مخالفت حدیث اور ائمہ ۔ رحمھم اللہ

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
اصول اور تاریخ کی کتب میں ائمہ کے بعض اقوال ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا بظاہر مفہوم غلط ہوتا ہے ۔ اور بدگمانی کی جائے تو بہت کی جاسکتی ہے ۔لیکن یہ درست منہج نہیں ہے ۔ بلکہ ائمہ کے اقوال کی توجیہ کرنی چاہیے ۔ جیسا کہ اس موضوع پہ ایک پہلے تھریڈ میں بھی کچھ ملتی جلتی گفتگو ہوئی ہے ۔

http://algazali.org/index.php?threads/امام-ابوالحسن-کرخی-کا-اصول-اورغلط-فہمیوں-کا-جواب.9135/امام کرخیؒ کا اصول اور غلط فہمی

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی کتاب رفع الملام اس موضوع پر بہت اچھی ہے ۔

جس میں ائمہ سے حسن ظن رکھنے کے بارے میں مفید معلومات ہیں ۔


ایک بڑے امام ۔ امام شافعیؒ جو کہ ناصر السنۃ کے لقب سے بھی معروف ہیں ان کی ایک عبارت جس کا بظاہر مفہوم صحیح نہیں ہے ۔


إِبْرَاهِيْمُ بنُ مَتُّوَيْه الأَصْبَهَانِيُّ: سَمِعْتُ يُوْنُسَ بنَ عَبْدِ الأَعْلَى يَقُوْلُ:

قَالَ الشَّافِعِيُّ: كُلُّ حَدِيْثٍ جَاءَ مِنَ العِرَاقِ، وَلَيْسَ لَهُ أَصْلٌ فِي الحِجَازِ، فَلاَ تَقْبَلْهُ،

وَإِنْ كَانَ صَحِيحاً، مَا أُرِيْدُ إِلاَّ نَصِيْحَتَكَ .

(سیر اعلام النبلا۔ ترجمہ امام شافعیؒ)

یعنی ۔۔جو حدیث بھی عراق سے آئے گی اگر اس کی اصل حجاز میں نہ ہوئی تو اس کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ چاہے وہ صحیح بھی ہو۔

اس جملہ میں جو سختی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔

امام بیہقیؒ نے ((معرفة السنن)) میں ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ یہ قول نقل کیا ہے

مَا أَتَاكَ مِنْ هَاهُنَا - وَأَشَارَ إِلَى الْعِرَاقِ - لَا يَكُونُ لَهُ هَاهُنَا أَصْلٌ - وَأَشَارَ إِلَى الْحِجَازِ أَوْ إِلَى الْمَدِينَةِ - فَلَا تَعْتَدَّ بِهِ.

اور مَنْ تَوَقَّى رِوَايَةَ أَهْلِ الْعِرَاقِ، وَمَنْ قَبِلَهَا مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ مِنْهُمْ وَرَجَّحَ رِوَايَةَ أَهْلِ الْحِجَازِ


کے باب میں نقل کیا ہے ۔

یعنی ان کے نزدیک امام شافعی کا قول اہل حجاز کی ترجیح کے لئے ہے ۔

اور کچھ توجیہ اور وجہ اوربھی پیش کی ہے

وَإِنَّمَا رَغِبَ بَعْضُ السَّلَفِ عَنْ رِوَايَةِ أَهْلِ الْعِرَاقِ لِمَا ظَهَرَ مِنَ الْمَنَاكِيرِ وَالتَّدْلِيسِ فِي رِوَايَاتِ بَعْضِهِمْ،

کچھ اور بھی باتیں فرمائی ہیں ۔(معرفۃ 1۔150)

بحرحال یہ توجیہ و تشریح امام بیہقیؒ کی ہے ۔ امام شافعیؒ کی نہیں ۔

امام بیہقیؒ امام شافعیؒ کی کتب اور مسلک کے سب سے بڑے شناسا اور مددگار ہیں ۔ اس لئے ان کی توجیہہ

قابل اہمیت ہے ۔

اگرچہ اس جملہ (حجاز کی روایت کو ترجیح ہوگی)سے اختلاف کے ساتھ کہ یہ اُن کا مسلک ہے ۔

سیر اعلام النبلا کے محقق امام شافعیؒ کی طرف سے صفائی دیتے ہوئے ان کی دوسری روایت بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی ؒ نے بعد کو رجوع کر لیا تھا۔

اور امام احمد ؒ سے فرمایا تھا کہ آپ ہم سے زیادہ صحیح حدیث کو جانتے ہیں ۔ اگر کوئی خبر صحیح ہو تو ہمارے علم میں لائیں تاکہ ہم اسے اختیار کریں ۔ چاہے کوفی سے ہو شامی سے یا بصری سے ۔

عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُوْلُ: قَالَ الشَّافِعِيُّ: أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِالأَخْبَارِ الصِّحَاحِ مِنَّا، فَإِذَا كَانَ خَبَرٌ صَحِيْحٌ، فَأَعلِمْنِي حَتَّى أَذْهَبَ إِلَيْهِ، كُوفِيّاً كَانَ، أَوْ بَصْرِيّاً، أَوْ شَامِيّاً (3)

__________

(3) وهذا النص يؤكد أن الشافعي رضي الله عنه رجع عن رفضه لحديث العراقيين.


بظاہر اس میں حجاز کا ذکر نہیں ہے ۔

پہلی عبارت کا جملہ۔ اہل حجاز میں اس کی اصل ہونی چاہیے ۔وہیں پر موجود ہے ۔

اور یوں بد گمانی کی جاسکتی ہے ۔

لیکن ہمیں حسن ظن رکھتے ہوئے یہی سمجھنا چاہیے کہ امام شافعی ؒ نے رجوع کر لیا ہوگا ۔ اور ان سے امید بھی یہی ہے ۔

امام شافعیؒ کی عبارت کے فوراََ بعد حافظ ذہبیؒ بھی یہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے رجوع کر لیا تھا۔

قُلْتُ: ثُمَّ إِنَّ الشَّافِعِيَّ رَجَعَ عَنْ هَذَا، وَصَحَّحَ مَا ثَبَتَ إِسْنَادُهُ لَهُمْ.


لیکن بحرحال دین کے اکثر مسائل میں اتفاق ہونے کے ساتھ ساتھ جن چند فروعی مسائل میں احادیث ہی کی وجہ سے اختلاف ہوا ہے ۔

اس میں اس علاقے میں جو رائج عمل ہوتا ہے اور اس کی بناء حدیث ہی پر ہوتی ہے ۔

اگر اس عمل کے خلاف دوسرے علاقے کی صحیح احادیث سامنے بھی آجائیں تو وہاں کے کئی ائمہ ان پر عمل نہیں کر تے ۔

اس میں ایک طریقہ تو جوناپسندیدہ ہے جس میں وہاں کے ائمہ مخالف احادیث کو معلول قراردیتے ہیں۔

دوسرا طریقہ بہتر اور صحیح یہ ہے کہ دوسرے کو غلط کہے بغیر اپنے عمل کو راجح اور پسندیدہ قرار دیا جائے۔
واللہ اعلم۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دوسرا طریقہ بہتر اور صحیح یہ ہے کہ دوسرے کو غلط کہے بغیر اپنے عمل کو راجح اور پسندیدہ قرار دیا جائے۔
بڑی اچھی بات کہی۔کاش !ایسا ہو جائے۔
 

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
اصول اور تاریخ کی کتب میں ائمہ کے بعض اقوال ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا بظاہر مفہوم غلط ہوتا ہے ۔ اور بدگمانی کی جائے تو بہت کی جاسکتی ہے ۔لیکن یہ درست منہج نہیں ہے ۔ بلکہ ائمہ کے اقوال کی توجیہ کرنی چاہیے ۔
بھائی صاحب باقی مضمون اچھا ہے۔لیکن حدیث معلل کے بار ے میں آپکی رائے سے مجھے اختلاف ہے اور یوں لگتا ہے جیسے آپ کو حدیث معلل کا مطلب معلوم نہیں۔ البتہ آئمہ نے ایک دوسرے پر بہت جرح کی ہے اور اس جرح سے بچنے کے لیے ایک ہی اصول ہے وہ یہ کی حنفی عالم کے حالات کسی حنفی عالم سے لینے چاہیں نہ کہ کسی شافعی حنبلی یا مالکی سے اور اسی طرح باقی علماء کے آراء انکے مسالک کے علماء کے بارے میں ہی لینی چایہں
حدیث معلل کے لیے یہ مضمون پڑھیں
معلل:۔
معلل اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی ایسی علت کا پتہ چلے جس سے حدیث میں قدح وار ہوجاتی ہو۔حدیث کی علت معلوم کرنے کے لئے وسعت علم وقت حافظہ فہم دقیق کی ضرورت ہے اس لئے کہ علت ایک پوشیدہ چیز ہے جس کا پتہ بسا اوقات علوم حدیث میں مہارت رکھنے والوں کو بھی نہیں چلتا۔

یہ حدیث کے نہایت دقیق اور مشکل علوم میں سے ہے علت کی پہچان میں صرف وہی شخص ماہر ہوسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے روشن دماغی قوت حافظہ ،مراتب وروات کی پہچان اور اسانید ومتون میں نہایت تامہ (مکمل ) سے نوازا ہو ۔

عبدالرحمان بن مھدی بن حسان ابو سعد بصری بہت بڑے حافظ حدیث تھے امام احمد بن حنبل ان کے بارے میں فرماتے ہیں "وہ یحی القطان سے بڑے فقیہ اور وکیہ سے زیادہ ثقہ راوی تھے ۔(تذکرۃ الحفاظ جلد ۱ ص۳۲۹)
عبدالرحمان بن مہدی فرماتے ہیں حدیث کی پہچان ایک الہام ہے اگر تم کسی علل حدیث کے عالم سے کہو کہ فلاں علت کی کیا دلیل ہے تو وہ اسکا کچھ جواب نہیں دے سکے گا ۔(معرفۃ علوم الحدیث،ص۱۱۳)

عبدالرحمان بن مہدی سے کہا گیا آپ کسی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور کسی کو ضعیف اس کی کیا دلیل ہے فرمایا اگر تم کسی صراف کو اپنی درہم دکھاؤ اور وہ کہے کہ یہ کھرے ہیں اور وہ کھوٹے ہیں تو آیا تم اسکی بات تسلیم کرو گے یا اسکی دلیل طلب کرو گے اس سوال کرنے والے نےکہا! میں اس کی بات مان لوں گا عبدالرحمان نے فرمایا تو حدیث کا معاملہ بھی اسی طرز کا ہے کیونکہ اس میں طویل محنت مناظرہ اور مہارت کی ضرورت ہے .(التدریب س۸۹)

اسی لئے خطیب بغدادی نے فرمایا
'' علم حدیث کے طالب کو صراف کی طرح کھوٹے اور کھرے میں تمیز کرنے والا ہونا چاہئیےجس طرح درہم کھوٹے بھی ہوتے ہیں اور کھرے بھی حدیث کی بھی یہی حالت ہے (الجامع جلد ۹ ص ۱۷۷)

معلل حدیث کی پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ حدیث کے تمام طرق واسانید کو جمع کرکے راویوں کے اختلاف اور ضبط کو دیکھا جائے ۔

محدث علی بن المدینی فرماتے ہیں:جب تک کسی حدیث کے طرق واسانید ایک جگہ نہ ہوں تو اس کی غلطی کا پتہ نہیں چلتا ۔

معرفۃ علوم الحدیث میں علل کی دس قسمیں بیان کی گئ ہیں اور پھر ہر قسم کی مثال دے کر اسے واضح کیا گیا ہے یاد رہے کہ علل حدیث ان دس قسموں میں محدود نہیں ہے ہم حدیث نبوی میں قدح وارد کرنے والے ان پوشیدہ اسباب کی توضیح کے لئے چند اہم مثالیں بیان کریں گے ۔

۱) مثلاً، یہ کہ ایک حدیث ایک خاص صحابی کی روایت سے صحیح اور محفوظ ہو پھر یہ ہی حدیث ایک اور راوی سے روایت کی جائے جس کی جائے سکونت یعنی جہاں وہ رہتا ہے وہ جگہ پہلے راوی یا رواۃ سے مختلف ہو تو یہ حدیث معلول ہوگی۔مثال کے طور پر موسی بن عقبہ کی ابو اسحاق سے روایت وہ ابو بردہ سے روایت کرتے ہں۔اور ابوبردہ مرفوعاً اپنے والد سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''میں دن میں سو مرتبہ اپنے رب سے معافی مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں"

مذکورہ بالا روایت کو دیکھنے والا پہلی نظر میں یہ سمجھے گا کہ یہ بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق ہے مگر اس کی سند میں ایک مدنی راوی کوفی سے روایت کرتا ہے اور یہ بات مشہور ہے کہ مدینہ کے رہنے والےجب اہل کوفہ سے روایت کرتے ہیں تووہ غلطی کرجاتے ہیں۔ (عرفۃ علوم الحدیث ص۱۱۵)

۲) معلول کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ایک شخص سے اس کے استاد کے نام میں اختلاف کیا جائے یا اس کو مجہول (بلا نام) ذکر کیا جائے مثلاً ، ابوشہاب سفیان ثوری سے روایت کرتے ہیں وہ حجاج سے وہ یحیی بن ابی کثیر سے وہ ابو سلمہ سے اور ابو سلمہ ابوہریرہ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن بھولا بھالا اور سخی ہوتا ہے اور کافر مکار اور کنجوس ہوتا ہے ۔

محدث حاکم کہتے ہیں کہ مذکورہ صدرروایت میں علت اس وقت پیدا ہوتی جب سند یوں بیان کی جائے۔

ابن کثیر نے کہا میرے پاس سفیان ثوری نے حجاج سے سن کر بیان کیا اور حجاج نے ایک شخص سے روایت کیا اور اس نے ابو سلمہ سے ۔

۳) حدیث معلوم کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص جس سے روایت کرتا ہواس سے ملا ہو اور اس سے حدیث بھی سنیں ہوں۔ مگر خاص زیر بحث احادیث کا سماع اس سے ثابت نہ ہو جب ایسی احادیث اس شخص سے بلاواسطہ روایت کرے گا تو ان میں علت یہ ہوگی کہ ان احادیث کا سماع اس سے ثابت نہیں ہے مثلاً، یحیی بن ابی کثیر کی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ روایت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے گھر روزہ افطار کرتے تو فرماتے۔

''روزہ داروں نے تمہارے یہاں روزہ افطار کیا ''
امام حاکم رحمہ اللہ تعالٰی مذکورہ صدرحدیث پر تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔متعدد طرق سے یہ امر ہمارے یہاں ثابت ہوچکا ہے کہ یحیی بن ابی کثیر رحمہ اللہ تعالٰی کی روایت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے درست ہے مگر یحیی نے مذکورہ صدرحدیث انس سے نہیں سنی پھر حاکم نے سنداً یحیی سے ذکر کیا کہ مجھ سے یہ حدیث کسی نے انس سے بن کر بتائ ہے ۔

۴) حدیث معلول کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حدیث کی سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی مگر اس میں کوئ ایسا راوی ہوتا ہے جس کا اپنے شیخ سے سماع نہ ہو مثلاً، موسی بن عقبہ سہل بن ابی صالح سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا جہاں بہت شورہ غل ہو اور مجلس برخاست کرنے سے پہلے یہ کلمات کہے ۔

سبحانک اللھم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک ۔تو اس سے جو گناہ اس مجلس میں ہوئے تھے وہ معاف کردئیے جاتے ہیں ۔

اسی مجلس کاقصہ ہے کہ کسی نے یہ حدیث مع سند پڑھی حجاج بن محمد عن بن جریج عن موسٰی بن عقبۃ عن سھیل بن ابی صالح عن ابیہ عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کفارۃ المجلس اذا قامہ العبد ان یقول سبحانک اللھم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔ سنکر امام مسلم بولے کہ اس حدیث کی اس سے اونچی سند ساری دنیا میں نہیں ہے امام بخاری رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ٹھیک ہے مگر اسکی سند معلول ہے یہ سن کر امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی حیرت میں رہے گئے اور فرمانے لگے کہ علت سے آگاھی فرمائے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کے رہنے دیجئے جس پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے آپ کو اس پر پردہ ہی ڈالنا چاہئے مگر امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی نے اصرار فرمایا اچھا سنو غیر معلول سلسلہ سند یوں ہی حدثنا موسے بن اسماعیل حدثنا موسٰے بن عقبۃ عن عون بن عبداللہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفارۃ المجلس (الحدیث)

حدیث کی علت کے سلسلہ میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالٰی نے بتلایا کہ موسٰی بن عقبہ کی کوئی حدیث سہیل سے مرفوع نہیں ہے۔ پھر اس کے لئے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالٰی نے ثبوت پیش فرمایا جسے بس حاضریں مجلس علمائے حدیث نے تسلیم کیا (فتح الباری)۔۔

۵) حدیث کے طالب پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ جب وہ یہ عبارت دیکھے کہ ''یہ حدیث فلاں وجہ سے معلول ہے '' تو جلدی سے یہ فیصلہ صادر نہ کرے کہ اس میں کوئ اصطلاح علت قادحہ پائ جاتی ہے اس لئے کہ بعض علماء علت کا اطلاق اصطلاحی معنی ومفہوم کے علاوہ دوسرے معنی پر بھی کرتے ہیں ان کی نطر میں علت ایک پوشیدہ عیب ہے جو ضعیف حافظہ یا دروغ گوئ کہ برابر نہیں ہوتی بلکہ وہ علت سے حدیث کا ظاہری نقص وعیب مراد لیتے ہیں جس سے حدیث کی صحت پر کوئ اثر نہیں پڑتا یہ امر واضح ہے کہ ضعیف حدیث کہ کسی ظاہری سبب کی بناء پر حدیث کو معلول قرار نہیں دے سکتے ۔ اس لئے کہ علت غامض اورپوشیدہ عیب کا نام ہے جیساکہ ہم مثالوں سے واضح کرچکے ہیں (التوضح جلد۲ ص۲۷)

ان تمام وجوہات میں سے اگر کوئ بھی وجہ کسی حدیث میں نہ تو وہ صحیح حدیث کہلائے گی ۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
محترم بھائی ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں کوئی عالم نہیں ہوں ۔ اس لئے مجھ سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں ۔
آپ نے ایک پورا مضمون نقل کر دیا ہے ۔ جزاک اللہ ۔
لیکن جہاں تک میں نے دیکھا ہے ۔ یہ اصول زیادہ تر شوافع کے ہیں ۔ حافظ حاکمؒ کی تو پوری کتاب ہی تعلیق کی محتاج ہے ۔
خصوصاََ حنفی نقطہ نظر سے ۔
مجھے علم علل حدیث سے انکار نہیں ہے ۔ لیکن اس کے مقرر اصول کوئی نہیں ہیں ۔ یہ محدثین کا اجتہاد ہوتا ہے ۔
اور اس میں بھی مذاہب کے اختلاف کی وجہ سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں ۔
اور علل کا لفظ تو ضعف کو بھی مستلزم نہیں ہے ۔
بہرحال یہ لمبا موضوع ہے ۔
میں نے اس جگہہ پر معلول کا لفظ صحیح نہیں بولا ۔ اس لئے آپ کا ذہن علم علل حدیث کی طرف چلا گیا ۔
اصل میں میرے لاشعور میں تھا کہ میں جس پر تنقید کر رہا ہوں اس کے لئے سخت لفظ نہ ہو تو اس لئے معلول بول دیا ۔
اور میری مراد ان احادیث سے نہیں جن میں کوئی پوشیدہ علت ہو ۔
بلکہ مراد یہ تھا کہ جس میں احادیث واضح متعارض ہوں ۔۔(مثلاََ اختلافی ۔فروعی ۔ مسائل)
اب چونکہ بات واضح نہیں ہوئی ۔ اس لئے مجبوراََ واضح لفظ میں کہتا ہوں کہ ۔۔۔
’’ایک طریقہ تو جوناپسندیدہ ہے جس میں وہاں کے (بعض)محدثین مخالف روایات کو’’شہید‘‘ ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘‘
 

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
بھائی صاحب میں نے 30 سے زائد کتب کا لنک پوسٹ کیا ہے۔ اسلامی کتب خانے میں اپ وہ لنک دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے متعارض مسائل میں تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے۔ اور چند باتیں عرض کرتا ہوں۔
امام بخاری اور ابن حبان اپنی کتاب میں مسئلہ قرات خلف الاامام میں بہت متشدد نظر آتے ہیں اور کسی دوسری مخالف حدیث کو نہیں بیان کرتے۔
باقی صحاح میں امام ترمذی کے علاوہ جہری نمازوں میں قرات کے قائل نہیں اور سری میں قائل ہیں۔جیسا کہ امام احمد کا مسلک ہے۔
اور مجھے ان کتب کے مطالعے سے ایک بات سامنے آئی اگر میں غلط ہوں تو کوئی میری تصحیح کر دے
پہلے صحابہ کا دور تھا ان کے دور میں مختلف فقہاء صحابہ کا فتوی چلتا تھا۔ پھر تابعین کا دور آیا اس میں مختلف فقہاء تابعین کا فتوی چلتا تھا۔ پھر جب فتوی جات میں اختلاف بڑھنے لگا تو آئمہ کرام آئے اور کچھ خاص طرق پر مذاہب مدون کروا دیے۔ پھر محدثین کا دور آیا جنہوں نے دیکھا کہ یہ نہ ہو کہ صرف فقہ رہ جائے اور اصل حدیث جس سے استنباط کیا گیا وہ ضائع نہ ہو جائیں تو انہوں نے احادیث کو لکھنے کا بیڑا اٹھایا۔ البتہ چونکہ احادیث کے کثیر مطالعہ سے عمل بالحدیث کا شوق غالب ہو جاتا ہے نہ کہ فقہ کا۔ تو اس وجہ سے اصحاب ستہ کے مذاہب میں اختلاف ہوا۔یعنی کے وہ کس امام کے مقلد تھے۔ زیادہ تر یوں ہئ معلوم ہوتا یے کہ وہ خود مجتہد تھے۔بعد میں جب احادیث مدون ہو گئیں تو ہر کس ناکس کے مجتہد ہو جانے کا خوف لاحق ہوگیا تو کبار علماء نے مذاہب اربعہ پر اجماع کر لیا
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
امام بخاری اور ابن حبان اپنی کتاب میں مسئلہ قرات خلف الاامام میں بہت متشدد نظر آتے ہیں اور کسی دوسری مخالف حدیث کو نہیں بیان کرتے۔
باقی صحاح میں امام ترمذی کے علاوہ جہری نمازوں میں قرات کے قائل نہیں اور سری میں قائل ہیں۔جیسا کہ امام احمد کا مسلک ہے۔
یہ تو ایک مثال ہے ۔ ورنہ خلافیات کے موضوع پر آپ جانتے ہی ہیں کہ پوری کتب موجود ہیں ۔

اصل میں اس معاملے میں بھی ایک اختلافی بات ہے کہ ۔ بعض ائمہ کے نزدیک دین میں اختلاف ہے ہی نہیں ۔ اور دو متعارض یا مختلف میں سے ایک صحیح اور ایک غلط ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ تشدد کا مظاہرہ کردیتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں انہوں نے اختلاف کو افتراق کے معنی میں لے لیا ہے ۔

آپ امام محمدؒ نے جو موطا امام مالکؒ کو روایت کیا ہے تو اس میں ان کا طرز دیکھیں تو وہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ فروعی اختلاف کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور ترجیح کے یا ۔زیادہ پسندیدہ ہونے کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔
اور امام مالکؒ کا بھی طرز یوں ہی ہے ۔ اسی لئے انہوں نے اپنی کتاب موطا کو حکومتی طور پر نافذ ہونے سے انکار کیا ۔

لیکن وہ دوسرے نظریہ کے حامل بعض محدثین ۔ چونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ دین میں مسئلہ ایک ہی ہے ۔اس لئے ان کے سامنے صحیح حدیث بھی آجائے تو وہ چونکہ ان کے علاقے میں رائج عمل (وہ بھی حدیث پر ہی مشتمل ہوتا ہے ) کے خلاف ہوتو پھر وہ ۔۔۔علت ڈھونڈنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ اور اکثر جگہہ احادیث کو ضعیف کہنے کے لئے سوائے تدلیس ، ارسال کے کوئی علت نہیں ملتی ۔یا راویوں پر جرح کر کے(اس میں پھر اختلاف ہوجاتا ہے )
پہلے صحابہ کا دور تھا ان کے دور میں مختلف فقہاء صحابہ کا فتوی چلتا تھا۔ پھر تابعین کا دور آیا اس میں مختلف فقہاء تابعین کا فتوی چلتا تھا۔ پھر جب فتوی جات میں اختلاف بڑھنے لگا تو آئمہ کرام آئے اور کچھ خاص طرق پر مذاہب مدون کروا دیے۔

۔ یہ تعبیر تدوین قرآن کے لئے بہتر ہے ۔

جس میں ایک مرحلہ میں قرآن مجید کی حفاظت کے لئے ۔اور پھر بعد میں قراات کا اختلاف ہوا توفتنہ پھیلنے کے ڈر سے ایک نسخہ پر جمع کیا گیا ۔

میرے خیال میں تدوین حدیث یا فقہ ۔۔ کے لئے زیادہ بہتر تعبیر یہ ہے کہ ۔۔وہ احادیث و مسائل جو زیادہ تر حفظ اور مذاکرے میں رہتے تھے ۔ان کو محفوظ کر لیا جائے ۔ ورنہ تو تدوین حدیث میں متعارض احادیث اور تدوین فقہ میں اختلافی مسائل و فتاویٰ بھی تو موجود ہوتے ہیں ۔(اگرچہ یہ حصہ اصل دین یعنی اتفاقی مسائل کے بہت تھوڑا ہوتا ہے )
پھر محدثین کا دور آیا جنہوں نے دیکھا کہ یہ نہ ہو کہ صرف فقہ رہ جائے اور اصل حدیث جس سے استنباط کیا گیا وہ ضائع نہ ہو جائیں تو انہوں نے احادیث کو لکھنے کا بیڑا اٹھایا۔
’’پھر محدثین کا دور آیا‘‘ سے مراد آپ کی یقیناََ اصحاب صحاح ستہ سے ہے ۔ جیسا کہ آپ انہی کا ذکرکر رہے ہیں ۔
آپ کے ظاہری الفاظ سے لگ رہا ہے کہ صحابہؓ سے لے کر مذاہب کی تدوین تک صرف فقہ ، فتاویٰ کا دور ہے ۔ جو کہ ظاہر ہے آپ کی مراد یقیناََ نہیں ہوگی ۔
ظاہر ہے کہ محدثین اور فقہاء دونوں ہی شروع سے رہے ہیں ۔صحابہؓ کے دور سے ۔

اور تدوین حدیث کا عمل بھی شروع سے ہی شروع ہوگیا تھا ۔ اور یہ ایک مہم کے طور پر حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کے حکم کے بعد شروع ہوا تھا ۔یہ دوسری صدی کے شروع میں ہوا ۔

اور دوسری صدی کے نصف میں تدوین فقہ کا کام امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰ھ) نے کیا
بلکہ اسی دور میں بقول امام ذہبیؒ تدوین حدیث و فقہ کے ساتھ ، تدوین تفسیر ، مغازی کا کام ہوا ۔بلکہ لغت اور تاریخ بھی۔

امام ذہبی ؒ ۔تاریخ اسلام ۹۔۱۳ میں ۔سنۃ ۱۴۳ھ کے ضمن میں فرماتے ہیں ۔

وَفِي هَذَا الْعَصْرِ شَرَعَ عُلَمَاءُ الإِسْلامِ فِي تَدْوِينِالْحَدِيثِوَالْفِقْهِوَالتَّفْسِيرِ،
فَصَنَّفَ ابْنُ جُرَيْجٍ التَّصَانِيفَ بِمَكَّةَ، وَصَنَّفَ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَغَيْرُهُمَا بِالْبَصْرَةِ، وَصَنَّفَ الأَوْزَاعِيُّ بِالشَّامِ، وَصَنَّفَ مَالِكٌ الْمُوَطَّأَ بِالْمَدِينَةِ، وَصَنَّفَ ابْنُ إِسْحَاقَ الْمُغَازِيُّ، وَصَنَّفَ مَعْمَرٌ بِالْيَمَنِ، وَصَنَّفَ أَبُو حَنِيفَةَ وَغَيْرُهُ الْفِقْهَ وَالرَّأْيَ بِالْكُوفَةِ، وَصَنَّفَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ «كِتَابَ الْجَامِعِ» ، ثُمَّ بَعْدَ يَسِيرٍ صَنَّفَ هُشَيْمٌ كُتُبَهُ، وَصَنَّفَ اللَّيْثُ بِمِصْرَ وَابْنُ لَهِيعَةَ ثُمَّ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَبُو يُوسُفَ وابْنُ وَهْبٍ. وَكَثُرَ تَدْوِينُ الْعِلْمِ وَتَبْوِيبُهُ، وَدُوِّنَتْ كُتُبُ الْعَرَبِيَّةِ وَاللُّغَةِ وَالتَّارِيخِ وَأَيَّامُ النَّاسِ. وَقَبْلَ هَذَا الْعَصْرِ كَانَ سَائِرُ الأَئِمَّةِ يَتَكَلَّمُونَ عَنْ حِفْظِهِمْ أَوْ يَرْوُونَ الْعِلْمَ مِنْ صُحُفٍ صَحِيحَةٍ غَيْرَ مُرَتَّبَةٍ


یعنی اس زمانہ سے پہلے ائمہ حافظے اور غیر مرتب صحیفوں پر اعتماد کرتے تھے ۔
اس لئے اس زمانے میں تدوین حدیث و فقہ و تفسیر وغیرہ کا کام ہوا ۔ اور اس میں ہر شہر کے ائمہ کا الگ الگ نام لیا ہے جنہوں نے اس میں حصہ لیا ۔
اس میں ذہبیؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ صراحتاََ فقہ کا نام بھی لیا ہے کہ تدوین فقہ کا آغاز بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔

اور اس وقت امت میں فقہ اسلامی کی قدیم دستیاب کتب سب سے زیادہ امام محمد بن حسنؒ کی ہیں جو کہ امام ابو حنیفہؒ کی مدون کردہ فقہ اور اس کی شرح پر مشتمل ہیں ۔

اور فقہ کی بعض کتب ضرور صرف مسائل اور اقوال پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ مثلاََ جامع صغیر ،امام محمدؒ ۔ یہ بھی ایک طرح امام ابوحنیفہؒ ہی کی کتاب ہے جسے امام محمدؒ نے امام ابو یوسف ؒ کے واسطہ سے امام ابوحنیفہؒ سے نقل کیا ہے ۔

لیکن سب سے اہم اور بڑی کتاب ، کتاب الاصل ، جو المبسوط ، امام محمد کے نام سے بھی معروف ہے ۔ جو کہ ۱۳ ضخیم جلدوں میں شائع ہوئے ہے ۔ فقہ کا بہت بڑا خزانہ ہے تو دوسری طرف اس میں ۲ ہزار کے قریب احادیث و آثار بھی نقل کئے گئے ہیں ۔

اسی طرح امالی ابی یوسفؒ اگرچہ موجود نہیں ۔ جوکہ بہت ضخیم کتاب تھی ۔شاید کہیں اس کا مخطوطہ ہو ۔ اس کے اقتباسات بعد کی کتب میں موجود ہیں ۔ وہ بھی فقہ کے مسائل کے ساتھ احادیث و آثار ہی پر مشتمل تھی ۔
ان کی کتاب الخراج تو سب کے سامنے ہے ۔

اسی لئے حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ نے منیہ الالمعی (جو کہ ہدایہ کی تخریج نصب الرایہ کا ایک طرح سے تکملہ اور استدراک ہے ) کے مقدمہ میں فرمایا ہے ۔

’’ ہمارے متقدمین علماء رحمھم اللہ مسائل فقہیہ اور ان کے دلائل کا احادیث نبویہ ﷺسے اپنی اسانید کے ساتھ املاء کراتے تھے ،
جیسا کہ امام ابویوسفؒ کتاب الخراج اور امالی ، میں اور امام محمدؒ کتاب الاصل اور السیر میں ۔۔۔۔‘‘
اور اس کتاب میں انہوں نے حافظ کبیر زیلعیؒ حنفی اور حافظ دنیا ابن حجرؒ شافعی کو بھی بعض روایات نہیں ملی ۔ وہ بیان کی ہیں ۔
اس میں انہوں نے کئی جگہہ حدیث کی تخریج کے لئے کتاب الاصل المبسوط امام محمدؒ کا حوالہ دیا ہے ۔ جو کہ بظاہر فقہ کی کتاب ہے ۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فقہ کے بعض متون قدوری ، کنز وغیرہ ضرور صرف مسائل پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ لیکن تدوین فقہ کے وقت کی تمام کتب ایسی نہیں تھیں ۔

اور ایسا ہو بھی کیسے سکتا تھا جب کہ تدوین فقہ کا کارنامہ انجام دینے والے فقیہ اعظم ہونے کے ساتھ بہت بڑے محدث بھی تھے ۔ اسی طرح ان کے اصحاب بھی ۔

آپ نے وہ مشہور مثال سنی ہوگی کہ محدثین کی مثال دَوافروش(میڈیکل سٹور) والوں کی ہے اور فقہاء کی مثال طبیب (میڈیکل ڈاکٹر) کی ہے ۔
یہ تعبیر بہت بڑے محدث امام اعمشؒ نے سب سے پہلے استعمال کی تھی

امام اعمشؒ سے مسئلہ پوچھا گیا ۔ان کے پاس امام ابو حنیفہؒ بھی موجود تھے ۔
انہوں نے فرمایا ، اے نعمان اس کا جواب دیں ۔ تو ابوحنیفہؒ نے جواب دیا ۔
امام اعمشؒ نے پوچھا ۔ یہ جواب کہاں سے دیا ہے ؟
امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ اس حدیث سے جو آپ ہی سے روایت کی ہے ۔ اور ساتھ ہی کئی احادث سند کے ساتھ سنا دیں ۔
اس پر امام اعمشؒ نے ان فرمایا کہ بس بس جو احادیث میں نے تم سے اتنے دنوں میں بیان کیں وہ ایک نشست میں بیان کردو گے ۔ پھر فرمایا کہ اے فقہاء کی جماعت تم لوگ طبیب ہو ہم تو دوا فروش ہیں ۔
اور پھر امام ابوحنیفہؒ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تمہیں تو دونوں شعبوں سے حصہ ملا ہے ۔

اسی لئے تدوین فقہ کی طرح تدوین حدیث میں بھی امام ابوحنیفہؒ کا حصہ اس طرح ہے کہ حدیث کی سب سے قدیم دستیاب کتب میں بھی صحیفہ ہمام ؒ کے بعد امام ابوحنیفہؒ کی کتاب الآثار ہے جو باقاعدہ ابواب پر مشتمل ہے ۔ یہ اگرچہ چھوٹی کتاب ہے لیکن احادیث اور آثار کا صحیح مجموعہ ہے ۔
یہ انہوں نے غالباََ تدوین فقہ سے پہلے ہی تالیف کی تھی ۔

اسی طرح امام مالکؒ نے جس طرح حدیث کی کتاب موطا تالیف کی ۔ اور ان کی فقہی اقوال پر مشتمل ۔ المدونہ ۔ بھی احادیث سے بھری ہوئی ہے ۔
اور ان کے بعد احادیث کے ضخیم ذخیرے مصنف ، عبد الرزاق ، اور ابن ابی شیبہ ،
احادیث کے ساتھ ساتھ آثار اور اقوال وغیرہ پر مشتمل ہیں ۔

اس لئے یہ جملہ
’’پھر محدثین کا دور آیا جنہوں نے دیکھا کہ یہ نہ ہو کہ صرف فقہ رہ جائے اور اصل حدیث جس سے استنباط کیا گیا وہ ضائع نہ ہو جائیں تو انہوں نے احادیث کو لکھنے کا بیڑا اٹھایا۔‘‘
درست نہیں ہے ۔ بلکہ یہ کام ساتھ ساتھ ہی ہوتے رہے ۔ بلکہ تدوین حدیث تو کچھ پہلے ہی شروع ہوگئی ۔
اسی لئے بعض علماء فرماتے ہیں کہ صحاح ستہ کا دور تدوین حدیث کا تیسرا دور تھا۔
البتہ چونکہ احادیث کے کثیر مطالعہ سے عمل بالحدیث کا شوق غالب ہو جاتا ہے نہ کہ فقہ کا۔
یہ جملہ تو ان عوام کے لئے بولنا چاہیے جوخود عالم نہ ہوں ۔اور کسی عالم یا مدرسہ سے بھی نہ پڑھیں ۔ اور خود حدیث کی کتاب پڑھیں ۔اور حدیث کے ظاہر پر عمل کریں ۔ تو وہ ظاہری طور پہ اس کتاب کے مصنف کی تقلید کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس کو ظاہر حدیث پر عمل کرنا کہیں تو زیادہ بہتر ہے ۔
اسی لئے ماضی میں ایسے علماء کو ظاہری کہتے تھے ۔اور آج بھی ۔
ورنہ تو فقہ کے مسئلہ پر بھی عمل ، عمل بالحدیث بلکہ عمل بالقرآن و الحدیث والاجماع والقیاس۔ ہی ہوتا ہے ۔
تو اس وجہ سے اصحاب ستہ کے مذاہب میں اختلاف ہوا۔یعنی کے وہ کس امام کے مقلد تھے۔ زیادہ تر یوں ہئ معلوم ہوتا یے کہ وہ خود مجتہد تھے۔
بلکہ مختلف احادیث جو مختلف علاقوں میں رائج تھیں ، اور ان پر اس علاقے میں ائمہ فتاویٰ دیتے تھے ، اور لوگ ان کی تقلید کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے محدثین کے مذاہب میں اختلاف ہوا ۔
البتہ اصحاب صحاح ستہ کا آپس میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں ہے ۔ان میں سے امام بخاریؒ مجتہد جیسے ہیں ۔ لیکن وہ بھی اپنی ذات میں ۔۔ورنہ ان کی کوئی ایک فقہی رائے بھی ان کے عزیز ترین شاگرد ترمذیؒ نے اپنی کتاب میں مجتہدین کے اقوال بیان کرتے ہوئے نقل نہیں کی ۔ احادیث اور رجال کے بارے میں ضرور ان کی آراء نقل کی ہیں ۔(یہ کوئی تنقیص کا جملہ نہیں ہے ۔ وہ بیشکفقیہہ تھے اور ان کی اجتہادی رائے صحیح بخاری کے ابواب سے سمجھی جا سکتی ہے )

اور اکثر علماء کی رائے میں صحاح کے مولفین حنبلی یا شافعی ہی ہیں ۔ امام ابو داودؒ نے تو امام احمد بن حنبلؒ سے مسائل روایت کئے ہیں وہ کتاب بھی موجود ہے ۔وہ حنبلی ہیں۔

ہاں یہ ہے کہ متبحر محدث ، عالم ۔۔مقلد محض نہیں ہوتا ۔جیسا کہ عوام ہوتے ہیں ۔بلکہ وہ کئی جگہہ دلیل کی وجہ سے دوسری آراء کو ترجیح بھی دے دیتے ہیں ۔ امام طحاویؒ بھی اسی طرح کے ہیں ۔

یہ تو آج کے بھی علماء پر لاگو ہو جا تا ہے ۔ کئی علماء فقہ حنفی کے عامل ہونے کے باوجود کئی مسائل میں دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ۔
بعد میں جب احادیث مدون ہو گئیں تو ہر کس ناکس کے مجتہد ہو جانے کا خوف لاحق ہوگیا تو کبار علماء نے مذاہب اربعہ پر اجماع کر لیا

مجتہد تو ہر دور میں ہوسکتے ہیں ۔ البتہ مذاہب اربعہ پر اجماع اس لئے ہے کہ دوسرے مجتہدین (مطلق) کے مذاہب مدون نہیں ہوسکے ۔ مذاہب اربعہ مدون ہوگئے ۔

کتب میں جملہ یوں لکھا ہوتا ہے کہ ان کے مذاہب مدون نہ ہوسکے اور پھر کچھ عرصہ بعد ختم ہوگئے ۔

میرا خیال ہے زیادہ بہتر جملہ یہ ہے کہ وہ بھی اکثر مسائل کے اتفاق کے ساتھ مذاہب اربعہ میں شامل ہوگئے ۔ اور جس مسئلہ میں کسی کا تفرد تھا ۔ وہ متروک ہو گیا ۔ جیسے امام سفیان ثوریؒ بہت بڑے محدث اور مجتہد تھے ۔ تو ان کا تقریباََ تمام (نہیں تو اکثر ) مسائل میں امام ابو حنیفہؒ کے مسائل سے اتفاق ہے ۔ بلکہ امام ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں ، سفیانؒ مجھ سے زیادہ ابوحنیفہؒ کی متابعت کرتے ہیں ۔اس لئے ان کا مذہب بھی فقہ حنفی کی ہی صورت میں زندہ ہے ۔ اسی طرح دوسرے ائمہ کا ان کے علاقہ کے حساب سے ۔

واللہ اعلم۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ ابن عثمان بھائی
آپ کی بات درست ہے.

ایک سوال اکثر میرے ذہن میں آتا ہے. ہم امام بخاری رح کو مجتہد مطلق کیوں کہتے ہیں؟ اگر ان کے ابواب کی وجہ سے تو پھر ان ابواب کی دس دس تاویلات کرنے والوں کو مجتہد کہنا چاہیے کہ امام بخاری کی مراد تو کسی کو نہیں پتا ہوتی, یہ تو شارحین کی مرادیں ہیں.
حدیث میں ان کی امامت مسلم ہے لیکن اس میں بھی ہم انہیں بہت زیادہ اوپر لے کر جاتے ہیں ورنہ امام مسلم رح کے ان کے لقاء الشیخ کے مسلک پر اعتراضات تو درست ہی معلوم ہوتے ہیں.
رہ گئی بات صحیح البخاری میں صحت کی تو امام بخاری رح نے ایک تو اصول سخت رکھے اور دوسرا لاکھوں احادیث اور اسناد میں سے چند کا انتخاب کیا تو صحت کا یہ درجہ حاصل ہونا ہی تھا کیوں کہ رجال اور احادیث پر ان کی نظر اور گرفت تو تھی ہی اتنی کہ وہ امیر المومنین فی الحدیث کہلائے.
اگر امام بخاری رح بھی ابو داؤد رح کی طرح فقہ کی بنیاد پر کتاب کی ترتیب رکھتے تو یہ بھی شاید ویسی ہی ہوتی جیسی سنن ابو داؤد ہے.
کمال تو امام مالک رح کا ہے جن کی کتاب الموطا فقہ کی ترتیب پر ہوتے ہوئے اصح الکتب ہے.
بخاری شریف کے مقابلے میں صحیح مسلم کی ترتیب, الفاظ کا خیال اور طرق کا ذکر بہت زیادہ عمدہ ہے. اس میں ایسی کئی چیزیں ہیں جو علم حدیث میں فائدہ دیتی ہیں.
و اللہ اعلم
 

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
میں نے صحیح بخاری کے حوالے سے بہت سے ابواب جس میں وہ آثار صحابہ اور تابعین کا ذکر کرتے ہیں محفوظ کر رکھی ہیں۔ اسکے علاوہ میں نے کچھ امام بخاری صاحب کی ابواب و حدیث میں مطابقت کی غلطیاں بھی محفوظ کر رکھیں ہیں۔ انشاء اللہ جلد پوسٹ کروں گا
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
میں نے صحیح بخاری کے حوالے سے بہت سے ابواب جس میں وہ آثار صحابہ اور تابعین کا ذکر کرتے ہیں محفوظ کر رکھی ہیں۔ اسکے علاوہ میں نے کچھ امام بخاری صاحب کی ابواب و حدیث میں مطابقت کی غلطیاں بھی محفوظ کر رکھیں ہیں۔ انشاء اللہ جلد پوسٹ کروں گا
اس میں پہلی چیز اچھی ہی اور ضرور ذکر کریں کہ اس سے معلوم ہوگا کہ امام بخاریؒ بھی سلف صالحین کے آثار و آراء کا احترام کرتے ہیں ۔ لیکن دوسری چیز ۔غلطیاں۔ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے دوست ۔
یہ غلط رویہ ہے ہمیں سب ائمہ کا احترام کرنا چاہیے ۔ اور جب تک کوئی علمی مسئلہ موضوع بحث نہ ہو کسی اہل علم کی شاذ رائےیا غلطی کا ذکر بے ادبی معلوم ہوتی ہے ۔ جزاک اللہ ۔
ہم امام بخاری رح کو مجتہد مطلق کیوں کہتے ہیں؟ اگر ان کے ابواب کی وجہ سے تو پھر ان ابواب کی دس دس تاویلات کرنے والوں کو مجتہد کہنا چاہیے کہ امام بخاری کی مراد تو کسی کو نہیں پتا ہوتی, یہ تو شارحین کی مرادیں ہیں.
حدیث میں ان کی امامت مسلم ہے لیکن اس میں بھی ہم انہیں بہت زیادہ اوپر لے کر جاتے ہیں ورنہ امام مسلم رح کے ان کے لقاء الشیخ کے مسلک پر اعتراضات تو درست ہی معلوم ہوتے ہیں.
رہ گئی بات صحیح البخاری میں صحت کی تو امام بخاری رح نے ایک تو اصول سخت رکھے اور دوسرا لاکھوں احادیث اور اسناد میں سے چند کا انتخاب کیا تو صحت کا یہ درجہ حاصل ہونا ہی تھا کیوں کہ رجال اور احادیث پر ان کی نظر اور گرفت تو تھی ہی اتنی کہ وہ امیر المومنین فی الحدیث کہلائے.
اگر امام بخاری رح بھی ابو داؤد رح کی طرح فقہ کی بنیاد پر کتاب کی ترتیب رکھتے تو یہ بھی شاید ویسی ہی ہوتی جیسی سنن ابو داؤد ہے.
کمال تو امام مالک رح کا ہے جن کی کتاب الموطا فقہ کی ترتیب پر ہوتے ہوئے اصح الکتب ہے.
بخاری شریف کے مقابلے میں صحیح مسلم کی ترتیب, الفاظ کا خیال اور طرق کا ذکر بہت زیادہ عمدہ ہے. اس میں ایسی کئی چیزیں ہیں جو علم حدیث میں فائدہ دیتی ہیں.
و اللہ اعلم
امام بخاریؒ کے مجتہد مطلق ہونے سے علماء اختلاف کرتے ہیں ۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ وہ مجتہد تو تھے لیکن ائمہ غیر متبوعین میں سے تھے ۔ اسی لئے اختلاف فقہاء کی کسی کتاب میں بھی ان کی فقہی رائے موجود نہیں ۔ اور ترمذیؒ بھی ذکر نہیں کرتے ۔
بعض کا خیال ہے کہ شاید امام ترمذیؒ کے نزدیک امام بخاریؒ بہت بڑے امام ہونے کے باوجود مجتہد نہ ہوں ۔اس لئے فقہی آراء ذکر نہیں کرتے ۔
کتاب کے ابواب سے اس طرح علماءاستدلال کرتے ہیں کہ ترمذیؒ پڑھانے والے اساتذہ فرماتے ہیں کہ انہیں صاف محسوس ہوجاتا ہے کہ امام ترمذیؒ ایک دو جگہہ کے علاوہ شافعی نظر آتے ہیں ۔
اسی طرح صحیح بخاریؒ پڑھانے والے اساتذہ (خصوصاََ صاحب تعلیقات لامع الدراری ، اور صاحب فیض الباری) فرماتے ہیں کہ بخاریؒ تو مجتہد ہی نظر آتے ہیں ۔ اگرچہ مسائل مشہورہ میں ان کا اتفاق شوافع سے کچھ ہوجاتا ہے ۔
جیسے امام احمدؒ کے بارے میں بھی تھوڑی سی یہ بحث ہوتی ہے کہ ابن عبد البرؒ نے الانتقاء میں تین کا ذکر کیا ان کا نہیں کیا ، اور غالباََ طبریؒ کا حوالہ آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ وہ بھی غالباََ امام احمدؒ کو مجتہد سے زیادہ محدث سمجھتے تھے ۔
اور واقعی آپ نے صحیح فرمایا کہ ان کی کتاب کو اوپر لے جاتے ہیں ۔ویسے لے جانے میں تو کوئی ہرج نہیں ، لیکن اُس چکر میں دوسری کتب کو نیچے نہیں لے جانا چاہیے ۔
 

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
اصل میں یہ غلطیاں پوسٹ کرنے کا مقصد نعوذ باللہ انکو نیچے دیکھانا نہیں ہے۔ بلکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ جو لوگ امام بخاری کو اتنا اونچا لے جاتے ہیں کہ پھر صحیح بخاری کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں سنتے انکو بھی پتا چلے کہ صرف ابواب ہی کو لے کر صحیح بخاری سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہوگا۔کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پیشاب کا ذکرباب تو یہ باندھا ہے اور حدیث صرف کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ذکر کی ہے۔ اسی طرح مسئلہ آمین بالجہر میں امام صاحب باب تو جہر کا باندھتے ہیں لیکن اثر صحابہ کے علاوہ اس مسئلہ پر وہ کوئی حدیث پیش نہیں کرتے۔ اور قصر نماز کی مسافت پر جو باب باندھا ہے اس میں اثر ابن عمر اور ابن عباس نقل کیا ہے اور حدیث جو پیش کی ہے اس میں عورت محرم کے بغیر کتنا صفر کر سکتی ہے حدیث یہ ہے۔ باقی اور بھی کچھ باتیں ہیں۔ جو صحیح بخاری کے علاوہ کسی بھی کتاب کو نہ ماننے والوں کے لیے ایک نصیحت ہیں
 
Top