فضیل احمد ناصری
الہی کیسے طے ہوگا، یہ پیچیدہ سفر اپنا
نہ منزل کا نشاں کوئی، نہ کامل راہ بر اپنا
یہاں سب لوگ اپنے اپنے من کی بات کرتے ہیں
نہیں دیتے ہیں ملت کو مگر خونِ جگر اپنا
خدا سے دور، لیکن عالمِ فانی سے ربط ایسا
جہاں طاقت نظر آئی، جھکا دیتے ہیں سر اپنا
یقیں ہو، جہدِ پیہم ہو تو طوفاں بچ کے چلتے ہیں
فضائیں ہیں انہی کی، جو کھلے رکھتے ہیں پر اپنا
نہ صورت اپنے آبا سی، نہ سیرت اپنے آبا سی
کلیساؤں کا بندہ بن گیا، ذوقِ نظر اپنا
ہویدا جرأتِ کردار، ہم میں ہو تو کیوں کر ہو
خطابت بے اثر اپنی، مسیحا بے ہنر اپنا
یہ معبد شیخ زادوں کا، یہ تیلی کا، یہ گوجر کا
مساجد کو بھی ظالم نے بنا ڈالا ہے گھر اپنا
ہزیمت در ہزیمت ہے، تباہی در تباہی ہے
مگر یہ طبقۂ مسلم ہے اب تک بے خبر اپنا
جبینِ قومِ مسلم سے ہوے آباد بت خانے
جدھر دیکھیں، وہیں ہے مرثیہ خواں سنگِ در اپنا
الہی کیسے طے ہوگا، یہ پیچیدہ سفر اپنا
نہ منزل کا نشاں کوئی، نہ کامل راہ بر اپنا
یہاں سب لوگ اپنے اپنے من کی بات کرتے ہیں
نہیں دیتے ہیں ملت کو مگر خونِ جگر اپنا
خدا سے دور، لیکن عالمِ فانی سے ربط ایسا
جہاں طاقت نظر آئی، جھکا دیتے ہیں سر اپنا
یقیں ہو، جہدِ پیہم ہو تو طوفاں بچ کے چلتے ہیں
فضائیں ہیں انہی کی، جو کھلے رکھتے ہیں پر اپنا
نہ صورت اپنے آبا سی، نہ سیرت اپنے آبا سی
کلیساؤں کا بندہ بن گیا، ذوقِ نظر اپنا
ہویدا جرأتِ کردار، ہم میں ہو تو کیوں کر ہو
خطابت بے اثر اپنی، مسیحا بے ہنر اپنا
یہ معبد شیخ زادوں کا، یہ تیلی کا، یہ گوجر کا
مساجد کو بھی ظالم نے بنا ڈالا ہے گھر اپنا
ہزیمت در ہزیمت ہے، تباہی در تباہی ہے
مگر یہ طبقۂ مسلم ہے اب تک بے خبر اپنا
جبینِ قومِ مسلم سے ہوے آباد بت خانے
جدھر دیکھیں، وہیں ہے مرثیہ خواں سنگِ در اپنا