اصول اور تاریخ کی کتب میں ائمہ کے بعض اقوال ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا بظاہر مفہوم غلط ہوتا ہے ۔ اور بدگمانی کی جائے تو بہت کی جاسکتی ہے ۔لیکن یہ درست منہج نہیں ہے ۔ بلکہ ائمہ کے اقوال کی توجیہ کرنی چاہیے ۔ جیسا کہ اس موضوع پہ ایک پہلے تھریڈ میں بھی کچھ ملتی جلتی گفتگو ہوئی ہے ۔
http://algazali.org/index.php?threads/امام-ابوالحسن-کرخی-کا-اصول-اورغلط-فہمیوں-کا-جواب.9135/امام کرخیؒ کا اصول اور غلط فہمی
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی کتاب رفع الملام اس موضوع پر بہت اچھی ہے ۔
جس میں ائمہ سے حسن ظن رکھنے کے بارے میں مفید معلومات ہیں ۔
ایک بڑے امام ۔ امام شافعیؒ جو کہ ناصر السنۃ کے لقب سے بھی معروف ہیں ان کی ایک عبارت جس کا بظاہر مفہوم صحیح نہیں ہے ۔
إِبْرَاهِيْمُ بنُ مَتُّوَيْه الأَصْبَهَانِيُّ: سَمِعْتُ يُوْنُسَ بنَ عَبْدِ الأَعْلَى يَقُوْلُ:
قَالَ الشَّافِعِيُّ: كُلُّ حَدِيْثٍ جَاءَ مِنَ العِرَاقِ، وَلَيْسَ لَهُ أَصْلٌ فِي الحِجَازِ، فَلاَ تَقْبَلْهُ،
وَإِنْ كَانَ صَحِيحاً، مَا أُرِيْدُ إِلاَّ نَصِيْحَتَكَ .
(سیر اعلام النبلا۔ ترجمہ امام شافعیؒ)
یعنی ۔۔جو حدیث بھی عراق سے آئے گی اگر اس کی اصل حجاز میں نہ ہوئی تو اس کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ چاہے وہ صحیح بھی ہو۔
اس جملہ میں جو سختی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔
امام بیہقیؒ نے ((معرفة السنن)) میں ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ یہ قول نقل کیا ہے
مَا أَتَاكَ مِنْ هَاهُنَا - وَأَشَارَ إِلَى الْعِرَاقِ - لَا يَكُونُ لَهُ هَاهُنَا أَصْلٌ - وَأَشَارَ إِلَى الْحِجَازِ أَوْ إِلَى الْمَدِينَةِ - فَلَا تَعْتَدَّ بِهِ.
اور مَنْ تَوَقَّى رِوَايَةَ أَهْلِ الْعِرَاقِ، وَمَنْ قَبِلَهَا مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ مِنْهُمْ وَرَجَّحَ رِوَايَةَ أَهْلِ الْحِجَازِ
کے باب میں نقل کیا ہے ۔
یعنی ان کے نزدیک امام شافعی کا قول اہل حجاز کی ترجیح کے لئے ہے ۔
اور کچھ توجیہ اور وجہ اوربھی پیش کی ہے
وَإِنَّمَا رَغِبَ بَعْضُ السَّلَفِ عَنْ رِوَايَةِ أَهْلِ الْعِرَاقِ لِمَا ظَهَرَ مِنَ الْمَنَاكِيرِ وَالتَّدْلِيسِ فِي رِوَايَاتِ بَعْضِهِمْ،
کچھ اور بھی باتیں فرمائی ہیں ۔(معرفۃ 1۔150)
بحرحال یہ توجیہ و تشریح امام بیہقیؒ کی ہے ۔ امام شافعیؒ کی نہیں ۔
امام بیہقیؒ امام شافعیؒ کی کتب اور مسلک کے سب سے بڑے شناسا اور مددگار ہیں ۔ اس لئے ان کی توجیہہ
قابل اہمیت ہے ۔
اگرچہ اس جملہ (حجاز کی روایت کو ترجیح ہوگی)سے اختلاف کے ساتھ کہ یہ اُن کا مسلک ہے ۔
سیر اعلام النبلا کے محقق امام شافعیؒ کی طرف سے صفائی دیتے ہوئے ان کی دوسری روایت بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی ؒ نے بعد کو رجوع کر لیا تھا۔
اور امام احمد ؒ سے فرمایا تھا کہ آپ ہم سے زیادہ صحیح حدیث کو جانتے ہیں ۔ اگر کوئی خبر صحیح ہو تو ہمارے علم میں لائیں تاکہ ہم اسے اختیار کریں ۔ چاہے کوفی سے ہو شامی سے یا بصری سے ۔
عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُوْلُ: قَالَ الشَّافِعِيُّ: أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِالأَخْبَارِ الصِّحَاحِ مِنَّا، فَإِذَا كَانَ خَبَرٌ صَحِيْحٌ، فَأَعلِمْنِي حَتَّى أَذْهَبَ إِلَيْهِ، كُوفِيّاً كَانَ، أَوْ بَصْرِيّاً، أَوْ شَامِيّاً (3)
__________
(3) وهذا النص يؤكد أن الشافعي رضي الله عنه رجع عن رفضه لحديث العراقيين.
بظاہر اس میں حجاز کا ذکر نہیں ہے ۔
پہلی عبارت کا جملہ۔ اہل حجاز میں اس کی اصل ہونی چاہیے ۔وہیں پر موجود ہے ۔
اور یوں بد گمانی کی جاسکتی ہے ۔
لیکن ہمیں حسن ظن رکھتے ہوئے یہی سمجھنا چاہیے کہ امام شافعی ؒ نے رجوع کر لیا ہوگا ۔ اور ان سے امید بھی یہی ہے ۔
امام شافعیؒ کی عبارت کے فوراََ بعد حافظ ذہبیؒ بھی یہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے رجوع کر لیا تھا۔
قُلْتُ: ثُمَّ إِنَّ الشَّافِعِيَّ رَجَعَ عَنْ هَذَا، وَصَحَّحَ مَا ثَبَتَ إِسْنَادُهُ لَهُمْ.
لیکن بحرحال دین کے اکثر مسائل میں اتفاق ہونے کے ساتھ ساتھ جن چند فروعی مسائل میں احادیث ہی کی وجہ سے اختلاف ہوا ہے ۔
اس میں اس علاقے میں جو رائج عمل ہوتا ہے اور اس کی بناء حدیث ہی پر ہوتی ہے ۔
اگر اس عمل کے خلاف دوسرے علاقے کی صحیح احادیث سامنے بھی آجائیں تو وہاں کے کئی ائمہ ان پر عمل نہیں کر تے ۔
اس میں ایک طریقہ تو جوناپسندیدہ ہے جس میں وہاں کے ائمہ مخالف احادیث کو معلول قراردیتے ہیں۔
دوسرا طریقہ بہتر اور صحیح یہ ہے کہ دوسرے کو غلط کہے بغیر اپنے عمل کو راجح اور پسندیدہ قرار دیا جائے۔
واللہ اعلم۔
http://algazali.org/index.php?threads/امام-ابوالحسن-کرخی-کا-اصول-اورغلط-فہمیوں-کا-جواب.9135/امام کرخیؒ کا اصول اور غلط فہمی
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی کتاب رفع الملام اس موضوع پر بہت اچھی ہے ۔
جس میں ائمہ سے حسن ظن رکھنے کے بارے میں مفید معلومات ہیں ۔
ایک بڑے امام ۔ امام شافعیؒ جو کہ ناصر السنۃ کے لقب سے بھی معروف ہیں ان کی ایک عبارت جس کا بظاہر مفہوم صحیح نہیں ہے ۔
إِبْرَاهِيْمُ بنُ مَتُّوَيْه الأَصْبَهَانِيُّ: سَمِعْتُ يُوْنُسَ بنَ عَبْدِ الأَعْلَى يَقُوْلُ:
قَالَ الشَّافِعِيُّ: كُلُّ حَدِيْثٍ جَاءَ مِنَ العِرَاقِ، وَلَيْسَ لَهُ أَصْلٌ فِي الحِجَازِ، فَلاَ تَقْبَلْهُ،
وَإِنْ كَانَ صَحِيحاً، مَا أُرِيْدُ إِلاَّ نَصِيْحَتَكَ .
(سیر اعلام النبلا۔ ترجمہ امام شافعیؒ)
یعنی ۔۔جو حدیث بھی عراق سے آئے گی اگر اس کی اصل حجاز میں نہ ہوئی تو اس کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ چاہے وہ صحیح بھی ہو۔
اس جملہ میں جو سختی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔
امام بیہقیؒ نے ((معرفة السنن)) میں ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ یہ قول نقل کیا ہے
مَا أَتَاكَ مِنْ هَاهُنَا - وَأَشَارَ إِلَى الْعِرَاقِ - لَا يَكُونُ لَهُ هَاهُنَا أَصْلٌ - وَأَشَارَ إِلَى الْحِجَازِ أَوْ إِلَى الْمَدِينَةِ - فَلَا تَعْتَدَّ بِهِ.
اور مَنْ تَوَقَّى رِوَايَةَ أَهْلِ الْعِرَاقِ، وَمَنْ قَبِلَهَا مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ مِنْهُمْ وَرَجَّحَ رِوَايَةَ أَهْلِ الْحِجَازِ
کے باب میں نقل کیا ہے ۔
یعنی ان کے نزدیک امام شافعی کا قول اہل حجاز کی ترجیح کے لئے ہے ۔
اور کچھ توجیہ اور وجہ اوربھی پیش کی ہے
وَإِنَّمَا رَغِبَ بَعْضُ السَّلَفِ عَنْ رِوَايَةِ أَهْلِ الْعِرَاقِ لِمَا ظَهَرَ مِنَ الْمَنَاكِيرِ وَالتَّدْلِيسِ فِي رِوَايَاتِ بَعْضِهِمْ،
کچھ اور بھی باتیں فرمائی ہیں ۔(معرفۃ 1۔150)
بحرحال یہ توجیہ و تشریح امام بیہقیؒ کی ہے ۔ امام شافعیؒ کی نہیں ۔
امام بیہقیؒ امام شافعیؒ کی کتب اور مسلک کے سب سے بڑے شناسا اور مددگار ہیں ۔ اس لئے ان کی توجیہہ
قابل اہمیت ہے ۔
اگرچہ اس جملہ (حجاز کی روایت کو ترجیح ہوگی)سے اختلاف کے ساتھ کہ یہ اُن کا مسلک ہے ۔
سیر اعلام النبلا کے محقق امام شافعیؒ کی طرف سے صفائی دیتے ہوئے ان کی دوسری روایت بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی ؒ نے بعد کو رجوع کر لیا تھا۔
اور امام احمد ؒ سے فرمایا تھا کہ آپ ہم سے زیادہ صحیح حدیث کو جانتے ہیں ۔ اگر کوئی خبر صحیح ہو تو ہمارے علم میں لائیں تاکہ ہم اسے اختیار کریں ۔ چاہے کوفی سے ہو شامی سے یا بصری سے ۔
عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُوْلُ: قَالَ الشَّافِعِيُّ: أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِالأَخْبَارِ الصِّحَاحِ مِنَّا، فَإِذَا كَانَ خَبَرٌ صَحِيْحٌ، فَأَعلِمْنِي حَتَّى أَذْهَبَ إِلَيْهِ، كُوفِيّاً كَانَ، أَوْ بَصْرِيّاً، أَوْ شَامِيّاً (3)
__________
(3) وهذا النص يؤكد أن الشافعي رضي الله عنه رجع عن رفضه لحديث العراقيين.
بظاہر اس میں حجاز کا ذکر نہیں ہے ۔
پہلی عبارت کا جملہ۔ اہل حجاز میں اس کی اصل ہونی چاہیے ۔وہیں پر موجود ہے ۔
اور یوں بد گمانی کی جاسکتی ہے ۔
لیکن ہمیں حسن ظن رکھتے ہوئے یہی سمجھنا چاہیے کہ امام شافعی ؒ نے رجوع کر لیا ہوگا ۔ اور ان سے امید بھی یہی ہے ۔
امام شافعیؒ کی عبارت کے فوراََ بعد حافظ ذہبیؒ بھی یہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے رجوع کر لیا تھا۔
قُلْتُ: ثُمَّ إِنَّ الشَّافِعِيَّ رَجَعَ عَنْ هَذَا، وَصَحَّحَ مَا ثَبَتَ إِسْنَادُهُ لَهُمْ.
لیکن بحرحال دین کے اکثر مسائل میں اتفاق ہونے کے ساتھ ساتھ جن چند فروعی مسائل میں احادیث ہی کی وجہ سے اختلاف ہوا ہے ۔
اس میں اس علاقے میں جو رائج عمل ہوتا ہے اور اس کی بناء حدیث ہی پر ہوتی ہے ۔
اگر اس عمل کے خلاف دوسرے علاقے کی صحیح احادیث سامنے بھی آجائیں تو وہاں کے کئی ائمہ ان پر عمل نہیں کر تے ۔
اس میں ایک طریقہ تو جوناپسندیدہ ہے جس میں وہاں کے ائمہ مخالف احادیث کو معلول قراردیتے ہیں۔
دوسرا طریقہ بہتر اور صحیح یہ ہے کہ دوسرے کو غلط کہے بغیر اپنے عمل کو راجح اور پسندیدہ قرار دیا جائے۔
واللہ اعلم۔