آپ کے علم میں کون سے حنفی علماء ہیں یہ میں تو نہیں جانتا لیکن اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصول سے دیکھا جائے تو امام صاحب تو مستور کی روایت قبول نہیں کرتے تھے جیسا کہ امام صاحب کے نزدیک بیع الرطب بالتمر کمی بیشی کے جائز ہے لیکن دوسرے ائمہ کے نزدیک جائز نہیں ہے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کی مروی ہے جب وہ حدیث امام صاحب کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے جہالت راوی کی بنیاد پر رد کردیا چنانچہ نصب الرایہ میں ہے کہ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ التحقیق میں لکھتے ہیں
قال أبو حنيفة زيد أبو عياش مجهول
زیر بحث حدیث سے ہٹ کر مستور اور ائمہ احناف سے متعلق کچھ باتیں ہیں ۔
ائمہ احناف کے نزدیک قرون ثلاثہ کامستور و مجہول ۔۔قابل قبول ہے ۔ اور اس کے بعد کا نہیں ۔
ہاں یہ مطلق نہیں ہے ۔اس میں تفصیل ہے ۔خصوصاََ معارض کچھ نہیں ہونا چاہیے ۔ حتی کے قیاس شرعی بھی ۔
دراسات فی اصول الحدیث علی منہج الحنفیہ میں طویل بحث ہے ۔ اور دلائل و حوالہ جات موجود ہیں ۔
مستور کی مکمل بحث یہاں ہے ۔
اور
حاصل کلام یہاں ہے ۔
اب بات رہ گئی کہ زید ابو عیاش کو امام ابوحنیفہؒ نے مجہول کہا ہے ۔
اور وہ بھی قرون ثلاثہ سے ہیں ۔اس تعارض کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حافظ ابن حجرؒ ، ابن جوزیؒ ، سبط ابن الجوزیؒ وغیرہ نے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ زید مجہول ہیں ۔ اس قول کا ماخذ لفظ مجہول کے ساتھ معلوم نہیں ہوسکا ۔شاید بعض ائمہ احناف کے طرز سے یا امام صاحب کی عبارت سے مفہوم نکالا گیا ہے ۔
امام جصاصؒ نے شرح مختصر الطحاوی میں زيدا أبا عياش مجهول لکھا ہے ۔
امام طحاوی نے شرح مشکل میں اس روایت کے سند اور متن میں اضطراب کا کہا ہے اس سے حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص الحبیر میں یہ نکالا ہے کہ جیسے طحاویؒ نے بھی زید کو مجہول کہا ہے أَعَلَّهُ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الطَّحَاوِيُّ، وَالطَّبَرِيُّ وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ وَعَبْدُ الْحَقِّ كُلُّهُمْ أَعَلَّهُ بِجَهَالَةِ حَالِ زَيْدٍ أَبِي عَيَّاشَ
امام قدوری نےنقل کیا ۔ أبو عياش، قال أبو حنيفة: لا أقبل خبره
، وصاحب المقالة إذا لم يغلب في ظنه عدالة الراوي لم يلزمه قبول خبره.
صاحب ہدایہ نے بھی کچھ مختلف الفاظ استعمال کئے ہیں ۔
زيد بن عياش وهو ضعيف عند النقلة
جو بقول صاحب فتح القدیر بالمعنی روایت ہیں ۔الفاظ یہ ہیں۔ زَيْدُ بْنُ عَيَّاشٍ مِمَّنْ لَا يُقْبَلُ حَدِيثُهُ.
وَأَبْدَلَهُ الْمُصَنِّفُ بِقَوْلِهِ (ضَعِيفٌ عِنْدَ النَّقْلَةِ)
صاحب الاسرار امام دبوسیؒ نے بھی ضَعِيفٌ عِنْدَ النَّقَلَةِ کہا ہے (اکمال مغلطائی)
صاحب بدائع الصنائع نے بھی ضعیف عند النقلہ کہا ہے ۔
صاحب العنایہ ، محقق اکمل بابرتیؒ نے بھی زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ فِي النَّقْلَةِ کہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مناقب صیمری ،مناقب موفق ۔۔۔۔میں سند کے ساتھ واقعہ میں یہ الفاظ ہیں ۔
حَدِيث سعد فَقَالَ ذَاك حَدِيث شَاذ لَا يُؤْخَذ بِرِوَايَة زيد ابي عَيَّاش
اکثر حضرات نے امام صاحب کے قول سے ضعیف نکالا ہے ۔
بعض نے مجہول نکالا ہے جو شاید طحاویؒ ، جصاصؒ ،اور قدوریؒ کے الفاظ اور صنیع سے نکالا گیا ہے ۔اور اس کی تائید میں دیگر محدثین طبریؒ ، ابن حزمؒ، ابن قطانؒ وغیرہ ہیں۔
ایک اور بات جو موجود ہے کہ امام صاحب نے اس حدیث کو شاذ بھی فرمایا ہے ۔
امام ابویوسفؒ نے رد علی سیر الاوزاعی میں ایک جگہہ شاذ کا ذکر کیا ہے ۔
وَالرِّوَايَةُ تَزْدَادُ كَثْرَةً وَيَخْرُجُ مِنْهَا مَا لَا يَعْرِفُ وَلَا يَعْرِفُهُ أَهْلُ الْفِقْهِ وَلَا يُوَافِقُ الْكِتَابَ وَلَا السُّنَّةَ فَإِيَّاكَ وَشَاذَّ الْحَدِيثِ وَعَلَيْكَ بِمَا عَلَيْهِ الْجَمَاعَةُ مِنَ الْحَدِيثِ وَمَا يَعْرِفُهُ الْفُقَهَاءُ وَمَا يُوَافِقُ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ وہ روایت جو قرآن اور سنت(مشہورہ) کے خلاف ہو شاذ ہوتی ہے ۔
اور وہ واقعہ جس میں امام صاحب نے زیدابو عیاش پر تبصرہ کیا ہے ۔اس میں امام صاحب نے حدیث مشہور سے استدلال کیا ہے ۔
فتح القدیر میں یہ الفاظ ہیں ۔
يُحْكَى عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ دَخَلَ بَغْدَادَ وَكَانُوا أَشِدَّاءَ عَلَيْهِ لِمُخَالَفَتِهِ الْخَبَرَ، فَسَأَلُوهُ عَنْ التَّمْرِ فَقَالَ: الرُّطَبُ إمَّا أَنْ يَكُونَ تَمْرًا أَوْ لَمْ يَكُنْ، فَإِنْ كَانَ تَمْرًا جَازَ الْعَقْدُ عَلَيْهِ لِقَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «التَّمْرُ بِالتَّمْرِ» وَإِنْ لَمْ يَكُنْ جَازَ لِقَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «إذَا اخْتَلَفَ النَّوْعَانِ
فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ» فَأَوْرَدَ عَلَيْهِ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ دَائِرٌ عَلَى زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ وَزَيْدُ بْنُ عَيَّاشٍ مِمَّنْ لَا يُقْبَلُ حَدِيثُهُ. (فتح القدیر)
امام عبداللہ بن مبارکؒ نے اس واقعہ کو سنا کر امام ابوحنیفہؒ کی تعریف کی ہے کہ کیسے کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ حدیث نہیں جانتے۔حالانکہ ان سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث شاذ ہے اور راوی زید ابی عیاش کی حدیث قبول نہیں کی جاسکتی ۔ جو ایسا کہتے ہیں ان کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ حدیث نہیں جانتے ۔(مفہوم)
سَمِعت ابْن الْمُبَارك يَقُول قدم مُحَمَّد بن وَاسع إِلَى خُرَاسَان فَقَالَ قبيصَة قد قدم عَلَيْكُم صَاحب الدعْوَة قَالَ فَاجْتمع عَلَيْهِ قوم فَسَأَلُوهُ عَن أَشْيَاء من الْفِقْه فَقَالَ إِن الْفِقْه صناعَة لشاب بِالْكُوفَةِ يكنى أَبَا حنيفَة فَقَالُوا لَهُ إِنَّه لَيْسَ يعرف الحَدِيث فَقَالَ ابْن الْمُبَارك كَيفَ تَقولُونَ لَهُ لَا يعرف لقد سُئِلَ عَن الرطب بِالتَّمْرِ قَالَ لَا بَأْس بِهِ فَقَالُوا حَدِيث سعد فَقَالَ ذَاك حَدِيث شَاذ لَا يُؤْخَذ بِرِوَايَة زيد ابي عَيَّاش فَمن تكلم بِهَذَا لم يكن يعرف الحَدِيث
(صیمری ، قدوری فی التجرید ، مناقب موفق وغیرہ)
فقہاء حنفیہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ کہ اس حدیث کو زید کی وجہ سے بھی اور کتاب اللہ اور سنت مشہورہ کے( بظاہر) خلاف کی وجہ سے قبول نہیں کیا ۔
امام اکمل بابرتیؒ صاحب عنایہ شرح ہدایہ نے زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ فِي النَّقْلَةِ نقل کرکے بعد میں یہ بھی فرمایا ہے ۔۔۔۔ سَلَّمْنَا قُوَّتَهُ فِي الْحَدِيثِ لَكِنَّهُ خَبَرُ وَاحِدٍ لَا يُعَارَضُ بِهِ الْمَشْهُورُ.
اور بدائع الصنائع میں ہے ۔۔۔۔
وَلِأَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - الْكِتَابُ الْكَرِيمُ، وَالسُّنَّةُ الْمَشْهُورَةُ أَمَّا الْكِتَابُ: فَعُمُومَاتُ الْبَيْعِ مِنْ نَحْوِ قَوْله تَعَالَى {وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} [البقرة: 275] ، وَقَوْلِهِ - عَزَّ شَأْنُهُ - {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ} [النساء: 29] فَظَاهِرُ النُّصُوصِ يَقْتَضِي جَوَازَ كُلِّ بَيْعٍ إلَّا مَا خُصَّ بِدَلِيلٍ، وَقَدْ خُصَّ الْبَيْعُ مُتَفَاضِلًا عَلَى الْمِعْيَارِ الشَّرْعِيِّ؛ فَبَقِيَ الْبَيْعُ مُتَسَاوِيًا عَلَى ظَاهِرِ الْعُمُومِ وَأَمَّا السُّنَّةُ الْمَشْهُورَةُ فَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - حَيْثُ «جَوَّزَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بَيْعَ الْحِنْطَةِ بِالْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ» عَامًّا مُطْلَقًا مِنْ غَيْرِ تَخْصِيصٍ، وَتَقْيِيدٍ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَأَمَّا الْحَدِيثُ فَمَدَارُهُ عَلَى زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ النَّقَلَةِ
فَلَا يُقْبَلُ فِي مُعَارَضَةِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ الْمَشْهُورَةِ؛ وَلِهَذَا لَمْ يَقْبَلْهُ أَبُو حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - فِي الْمُنَاظَرَةِ فِي مُعَارَضَةِ الْحَدِيثِ الْمَشْهُورِ مَعَ أَنَّهُ كَانَ مِنْ صَيَارِفَةِ الْحَدِيثِ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(صاحب بذل المجہود ، مولاناخلیل احمد سہارنپوریؒ نے بھی یہ عبارت نقل کی ہے )
امام صاحب کے واقعہ سے ، ائمہ احناف کے طرز سے اور خصوصاََ صاحب بدائع الصنائع کے آخری الفاظ سے یہ تعارض دور ہوجاتا ہے کہ احناف قرون ثلاثہ کے مجہول یا مستور کو قبول کرتے ہیں ۔اور زید ابو عیاش اس قرن کے ہیں ۔
لیکن ان میں (احناف کے نزدیک) کچھ جہالت یا ضعف ہونے کے ساتھ روایت میں کتاب اللہ کے عموم اور سنت مشہورہ کی مخالفت بھی ہے ۔
اور یہ اختلافی اور اجتہادی مسئلہ ہے ۔کسی مسلک پر طعن نہیں ۔ صاحبینؒ بھی اس مسئلہ میں امام صاحب سے اختلاف رکھتے ہیں ۔
اسی لئے اس حدیث کو بھی قبول کرکے تعارض دور کر کے کچھ معنی کتب میں بیان کئے جاتے ہیں ۔ابھی یہ مسئلہ زیر بحث نہیں ۔
واللہ اعلم۔