کاہل مر غا

  • موضوع کا آغاز کرنے والا قاسمی
  • تاریخ آغاز
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
[کاہل مر غا
]ایک دن کی بات ہے سورج نکل آیا ،دھوپ پھیل گئی ،دن کا اجالا چارون طرف ہرے بھرے جنگل میں پھیل گیالیکن پرندے اور دوسرے جانوروں کی نیند نہیں کھلی ۔ وہ سوئے رہ گئے کیوں؟ اس لئے کہ کاہل مرغا خود سو گیا تھا۔ صبح سویرے اٹھا نہیں کہ اپنی آواز لگا کر دوسرے جانوروں کو جگا دے۔]مرغے کی جب نیند کھلی اس نے دیکھا کہ سورج نکل آیا ہے۔ بڑا رنجیدہ ہوا اور اپنے آپ کو ملامت کر نے لگا کہ تو نے بڑی دیر کردی ۔اپنے ساتھیوں کو جگایا نہیں کہ وہ صبح سویرے اٹھ کر اپنے کام پر لگ جائیں۔اس کوتا ہی پر تو آج سبھی دوست نا راض ہو جائیں گے ،غلطی تو ہماری ہی ہے ،یہ تو بہت بڑی غلطی ہم سے ہو گئی ۔بلکہ اس سے کتنے لو گوں کا حرج ہوا، ہم نے اپنا فرض ادا نہیں کیا ،ہائے افسوس!گلہری اور بلی کی آنکھ کھلی یہ دونوں یہ دیکھ کر کہ سورج نکل آیا اور دن چڑھ گیا ہے، بہت غصہ ہو ئے گلہری نے غصہ ہو کر مرغے سے کہا! آج کے دن پھلوں کے جمع کر نے میں جو مجھ سے دیر ہوئی ہے۔ اس کا ذمہ دار تم ہو ۔آج سے تیری دوستی ختم ۔بلی ہو لی! اور میں اپنے شکار کیلئے کھیتوں میں نہ جا سکی صرف تیری وجہ سے تم نے اپنے فرض میں کاہلی برتی ہے ۔آج سے تم میرے دوست نہیں رہے۔
مرغا الگ تھلگ غمگین حالت میں نہر کے کنارے بیٹھ گیا، اور جی میں سو چنے لگا میرے سارے دوست مجھ سے دور ہو گئے ،آج کے بعد اب کوئی میرا دوست نہیں رہے گا کیوں؟ اس لئے کہ میں نے اپنے دوستوں کے کام میں حرج کیا یقیناًمجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ لیکن یہ کوتا ہی میں نے جان بوجھ نہیں کی ہے۔ ہائے افسوس اب میں کیا کروں ،اب کیا کروں۔
[نہر کی مچھلی مرغے کی اس بات کو سن رہی تھی اس نے پانی سے اپنا سر اٹھایا اور بولی! اے مرغ غم نہ کر، غم کچھ فائدہ نہ دے گا ، کرنے کا کام اب یہ ہے کہ تم اپنے دوستوں کو یقین دلاؤ کہ تم چست ہو کاہل نہیں ہو اب سستی نہ کرنا ۔ یہاں تک کہ سارے دوست اس غلطی کو بھول جائیں۔
[مرغے کو اب بھوک لگ رہی تھی پریشان ہو کر پھول کے پودے کے پاس گیا ۔اور بولا ا ے پھول کے پودے میں پھوکا ہوں ۔ کچھ دانے مجھے کھانے کیلئے دیدو ! پھول کا پودا غصہ ہو کر بولا !ہر گز نہیں دوں گا اس لئے کہ آج تیری وجہ سے میں پیاسا رہ گیا ۔اے کاہل مرغے صرف تیری سستی سے آج مجھے پانی نصیب نہیں ہوا۔
مرغا غمگین حالت میں درخت کے پاس گیا اور بولا! اے درخت مجھے تم سے بڑی امید ہے کہ تم کچھ پھل میرے کھانے کے لئے گرا دو میں اس وقت بھو کا ہوں، درخت بولا ! اے کاہل مرغے یہاں سے ہٹ جا تم کو میں اپنا پھل دوں گا اس کی امید مجھ سے مت لگانا ۔
مرغا اپنے دوست خر گوش کے پاس گیا اور اس سے کہا ! اے میرے خرگوش دوست کیا تم کو میرے حال کی کچھ خبر ہے ۔کہ مجھ پر کیا گذر رہا ہے سبھی ساتھی مجھ سے ناراض ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم کاہل ہو ،بولو میں کیا کروں ہا ئے میں کیا کروں۔۔۔۔ مرغے کی یہ حالت دیکھ کر خرگوش کو کچھ ترس آیا اور بولا ! اے میرے دوست یہ تو واضح ہے کہ تم خطا وار ہو بے کام کے ہو سبھی دوستوں کے کام میں جو خلل اور حرج ہوا وہ صرف تمہاری وجہ سے ہوا ۔
مر غابولا! میں مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہو ئی میں اس کا اقرار کر تا ہوں کہ میں نے غلطی کی ، خر گوش بولا ! اس کا حل بہت آسان ہے آج کےبعد سے رات دیر تک نہ جاگنا سویرے سو جانا تاکہ صبح سویرے تم آسانی سے اٹھ سکو ،اور جگانے کا اپنا کام اتنی چستی سے کرو کہ ہم سب کو باور کرا دو کہ تم چست ہو کاہل نہیں ہو۔
مرغا بولا میں ایسا ہی کروں گا میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسا ضرور کروں گا ۔لیکن اس وقت میں بھوکا ہوں ، مجھے کھانے کی سخت ضرورت ہے ۔پھول کے پودے نے تو صاف ہی انکار کر دیا کہ چند دانہ ہی دیدے ، درخت نے تو اور ہی بے مروتی کا معاملہ کیا اور پھٹکار دیا ۔ خر گوش بولا!میں کھانے کا انتطام کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ کاہلی اب بالکل چھوڑ دو ورنہ میں بھی تم سے مکر جاؤں گا۔
]خرگوش کچھ کھانے کی چیز لایا اور مرغے کو پیش کیا مرغابہت خوش ہوگیا ،اورخر گوش کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ اس نصیحت پر پابندی سے عمل کر ے گا ،صبح سویر اٹھ جایا کر ے گا اور اپنی آواز لگا کر سب کو جگا دیا کر ے گا مرغا وہ کھانے کی چیزیں لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا اور خوشی سے کہہ رہا تھا ،الحمد للہ الحمد للہ ۔۔۔۔میں کھانا پا گیا۔
راستے میں لو مڑی سامنے آگئی اور بولی! اے مرغے تیری وجہ سے آج مجھے اٹھنے میں دیر ہوئی جسکی وجہ سے آج مجھے کھانا نصیب نہیں ہوا ، مگر آج کے بعد تم نے ایسی کوئی حرکت کی تو پہلے تمھیں کھا جاؤں گی آخر تمھارے رہنے کا کیا فائدہ؟لو مڑی کی اس بات سے مرغا ڈر گیا اور تیزی سے اپنے گھر کی طرف چل دیا۔دن ڈوب گیا، رات آگئی ،ستارے جگمگا اٹھے مرغا اپنے جی میں بولا! فضا خوشگوار ہے ستارے جگمگا رہے ہیں ،رات مجھے بہت پیاری ہے لاؤ کچھ دیر جاگ کر رات کے اس سہانے وقت کا سرور اٹھا لوں پھر سولوں گا ،لیکن پھر اسے کل کی بات یاد آگئی جو رات دیر تک جاگنے سے اسے پیش آئی تھی ،اپنے نفس سے کہا !ہر گز نہیں تم کو سویرے سونا ہے تا کہ صبح سویرے اٹھ کر دوستوں کو جگا سکوں ورنہ کل جو درگت ہوئی تھی اس سے برا حال ہو گا۔
دوسرے دن صبح سویرے مرغا چستی کے ساتھ اپنی نیند سے بیدار ہو ا، اور پوری چستی سے اپنی جگہ سے اچھلا اور لگا بولنے ۔کوکورکوں! تمام دوست مرغے کی پکار سن کر جاگ اٹھے اور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔اس دن تمام دوست مرغے سے مل گئے ایک ساتھ کھاتے ایک ساتھ کھیلتے اور مرغ کا حال یہ ہو گیا کہ اس دن سے رات میں کبھی نہیں جاگا ،عادت اس نے اپنی جلدی سونے کی بنالی تاکہ سویرے اٹھ کر ساتھیوں کو جگا سکے ۔ چنانچہ روز یہی کرتا کہ صبح سویرے ساتھیوں کو جگا دیتا ،سب دوست اپنے اپنے کام پر لگ جاتے۔
 
Top