السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کافی عرصہ ہوا کہ فقہی اور فروعی اختلافات پر بحثیں اور مناظرے (یا مناظرہ نما کہہ لیں) کرنا چھوڑ دیے۔ یہ سوچا کہ جو معاملات سلف سے مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں ان میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک جانب کو قطعاً و یقیناً راجح ثابت کر دیں؟ نیز دین کے بہت سے شعبے ہیں جہاں نئی تحقیقات کی ضرورت ہے تو ان شعبوں میں کام کیوں نہ کیا جائے کہ نافع ثابت ہو۔ چنانچہ فقہ المعاملات اور جدید مسائل میں تخصص فی الحال جاری ہے۔ کچھ تحقیقی کام بھی جاری ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اسے مکمل فرمائیں اور نافع بنائیں۔ آمین
آج کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ انوار البدر کا خیال آیا۔ سنا تھا بہت عمدہ کتاب ہے اور بہت سے جید علماء کرام نے اس پر تقاریظ تحریر فرمائی ہیں۔ نیز شیخ محترم کفایت اللہ سنابلی صاحب دام فیوضہم کی وسعت مطالعہ اور کثرت علم کا تو میں اسی دن سے معترف ہوں جس دن ان کی پہلی تحریر ایک فورم پر نظروں سے گزری تھی۔ لیکن جب کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو کچھ عجیب سے احساسات نے آ گھیرا۔ خیال ہوا کہ ان احساسات کو فورم کی نظر کر دیا جائے۔ شاید کہ کوئی میری اصلاح کر سکے۔
محترم شیخ نے اپنے تیسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 171 سے یہ بحث شروع فرمائی ہے کہ "ذراع" عربی میں کہنی کے سرے سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصے کو کہتے ہیں۔ سر آنکھوں پر! لیکن محترم شیخ نے جو اس سے پہلے روایت ذکر فرمائی ہے وہ کچھ یوں ہے:
كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة» قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم (بخاری)
شیخ محترم نے ذراع پر تو سیر حاصل بحث کی لیکن "ید" پر شاید بحث کرنا بھول گئے۔ "ید" یعنی ہاتھ عربی میں دو معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:
1۔ ہتھیلی اور انگلیوں کے لیے جو کہ اردو میں بھی معروف ہے۔
2۔ ہاتھ کی انگلی سے لے کندھے تک کے لیے۔
چنانچہ تاج العروس میں ہے:
(اليد) ، بتخفيف الدال وضمه (الكف أو من أطراف الأصابع إلى الكف) ؛ كذا في النسخ والصواب إلى الكتف؛ وهذا قول الزجاج؛ وقال غيره: إلى المنكب
شیخ محترم فرماتے ہیں:
اب اگر اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے "ذراع" (کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔"
جس طرح حدیث میں "ذراع" سے مکمل ذراع شیخ محترم نے مراد لیا ہے اسی طرح "ید" سے بھی مکمل "ید" مراد لینا چاہیے۔ "ید" کا اگر پہلا معنی لیا جائے یعنی صرف ہاتھ کا تو اتنا بڑا ہاتھ کم از کم ہم نے نہیں دیکھ جو اس پورے حصے پر آجائے۔ یہ لازماً کچھ حصے پر ہی آئے گا اور باقی حصے پر دایاں بازو یعنی ذراع آئے گا۔
اور اگر دوسرا معنی یعنی انگلی سے کندھے تک مراد لیا جائے تو اسے پورا کا پورا بائیں "ذراع" پر کیسے رکھا جائے گا یہ ہماری ناقص فہم سے باہر ہے۔ میرا خیال ہے کہ جیسے بچے ہاتھی سونڈ کھیلتے ہیں اسی طرح کی کوئی صورت بنانی ہوگی۔ شیخ محترم سے درخواست ہے کہ اگر ان دونوں معانی کی ایک ایک تصویر ارسال فرما دیں تو وضاحت تامہ ہو جائے۔
اور اگر "ید" سے مراد "بعض ید" ہے تو پھر "ذراع" سے مراد "بعض ذراع" کیوں نہیں ہے؟
شیخ محترم کفایت اللہ سنابلی صاحب نے دوسری روایت سنن نسائی کی پیش فرمائی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
أن وائل بن حجر أخبره قال: " قلت لأنظرن إلى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي، فنظرت إليه فقام فكبر، ورفع يديه حتى حاذتا بأذنيه، ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد
اس کے آخری جملے کا ترجمہ شیخ نے یہ فرمایا ہے: "پھر آپ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت، کلائی اور بازو کے اوپر رکھا۔"
آگے استدلال فرماتے ہیں: "اس حدیث کے مطابق اگر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اس پورے حصے پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود ہی سینے پر آئیں گے۔"
لیکن مسئلہ یہاں بھی وہی ہے کہ ید کے دونوں معانی کے مطابق پورا کا پورا دایاں ہاتھ اس حصے پر آ ہی نہیں سکتا۔ اب یا تو حدیث مبارکہ میں درایۃً ضعف ہے اور یا پھر شیخ محترم کی فہم میں سقم ہے۔ حدیث مبارکہ تو صحیح ہے البتہ موخر الذکر کی بابت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ البتہ ہم بصد احترام عرض کرتے ہیں کہ اگر شیخ محترم اگر اپنے "مکمل" ذراع کے مقدمے سے ذرا تنزل فرمائیں اور "ذراع" کو بعض ذراع سمجھیں تو اس روایت کا مطلب یہ ہوگا کہ دائیں ہاتھ (اپنے پہلے معنی یعنی ہتھیلی اور انگلیوں کے معنی میں) کو بائیں ہاتھ پر اس طرح رکھا کہ اس کا بعض حصہ ہتھیلی پر، بعض کلائی پر اور بعض بازو پر آ گیا۔ اس معنی میں یہ روایت صحیح ہو جائے گی اور یہ معنی ان روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے جن میں ہے: ووضع يده اليمنى على يده اليسرى (مسند ابی داود الطیالسی، مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ، المعجم الکبیر للطبرانی و غیرھا) کیوں کہ اگر ان روایات میں آپ نے "ید" سے مراد صرف "ذراع" لیا تو اس پر آپ کو واضح دلیل لانی ہوگی اور اس کے بعد بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا کہ "ید" یمنی اس ذراع پر مکمل کیسے آئے گا۔
دلیل کے ضمن میں شیخ یہ فرما سکتے ہیں کہ جن روایات میں "ذراع" مذکور ہے وہ روایات وضاحت کر رہی ہیں کہ "ید" سے مراد (دوسرے معنی کے لحاظ سے) بعض حصہ ہے لیکن اس صورت میں ہمیں بھی یہ عرض کرنے کا حق ہوگا کہ جن روایات میں "ید" آیا ہے وہ وضاحت کر رہی ہیں کہ (ید کے پہلے معنی کے لحاظ سے) "ذراع" سے مراد بعض حصہ ہے۔ اور کسی بات کو کسی پر ترجیح حاصل نہ ہو پائے گی۔
حضرت شیخ محترم جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب نے تیسری روایت مراسیل ابی داؤد کی مرسل طاوس پیش فرمائی ہے اور اس پر کیے جانے والے بہت سے اعتراضات کا عمدہ جواب ارشاد فرمایا ہے۔ لیکن اس دلیل کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں:
"ید" یا "ذراع"؟
شیخ محترم کا نکتہ نظر یہ ہے کہ ہاتھ باندھنے میں مکمل "ذراع" پر ہاتھ باندھا جائے گا۔ گزشتہ دو حدیثوں میں انہوں نے یہی ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ مرسل طاوس کے الفاظ یہ ہیں:
حدثنا أبو توبة، حدثنا الهيثم، عن ثور، عن سليمان بن موسى، عن طاوس، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بهما على صدره وهو في الصلاة»
ہم نے کچھ وضاحت عرض کی تھی کہ "ید" کے دو معنی ہیں: معروف ہاتھ یا کندھے تک۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ ہاتھ "مکمل ذراع" پر باندھے جائیں یا "مکمل ید" پر۔ ہمارے معروض کا مقصد یہ ہے کہ شیخ محترم کے دلائل آپس میں متعارض ہیں۔ اب ہم کن دلائل کو مانیں؟ پہلے والے دلائل کو یا اس دلیل کو؟ ہو سکتا ہے کہ شیخ محترم فرمائیں کہ پہلے والے دلائل میں "علی الصدر" کی صراحت نہیں ہے اور اس دلیل میں ہے۔ لہذا اس دلیل کو اصل سمجھا جائے۔
زیادتی یا تفرد؟
حضرت طاوس بن کیسانؒ جلیل القدر تابعی ہیں۔ انہوں نے حضرت عائشہ رض، حضرت جابر رض، حضرات عبادلہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر سے سماع فرمایا ہے (اختلاف اور اقوال سے قطع نظر کرتے ہوئے)۔ لیکن چونکہ یہ تابعی ہیں اس لیے ان کا سماع براہ راست نبی کریم ﷺ سے نہیں ہے۔ انہوں نے جن صحابہ کرام سے سماع فرمایا ہے ان میں سے کسی ایک نے بھی "علی الصدر" کی زیادتی روایت نہیں کی۔ بلکہ ہمارے علم کی حد تک یہ پوری روایت ہی نقل نہیں فرمائی۔ ان کے علاوہ جن صحابہ کرام رض (جیسے عبد اللہ بن مسعود رض اور وائل بن حجر رض) نے یہ روایت نقل کی ہے ان کے اکثر طرق میں بھی "علی الصدر" کی زیادتی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ طاوسؒ یہ الفاظ اور یہ روایت کہاں سے لائے؟
محترم شیخ فرماتے ہیں: "محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کی موجودگی میں مقبول ہے۔"
ہم عرض کرتے ہیں کہ طاوس کی یہ روایت اور کسی سند سے ہمارے علم کی حد تک موجود نہیں ہے۔ اس کا معنی آپ کی پیش کردہ دیگر روایات میں موجود ہے لیکن یہ روایت ان الفاظ یا ہم معنی الفاظ کے ساتھ کہیں نہیں ہے جس میں "علی الصدر" بھی ہو اور "شد" یعنی ہاتھ باندھنے کا ذکر بھی ہو۔ یہ دو مستقل احکام ہیں۔ اس لیے آپ یہ تو فرما سکتے ہیں کہ اس روایت کا معنی مقبول ہے کیوں کہ یہ معنی دوسری احادیث میں وارد ہے لیکن یہ روایت بذات خود مقبول قرار دینا محل نظر ہے۔ جو روایات آپ نے پیش فرمائیں ان کے رواۃ سے طاوس کا سماع نہیں ہے یعنی درمیان میں کوئی واسطہ ہے۔
طاوس بن کیسانؒ کی اس روایت کا کیا کوئی متابع یا کوئی شاہد شیخ محترم ہمیں بتا دیں گے؟
"یشد" یا "یشبک"؟
شیخ محترم نے حنفیوں کے مراسیل کے درسی نسخے میں اس روایت میں "یشد" کے بجائے "یشبک" ہونے کی شکایت کی ہے اور ساتھ میں حنفیوں کے طریقہ کار کو بھی ناپسند فرمایا ہے۔ بجا ہے! لیکن ہم خدمت عالی میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مراسیل کے اس وقت تین مطبوعہ نسخے ہمارے سامنے موجود ہیں۔
1۔ ارناؤط کی تحقیق والا نسخہ جس میں "یشد" ہے۔
2۔ زہرانی کی تحقیق والا نسخہ جس میں انہوں نے "یشد" کو باقی رکھا ہے اور یہ کہا ہے کہ ان کے اصل مخطوطے (جس پر وہ اکثر اعتبار کرتے ہیں) میں یہ لفظ غیر واضح ہے۔
3۔ سیروان کی تحقیق والا نسخہ جس میں انہوں نے "یشبک" کو باقی رکھا ہے۔ سیروان کا نسخہ اس لحاظ سے سب سے منفرد ہے کہ سیروان نے اس کے لیے جن مخطوطات سے مدد لی ہے وہ نہایت واضح ہیں جیسا کہ سیروان کے نسخے کے شروع میں اور زہرانی کے نسخے کے شروع میں دیے گئے مخطوطات کے اسکین میں فرق دیکھا جا سکتا ہے۔ سیروان اور زہرانی دونوں نے کافی دقت کے ساتھ یہ تحقیق کی ہے۔
چنانچہ یہاں ابہام پیدا ہو جاتا ہے کہ اصل حدیث میں"یشد" تھا یا "یشبک"؟ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ سنن ابو داود میں یہاں "یشد" ہے اس لیے اس لفظ کو ترجیح ہوگی، مناسب نہیں۔ کیوں کہ دونوں روایات ایک ہیں اور دونوں کے راوی بھی ایک ہی یعنی امام ابو داؤدؒ ہیں۔ امام ابو داؤد سے آگے ان کے ناقلین میں یہ اختلاف ہوا ہے۔ اب یہ برابر ہے کہ وہ ناقلین سنن کے ہوں یا مراسیل کے، وہ ہیں ایک ہی بندے یعنی ابو داؤدؒ پر مختلف۔ اب جب اس روایت میں احتمال آ چکا ہے تو اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس روایت کی کسی سمت کو کسی اور سند سے ترجیح نہ مل جائے۔
یہاں شیخ محترم فرماتے ہیں: :دونوں کا معنی ہاتھ باندھنا ہی ہے لہذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
ہم نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ جب معاملہ "ذراع" کا معنی بیان کرنے کا تھا تب محترم شیخ کئی حوالے لے آئے اور جب معاملہ "تشبیک" کا معنی بیان کرنے کا ہے تب فقط چند الفاظ میں کام نمٹا دیا۔
محترم شیخ! تشبیک الاصابع کا مطلب ہے انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالنا۔ تشبیک کا اصل مطلب ایک دوسرے میں گھسانا ہے۔
"وأصل الشبك هو الخلط والتداخل، ومنه تشبيك الأصابع، وهو إدخال الأصابع بعضها في بعض، وقد نهي عنه في الصلاة كما نهي عن عقص الشعر واشتمال الصماء والاحتباء"
تاج العروس 27۔217 دار الہدایہ
معجم الوسیط و اللفظ لتاج العروس
اگر تشبیک کا معنی آپ کے قول کے مطابق "ہاتھ باندھنا" مان لیا جائے تو پھر ان روایات کا کیا ہوگا جن میں نبی کریم ﷺ کے داڑھی کے خلال کو لفظ "تشبیک" سے تعبیر کیا گیا ہے؟ اور ان روایات کا کیا معنی ہوگا جن میں مسجد میں یا نماز میں تشبیک سے منع کیا گیا ہے؟ کیا وہاں بھی یہ کہا جائے گا کہ یہاں داڑھی پر ہاتھ باندھنا مراد ہے یا مسجد میں ہاتھ باندھنا منع کیا گیا ہے؟ لہذا دونوں معانی کو ایک بتانا ایک انتہائی نامناسب عمل ہے جو اگر بھول میں ہوا ہو تو خیر ہے لیکن اگر خدا نخواستہ جان کر ہوا ہو تو ہمیں ڈر ہے کہ لوگوں کو "غلط بیانی کر کے گمراہ کرنے" میں داخل نہ ہو۔
مسلک احناف یا مسلک اہل حدیث؟
جناب شیخ دام فیوضہم ارشاد فرماتے ہیں: "رہا اس روایت کا مرسل ہونا تو عرض ہے کہ احناف کے یہاں مرسل روایت حجت ہوتی ہے۔"
آگے فرماتے ہیں: "محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کی موجودگی میں مقبول ہے۔"
پھر اس کی مؤید احادیث کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں: "چونکہ اس مرسل روایت کے بہت سارے شواہد ہیں، جیسا کہ اس کتاب کے باب اول میں ہی مذکور ہے۔۔۔"
ہم تبصرۃً کہتے ہیں کہ کتاب کے باب اول کی روایات مرفوعہ کے بارے میں تو ہم عرض کر چکے ہیں کہ ان میں موجود "مکمل ذراع" کا فلسفہ اس روایت میں موجود "مکمل ید" کے فلسفے سے ٹکرا رہا ہے لہذا وہ تو اس روایت کی مؤید ہو نہیں سکتیں۔ ہاں آگے آنے والی احادیث کی بات کریں تو وہ احادیث بہرحال کلام سے خالی نہیں ہیں۔ ان پر کسی نہ کسی صورت کلام ہوا ہے۔ خیر ان کا ذکر آگے کریں گے۔
فی الحال ہم یہ بتاتے چلیں کہ شیخ کے اس دعوے سے بہت سے اہل حدیث اب پریشان ہیں کہ مسلک احناف پر عمل کر کے اس مرسل روایت کو قابل حجت مانیں یا مسلک اہل حدیث پر عمل کرکے اس روایت کی مؤید احادیث میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں پڑیں؟ اب ہم ان اہل حدیث بھائیوں کے درد کا درمان تلاش کر رہے ہیں (جو کہ اب تک کے دلائل میں تو نہیں ملا)۔
جناب محترم حضرت الشیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اس کے بعد حدیث ہلب الطائی رضی اللہ عنہ پیش فرمائی ہے۔ اس کی تصحیح کے سلسلے میں شیخ محترم نے یہ شکوہ فرمایا ہے کہ علامہ ہاشم ٹھٹھویؒ نے معیار النقاد میں اولاً اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے اور پھر جب علماء اہل حدیث نے ایک نکتے کی وضاحت کر دی تو ہاشمؒ نے اس کی سند پر ہی بحث شروع کر دی۔ اس کے بعد نہایت درد دل کے ساتھ فرمایا ہے: "فإلی اللہ المشتکی"۔
سچ کہیں تو اس شکوے پر قریب تھا کہ ہماری بھی آنکھیں بھر آتیں اگر ہم یہ دیکھ کر حیران نہ رہ گئے ہوتے کہ معیار النقاد علامہ ہاشم ٹھٹھویؒ اور علامہ حیات سندھیؒ کے مابین اس مسئلے پر گفتگو کا آخری رسالہ ہے اور اس کے بعد علامہ حیات سندھیؒ نے انہیں کوئی جوابی رسالہ نہیں بھیجا تھا۔ اب ہماری سمجھ میں یہ نہیں آ پارہی کہ وہ کون سے علماء اہل حدیث تھے جنہوں نے ہاشم ٹھٹھویؒ کو اس نقطے سے آگاہی دلائی اور ان کے جواب میں ہاشمؒ نے سند پر بحث شروع کر دی؟ ایسے کسی عالم کا کوئی رسالہ یا کوئی خط ہمیں نہیں ملا نہ ہی ایسی کسی بحث یا مناظرے کا ثبوت ملا۔ امید ہے کہ حضرت شیخ اس طرف ہماری رہنمائی فرما کر ایسا کوئی رسالہ جلد از جلد عنایت فرمائیں گے۔
خیر اس حدیث پر بات کرنے سے پہلے ہم ایک اور مسئلے پر بات کرتے ہیں اور وہ مسئلہ ہے ائمہ اربعہ کے مسالک کا۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں: " گزشتہ سطور میں ہم بتا چکے ہیں کہ امام شافعیؒ سے بھی یہ قول منقول ہے، بلکہ بعض روایات کے مطابق امام احمدؒ سے بھی یہ قول منقول ہے اور معنوی طور پر یہی قول امام مالکؒ سے بھی منقول ہے۔"
شیخ محترم نے جو فرمایا وہ سر آنکھوں پر لیکن بات تعجب کی یہ تھی کہ علامہ شوکانیؒ و دیگر کو ان مذاہب کی تحریر کے وقت یہ اقوال بھلا کیوں نہ نظر آئے؟ چنانچہ ہم نے سوچا کہ بجائے تقلید کے کچھ تحقیق ہی کر لی جائے۔
مذہب مالکیہ:
حضرت شیخ فرماتے ہیں: "امام مالک سے ارسال کا قول مروی ہے۔ یعنی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا۔ مگر دیگر مالکیہ نے امام مالک کی طرف اس نسبت کو غلط قرار دیا ہے اور امام مالک کا صحیح قول یہ بتلایا ہے کہ وہ بھی ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔"
دیگر مالکیہ کی یہ تحقیق محترم شیخ نے ھیئۃ الناسک سے لی ہے لیکن شاید ہاتھ باندھنے کی صورت میں تقریباً تمام (جی ہاں تمام اور "تقریباً" کی قید صرف اس لیے ہے کہ شاید کوئی ایک آدھ روایت مرجوحہ نظر سے رہ گئی ہو) مالکیہ کے یہاں جو جگہ مراد لکھی ہے وہ شیخ سے اوجھل رہ گئی۔ صاحب ھیئۃ الناسک نے باقاعدہ ایک باب ہاتھ باندھنے کی جگہ کے بارے میں قائم کیا ہے اور کئی اقوال سے اسے "تحت الصدر" ثابت کیا ہے۔ ایک جانب تو یہ ہے اور دوسری جانب محترم شیخ نہایت پیار سے فرماتے ہیں: "نیز امام مالکؒ سے تحت الصدر کا قول بھی مروی ہے۔" ہمارا خیال ہے کہ یہ کاتب کی غلطی ہے ورنہ شیخ کا جملہ یہ ہوگا: "نیز امام مالکؒ سے تحت الصدر کا قول "ہی" مروی ہے۔" اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالکؒ سے دو ہی قول مروی ہیں: ایک ارسال کا اور دوسرا تحت الصدر کا۔ اور ہاتھ باندھنے کی صورت میں فقط تحت الصدر کا قول ہی مالکیہ کو معلوم ہے۔
محترم شیخ دامت برکاتہم امام مالکؒ کے یہاں سینے پر ہاتھ باندھنے کے حوالے سے دور کی کوڑی لائے ہیں۔فرماتے ہیں: "عرض ہے کہ سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ وضاحت کی جاچکی ہے۔ لہذا اگر امام مالکؒ نے اس حدیث کو اپنایا ہے تو اس حدیث کی رو سے امام مالکؒ کا قول بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا ہی ہے۔"
ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ حضرت شیخ اس کوڑی کی تلاش میں بہت دور نکل گئے تھے جس کی وجہ سے جو کوڑی ملی وہ کام کی نہیں ہے۔ امام مالکؒ کا مسلک وہ ہے جسے مالکیہ بیان کرتے ہیں۔ مذاہب اربعہ کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ یہ باقاعدہ تلمذ کے طریقے سے محفوظ رہے ہیں ورنہ فقہاء و مجتہدین اور بھی کئی تھے لیکن انہیں صحیح شاگرد نہیں ملے۔ چنانچہ امام مالکؒ کا مسلک وہ مقبول ہوگا جسے ان کے شاگرد اور ان کے مسلک کے فقہاء نقل کریں گے۔ اور شیخ محترم نے تو جو قول امام مالکؒ کی طرف منسوب کیا ہے وہ ان سے کسی ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں۔
یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ شیخ کی مراد "جیسا کہ وضاحت کی جا چکی ہے" سے "مکمل ذراع" والا فلسفہ ہے جو کہ ویسے ہی درست نہیں ہے اور "مکمل ید" کی وجہ سے اس میں سقم آ چکا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ امام مالکؒ کے یہاں اس حدیث سے "مکمل ذراع" مراد ہی نہیں ہے بلکہ کلائی مراد ہے۔ چنانچہ امام مالکؒ سے تحت الصدر کے قول کے بارے میں جو اختلاف ہوا ہے وہ بھی دائیں ہاتھ سے بائیں کلائی کو پکڑنے کے بارے میں ہے۔ چنانچہ علامہ زرقانیؒ فرماتے ہیں:
(وهل يجوز القبض) لكوع اليسرى بيده اليمنى واضعًا لهما تحت الصدر وفوق السرة (في النفل) طول فيه أم لا لجواز الاعتماد فيه من غير ضرورة (أو) يجوز (إن طول) فيه ويكره إن قصر تأويلان
ترجمہ: "اور کیا بائیں کلائی کو دائیں ہاتھ سے پکڑنا جبکہ دونوں کو سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر رکھا ہوا ہو نفل میں جائز ہے چاہے نفل میں طوالت ہو یا نہ ہو بغیر ضرورت سہارے کے جائز ہونے کی بناء پر یا طوالت کے ساتھ نفل میں جائز ہے اور مختصر میں جائز نہیں؟ اس میں دو تاویلیں ہیں۔"
اس کے تحت علامہ بنانی حاشیے میں لکھتے ہیں:
(وهل يجوز القبض في النفل أو إن طول الخ) قال في المدوّنة ولا يضع يمناه على يسراه في فريضة وذلك جائز في النوافل لطول القيام فقال صاحب البيان ظاهرها أن الكراهة في الفرض والنفل إلا أن أطال في النافلة فيجوز حينئذ وذهب غيره إلى أن مذهبها الجواز في النافلة مطلقًا لجواز الاعتماد فيها من غير ضرورة فهذان تأويلان على قول المدوّنة بالكراهة وفي القبض ثلاثة أقوال أخر غير الكراهة أحدها الاستحباب في الفرض والنفل وهو قول مالك في رواية مطرف وابن الماجشون عنه في الواضحة وقول المدنيين من أصحابنا واختاره غير واحد من المحققين منهم اللخمي وابن عبد البر وأبو بكر بن العربي وابن رشد وابن عبد السلام وعده ابن رشد في مقدماته من فضائل الصلاة وتبعه القاضي عياض في قواعده ونسبه في الإكمال إلى الجمهور وكذا نسبه لهم الحفيد ابن رشد وهو أيضًا قول الأئمة الثلاثة الشافعي وأبي حنيفة وأحمد وغيرهم من أئمة المذاهب كما ذكره في الاستذكار انظر نصوص من ذكرنا في رسالة الشيخ مس في القبض ووقع في كلام ابن عرفة نسبة هذا القول لسماع القرينين وهما أشهب وابن نافع وتبعه ق في ذلك واعترضه غ في تكميل التقييد وقال إنه وهم أو تصحيف وكان الصواب أن يعبر بالأخوين كما عبر به بعد في نقل كلام ابن رشد إذ هما عنده مطرف وابن الماجشون لكثرة توافقهما ومصاحبتهما في كتب الفقه بالذكر وقد تبع ابن عرفة ذلك الوهم أو التصحيف أبو العباس في القلشاني في شرحه على ابن الحاجب الثاني من الأقوال الثلاثة إباحة القبض في الفرض والنفل معًا وهو قول مالك في سماع القرينين وقول أشهب في رسم شك في طوافه من سماع ابن القاسم القول الثالث منع القبض فيهما حكاه الباجي وتبعه ابن عرفة قال الشيخ مس وهو من الشذوذ بمكان ثم قال مس أيضًا وإذا تقرر الخلاف في أصل القبض كما ترى وجب الرجوع إلى الكتاب والسنة كما قال تعالى: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ} [النساء: 59] وقد وجدنا سنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قد حكمت بمطلوبية القبض في الصلاة بشهادة ما في الموطأ والصحيحين وغيرهما من الأحاديث السالمة من الطعن فالواجب الانتهاء إليها والوقوف عندها والقول بمقتضاها اهـ.
(شرح الزرقانی علی مختصر الخلیل، 1۔379، ط: دار الکتب العلمیۃ)
اس مکمل عبارت کا ترجمہ بلا فائدہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس میں کلائی کو پکڑنے کے حوالے سے مالکیہ کے کل پانچ مذاہب کا بیان ہوا ہے:
1۔ نفل میں جائز ہے چاہے طوالت ہو یا نہ ہو۔ (یہ شرح کی روایت ہے)
2۔ نفل میں جائز ہے جب طوالت ہو۔ (یہ شرح کی روایت ہے۔)
3۔ فرض و نفل میں مستحب ہے۔
4۔ دونوں میں مباح ہے۔
5۔ بہر صورت ناجائز ہے۔
یہاں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ مالکیہ میں کوئی ایک قول بھی ہاتھ کو بازو پر پھیلانے کے حوالے سے نہیں ہے اور کلائی کو پکڑ کر ہاتھ بازو پر پھیلانا ممکن نہیں۔ حضرت شیخ نے اپنے قول کی بنیاد ہی اس پر رکھی تھی کے بازو پر ہاتھ رکھنے سے ہاتھ سینے پر آ جاتے ہیں۔ اب جب بازو پر ہاتھ رکھنا امام مالکؒ سے ثابت ہی نہیں ہے تو سینے پر ہاتھ اس طریقے سے پہنچانا بھی ممکن نہیں رہا۔ شیخ محترم سے یہاں سخت تسامح ہوا ہے اور امام مالکؒ کا وہ مسلک بیان کر گئے ہیں جو نہ تو امام مالکؒ کو معلوم ہے اور نہ ہی مالکیہ کو۔ اللہ پاک درگزر فرمائیں۔
مذہب شافعیہ:
حضرت شیخ محترم نے امام شافعیؒ کے حوالے سے بڑا زبردست دعوی کرتے ہوئے فرمایا ہے: "امام شافعیؒ سے پوری صراحت کے ساتھ سینے پر ہاتھ باندھنے کا قول مروی ہے۔"
آگے جو قول ذکر کیا ہے وہ ابن ملقنؒ کا ہے۔ انہوں نے ذکر کیا ہے: "قال: و وضع الیمین علی الیسار علی الصدر" حضرت شیخ ترجمہ فرماتے ہیں: "امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ "دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھے جائیں۔"
مسئلہ کچھ یوں ہے کہ ابن ملقن کی یہ شرح علامہ تبریزیؒ کی کتاب مختصر ہے یعنی اس "قال" کے قائل علامہ تبریزیؒ ہیں۔ ہم نے بہت تلاش کیا اور غور و فرک کے گھوڑے دوڑائے کہ کسی طرح علامہ تبریزیؒ کو امام شافعیؒ بنا سکیں لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ علامہ تبریزیؒ 621 ھ میں فوت ہوئے ہیں اور امام شافعیؒ سے کم و بیش چار سو سال متاخر ہیں۔ نیز امام شافعیؒ شاید ہی کبھی تبریز گئے ہوں۔ پھر بھلا علامہ تبریزیؒ کا قول امام شافعیؒ کی صراحت کیسے بن سکتا ہے؟ بہرحال انسان خطا کا پتلا ہے۔ شیخ محترم سے جوش خطابت یا جوش کتابت میں غلطی ہو گئی ہوگی۔
جن ابن ملقنؒ کی کتاب سے شیخ محترم نے حوالہ نقل کیا ہے ان ہی کی ایک اور کتاب میں کچھ یوں تحریر ہے:
وإذا قلنا بأخذ اليمين باليسار فيكون ذلك تحت الصدر وفوق السرة؛ لحديث وائل بن حجر۔۔۔
ترجمہ: "اور جب ہم قائل ہیں بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑنے کے تو یہ سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر ہوگا بوجہ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔"
یہاں ہم نے اخذ الیمین بالیسار کا ترجمہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑنا دیگر عبارات کی وجہ سے کیا ہے۔ ورنہ اس کا ترجمہ الٹا بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس سے آگے فرماتے ہیں:
فعلى الأول: يضع كف يمينه على يساره قابضًا كوعها وبعض رسغها: وهو المفصل وساعدها.
قال القفال: ويتخير بين بسط أصابع يمينه في عرض المفصل وبين نشرها في صوب الساعد. وقيل: يضع كفه اليمنى على زراعه الأيسر، قاله بعض الحنفية، والأصح عندنا أنه يحط يديه بعد التكبير تحت صدره. وقيل: يرسلهما ثم يستأنف فعلهما إلى تحت صدره.
(التوضیح لشرح الجامع الصحیح، 6۔642، ط: دار النوادر)
ترجمہ: " پہلے قول کے مطابق: اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر کلائی اور گٹے کو پکڑتے ہوئے رکھے گا، اور یہ (رسغ) جوڑ اور بازو ہے۔
قفال کہتے ہیں: اسے اختیار ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو جوڑ کی چوڑائی میں پھیلا لے یا بازو کی لمبائی میں پھیلا لے۔ اور کہا گیا ہے کہ دائیں ہتھیلی بائیں بازو پر رکھے گا۔ یہ بعض حنفیہ نے کہا ہے۔ اور ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ تکبیر کے بعد اپنے ہاتھ سینے کے نیچے تک نیچے کر لے گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ ہاتھوں کو چھوڑ دے گا پھر دوبارہ سینے کے نیچے تک کرے گا۔"
محترم شیخ شايد نہ جانتے ہوئے بعض حنفیہ کی رائے کی جانب چلے گئے ہیں۔ بہرحال یہ ابن ملقن کی اپنی وضاحت ہے کہ ہاتھ رکھنے کا مقام شافعیہ کے نزدیک کیا ہوگا۔
یہاں دو باتیں قابل وضاحت ہیں:
1۔ شیخ محترم نے جس کتاب سے حوالہ دیا ہے شافعیہ کے نزدیک اس کتاب اور اس طرح کی دوسری مجمل کتب سے فتوی نہیں دیا جاتا۔ کیوں کہ ان میں احتمال ہوتا ہے کہ اس کی تفصیل موجود نہ ہو۔ اور یہ صرف شافعیہ میں ہی خاص نہیں ہے بلکہ دیگر مسالک میں بھی یہی طریقہ کار ہے۔ چنانچہ احناف کے فتوی کے اصولوں کے لیے ابن عابدینؒ کی شرح عقود رسم المفتی اور شافعیہ کے اصولوں کے لیے ابن حجر ہیثمیؒ کی نہایۃ المحتاج اور دیگر كتب ديكهي جا سکتی ہیں۔
2۔ فقہ کے اندر مختصر اقوال کی قیود اور شروح مفصل اقوال سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اگر ایک جگہ ایک لفظ مذکور ہو اور دوسری جگہ اس کی تفصیل مذکور ہو تو اس تفصیل کے مطابق اس لفظ کو لیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حدیث کی کتب میں موجود اصطلاحات کو اس تفصیل کے ذریعے سمجھا جاتا ہے جو کتب اصول حدیث میں مذکور ہوتی ہے، فقط لغت سے نہیں سمجھا جاتا۔ محترم شیخ تو ہمارے حسن ظن کے مطابق محقق اور متبحر عالم ہیں۔ یہ تفصیلات ان کے لیے ہیں جو فقہ میں نو آموز ہوں۔
چنانچہ فقہ شافعی میں اگر ایک جگہ ایک لفظ مختصر یا مجمل استعمال ہوا ہو اور دوسری جگہ اس کی تفصیل مذکور ہو تو وہاں سے تفصیل اخذ کی جائے گی الا یہ کہ وہ تفصیل خود شوافع کی نظر میں مرجوح ہو۔
علامہ نوویؒ اور زکریا انصاریؒ کی وضاحتیں:
علامہ نووی اور امام رافعی رحمہما اللہ فقہ شافعی کے ستون سمجھے جاتے ہیں۔ ان دو حضرات نے اس فقہ کو مدون کیا اور اس کی چھان پھٹک کی۔ ہم تفصیل میں نہیں جاتے لیکن تفصیل کے لیے نہایۃ المحتاج دیکھی جا سکتی ہے۔
دسویں صدی میں چار بڑے علماء شوافع گزرے ہیں جن پر فتاوی کا مدار ہے۔ ہم ان میں سے صرف ایک زکریا انصاریؒ کا حوالہ نقل کرتے ہیں۔ اس سے پہلے علامہ نوویؒ کا ارشاد بھی پیش خدمت ہے:
قال أصحابنا السنة أن يحط يديه بعد التكبير ويضع اليمنى على اليسرى ويقبض بكف المينى كوع اليسرى وبعض رسغها وساعدها قال القفال يتخير بين بسط أصابع اليمنى في عرض المفصل وبين نشرها في صوب الساعد ويجعلهما تحت صدره وفوق سرته هذا هو الصحيح المنصوص
(المجموع للنووی، 3۔310، ط: دار الفکر)
ترجمہ: "ہمارے اصحاب کہتے ہیں: سنت یہ ہے کہ تکبیر کے بعد اپنے ہاتھ نیچے لر لے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ لے اور دائیں ہتھیلی سے بائیں کلائی اور کچھ گٹا اور بازو پکڑ لے۔ قفال کہتے ہیں: اسے اختیار ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں جوڑ کی چوڑائی میں پھیلا لے یا بازو کی لمبائی میں پھیلا لے۔ اور ان دونوں ہاتھوں کو سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر رکھے گا۔ یہی صحیح منصوص (مذہب) ہے۔"
شیخ الاسلام زکریا انصاریؒ فرماتے ہیں:
(ويضعهما) أي اليدين (بين السرة، والصدر)
(اسنی المطالب، 1۔145، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ترجمہ: "اور ان دونوں کو یعنی دونوں ہاتھوں کو ناف اور سینے کے بیچ رکھے گا۔"
اس موضوع پر کئی حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں کیوں کہ یہ شافعیہ میں معروف مسئلہ ہے اور ان کی اکثر کتب فقہ میں مذکور ہے۔ فی الحال ان دو پر اکتفاء کیا جا رہا ہے۔ اگر شیخ محترم طلب فرمائیں تو مزید پیش کر دیے جائیں گے۔
شیخ کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں: "عرض ہے کہ امام شافعیؒ سے علی الصدر کی صراحت آ جانے کے بعد تحت الصدر کا مفہوم یہی ہوگا کہ اس سے سینے کا اوپری حصہ مراد لے کر کہا گیا ہے کہ ہاتھ اس سے نیچے رکھے جائیں۔" اس پر شیخ محترم نے شیخ ہاشم ٹھٹھویؒ کا ایک اقتباس بھی پیش فرمایا ہے جس پر ذرا بعد میں گفتگو کرتے ہیں۔ پہلے ہماری چند معروضات سن لیجیے:
1۔ امام شافعیؒ سے "علی الصدر" کی صراحت نہیں آئی بلکہ وہ تبریزیؒ کا قول تھا۔ نیز وہ کتاب فتاوی کی معتمد کتاب بھی نہیں ہے۔
2۔ اوپر مذکور زکریا انصاریؒ کا قول "بین السرۃ و الصدر" یعنی "ناف اور سینے کے بیچ" اس کے صراحتاً خلاف ہے۔
3۔ جس طرح شیخ محترم "ذراع" کے مکمل معانی کو کتب لغت میں تلاش کر کے اس پر عمل پیرا ہیں اسی طرح اگر "تحت" کے معنی کو کتب لغت میں دیکھ لیں تو اس تاویل کو شاید خود ہی فاسد سمجھ لیں۔
ہاشم ٹھٹھویؒ کا اقتباس حضرت شیخ نے یہ لگایا ہے:
"و اجاب عنہ بعض متاخری الشافعیۃ کالمحلی فی شرح المنہاج و ابن حجر المکی فی شرح العباب بان المراد من الصدر فی قول الشافعیۃ تحت الصدر اعلاہ و فی حدیث وائل الذی فیہ لفظ علی صدرہ اسفلہ"
محترم شیخ نے اس کے ترجمے میں فرمایا ہے: "شافعیہ کے قول تحت الصدر میں صدر سے مراد سینے کا اوپری حصہ ہے اور وائل رضی اللہ عنہ کی جس حدیث میں علی الصدر کا لفظ ہے، اس سے مراد سینے کا نچلا حصہ ہے۔"
شیخ محترم سے اس ترجمے میں سخت تسامح ہوا ہے۔ اولاً تو ہم اوپر حوالے دے چکے ہیں کہ شافعیہ کے نزدیک سینے کا اوپری حصہ وضع الیدین کی جگہ ہی نہیں ہے بلکہ انہوں نے تحت الصدر کو وضع الیدین کی جگہ قرار دیا ہے۔ ثانیاً یہ بہتر تھا کہ جس طرح شیخ محترم جرح تعدیل کے اقوال کی سند تلاش کرتے ہیں اور اصل جگہ پر قول نہ ملنے یا سند نہ ملنے پر قول رد کر دیتے ہیں (حالانکہ علماء جرح و تعدیل نے یہ انداز نہیں اپنایا) اسی طرح یہاں بھی اصل کتب کی طرف مراجعت کرتے جن کا حوالہ ہاشمؒ نے دیا ہے۔
علامہ ہاشمؒ نے دو کتب کا حوالہ دیا ہے: شرح المنہاج للمحلی اور شرح العباب لابن حجر المکی۔
شرح المنہاج میں ہے: "زاد ابن خزیمۃ: علی صدرہ، ای آخرہ فیکون آخر الید تحتہ"
(کنز الراغبین، 1۔193، ط: دار المنہاج)
ترجمہ: "ابن خزیمہ نے علی صدرہ کی زیادتی کی ہے یعنی سینے کا آخری حصہ لہذا ہاتھ کا آخری حصہ سینے کے نیچے ہو جائے۔"
شرح العباب فی الحال مطبوعہ حالت میں موجود نہیں ہے۔ اس کا مخطوطہ جامعۃ الملک السعود میں موجود ہے۔ اس میں ہے:
"بین سرتہ و صدرہ لما صح انہ ﷺ وضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ ای آخرہ فتکون تحتہ بقرینۃ روایۃ تحت صدرہ"
ترجمہ : "(ہاتھ رکھے گا) اپنی ناف اور سینے کے درمیان اس لیے کہ نبی کریم ﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھا۔ یعنی سینے کے آخر میں تو وہ (ہاتھ) اس (سینے) کے نیچے ہوگا تحت صدرہ کی روایت کے قرینے سے۔"
ان دونوں حوالوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ احادیث میں تطبیق کرتے ہوئے ہاتھ رکھنے کی جگہ وہ بتائی گئی ہے جہاں ہاتھ کا کچھ حصہ سینے سے نیچے ہو اور کچھ سینے پر۔ اسے سینے سے متصل نیچے کا مقام کہا جا سکتا ہے۔ یہی مراد علامہ ہاشمؒ کی ہے۔ ان کے قول میں "اعلاہ" کا مطلب "اعلی تحت الصدر" ہے "اعلی الصدر" نہیں۔
اب اگر شیخ محترم کا مسلک بھی اسی مقام پر ہاتھ باندھنے کا ہے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اسے فقہاء کی اصطلاح میں تحت الصدر اور فوق السرۃ کہا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ پیٹ کا سب سے اوپری مقام ہوتا ہے جہاں سے سینہ شروع ہوتا ہے۔ تو اگر شیخ محترم کا مسلک اسی مقام کا ہے تو پھر وہ وضاحت فرما دیں۔ اور اگر اس سے ذرا بھی اوپر کا مسلک ہے تو پھر شافعیہ اور مالکیہ کا تو یہ مسلک نہیں ہے، حنابلہ کی تحقیق آئندہ کرتے ہیں۔
محترم شیخ نے حنفی علماء کے بھی کئی حوالے پیش فرمائے ہیں۔ اس حوالے سے ہم صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ مسلک شافعی علماء شوافع کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے علماء احناف کے اقوال سے نہیں۔ لہذا یہ حوالے پیش کرنا خواہ مخواہ کی درد سری ہے۔
کافی عرصہ ہوا کہ فقہی اور فروعی اختلافات پر بحثیں اور مناظرے (یا مناظرہ نما کہہ لیں) کرنا چھوڑ دیے۔ یہ سوچا کہ جو معاملات سلف سے مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں ان میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک جانب کو قطعاً و یقیناً راجح ثابت کر دیں؟ نیز دین کے بہت سے شعبے ہیں جہاں نئی تحقیقات کی ضرورت ہے تو ان شعبوں میں کام کیوں نہ کیا جائے کہ نافع ثابت ہو۔ چنانچہ فقہ المعاملات اور جدید مسائل میں تخصص فی الحال جاری ہے۔ کچھ تحقیقی کام بھی جاری ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اسے مکمل فرمائیں اور نافع بنائیں۔ آمین
آج کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ انوار البدر کا خیال آیا۔ سنا تھا بہت عمدہ کتاب ہے اور بہت سے جید علماء کرام نے اس پر تقاریظ تحریر فرمائی ہیں۔ نیز شیخ محترم کفایت اللہ سنابلی صاحب دام فیوضہم کی وسعت مطالعہ اور کثرت علم کا تو میں اسی دن سے معترف ہوں جس دن ان کی پہلی تحریر ایک فورم پر نظروں سے گزری تھی۔ لیکن جب کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو کچھ عجیب سے احساسات نے آ گھیرا۔ خیال ہوا کہ ان احساسات کو فورم کی نظر کر دیا جائے۔ شاید کہ کوئی میری اصلاح کر سکے۔
محترم شیخ نے اپنے تیسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 171 سے یہ بحث شروع فرمائی ہے کہ "ذراع" عربی میں کہنی کے سرے سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصے کو کہتے ہیں۔ سر آنکھوں پر! لیکن محترم شیخ نے جو اس سے پہلے روایت ذکر فرمائی ہے وہ کچھ یوں ہے:
كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة» قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم (بخاری)
شیخ محترم نے ذراع پر تو سیر حاصل بحث کی لیکن "ید" پر شاید بحث کرنا بھول گئے۔ "ید" یعنی ہاتھ عربی میں دو معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:
1۔ ہتھیلی اور انگلیوں کے لیے جو کہ اردو میں بھی معروف ہے۔
2۔ ہاتھ کی انگلی سے لے کندھے تک کے لیے۔
چنانچہ تاج العروس میں ہے:
(اليد) ، بتخفيف الدال وضمه (الكف أو من أطراف الأصابع إلى الكف) ؛ كذا في النسخ والصواب إلى الكتف؛ وهذا قول الزجاج؛ وقال غيره: إلى المنكب
شیخ محترم فرماتے ہیں:
اب اگر اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے "ذراع" (کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔"
جس طرح حدیث میں "ذراع" سے مکمل ذراع شیخ محترم نے مراد لیا ہے اسی طرح "ید" سے بھی مکمل "ید" مراد لینا چاہیے۔ "ید" کا اگر پہلا معنی لیا جائے یعنی صرف ہاتھ کا تو اتنا بڑا ہاتھ کم از کم ہم نے نہیں دیکھ جو اس پورے حصے پر آجائے۔ یہ لازماً کچھ حصے پر ہی آئے گا اور باقی حصے پر دایاں بازو یعنی ذراع آئے گا۔
اور اگر دوسرا معنی یعنی انگلی سے کندھے تک مراد لیا جائے تو اسے پورا کا پورا بائیں "ذراع" پر کیسے رکھا جائے گا یہ ہماری ناقص فہم سے باہر ہے۔ میرا خیال ہے کہ جیسے بچے ہاتھی سونڈ کھیلتے ہیں اسی طرح کی کوئی صورت بنانی ہوگی۔ شیخ محترم سے درخواست ہے کہ اگر ان دونوں معانی کی ایک ایک تصویر ارسال فرما دیں تو وضاحت تامہ ہو جائے۔
اور اگر "ید" سے مراد "بعض ید" ہے تو پھر "ذراع" سے مراد "بعض ذراع" کیوں نہیں ہے؟
شیخ محترم کفایت اللہ سنابلی صاحب نے دوسری روایت سنن نسائی کی پیش فرمائی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
أن وائل بن حجر أخبره قال: " قلت لأنظرن إلى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي، فنظرت إليه فقام فكبر، ورفع يديه حتى حاذتا بأذنيه، ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد
اس کے آخری جملے کا ترجمہ شیخ نے یہ فرمایا ہے: "پھر آپ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت، کلائی اور بازو کے اوپر رکھا۔"
آگے استدلال فرماتے ہیں: "اس حدیث کے مطابق اگر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اس پورے حصے پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود ہی سینے پر آئیں گے۔"
لیکن مسئلہ یہاں بھی وہی ہے کہ ید کے دونوں معانی کے مطابق پورا کا پورا دایاں ہاتھ اس حصے پر آ ہی نہیں سکتا۔ اب یا تو حدیث مبارکہ میں درایۃً ضعف ہے اور یا پھر شیخ محترم کی فہم میں سقم ہے۔ حدیث مبارکہ تو صحیح ہے البتہ موخر الذکر کی بابت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ البتہ ہم بصد احترام عرض کرتے ہیں کہ اگر شیخ محترم اگر اپنے "مکمل" ذراع کے مقدمے سے ذرا تنزل فرمائیں اور "ذراع" کو بعض ذراع سمجھیں تو اس روایت کا مطلب یہ ہوگا کہ دائیں ہاتھ (اپنے پہلے معنی یعنی ہتھیلی اور انگلیوں کے معنی میں) کو بائیں ہاتھ پر اس طرح رکھا کہ اس کا بعض حصہ ہتھیلی پر، بعض کلائی پر اور بعض بازو پر آ گیا۔ اس معنی میں یہ روایت صحیح ہو جائے گی اور یہ معنی ان روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے جن میں ہے: ووضع يده اليمنى على يده اليسرى (مسند ابی داود الطیالسی، مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ، المعجم الکبیر للطبرانی و غیرھا) کیوں کہ اگر ان روایات میں آپ نے "ید" سے مراد صرف "ذراع" لیا تو اس پر آپ کو واضح دلیل لانی ہوگی اور اس کے بعد بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا کہ "ید" یمنی اس ذراع پر مکمل کیسے آئے گا۔
دلیل کے ضمن میں شیخ یہ فرما سکتے ہیں کہ جن روایات میں "ذراع" مذکور ہے وہ روایات وضاحت کر رہی ہیں کہ "ید" سے مراد (دوسرے معنی کے لحاظ سے) بعض حصہ ہے لیکن اس صورت میں ہمیں بھی یہ عرض کرنے کا حق ہوگا کہ جن روایات میں "ید" آیا ہے وہ وضاحت کر رہی ہیں کہ (ید کے پہلے معنی کے لحاظ سے) "ذراع" سے مراد بعض حصہ ہے۔ اور کسی بات کو کسی پر ترجیح حاصل نہ ہو پائے گی۔
حضرت شیخ محترم جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب نے تیسری روایت مراسیل ابی داؤد کی مرسل طاوس پیش فرمائی ہے اور اس پر کیے جانے والے بہت سے اعتراضات کا عمدہ جواب ارشاد فرمایا ہے۔ لیکن اس دلیل کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں:
"ید" یا "ذراع"؟
شیخ محترم کا نکتہ نظر یہ ہے کہ ہاتھ باندھنے میں مکمل "ذراع" پر ہاتھ باندھا جائے گا۔ گزشتہ دو حدیثوں میں انہوں نے یہی ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ مرسل طاوس کے الفاظ یہ ہیں:
حدثنا أبو توبة، حدثنا الهيثم، عن ثور، عن سليمان بن موسى، عن طاوس، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بهما على صدره وهو في الصلاة»
ہم نے کچھ وضاحت عرض کی تھی کہ "ید" کے دو معنی ہیں: معروف ہاتھ یا کندھے تک۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ ہاتھ "مکمل ذراع" پر باندھے جائیں یا "مکمل ید" پر۔ ہمارے معروض کا مقصد یہ ہے کہ شیخ محترم کے دلائل آپس میں متعارض ہیں۔ اب ہم کن دلائل کو مانیں؟ پہلے والے دلائل کو یا اس دلیل کو؟ ہو سکتا ہے کہ شیخ محترم فرمائیں کہ پہلے والے دلائل میں "علی الصدر" کی صراحت نہیں ہے اور اس دلیل میں ہے۔ لہذا اس دلیل کو اصل سمجھا جائے۔
زیادتی یا تفرد؟
حضرت طاوس بن کیسانؒ جلیل القدر تابعی ہیں۔ انہوں نے حضرت عائشہ رض، حضرت جابر رض، حضرات عبادلہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر سے سماع فرمایا ہے (اختلاف اور اقوال سے قطع نظر کرتے ہوئے)۔ لیکن چونکہ یہ تابعی ہیں اس لیے ان کا سماع براہ راست نبی کریم ﷺ سے نہیں ہے۔ انہوں نے جن صحابہ کرام سے سماع فرمایا ہے ان میں سے کسی ایک نے بھی "علی الصدر" کی زیادتی روایت نہیں کی۔ بلکہ ہمارے علم کی حد تک یہ پوری روایت ہی نقل نہیں فرمائی۔ ان کے علاوہ جن صحابہ کرام رض (جیسے عبد اللہ بن مسعود رض اور وائل بن حجر رض) نے یہ روایت نقل کی ہے ان کے اکثر طرق میں بھی "علی الصدر" کی زیادتی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ طاوسؒ یہ الفاظ اور یہ روایت کہاں سے لائے؟
محترم شیخ فرماتے ہیں: "محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کی موجودگی میں مقبول ہے۔"
ہم عرض کرتے ہیں کہ طاوس کی یہ روایت اور کسی سند سے ہمارے علم کی حد تک موجود نہیں ہے۔ اس کا معنی آپ کی پیش کردہ دیگر روایات میں موجود ہے لیکن یہ روایت ان الفاظ یا ہم معنی الفاظ کے ساتھ کہیں نہیں ہے جس میں "علی الصدر" بھی ہو اور "شد" یعنی ہاتھ باندھنے کا ذکر بھی ہو۔ یہ دو مستقل احکام ہیں۔ اس لیے آپ یہ تو فرما سکتے ہیں کہ اس روایت کا معنی مقبول ہے کیوں کہ یہ معنی دوسری احادیث میں وارد ہے لیکن یہ روایت بذات خود مقبول قرار دینا محل نظر ہے۔ جو روایات آپ نے پیش فرمائیں ان کے رواۃ سے طاوس کا سماع نہیں ہے یعنی درمیان میں کوئی واسطہ ہے۔
طاوس بن کیسانؒ کی اس روایت کا کیا کوئی متابع یا کوئی شاہد شیخ محترم ہمیں بتا دیں گے؟
"یشد" یا "یشبک"؟
شیخ محترم نے حنفیوں کے مراسیل کے درسی نسخے میں اس روایت میں "یشد" کے بجائے "یشبک" ہونے کی شکایت کی ہے اور ساتھ میں حنفیوں کے طریقہ کار کو بھی ناپسند فرمایا ہے۔ بجا ہے! لیکن ہم خدمت عالی میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مراسیل کے اس وقت تین مطبوعہ نسخے ہمارے سامنے موجود ہیں۔
1۔ ارناؤط کی تحقیق والا نسخہ جس میں "یشد" ہے۔
2۔ زہرانی کی تحقیق والا نسخہ جس میں انہوں نے "یشد" کو باقی رکھا ہے اور یہ کہا ہے کہ ان کے اصل مخطوطے (جس پر وہ اکثر اعتبار کرتے ہیں) میں یہ لفظ غیر واضح ہے۔
3۔ سیروان کی تحقیق والا نسخہ جس میں انہوں نے "یشبک" کو باقی رکھا ہے۔ سیروان کا نسخہ اس لحاظ سے سب سے منفرد ہے کہ سیروان نے اس کے لیے جن مخطوطات سے مدد لی ہے وہ نہایت واضح ہیں جیسا کہ سیروان کے نسخے کے شروع میں اور زہرانی کے نسخے کے شروع میں دیے گئے مخطوطات کے اسکین میں فرق دیکھا جا سکتا ہے۔ سیروان اور زہرانی دونوں نے کافی دقت کے ساتھ یہ تحقیق کی ہے۔
چنانچہ یہاں ابہام پیدا ہو جاتا ہے کہ اصل حدیث میں"یشد" تھا یا "یشبک"؟ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ سنن ابو داود میں یہاں "یشد" ہے اس لیے اس لفظ کو ترجیح ہوگی، مناسب نہیں۔ کیوں کہ دونوں روایات ایک ہیں اور دونوں کے راوی بھی ایک ہی یعنی امام ابو داؤدؒ ہیں۔ امام ابو داؤد سے آگے ان کے ناقلین میں یہ اختلاف ہوا ہے۔ اب یہ برابر ہے کہ وہ ناقلین سنن کے ہوں یا مراسیل کے، وہ ہیں ایک ہی بندے یعنی ابو داؤدؒ پر مختلف۔ اب جب اس روایت میں احتمال آ چکا ہے تو اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس روایت کی کسی سمت کو کسی اور سند سے ترجیح نہ مل جائے۔
یہاں شیخ محترم فرماتے ہیں: :دونوں کا معنی ہاتھ باندھنا ہی ہے لہذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
ہم نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ جب معاملہ "ذراع" کا معنی بیان کرنے کا تھا تب محترم شیخ کئی حوالے لے آئے اور جب معاملہ "تشبیک" کا معنی بیان کرنے کا ہے تب فقط چند الفاظ میں کام نمٹا دیا۔
محترم شیخ! تشبیک الاصابع کا مطلب ہے انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالنا۔ تشبیک کا اصل مطلب ایک دوسرے میں گھسانا ہے۔
"وأصل الشبك هو الخلط والتداخل، ومنه تشبيك الأصابع، وهو إدخال الأصابع بعضها في بعض، وقد نهي عنه في الصلاة كما نهي عن عقص الشعر واشتمال الصماء والاحتباء"
تاج العروس 27۔217 دار الہدایہ
معجم الوسیط و اللفظ لتاج العروس
اگر تشبیک کا معنی آپ کے قول کے مطابق "ہاتھ باندھنا" مان لیا جائے تو پھر ان روایات کا کیا ہوگا جن میں نبی کریم ﷺ کے داڑھی کے خلال کو لفظ "تشبیک" سے تعبیر کیا گیا ہے؟ اور ان روایات کا کیا معنی ہوگا جن میں مسجد میں یا نماز میں تشبیک سے منع کیا گیا ہے؟ کیا وہاں بھی یہ کہا جائے گا کہ یہاں داڑھی پر ہاتھ باندھنا مراد ہے یا مسجد میں ہاتھ باندھنا منع کیا گیا ہے؟ لہذا دونوں معانی کو ایک بتانا ایک انتہائی نامناسب عمل ہے جو اگر بھول میں ہوا ہو تو خیر ہے لیکن اگر خدا نخواستہ جان کر ہوا ہو تو ہمیں ڈر ہے کہ لوگوں کو "غلط بیانی کر کے گمراہ کرنے" میں داخل نہ ہو۔
مسلک احناف یا مسلک اہل حدیث؟
جناب شیخ دام فیوضہم ارشاد فرماتے ہیں: "رہا اس روایت کا مرسل ہونا تو عرض ہے کہ احناف کے یہاں مرسل روایت حجت ہوتی ہے۔"
آگے فرماتے ہیں: "محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کی موجودگی میں مقبول ہے۔"
پھر اس کی مؤید احادیث کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں: "چونکہ اس مرسل روایت کے بہت سارے شواہد ہیں، جیسا کہ اس کتاب کے باب اول میں ہی مذکور ہے۔۔۔"
ہم تبصرۃً کہتے ہیں کہ کتاب کے باب اول کی روایات مرفوعہ کے بارے میں تو ہم عرض کر چکے ہیں کہ ان میں موجود "مکمل ذراع" کا فلسفہ اس روایت میں موجود "مکمل ید" کے فلسفے سے ٹکرا رہا ہے لہذا وہ تو اس روایت کی مؤید ہو نہیں سکتیں۔ ہاں آگے آنے والی احادیث کی بات کریں تو وہ احادیث بہرحال کلام سے خالی نہیں ہیں۔ ان پر کسی نہ کسی صورت کلام ہوا ہے۔ خیر ان کا ذکر آگے کریں گے۔
فی الحال ہم یہ بتاتے چلیں کہ شیخ کے اس دعوے سے بہت سے اہل حدیث اب پریشان ہیں کہ مسلک احناف پر عمل کر کے اس مرسل روایت کو قابل حجت مانیں یا مسلک اہل حدیث پر عمل کرکے اس روایت کی مؤید احادیث میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں پڑیں؟ اب ہم ان اہل حدیث بھائیوں کے درد کا درمان تلاش کر رہے ہیں (جو کہ اب تک کے دلائل میں تو نہیں ملا)۔
جناب محترم حضرت الشیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اس کے بعد حدیث ہلب الطائی رضی اللہ عنہ پیش فرمائی ہے۔ اس کی تصحیح کے سلسلے میں شیخ محترم نے یہ شکوہ فرمایا ہے کہ علامہ ہاشم ٹھٹھویؒ نے معیار النقاد میں اولاً اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے اور پھر جب علماء اہل حدیث نے ایک نکتے کی وضاحت کر دی تو ہاشمؒ نے اس کی سند پر ہی بحث شروع کر دی۔ اس کے بعد نہایت درد دل کے ساتھ فرمایا ہے: "فإلی اللہ المشتکی"۔
سچ کہیں تو اس شکوے پر قریب تھا کہ ہماری بھی آنکھیں بھر آتیں اگر ہم یہ دیکھ کر حیران نہ رہ گئے ہوتے کہ معیار النقاد علامہ ہاشم ٹھٹھویؒ اور علامہ حیات سندھیؒ کے مابین اس مسئلے پر گفتگو کا آخری رسالہ ہے اور اس کے بعد علامہ حیات سندھیؒ نے انہیں کوئی جوابی رسالہ نہیں بھیجا تھا۔ اب ہماری سمجھ میں یہ نہیں آ پارہی کہ وہ کون سے علماء اہل حدیث تھے جنہوں نے ہاشم ٹھٹھویؒ کو اس نقطے سے آگاہی دلائی اور ان کے جواب میں ہاشمؒ نے سند پر بحث شروع کر دی؟ ایسے کسی عالم کا کوئی رسالہ یا کوئی خط ہمیں نہیں ملا نہ ہی ایسی کسی بحث یا مناظرے کا ثبوت ملا۔ امید ہے کہ حضرت شیخ اس طرف ہماری رہنمائی فرما کر ایسا کوئی رسالہ جلد از جلد عنایت فرمائیں گے۔
خیر اس حدیث پر بات کرنے سے پہلے ہم ایک اور مسئلے پر بات کرتے ہیں اور وہ مسئلہ ہے ائمہ اربعہ کے مسالک کا۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں: " گزشتہ سطور میں ہم بتا چکے ہیں کہ امام شافعیؒ سے بھی یہ قول منقول ہے، بلکہ بعض روایات کے مطابق امام احمدؒ سے بھی یہ قول منقول ہے اور معنوی طور پر یہی قول امام مالکؒ سے بھی منقول ہے۔"
شیخ محترم نے جو فرمایا وہ سر آنکھوں پر لیکن بات تعجب کی یہ تھی کہ علامہ شوکانیؒ و دیگر کو ان مذاہب کی تحریر کے وقت یہ اقوال بھلا کیوں نہ نظر آئے؟ چنانچہ ہم نے سوچا کہ بجائے تقلید کے کچھ تحقیق ہی کر لی جائے۔
مذہب مالکیہ:
حضرت شیخ فرماتے ہیں: "امام مالک سے ارسال کا قول مروی ہے۔ یعنی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا۔ مگر دیگر مالکیہ نے امام مالک کی طرف اس نسبت کو غلط قرار دیا ہے اور امام مالک کا صحیح قول یہ بتلایا ہے کہ وہ بھی ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔"
دیگر مالکیہ کی یہ تحقیق محترم شیخ نے ھیئۃ الناسک سے لی ہے لیکن شاید ہاتھ باندھنے کی صورت میں تقریباً تمام (جی ہاں تمام اور "تقریباً" کی قید صرف اس لیے ہے کہ شاید کوئی ایک آدھ روایت مرجوحہ نظر سے رہ گئی ہو) مالکیہ کے یہاں جو جگہ مراد لکھی ہے وہ شیخ سے اوجھل رہ گئی۔ صاحب ھیئۃ الناسک نے باقاعدہ ایک باب ہاتھ باندھنے کی جگہ کے بارے میں قائم کیا ہے اور کئی اقوال سے اسے "تحت الصدر" ثابت کیا ہے۔ ایک جانب تو یہ ہے اور دوسری جانب محترم شیخ نہایت پیار سے فرماتے ہیں: "نیز امام مالکؒ سے تحت الصدر کا قول بھی مروی ہے۔" ہمارا خیال ہے کہ یہ کاتب کی غلطی ہے ورنہ شیخ کا جملہ یہ ہوگا: "نیز امام مالکؒ سے تحت الصدر کا قول "ہی" مروی ہے۔" اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالکؒ سے دو ہی قول مروی ہیں: ایک ارسال کا اور دوسرا تحت الصدر کا۔ اور ہاتھ باندھنے کی صورت میں فقط تحت الصدر کا قول ہی مالکیہ کو معلوم ہے۔
محترم شیخ دامت برکاتہم امام مالکؒ کے یہاں سینے پر ہاتھ باندھنے کے حوالے سے دور کی کوڑی لائے ہیں۔فرماتے ہیں: "عرض ہے کہ سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ وضاحت کی جاچکی ہے۔ لہذا اگر امام مالکؒ نے اس حدیث کو اپنایا ہے تو اس حدیث کی رو سے امام مالکؒ کا قول بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا ہی ہے۔"
ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ حضرت شیخ اس کوڑی کی تلاش میں بہت دور نکل گئے تھے جس کی وجہ سے جو کوڑی ملی وہ کام کی نہیں ہے۔ امام مالکؒ کا مسلک وہ ہے جسے مالکیہ بیان کرتے ہیں۔ مذاہب اربعہ کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ یہ باقاعدہ تلمذ کے طریقے سے محفوظ رہے ہیں ورنہ فقہاء و مجتہدین اور بھی کئی تھے لیکن انہیں صحیح شاگرد نہیں ملے۔ چنانچہ امام مالکؒ کا مسلک وہ مقبول ہوگا جسے ان کے شاگرد اور ان کے مسلک کے فقہاء نقل کریں گے۔ اور شیخ محترم نے تو جو قول امام مالکؒ کی طرف منسوب کیا ہے وہ ان سے کسی ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں۔
یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ شیخ کی مراد "جیسا کہ وضاحت کی جا چکی ہے" سے "مکمل ذراع" والا فلسفہ ہے جو کہ ویسے ہی درست نہیں ہے اور "مکمل ید" کی وجہ سے اس میں سقم آ چکا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ امام مالکؒ کے یہاں اس حدیث سے "مکمل ذراع" مراد ہی نہیں ہے بلکہ کلائی مراد ہے۔ چنانچہ امام مالکؒ سے تحت الصدر کے قول کے بارے میں جو اختلاف ہوا ہے وہ بھی دائیں ہاتھ سے بائیں کلائی کو پکڑنے کے بارے میں ہے۔ چنانچہ علامہ زرقانیؒ فرماتے ہیں:
(وهل يجوز القبض) لكوع اليسرى بيده اليمنى واضعًا لهما تحت الصدر وفوق السرة (في النفل) طول فيه أم لا لجواز الاعتماد فيه من غير ضرورة (أو) يجوز (إن طول) فيه ويكره إن قصر تأويلان
ترجمہ: "اور کیا بائیں کلائی کو دائیں ہاتھ سے پکڑنا جبکہ دونوں کو سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر رکھا ہوا ہو نفل میں جائز ہے چاہے نفل میں طوالت ہو یا نہ ہو بغیر ضرورت سہارے کے جائز ہونے کی بناء پر یا طوالت کے ساتھ نفل میں جائز ہے اور مختصر میں جائز نہیں؟ اس میں دو تاویلیں ہیں۔"
اس کے تحت علامہ بنانی حاشیے میں لکھتے ہیں:
(وهل يجوز القبض في النفل أو إن طول الخ) قال في المدوّنة ولا يضع يمناه على يسراه في فريضة وذلك جائز في النوافل لطول القيام فقال صاحب البيان ظاهرها أن الكراهة في الفرض والنفل إلا أن أطال في النافلة فيجوز حينئذ وذهب غيره إلى أن مذهبها الجواز في النافلة مطلقًا لجواز الاعتماد فيها من غير ضرورة فهذان تأويلان على قول المدوّنة بالكراهة وفي القبض ثلاثة أقوال أخر غير الكراهة أحدها الاستحباب في الفرض والنفل وهو قول مالك في رواية مطرف وابن الماجشون عنه في الواضحة وقول المدنيين من أصحابنا واختاره غير واحد من المحققين منهم اللخمي وابن عبد البر وأبو بكر بن العربي وابن رشد وابن عبد السلام وعده ابن رشد في مقدماته من فضائل الصلاة وتبعه القاضي عياض في قواعده ونسبه في الإكمال إلى الجمهور وكذا نسبه لهم الحفيد ابن رشد وهو أيضًا قول الأئمة الثلاثة الشافعي وأبي حنيفة وأحمد وغيرهم من أئمة المذاهب كما ذكره في الاستذكار انظر نصوص من ذكرنا في رسالة الشيخ مس في القبض ووقع في كلام ابن عرفة نسبة هذا القول لسماع القرينين وهما أشهب وابن نافع وتبعه ق في ذلك واعترضه غ في تكميل التقييد وقال إنه وهم أو تصحيف وكان الصواب أن يعبر بالأخوين كما عبر به بعد في نقل كلام ابن رشد إذ هما عنده مطرف وابن الماجشون لكثرة توافقهما ومصاحبتهما في كتب الفقه بالذكر وقد تبع ابن عرفة ذلك الوهم أو التصحيف أبو العباس في القلشاني في شرحه على ابن الحاجب الثاني من الأقوال الثلاثة إباحة القبض في الفرض والنفل معًا وهو قول مالك في سماع القرينين وقول أشهب في رسم شك في طوافه من سماع ابن القاسم القول الثالث منع القبض فيهما حكاه الباجي وتبعه ابن عرفة قال الشيخ مس وهو من الشذوذ بمكان ثم قال مس أيضًا وإذا تقرر الخلاف في أصل القبض كما ترى وجب الرجوع إلى الكتاب والسنة كما قال تعالى: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ} [النساء: 59] وقد وجدنا سنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قد حكمت بمطلوبية القبض في الصلاة بشهادة ما في الموطأ والصحيحين وغيرهما من الأحاديث السالمة من الطعن فالواجب الانتهاء إليها والوقوف عندها والقول بمقتضاها اهـ.
(شرح الزرقانی علی مختصر الخلیل، 1۔379، ط: دار الکتب العلمیۃ)
اس مکمل عبارت کا ترجمہ بلا فائدہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس میں کلائی کو پکڑنے کے حوالے سے مالکیہ کے کل پانچ مذاہب کا بیان ہوا ہے:
1۔ نفل میں جائز ہے چاہے طوالت ہو یا نہ ہو۔ (یہ شرح کی روایت ہے)
2۔ نفل میں جائز ہے جب طوالت ہو۔ (یہ شرح کی روایت ہے۔)
3۔ فرض و نفل میں مستحب ہے۔
4۔ دونوں میں مباح ہے۔
5۔ بہر صورت ناجائز ہے۔
یہاں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ مالکیہ میں کوئی ایک قول بھی ہاتھ کو بازو پر پھیلانے کے حوالے سے نہیں ہے اور کلائی کو پکڑ کر ہاتھ بازو پر پھیلانا ممکن نہیں۔ حضرت شیخ نے اپنے قول کی بنیاد ہی اس پر رکھی تھی کے بازو پر ہاتھ رکھنے سے ہاتھ سینے پر آ جاتے ہیں۔ اب جب بازو پر ہاتھ رکھنا امام مالکؒ سے ثابت ہی نہیں ہے تو سینے پر ہاتھ اس طریقے سے پہنچانا بھی ممکن نہیں رہا۔ شیخ محترم سے یہاں سخت تسامح ہوا ہے اور امام مالکؒ کا وہ مسلک بیان کر گئے ہیں جو نہ تو امام مالکؒ کو معلوم ہے اور نہ ہی مالکیہ کو۔ اللہ پاک درگزر فرمائیں۔
مذہب شافعیہ:
حضرت شیخ محترم نے امام شافعیؒ کے حوالے سے بڑا زبردست دعوی کرتے ہوئے فرمایا ہے: "امام شافعیؒ سے پوری صراحت کے ساتھ سینے پر ہاتھ باندھنے کا قول مروی ہے۔"
آگے جو قول ذکر کیا ہے وہ ابن ملقنؒ کا ہے۔ انہوں نے ذکر کیا ہے: "قال: و وضع الیمین علی الیسار علی الصدر" حضرت شیخ ترجمہ فرماتے ہیں: "امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ "دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھے جائیں۔"
مسئلہ کچھ یوں ہے کہ ابن ملقن کی یہ شرح علامہ تبریزیؒ کی کتاب مختصر ہے یعنی اس "قال" کے قائل علامہ تبریزیؒ ہیں۔ ہم نے بہت تلاش کیا اور غور و فرک کے گھوڑے دوڑائے کہ کسی طرح علامہ تبریزیؒ کو امام شافعیؒ بنا سکیں لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ علامہ تبریزیؒ 621 ھ میں فوت ہوئے ہیں اور امام شافعیؒ سے کم و بیش چار سو سال متاخر ہیں۔ نیز امام شافعیؒ شاید ہی کبھی تبریز گئے ہوں۔ پھر بھلا علامہ تبریزیؒ کا قول امام شافعیؒ کی صراحت کیسے بن سکتا ہے؟ بہرحال انسان خطا کا پتلا ہے۔ شیخ محترم سے جوش خطابت یا جوش کتابت میں غلطی ہو گئی ہوگی۔
جن ابن ملقنؒ کی کتاب سے شیخ محترم نے حوالہ نقل کیا ہے ان ہی کی ایک اور کتاب میں کچھ یوں تحریر ہے:
وإذا قلنا بأخذ اليمين باليسار فيكون ذلك تحت الصدر وفوق السرة؛ لحديث وائل بن حجر۔۔۔
ترجمہ: "اور جب ہم قائل ہیں بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑنے کے تو یہ سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر ہوگا بوجہ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔"
یہاں ہم نے اخذ الیمین بالیسار کا ترجمہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑنا دیگر عبارات کی وجہ سے کیا ہے۔ ورنہ اس کا ترجمہ الٹا بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس سے آگے فرماتے ہیں:
فعلى الأول: يضع كف يمينه على يساره قابضًا كوعها وبعض رسغها: وهو المفصل وساعدها.
قال القفال: ويتخير بين بسط أصابع يمينه في عرض المفصل وبين نشرها في صوب الساعد. وقيل: يضع كفه اليمنى على زراعه الأيسر، قاله بعض الحنفية، والأصح عندنا أنه يحط يديه بعد التكبير تحت صدره. وقيل: يرسلهما ثم يستأنف فعلهما إلى تحت صدره.
(التوضیح لشرح الجامع الصحیح، 6۔642، ط: دار النوادر)
ترجمہ: " پہلے قول کے مطابق: اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر کلائی اور گٹے کو پکڑتے ہوئے رکھے گا، اور یہ (رسغ) جوڑ اور بازو ہے۔
قفال کہتے ہیں: اسے اختیار ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو جوڑ کی چوڑائی میں پھیلا لے یا بازو کی لمبائی میں پھیلا لے۔ اور کہا گیا ہے کہ دائیں ہتھیلی بائیں بازو پر رکھے گا۔ یہ بعض حنفیہ نے کہا ہے۔ اور ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ تکبیر کے بعد اپنے ہاتھ سینے کے نیچے تک نیچے کر لے گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ ہاتھوں کو چھوڑ دے گا پھر دوبارہ سینے کے نیچے تک کرے گا۔"
محترم شیخ شايد نہ جانتے ہوئے بعض حنفیہ کی رائے کی جانب چلے گئے ہیں۔ بہرحال یہ ابن ملقن کی اپنی وضاحت ہے کہ ہاتھ رکھنے کا مقام شافعیہ کے نزدیک کیا ہوگا۔
یہاں دو باتیں قابل وضاحت ہیں:
1۔ شیخ محترم نے جس کتاب سے حوالہ دیا ہے شافعیہ کے نزدیک اس کتاب اور اس طرح کی دوسری مجمل کتب سے فتوی نہیں دیا جاتا۔ کیوں کہ ان میں احتمال ہوتا ہے کہ اس کی تفصیل موجود نہ ہو۔ اور یہ صرف شافعیہ میں ہی خاص نہیں ہے بلکہ دیگر مسالک میں بھی یہی طریقہ کار ہے۔ چنانچہ احناف کے فتوی کے اصولوں کے لیے ابن عابدینؒ کی شرح عقود رسم المفتی اور شافعیہ کے اصولوں کے لیے ابن حجر ہیثمیؒ کی نہایۃ المحتاج اور دیگر كتب ديكهي جا سکتی ہیں۔
2۔ فقہ کے اندر مختصر اقوال کی قیود اور شروح مفصل اقوال سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اگر ایک جگہ ایک لفظ مذکور ہو اور دوسری جگہ اس کی تفصیل مذکور ہو تو اس تفصیل کے مطابق اس لفظ کو لیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حدیث کی کتب میں موجود اصطلاحات کو اس تفصیل کے ذریعے سمجھا جاتا ہے جو کتب اصول حدیث میں مذکور ہوتی ہے، فقط لغت سے نہیں سمجھا جاتا۔ محترم شیخ تو ہمارے حسن ظن کے مطابق محقق اور متبحر عالم ہیں۔ یہ تفصیلات ان کے لیے ہیں جو فقہ میں نو آموز ہوں۔
چنانچہ فقہ شافعی میں اگر ایک جگہ ایک لفظ مختصر یا مجمل استعمال ہوا ہو اور دوسری جگہ اس کی تفصیل مذکور ہو تو وہاں سے تفصیل اخذ کی جائے گی الا یہ کہ وہ تفصیل خود شوافع کی نظر میں مرجوح ہو۔
علامہ نوویؒ اور زکریا انصاریؒ کی وضاحتیں:
علامہ نووی اور امام رافعی رحمہما اللہ فقہ شافعی کے ستون سمجھے جاتے ہیں۔ ان دو حضرات نے اس فقہ کو مدون کیا اور اس کی چھان پھٹک کی۔ ہم تفصیل میں نہیں جاتے لیکن تفصیل کے لیے نہایۃ المحتاج دیکھی جا سکتی ہے۔
دسویں صدی میں چار بڑے علماء شوافع گزرے ہیں جن پر فتاوی کا مدار ہے۔ ہم ان میں سے صرف ایک زکریا انصاریؒ کا حوالہ نقل کرتے ہیں۔ اس سے پہلے علامہ نوویؒ کا ارشاد بھی پیش خدمت ہے:
قال أصحابنا السنة أن يحط يديه بعد التكبير ويضع اليمنى على اليسرى ويقبض بكف المينى كوع اليسرى وبعض رسغها وساعدها قال القفال يتخير بين بسط أصابع اليمنى في عرض المفصل وبين نشرها في صوب الساعد ويجعلهما تحت صدره وفوق سرته هذا هو الصحيح المنصوص
(المجموع للنووی، 3۔310، ط: دار الفکر)
ترجمہ: "ہمارے اصحاب کہتے ہیں: سنت یہ ہے کہ تکبیر کے بعد اپنے ہاتھ نیچے لر لے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ لے اور دائیں ہتھیلی سے بائیں کلائی اور کچھ گٹا اور بازو پکڑ لے۔ قفال کہتے ہیں: اسے اختیار ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں جوڑ کی چوڑائی میں پھیلا لے یا بازو کی لمبائی میں پھیلا لے۔ اور ان دونوں ہاتھوں کو سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر رکھے گا۔ یہی صحیح منصوص (مذہب) ہے۔"
شیخ الاسلام زکریا انصاریؒ فرماتے ہیں:
(ويضعهما) أي اليدين (بين السرة، والصدر)
(اسنی المطالب، 1۔145، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ترجمہ: "اور ان دونوں کو یعنی دونوں ہاتھوں کو ناف اور سینے کے بیچ رکھے گا۔"
اس موضوع پر کئی حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں کیوں کہ یہ شافعیہ میں معروف مسئلہ ہے اور ان کی اکثر کتب فقہ میں مذکور ہے۔ فی الحال ان دو پر اکتفاء کیا جا رہا ہے۔ اگر شیخ محترم طلب فرمائیں تو مزید پیش کر دیے جائیں گے۔
شیخ کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں: "عرض ہے کہ امام شافعیؒ سے علی الصدر کی صراحت آ جانے کے بعد تحت الصدر کا مفہوم یہی ہوگا کہ اس سے سینے کا اوپری حصہ مراد لے کر کہا گیا ہے کہ ہاتھ اس سے نیچے رکھے جائیں۔" اس پر شیخ محترم نے شیخ ہاشم ٹھٹھویؒ کا ایک اقتباس بھی پیش فرمایا ہے جس پر ذرا بعد میں گفتگو کرتے ہیں۔ پہلے ہماری چند معروضات سن لیجیے:
1۔ امام شافعیؒ سے "علی الصدر" کی صراحت نہیں آئی بلکہ وہ تبریزیؒ کا قول تھا۔ نیز وہ کتاب فتاوی کی معتمد کتاب بھی نہیں ہے۔
2۔ اوپر مذکور زکریا انصاریؒ کا قول "بین السرۃ و الصدر" یعنی "ناف اور سینے کے بیچ" اس کے صراحتاً خلاف ہے۔
3۔ جس طرح شیخ محترم "ذراع" کے مکمل معانی کو کتب لغت میں تلاش کر کے اس پر عمل پیرا ہیں اسی طرح اگر "تحت" کے معنی کو کتب لغت میں دیکھ لیں تو اس تاویل کو شاید خود ہی فاسد سمجھ لیں۔
ہاشم ٹھٹھویؒ کا اقتباس حضرت شیخ نے یہ لگایا ہے:
"و اجاب عنہ بعض متاخری الشافعیۃ کالمحلی فی شرح المنہاج و ابن حجر المکی فی شرح العباب بان المراد من الصدر فی قول الشافعیۃ تحت الصدر اعلاہ و فی حدیث وائل الذی فیہ لفظ علی صدرہ اسفلہ"
محترم شیخ نے اس کے ترجمے میں فرمایا ہے: "شافعیہ کے قول تحت الصدر میں صدر سے مراد سینے کا اوپری حصہ ہے اور وائل رضی اللہ عنہ کی جس حدیث میں علی الصدر کا لفظ ہے، اس سے مراد سینے کا نچلا حصہ ہے۔"
شیخ محترم سے اس ترجمے میں سخت تسامح ہوا ہے۔ اولاً تو ہم اوپر حوالے دے چکے ہیں کہ شافعیہ کے نزدیک سینے کا اوپری حصہ وضع الیدین کی جگہ ہی نہیں ہے بلکہ انہوں نے تحت الصدر کو وضع الیدین کی جگہ قرار دیا ہے۔ ثانیاً یہ بہتر تھا کہ جس طرح شیخ محترم جرح تعدیل کے اقوال کی سند تلاش کرتے ہیں اور اصل جگہ پر قول نہ ملنے یا سند نہ ملنے پر قول رد کر دیتے ہیں (حالانکہ علماء جرح و تعدیل نے یہ انداز نہیں اپنایا) اسی طرح یہاں بھی اصل کتب کی طرف مراجعت کرتے جن کا حوالہ ہاشمؒ نے دیا ہے۔
علامہ ہاشمؒ نے دو کتب کا حوالہ دیا ہے: شرح المنہاج للمحلی اور شرح العباب لابن حجر المکی۔
شرح المنہاج میں ہے: "زاد ابن خزیمۃ: علی صدرہ، ای آخرہ فیکون آخر الید تحتہ"
(کنز الراغبین، 1۔193، ط: دار المنہاج)
ترجمہ: "ابن خزیمہ نے علی صدرہ کی زیادتی کی ہے یعنی سینے کا آخری حصہ لہذا ہاتھ کا آخری حصہ سینے کے نیچے ہو جائے۔"
شرح العباب فی الحال مطبوعہ حالت میں موجود نہیں ہے۔ اس کا مخطوطہ جامعۃ الملک السعود میں موجود ہے۔ اس میں ہے:
"بین سرتہ و صدرہ لما صح انہ ﷺ وضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ ای آخرہ فتکون تحتہ بقرینۃ روایۃ تحت صدرہ"
ترجمہ : "(ہاتھ رکھے گا) اپنی ناف اور سینے کے درمیان اس لیے کہ نبی کریم ﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھا۔ یعنی سینے کے آخر میں تو وہ (ہاتھ) اس (سینے) کے نیچے ہوگا تحت صدرہ کی روایت کے قرینے سے۔"
ان دونوں حوالوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ احادیث میں تطبیق کرتے ہوئے ہاتھ رکھنے کی جگہ وہ بتائی گئی ہے جہاں ہاتھ کا کچھ حصہ سینے سے نیچے ہو اور کچھ سینے پر۔ اسے سینے سے متصل نیچے کا مقام کہا جا سکتا ہے۔ یہی مراد علامہ ہاشمؒ کی ہے۔ ان کے قول میں "اعلاہ" کا مطلب "اعلی تحت الصدر" ہے "اعلی الصدر" نہیں۔
اب اگر شیخ محترم کا مسلک بھی اسی مقام پر ہاتھ باندھنے کا ہے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اسے فقہاء کی اصطلاح میں تحت الصدر اور فوق السرۃ کہا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ پیٹ کا سب سے اوپری مقام ہوتا ہے جہاں سے سینہ شروع ہوتا ہے۔ تو اگر شیخ محترم کا مسلک اسی مقام کا ہے تو پھر وہ وضاحت فرما دیں۔ اور اگر اس سے ذرا بھی اوپر کا مسلک ہے تو پھر شافعیہ اور مالکیہ کا تو یہ مسلک نہیں ہے، حنابلہ کی تحقیق آئندہ کرتے ہیں۔
محترم شیخ نے حنفی علماء کے بھی کئی حوالے پیش فرمائے ہیں۔ اس حوالے سے ہم صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ مسلک شافعی علماء شوافع کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے علماء احناف کے اقوال سے نہیں۔ لہذا یہ حوالے پیش کرنا خواہ مخواہ کی درد سری ہے۔