراجہ کو ان مسلمانوں کی آمد کی خبر ہوئی تو انھیں بلوایا ،خاطر مدارات کی اور ان کے حالات معلوم کئے ۔سن رسیدہ شخص نے حضور اکرمﷺ کے حالات،مذہب اسلام اور معجزہ شق القمر کی بابت اسے بتایا ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں حضور ﷺ کی صداقت ونبوت کی بات ڈال دی ، چناں چہ وہ ایمان لے آیا اور اس کا دل حضور اکرم ﷺ کی محبت سے لبریز ہو گیا ۔اس نے سن رسیدہ بزرگ سے کہا کہ قدم مبارک کی زیارت سے فارغ ہو کر اپنے رفقاء سمیت یہاں آئیں ، میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ نکل چلوں گا ۔ نیز اس نے یہ با ت اہل مالا بار کو بتانے سے سختی کے ساتھ منع کردیا ۔اس کے بعد یہ مسلمان ڄسیلون ڃگئے اور قدم مبارک کی زیارت کر کے : کرن گنورڃواپس آئے ۔اس بزرگ شخص سے مہاراجہ نے کہا کہ بغیر کسی کو اطلاع دیے سفر کے لئے کسی کشتی کا انتظام کریں۔کرن گنورکی بندرگاہ پر تاجروں اور دوسرے لوگوں کی بہت سی کشتیاں اور جہاز ہر وقت موجود رہا کرتے تھے ۔ بڑے میاں نے ایک جہاز والے سے بات کی کہ میں اور چند دوسرے فقیر تمہارے جہاز سے سفر کرنا چاہتے ہیں ۔ جہاز کا مالک اس پر تیار ہوگیا۔ سفر کا وقت جب قریب آگیا تو مہاراجہ نے اہل خانہ اور وزیروں سب کو سات روز تک اپنے پاس آنے سے منع کردیا ۔حکومت مالا بار کے تحت ہر شہر کے نظم ونسق کے لئے کسی نہ کسی کو نامزد کر دیا اور سب کے نام سرحدوں کی تعیین کی بابت تفصیلی خط لکھے ۔تا کہ کوئی دوسرے کی سرحد میں داخل نہ ہو۔
یہ واقعہ مالا بار کے ہندوؤں میں بھی بہت مشہور ہے ۔یہ مہاراجہ پو رے مالا بار کا حاکم تھا ۔اس کی سرحد جنوب میں ڃراس کماریڃ اور شمال میں ڃ کانگرکوٹڃ تک تھی ۔ان انتظامات سے فارغ ہوکر رات کے وقت ان مسلمانوں کے ہمراہ کشتی میں سوار ہو کر پنڈ رانی پہنچا ۔وہاں ایک دن اور ایک رات قیام کر نے کے بعد ڃدھرم پٹن ڃ کے لئے روانہ ہوا ۔وہاں تین دن قیام کے بعد براہ سمندر ڃشحر ڃ پہنچا۔ یہاں ایک عرصے تک مقیم رہا ۔ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ ڃمالا بار ڃکا سفر کرنا چاہا۔تاکہ وہاں اسلام کی نشر واشاعت اوت مساجد کی تعمیر کی جائے ۔اسی اثناء میں مہاراجہ شدید بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ اس لئے اس نے اپنے ہمراہ مسلمانوں حضرت شرف بن مالک، ان کے رضاعی بھائی حضرت مالک بن دیناراور بھتیجے مالک بن حبیب کو وصیت کی کہ اس کے انتقال کے بعد وہ ہندوستان کا سفر ملتوی نہ کریں ۔اس پر ان حضرات نے مہاراجہ سے کہا کہ ہمیں نہ تو اس کا شہر معلوم ، نہ ہی حدود ریاست ، ہم نے آپ کی رفاقت کے سبب سفر کا ارادہ کیا تھا ۔ یہ سن کر مہاراجہ نے کچھ دیر تک غور وفکر کیا ۔ پھر مالا باری زبان میں ایک تحریر لکھ کر ان کے حوالے کی ۔اس تحریر میں اپنے اقامتی شہر، اعزہ واقربا ء نیز مالا بار کے مختلف شہروں اور علاقوں کے حکمرانوں کے نام لکھے اور ان مسلمانوں سے کہا کہ کرن گنور، درپٹن ، پنڈ رانی ، یا کویم میں سے کسی ایک شہر میں فروکش ہوں ۔ نیز یہ تاکید کردی کہ میری بیماری اور وفات کی صورت میں موت کی خبر اہل مالا بار سے نہ بتائیں ۔اس کے بعد اس کی وفات ہو گئی ۔رحمۃ اللہ واسعہ۔
اس کے کئی سال بعد شرف بن مالک دینار ،مالک بن حبیب اس کی زوجہ قمریہ نیز کچھ اور مسلمانوں نے اپنے اہل وعیال اور دوسرے معتقدین کو ساتھ لے کر مالابار کا سفر کیا ڃ کرن گنورڃ پہنچ کر قیام کیا اور مذکورہ مہاراجہ کی تحریر وہاں کے موجودہ حکمراں کو دی ۔ تاہم اس کے انتقال کی خبر مخفی ہی رکھی ۔ موجودہ راجہ نے جب خط پڑھا تو متوفی راجہ کی تحریر کے بموجب انھیں زمینیں اور باغات الاٹ کردیے ۔ یہ لوگ یہاں قیام پذیر ہو گئے اور ایک مسجد تعمیر کی ۔مالک بن دینار بھی یہیں بس گئے لیکن ان کے بھتیجے مالک بن حبیب نے مسجد تعمیر کرنے کی خاطر: مالابارڃ میں سکونت اختیار کی ۔ یہاں سے روانہ ہو کر مالک بن حبیب مع بیوی بچے ڃکولم ڃ آئے اور وہاں ایک مسجد تعمیر کی پھر ڃکولم ڃ ہی اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر ڃ ہیلی مارادی ڃ آگئے اور وہاں بھی ایک مسجد بنائی ۔ بعد ازاں ڃ با کنور ڃ جا کر ایک مسجد تعمیر کی ۔اس کے بعد ڃمنگلور ڃ واپس آکر یہاں بھی ایک مسجد بنائی ۔ یہاں سے روانہ ہوکر ڃ ہیلی مارادی ڃ آئے جہاں تین ماہ تک قیام کیا ۔ یہاں سے ڃ چرپٹا نومڃ گئے اور ایک مسجد بنائی پھر ڃ درم پٹن ڃ جاکر ایک مسجد بنائی وہاں سے پنڈ رانی آئے اور وہاں بھی ایک مسجد تعمیر کی پھر ڃچالیامڃ پہنچے اور ایک مسجد تعمیر کی اور یہاں پانچ ماہ مقیم رہے ۔ یہاں سے نکل کر اپنے عم محترم حضرت مالک بن دینارؒ کے پاس آئے ۔ پھر ان تما مساجد کا سفر کیا اور ان سب میں نمازیں ادا کرتے ہوئے ڃکرن گنور ڃ کے لئے واپس آئے ۔ اس کے بعد مالک دنیار اور مالک بن حبیب اپنے ساتھیوں تلامذہ اور غلاموں کے ہمراہ ڃکولم آئے ۔جہاں مالک بن دینار اور ان کے کچھ تلامذہ کو چھوڑ کر باقی سارے لوگ آباد ہو گئے ۔ان حضرات نے ڃ شحر: کا سفر کیا اور متوفی مہا راجہ کی قبر بنے ہوئے قبے کی زیارت کی ۔یہاں سے روانہ ہو کر حضرت مالک بن دینار ڃخراسان ڃ گئے اور وہیں انتقال ہوا ۔اپنے کچھ لڑکوں کو کولم ہی میں چھوڑ کر مالک بن حبیب اپنی بیوی کے ہمراہ :کرن گنور ڃ واپس آئے ۔جہاں ان کی اور ان کی اہلیہ دونوں نے وفات پائی ۔یہ ہے مالا بارمیں اسلام کی اولین آمد کا واقعہ۔(رجال السند والہند )
 
Top