ذہنی کنکر

دیوان

وفقہ اللہ
رکن
کبھی تو آپ کو بھی یہ تجربہ ہوا ہو گا کہ جوتے میں ایک کنکر گھس گیا جو بعض اوقات چاول کے دانے سے بڑا نہیں ہوتا لیکن آپ کے لیے دو قدم چلنا دشوار کر دیتا ہے۔ آپ کی فوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس سے نجات حاصل کی جائے۔ آپ فورا رک جاتے ہیں۔ ماحول سے بے پرواہ جوتا پیر سے نکالتے ہیں اس کنکر کو جھاڑ دیتے ہیں۔ آپ نے غور کیا کہ جوتا اتارنا، کنکر جھاڑنا بلکہ بعض اوقات موزہ اتار کر اس کنکر سے جان چھڑانا یہ سب کچھ اس طور سے ہوتا کہ اس میں آپ کا اپنا اختیار کم و بیش غیرموجود ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس معمولی کنکر نے آپ کو پریشان کرڈالا ہے اور آپ کے لیے چلنا پھرنا دشوار کردیا ہے۔

یہ کنکر تو ہم نکال دیتے ہیں لیکن کئی کنکر ایسے ہیں جو ہماری زندگیوں میں گھسے ہوتے ہیں اور جس طرح جوتے میں گھسا ہوا کنکر ہمارے قدم روک لیتا ہے اسی طرح ہمارے اندر گھسے ہوئے کنکر بلکہ کنکروں کی وجہ سے ہمیں زندگی کے سفر میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہے لیکن شاید ہی کوئی شخص اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ان کنکروں سے جان چھڑائے اور اپنی زندگی کو پرسکون بنائے۔ عمر گزر جاتی ہے لیکن یہ ذہنی کنکر انسان اپنی جان کے ساتھ لگائے رہتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کی زندگی کی تلخیاں، اس میں پڑی ہوئی الجھنیں جو ان کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہیں یہ اصل میں ان روحانی کنکروں کے لگائے ہوئے زخم ہیں۔

یہ کنکر کیا ہیں؟ یہ روحانی امراض ہیں۔ جن کی جڑیں ہمارے نفس کے اندر ہیں۔ حسد کو لے لیجیے بلاوجہ کی چیز لیکن جس سے حسد وہ چاہے سامنے نہ ہو لیکن انسان کو بے چین کر رہا ہے ۔ وہی جوتے میں گھسے ہوئے کنکر کی طرح۔ کبر کو لیجیے کسی کے پاس اپنے سے بہتر چیز دیکھ لی تو ہو گئی پریشانی شروع۔ اپنی نظروں سے خود کو گرا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے ایسا انسان۔ ذات کا یہ کنکر بے چین کیے دے رہتا ہے اس کو۔

ان کنکروں کواپنی ذات سے نکالے بغیر ہماری زندگی ظاہر میں کتنی ہی خوشگوار ہوجائے لیکن وہ پرسکون نہیں ہوسکتی اسی طرح جس طرح مہنگے سے مہنگا خریدا ہوا جوتا اندر موجود کنکر کی وجہ سے ہم کو راحت پہنچانے کی بجائے اور بے چین کر ڈالتا ہے۔ اور چین اسی وقت ملتا ہے جب وہ کنکر نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپنی ذات میں چھپے ہوئے کنکر جب تک چن چن کر نکال نہیں دیے جائیں گے سکون و عافیت ایک خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ بلکہ خواب تو بعض اوقات سچے ثابت ہوتے ہیں لیکن زندگی کو خوشگوار بنانے کا خواب کبھی سچا ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اپنی ذات میں ڈوب کر اس میں پوشیدہ کنکر جھاڑ نہ دیے جائیں چاہے آپ دولت کے انبار جمع کرلیں۔ اتنے بڑے انبار کہ ان کی چوٹی آسمانوں کو چھو لے۔
قد افلح من تزکی (الاعلی: 14)
یقینا فلاح پاگیا جس نے تزکیہ کیا
میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کیا ہی صوفیانہ اور حقائق پر مبنی کلام ہے۔جزاک اللہ ۔اہل اللہ کی یہی تو تعلیم ہے۔ع: اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغِ زندگی۔
 

ارشاد احمد غازی

وفقہ اللہ
رکن
واللہ بھت خوب لکھامگرمضمون نگارکانام نہیں ہے تومزہ ادھوراہے
کبھی تو آپ کو بھی یہ تجربہ ہوا ہو گا کہ جوتے میں ایک کنکر گھس گیا جو بعض اوقات چاول کے دانے سے بڑا نہیں ہوتا لیکن آپ کے لیے دو قدم چلنا دشوار کر دیتا ہے۔ آپ کی فوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس سے نجات حاصل کی جائے۔ آپ فورا رک جاتے ہیں۔ ماحول سے بے پرواہ جوتا پیر سے نکالتے ہیں اس کنکر کو جھاڑ دیتے ہیں۔ آپ نے غور کیا کہ جوتا اتارنا، کنکر جھاڑنا بلکہ بعض اوقات موزہ اتار کر اس کنکر سے جان چھڑانا یہ سب کچھ اس طور سے ہوتا کہ اس میں آپ کا اپنا اختیار کم و بیش غیرموجود ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس معمولی کنکر نے آپ کو پریشان کرڈالا ہے اور آپ کے لیے چلنا پھرنا دشوار کردیا ہے۔

یہ کنکر تو ہم نکال دیتے ہیں لیکن کئی کنکر ایسے ہیں جو ہماری زندگیوں میں گھسے ہوتے ہیں اور جس طرح جوتے میں گھسا ہوا کنکر ہمارے قدم روک لیتا ہے اسی طرح ہمارے اندر گھسے ہوئے کنکر بلکہ کنکروں کی وجہ سے ہمیں زندگی کے سفر میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہے لیکن شاید ہی کوئی شخص اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ان کنکروں سے جان چھڑائے اور اپنی زندگی کو پرسکون بنائے۔ عمر گزر جاتی ہے لیکن یہ ذہنی کنکر انسان اپنی جان کے ساتھ لگائے رہتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کی زندگی کی تلخیاں، اس میں پڑی ہوئی الجھنیں جو ان کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہیں یہ اصل میں ان روحانی کنکروں کے لگائے ہوئے زخم ہیں۔

یہ کنکر کیا ہیں؟ یہ روحانی امراض ہیں۔ جن کی جڑیں ہمارے نفس کے اندر ہیں۔ حسد کو لے لیجیے بلاوجہ کی چیز لیکن جس سے حسد وہ چاہے سامنے نہ ہو لیکن انسان کو بے چین کر رہا ہے ۔ وہی جوتے میں گھسے ہوئے کنکر کی طرح۔ کبر کو لیجیے کسی کے پاس اپنے سے بہتر چیز دیکھ لی تو ہو گئی پریشانی شروع۔ اپنی نظروں سے خود کو گرا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے ایسا انسان۔ ذات کا یہ کنکر بے چین کیے دے رہتا ہے اس کو۔

ان کنکروں کواپنی ذات سے نکالے بغیر ہماری زندگی ظاہر میں کتنی ہی خوشگوار ہوجائے لیکن وہ پرسکون نہیں ہوسکتی اسی طرح جس طرح مہنگے سے مہنگا خریدا ہوا جوتا اندر موجود کنکر کی وجہ سے ہم کو راحت پہنچانے کی بجائے اور بے چین کر ڈالتا ہے۔ اور چین اسی وقت ملتا ہے جب وہ کنکر نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپنی ذات میں چھپے ہوئے کنکر جب تک چن چن کر نکال نہیں دیے جائیں گے سکون و عافیت ایک خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ بلکہ خواب تو بعض اوقات سچے ثابت ہوتے ہیں لیکن زندگی کو خوشگوار بنانے کا خواب کبھی سچا ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اپنی ذات میں ڈوب کر اس میں پوشیدہ کنکر جھاڑ نہ دیے جائیں چاہے آپ دولت کے انبار جمع کرلیں۔ اتنے بڑے انبار کہ ان کی چوٹی آسمانوں کو چھو لے۔
قد افلح من تزکی (الاعلی: 14)
یقینا فلاح پاگیا جس نے تزکیہ کیا
میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
جزا ک اللہ واقعی ماحول سے بے پرواہ ہو کر جوتا ہاتھ میں لے لیتا ہے آدمی بہت شاندار
 
Top