:مدبّر اسلام ، شہنشاہِ قلم ، نقاد اعظم حضرت مولانا عامر عثمانی صاحب نوراللہ مرقدہٗ۔
تجلی کا اجرا کرتے وقت انہیں اپنے اور غیروں کے ہزار طعن سننے پڑے تھے انہیں دوستوں کے منہ سے بھی ہمت شکن باتیں سننے کو ملی تھیں ہر شخص محترم جیسا کہ عنوان سے آپ جان ہی چکے ہیں یہ مضمون مدبّر اسلام جناب حضرت مولانا عامر عثمانی صاحبؒ کی ذات گرامی سے منسوب ہے علامہ عامر عثمانی صاحبؒ خانوادۂ عثمانی کی ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں میں نے بچپن سے یہی بات سنی ہے کہ قلم انکا غلام اردوزبان ان کی باندی الفاظ ان کے اسیر حق بیانی انکی پہچان اور تحقیق انکی تحریروں کا خاصہ ہے۔
تفسیر ،حدیث ، فقہ ، شرک وبدعت ،طنز ومزاح ہو یا پھر شاعری حتی کہ کوئی بھی موضوع ہو علامہ نے جو بھی لکھا محققانہ لکھا بادلیل لکھا مستند لکھا۔ اب کسی ایسے انسان کے بارے میں بغرض تعارف کچھ لکھ مارنا آسان ہوتاہے جس کی شخصیت کا ایک ہی رخ ہو ایک ہی پہلو ہو ایک زاویہ ہو۔ لیکن کسی ایسے انسان کا تعارف نامہ مرتب کرتے وقت بڑی الجھنیں اور دشوار یاں پیش آتی ہیں جسکی ایک شخصیت میں بے شمار شخصیتیں مدغم ہوں۔جسکا معنوی جسم ہزار معنوی روحوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوجوایک پھول ہوکر بجائے خود ایک چمن ہو جو ایک ذات ہوکر بجائے خود ایک انجمن ہو۔
مولانا عامر عثمانی صاحبؒ بھی کچھ اسی قسم کے انسان تھے ان کی شخصیت کے بھی کئی رخ تھے۔کئی پہلو تھے ان کی جادوئی تحریر کا مثنوع رنگ یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی صلاحیتیں غیر محدود بھی تھیں اور نوع بہ نوع بھی۔ ہر قلم کار اور ہر فن کار کے تحریر میں کچھ نہ کچھ انفرادیت ضرور پائی جاتی ہے ہر صاحب قلم کا کوئی خاص موضوع ایسا ہوتا ہے جس پر وہ جم کر گفتگو کرسکے اور جس پر خامہ فرسائی کرنے کا اسے ملکہ ہو۔ مولانا عامر عثمانی صاحبؒ کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ ہر موضوع پر لکھ سکتے تھے ہر انداز میں اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کی قدرت انہیں حاصل تھی۔
شاعر کی حیثیت سے انکا مقام بہت اونچا ہے ادیب کی حیثیت سے انہیں ماہر وکامل سمجھا جاتا ہے مبصر کی حیثیت سے وہ بے مثال ہیں تنقید نگاری میں انکا کوئی ثانی نظر نہیں آتا محقق کی حیثیت سے ان کی عظمت ورفعت کا صحیح اندازہ لگالینا مشکل ہے مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے ایک بار کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لکھنامولانا کے لئے آسان کردیا تھا۔
وہ کسی ایک فن اور کسی ایک خوبی کے مالک نہیں تھے بلکہ بے شمار ذاتی خوبیاں اور علمی راعنیائیاں ان کے قلب وقالب میں رچی ہوئی تھیں۔ بظاہر وہ ایک انسانی ڈھانچہ ہی تھے لیکن در حقیقت وہ ایک مکتب تھے ایک لائبریری تھے ایک کتب خانہ تھے ایک یونیورسٹی تھے۔ان کی ہمہ جہت شخصیت ملک بھر میں آج بھی اپنا جواب نہیں رکھتی۔
تحریر والفاظ کی صورت میں علم وادراک کا جو سرمایہ انھوں نے امت مسلمہ کو بخشا ہے وہ اتنا قیمتی اور انمول ہے کہ دل ودماغ میں اپنی جان سے زیادہ اس کی حفاظت کرنے کا تقاضہ پیدا ہوتا ہے ۔ان کی تحریر پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولانا عامر عثمانی صاحبؒ شاعر بھی تھے ادیب بھی تھے فقیہہ بھی تھے مفسر بھی تھے مبصّر بھی تھے مدبر بھی تھے محقق بھی تھے نقاد بھی تھے اور محاذ تحریر کے مجاہد بھی تھے۔
اس تمہید کے بعد آیئے ان کی مختصر سوانح حیات کی طرف چلتے ہیں ۔۱۹۲۰ء ہردوئی میں پیداہوئے جہاں ان کے والد الشیخ مولانا مطلوب الرحمن عثمانی صاحبؒ خلیفۂ شیخ الہندؒ بحیثیت انجینئر سرکاری ملازم تھے۔جس دن آپ پیدا ہوئے اسی دن شیخ الہند صاحب کی رحلت کا سانحہ پیش آیا۔آپ کا انتقال ۱۲؍اپریل ۱۹۷۵ء کو ممبئی میں ہواآپ نے کل ۵۵سال کی عمر ہی اس جہانِ فانی میں گزاری ۱۹۳۹ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔آپ بچپن ہی سے محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنے کے عادی تھے۔ مزدوری کرنے میں بھی کبھی عار محسوس نہیں کیا معمولی سے معمولی کام کرکے اپنے ضروری اخراجات پورے کرلیا کرتے تھے۔دوران طالب علمی میں اپنے چھوٹے بھائی عمر فاروق عثمانیؒ کے ہمراہ پتنگیں بنابنا کر فروخت کیا کرتے تھے یہ سلسلہ طالب علمی کے بعد بھی کچھ عرصہ تک جاری رہا۔اس کے بعد شیشوں پر لکھنے کی مشق کی اور جلد ہی وہ ایک آرٹسٹ بن گئے۔اس خداداد صلاحیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اپنی دلچسپی پوری طرح آرٹ کی طرف مبذول کردی اوراس طرح دیوبند کے کئی مشہور کتب خانوں کی زیادہ تر کتابوں کی ٹائٹل سازی اور تصحیح وغیرہ بھی ایک عرصہ تک کرتے رہے۔ایک طویل مدت تک یہ مشغلہ جاری رہا لیکن اسے بھی وہ مستقل طور پر جاری نہ رکھ سکے اور اس سے بھی ازخود نجات حاصل کرلی۔پھر اس کے بعد براورخورد عمرفاروق صاحبؒ کے ساتھ ہی محلہ سرسٹہ میں ایک پرچون کی دوکان کھولی حسن اخلاق اور حسن امعاملات کی وجہ سے یہ دوکان اپنے بچپن ہی میں دیوبند بھر میں مشہور ہوگئی تھی ہر طرف اس دوکان کے چرچے ہونے لگے اور ہر سواس کی دیانت صفائی معاملات اور حسن اخلاق کی شہرت ہوگئی اور لوگوں کا ذہن ان کے
بارے میں یہ بن گیا کہ اپنی ضرورت کا سامان اسی دوکان سے خریدا جائے۔ لیکن اس دوکان کو بھی عہد شباب تک پہنچنے کی نوبت نہ آسکی اور یہ اپنے لڑکپن میں ہی مرحوم ہوگئی۔
ایک فرقہ ایسا بھی ہوا کہ وہ دیوبند کو چھوڑ کر ممبئی چلے گے اوراپنی فطری صلاحیتوں کا سہارا لیکر فلمی دنیا تک رسائی حاصل کی اور ایک فلم کمپنی سے باضابطہ معاہدہ کے بعد ایک کہانی اور کچھ گانے بھی لکھے اس کا میابی کے باوجود ان کو قلبی سکون اور نشاط میسر نہ آسکا ان کے والد محترم حضرت مولانا مطلوب الرحمن عثمانی صاحبؒ ان کی اس حرکت سے سخت بیزار اور ناخوش تھے اور انہوں نے مولانا کو اس بات سے مطلع کردیا تھا کہ فلمی دنیا سے کمایا گیا پیسہ میرے نزدیک ناجائز ہے اور میرے گھر کا کوئی فرد اس کو استعمال نہیں کریگا۔میں اور تمہاری والدہ تم سے خفا ہیں اور یہ خفگی اس وقت تک باقی رہے گی جب تک تم فلمی دنیا کو ٹھوکر مارکر دیوبند نہ چلے آؤ۔
راہِ حق کا وہ مجاہد جو خود بھی اس زندگی پر غیر مطمئن تھا والد صاحب کے اس فیصلے کو سنکر تڑپ اٹھا اور فلمی دنیا کی تمام تر چمک دمک پر ٹھوکر مار کر دیوبند واپس آگیا۔واپسی پر مختلف ذریعہ معاش کے بعد انھوں نے ۱۹۴۹ ءمیں ماہنامہ تجلی کا اجراء کیا اور ۱۹۵۰ ء میں مکتبہ تجلی کی داغ بیل ڈالی ان کے چھوٹے بھائی عمر فاروق عثمانی صاحبؒ مکتبہ تجلی کے مینجر تھے وہ مکتبہ تجلی سنبھالتے تھے اور مولانا ماہنامہ تجلی اور پھر آخری عمر تک تجلی اور مکتبہ تجلی ہی ان کے معاش کا ذریعہ بنے رہے۔انہیں ملامت کررہا تھا۔ان کے ارادہ کا مذاق اڑارہا تھا انتہائی اضطراب کے عالم میں وہ مولانا منظور نعمانی صاحب سے ملے اوران سے مشورہ کیا۔
انھوں نے بھی وہی بات کہی جو زبان دیگر تھی ۔،، مذہبی پرچے نہیں چلا کرتے کچھ اور کسر،،لیکن انہیں پرچہ نکالنے کی دھن تھی دو اصل وہ طالب علمی کے زمانہ میں کئی قلمی پرچے نکال چکے تھے اور فراغت کے بعد کئی ماہناموں کے ایڈیٹر بھی رہ چکے تھے اب انکی تمنا یہ تھی کہ انکا ذاتی پرچہ ہو۔فلم آزاد ہو صلاحیتیں کسی کی پابند نہ ہوں وجدان کسی کااسیر نہ ہو۔در اصل حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کا مزہ ہی جب ہے جب آدمی اپنی زبان سے بول رہا ہو اپنے ذہن سے سوچ رہا ہواپنے قلم سے لکھ رہا ہو۔
وہ ایک ایسا پرچہ نکالنے کے خواہش مند تھے جو اول تا آخر ان کی ملکیت ہو۔اس کے ایک ایک صفحہ پر ان کا اختیار ہو۔کوئی شریک نہ ہوکوئی دخیل نہ ہو۔انہوں نے انتہائی جذبہ کے ساتھ تجلی نکالنے کا ارادہ کیا لیکن دوستوں نے اپنے مشورو ں کی کھنڈی چھوری سے ان کے جذبۂ وارادہ کو مجروح و پامال کردیا ایسے ناگفتہ یہ اور ناسازگار حالات میں ان پر جو کچھ گزری ہوگی اس کا صحیح ادراک تو نہیں کیا جاسکتا البتہ ان کی تحریر میں انکا یہ بیان پڑھ کر ان کی سچی دہن بے لوث لگن اور آہی ہمت کا کسی نہ کسی درجہ میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’دوستوں نے کہا مذہبی رسالے پہلے ہی چلنے مشکل تھے
اب تبدیل شدہ حالات اور مایوس کن ففتامیں کیا چلیں گے۔پھر وہ مذہب جسے تو مذہب کہتا ہے ۔یعنی ساڑھے تیرہ سو سال پہلا خالص بے میل اسلام ،اس کا نام لینے والے تو ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت میں اچھوت اور بے دین اور وہابی سمجھے جاتے ہیں نہ تیرے پاس سرمایہ ہے نہ کافی ذرائع ہیں۔بہت مسلمان پاکستان چلے گئے یہاں جو ہیں وہ غیر مطمئن سر اسمیہ اور متزلزل ہیں مذہبی رسالہ کو ن خریدے گا۔،،
دوستوں کی ہمت شکن باتیں سنکر مجھے دل براداشتہ ہوجانا چاہئے تھا خصوصاً اپنی بے زری اور دائم المرضی کو دیکھتے ہوئے۔لیکن ایک شعلہ تھا جو دل میں بھڑکتا ہی رہا۔ایک آندھی تھی جو چلی ہی رہی طوفان کی پرواکئے بغیر میں نے کشتی پانی میں ڈالدی۔
’’تجلی نکال دیا۔اب بعض کرم فرماؤں کا ارشاد یہ ہوا کہ دیوانے تو اگر اپنا لہو پلاکر رسالہ کو زندہ بھی رکھ سکا تو اس میں کون سی خاص مذہبی منفعت ہوگی۔چند سو یا چند ہزار مسلمانوں تک تیری آواز پہنچ بھی گئی تو ہمہ گیر بحران ومایوسی پر اس کا کیا اثر پڑسکے گا۔گمراہی وبدعقیدگی کی آہنی دیواروں کو تو کہاں ڈھاسکے گا۔
اعتراض معقول تھا منطق اور حقائق قدم قدم پر میرے مخالف تھے۔ لیکن میں نے جواب دیاکہ جو کچھ بھی ہو میرے خدانے مجھے جتنی ہمت۔جتنی عقل،جتنی صلاحیت عطاکی ہے مجھ پر فقط اتنی ہی ذمہ داری ہے میرے بی میں اگر مکمل اصلاح،وسیع انقلاب اور عظیم تعمیر وتبلیغ نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ہاتھ پیر توڑ کر مایوس ہوبیٹھوں۔ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّوُسْعَہَا۔میرا خدا مجھ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ دنیا بھر میں تو نے اسلامی انقلابرپا کیوں نہیں کیا؟کروڑوں سینوں سے جہل وطغیانی کس سپاہی کیوں نہیں دھوئی؟بلکہ وہ پوچھے گا کہ تجھے ہم نے جتنی طاقت، جتنی صلاحیت بخشی تھی تونے اسے ہمارے دین کی خاطر استعمال کیا یا نہیں؟ تونے اپنی وسعت کے مطابق جدوجہد کی یا نہیں؟
یہی سیدھا سادا فلسفہ ہے جو انسان پر عمل راہ کھولتا ہے۔ورنہ اگر ہر معمار یہ سوچ لے کہ یا تو تنہا پورا محل بناکر چھوڑے گا ورنہ ایک اینٹ بھی نہیں رکھے گا تو کوئی عمارت نہ بن سکے اور دنیا ویران ہوجائے۔(شاہنامہ جلد اول ص۱۳ )
دوست دیکھتے رہ گئے ان کے تجلی نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ مذہبی پرچوں میں اتنی مقبولیت کسی پرچہ کو حاصل نہیں ہے اور آج ۲۰۱۰ ء تک اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کہیں بھی اردو زبان میں کوئی ایسا مذہبی رسالہ نہیں ہے جو تجلی کی تعداد اشاعت اور مقبولیت کے برابر تو درکنار آس پاس بھی پہنچتا ہو’’تجلی،،دنیا کا وہ واحد مذہبی رسالہ ہے جسکا لوگ باقاعدہ انتظار کیا کرتے تھے۔آج تو ہم دیکھتے ہی کہ لوگ کسی بھی ماہنامے کا انتظار تو کیا کرتے بلکہ آجانے پر اسے پورا حرف بہ حر ف پڑھتے بھی نہیں۔تجلی کی یہ مقبولیت ان کی ہمت ۔لگن اور جدوجہد کا نتیجہ تھی۔یا یہ صلہ تھا اس حق پرستی کا جس کی خاطر انھوں نے اپنا چین وسکون تیج دیا تھا۔انھوں نے جو بھی لکھا پوری سچائی ایمانداری اور دلیل کے ساتھ لکھا میں ان کے دور میں اس دنیا میں نہیں تھا اس لیے ان کے علم کا بجتا ہوا ڈنکا تو نہیں دیکھ سکا لیکن آج جب شعور آنکھیں کھول رہا ہے تو تجلی پڑھنے کی سعادت نصیب ہورہی ہے۔ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد ان کے علم کا اندازہ ہوتا ہے کس قدر عمیق مطالعہ تھا کس دقر دلائل کے ساتھ لکھتے تھے کس قدر مفصل لکھتے تھے اورکس قدر نڈر ہوکر لکھتے تھے۔شرک وبدعت کے خلاف ان کی عالمانہ تحریریں پڑھنے کے بعد آج اس دور پر فتن میں ان کی بہت یاد آتی ہے آج دیوبند میں جیسے جیسے کارنامے انجام دیئے جانے لگے ان کو دیکھ کر بارہا یہی احساس ہوتا ہے کہ کاش تجلی زندہ ہوتا
ابات مدبر اسلام حضرت مولانا عامر عثمانی صاحبؒ کی ہورہی ہے ان کی سوانح کی طرف واپس آتے ہیں۔ حضرت مولانا کی پہلی شادی ۱۹۶۱ ء میں ہوئی پہلی بیوی کا نا م حسینہ تھا یہ مرحوم کی چچازاد بہن تھیں ۔چھ سال تک راہ حیات میں بہ مرحوم کی شریک سفررہیں اوراس کے بعد ایک مہلک مرض میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ان کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امّ حبیبہ رکھا گیا ام حبیبہ کی تمام زندگی پاکستان میں اپنی دادی کے پاس گذری ہے۔ان کا انتقال ۲۸اگست کوہ پاکستان میں ہی ہوا۔ام حبیبہ کی دادی (مولانا مرحوم کی والدہ کانام صدیقہ ہے)انہیں الشیخ حضرت مولانا مطلوب الرحمن عثمانی صاحب جیسے بزرگ اور صاحب ورع عالم کی زوجیت کا شرف حاصل ہے ان کا انتقال ۱۹۸۱ ء میں کراچی میں ہوا مولانا کی دوسری شادی ۱۹۵۲ ء میں ہوئی دوسری بیوی کا نام قدسیہ تھا۔یہ مستحسن صاحب (آستانہ دہلی)کے ایڈیٹر)کی ہمشیرہ تھیں ا ن کے ساتھ کسی وجہ سے نباہ نہ ہوسکا اورایک ہی سال کے اندر نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ان کے بطن سے ایک لڑکی پیداہوئی جسے جاننے والے بشریٰ رانی کے نام سے جانتے ہیں۔یہ وہی بشریٰ رانی ہیں جنہیں مولانا کے انتقال کے بعد تجلی کا معاون ایڈیٹر بنانے کا خیال تھا لکن پھر کچھ مصلحتوں کی بناء پر اس خیال کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا بشریٰ رانی شادی شدہ ہیں انکے شوہر کانام محمد خالد ہے ان کے بطن سے ایک لڑکی اورایک لڑکا پیداہوئے دونوں نے اعلی تعلیم حاصل کی اور لڑکی ایک بہت بڑی ڈاکٹر ہیں ا ور لڑکا گووامیں ہوٹل مینجر ہے۔بشریٰ رانی صاحبہ خود بھی اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور مولانا کی تیسری شادی ۱۹۵۵میں ماموں زاد کی بیٹی سے ہوئی تیسری بیوی کا نام نسیم فاطمہ ہے۔نسیم فاطمہ صاحبہ بیس سال تک ان کی شریک حیات بنی رہی اور ماشاء اللہ اب تک باصحت حیات ہیں ان کے بطن سے سات لڑکیاں اور تین لڑکے پیداہوئے۔
مولانا کے بہن بھائیوں میں۔زبیر افضل عثمانیؒ ،عمر فاروق عاصم عثمانیؒ علی اکبر عثمانیؒ یوسف عثمانی،نائلہ عثمانیؒ اسماء عثمانی ،عائشہ عثمانیؒ خدیجہ نوید عثمانی یوسف عثمانی صاحب اور خدیجہ نوید عثمانی صاحب پاکستان میں مقیم ہیں بہت اچھے شاعر ہیں اور p/i/aکے آرٹ شعبہ سے رٹائر ہوکر کراچی میں سکونت پذیر ہیں۔خدیجہ نوید عثمانی رامپور میں عورتوں کی تبلیغ اور اجتماعات کی خدمت انجام دیتی ہیں ضعیف ہیں اورآج کل بیمار ہیں۔ملک کی تقسیم کے وقت اس خاندان کی تقسیم بھی ہوئی۔
تین بھائی اورایک بہن یہاں رہ گئے تھے تین بھائی اورایک بہن کو پاکستان نے اپنی جائے پناہ میں لیا۔نائلہ اور اسماء عثمانی کا انتقال پہلے ہی ہوچکا تھا۔مولانا عثمانؒ عمر فاروق عاصم عثمانیؒ اور علی اکبر عثمانیؒ نے ہندوستان ہی میں اپنی زندگی گذاردی اور۔یہیں کے ہورہے۔آیئے حضرات اب مولانا عامر عثمانی صاحبؒ کے بارہ میں کچھ اور جانیں۔
ان کی کچھ صفتیں حقائق کی روشنی میں۔
ظرافت :۔ظرافت اور مزاح انکی فطرت میں داخل تھا۔انہیں زندگی میں بہت کم رنجیدہ دیکھا گیا ہے۔ہر وقت ہنستے ہی رہتے تھے۔ان کی گفتگو مصّع تونہیں ہوتی تھی لیکن انی دلچسپ ضرور ہوتی تھی کہ سننے والا اس میں کھوجائے خشک اور غمگین ہونٹوں پر تبسم کی چاندنی بکھیر دینا ان کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔جب جس کو چاہا ہنسنے پر مجبورکردیا ان کی شگفتہ مزاجی ہرعام وخاص مجلس میں انہیں ’’ہیرو بنادیتی۔دیوبند ادبی اور شعری نشیں ہوتیں۔ کثر تعداد میں شعراء سامعین شریک ہوتے لیکن ایسا محسوس ہوتا کہ یہاں عامر عثمانی کے سوا کوئی موجود ہی نہیں ہے۔ دورانِ گفتگواور دوراخاموش ہلکے پھلکے مزاحیہ فقرے اچھالینے کو شاید وہ ضروری سمجھتے تھے ضرور ی نہ سمجھتے تو انہیں کسی محفل میں تو خاموش دیکھا جاتا اکثر محفلوں میں جب کبھی فضاء کسی وجہ سے بوجھل ہوتی تو عامر عثمانی بول اٹھے اور مجمع بادل ناخواستہ بھی ہنسنے پر مجبور ہوگیا۔
ایک ادبی نشست میں دارالعلوم کے ایک طالب علم اپنی غزل ہدیۂ ناظرین کررہے تھے ۔اسی نشست میں ایک کٹر قسم کے دیوبندی بھی جلوہ افروز تھے غزل کے اشعار کچھ دعایۂ انداز کے تھے۔ان دیوبندی صاحب نے شعروں پر داد وتحسین کے ڈونگرے لٹا نے کے بجائے بآواز بلند ہر شعر پر آمین آمین کہنا شروع کردیا۔
عامر عثمانی صاحب انہیں حیرت سے دیکھتے رہے پھر زیرلب بولے ۔آج معلوم ہوا آپ بھی آمین بالجہر کے قائل ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت مولانا قاری طیب صاحب ؒ کے گھر دعوت پر تشریف لے گئے کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کیلئے نل پر آئے اور ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھ پوچھنے کیلئے تولئے کی جگہ نظر ڈالی تو جگہ خالی تھی ۔خادم تولیا ٹانگنا بھول گیا تھا قاری صاحب نے خادم کو ڈانٹا او رپھر فوراً ہی تولیا حاضر ہو گیا لیکن تب تک مولانا عامر عثمانی صاحب ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے قاری صاحب سے یہ کہہ رہ تھے کہ قاری صاحب ’’ڈاڑھی سے یہ بھی تو ایک فائدہ ہی ہے کہ آدمی ہاتھ بھی صاف کر ہی سکتا ہے ‘‘ یہ جملہ سن کر قاری صاحب خوب ہنسے اور پھر مولانا نے تولئے سے بھی ہاتھ صاف کئے ۔
’’مولانا حسن الہاشمی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنی غزل بغرض اصلاح مرحوم کو دی انھوں نے اس کی ضروری مرمت کرنے کے بعد کہا غزل خاصی ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ تم شعر وشاعری کے چکر میں مت پڑو رونہ یہ چہرے پر جتنی کتنی رونق ہے سب غائب ہوجائے گی۔
ایک بار میری چھوٹی بہن سے کہنے لگے کہ منیہ میں نے سنا ہے کہ جہیز میں تمہیں اونٹ کا بچہ بھی دیا گیا ہے،،
ایک مرتبہ ایک صاحب دور دراز سے ان سے ملنے کے لئے آئے انہوں نے مولانا کو دیکھ کر بڑے اچنبھے کے ساتھ کہا آپ عامر عثمانی ہیں !کیوںآپ کو شک کیوں ہے؟ظاہر ہے کہ یہ آواز مرحوم کی تھی ان صاحب نے فرمایا کہ میں نے سنا تھا عامر عثمانی صاحب کے ڈاڑھی نہیں ہے۔اورآپ کے تواتنی طویل ڈاڑھی ہے یہ سنکر مرحوم مسکرائے اور بولے۔
ہلاکر اطمینان کرلو ورنہ کہنے والے تویہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو ڈاڑھی تم دیکھ کرآئے ہو وہ مصنوعی تھی۔
اس قسم کے ہزاروں فقرے اور ہیں جو مرحوم کی شگفتہ مزاجی اور ظرافت کی شہادت دیتے ہیں فلحال ان سب فقروں کا کاغذ پر سمیٹنا ممکن نہیں ان کی ظرافت کا یقین دلانے کے لئے اتنا بہت ہے۔
ظرافت اور شگفتہ مزاجی ان کی ذات کا جزوِ لا ینفک تھی اس لئے وہ آخر عمر تک قائم لطیفہ تھیں اور جنہیں ایک حساس آدمی کبھی نہیں بھلا سکتا۔
صورت حال یہ تھی کہ نقاہت وکمزوری کی زیادتی نے انہیں بالکل ندھال کردیا تھا مرض بھی صنعت اور کمزور کی طرح غیر معمولی تھا یہ صورت حال دیکھ کر ڈاکٹروں کو اس بات کی تاکید کرنی پڑی کہ آپ کم بولیں گے۔ قارئین سے یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑی کہ دل کے مرض میں زیادہ بولناخطرہ کا باعث ہواکرتا ہے ڈاکٹروں کی مہم وتشخیص کے مطابق مرض دل ہی کا تھا لہٰذا انھوں نے حتی الامکان زبان بند کرنے کی تاکید کی اور یہ تاکید بالکل بجا تھی لیکن معاملہ کچھ ایسا تھا کہ مرحوم حتی الامکان باتیں کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے گھر والوں نے سمجھا یا کہ ڈاکٹروں نے زیادہ بولنے کو منع کیا ہے لہٰذا خدا کیلئے آپ چپ رہیئے ڈاکٹروں کی منطق ان کی سمجھ میں نہیں آئی وہ جھلائے اور انہوں نے صاف کہدیا کہ وہ بولیں گے اور زیادہ سے زیادہ بولیں گے ان کی یہ بے جا جھلاہٹ دیکھ کر گھر والے بھی گڑ بڑا گئے اور انہوں نے ہمدردی اور نرمی کو طلاق رجعی دینے کے بعد کہا اب آپ نہیں بولیں گے اور بالکل نہیں بولیں گے اور اگر آپ نے زبان کھولی تو آپ کو کمرے میں تنہا چھوڑ کر دروازہ بند کردیا جائیگا۔
وہ ذہین تھے ان کے لئے یہ سمجھ لینا کچھ دشوار نہ تھا کہ اب پوراگھر بغاوت پر آمادہ ہے انہوں نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ زبان پر خاموشی کا قفل چڑھا لیا جائے وہ یکلخت دہم ہوگئے اور اسی دن انہوں نے ایک کاغذ کے پرزے پر یوں لکھا (’’میں گونگا ہوں،، عامر عثمانی) اس کے بعد جب کوئی ان کے عیادت کیلئے حاضر ہوتا تون وہ اسے کاغذ کا پرزہ دکھا دیتے گویا کہ اب زبان ہلانی بھی بند کردی اب خدا ہی جانے یہ عین فرمانبرداری تھی یا خاموشی انتقام۔
اسی دن شام کو ایک پرچہ پر لکھا ’’حسن میاں کو بلاؤ،،گھر والوں نے آواز لگائی اور حسن میاں آگئے ۔حسن میاں کو دیکھ انہوں نے پھر قلم کو حرکت دی اور نتیجتاً آپ کاغذ پر یہ الفاظ بکھر گئے’’حقہ لاؤ،،
حسن نے کہا دل کے مریض میں تمباکو نوشی زہر کا کام کرتی ہے یہ سن کر بگڑ گئے زبان پھر فرمانبرداری قید سے آزاد ہوگئی۔ بولے کون بیوقوف کہتا ہے۔
حسن میاں نے سٹ پٹا کر کہا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں۔ بولے ڈاکٹر اقبال سے بڑا کوئی ڈاکٹر دنیا میں موجود نہیں اور ڈاکٹر اقبال نے حالت سنجیدگی میں یہ فرمایا تھا کہ زہر بھی کرتاہے کار تریاقی۔
اوراور بس وقت گزر گیا یاد میں باقی رہ گئیں اور یہ یادیں زندگی بھر تعاقب سادگی:۔
سادگی کے مختلف پہلو ہوسکتے ہیں ایک پہلو یہ بھی ہے ایک دن کسی طالب علم کی طرح چلے جارہے تھے اور بغل میں بخاری شریف دبی ہوئی تھی کسی نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟
جواب دیا:مولانا شریف الحسن صاحب کے پاس جارہے ہوں ایک حدیث کے بارے میں تحقیق کرنی ہے۔
سادگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے :
ایک مرتبہ انہیں ایک مزدور کے ساتھ اس طرح جاتے ہوئے دیکھا گیا کہ مزدور کے کاندھے پر ان کا ہاتھ تھا اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلہ تھا۔ یہ تھیلہ ان کا نہیں بلکہ مزدور کا تھا اوراس میں اس کا یہ سامان تھا آری۔ بسولہ وغیرہ قارئین یہ تو سمجھ ہی گئے ہونگے کہ یہ مزدور کوئی بڑھئی تھا۔اتنا اور سن لیجئے کہ یہ مزدور مولانا کے گھر میں مزدوری کے طور پر کچھ کا م کررہا تھا اور دیوبند کا ایک انتہائی غریب اور مفلس آدمی تھا اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ پھٹن اور پیوند کی شکل میں غربت وافلاس کی جیتی جاگتی نشانیاں موجود تھیں۔ اور مولانا عامر عثمانی جیسا عظیم المرتبت انسان اس کے ساتھ اس انداز میں چل رہا تھا کہ جیسے دونوں ایک ہی سطح اور ایک ہی درجہ کے انسان ہوں۔ جیسے ان میں کوئی ممتاز نہ ہو۔
سادگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے اپنے لئے ہمیشہ ایسا کپڑا خرید کرلاتے جو کم سے کم داموں میں مل جاتا ۔انتہائی سستا اور سیدھا سادہ لباس انہیں مرغوب تھا عمدہ اور قیمتی کپڑے سے یک گونہ نفرت تھی لیکن ان لوگوں سے کبھی نفرت نہیں کی جو قیمتی کپڑا پہننے کے عادی ہوں۔
بخیل نہیں تھے ورنہ یہ سمجھ لیا جاتاکہ قیمتی کپڑا خریدتے وقت دم گھٹتا ہوگا۔عید وبقرعید کے موقع پر اور دوسری تقریبات کے لے مشترکہ کپڑا آتا پورے گھر کے لئے عمدہ سے عمدہ اور قیمتی کپڑا خرید کرلاتے لیکن اپنے لیے وہی معمولی اور سستا۔
سادگی کے کچھ پہلو یہ بھی ہیں اپنا ہر کام خود انجام دے لیتے ۔کپڑا پرپیوند لگالیتے اپنے کمرے میں جھاڑو دے لیتے۔ بازار سے سودا خرید کر لاتے سواری بہت ہی ضرورت کے وقت کرتے ورنہ عموماً پیدل چلتے نظر آتے۔ ایک مرتبہ مزدوروں کے ساتھ لگ کر گھر کی دیواروں پر روغن تک کرتے دیکھا گیا۔
مولانا حسن احمد صدیقی صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے کئی بار انہیں ایسے معمولی کام کرتے دیکھا ہے جنہیں میں نہیں کرسکتا حالانکہ علم، فہم، عزت ،شہرت اور مرتبہ کے اعتبار سے میری ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں مجھ جیسے لوگ جن چھوٹے کاموں کی انجام دہی میں عار اور ہتک محسوس کرتے ہیں انہوں نے ان کا موں کی انجام دہی میں کبھی عار اور ہتک محسوس نہیں کی اور کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ کسی چھوٹے کام کے لئے مزدور کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوں۔
سخاوت:۔
گلی گلی میں ان کی سخاوت کے چرچے تھے یہ تو سبھی جانتے تھے کہ محتاجوں اور بے کسوں کی مدد کرنا ان کی عادت ثانیہ تھی لیکن اس بات سے کوئی واقف نہ تھا کہ بعض امدادیں انہوں نے ایسی بھی کی ہیں کہ دائیں ہاتھ سے مدد کرنے کے بعد بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوسکی۔ ان کی وفات کے بعد کئی رازوں سے پردہ اٹھا کئی ایسی حقیقتیں سامنے آئیں جو خوابوں اور افسانوں سے زیادہ خوبصورت تھیں اور جوان حقائق وواقعات کی نشاندہی کررہی تھیں جنہیں میں نے صرف کتابوں میں پڑھا ہے عمل کی دنیا میں مشاہدہ نہیں ہوسکا۔
انتقال کے بعد ایک بیوہ سے معلوم ہوا کہ اتنی رقم ہر ماہ مجھے دیا کرتے تھے اوریہ رقم ہر ماہ مقرر تاریخ کو ازخود مجھے پہنچادیا کرتے تھے۔
یک دوکاندار جن کا نام لکھی ہے وہ آج بھی زندہ ہے ان کی دوکان جامع مسجد کی دوکانوں میں تھی ان کی زبانی معلوم ہوا کہ فلاں فلاں مکان پر اتنا آٹا اور اتنا دوسرا سامان میری دوکان سے جایاکرتا تھا اوراس کا تمام حساب مولانا عامر عثمانی ہی کیا کرتے تھے۔
دارالعلوم کے کتنے ہی طلباء کا وظیفہ مقرر تھا ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو یہ وظیفہ اداکردیا جاتااور کسی تیسرے آدمی کو خبر تک نہ ہوپاتی۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو سخاوت بعد میں کرتے ہیں اور حاتم طائی کا خطاب پہلے مل جاتا ہے انہیں سخی ہونے کے باوجود کرم کا پتلا کبھی نہیں سمجھا گیا البتہ ان کی وفات کے بعد کچھ نادر رازوں سے پردہ ہٹ جانے کی وجہ سے اب دنیا انہیں جواد کہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہے دیوبند میں طبی کالج جامعہ طبیہ کے بانی جناب ڈاکٹر شمیم صاحب ان کے ڈاکٹر تھے اکثر ان کے مطب پر مولانا کی حاضری رہتی تھی ڈاکٹر صاحب نے مولانا کے انتقال کے بعد ہی یہ راز ظاہر کیا کہ بہت سے مریض ایسے ہیں جنکی دوا کا مستقل خرچ مولانا مرحوم ہی دیا کرتے تھے۔
ایک زمانہ میں ان کے مکان کی حیثیت بیت المال کی سی تھی ۔لوگ اپنی ضرورت کا اظہارکرتے اور نہیں کبھی قرض کی صورت میں کبھی اور کسی صورت میں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا۔ اس زمانے میں لوگوں نے انہیں بڑے فریب دیئے۔ ہزاروں فریب کھانے کے بعد انہوں نے اپنی روش بدلدی اوراس کے بعد ان کا گھر مسلم فنڈ میں تبدیل ہوگیا اب صورت یہ تھی کہ کوئی چیز رہن رکھ جاؤ اور قرض لے جاؤ بیسیوں چیزیں ہر وقت ان کے بکس میں رہتی تھی یہ چیزیں بطور رہن ان کے پاس موجود رہتی مرتہن بھی قرض اداکردیتا مرہونہ چیز اس کے حوالے کردی جاتی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہیں جو ان کی سخا وت کے امین ہیں انشاء اللہ پھر کبھی موقع ملا تو اور عرض کرونگا۔
بڑاپن :۔علم وفن کو گواہ بناکر یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص ہر وقت معافی مانگنے کو تیار رہے وہ بلند ہے ۔عظیم ہے رفیع المرتبت ہے ان کا عالم یہ تھا کہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے اور اگر خودسے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو آئیں بائیں شائیں اور اگر مگر کرنے کے بجائے جھٹ سے اپنی کو تاہیوں کی معافی طلب کرلیتے دوسروں سے گستاخی سرزد ہوجاتی تو اسے نسیاً منسیا کردیتے ۔
جناب مولانا حسن احمد صدیقی صاحب فرماتے ہیں:۔
ایک مرتبہ مجھے آواز دی۔(ان دنوں میں ان کے مکان کے نچلے حصہ میں رہتا تھا اوراس وقت ان کے اور میرے درمیان وہ نازک رشتہ قائم نہیں ہوا تھا جو بعد میں ان کی لخت جگر کے توسط سے قائم ہوا)میں فوراً ان کی آواز پر لبیک نہ کہہ سکا اور مجھے ان تک پہنچنے میں ذرا سی تاخیر ہوگئی یہ تاخیر بلا وجہ نہیں تھی در اصل جب انہوں نے آواز دی میں مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز پوری کرکے اوپر پہنچا تو دس منٹ کا عرصہ بیت چکا تھا۔یہ دس منٹ انہیں بہت گراں گزرے۔اس کی ایک وجہ انکا ایک ارجینٹ کام تھا جو سرعت وعجلت کا متقاضی تھا ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس سے پہلے جب کبھی انہوں نے یادفرمایا میں ایک منٹ گنوائے بغیر ان کی خدمت میں پہنچ گیا۔بہر حال وجہ کچھ بھی رہی ہو انہیں دس منٹ کی تاخیر بڑی گراں گرزی اور وہ مجھے دیکھتے ہی برس پڑے شاید یہ پہلا اور آخری اتفاق تھا کہ انہوں نے مجھ سے تلخ لہجہ میں گفتگو کی میں گردن جھکائے کھڑا رہا اور وہ بولے چلے جارہے تھے۔دوبار پکارچکا ہوں معلوم نہیں کیا کرتے رہتے ہو۔ اپنی جگہ سے ہلنا ہی نہیں جاہتے ۔جاؤ اب مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہوگیا کام۔
میں چلاآیا یہ کہتے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت میرے دل کو بہت ٹھیس پہنچی تھی۔ قارئین کو تجربہ ہوگا کہ محسن اور مہربان لوگ جب الفاظ کی چھڑی گھماتے ہیں تو احساس کی کائنات تھر تھرااٹھتی ہے اورپلکیں اس پانی سے تر بتر ہوجاتی ہیں جو بیک وقت مہمل بھی ہوتا ہے اور ذومعنی بھی۔ انہوں نے ہمیشہ مجھ پر احسانات کئے تھے ہمیشہ مجھے محبت دی تھی میری خواہشوں کا احترام کیا تھا۔ اپنے لہجہ کا مٹھا س بخشا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ ہی یہ واضح کیا تھا کہ وہ میرے محسن ہی کرم فرماہیں صاحب شفقت ہیں۔
ان کے ہونٹوں میں اپنے لئے تلخیاں کیسے گوارہ کرلیتا میرے سینے میں دھڑکنے والے لوتھڑے پر غم واداسی کا کہراچھا گیا لیکن یہ کہرا زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکا اگلے دن وہ نیچے میرے کمرے میں آئے اور سوزوگداز سے بھرے لہجہ میں بولے :
کیا ہوا ناراض ہوگئے:۔
نہیں تو۔ غالباً یہی الفاظ میری زبان سے نکلے تھے۔تو پھر؟
بھلا پھر کا جواب میرے پاس کیا تھا اوراگر تھاتو اب ولحاظ میری زبان پر ایک پہرے دار کی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ اورمجھے خاموش رہنے پر مجبور کررہے تھے چنانچہ میں چپ ہی رہا۔چند لمحوں تک وہ بھی چپ رہے پھر بولے :
کل جو کچھ ہوا اس پر میں شرمندہ ہوں۔مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے۔چلو چھوڑواٹھو ذرا اصلی گھی لانا ہے۔میں ان کے ساتھ چل دیا۔اور راستہ طے کرتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے قدرت براہ راست مجھ سے مخاطب ہواور کہہ رہی ہو کہ ہم نے دانستہ عامر عثمانی سے ایک غلطی کرائی تھی تاکہ تجھ پر انکی بلندی اور عظمت واضح ہوجائے۔میں پہلے بھی ان کی عظمت وترفع کا قائل تھا۔اس کے بعد عقیدت میں اور زیادہ شدت پیدا ہوگئی ۔اوراس طرح قدرت کا منشاء پورا ہوگیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا مجھ پر برس پڑنا اغلاط کی فہرست میں نہیں آتا اس لئے کہ وہ میرے بڑے تھے اور بڑوں کو چھوٹوں پر اتنا حق تو ہونا ہی چاہئے کہ وہ انہیں ڈانٹیں ،متنبہ کریں تاہم انہوں نے شرمندگی کا اظہارکیا اور شرمندگی کے اس اظہار نے میرے دل میں ان کی رفعت کی جڑیں اور زیادہ گہری کردیں۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ان کے گھر میں تعمیر وچنائی کا کام ہورہا تھا دسیوں مزدور کا م میں لگے ہوئے تھے اسی دوران ایک دن ان کے کرتے کی جیب سے پانچ روپئے غائب ہوگئے انہیں شبہ ایک مزدورپر ہوا کچھ قرائن نے ان کے شبہ میں تقویت پیداکردی اور انہوں نے اس مزدور سے پوچھ تاچھ کی۔اس نے شدت کے ساتھ انکارکیا۔ مرحوم نے اس سے زیادہ شدت کے ساتھ کہا نہیں روپئے تمہیں نے نکالے ہیں۔مزدور پیہم انکار کرتا رہا۔ اور وہ اس بات کا اصرار کرتے رہے کہ نہیں اپنے جرم کا اعتراف کرو چوری تم ہی نے کی ہے۔
امعاملہ ابھی دفع نہیں ہوا تھا کہ ایک صاحب ان سے ملنے آگئے۔ ان سے ملنے کے لئے وہ اپنے کمرے میں چلے آئے ۔تھوڑی دیر کے بعدوہ صاحب چلے گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد مرحوم نے اس مزدور کو اپنے کمرے میں بلایا اور اس سے دست بستہ معافی چاہتے ہوئے کہا دوست مجھے معاف کردو میں نے تم پر الزام لگایا ہے اور پھر مزدورکی آنکھوں میں تڑپنے والے بے شمار سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا۔ہوا یہ کہ روپئے کسی طرح جیب سے گر کر نیچے سے روپئے برآمد ہوگئے۔
غلطی توبے شک مرحوم ہی کی تھی کہ انہوں نے مضبوط ثبوت بغیر مزدورکو سارق سمجھ لیا تھا۔ لیکن پھر برملا انہوں نے اپنی غلطی کی معافی چاہ کر یہ ثابت کردیا تھا کہ ونہ فطری طور پر عظیم ہیں بڑائی اور عظمت ان کے لہو میں تحلیل ہے آخر وہ بھی تو کرسکتے تھے کہ روپئے مل جانے کے بعد کسی کو ہوا بھی نہ دیتے اور چپ ہوکر بیٹھ جاتے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے انہوں نے کھلے عام اور کھلے الفاظ میں اپنی غلط فہمی کی دست بستہ معافی طلب کرلی اوراس طرح انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ بڑا آدمی اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو اس سے اس کی بڑائی میں کوئی اضمحلال پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے بڑے پن میں ایک گونا اضافہ ہوجاتا ہے چنانچہ وہ مزدور جو اس واقعہ سے پہلے انہیں صرف ایک بڑا عالم سمجھتا تھا اس واقعہ کے بعد بڑا انسان بھی سمجھنے لگا۔ کئی بار انہیں ایسے لوگوں سے معافی طلب کرتے ہوئے دیکھا گیا معاشرہ جنہیں کوئی حیثیت نہیں دیتا۔ اور دنیا جنہیں ذلیل سمجھتی ہے اپنی غلطی مان لینے کی صفت فی زمانہ عنقا اور نادر الوقوع ہوچکی ہے۔میں نے کئی بار بڑے بڑے چوٹی کے پرہیزگار وں کو غلطیوں اور لغزشوں کا شکار ہوتے دیکھا ہے لیکن میری آنکھوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ ان پرہیزگاروں نے اپنی غلطیوں اور لغزشوں کا اعتراف کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہو کہ وہ واقعی خدا ترس اور پرہیزگار ہیں۔تصنع ۔تکلف ،بناوٹ اور عاجزی وانکساری کی ایکٹنگ عام ہے لیکن فی الحقیقت کتنے ایسے لوگ ہیں جو واقعی خود کو چھوٹا حقیر اور ذرۂ بے مقدار سمجھتے ہوں۔؟
مومنانہ اعتماد:۔بے شک مومن کوّے کی طرح چالاک نہیں ہوتا وہ اکثر دنیا کے بچھائے ہوئے دام فریب میں آجاتا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مومن سچ بولتا ہے صداقت کا پرستار ہوتا ہے۔ جھوٹ سے اسے نفرت ہوتی ہے وہ اس کذب جلی کے پاس بھی جانا نہیں چاہتاجس کو اس کے مذہب نے منافقت کی نشانی قرار دیاہے۔
اور نفسیات یہ کہتی ہے کہ جھوٹا آدمی کبھی دوسروں پر اعتماد نہیں کرتا اور سچ بولنے والا ہر کا ذب کی لن ترانیوں پر بھی ایمان لانے کیلئے تیار رہتا ہے۔کاذب وصادق کو پرکھنے کی سب سے بہترین کوٹی یہی ہے۔جو شخص دوسروں پر بڑی حد تک اعتماد کرتا ہے سمجھ لیجئے کہ وہ خود بھی قابل اعتماد ہے اور جو دوسروں کے دعوں کو ہوائی اور کھوکھلے سمجھتا ہے یقین کرلیجئے کہ اس کے اپنے دعوے بھی ہوائی اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔
مرحوم علامہ عامر عثمانی صاحب میں جہاں اور صفتیں تھیں وہاں یہ صفت بھی موجود تھی کہ وہ دوسروں کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔دوسروں پر خصوصاً مسلمانوں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرنا ان کی شخصیت کا ایک خاص پہلو تھا۔ لیکن یہ ان کے حق میں ہمیشہ غیر مفید ہی رہا یا ر لوگ ان کی اس صفت کو کمزوری پر محمول کرتے ہوئے بہت کچھ ناجائز فائدہ اٹہالیا کرتے تھے۔
ایسے ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں کہ ان کے مومنانہ اعتماد کا دنیا نے غلط فائدہ اٹھا یا لیکن کاغذ اور وقت کی تنگ دامانی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ بس ایک واقعہ سن لیجئے۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک طالب نے مولانا کے پاس ایک جوڑی کڑوں کی دکھوائی بطور رہن اور بطور قرض دوسو روپئے مرحوم سے وصول کرلیئے اور مدت گذرگئی وہ طالب علم لوٹ کرہی نہیں آیا طویل در طویل انتظار کے بعد جب اس طالب علم کی جھلک نظر نہیں پڑسکی تو مرحوم کو خیال ہوا کہ وہ جناب کہیں مر تو نہیں گئے لیکن مشکل یہ تہی کہ ان کے مرنے جینے کی تحقیق کس سے کی جائے ان کے پاس اس کامکمل پتہ تحریر نہیں تھا مکمل کیا غیر مکمل پتہ بھی موجود نہیں تھا جس کا سہارا لیکر اس کی تلاش کی جاتی مجبوراً صبر کیئے بیٹھے رہے ۔ایک دن مولانا کو خیال ہوا کہ ان کڑوں کے بارے میں یہ تحقیق کی جائے کہ وہ کتنے وزن کے ہیں اور بازار میں وہ کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتے ہیں۔فوراً ہی انہوں نے اپنے خیال کو عملی جامہ پہنایا اوربکس میں سے وہ کڑے نکالے اہل خانہ میں سے بعض افراد نے ان کٹروں کا مشاہدہ کرتے ہی پریقین آواز میں کہا۔یہ کٹرے سونے کے نہیں رولڈ گولڈ کے ہیں۔یعنی زیادہ سے زیادہ پندرہ روپے کے۔
اب مولانا کا یقین دیکھئے بولے: نہیں یہ ہر گز نہیں ہوسکتا تم لوگوں کو سونے کی پہچان نہیں ہے یہ یقینی طور پر سونے کے ہی ہیں ۔گھر والوں کا دعویٰ وہی تھا کہ خالص رول گولڈ ہے مرحوم گھر والوں کے دعوے کی تردید کرتے رہے اور یہی کہتے رہے کہ تم لوگ پہچاننے میں غلطی کررہے ہو یہ سونے کے ہی ہیں۔
اب گھر والوں نے کہا کہ آخرآپ اتنے یقین کے ساتھ انہیں سونا کیوں قرار دے رہے ہیں۔
مرحوم نے مطمئن لہجہ میں کہا۔اس لیے کہ یہ کڑے ایک دارالعلوم کے طالب علم نے بطور رہن رکھوائے تھے۔ مجھے سوفیصدی یقین ہے کہ دارالعلوم کا طالب علم دھوکہ نہیں دے سکتا۔البتہ تمہاری سمجھ ٹھوکر کھاسکتی ہے۔
گھر والوں نے کہا کہ مناظرہ ختم آپ کسی سنار کو دکھا لیجئے سنار کی سمجھ تو ٹھوکر نہیں کھا سکتی بات معقول تھی انہوں نے بازار میں جاکر ایک سنار کو کڑے دکھائے اور سنارنے وہی کہا جو اہل خانہ کہہ رہے تھے۔ بے میل اور خالص رول گولڈ سونے کا حبّہ بھی شامل نہیں ۔گھر واپس آئے تو اہل خانہ نے پوچھا کہیئے کیا رہا۔
بولے: ہے تو رول گولڈ ہی لیکن یہ بہی تو ہوسکتا ہے کہ اس بے چارے طالب علم کو سنار نے سونا کہہ کررول گولڈ بھیڑ دیا ہے یہ تو کوئی ضروری نہیں کہ فریب کاری طالب علم ہی نے کی ہے۔
قارئین یہ واقعہ پڑھ کرخدا جانے کیا رائے قائم کریں لیکن میرا یہ دعویٰ ہے کہ یہ مومنانہ اعتماد تھا اور اس کی نظیریں مرحوم اسلاف کی زندگیوں میں تو نظر آئی تھیں آجکل کے بزروگوں میں نظر نہیں آتیں۔ اور اگر کچھ نظیریں ہیں تو بس برائے نام اور برائے ذکر۔
معاملات :۔ علامہ معاملات کے بڑے کھرے تھے بدعہدی کبھی نہیں کی جس سے جو معاہدہ طے ہوگیا اسی پر قائم رہے خواہ اس پر قائم رہنے میں زبردست نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ معاملات کے موضوع پر ان گنت واقعات بیان کئے جاسکتے تھے اگر اختصار اور صفحات کی قلت پیش نہ ہوتی بس ایک واقعہ دامن قرطاس پر بکھرنے کیلئے بے تاب ہے ۔یہ واقعہ بالکل عجیب ہے شاید آپ اس پر حیرت کریں مولانا حسن احمد صدیقی صاحب فرماتے ہیں کہ حیرت خود مجھے بھی ہے لیکن ہم دونوں کی حیرت اس واقعہ کی سچائی کو مجروح نہیں کرسکتی۔
ممبئی جانے سے قبل انہوں نے مجھ سے کہا تھا: زینب میری سب سے زیادہ چہیتی بیٹی ہے میں اس کی جدائی گوارہ نہیں کرسکتا اور میں یہ بھی گوارہ نہیں کرسکتا کہ زینب دیوبند میں رہے اور تم دیوبند سے باہر لہذامیری خواہش یہ ہے کہ تم اپنی ملازمت کو استعفیٰ دیکر یہیں چلے آؤ۔
تکلف اور تفصیل بر طرف۔ مختصر اور سیدھی سی بات یہ ہے کہ دیوبند کا ماحول مجھے پسند نہیں تھا یہاں کی عام بدعہد یوں اور بداخلاقیو ں سے طبیعت اکتاب چکی تھی اور دل ودماغ یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ دیوبند سے نجات حاصل کی جائے۔ حسب فیصلہ نجات مل گئی تھی۔ لیکن ایک قلیل مدت کے لئے مرحوم کے ہونٹوں پر منقولہ بالا الفاظ کو سانس لیتے دیکھا تو میری زبان بھی حرکت میں آگئی اور یہ جملہ مرحوم کے کانوں میں منتقل ہوگیا۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ مجھے یہاں کے ماحول میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔جانتاہوں انہوں نے مطمئن لہجہ میں کہا اسی لئے اصرار نہیں کررہا ہوں حکم نہیں دے رہاہوں ۔صرف اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے زینب پر اب میرا اختیار نہیں ہے تم اس کے مالک ہو جہاں تمہارا دل چاہے رہو البتہ میری اپنی خواہش یہ تھی کہ زینب میرے پاس رہے اور تم زینب کے پاس رہو۔
اسی اثنا میں کچھ اور باتیں بھی ہوئی ان کا ذکر چونکہ طوالت کا موجب ہوگا ا س لئے ان سے صرف نظر کرنا ہی بہتر ہے۔
گفت شنید کا حاصل یہ ہے کہ میں راضی ہوگیا اور مرحوم نے یہ طے کردیا کہ میں تو ممبئی چلا جاؤنگا اور تم نگینہ جاکر اپنا سامان اٹھالانا ۔لیکن دہلی کے پلیٹ فارم پر انہوں نے فرمایا۔
حسن میاں ابھی سامان مت لانا اور نہ ہی استعفیٰ دینا۔میں ممبئی سے آکر ایک خط لکھونگا اوراس خط میں ملازمت سے بر طرف ہوجانے کا اصرار کرونگا ۔اس خط کو تم محفوظ کرلینا آئندہ اہمارے درمیان کوئی کشیدگی پیدا ہوئی تو تم دنیا سے یہ تو کہہ سکوگے کہ عامر عثمانی میرے مستقبل کا ذمہ دار ہے۔اسی کے اصرار پر میں نے ملازمت ترک کی تھی اور مستقبل کو خطرے میں ڈالا تھا۔
ان کی زبان سے یہ جملہ سنکر میرے دل ودماغ کی کیا کیفیت ہوئی تھی یہ تو الگ مسۂ ہے جس کا ذکر غیر ضروری ہی ہوگا۔یہ واقعہ بیان کرکے ثابت تو صرف یہ کرنا تھا کہ مولانا جرت ناک حدتک معاملہ کے صاف انسان تھے۔
معاملات میں وہ دجل وفریب کو سب سے بڑاگناہ تصور کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کسی سے کبھی کوئی معاہدہ کرکے اسے گزند پہچانے کی کوشش نہیں کی۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرونگا کہ معاملات کی خوبی میں انکا کوئی ثانی نہیں ہے ہاں یہ کہتے ہیں مجھے کوئی تأمل محسوس نہیں ہوتا کہ معاملات کے اچھے لوگوں سے بھری اس دنیا میں بس اتنے ہیں کہ انہیں انگلیوں پر گن لیا جائے۔
تحقیق : تحقیق انکی تحریروں کا وقار رہی ہے تنقید کیلئے اگر سب سے ضروری کچھ چاہئے تو وہ کثرت علم اور تحقیق ہی ہے اور مولانا کا مزاج ہی یہ تھا کہ جو بھی لکھا جائے محقق و مدلل لکھا جائے انکی تحقیق کرنے کی محنت کا ایک واقعہ جو کہ کافی مشہور ہے ملاحظہ فرمائیے ۔ ہوا یوں کہ ۱۹۷۳ ء میں جب طلاق کا مسئلہ اُٹھا تو ملک بھر میں علماء کرام کے خلاف جدید ذہن کا عوام غل غپاڑ مچانے لگا اور علماء کرام نے سیمینار منعقد کیا اس میں طلاق کے مسئلہ پر کافی گفتگو کی گئی لیکن بحث لا حاصل رہی پھر ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت قاری طیب صاحب ؒ نے مولانا عامر عثمانی صاحب کو پیغام بھجوایا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں مولانا عامر عثمانی صاحب اگلے روز قاری صاحب سے ملنے کیلئے انکے گھر تشریف لے گئے ملاقات ہوئی اور بات چیت کے دوران قاری صاحب نے علامہ سے کہا کہ کیا بات ہے میاں عامر طلاق کے مسئلہ پر اب تک تجلی خاموش کیوں ہے ؟ تم تو جانتے ہی ہو کہ ملک بھر میں یہ مسئلہ کس قدر اُچھالا جا رہا ہے لیکن اب تک تمہاری طرف سے کوئی تحریر تجلی میں پڑھنے کو نہیں ملی ہے ۔ علامہ نے عرض کیا کہ حضرت حقیقت میں اس موضوع پر میرا مطالعہ زیا دہ نہیں ہے کبھی اس موضوع پر اتنا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اسی لئے کچھ لکھا بھی نہیں اور یہ تو آپ جیسے راہنماؤں کا کام ہے قوم کو آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے بندہ اس میں کیا کر سکتا ہے ؟ ارے بھائی مطالعہ نہیں کیا تو کر لو اس میں کتنا وقت لگے گا قاری صاحب نے زور دیتے ہوئے کہا ۔ علامہ نے فرمایا حضرت میرے پاس تمام کتابیں موجود نہیں ہیں ۔ قاری صاحب نے کہا تمہارے پاس نہیں تو کیا دارالعلوم کی لائبریری تو موجود ہے ۔یہ سن کر علامہ نے کہا کہ حضرت دارالعلوم کی لائبریری میں کون سی کتاب کہاں رکھی ہے اس کا علم تو مجھے نہیں ہے ۔ قاری صاحب نے پھر واضح کرتے ہوئے کہا کہ بھئی تمہیں کتاب نکالنے کی ضرورت کیا ہے وہاں پر ملازم جو موجود ہے ۔ پھر علامہ عثمانی صاحب لب کشا ہوئے کہ حضرت کتب خانے کے اوقات محدود ہیں اور مجھے مطالعہ کرتے وقت رکاوٹ پسند نہیں معلوم ہوا کہ مجھے مطالعہ کی ضرورت ہوئی اور دارالعلوم کی چھٹی کا وقت ہو گیا ۔ اس کے بعد قاری صاحب نے فرمایا کہ میاں یہ پریشانی بھی دور کردی جائے گی کتب خانے کے دو ملازم ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہیں گے جب تک آپ خود لائبریری سے نہیں جائیں گے تب تک یہ ملا زم بھی وہیں موجود رہیں گے اور پھر ہوا بھی یہی مولانا عامر عثمانی صاحب نے تجلی میں طلاق نمبر کا اعلان کر دیا اور اس کی تحقیق کیلئے جو مطالعہ انھوں نے کیا ہے اس کی نظیر مل ہی نہیں سکتی چاہے چراغ لیکر ڈھونڈیے یا سوڈیم لائٹ ۔ صبح کو لائبریری جاتے کھانے کے وقت واپس آتے پھر عصر سے پہلے جاتے اور عشاء کے بھی کافی بعد واپس آتے بیچ میں بس نماز کے لئے ہی اٹھتے عالم یہ ہو گیا تھا کہ جو دو ملازم تھے وہ یہ کہتے تھے کہ قاری صاحب نے یہ کیا آدمی ہمارے حوالے کر دیا ہے نہ خود کھاتا ہے اور نہ ہمیں کچھ کھانے دیتا ہے کیونکہ آرڈر یہی تھے کہ جب تک مولانا کتب خانے میں رہیں گے تم دونوں یہاں سے باہر بھی نہیں جاؤگے ۔یہ تھی ان کی محنت جس کی وجہ سے ہی ایسی تحریریں وجود میں آئیں ہیں جن کی کہیں مثال بھی نہیں ملتی ہر بات کو مدلل لکھنے کا سبب ہی تو تھا کہ جو بھی مولانا عامر عثمانی کے قلم نے لکھ دیا پھر بڑے سے بڑا مفکر بھی اس کی تردید نہ کرسکا اور اس کی مثال تجلی کا طلاق نمبر کی شکل میں ہمارے سامنے آئی اور یہی انکی محنتوں کا ثمرہ تھا کہ پھر اس کے بعد کبھی طلاق کا مسئلہ نہیں اٹھا ۔ یہی ہوتا بھی آیا ہے کہ جب مولانا عامر عثمانی کا قلم بولتا تھا تو سب کے قلم خاموش ہو جاتے تھے ۔ جہاں تک میرا خیال ہے ایسا دوبارہ کبھی نہیں ہوا کہ دارالعلوم جیسے ادارہ کی لائبریری کسی ایک شخص کے لئے وقف کردی گئی ہو ۔ جب چاہے آئے جب چاہے جائے ۔
طلاق نمبر پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں یہی سوال آتا ہے کہ حضرت کامطالعہ کتنا وسیع تھا کتنا عمیق تھا کیا واقعی کسی شخص کا اتنا مطالعہ ہو سکتا ہے اور یہ سوال بجا بھی ہے۔ اب کسی کو کیا معلوم کہ اس تحریر کیلئے کتنے دنوں کا چین او رکتنی راتوں کا سکون قربان کیا گیا تھا ۔ ویسے تو جس نے بھی ماہنامہ تجلی پڑھا ہے اس کی نظر میں مولانا عامر عثمانی صاحب کی یہ تعریف بہت ہی کم ہے وہ تو اس سے بھی کہیں زیادہ تعریف کے حقدار ہیں لیکن جس نے مولانا کی تحریریں نہیں پڑھی ہیں وہ کم سے کم ان تحریروں کا مطالعہ تو ضرور ہی کر لے جو کہ خوش قسمتی سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں ۔ خوش قسمتی کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کیونکہ یہ بد قسمتی ہی ہے کہ مولانا کی کوئی بھی تحریر بغیر رایلٹی دئے کسی کو بھی شائع کرنے کی اجازت ان کے وارثین کی طرف سے نہیں دی جاتی اور جماعت اسلامی کو یہ قدم قدم بلائیں نعیمیہ کتب خانہ دیوبند کو طلاق نمبر اور مکتبہ الحق ممبئی کو مسجد سے میخانے تک چھاپنے کی اجازت دی بھی گئی تو رایلٹی کی بھاری بھرکم رقم لے کر ۔ حالانکہ تجلی کی ڈاک ،کھرے کھوٹے ،احوال واقعی کے علاوہ اور بھی حضرت کی ایسی تحریریں ہے جن کی اشاعت بے حد ضروری ہے ۔ حالانکہ میری نظر میں ایسی حالت میں کسی بھی کتاب کے حقوق محفوظ کرنا جبکہ وہ کتاب ہی ذریعہ معاش نہ ہو خلاف اخلاق بھی ہے اور خلاف شریعت بھی خلاف شریعت اس لئے ہے کیونکہ آپ دین پھیلانے والی باتوں کو دوسرے تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں اور خلاف اخلاق اس لئے ہے کہ جو شخص اپنی کثیر رقم خرچ کر کے کوئی کتا ب شائع کرنا چاہتا ہے تو آپ اسکا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اس سے اور رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اگر آپ میری اس بات سے متفق نہیں ہیں تو پھر آپ حضرت تھانوی سے بھی متفق نہیں ہونگے کیونکہ حضرت تھانوی نے بھی کبھی اپنی کسی تحریر کے حقوق محفوظ نہیں کئے ہیں بلکہ اس کے برعکس انھوں نے تو یہی کہا کہ میری تحریریں کو ئی بھی شائع کر سکتا ہے ۔ یہی تو دین کی خدمت کا جذبہ ہوتا ہے ۔ آج کل حید ر آباد کے مصنف جناب عبداللہ صدیقی کی تعلیم الایمان کے عنوان سے شائع شدہ کتابیں آپ پڑھئے ہر ایک کتاب پر جلعی لفظوں میں لکھا ہوا ہے ’’حق کتابت غیر محفوظ چھپوانے کی کھلی اجازت ‘‘یہ ہے دین کی خدمت تاکہ کتاب کی اشاعت زیادہ سے زیادہ ہو اور دین کی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے ۔بات ذرا دوسرا رُخ اختیار کر گئی لیکن یہ بھی واضح کر دینا ضروری تھا کیونکہ بہت لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تم کیوں عامر عثمانی صاحب کی تحریریں شائع نہیں کرتے اب کس کس سے کہیں اور کیا کیا کہیں ۔بس آپ حضرات دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنی دولت عطا فرمائے کہ میں رایلٹی دے کر ہی عامر عثمانی صاحب کی تمام تحریریں شائع کر سکوں ۔
شکر گزاری : ان کی ایک خاص صفت تھی، ناسپاسی اور ناشکری کا مظاہرہ انھوں نے کبھی نہیں کیا۔ذرا یہ مضمون پڑھئے جو ان کی مذکورہ صفت کا آئینہ دار ہے۔
تنقید نمبر۔
شکرہے کہ تنقید نمبر غیر معمولی طور پر پسند کیا گیا ۔یہ توقع تو ہمیں ضرور تھی کہ اس نمبر کا موادقارئین کے لئے مایوس کن ثابت نہیں ہوگا مگر یہ امید نہیں تھی کہ بہت زیادہ پسند یدگی اور مقبولیت اس کے حصّے میں آسکے گی، اللہ تعالیٰ جب کسی پر فضل کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کی ہر کوشش کو خیر وبرکت کی متاعِ بے بہا سے نواز دیتا ہے۔
ہمیں خو دستائی اور تعلّی سے نفرت ہے، لیکن یہ کفرانِ نعمت ہوگا کہ آدمی تحدیثِ نعمت بھی نہ کرے ۔گا ہے گاہے یہی تحدیثِ نعمت کا جذبہ ہم سے کہلوادیتا ہے۔ آج بھی یہی چند الفاظ کہنے پر مجبور کررہا ہے۔
نمبر خاصے انتظار کے بعد شائقین تک پہنچا، مگر شائقین ہی کا کہنا ہے کہ انتظار کی تمام کلفت کو اس کے مطالعہ نے دھودیا ۔الحمدللہ آخر اسے اللہ رحیم وکریم کے بے پایاں فضل اور احسان کے سوا کیا کہیں کہ ایک ہم جیسے نااہل ،ناتواں ،کم علم اور خطا کار بندے نے ’’تجلی،، نا م رکھ کر ماہوارچند ورق چھاپنے شروع کئے تو قادر مطلق نے ان چند بے مصرف اوراق کو ہزاروں انسانوں کی آنکھوں کا تار ابنادیا ہم بیمار تھے اس نے شفا بخشی ۔ہم بے علم تھے اس نے علم عطاکیا۔ ہم بے وسیلہ تھے اس نے وسائل کا دروازہ کھول دیا۔کن لفظوں میں شکر نعمت ادا کریں ،بدن کا رواں رواں سراپا تسبیح بن جائے۔تب بھی رحیم وکریم آقا کے ان احسانات کا حقِ تشکر ادا نہیں ہوسکتا جن سے اس کی نگاہ کرم نے ایک نافرجام دکم سوادبندے کو نوازا ہے۔داد تحسین پر کس کا نفس نہیں پھولتا۔ مگر خدا ئے ارحم الراحمین کا کتنا بڑا فضل ہے کہ بے شمار داد وتحسین اور توصیف وتبریک کے ہجوم میں بھی ایک پل کے لئے ہمارے دل ودماغ میں یہ وسوسہ تک نہیں گذرا تاکہ کامیابی اور مقبولیت کا کوئی حقیقی تعلق ہماری ذاتی صلاحیتوں سے بھی ہے ۔استغفراللہ سے بھی ے ۔استغفراللہ ۔ہماری حقیقت ہی کیا ہے ایک قطرۂ آب جسے قدرت مثال صنعت نے نشو ونما عطا فرماکر انسان کا نام دیا اوراس انسان کی ہر صلاحیت ایک بے قیمت کنکر سے زیادہ کچھ نہیں جب تک کہ مثیّت ایزدی ہی اسے قیمت عطا نہ فرمائے ، وہ اورلوگ ہوں گے جنہیں کامرانی ومقبولیت کا نشہ فخرد استکبار کی فضا میں لے اڑتا ہے، یہاں تو ہر آن یہی استعجاب اور تحیّر ہے کہ خدا کی قدرت دیکھئے ۔وہ کس طرح ایک ذلیل وحقیر مشتِ خاک کی بے ڈھنگی کو ششوں کو ہزاروں ہزار اہل ایمان میں اعلیٰ درجہ کی قدر وقیمت ادا کردیتا ہے اوراس کے بے انداز خزانوں سے کس دریادلی کے ساتھ عامر عثمانی جیسے نالائق ،ناسپاس، کم توفیق بے عمل، اور نحیف وزرا بندے کو دین کا تفقہ اور نقددنظر کی استعداد عطا کی جاتی ہے خوب کہا ہے ڈاکٹر اقبال ؒ نے
توجاچاہے تو اٹھے سینۂ صحرائے حباب
رہر دِدشت ہو سیلی زدۂ موج سراب
لوگ ہمیں مو لانا کہتے اور لکھتے ہیں اور ہم اس لفظ کی معنوی عظمت کا احساس کرکے شرم سے پانی ہوجاتے ہیں۔ ہم اور مولٰنا یہ ایسا ہی ہے جیسے دھوپ میں چمکتے ہوئے ذرّے کو سورج کہدیا جائے اطمینان یہ ہے کہ سادہ لوح عقیدت مندوں کی اس ’’غلط بخشی،، میں ہماری اپنی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں، خدا اگر پوچھے گأ کہ تم ذلیل وخوار مولانا کیسے بن بیٹھے تھے تو ہم بہ اطمینان کہہ سکیں گے کہ یہ آپ کہنے والوں سے پوچھئے ۔ہم نے تو کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ لوگ ہمیں ہماری حیثیت سے بڑھکر القاب وآداب عطا فرمائیں۔
القصّہ ذکر تنقید نمبر کی مقبولیت عامہ کا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ چند ماہ بعد پھر ایک خاص نمبرشائع کریں جو زیادہ ضخیم ہو۔ انتظار کاغذ کے نئے کوٹے کا ہے جو انشاء اللہ جون، جولائی تک مل سکے گا ۔بعید نہیں کہ اگست وستمبر تک قارئین کی خدمت میں ایک ایسا ہی خاص نمبر حاضر کردیا جائے جس کا ایک ایک صفحہ ان کے ذوق مطالعہ کے لئے جون یغماثابت ہوواللہ المستعان۔ (اپریل ۶۵ء )
شکر گزاری کا ایک انداز یہ بھی
قلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ۔
یہ آدمی۔ناشکر ااور خیر ہ سر آدمی جو زمین کے سینے پر اس طرح درّاتا ہے گویا اس کا تو انا جسم اس کے دل ودماغ، اس کی بے مثال صلاحیتیں ،اوراس کی روح خواس کی کمال تخلیق کا شاہ کارہوں ،گویا زندگی اور اس کی بے کراں نعمتوں کا کوئی حساب اسے کہیں نہ دینا ہو۔آخراس کی حقیقت کیا ہے ۔ایک نکتہ، ایک حباب، ایک ذرّۂ بے مقدار ۔خالق کائنات کی قدرت واختیار کے مقابلہ میں اس کی ضعف وبے اختیار ی کا تناسب بیان کرنے کے لئے یہ ریاضی کے پاس کوئی فارمولا ہے نہ لغت کے پاس کوئی لفظ۔ کچھ نہ ہونا اور سب کچھ ہونا ان دومتقابل فقروں میں جو نسبت ہے ،ٹھیک ایسی ہی نسبت آدمی اوراللہ کے مابین ہے ۔پھر بھی یہ آدمی کتنا احسان فراموش ،کیسا خود سر ،مغرور، کس درجہ غافل ومدہوش ہے ،ظلم وجہول ۔کفور وکنود۔
برتر ہے وہ ذات جس نے عسر کے ساتھ یسر، صحت کے ساتھ مرض اور راحت کے ساتھ مشقت پیدا فرماکر غافل ومتساہل انسان کے لئے خوب غفلت سے چونکنے۔اپنی حقیقت کو سمجھتے اور اپنے کفر ان وطغیان پر متنبہ ہونے کازرّیں موقع بہم پہنچایا۔راقم الحروف پہلے تو اپنی آئے دن کی بیماریوں اور دشواریوں پر ملول ہواکرتا تھا،لیکن اب جتنا سوچتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں دیکھتا کہ بیماریوں اور دشواریوں میں خیر خواہی کا پہلو غالب ہے کتنابصیرت افروز ہوتا ہے وہ منظر کہ ابھی ہم بہت کچھ کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں ،اسکیمیں سوچ رہے ہیں ،مگن ہیں کہ یہ کرلیں گے وہ کرلیں گے ،اورابھی بخار ہمیں آدبوچتا ہے۔ابھی داڑھ یاکان میں درد شروع ہوجاتاہے ،ابھی آنکھیں دیکھنے آجاتی ہیں۔ ابھی کوئی زہر گداز خبر ہمارے ہوش حواس معطل کرکے رکھدیتی ہے بس پھر سارے مصنوبے خاک ہیں۔ سار ے عزائم دھرے رہ گئے۔ قلم ہاتھ میں ہے مگر انگلیاں جنبش کرنے سے انکار کررہی ہیں،دماغ سنسنا رہا ہے تو انائیاں، ہتھیارڈال رہی ہیں۔ کہاں ہے ہمارا تبحّر ،ہماراگھمنڈ ،ہماراطنطنہ ، لاریب کہ یہی وہ لمحات ہیں جب اللہ اپنے بندے کو موقع بہم پہنچاتا ہے کہ وہ اپنی بے حیثیتی کو سمجھے، اپنے کفر وسر کشی کا احساس کرے، اپنے رب کی طرف متوجہ ہو اور سوچے کہ اسی طرح ایک دن اس کے لئے حقیقت جسم کو خاک کے سپرد ہوجانا ہے۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ ویبقیٰ وجہُ رَبِّکَ ذُالجَلَالِ وَالْاِکْرَام۔
اس موقعہ سے جس نے فائدہ اٹھالیا وہی صاحب بصیرت ہے ،وہی دانشور ہے ،وہی خوش نصیب ہے ۔صدقے اس رحیم وکریم کے جس نے مرض دے کر صحت کی، مصیبت دے کر آرام وراحت دی اور مجبوریاں دے کرقوت واختیار کی قدروقیمت کا صحیح انداز بخشا۔
عاجزتو نہیں کہ سکتاکہ سعادت مند بندوں کی طرح اس نے بھی عسرو یسر کی سبق آموز یوں سے کما حقہٗ فائدہ اٹھا یا ہے، لیکن یہ ضرور عرض کرسکتا ہے کہ انسان کو خودسر ی اور غفلت سے چونکا نے کے لئے حوادث وآلام اور امراض وآفات سے بڑھکر کوئی تریاق نہیں ۔پلنگ پر ایڑیاں رگڑتے ہوئے سوچو تم کیا ہو، تم میں کیا دھر ا ہے جس پر گردن اکڑا کر چلتے ہو۔یٰااَیُّہَا الاِنْسَانُ مَاغَرَّکَ بِرَبِّکَ الکَرِیْمِ الّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰ کَ فَعَدَلَکَ فِیْ اَیِّ صُوْرۃٍ مَّاشَاءَ رکَّبَکْ۔خدا کو بھول کر خود کو بھلادینے والو کیا بھول گئے ۔تمہیں منی کے ایک قطرے سے پیدا کیا گیا۔فَلْیَنْظُرِ الاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّاءٍ دَافِقٍ۔
تمہیں ہوکیا گیا ہے کہ اس خالق ومالک کی ناشکری کرتے ہو جس نے تمہیں وجود بخشا، پھر وہ اس وجود کو چھین لینے کے بعد تمہیں دوبارہ وجود بخشے گا اور پوچھے گا کہ ایسا کرکے آئے ہو؟فَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہَیْہَات۔آیات الٰہیہ کی تلاوت کرنے والے بہت ہیں مگر وہ لوگ کہاں گئے جن کے سینے آیات الٰہیہ کو سن کر سوزو گداز سے پھر جاتے تھے۔ جن کی عقلِ سلیم نے آیاتِ ربّانی کے عطا فرمودہ پیغامات کو اپنے ایک ایک موئے تن میں اس طرح سمویا تھا کہ وہ خود بھی چلتی پھرتی آیتیں بن گئے تھے۔
فرصت ملے تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گر انما یہ کیا کئے
تجلّی کا مدیر بیمار ہوتا ہے ۔تجلی اپنے وقت پر شائع نہیں ہوپاتا۔ مشتاق قارئین کو کوفت رہتی ہے ۔کاروباری اعتبار سے ادارہ تجلی کو زیاں پہنچتا ہے ۔یہ سب بظاہر بہت اہم ہے مگر حقیقت میں کچھ بھی اہم نہیں اہم یہ ہے کہ ہم نے ٹھوکر وں سے آفات وحوادث سے، امراض وعوارض سے سبق لینا چھوڑدیا حالانکہ کارگر عالم حوادث وآلام اور امراض وعوارض کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ آدمی جاگے۔ عبرت پکڑے ،اپنے انجام کی طرف متوجہ ہو۔ قُلْ مَتَاعُ الدُّنیَا قَلِیْلٌ وَّالاٰ خِرَۃُ خَیْرُ لِّمَنِ اتَّقٰی۔(النسا) کہدو اے پیغمبر دنیا کی پونجی توبہت قلیل ہے اور آخرۃ ہی بہتر ہے اس کے لالئے جو اللہ سے ڈرے۔ یٰقَومِ اِنَّمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ وَّاِنَّ الاٰخِرَۃَ ہِیَ دَارُ القَرَارِ۔المؤمن )
اے قوم یہ دنیا کی زندگی متا ع ہے اسے توبس تھوڑا سابرت لینا ہے ہمیشہ رہنے کی جگہ تو آخرت ہی ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ مصیبت اور تکلیف میں آدمی خدا کو یاد بھی کرتا ہے تو یہ یاد عموماً دیر پانہیں ہوتی۔ ادھر مصیبت کے بادل چھٹے ادھر اس کی خدافراموشیاں انگڑائی لے کر بیدارہو ئیں، پھر ظلم یہ کہ مصیبت ختم کردینے کا کریڈٹ وماللہ کے بجائے ان اسباب ووسائل کو دیتا ہے جو بظاہر دفع مصیبت کا سبب ہیں اور ان افراد واشخاص کو جن کے واسطے سے یہ اسباب ووسائل میسّر آئے ہیں اوران افراد واشخاص کو جن کے واسطے سے یہ اسباب ووسائل ہیں تشکر ونیاز مندی کا وہ سرمایہ پیش کردیتا ہے جس کا حقدار سوائے اللہ کے اور کوئی بھی نہیں ۔اس عامۃ الورود صورت حال کو اللہ نے کیسے پیارے انداز میں بیان فرمایا ہے:۔
اور جب آپہنچی انسان پر سختی تو پکارنے لگا اپنے رب کو بڑی توجہ کیساتھ پھر جب اسکے رب نے اپنی طرف سے نعمت عطا فرمادی تو بھول گیا اس چیز کو جسکے لئے پہلے اپنے رب کو پکاررہا تھا اور لگا اللہ کی برابر ٹھیرانے اور وں کو تاکہ اس کی راہ سے بھٹکائے کہدو اے محمد !اٹھالے تھوڑا سا فائدہ اپنے کفر ان نعمت سے بلا شبہ تو دو زخیوں میں سے ہے۔
دیکھ لیجئے یہ منکرین خدایا مشرکین کفّار کا ذکر نہیں، ان لوگوں کا ذکر ہے جو خدا کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ کلفت ومصیبت کی گھڑیوں میں دیوی دیوتاؤں کے عوض اسی کو رجوع اور قلب تضرع کے ساتھ پکارتے ہیں ،اسی سے دعا کرتے ہیں ۔اسی کودافع البلیات اور شافی جانتے ہیں۔انہیں اللہ نے مصیبت میں ڈال کر موقع دیا کہ غفلت سے چونکیں، بدعملی اور خدا فراموشی سے باز آئیں ،لیکن ان کا رویّہ عموماً یہ ہے کہ مصیبت پڑنے پر خدا کو پکارا اور جب مصیبت دور کردی گئی تو بجائے اس کے کہ اللہ کی شکر گذاری کرتے ان کی زبانوں پر اورذہنوں میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں کہ فلاں ڈاکٹر اچھا ہے، فلاں دوا بڑی اکسیر ہے فلاں بزرگ کا تعویذ نہایت بہدف ہے ،فلاں پیر غوث دستگیر ہیں فلا مزار پر جو دعا کرلو مقبول ہوتی ہے ۔وغیرذٰلک ۔یہ باتیں نہ صرف ان کی اپنی گمراہی کا ثبوت ہیں بلکہ ان کے ذریعہ وہ دوسروں کو خدا کی راہ سے بھٹکا رہے ہیں، بیشک ڈاکٹر اچھّے اور برے بھی ہوتے ہیں ،دوائیں زود اور بے اثر بھی ۔اولیاء اللہ کسی کے لئے دعا کریں تو مقبول ہونا کچھ مستبعد نہیں ، تعویذ میں کچھ نہ کچھ اثر ہے لیکن ایک تو یہ ہے کہ اسباب ووسائل کو ثانوی درجہ میں اہمیت دیتے ہوئے اصل معنی وبخشندہ خداہی کو سمجھنا اور ایک ہے اسباب ووسائل کو بنیادی اہمیّت دے کر خدا کو نعوذباللہ ثانوی درجہ میں ڈالدینا۔ ان دونوں صورتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے پہلی محمود ہے اوردوسری مردود پہلی بجاہے اور دو سری کلیّۃ باطل ۔یہ ٹھیک ہے کہ زبان کسے ہم صاف صاف نہیں کہتے کہ فلاں شخص یا فلاں ذریعہ اللہ کے مساوی ہے ۔نہ یہ کہتے ہیں کہ مرض اور مصیبت دورکرنے میں اللہ کو کوئی ہاتھ نہیں لیکن یہ سکوت بجائے خود کفر ان اور بے حسی میں داخل ہے اللہ کا یہ مطالبہ نہیں کہ مجھے بھی کارساز مانو، وہ مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے ہی کارساز مانو۔ ان دونوں باتوں میں بونِ بعید ہے ۔ایک اسلام ہے تو دوسری کفر ایک شکر ان نعمت ہے تو دوسری کفرانِ نعمت ۔پھر سکوت نہ بھی کیا جائے۔بلکہ اللہ کو کارساز مانے کا اعلان واظہار ہی کردیا جائے ۔تب بھی ذہن واعتقاد کی کیفیات کا صحیح فیصلہ زبان سے نہیں عمل سے ہواکرتا ہے ۔ہمارا عمل اگر احسانِ الٰہی کے احساس اور اسی کے امتنان وتشکر کا مظہر نہیں تویہی ہمارے کفر ان اور غلط اندیشی کا سب سے بڑا برہان ہے ہم خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کے لئے بھی گمراہی کا وسیلہ بنے۔ہمیں ڈرنا چاہیئے کہ انّک مِنْ اصحٰب النار کا آتشیں دائرہ کہیں ہمیں بھی تو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گیا۔
بات پھیل گئی۔ تذکیر صرف اس نکتہ کی مقصود تھی کہ ہماری اور مشقّت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اگر وہ نفس امارّہ کی وسیسہ کاری کے لئے تازیانۂ عبرت بن کر ذہن انسانی کو اطاعت وبندگی کی طرف منعطف کردے اور آرام وراحت کی ساعتیں غفلت وبے حس کی جو گرد ذہن وقلب پر تہہ برتہہ جماتی چلی جاتی ہیں اسے دھوڈالے۔
لیکن یہی بیماری اور مشقّت عذاب وسزا بھی ہے اگر انسان اس سے کوئی سبق نہ لے یا سبق لے تو محض وقتی ۔پھر اللہ اس پر رحم فرماکر صحت وراحت کی نعمتیں نازل کردے تو وہ بھول ہی جائے کہ کس نے اسے مصیبت سے نکالا اور کس چشم کرم کے اشارے سے اس کے امراض وآلام کا استیصال ہوا ایسے بدنصیب کی مثال ایک تو وہ ہے جو انّک مِنْ اصحٰب النّار والی آیت میں بیان کی کئی اورایک وہ ہے جو ریا کارنہ عبادت کے سلسلہ میں اللہ نے سورۂ بقرہ میں بیا ن فرمائی ہے:۔
پس اس کی مثال اس پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی گردجمی ہوئی ہے پھر اس پر زور کا مینہ برساتو اسے کر چھوڑا بالکل صاف، کچھ ہاتھ نہیں لگتا ایسے لوگوں کے ثواب اس چیز کا انہوں نے کمایا اور اللہ نہیں ہدایت دیتا ناشکروں کو۔
عاجز کی جس وقتی بیماری کے باعث مارچ ۶۲ء کا تجلّی بیس دن موخر ہوا اس کے سلسلے میں عبادت کے خطوط لکھنے اور دعائیں کرنے والے دوستوں کوفرداً فرداً شکریئے کا خط لکھنا ممکن نہیں ہوا اس لئے آج میں من لم یشکر العبد لم یشکر اللہ کے تحت ان سب حضرات کی خدمت میں ہدیۂ تشکر پیش کرتا ہوں اور امّید کرتاہوں کہ زیر نظر شمار ے کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد وہ یہ الزام نہ دے سکیں گے کہ میں نے یک ماہی خلا کی تلافی کرنے میں اپنی حقیر استطاعت کی حد تک محنت نہیں کی ہے۔وللہ الحمد۔
غلطیوں کا اعتراف۔
برملا اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلینا ان کی ایک صفت تھی جو فی زمانہ دوسرے لوگوں میں نظر نہیں آتی۔ہٹ دھرمی کی راہ انہوں نے کبھی نہیں اختیار کی تجلی کے بیسیوں اوراق میں انہوں نے علی الاعلان اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے بارہا اپنی عظمت کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔آپ نومبر ۶۴ء کا تجلی اٹھا کر دیکھیے صفحہ ۶پر یہ عبارت نظر آئے گی۔
ہماری خطائیں :
انسان نسیان وخطاکا پتلا ہے ‘ بھول چوک تو اس کی گھٹی میں پڑی ہے شاید اسی لیے قرين میں یہ دعا تلقین کی گئی ہے رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْاَخْطَانَا۔بڑے بڑے عقلا اور فضلاء سہووغفلت کا شکار ہوتے رہے ہیں تو ہم جیسے بے بضاعت کس شمار وقطار میں مگر یہ اللہ کا شکر ہے کہ ناظرین تجلی میں ایک بڑا حلقہ اہل علم کا بھی ہے جو ہماری تحریروں پر گہری نظر رکھتا ہے اور جہاں کوئی خامی نظر يئی ہمیں ازراہِ اخلاص متنبہ کردیتاہے‘ غلطیوں پر ٹوک دینے والے احباب اللہ کی نعمت ہیں۔ ہم تمام ایسے لوگوں کے شکر گذار ہیں جنہوں نے پہلے یااب ہمیں ٹوکنے کی زحمت گوارہ فرمائی ہے‘ اس وقت ہم نے اپنی تین غلطیاں عام ناظرین کے سامنے لاتے ہیں جن سے بعض ناظرین ہی نے مطلع فرمایاہے۔
پہلی یہ کہ اگست ۶۴ء کے تجلی میں ص۱۳کا لم نمبر۱سطر ۲۵میں یوں لکھا گیا۔
’’انہیں اپنے امین وصادق چچاکی دیانت وصداقت پر یقین تھا‘‘۔
انہیں کا مرجع ابو طالب ہیں۔ ظاہر ہے وہ تو حضورؐ کے چچا تھے نہ کہ بھتیجے لکھنا‘‘ بھتیجے ‘‘ چاہیے تھا لکھا گیا چچا‘ اس کا باعث جہل نہیں کہا جاسکتا ‘کیونکہ چند ہی سطر پہلے تو ہم خود ہی لکھ چکے ہیں کہ ابو طالب حضورؐ کے چچا تھے۔ اب اسے ذہنی قلا بازی کے سوا کیا کہیں۔
دوسری یہ کہ فروری ۶۴ء کے پر چہ میں ہم نے عنوان دیا ’’ارواح واجنّہ کی باتیں ‘‘
ایک کرم فرمانے آگاہی بخشی کہ اجنّۃ تو جنین کی جمع ہے ’’جن ‘‘ کی نہیں۔ واقعی بات درست ہے ‘ ہم تو پہلے بھی اجنّۃ ہی لکھتے رہے ہیں حالانکہ جن کی جمع جنات (بکسر جیم) ہونی چاہیے۔
جنت کی جمع جنّات (بفتح جیم) گوکہ مادہ جن اور جنین کا ایک ہی ہے۔ باپ ایک ہی ہے ۔تاویل ممکن ہوسکتی ہے‘ مگر ہم ایں وآں کے بغیر اپنی خطا کا اعتراف کرتے ہیں۔
تیسر یہ کہ ستمبر ۶۴ء کے شمار ے میں صفحہ نمبر ۱۴پر ہم نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ فجر وعصر کے بعد امام کا مقتدیوں کی طرف منھ کر کے بیٹھنا پسندیدہ نہیں۔ یہ ہم سے قصور ہوا ہے متعدد قارئین کی رہنمائی سے پتہ چلا کہ حدیث صحیح اس کے جواز میں موجود ہے ‘ گونا جائز ہم ہم نے بھی نہیں کہا تھا لیکن ہمارے آقاؐ نے اگر ایک عمل کیا ہے اورآپ کے کسی قول وعمل نے اسے منسوخ بھی نہیں کیا تو اسے نا پسندیدہ قرارد ینا بھی کیسے درست ہوسکتا ہے‘ پھر متنبہ ہوجانے کے بعد کتب فقہ میں ہم نے دیکھا تو وہاں بھی مقتدیوں کی سمت منھ کرکے بیٹھنے کو دائیں بائیں رخ کرکے بیٹھنے کی طرح جائز تسلیم کیا گیا ہے لہذا ہمیں یہ اعتراف کرنے میں ادنٰی تأمل نہیں کہ اپنے جہل پر ہم شرمندہ ہیں ‘ ہمارے قلم سے شاید اس ذہنی پس منظر میں لغزش ہوگئی ہے کہ بچپن سے آج تک اپنے بزرگوں اور استادوں کو دائیں بائیں بیٹھتے دیکھا ‘ مقتدیوں کی طرف چہرہ کرکے بیٹھتے نہیں دیکھا ۔اس مشاہدہ نے تقلیدی ذہن کو اس خیال پر جمادیا کہ یہ تیسری شکل نا پسند یدہ ہی ہوگی ورنہ زیر عمل کیوں نہ آتی‘ بات چونکہ کسی اہم مسئلہ کی نہیں تھی اس لیے یہ بھی خیال آیا کہ کتاب ہی اٹھاکر دیکھ لیں وجہ کچھ بھی رہی ہو قصور بہر حال ہوا ہے ۔اللہ تعالیٰ در گذر فرمائے اور رہنمائی دینے والوں کو اجردے۔
نومبر ۶۰ کے شمارے صفحہ ۶ملاحظہ فرمایئے ۔
ؓدو :
انسان سہو ونسیان کا پتلا ہے پھر ہم جیسے فرومایہ انسان تو جتنی غلطیاں بھی کرجائیں تھوڑی ہیں فی الحال دو فرد گذاشتوں کی طرف بعض احباب نے توجہ دلائی ہے ۔ضروری ہے کہ ان کی تلافی کردی جائے۔ اول یہ کہ رسالے کے نمبر جلد ونمبر شمار میں دو بار کتابت کی غلطی ہوچکی ہے جس سے اس کی عمر ایک سال ایک مہینہ بڑھ گئی اسے حذف کرکے اس بار صحیح نمبر دیے گئے ہیں۔
دوسرے یہ کہ جون ۶۰ءکے تجلی میں ص۲۰پر ’’مولنا عبدالشکور ‘‘ کے ساتھ ’’ جناب اور صاحب‘‘ چھوٹ گیا ہے یہ سہو کا تب کا نہیں ہمارا ہوگا اس سے موصوف کے ادب میں جو کمی واقع ہوئی اس پر ہم شرمندہ ہیں ۔حاشاکہ ترک تحقیر کی نیت سے نہیں تھا۔مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سے ہماری عقیدت ومودودی مل جائے گا‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ روانئ تحریر میں ہم واقعی تعظیم سے چوک جاتے ہیں ورنہ ارادہ تحقیر کا ہر گز نہیں ہوتا‘ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے‘ جن حضرات کو ہماری اس چوک سے کبھی تکلیف پہنچی ہے ان سے ہم دست بستہ معافی چاہتے ہیں۔
نومبر ۷۴ء کا شمارہ دیکھیں گے تو پہلے ہی صفحہ پر ان الفاظ کا مشاہدہ ہوگا۔
ہماری ایک بھول :
تجلی طلاق نمبر میں ص۱۳۸پر ہم نے مولانا شمس پیر زادہ پر اعتراض کیا تھا کہ رفاعۃ القرضی والی روایت مسلم شریف میں موجود ہی نہیں ہے جب کہ ہم نے حوالہ مسلم ہی کا دیا ہے ۔چند روز ہوئے مولانا موصوف کا مراسلہ ہمیں ڈاک سے موصول ہواجس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ اعتراض درست نہیں یہ روایت مسلم میں موجود ہے البتہ چو ک ان سے یہ ہوئی کہ حوالہ ’’ مسلم کتاب الطلاق ‘‘ کا دے گئے ہیں حالانکہ یہ روایت کتاب النکاح میں آئی ہے۔
ہم ان کا پورا مراسلہ ہی شائع کردیتے لیکن پر چہ مرتب ہوچکا بس یہی صفحہ زیر تکمیل ہے لہذا بات اگلے ماہ پر اٹھارکھنے کے بجائے ہم نے اپنے الفاظ میں یہیں ان کے مراسلہ کا اخلاصہ بیان کردیا۔کون جانے اگلے ماہ تک ہم زندہ بھی رہیں یا نہ رہیں ۔اپنے کسی قصور سے آگاہ ہوجانے کے بعد ہم ضرور سمجھتے ہیں کہ جلد ازجلد اس کا اعلان کردیا جائے‘ مولانا موصوف کو جو تکلیف اس قصور سے پہنچی ہے اس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔لیکن یہ بہر حال ظاہر ہے کہ قصور کا باعث ان کا غلط حوالہ دینا ہے ۔ویسے نفس بحث پر اس قصور کا کوئی اثر نہیں پڑا۔اس روایت پر ہم نے ہر پہلو سے سبحث کی ہے جو ہماری دانست میں کافی شافی ہے‘ مراسلہ میں یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ جو معارضہ تجلی نے موصوف کے مقالہ پر کیا ہے اس کے جواب میں ایک کتاب شائع کی جارہی ہے ۔اس اطلاع سے خوشی ہوئی۔ ہم بڑے شوق سے اس کتاب کے منتظر رہیں گے۔(نومبر ۷۴ء )
فروری کے شمارے میں صفحہ نمبر ۴پر یہ اعلان دیکھا جاسکتا ہے۔
تصحیح الاغلاط :
( ۱ )دسمبر ۷۴ء کے شمارے میں تجلی کی ڈاک کے تحت ص ۳۵پر ہم نے جناب فضا ابن فیضی کے ایک شعر کو بایں طور نشانۂ اعتراض بنایا تھاکہ ’’ بادر آنا‘‘ خلاف محاورہ ہے ۔اشاعت کے بعد نہ جانے کتنے قارئین نے خطوط کے ذریعہ تنبیہ فرمائی کہ تمہارا اعتراض غلط ہے ۔ثبوت میں غالب کا معروف مصرعہ لکھا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا۔لطف یہ ہے کہ یہ شعر خود ہماری یادداشت کے کسی گوشہ میں ایک عرصہ سے استراحت فرماتھا‘ پہلی ہی تنبیہ پر آنکھیں مل کر اٹھ بیٹھا اورہمیں اپنی حالت پر تعجب ہوا کہ کس عالم میں ہم نے فضا صاحب پر اعتراض جڑ دیا خداان بزرگو ں کی مغفرت فرمائے جنہوں نے درج شعر لکھا تھا۔
گہے برطارم اعلیٰ نشینم
گہے برپشت پائے خود نہ بینم
ہمیں خوشی ہے کہ قارئین تجلی میں بہت لوگ ایسے ہیں جو بروقت ہمیں ہماری غلطیوں پر ٹوک سکتے ہیں‘ اورہمیں افسوس ہے کہ بعض اوقات ہم سے فاحش غلطیاں ہوجاتی ہیں اللہ ہمیں ہدایت دے۔ امید ہے فضا صاحب اس قصور کے لیے معاف فرمائیں گے۔
( ۲ )ایک کرم فرما کے خط سے پتا چلا کہ دسمبر کے شمارے میں صفحہ ۶۸پر عبارت یوں چھپی ہے :
’’تم ہر طرح کی کامرانیوں سے دو چار ہوسکتے ہیں‘‘۔
کرم فرماکی گرفت درست تھی کہ ’’ دوچار‘‘ کا لفظ یہاں بے محل ہے’’ ہمکنار ‘‘ہونا چاہئے ۔ہم نے مسودے میں دیکھا وہاں’’ ہمکنار ‘‘ہی تھا۔گویا چوک ہم سے نہیں ہوئی‘ کاتب صاحب نے کمال فن دکھایا ہے یہ بات ہم سخت معیوب سمجھتے ہیں‘ کہ اپنی غلطی کاتب اور مصحح کے سر مڑھ دیں‘ مگر یہاں قصور ان ہی صاحبان کا نکلا‘ٹ ہمارے قلم ہنے’’ ہمکنار ‘‘ ہی لکھا تھا۔یقین کرنا یا نہ کرنا قارئین کے اختیار میں ہے۔
ان کا ایک مرتب کردہ آخری شمارہ اٹھاکر دیکھیے جو ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آیا تھا۔ اس میں پہلے ہی صفحہ پر اس انداز میں اپنی لغزشوں کا اعتراف موجو دہے :
تصحیح الاغلاط :
( ۱ )پچھلے شمارے میں صفحہ ۶۷پر طاہر تلہدی کے شعر میں بادل کی جگہ دل چھپ گیا(غم کھائے دل صحیح ہے) (۲)تجلی فروری ۷۵ء ص۵۱کالم نمبر۱پر ابو طالب پر ضی اللہ عنہ کی علامتؓ چھپ گئی ہے‘ وہ غلط ہے ابو طالب اسلام نہیں لائے تھے۔ لہذا رضی اللہ عنہ نہیں لکھا جائے گا۔
( ۳ )ایک دینار ہندوستانی اوران کے اعتبار سے چار ماشہ چار رتی کا ہوتا ہے نجی ڈاک سے دیے ہوئے جوابات میں اگر ہم نے کسی کو اس سے مختلف وزن لکھدیا ہے تو اسے حسابی غلطی تصور کیا جائے۔اگر مثلاً دس دینار مہر کی رقم میں شامل ہیں تو ان کا سونا ۳تولہ ۹ماشہ بنے گا (گویا پونے چار تولہ) اوراسی کی رائج الوقت یا پھر اتنا ہی سونا ادا کرنا ہوگا۔ بعض کتب فقہ میں دینار کا وزن کچھ اور لکھا ہوا ہے وہ درست نہیں۔ اس پر انشاء اللہ ہم جلد ایک مضمون لکھنے والے ہیں تاکہ سونے چاندی کے نصاب زکوٰۃ کے تعین میں جو غلطی ہمارے بعض متاخرین علماء سے ہوگئی ہے اس کی اصلاح ہو۔
( ۴ )جناب شمیم کرہانی کی’’ صبح فاراں‘‘ کے تبصرے میں لفظ’’ قتّال‘‘ پر کچھ بحث کی گئی تھی۔ پھر یہ بحث دسمبر ۷۴ء کے تجلی میں بھی تازہ ہوئی۔ اس کے سلسلہ میں مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر)کے ایک ذی علم مہربان نے ہمیں ہمارے علمی قصور پر متنبہ کیا تھا۔ اس پر جوباً ہم نے انہیں خط لکھا ۔مگر اس کا جواب ہمیں نہ مل سکا ۔بہر حال بطور حاصل ہمیں یہ اعتراف ہے کہ قتّال بطور مبالغہ عربی میں مستعمل ہے جس کے نظائر فاضل موصوف نے پیش کیے ہیں۔اپنے افلاس علمی اور قلتِ مطالعہ کا اقرار ہمیں پہلے بھی تھا‘ آج بھی ہے‘ اللہ ہمیں معاف فرمائے اوران تمام اہل علم کو جزائے خیر دے جواز راہِ کرم رہنمائی کی زحمت اٹھاتے ہیں۔
( ۴ )اوران کی یہ تحریر ہر حال میں امّید سے وابستگی اور عاجزی وانکساری کی آئینہ دار ہے۔
اللہ جل شانہٗ نے بار بار اپنے رحیم وکریم ہونے کا تذکرہ فرماکر لاتقنطوا کا حکم صادر کیا اور واضح ترین مثالیں دے کر سمجھایا کہ اے نادانو!مادی اسباب اور ظاہری وسائل کو ہی سب کچھ سمجھ کر ہماری رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ اسباب ووسائل ہمارے ادنٰی اشارے سے بدلتے ہیں اور جن لوگوں کو عقل ہے وہ بدسے بدتر حالات میں بھی ہماری رحمت ونوازش سے بد گمان نہیں ہوتے۔
اس تعلیم اور نصیحت کے پیچھے کتنا پائدار فلسفۂ حیات اور سکون واطمینان کی کتنی لازوال دولت ہے‘ اس کی پوری حقیقت تووہی خوش قسمت جان سکتے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کا مطیع بنالیا اوراس کے ہر حکم پر گردنیں جھکادیں لیکن ہم جیسے روسیاہ وبدبخت بھی جن کی زندگی سراپا معصیت ‘ جن کے قلوب حبّ دنیا کی گندگی سے آلودہ اورجن کے دماغ اسباب وعلل غلام ہیں اتنا ضرور محسوس کرتے ہیں کہ رحمتِ خداوندی کا معمولی ساسہارا اور غیبی کارسازی کا ادنیٰ سا انتظار بھی اپنے اندر سکون وطمانیت کا عجیب ذائقہ رکھتا ہے چنانچہ تجلّی کے سلسلہ میں بارہا ہمیں اس کا تجربہ ہوا ہے‘ اورگذشتہ چھ ماہ راقم الحروف کیلئے ظاہری اعتبارات سے جس قدر یاس انگیز اورپریشان کن گذرے اگر ان میں رحمتِ خداوندی سے لو نہ لگی رہتی تو مایوس ہوکر ہاتھ پیر چھوڑدیتا یقینی تھا ۔صدقے اس ارحم الراحمین کے جس نے ہم جیسے روسیاہوں کو اپنی رحمت پر تکیہ کرنے کی توفیق دی اور اسی کی عنایت ورحمت کا احسان ہے کہ تجلی کا کوئی شمارہ قدرمؤخر ہوجانے کے باوجود ناغہ نہیں ہوااوریہ تاخیر بھی انشاء اللہ العزیز اگلے شمارے سے باقی نہ رہے گی۔(اپریل ۱۹۵۲ء )
آیئے حضرات اب علامہ عامر عثمانی صاحب نوراللہ مرقدہ کی چند تحریریں ملاحظہ کریں ایسی تحریریں جو منفرد بھی ہیں اور ادبی بھی لازوال بھی ہیں اور بے مثال بھی۔ لاثانی بھی ہیں اور خاقانی بھی۔حقیقت یہی ہے کہ علامہ عامر عثمانی کی تحریریں پڑھنے کے بعد یہ خیال فرش ذہن پر رینگنے لگتا ہے کہ علامہ عامر عثمانی کے بعد دنیا میں آج تک کوئی بھی ایسا مذہبی قلم کا ر پیدانہیں ہوسکاجیسے مولا نا عامر عثمانی صاحب ؒ تھے۔دنیا میں بہت بڑے بڑے عالم گزرے ہیں لیکن جہاں تک مجھ ناچیز کا علم ہے پچھلے کئی سو سالوں میں بھی ایسا کوئی عالم دین نہیں گزرا جو ہر موضوع پر لکھنے کا عبور رکھتا ہو ۔ ہر عالم دین کا اپنا خاص ایک میدان رہا ہے جس میں اس کا کوئی ثانی نہیں رہا کوئی عظیم مفسر ہے کوئی فقہ میں مہارت حاصل کئے ہوئے ہے کوئی شاعر ہے کوئی طنز و مزاح کا ماہر ہے لیکن ایسا ایک بھی نہیں جس کو ان سب عناوین پر لکھنے کا ملکہ حاصل ہو اور اسلامی حلقے میں تنقید تو جیسے ان کے بعد دنیا سے رخصت ہی ہو گئی ہے ۔مولانا عامر عثمانی صاحب کی خصوصیت ہی یہ تھی کہ وہ ہر موضوع پر زبر دست لکھتے تھے جیسا کہ آپ پچھلے صفحات میں پڑھ آئے ہیں کہ مولانا کی تحریر پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا عامر عثمانی صاحبؒ شاعر بھی تھے ادیب بھی تھے فقیہہ بھی تھے مفسر بھی تھے مبصّر بھی تھے مدبّر بھی تھے محقق بھی تھے نقاد بھی تھے اور محاذ تحریر کے مجاہد بھی تھے۔ ماہنامہ تجلی کا طلاق نمبر پڑھئے ، خلافت و ملوکیت نمبر پڑھئے ، ایمان نمبر پڑھئے ،مسجد سے میخانے تک پڑھئے ، شاہنامہ اسلام جدید پڑھئے ،تفہیم الحدیث پڑھئے ، آغاز سخن پڑھئے ،اور انکے تدبر کی آئینہ دار تجلی کی ڈاک ۔ جس میں سوالوں کے جواب اتنے عالمانہ انداز سے دئے جاتے تھے کہ سائل کی مکمل تشفی ہو جاتی تھی ۔ اب کون اتنی محنت کرتا ہے نہ کسی کے دل میں عوام کو سدھار نے کا جذبہ ہے نہ ہی دین کی صحیح تصویر پیش کرنے سلیقہ یہ دوسخت جملے شاید آپ کی حساس طبیعت پر گراں گزریں لیکن حقیقت یہی ہے ۔ اس کا تجربہ بندے نے خود علماء سے مل کر کیا ہے تفصیل جاننے کے لئے احقر کی ترتیب شدہ کتاب اسلام او رتفریحات ملاحظہ کریں جس کی ترتیب کے سلسلے میں احقر چند نامور علماء سے ملا اور اسلام اور تفریحات جیسے نازک عنوان پر ان علماء کرام کا دل برداشتہ جواب پاکر محو حیرت رہ گیا ۔ خیر ۔ فلحال تو مولانا عامر عثمانی صاحب ؒ کی تحریریں ملاحظہ فرمائیے جن کے بارے میں آپ سے اتنا ہی کہونگا کہ انھیں پڑھنے کے بعد پھر کسی اور کی تحریریں اتنی پُر مغز اور اتنی عالمانہ محسوس نہیں ہوتیں ۔
تجلی کا پہلا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ سرورق پر’’ مذہبی‘‘ کا لفظ دیکھ کر ہمارے نوّے فی صدی بھائی ورق گردانی کی زحمت گوارہ کئے بغیر ہی اسے ایک طدرف ڈالدیں گے۔ ان کی طنز آلود نگاہیں زبان حال سے تحقیر آمیز انداز میں کہیں گے ’’ دقیانوسی‘ فضول ‘ رجعت پسند نہ ‘‘!
پانچ فی صدی ایسے ہوں گے جو محض عنوانات پر نگاہ ڈالنا کافی سمجھیں گے۔ ان کا انداز نظر کچھ ایسا ہوگا گویا صرف ورق گردانی ہی چھاپنے والے کی عرق ریزیوں کی مناسب قیمت ہے ۔پانچ فی صدی مشکل سے ایسے ہوں گے جو پورے مضامین کا مطالعہ فرماسکیں گے۔ان پانچ فی صدی سے ہی ہم گذارش کرینگے کہ اگر ان کے نزدیک ہماری یہ پیش کش کسی درجہ میں دینی خدمت کہلانے کی مستحق ہے ۔اگر اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہونچ سکتا ہے تو جس حد تک بھی ہوسکے اسے دوسروں تک پہنچانے اوراس کے نفع کو عام کرنیکی زحمت وہ گوارہ فرمائیں۔ اپنی بے بضاعتی اور کم مائگی کے باعث یہ کہتے ہوئے تو ہمیں جھجک محسوس ہوتی ہے کہ’’ادارۂ تجلی‘‘ کے ذریعہ ہم تبلیغ وہدایت کا کوئی وسیع سلسلہ پھیلائیں گے ‘ کیونکہ تبلیغ ایک اہم ترین ذمہ داری ہے جس سے عہد براہو نا ہم جیسے ہیچ مدانوں اور سیاہ کاروں کے لئے آسان نہیں ‘ لیکن اتنا ہم ضرور کہیں گے کہ ہمارے پیشِ نظر ایک بھولی ہوئی کہانی کی یاد دلانا ہے‘ وہ کہانی جس نے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے فاران کے تپتے ہوئے ذرّوں کی گود میں جنم لیا تھا وہ کہانی جس نے ایک سادہ فطرت پیغمبر کے ہونٹوں پر قرآنی نغمہ بنکر بے شعوروں کو شعور اور نا صبوروں کو صبو عطا کیا تھا۔وہ کہانی جو آگے ہی آگے بڑھتی گئی‘ پھیلتی گئی‘ چھاتی گئی اس کہانی کو ترتیب دینے والے ہمارے ہی باپ دادا تھے ہماری ہی طرح گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان تھے‘ ہماری ہی طرح ان کے سینوں میں ارمان وخواہشات سے بھراہوا دل بھی تھا‘ ان کے سروں میں عیش وکلفت اور افلاس وامارت کی تمیز کرنے والے دماغ بھی تھے‘ ان کے سامنے ان کی انفرادی الجھنیں اوراجتماعی مسائل بھی تھے‘ لیکن ہماری طرح انہوں نے دنیاہی کو سب کچھ سمجھ کر آخرت کو تج نہیں دیا تھا‘ ان کی باوقار گردنیں نفس کی چوکھٹ پر جھک نہیں گئی تھیں ‘ انہوں نے اعتقادات کو محض کھلونا نہیں بنالیا تھا وہ خدا اوررسول کی جس غلامی کا دعویٰ کرتے تھے‘ وہ صرف زبانی نہیں تھی انہوں نے اپنے ایک موئے تن سے ‘ ایک ایک لفظ سے ‘ ایک ایک عمل سے اس کا ثبوت بھی دیا تھا‘ ان کی غلامی نے قیصر وکسریٰ کی آقا ئی پر ٹھوکر یں ماریں تھیں ‘ ان کی غربت نے مغرور امارت کی گردنیں خم کی تھیں‘ وہ جدھر بھی گئے کامیابیاں ان کے ہمررکاب گئیں‘ وہ جہاں سے بھی گذرے انسانیت کے لازوال موتی بکھیرتے ہوئے گذرے‘ شام وروم کی طاقتوں میں انہوں نے اپنے غیر فانی اصولوں کی مشعلیں روشن کیں۔ عدل وانصاف کے پھر یرے لہراتے ہوئے وہ آگے ہی آگے بڑھتے گئے ‘ آگے ہی آگے‘ شراب یقین سے سرشار ‘ بیخوف مطمئن ‘ ان کے بازوؤں نے ٹوٹی ہوئی تلوار وں سے توپوں کے سینے چیر دیئے ‘ ان کے پھٹے ہوئے لباسوں نے دیباؤ حریرے کے جھلملاتے ہوئے ملبوسات پر حقارت کے شعلے الٹ دیئے ان کے گرجتے ہوئے نعروں نے اونچے اونچے محلوں کی بنیادیں ہلادیں۔رستموں کے دل ہلادیئے‘ قارونوں کے خزانے خاک کردیئے۔خون اگلتے ہوئے میدانوں میں جب زخموں سے چور ہوکر فر شِ خاک پر گرے تو ان کی پاک زبانوں پر اللہ ہی کانام اور رسول ؐ ہی کا کلمہ تھا اور باطل فلک بوس ایوانوں میں جب وہ فاتح بن کر داخل ہوئے تب بھی ان کے ہونٹوں پر خالقِ برتر کی حمد وثنا اورنبی پاک کی محبت کے نغمے ہی رقص کناں تھے‘ کونے کونے میں انہوں نے خدا کی بڑائی کے گیت گائے ۔ذرّے ذرّے کو ان کی پیشانیوں نے سجدوں کی تابانیاں عطا کیں‘ زندگی کے تقاضے ان کے غلام تھے ۔حالات کی الجھنیں ان کی باندیاں تھیں۔ یقین وعزم ان کا طرّہ امتیاز تھا خوفِ الٰہی اور سوز ورقّت سے ان کی خلوتیں معمول تھیں اورجلوتمیں وہ ایک مجسّمۂ عدل وشجاعت تھے۔پیکر حلم وہدایت تھے‘ رحیم وکریم تھے‘ عابد وزاہد تھے‘ انہوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانا سیکھا تھا۔ انہوں نے زندگی کے پنجہ سے پنجہ ملا کر آخرت کا شعور حاصل کیا تھا۔
لیکن آہ !آج ہم ہیں کہ زندگی کی وسعتِ خشک میں دیوانوں کی طرح ٹھوکر یں کھارہے ہیں‘ دل ویران ‘ روحیں مردہ‘ ضمیر گھائل‘ دماغ مفلوج نفس کے آستانے پر ہماری حیات مجروح کبھی کے گھٹنے ٹیک چکے ہیں ۔فلک پیمابلندیوں سے ہم کبھی کے تاریک ترین پستیوں میں گرچکے ہیں۔اسلام کے مدعی ہوکر ہم اپنے معاشرتی اور اقتصادی مسئلوں اور الجھنوں کا حل ملحدانہ نظریوں اور مادی فلسفوں میں دھونڈتے ہیں ہیں اسباب ظاہری پر ہمارا تکیہ ہے تو ہم اور ضعف وبزدلی ہمارا طرۂ امتیاز ہے۔نہ ہمارے سینہ میں خلوص ومحبت کے اس بحر بے کنارہ کوئی قطرہ ہے جس نے غارِ ثور میں صدّیق اکبرؓ کے سفینۂ زندگی کی آزمائش کی تھی‘ نہ ہمارے دلوں میں اس عدیم للمثال پامردی وبسالت کی کوئی رمق ہے جس کی گھن گر ج نعرۂ فاروقی بنکر باطل کے ایوان کبرو نخوت پر لرزی تھی‘ نہ ہم عثمانؓ کے اس صبر ویقین کا ذرا سابھی پرتور کھتے ہیں‘ جو انتہائی روح فرساحالات میں راہِ تسلیم ورضا سے ایک انچ نہ ہٹ سکا تھا ۔نہ ہم عسلیؓ کے اس جذبۂ ایثار کے حصّہ دارہیں جس نے رسول پاکؐ کے بستر پر علیؓ کو بے تکلف کافروں کی تیغ ہائے برّاں کے آگے رکھدیا تھا۔کچھ ہے تو بے دلی‘ بے حسی‘ بے عملی‘ ناامیدی اور بس !
کاش ہمیں احساس ہو۔کاش ہم اپنے کردار پر توجہ دے سکیں۔کاش!!ماخوذاز تجلی ۔نومبر ۴۹ء