ابن محرز مجہول نہیں ، ابن محرز کی توثیق

احمد پربھنوی

وفقہ اللہ
رکن
ابن محرز کی توثیق

ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز جس سے ابن معین رحمہ اللہ کے جرح و تعدیل میں اقوال اور سوالات وارد ہیں اور ان اقوال کو محدثین نے قبول کیا ہے چاہے وہ حافظ مزی ہو یا ابن حجر ہو یا امام ذہبی رحمہم اللہ ہو یا ان کے علاوہ سبھی نے ابن محرز سے ابن معین رحمہ اللہ کے اقوال کو اپنی کتابوں میں لیا ہے ان حضرات نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ابن محرز مجھول ہے لہذا ان کے اقوال قابل اعتبار نہیں بلکہ ان کے اقوال کو قبول کیا ہے امام ذہبی تو اپنی کتاب میزان الاعتدال میں اتنی احتیاط برتی ہے کہ کہیں جگہ تو انہیں یہ کہنا پڑا کہ میں فلاں کا تذکرہ اس کتاب میں نہیں کرتا صرف ابن عدی نے اپنی کتاب الکامل میں ان کا تذکرہ کیا اسلیے مجھے بھی کرنا پڑا ـ ایسی کتاب میں بھی امام ذہبی نے ابن محرز سے جرح و تعدیل میں اقوال نقل کیے ـ
لیکن کچھ تعصب پسند حضرات کہتے ہیں کہ چونکہ ابن محرز کی توثیق منقول نہیں لہذا ان کے واسطہ سے ابن معین کے جرح وتعدیل کے اقوال غیرمعتبر ہیں، جب کہ آپ کتب جرح وتعدیل کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کسی بھی امام جرح وتعدیل نے محض اس بنیاد پر ابن محرز کی واسطہ سے نقل اقوال کو مسترد نہیں کیا کہ اس کی توثیق منقول نہیں ہے، ایسے میں ہمیں سوچنا اور غور کرنا چاہئے کہ جولوگ آج ابن محرز کو غیرمعتبر قراردے رہے ہیں، کیا ان کا یہ طرزعمل ائمہ جرح وتعدیل کے طرز عمل سے مطابقت رکھتا؟؟ جبکہ ائمہ جرح و تعدیل جانتے تھے ابن محرز کی توثیق ہوجاتی ہے
چلیے ہم ابن محرز کی توثیق بتلاتے ہیں،
نا عبد الرحمن حدثني أبي حدثنى أبوالعباس المحرزى قال سألت على بن المدينى عن ابى كعب صاحب الحرير فقال كان يحيى بن سعيد يوثقه (الجرح والتعديل 6/41)
ترجمہ :عبدالرحمن ابن ابو حاتم کہتے ہیں مجھے میرے والد نے بیان کیا انہیں ابو العباس محرزی نے، کہتے ہیں علی بن مدینی سے میں نے ابو کعب کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا یحی بن سعید القطان ان کی توثیق کرتے تھے ـ

ہم یہاں یہ نہیں بتلارہے ہیں کہ ابن محرز نے ابن المدینی سے کیا سوال کیا بلکہ یہ بتلارہے ہیں کہ ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے ابن محرز سے روایت کیا ـ

اب دیکھیں حافظ ابن حجر کیا کہتے ہیں
حافظ ابن حجر نے کئی جگہ اس بات کی صراحت کی ہے کہ ابو حاتم الرازی اور ابو زرعہ رازی وغیرہ رحمہم اللہ صرف ثقات سے روایت کرتے تھے

حافظ ابن حجر کی کتاب تقریب پر بشار عواد اور شعیب الارناووط صالح بن سهيل پر حافظ کے فیصلہ کے تحت لکھتے ہیں

فقد روى عنه جمع من الثقات منهم أبو داود في سننه وهو لا يروي فيها الا عن ثقة، وأبو زرعة وأبو حاتم الرازيان وهما من تعرف في شدة التحري، (تحریر التقریب التہذیب 2/129)
ترجمہ :صالح بن سہیل سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جن میں ابو داؤد، رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اور وہ ثقہ کے علاوہ کسی سے روایت نہیں کرتے، اور ابو زرعہ اور ابو حاتم الرازی بھی اور یہ دونوں حضرات رایوں کے حال جاننے میں بڑے ہی سخت ہیں ـ

اسی طرح دوسری جگہ احمد بن عبیداللہ پر حافظ ابن حجر کے قول کے تحت لکھتے ہیں
ولو لم يكن ثقة عند أبي حاتم لما روى عنه (تحریر التقريب التهذيب 1/70)
ترجمہ :اور کیوں وہ ابو حاتم کے نزدیک ثقہ نہیں ہوسکتے جبکہ انہوں نے ان سے روایت کیا ـ

اسی طرح عرب علماؤں میں ایک ممتاز شخصیت ہے ابو اسحاق الحویني جو روایت حدیث و کتاب کے بارے میں بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
وكذلك ابن محرز وهو أبو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز راوي كتاب "معرفة الرجال" وهو سؤالاته لابن معين في "الجرح والتعديل" ولا اعرفه له بجرح ولا تعديل، ولم أجد له ترجمة فيما بين يدي من المراجع ومع ذلك فالعلماء ينسبون الكلام لابن معين بروايته وما علمت أحدا توقف في قبوله والأمثلة على ذلك تطول. ( نثل النبال بمعجم الرجال الذين ترجم لهم فضيلة الشيخ المحدث أبو إسحاق الحويني 1/176)

ترجمہ :اسی طرح ابن محرز کا معاملہ ہے، جو ابو عباس احمد بن محمد بن قاسم بن محرز کتاب معرفۃ الرجال کا راوی ہے جس میں اُنھوں نے ابن معین سے جرح و تعدیل کی بابت (اقوال) کیے ہیں۔ مجھے اس کے بارے میں جرح یا تعدیل کا کوئی علم نہیں۔ میری دسترس میں موجود مراجع میں اس کا ترجمہ موجود نہیں۔ اس کے باوجود علماء اس کی وساطت سے ابن معین کی طرف قول کو منسوب کرتے ہیں۔ میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اسے قبول کرنے میں توقف کیا ہو۔ اس بارے میں مثالوں کا ذکر ہی تطویل کا باعث ہے۔

ابو اسحاق حوینی کے قول سے بھی معلوم ہوتا ہے علماؤں نے ابن محرز کے اقوال کو قبول کیا ہے اور انہوں نے کہیں مضمون طویل نہ ہوجائے اس وجہ سے مثالوں کو تک ذکر نہیں کیا کیونکہ ایک دو مثالیں تھوڑی نہ تھیں جو بیان کی جائیں ـ

اسی طرح کفایت اللہ سنابلی صاحب بھی ابن محرز کو مجھول کہتے نہیں تھکتے وہ خود لکھتے ہیں ابو حاتم صرف ثقات سے روایت کرتے ہیں ـ(انوار البدر ص 282)

لہذا امام ابو حاتم الرازی صرف ثقات سے روایت کرتے تھے اس لیے ابن محرز بھی ثقہ ہیں ـ
 
Last edited by a moderator:

احمد پربھنوی

وفقہ اللہ
رکن
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ


اب دیکھیں حافظ ابن حجر کیا کہتے ہیں
حافظ ابن حجر نے کئی جگہ اس بات کی صراحت کی ہے کہ ابو حاتم الرازی اور ابو زرعہ رازی وغیرہ رحمہم اللہ صرف ثقات سے روایت کرتے تھے

حافظ ابن حجر اپنی کتاب تحریر التقریب میں صالح بن سهيل کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
فقد روى عنه جمع من الثقات منهم أبو داود في سننه وهو لا يروي فيها الا عن ثقة، وأبو زرعة وأبو حاتم الرازيان وهما من تعرف في شدة التحري، (تحریر التقریب التہذیب 2/129)
ترجمہ :صالح بن سہیل سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جن میں ابو داؤد، رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اور وہ ثقہ کے علاوہ کسی سے روایت نہیں کرتے، اور ابو زرعہ اور ابو حاتم الرازی بھی اور یہ دونوں حضرات رایوں کے حال جاننے میں بڑے ہی سخت ہیں ـ

اسی طرح حافظ دوسری جگہ احمد بن عبیداللہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
ولو لم يكن ثقة عند أبي حاتم لما روى عنه (تحریر التقريب التهذيب 1/70)
ترجمہ :اور کیوں وہ ابو حاتم کے نزدیک ثقہ نہیں ہوسکتے جبکہ انہوں نے ان سے روایت کیا ـ

ـ
یہ کتاب( تحریر تقریب التہذیب ) حافظ ابن حجر کی نہیں ہے بلکہ حافظ ابن حجر کی کتاب تقریب التہذیب پر تحریر بشار عواد اور شعیب ارناووط رح نے کی ہے مجھ سے غلطی ہوگئ اگر انتظامیہ اس کی تصحیح کرلیں تو بہتر ہوگا ـ @انتظامیہ
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
آپ نے جتنی بھی مثالیں دی ہیں، وہ واحد سے جمع کی ہیں،مولوی واحد مولویوں جمع ایسے ہی حکمراں،سیاستداں ،ناہل ،فلاں،جاہل وغیرذلک، عالم کی جمع علماء ہے،علماء کی بھی جمع علماؤں بنادینامحل نظراوراردو کے لحاظ سے غلط ہے،یہ ایسے ہی ہے جیسے ولد کی جمع اولاد اوراولاد کی جمع الجمع اولادوں بنادیں۔بعض مقامات پر جمع الجمع کااستعمال ہوتاہے لیکن وہ غلط العام ہے،یعنی عوام وخواص سبھی اسے استعمال کرتے ہیں، جیسے وجہ کی جمع وجوہ اور وجوہ کی جمع وجوہات ،عام طورپر اردولکھنے اورپڑھنے والے حضرات بولنے میں اورلکھنے میں وجوہات لکھتے ہیں اور اسے قبول عام حاصل ہوگیاہے لیکن ابھی علماؤں کو اس طرح کا قبول عام حاصل نہیں ہواہے ،یہ بھی غلط العوام کے درجہ میں ہے،لہذا اس کے لکھنے سے اوربولنے میں بھی احتیاط کرناچاہئے۔
 

احمد پربھنوی

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته

الساجی نے ایک سند میں احمد بن محمد کی سند سے ابن معین رحمہ اللہ کا قول حفص بن سلیمان اور ابو بکر بن عیاش کا موازنہ کرتے ہوئے روایت کیا

أنا الساجي ثنا أحمد بن محمد البغدادي قال: سمعت يحيى بن معين يقول: كان حفص بن سليمان وأبو بكر بن عياش من أعلم الناس بقراءة عاصم وكان حفص أقرأ من أبي بكر، وكان أبو بكر صدوقا، وكان حفص كذابا(الکامل 3/268)

الساجی رحمہ اللہ کے شیوخ میں احمد بن محمد نام سے کئ ہے تو ان کا تعین کرنے کے لیے ابن معین رحمہ اللہ سے اس طرح کس نے روایت کیا تو ہم نے پایا ابن محرز نے کیا

سمعت يحيى يقول: قال لي أيوب بن المتوكل -وكان من القراء البصراء- قال: قراءة أبي عمر البزاز- يعني حفص بن سليمان- أثبت قراءة من أبي بكر بن عياش، وأبو بكر أصدق منه. قال يحيى: وأبو عمر هذا كذاب(تاریخ ابن معین بروایہ ابن محرز 1/113)

تو کیا یہاں یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ احمد بن محمد جن سے امام الساجی نے روایت کیا وہ ابن محرز ہے؟؟؟

@جمشید @ابن عثمان
 
Last edited by a moderator:

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

آپ کی تحریر میں دیکھ چکا تھا ۔ کچھ دیر ہونے کے لئے معذرت ۔ ایک تو ویسے ہی کچھ مصروفیت ہو گئی ۔ جب اس مسئلہ کو دیکھنے لگا تو ۔۔۔معلوم ہوا کہ اتنا آسان مسئلہ نہیں ہے ۔اس پہ عربی میں ایک جگہہ کافی بحث ہو چکی ہے ۔اس بحث کو پڑھ کر آدمی کافی الجھ سا جاتا ہے ۔میرے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ بہرحال مجھے جو نظر آتا ہے وہ بیان کردیتا ہوں ۔

اس راوی کے تعین میں ائمہ کا اختلاف ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ احمد بن محمد بن ہانی الاثرم ہیں ۔
اور بعض کے نزدیک احمد بن محمد ابن محرز۔
یہ دونوں بغدادی ہیں ۔

اور مجھے پوری بحث کے بعد ۔ ابن محرز ۔کی طرف ہی زیادہ رجحان نظر آتا ہے ۔

پہلے میں اثرم سمجھنے والوں کا نظریہ، اور دلائل (دراصل قرائن) بیان کرتا ہوں ۔

خطیب بغدادیؒ کے نزدیک یہ راوی غير معروف ہے ۔یا تعین نہیں کرسکے ۔
زكريا الساجي، قَالَ: حَدَّثَنِي أحمد بن محمد البغدادي، قَالَ: حدثنا إبراهيم بن المنذر، قَالَ: حدثنا محمد بن فليح، قَالَ: قَالَ لي مالك بن أنس: هشام بن عروة كذاب.

قَالَ أحمد بن محمد: فسألت يحيى بن معين، فَقَالَ: عسى أراد في الكلام، وأما في الحديث فهو ثقة، وهو من الرواة عنه.

قَالَ: وَقَالَ إبراهيم حَدَّثَنِي عبد الله بن نافع، قَالَ: كان ابن أبي ذئب، وعبد العزيز الماجشون، وابن أبي حازم، ومحمد بن إسحاق، يتكلمون في مالك بن أنس، وكان أشدهم فيه كلاما محمد بن إسحاق، كان يقول: ائتوني ببعض كتبه حتى أبين عيوبه أنا بيطار كتبه.

أما كلام مالك في ابن إسحاق فمشهور غير خاف على أحد من أهل العلم بالحديث، وأما حكاية ابن فليح عنه في هشام بن عروة، فليست بالمحفوظة إلا من الوجه الذي ذكرناه، وراويها عن إبراهيم بن المنذر، غير معروف عندنا، فالله أعلم.

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خطیب کے نزدیک ابن محرز ؒ مجہول ہیں ۔ بلکہ یہ وہ نہیں ہیں ۔

کیونکہ ابن محرزؒ کے بارے میں انہوں نے جرح و تعدیل کا کلام نہیں کیا ۔

دکتور اکرم ضیاء العمری نے خطیب بغدادی کی تاریخ کے ماخذ بیان کئے ہیں ایک کتاب میں ۔

موارد الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد۔۔ص ۳۳۹

اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ خطیب بغدادیؒ نے رجال کے بارے میں امام یحیی بن معینؒ کا کلام جن ائمہ کے واسطہ سے بھی نقل کیا ہے اس میں ابن محرزؒ کے واسطہ سے 62 عبارات ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس نقل پر اعتماد ہے ۔

بہرحال یہ ابن اسحاق کے بارے میں جو احمد بن محمد نامی راوی کے بارے میں ان کا کلام ہے وہ ابن محرز پر نہیں ہے ۔
بس یہ ہے کہ اس راوی کا وہ تعین نہ کر سکے ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

البتہ اس پر حافظ ذہبیؒ کو اختلاف ہے ۔

قَالَ الخَطِيْبُ: أَنْبَأَنَا البَرْقَانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بنُ أَحْمَدَ بنِ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ المَلِكِ الآدَمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ عَلِيٍّ الإِيَادِيُّ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا السَّاجِيُّ، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدٍ البَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيْمُ بنُ المُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ فُلَيْحٍ، قَالَ:
قَالَ لِي مَالِكٌ: هِشَامُ بنُ عُرْوَةَ كَذَّابٌ.

قَالَ أَحْمَدُ - وَهُوَ الأَثْرَمُ إِنْ شَاءَ اللهُ -: فَسَأَلْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ، فَقَالَ:

عَسَى أَرَادَ فِي الكَلاَمِ، أَمَّا فِي الحَدِيْثِ فَثِقَةٌ، وَهُوَ مِنَ الرُّوَاةِ عَنْهُ.
قَالَ الخَطِيْبُ: أَمَّا كَلاَمُ مَالِكٍ فِي ابْنِ إِسْحَاقَ فَمَشْهُوْرٌ، وَأَمَّا حِكَايَةُ ابْنِ فُلَيْحٍ عَنْهُ فِي هِشَامِ بنِ عُرْوَةَ، فَلَيْسَتْ بِالمَحْفُوْظَةِ، وَرَاوِيهَا عَنِ ابْنِ المُنْذِر لاَ يُعرَفُ.

قُلْتُ: فَهِيَ مَرْدُوْدَةٌ.

وَقَدْ أَمْسَكَ عَنِ الاحْتِجَاجِ بِرِوَايَاتِ ابْنِ إِسْحَاقَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ العُلَمَاءِ،۔۔۔۔۔

اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ ذہبیؒ نے خطیب کی سند میں ساجیؒ کے شیخ کا تعین الاثرمؒ سے کیا ہے ۔البتہ ان کو جزم نہیں ہے ۔
اور ابن اسحاق کے دفاع پر خطیب کی عبارت کو بھی انہوں نے رد کیا ہے ۔
ایک اور جگہہ بھی انہوں نے احمد بن محمد کو الاثرم نقل کیا ہے ۔

حافظ ذہبی ؒ کی زیادہ عبارات نہیں ملیں ۔ اس لئے زیادہ بات نہیں ہوسکتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ اصل میں ذہبیؒ کے شیخ حافظ مزیؒ نے یہ گمان ظاہر کیا تھا کہ یہ اثرم ہے ۔

زكريا بْن يحيى الساجي ، عن أَحْمَد بْن مُحَمَّد البغدادي - أظنه أبا بكر الأثرم: سمعت أبا نعيم يقول: دخل الثوري يوم الجمعة۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہزیب الکمال ۔ ۶۔۱۸۰

چناچہ ذہبیؒ نے ان سے نقل کیا
وَقَالَ زَكَرِيَّا السَّاجِيُّ، عَنْ أَحْمَدَ بنِ مُحَمَّدٍ البَغْدَادِيِّ، قَالَ المِزِّيُّ شَيْخُنَا - أَظُنُّه أَبَا بَكْرٍ الأَثْرَمَ -: سَمِعْتُ أَبَا نُعَيْمٍ يَقُوْلُ:
دَخَلَ الثَّوْرِيُّ يَوْمَ الجُمُعَةِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیر اعلام النبلاء ۷۔۳۶۳

بہرحال ان دونوں حفاظ نے جزماََ نہیں فرمایا۔

ایک اور مقام پر مزیؒ نے احمد بن محمد کا تذکرہ یوں کیا ہے کہ وہ اس کے تعیین میں متردد ہیں ۔
الهيثم بن خالد سے روایت کرنے والوں میں احمد بن محمد کا ذکر یوں کیا ہے ۔

ويروي عَنه: أحمد بن محمد البغدادي شيخ لزكريا بن يحيى الساجي


تہزیب الکمال میں ساجیؒ کی عبارات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مزیؒ براہ راست ساجیؒ کی کتب سے نہیں نقل کررہے ۔ بلکہ خطیب ؒ اور ابن عدیؒ کے واسطہ سے کرتے ہیں ۔

مغلطائیؒ نے یہ بات اپنے شیخ مزیؒ کے بارے میں صراحتاََ بھی کہی ہے ۔

اور ذہبیؒ ۔اپنے شیخ مزیؒ سے نقل کررہے ہیں ۔

البتہ اگر کوئی ساجیؒ کی کتاب ضعفاء یا جرح تعدیل سے براہ راست نقل کرے تو بات زیادہ واضح ہوسکتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دارقطنیؒ کی کتاب ۔ تعلیقات الدارقطنی علی مجروحین ابن حبان۔ کے محقق نے نیٹ پر بحث کے دوران یہ فرمایا ہے کہ یہ اثرم ہیں ۔ کیونکہ تعلیقات دارقطنی کے ساتھ ہی ملحق کچھ نقول ساجی کی کتاب ضعفاء کی منقول ہیں ۔

جو ابن شاقلا عن ایادی عن ساجی کی سند سے ہیں
ومعه نقول من كتاب الضعفاء للساجي، من رواية ابن شاقلا، عن الإيادي، عن الساجي، به

لیکن کتاب میں دیکھیں تو نقل کرتے ہوئے ساجی سے نقل کرنا چاہیے ۔

حالانکہ وہ عبارات ابن شاقلا سے نقل کرتے ہیں ۔

ابن شاقلا ، شيخ الحنابلة أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد بن عمر بن حمدان بن شاقلا البغدادي۔۔۔۔ہیں۔

اور اس کتاب میں عبارات

يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد:

کہہ کر نقل ہوئی ہیں ۔جو کہ شیخ خلیل بن محمد العربی کا خیال ہے کہ ساجی کی ضعفاء کی نقول ہیں ۔

لیکن عبارات کو ابراہیم بن احمد کی طرف منسوب کرنا چاہیے کیونکہ یقول ابراہیم بن احمد ہے ۔ اور ابراہیم بن احمد واسطہ چھوڑ کر عبارت بیان کرتے ہیں ۔

اور بعض جگہہ واسطہ نہیں چھوڑتے۔

بعض جگہہ ساجی سے آگے کے راوی کا بھی واسطہ نہیں بیان کرتے ۔ اب معلوم نہیں ہوتا کہ ان عبارات میں ساجی ہیں بھی یا ممکن ہے ابراہیم بن احمد کے زوائد اقوال ہوں ۔

کیونکہ بعض جگہہ وہ الساجی سے سندبیان کرتے ہیں ۔

۱۔ يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: وَحدث عَنهُ ابْن وهب، وَوجدت فِيمَا أجَازه لي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّد بْن عَليّ الْإِيَادِي، عَن أبي يَحْيَى السَّاجِي، قَالَ يَحْيَى بْن معِين: إِسْحَاق بْن يَحْيَى بْن طَلْحَة ضَعِيف،
۲۔ يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: قَالَ السَّاجِي: أغلب بْن تَمِيم السَّعْدِيّ، قَالَ يَحْيَى بْن معِين
۳۔ يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: قَالَ السَّاجِي فِي الضُّعَفَاء
۴۔ يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: أَخْبَرَنِي الِإيَادِيُّ إِجَازَةً، عَنِ السَّاجِيِّ
۵۔ يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: فِي كتابي عَن السَّاجِي

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ہر عبارت کا الساجی ہی کی عبارت ہونا کوئی حتمی نہیں ۔ یہ ابراہیم بن احمد کی عبارات ہیں ۔البتہ ممکن ہے کہ وہ عبارات ساجی سے ہی کرتے ہوں گے ۔

البتہ زوائد کا ہونا بھی ممکن ہے ۔ کیونکہ ساجی کی ہی اگر ساری کتاب ضعفاء یا علل ہے تو اس میں اتنی زیادہ عبارات میں یقول ابراہیم بن احمد کیوں ہے ۔

کتاب الآثار ، زہد ابن مبارک ، کتب امام احمد ، سنن شافعی ،وغیرہ جیسی بہت سی کتب میں اصل مصنف کی نصوص کے علاوہ راوی کے زوائد موجود ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب شیخ خلیل کی عبارات میں نقل کرتا ہوں جس میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ ۔تعلیقات دارقطنی علی مجروحین کے ساتھ ملحق نصوص ضعفاء ساجی کی بعض عبارات جن میں اثرم کا قول ہے ۔
اور عقیلی نے اس عبارت کو احمد بن محمد سے نقل کیا ہے ۔

1- قال الساجي في ضعفائه (النقول ص 177): ((قال الأثرم: قال أحمد بن حنبل: عمر بن حبيب قدم علينا بغداد، فلم أكتب عنه ولا حرف، وكان أحمد مستخفًا بحديثه)).
قلت: ونفس قول أحمد هذا أورده العقيلي في ضعفائه (3/152)، قال: ((حدثني الخضر بن داود، قال: حدثنا أحمد بن محمد، قال: سمعت أبا عبد الله ذكر عمر بن حبيب القاضي، قال: قدم علينا هاهنا، ولم يكتب عنه ولا حرف، وكان مستخفًا به جدًا)).
قلت: وقد بحثت في رواية العقيلي – ومن خلال الشاملة-، عن شيخه الخضر بن داود، فوجدته روى عنه إثنى عشر قولاً، عن أحمد بن محمد، عن الإمام أحمد.
وفي كل هذه النقول الإثنى عشر، جاء أحمد بن محمد، منسوبًا إلى جده: هانئ.
وهذا دليل قطعي في كون شيخ الساجي هو: أبوبكر الأثرم.
وجاء هذا القول من أبي بكر الأثرم، عن الإمام أحمد عند الخطيب البغدادي، في تاريخه (11/199)، بكنيته ونسبته


اول تو انہوں نے لکھا ہے قال الساجی فی ضعفائہ ۔ اور یہ شیخ خلیل کے الفاظ ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ساری عبارات ضعفاء ساجی کی ہیں ۔ اور ساجی کی ہی عبارات ہیں ۔

جبکہ میرے خیال میں ان کو یقول ابراہیم بن احمد ہی رہنے دیا جائے ۔ کیونکہ ساری عبارات ساجیؒ ہی کی نہیں ہیں ۔بلکہ ابراہیم بن محمدؒ کا بھی کلام ہے ۔مثلاََ یہ عبارات ملاحظہ ہوں
ان میں ایسے الفاظ ہیں کہ جس سے صاف لگتا ہے کہ
ابراہیم بن احمد کا کلام الگ ہے ۔

يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: رَأَيْت فِي الضُّعَفَاء للساجي: زنفل بْن عَبْد اللَّهِ الْعرفِيّ، حَدِيثه ضَعِيف

يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: أدخلهُ السَّاجِي فِي ضعفاء الْبَصرِيين.

واضح ہو رہا ہے کہ یہ اقوال ابراہیم بن احمد ہی کی ہیں ۔ ساری الساجیؒ کی نہیں ہیں ۔

جب ایس ممکن ہے تو احتمال یہ ہے کہ ابراہیم بن احمد ۔۔اثرم کی کتاب سے نقل کررہے ہوں ۔جیسا کہ ایک جگہہ یوں الفاظ ہیں ۔

يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: قَالَ أَحْمد بْن حَنْبَل، فِي رِوَايَة الْأَثْرَم

کیونکہ عقیلی کی کتاب میں امام احمد سے راوی احمد بن محمد بے شک اثرم ہیں ۔اور عقیلی ہی کی کتاب میں دوسری جگہہ ان کا تعیین بھی ہے أحمد بن محمد بن هانئ سے جس سے وہ اثرم متعین ہو جاتے ہیں ۔

لیکن اثرم سے راوی تو خضر ہے ساجی نہیں ہے ۔

اسی طرح تاریخ بغداد میں بھی کوئی اور راوی ہے ۔

اور بحث ہم یہ نہیں کررہے کہ احمد بن محمد جہاں بھی ہو وہ ابن محرز ہے ۔ بلکہ احمد بن محمد ۔اثرم بھی ہیں ۔
یہاں پر تو بحث ہے کہ ساجی جس احمد بن محمد سے روایت کرتے ہیں وہ اثرم ہے یا ابن محرز ۔


اور ساجی کی براہ راست روایت اثرم سے اثرم نام کی تصریح کے ساتھ مشہور یا معلوم نہیں ہے اگرچہ طبقہ کے حساب سے ساجی ، احمد بن محمد اثرم سے روایت ممکن ہے ۔ لیکن روایت مشہور نہیں ہے ۔ مجھے کچھ تلاش کرنے سے نہیں ملی۔

۔اور حافظ مغلطائی ؒ نے دو جگہہ ساجی کی کتب سے اثرم کے اقوال نقل کئے ہیں ۔ ان میں ساجیؒ ۔ اثرمؒ سے ایک واسطہ سے روایت کرتے ہیں ۔

وقال أبو يحيى زكريا بن يحيى الساجي: ۔۔۔۔۔۔ حدثني حسين عن الأثرم قال: قال أحمد بن حنبل
ایک اور جگہہ۔۔۔ قال الساجي۔۔۔۔۔۔۔ حدثني القاسم اليماني حدثنا الأثرم قال: قلت: لأحمد بن حنبل: إن عبد الملك بن الماجشون۔۔۔۔۔

اس سے یہ احتمال زیادہ قوی ہوتا ہے کہ الساجی جن احمد بن محمد سے براہ راست روایت کرتے ہیں وہ اثرم نہیں ۔ خصوصاََ یحیی بن معین کا کلام۔

اور ابراہیم بن احمد کی ساری عبارات کو بھی اگر ساجی کی ہی عبارت مان لیا جائے تو ابراہیم کئی جگہہ ساجی اور ان کے بعد کے بھی راوی کو کبھی چھوڑ دیتے ہیں ۔

مثلاََ

۱۔يَقُولُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ
۲۔بَلَغَنِي عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَيَحْيَى بْنِ مَعِينٍ، أَنَّهُمَا قَالا: إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْفَضْلِ لَيْسَ بِشَيْءٍ
۳۔يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: وقَالَ يَحْيَى بْن معِين ۔
۴۔يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: حدث يَحْيَى بْن معِين
۶۔يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: قَالَ ابْن الْمُبَارك

اب امام احمد ، علی بن مدینی ، یحیی بن معین ، ابن المبارک کے اقوال ابراہیم بن احمد براہ راست بیان کررہے ہیں ۔تو یہ اگر ساجی سے ہی نقل کررہے ہیں تو ساجی کے بعد ایک یا دو راوی اور کا بھی واسطہ بیان نہیں کر رہے ۔

اس لئے زیادہ گمان یہی ہے کہ ساجی ؒ نے جو احمد بن محمد بغدادی کے واسطہ سے یحیی بن معین سے کی ہیں وہ اثرم نہیں ہیں وہ ابن محرز ہی ہیں ۔ اور اثرم سے وہ ایک واسطہ سے روایت کرتے ہیں ۔

۔ واللہ اعلم

پھر شیخ خلیل نے لکھا ہے ۔

2- قال الساجي ص (237)، في ترجمة محمد بن كريب: ((حكى الأثرم عن أحمد بن حنبل، قال: رشدين، ومحمد، ابنا كريب أخوين، كلاهما منكر الحديث، وحمل على محمد أشد مما حمل على رشدين)).
قلت: ونفس القول الذي حكاه الأثرم هاهنا، أورده أيضًا العقيلي في ضعفائه (2/66)، قال: حدثني الخضر بن داود، قال: أخبرني أحمد بن محمد، قال: قلت لأبي عبد الله: محمد بن كريب، ورشدين بن كريب أخوان؟ قال: نعم، قلت: فأيهما أحب إليك؟ قال: كلاهما عندي منكر الحديث)).
3- وفي ترجمة عبد الله بن عبد الله أبي أويس، ص (148) جاء في الحاشية: ((قال أحمد بن حنبل – رواية الأثرم-: وأبو أويس، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة: حديث الجماع. فقال فيه: ((تقضي يومًا مكانه)). وسماع مالك بن أنس وأبي أويس من الزهري واحد، مالك لا يقول هذا، كأنه منكر)).
4- وفي ترجمة عباس بن الفضل الأنصاري، ص (210)، جاء في الحاشية: ((قال الأثرم: قال أحمد بن حنبل: صنف في الحروف مالم يصنفه أحد، لم يعجمه)).
5- وفي ترجمة محمد بن سليم الراسبي، ص (246): جاء في الحاشية: ((قال الأثرم: قال أحمد بن حنبل: أبو هلال يحتمل حديثه، إلا أنه يخالف في قتادة، وهو مضطرب الحديث


ان عبارات کے بارے میں شیخ خلیل کا کہنا یہ ہے کہ یہ ساجی کی ضعفاء کی ہیں اور وہی اثرم سے روایت کر رہے ہیں ۔

اور میرے خیال میں یہ ساجی کی ضعفاء کی عبارات ہونا حتمی نہیں ۔ اگرچہ ممکن ہے ۔ اور ہو تب بھی اس میں ساجی کا براہ راست اثرم سے نقل کرنا حتمی نہیں ۔ درمیان میں ایک اور راوی کا بھی واسطہ ہو سکتا ہے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابراہیم بن احمد براہ راست اثرم کی کتاب سے نقل کررہے ہوں ۔واللہ اعلم

البتہ ایک عبارت شیخ خلیل نے نقل کی ہے ۔

6- وجاء في ترجمة محمد بن عمر الواقدي، ص (250-251): ((قال أحمد بن حنبل: لم نزل ندافع أمر الواقدي، حتى روى عن معمر، عن الزهري، عن نبهان، عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: ((افعمياوان أنتما)). فجاء بشيء لا حيلة فيه.
والحديث حديث يونس، لم روه غيره)).
وهذه الحكاية عن الإمام أحمد، ذكرها الخطيب البغدادي في تاريخه (3/16- 17)، مرتين، وذلك لما ترجم للواقدي.
ففي الموضع الأول: رواها من طريق زكريا الساجي، قال: حدثني أحمد بن محمد، قال:سمعت أحمد بن حنبل...فذكره.
وأما الموضع الثاني، فرواها من طريق محمد بن جعفر الراشدي، قال: حدثنا أبو بكر الأثرم، قال: سمعت أبا عبد الله...فذكرها.
ومن خلال هذه النقول المذكورة، أعطت دلالة قطعية في كون أحمد بن محمد البغدادي، شيخ الساجي، هو نفسه: أبو بكر الأثرم.
وبذلك صح ظن الإمام المزي، في كونه الأثرم
وصلى الله على نبينا محمد، وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا.
وكتب: خليل بن محمد العربي.


انہوں نے پوری عبارات نقل نہیں کیں پوری عبارات یہ ہیں ۔

۱۔تعلیقات دارقطنی علی مجروحین میں یہ ہے

يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: قَالَ أَحْمد بْن حَنْبَل: لم نزل ندافع أَمر الْوَاقِدِيّ حَتَّى.
رَوَى عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَن ِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا» فَجَاءَ بِشَيْءٍ لَا حِيلَةَ فِيهِ.

۲۔ عبارت خطیب بطریق اثرم

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّاشِدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الأَثْرَمُ، قَالَ: سمعت أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: فِي حَدِيثِ نَبْهَانَ هَذَا قَوْلَهُ: " أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثُ يُونُسَ لَمْ يَرْوِهِ غَيْرُهُ.
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَكَانَ الْوَاقِدِيُّ رَوَاهُ عَنْ مَعْمَرٍ وَتَبَسَّمَ، أي: ليس من حديث معمر، حدثناه عبد الرزاق، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ

۳۔ عبارت خطیب بطریق احمد بن محمد

زَكَرِيَّا السَّاجِيُّ، قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ وَاقِدٍ الأَسْلَمِيُّ، قَاضِي بَغْدَادَ مُتَّهَمٌ؛ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سمعت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: لَمْ نَزَلْ نُدَافِعُ أَمْرَ الْوَاقِدِيِّ، حَتَّى رَوَى عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا ".
فَجَاءَ بِشَيْءٍ لا حِيلَةَ فِيهِ، وَالْحَدِيثُ حَدِيثُ يُونُسَ لَمْ يَرْوِهِ غَيْرُهُ

اس میں شیخ خلیل سے اختلاف کرنے والے ایک اور بھائی نے یہ کہا ہے کہ عبارات ایک جیسی نہیں ہیں ۔جب ایک جیسی نہیں ہیں تو پھر راوی بھی مختلف ہوئے ۔

بہرحال میرے خیال میں دونوں احتمال ہیں ۔ کچھ عبارت ملتی بھی ہے ۔

اور دو الگ راویوں کی عبارات بھی کچھ ملتی جلتی ہوسکتی ہیں ۔ اس لئے ہم حتمی کچھ نہیں کہتے۔

آخر کو احمد بن حنبل سے احمد بن محمد بن ہانی اثرم بھی راوی ہیں ۔ اور احمد بن محمد ابن محرز بھی تاریخ میں کئی جگہہ راوی ہیں ۔

بہرحال حافظ مزیؒ اور ذہبیؒ کے گمان کی وجہ یہ لگتی ہے کہ احمد بن حنبل سے روایت کرنے میں زیادہ مشہور اثرم ہی ہیں ۔

البتہ ان دونوں حفاظ نے ساجیؒ کی ضعفاء سے براہ راست نہیں نقل کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

البتہ یہ ضروری نہیں کہ یحیی سے روایت کرنے والے بھی اثرم ہیں ۔ آخر کو اِس طرف بھی دلائل ہیں ۔ مثلاََ پہلی عبارت

احمد پربھنوی بھائی نے جو نقل کی ہے وہی ہے ۔

اس کے علاوہ

ابن خلفون اندلسی ۶۳۹ھ نے اسماء الشیوخ مالک میں الساجی کی ضعفاء سے کچھ عبارات نقل کی ہیں ۔

ان میں یحیی بن معین ؒ سے بعض جگہہ احمد بن محمد کے واسطہ سے عبارات ہیں ۔اور بعض جگہہ درمیان کا واسطہ نہیں ہے یعنی الساجیؒ نے براہ راست یحیی بن معین کا نام لیا ہے ۔

جو کہ میرے خیال میں احمد بن محمد ؒ پر اعتماد کرتے ہوئے ان کا واسطہ چھوڑا ہے ۔

اوپر گزری خطیب اور ذہبی کی ابن اسحاق سے متعلق عبارت بھی ساجی کی ابن خلفون نے براہ راست ان کی کتاب سے نقل کی ہے ۔ اس میں اسلوب سے صاف ظاہر ہے کہ وہ احمد بن محمد سے احتجاج کر رہے ہیں ۔

قال أبو يحيى: وكان مالك بن أنس يطلق لسانه في الثقات، من ذلك ما حدثني أحمد بن محمد البغدادي، قال:

یعنی ساجی نے نتیجہ پہلے بتا دیا اور دلیل احمد بن محمد کی عبارت ۔۔۔

یہ تو احمد بن محمد بغدادی کے نام سے متعلق بات ہوئی اب یہ احمد بن محمد بغدادی ۔۔کی دو عبارات مجھے ابن محرز کی تاریخ میں نظر آئی ہیں ۔

2۔ وحكى أبو يحيى الساجي قال: ((قال يحيى بن معين: عمرو بن الحارث ثقة

اگرچہ ابن ابی حاتم نےبھی یحیی سے ایسا روایت کیا ہے ۔

عبد الرحمن قال ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين انه قال عمرو بن الحارث ثقة.

لیکن اس میں الساجی نہیں ہیں ۔ تو ابن محرز کی تاریخ میں دو جگہہ عبارت ہے ۔

وسالت يحيى بن معين عن عمرو بن الحارث فقال ثقة
سمعت يحيى مرة أخرى يقول عمرو بن الحارث يعنى المصرى ثقة

اس سے لگتا ہے کہ ساجیؒ نے یہ روایت احمد بن محمد بغدادی کے ذریعے سے کی ہے ۔اور وہ ابن محرز ہیں ۔

3۔وقال أبو يحيى الساجي: ((۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقال: قال يحيى بن معين: أبو الزبير أحب إلي من أبي سفيان، يعني طلحة بن نافع)).

یہ الدوری عن یحیی میں یوں ہے ۔

الدُّوري: سمعتُ يَحيَى بن مَعين، يقولُ: أَبو الزُّبَير أَحبُّ إِليَّ من أَبي سُفيان، وكان أَبو الزُّبَير، وأَبو سُفيان، جميعًا من مَكَّة

اور ابن محرز میں یوں ہے ۔

سمعت يحيى يقولابو الزبير احب الى منى ابى سفيان يعنى طلحة بن نافع المكى صاحب جابر بن عبد الله

اور ابن محرز کی عبارت ہی ساجی کی عبارت سے زیادہ ملتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہم جاہلین کے ظن کی مزی اور ذہبی کے ظن کے مقابلے میں کیا حیثیت ہونی ہے ۔
اس لئےالحمد لِلہ ہمیں بھی حافظ الدنیا ابن حجر کی تائید حاصل ہے ۔

مزیؒ اور ذہبیؒ نے تو ظن سے ایک رائے ظاہر کی

لیکن ابن حجر العسقلانیؒ نے حافظ الساجیؒ کے شیخ احمد بن محمد ؒ کو بالجزم دو تین جگہہ ابن محرز فرمایا ہے ۔

۱۔ وقال زكريا بن يحيى الساجي محمد بن عمر الواقدي قاضي بغداد متهم حدثني أحمد بن محمد يعني بن محرز سمعت أحمد بن حنبل يقول۔۔۔۔

۲۔وقال الساجي في حديثه نظر واختلاف وسمعت العباس العنبري يحدث عنه ويطريه وثنا أحمد بن محمد يعني بن محرز ثنا عمرو الناقد قال۔۔۔۔۔

تہذیب التہذیب ۔ ترجمہ واقدی

اور مسلم بن خالد کے ترجمہ میں تو الساجیؒ کی عبارت میں ہی وضاحت ہے ۔

۳۔ مغلطائیؒ نے ایک عبارت ساجی سے نقل کی ہے ۔

وقال الساجي: صدوق، كثير الغلط، صاحب رأي وفقه. حدثني أحمد بن محمد قال: سمعت يحيى بن معين يقول: كان مسلم بن خالد ثقة صالح الحديث، وكان يرى القدر، قال أبو يحيى: قد روى عنه ما ينفي القدر،

حافظ ابن حجر ؒ نے بھی نقل کی ہے اور انہوں نے تو یہاں الساجی حدثنا احمد بن محرز سمعت یحیی بن معین نقل کیا ہے ۔
یہاں تو حافظ ؒ نے ۔یعنی ۔ بھی نہیں فرمایا ۔محسوس ہوتا ہے کہ ساجی ؒ نے خود ہی احمد بن محرز کہا ہے ۔

قلت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقال الساجي صدوق كان كثير الغلط وكان يرى القدر قال الساجي وقد روى عنه ما ينفي القدر حدثنا أحمد بن محرز سمعت يحيى بن معين يقول كان مسلم بن خالد ثقة

۴۔ يحيى بن عبد الحميد الحماني کے ترجمہ میں

قال الساجي عن أحمد بن محمد هو بن محرز عن القعنبي۔۔۔

۵۔ یونس بن بکیر کے ترجمہ میں ۔

قال الساجي وحدثني أحمد بن محمد يعني بن محرز قال قلت: ليحيى الحماني إلا تروي عن يونس

حافظ ابن حجرؒ تہذیب الکمال مزی کی عبارات نقل کر کے پھر ۔ قلت ۔ سے اپنی بات کرتے ہیں ۔اور اس میں صاف نظر آتا ہے کہ وہ ساجیؒ کی کتاب سے براہ راست نقل کرتے ہیں ۔

اور اس بحث کا صحیح فیصلہ ساجیؒ کی اصل کتاب سے ہی ہوسکتا ہے ۔

بہرحال اگر کوئی اس کو اثرم سمجھے تو گنجائش ہے ۔ بعض جگہہ اثرم اور بعض جگہہ ابن محرز بھی ہوسکتے ہیں ۔

البتہ زیادہ ظاہر یہی ہے کہ خصوصاََیحیی بن معین سے روایت میں یہ ابن محرز ہیں ۔ واللہ اعلم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احمد پربھنوی بھائی ۔ آپ نے جو عبارت نقل کی ہے پہلی پوسٹ میں


چلیے ہم ابن محرز کی توثیق بتلاتے ہیں،
نا عبد الرحمن حدثني أبي حدثنى أبوالعباس المحرزى قال سألت على بن المدينى عن ابى كعب صاحب الحرير فقال كان يحيى بن سعيد يوثقه (الجرح والتعديل 6/41)
ترجمہ :عبدالرحمن ابن ابو حاتم کہتے ہیں مجھے میرے والد نے بیان کیا انہیں ابو العباس محرزی نے، کہتے ہیں علی بن مدینی سے میں نے ابو کعب کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا یحی بن سعید القطان ان کی توثیق کرتے تھے ـ

ہم یہاں یہ نہیں بتلارہے ہیں کہ ابن محرز نے ابن المدینی سے کیا سوال کیا بلکہ یہ بتلارہے ہیں کہ ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے ابن محرز سے روایت کیا ـ

اس کی تاریخ ابن محرزؒ کی نقل بھی ساتھ نقل کرنی چاہیے تھی۔

سمعت عليا وقلت له ابة كعب صاحب الحرير قال ثقة قلت اسمه قال عبد ربه قلت ابن من قال لا يعرف قلت يحيى أعنى ابن سعيد القطان كان يوثقه قال نعم
 

احمد پربھنوی

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

بہت بہت شکریہ بارک اللہ في علمك

اردو میں یہ بحث چاہیے تھی،یہ میں نے پڑھا تھا
یہاں میں نے الکامل لابن عدی کی اس سند جس کے تعلق سے پوچھا تھا جس میں أحمد بن محمد البغدادی ہے اور وہ حفص اور ابو بکر کے بارے میں ابن معین سے قول سنا رہے ہیں تمام احمد بن محمد کے تعلق سے نہیں کیونکہ اس میں بہت سارے احتمالات و گمان وغیرہ آجاتے ہیں جس کی طرف حافظ مزی و امام ذھبی نے بھی اشارہ کیاہے کیونکہ الساجی کے شیوخ میں احمد بن محمد نام سے کئ ہے جس کی وجہ سے تعین کرنے میں کافی دقت اور ایک نتیجہ پر پہنچنا بہت ہی مشکل ہے ـ
اب آپ اگر اِس روایت کی طرف دیکھیں گے جو الکامل لابن عدی میں موجود ہے

أنا الساجي ثنا أحمد بن محمد البغدادي قال: سمعت يحيى بن معين يقول: كان حفص بن سليمان وأبو بكر بن عياش من أعلم الناس بقراءة عاصم وكان حفص أقرأ من أبي بكر، وكان أبو بكر صدوقا، وكان حفص كذابا(الکامل 3/268)

اس روایت میں احمد بن محمد جن سے الساجی روایت کررہے ہیں ساتھ ہی انہوں نے البغدادی بھی کہا ہے لیکن پہر بھی بغدادی شیوخ میں احمد بن محمد نام سے کئی ہیں لیکن ابن معین رحمہ کا یہ قول صرف ابن محرز سے ملتا ہے باقی الاثرم سے یا ابن الصلت سے یا کسی اور سے یہ قول نہیں ملتا تو مجھے لگتا ہے کہ اس روایت میں ابن معین رحمہ اللہ سے روایت کرنے والے احمد بن محمد ، ابن محرز ہی ہے

اسی طرح دوسرے اقوال میں بھی اگر کہیں دوسری کتاب سے راوی کی صراحت مل جائے یعنی الاثرم یا المحرزی وغیرہ کی صراحت ملتی ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ فلاں قول میں الاثرم ہے یا ابن محرز ہے یا کوئی اور ہے

اس کی تاریخ ابن محرزؒ کی نقل بھی ساتھ نقل کرنی چاہیے تھی۔

سمعت عليا وقلت له ابة كعب صاحب الحرير قال ثقة قلت اسمه قال عبد ربه قلت ابن من قال لا يعرف قلت يحيى أعنى ابن سعيد القطان كان يوثقه قال نعم

جی کرنی چاہیے تھی لیکن امام ابو حاتم الرازی رح نے وہاں صراحت سے ابو العباس المحرزی لکھ دیا ہے تو ضرورت ہی نہیں کہ اس روایت کو ابن محرز کی تاریخ سے بھی بتلایا جائے کہ ابن محرز کی تاریخ میں بھی یہ قول موجود ہے لہذا یہ ابن محرز ہے ـ
 
Top