امام عیسی بن ابانؒ :حیات وخدمات- عبیداختررحمانی

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
جمشید بھائی کا ایک تحقیقی مضمون ۔

امام عیسی بن ابانؒ :حیات وخدمات
عبیداختررحمانی ،نگراں :شعبہ تحقیق،المعہد العالی الاسلامی،حیدرآباد

Jamsed.akhtar@gmail.com
نام ونسب: نام عیسی والد کانام ابان اورداداکانام صدقہ ہے،پورانسب نامہ یہ ہے۔عيسى بن ابان بن صدقۃ بن عدي بن مرادن شاہ۔کنیت ابوموسی ہے۔) الفہرست لابن الندیم۱؍۲۵۵، دار المعرفة بيروت،لبنان(کنیت کے سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقریباًسارے ترجمہ نگاروں نے جن میں قاضی وکیع،قاضی صیمری ،خطیب بغدادی، ابن جوزی ،حافظ ذہبی ،حافظ عبدالقادر قرشی،حافظ قاسم بن قطلوبغا وغیرہ شامل ہیں، سبھی نے آپ کی کنیت ابوموسیٰ ذکر کی ہے، محض حافظ ابن حجر نے آپ کی کنیت ابومحمد ذکر کی ہے(لسان المیزان ۶؍۲۵۶) اورکسی بھی تذکرہ نگار نے اس کی بھی صراحت نہیں کی ہےکہ آپ کی دوکنیت تھی ،ہرایک نے آپ کی محض ایک ہی کنیت ’ابوموسی‘کا ذکر کیاہے،بادی النظر میں ایسامحسوس ہوتاہے کہ شاید اس بارے میں حافظ ابن حجر سے کسی قسم کاذہول ہواہے۔
خاندان :عیسی بن ابان کے خاندان کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چلتاکہ ان کےبیٹے بیٹیاں کتنے تھے،اوردیگر رشتہ دار کون کون تھے،ایسا صرف عیسی بن ابان کے ساتھ نہیں بلکہ دیگر اکابرین کے ساتھ بھی ہوا ہے، عیسی بن ابان کے حالات کی تلاش وتحقیق کے بعد ان کے دورشتہ داروں کا پتہ چلتاہے۔
ابوحمزہ بغدادی:آپ کانام محمد،والد کانام ابراہیم اور کنیت ابوحمزہ ہے، آپ کا شمار کبارصوفیاء میں ہوتاہے، آپ نے اپنےعہد کے جلیل القدر محدثین سے علم حاصل کیاتھا ،علم قرآت بالخصوص ابوعمرو کی قرات میں آپ ممتاز مقام کے مالک تھے،دنیا جہان کا سفر کیاتھا ،آپ کا حلقہ ارادت ومحبت کافی وسیع تھا، ایک جانب جہاں آپ جنید بغدادی ،سری سقطی اوربشرحافی جیسے اکابر صوفیاء کے ہم نشیں تھے تو دوسری جانب امام احمد بن حنبل کے مجلس کے بھی حاضرباش تھے اوربعض مسائل میں امام احمد بن حنبل بھی آپ کی رائے دریافت کرتے تھے،تذکرہ نگاروں میں سے بعض نے آپ کو عیسی بن ابان کا’ مولی‘قراردیاہے ،جب کہ بعض نے آپ کو عیسی بن ابان کی اولاد میں شمار کیاہے،اس بارے میں شاید قول فیصل ابن الاعرابی کا قول ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے بارے میں عیسی بن ابان کی اولاد سے دریافت کیاتوانہوں نے اعتراف کیاکہ آپ کا سلسلہ نسب عیسی بن ابان سے ہی ملتاہے۔(سیر اعلام النبلاء،۱۳؍۱۶۵،تاریخ دمشق ۵۱؍۲۵۲،ترجمہ نمبر۶۰۶۲)آپ کا انتقال ۲۷۰ہجری مطابق ۸۸۳ء میں ہواہے(الاعلام للزرکلی۵؍۲۹۴)
نائل بن نجیح:نام اورکنیت ابوسہل ہے ،نائل بن نجیح کو متعدد تذکرہ نگاروں نے عیسی بن ابان کا ماموں قراردیاہے لیکن مجھ کو اس وجہ سے توقف تھاکہ عیسی بن ابان کے نام سے ایک اور راوی ہیں جورقاشی ہیں ،بظاہربصرہ کا ہونے کی وجہ سے زیادہ احتمال یہی تھا کہ نائل عیسی بن ابان حنفی کے ہی ماموں ہیں، لیکن کہیں اور اس کی وضاحت نہیں مل رہی تھی،تفتیش کے بعد یہ بات ملی کہ حافظ ابن کثیر نے وضاحت کی ہے کہ نائل بن نجیح ،ابوسہل بصری اورجن کو بغدادی بھی کہاجاتاہے، عیسی بن ابان القاضی کے ماموں ہیں، قاضی کی وضاحت سے اس کی تعیین ہوگئی کہ نائل بن نجیح عیسی صاحب تذکرہ عیسی بن ابان کے ہی ماموں ہیں(التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل۱؍۳۳۰)
اساتذہ ومشائخ:آپ نے ابتدائی زندگی میں کس سے تعلیم حاصل کی اورکن شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیا،اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔صرف اتناتذکرہ ملتاہے کہ ابتداء میں اصحاب حدیث میں تھے اورانہیں کے مسلک پر عمل پیراتھے، بعد میں امام محمد سے رابطہ میں آنے پر حنفی فکر وفقہ سے متاثرہوکر حنفی ہوگئے۔
ومنهم أبو موسى عيسى بن أبان بن صدقة: وكان من أصحاب الحديث ثم غلب عليه الرأي(طبقات الفقہاء لابی اسحاق الشیرازی صفحہ50، من مکتبہ مشکاۃ)
اوران میں سے (فقہاء حنفیہ)ایک عیسی بن ابان بن صدقہ بھی ہیں وہ اصحاب حدیث میں تھے پھر ان پرفقہ غالب آگئی۔
علم حدیث کی تحصیل انہوں نے اپنے عہد کے جلیل القدر محدثین سے کی، حافظ ذہبی اس بارے میں لکھتے ہیں:
وحدّث عن: هشيم، وإسماعيل بن جعفر، ويحيى بن أبي زائدة. (تاريخ الإسلام للذهبي 16/ 312)ہشیم، اسماعیل بن جعفر اوریحیی بن ابی زائدہ سے انہوں نے روایت کی ہے۔
امام عیسی بن ابان کس طرح محدثین کی صف سے نقل کراہل فقہ کی جماعت مین شامل ہوئے، اس تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں نقل کیاہے۔
محدثین کی صف سے نکل کر فقیہہ بننے کا دلچسپ واقعہ: خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں عیسی بن ابان کے ترجمہ میں محمد بن سماعہ سے نقل کیاہے:
’’ عیسی بن ابان ہمارے ساتھ اسی مسجد میں نماز پڑھاکرتے تھے جس میں امام محمد بن حسن الشیبانی نماز پڑھتے تھے اورفقہ کی تدریس کیلئے بیٹھاکرتے تھے۔میں (محمد بن سماعہ)عیسی بن ابان کو محمد بن حسن الشیبانی کی مجلس فقہ میں شرکت کیلئے بلاتارہتاتھا لیکن وہ کہتے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جواحادیث کی مخالفت کرتے ہیں۔اصل الفاظ ہیں۔ھولاء قوم یخالفون الحدیث"عیسیٰ بن ابان کو خاصی احادیث یاد تھیں،ایک دن ایساہوا کہ فجر کی نماز ہم نے ساتھ پڑھی،اس کے بعد میں نے عیسی بن ابان کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ امام محمد بن حسن کی مجلس فقہ نہ لگ گئی، پھر میں ان کے قریب ہوا اورکہایہ آپ کے بھانجے ہیں،یہ ذہین ہیں اوران کو حدیث کی معرفت بھی ہے،میں ان کو جب بھی آپ کی مجلس فقہ میں شرکت کی دعوت دیتاہوں تویہ کہتے ہیں کہ آپ حضرات حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔امام محمد ان کی جانب متوجہ ہوئے اورفرمایا :اے میرے بیٹے تم نے کس بناءپر یہ خیال کیاکہ ہم حدیث کی مخالف کرتے ہیں(یعنی ہمارے کونسے ایسے مسائل اورفتاوی ہیں جس میں حدیث کی مخالفت کی جاتی ہے)پھراسی کے ساتھ امام محمد نے نصیحت بھی فرمائیلاتشھد علینا حتی تسمع مناہمارے بارے میں کوئی رائےتب تک قائم مت کرو جب تک ہماراموقف نہ سن لو،عیسی بن ابان نےامام محمد سے حدیث کے پچیس ابواب کے متعلق سوال کیا(جن کے بارے میں ان کو شبہ تھا کہ ائمہ احناف کے مسائل اس کے خلاف ہیں)امام محمد نے ان تمام پچیس ابواب حدیث کے متعلق جواب دیا اوران احادیث میں سے جومنسوخ تھیں، اس کو بتایااوراس پر دلائل اورشواہد پیش کئے۔عیسی بن ابان نے باہر نکلنے کے بعد مجھ سے کہاکہ میرے اورروشنی کے درمیان ایک پردہ حائل تھاجو اٹھ گیا، میرانہیں خیال ہے کہ اللہ کی زمین میں اس جیسا(صاحب فضل وکمال)کوئی دوسرابھی ہے،اس کے بعد انہوں نے امام محمد کی شاگردی اختیار کی ۔(تاریخ بغداد۔جلد12،صفحہ480،تحقیق دکتوربشارعواد معروف۔مطبع دارالغرب الاسلامی)
نوٹ:اس سند کے ایک راوی احمد بن مغلس الحمانی ہیں جن کی محدثین نے تضعیف اورتکذیب کی ہے لیکن تاریخی شخصیات اورروایات کے بارے میں وہی شدت پسندی برقراررکھنا جو کہ حدیث کے بارے میں ہے ،ایک غلط خیال اورنظریہ ہے۔یہ بات تقریباًان کے بیشترترجمہ نگاران نے بیان کی ہے کہ وہ اصحاب حدیث میں سے تھے ،بعد میں انہوں نے فقہ کی جانب رخ کیا،خطیب بغدادی کا بیان کردہ واقعہ ہمیں صرف یہ بتاتاہے کہ محدثین کی جماعت میں سے نکل کر فقہاء کی جماعت میں وہ کیسے داخل ہوگئے،اس کاپس منظرکیاتھا اوربس،ظاہر ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اس واقعہ کو قبول نہ کیاجائے،آخر کوئی تو وجہہ ہوگی جس کی وجہ سے امام عیسی بن ابان محدثین کی صف سے نکل کر فقہاء کی صف میں اوربطور خاص فقہاء احناف کی صف میں شامل ہوئے ،جن کے خلاف ایک عام پروپگنڈہ کیاگیاتھاکہ وہ رائے کو حدیث پرترجیح دیتے ہیں اورحدیث کی مخالفت کرتے ہیں، اسی پس منظر اوروجہ کو احمد بن مغلس الحمانی نے بیان کیاہے۔ اوراس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے اس واقعے کو قبول نہ کیاجائے۔
امام محمد سے تحصیل فقہ:اوپر تاریخ بغداد کے حوالہ سے پیش کردہ واقعہ،اس کے علاوہ حافظ ذہبی نے بھی سیر اعلام النبلاء میں اس کی وضاحت کی ہے کہ امام عیسی بن ابان نے امام محمد سے تحصیل فقہ کیاتھا۔چنانچہ وہ سیر اعلام النبلاء جلد10،صفحہ 440میں لکھتےہیں۔فقیہ العراق، تلمیذ محمد بنالحسن،کہ وہ عراق کے فقیہ اورامام محمد کے شاگرد تھے۔حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں وتفقہ علیہ یعنی عیسی بن ابان کے فقہ میں خصوصی استاد محمد بن الحسنؒ ہیں۔(لسان المیزان ۶؍۲۵۶)
عیسی بن ابان نے کتنی مدت تک امام محمد سے تحصیل علم کیا، ابن ندیم نے الفہرست میں ذکر کیاہے کہ انہوں نے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے بہت کم مدت تک تحصیل علم کیا۔ويقال انه كان قليل الأخذ عن محمد بن الحسن(الفہرست لابن الندیم۱؍۲۵۴)،یہی بات وکیع نے بھی اخبارالقضاۃ میں لکھی ہے کہ ان کا امام محمد سے تحریری طورپر استفادہ کا تعلق کم رہا۔ كان عيسى ابن أبان قليل الكتاب عَن مُحَمَّد بْن الْحَسَن(اخبارالقضاۃ۲؍۱۷۱) الجواہرالمضیئۃ فی طبقات الحنیفہ میں اس مدت کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ وہ مدت چھ مہینے کی تھی چنانچہ صاحب طبقات الحنفیہ ابن ابی الوفاء ذکرکرتے ہیں۔
تفقه على محمد بن الحسن قيل أنه لزمه ستة أشهر.(الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ ص 272،مکتبہ مشکاۃ)لیکن مشکل یہ ہے کہ دونوں جگہ یعنی ابن ندیم کی الفہرست اورالجواہرالمضیئۃ میں اس قول کو "قیل"سے نقل کیاگیاہے جوکہ کمزور اقوال کے نقل کیلئے خاص ہے،جب کہ دوسری جانب ان کے ترجمہ نگاروں نے ان کے فقہ کے اساتذہ میں امام محمد کاخاص طورسے نام لیاہے اس سے اس قیاس کی تائید ہوتی ہے کہ امام عیسی بن ابان کی امام محمد کی شاگردی کی مدت خاصی طویل ہوگی۔چھ مہینے کی مختصر مدت نہیں ہوگی،مشہور حنفی فقیہ قاضی صیمری امام طحاوی کے واسطہ سے ابوخازم سے نقل کرتے ہیں:
أخبرنَا عبد الله بن مُحَمَّد الْأَسدي قَالَ أنبأ أَبُو بكر الدَّامغَانِي الْفَقِيه قَالَ ثَنَا أَحْمد ابْن مُحَمَّد بن سَلمَة بن سَلامَة قَالَ سَمِعت أَبَا خازم يَقُول إِنَّمَا لزم عِيسَى بن أبان مُحَمَّد بن الْحسن سِتَّة أشهر ثمَّ كَانَ يكاتبه إِلَى الرقة أخبار أبي حنيفة وأصحابه۱۴۷؍۱،أبو عبد الله الصَّيْمَري الحنفي (المتوفى: 436هـ)عالم الكتب – بيروت)
ابوخازم کہتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے امام محمد سے چھ مہینےبراہ راست استفادہ کیا، بعد میں جب امام محمدکو ہارون رشید اپنے ساتھ رقہ لے گیا تو عیسی بن ابان نے امام محمد سے خط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کیا۔
صیمری کی نقل کردہ روایت تسلیم کرنے سے یہ تومعلوم ہوتاہے کہ عیسی بن ابان امام محمد کے ’’رقہ ‘‘چلے جانے کے بعد بھی خط وکتابت کے ذریعہ مستفید ہوتے رہے ،ابن ابی العوام کی تصنیف ’فضائل ابی حنیفہ‘ سے معلوم ہوتاہے کہ امام محدم سے براہ راست استفادہ کی مدت ۱۱مہینے تھی، چنانچہ وہ ابوخازم سے ہی روایت نقل کرتے ہیں کہ امام محمد سے عیسی بن ابان کے استفادہ یاشاگردی کی کل مدت گیارہ مہینے ہے۔
أبا خازم القاضي يقول: قال لي عبد الرحمن بن نابل: ما جالس عيسى بن أبان محمد بن الحسن إلا أحد عشر شهراً، وتوفي عيسى بن أبان سنة عشرين ومائتين.( فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ۱؍۳۶۰، الناشر: المكتبة الإمدادية - مكة المكرمة)
ابوخازم قاضی کہتے ہیں کہ مجھ سےعبدالرحمن بن نابل نے کہا:عیسی بن ابان کے امام محمد سے استفادہ کی کل مدت گیارہ مہینے ہےاور عیسی بن ابان کاانتقال ۲۲۰ھجری میں ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ ماقبل میں جوکچھ عرض کیاگیا،یہ تمام ہی باتیں تحقیق کے معیارپر پوری نہیں اترتی ہیں، امام محمد کا رقہ جاناان کے انتقال سے کئی برس قبل کا واقعہ ہے، آپ رقہ میں کتنی مدت رہے،اس کے بارے میں بروکلمان نے لکھاہے کہ کئی سال رہے،پھر رقہ کے قضاء سے آپ کو معزول کردیاگیاہے،اس درمیان آپ بغداد میں رہے،پھر قاضی القضاۃ بنائے گئے اورپھر ہارون رشید کے ساتھ’ رے ‘گئے تھے کہ وہیں انتقال ہوگیا۔(تفصیل کیلئے دیکھئے :امام محمد بن الحسن شیبانی اوران کی فقہی خدمات ص:۱۱۳ تا۱۲۵)اس سے واضح رہے کہ عیسی بن ابان نے آپ سے کئی سال تک استفادہ کیاہے ،کیوں کہ رقہ کا واقعہ امام محمد کی وفات سے کئی سال قبل کا ہے اور یہ بالکل غیرفطری ہے کہ رقہ میں جب تک امام محمد رہیں تو عیسی بن ابان ان سےخط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کریں لیکن جب امام محمد معزول ہوکر بغداد میں تشریف فرماہوں تو عیسی بن ابان استفادہ نہ کریں اورجب ری چلے جائیں تو وہاں جاکر استفادہ نہ کریں، ماقبل میں جتنے اقوال امام محمد سے استفادہ کے سلسلے میں گزرے ہیں، ان کےبارے میں ہماراخیال یہ ہےکہ یہ ابتداء کی مدت بتائی جارہی ہے کہ عیسی بن ابان کو ابتداء میں کس قدر استفادہ کا براہ راست موقع ملا۔
امام محمد علیہ الرحمہ سے طویل استفادہ کا ہی فیض تھاکہ عیسی بن ابان کی امام محمد کے اقوال وعلوم پر گہری نگاہ تھی ،جوبات دوسروں کو بھی معلوم نہیں ہوتی تھی وہ عیسی بن ابان کے علم میں ہوتی تھی،چنانچہ ایک واقعہ میں انہوں نے وراثت کے مسئلہ میں نواسوں اورپوتوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا توبعض فقہاء احناف نے ان پر ائمہ احناف کے قول سے باہر نکلنے کر فیصلہ کرنے کی بات کہی، عیسی بن ابان نے کہا:میں نے جو فیصلہ کیاہے وہ امام محمد کا بھی قول ہے، اس کو بکار بن قتیبہ،ہلال بن یحیی اورامام محمد کےد وسرے شاگرد جان نہ سکے لیکن ابوخازم نے اعتراف کیاکہ یہ امام محمد بن حسن کا ہی قول ہے اور عیسی بن ابان سچ کہتے ہیں ۔(اخبار ابی حنیفۃ۱؍۱۵۲)
امام محمد نے امام ابویوسف سے کوئی استفادہ کیایانہیں کیا،اس بارے میں عیسی بن ابن کے تمام سوانح نگار خاموش ہیں، قاضی وکیع لکھتے ہیں:
ولم يخبرني إنسان أنه رآه عند أبي يوسف (أخبار القضاة۲؍۱۷۱)’’مجھے کسی بھی شخص نے یہ نہیں بتایاکہ اس نے عیسی بن ابان کو ابویوسف کے پاس دیکھاہے‘‘
اس سے انداز ہوتاہےکہ عیسی بن ابان نے امام ابویوسف سے استفادہ نہیں کیاہے،امام ابویوسف سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ آپ نے امام محمد کا دامن ان کے انتقال سے محض گیارہ مہینے قبل تھاما اور امام محمد کے انتقال سے کئی برس قبل امام ابویوسف کا انتقال ہوچکاتھایعنی جس وقت وہ امام محمد سے وابستہ ہوئے،اس سے پہلے امام ابویوسف کاانتقال ہوچکاتھا اورجب امام ابویوسف باحیات تھے ان سے اس مسلکی اورگروہی اختلاف کی بناءپر استفادہ نہیں کیاہوگا۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
تلامذہ:
مختلف ذمہ داریوں بالخصوص کارقضاکےنازک فریضہ کی ادائیگی کے ساتھ عیسی بن ابان نے درس وتدریس کا فریضہ بھی انجام دیا، عیسی بن ابان کی بہتر تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھاکہ آپ کے شاگرد آگے چل کر آسمان علم وفضل کے آفتاب وماہتاب ہوئے، عیسی بن ابان کے چند ممتاز شاگردوں کا یہاں ذکر کیاجاتاہے۔
ہلال بن یحیی الرائے(000 - 245 هـ = 000 - 859 م)
آپ کاشمار فقہ حنفی کے ممتاز ترین فقہاء میں ہوتاہے،بصرہ کےقاضی رہے،آپ عیسی بن ابان کے شاگرد ہیں، اورآپ نے ہی اولاًعلم شروط وسجلات میں تصنیف کی۔
ابوخازم 000 - 292 هـ = 000 - 905 م)
آپ کا نام عبدالحمید اوروالد کانام عبدالعزیز ہے، ابوخازم کنیت ہے، آپ بصرہ کے رہنے والے تھے،شام کوفہ کرخ بغداد وغیرہ میں آپ نے قضاکی ذمہ داریاں انجام دی ،علم وعمل اور زہد ورورع میں آپ کا مقام بہت بلند ہے، امام طحاوی آپ کے شاگرد ہیں۔
بکاربن قتیبہ(182 - 270 هـ = 798 - 884 م)
آپ کے علمی کمال بالخصوص فقہ وحدیث کی جامعیت پرمحدثین کااتفاق ہے، سنہ ۲۴۶ہجری میں آپ مصر کے قاضی بنے ،لیکن ابن طولون کے ایک حکم کی تعمیل اپنی اصول پرستی کی بناپر نہ کرسکنے کی وجہ سے قید کردیئے گئے، قید میں بھی حدیث وفقہ کا درس جاری رہا، لوگ مسائل پوچھنے کیلئے آیاکرتے تھے، امام طحاوی آپ کے خاص شاگرد ہیں، دوران قید ہی آپ کا انتقال ہوا، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ(الاعلام للزرکلی۲؍۶۱)
حسن بن سلام السواق:
آپ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں، آپ نے اپنے دور کے جلیل القدر محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیا، آپ حدیث کےمعتبر راوی ہیں،حافظ ذہبی نے آپ کو الامام ،الثقۃ ،المحدث کے گراں قدر الفاظ سے یاد کیاہے،سنہ ۲۷۷ھ میں آپ کا انتقال ہوا(سیراعلام النبلاء)

صورت وسیرت:
امام عیسی بن ابان کو اللہ تعالیٰ نے حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت سے بھی نوازاتھا،آپ بڑے حسین وجمیل تھے،ابن سماعہ جوان کے رفیق بھی تھے وہ کہتے ہیں کان عیسی حسن الوجہ(الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ)عیسی بن ابان خوبصورت شخص تھے،آپ صرف حسین ہی نہیں تھے بلکہ عفیف بھی تھے ، دوسرے لفظوں میں کہیں تو حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت سے بھی پورے طورپر متصف تھے،ابن ندیم الفہرست میں لکھتے ہیں ’’ وہ پاک دامن شخص تھے‘‘ وكان عيسى شيخا عفيفا(الفہرست لابن الندیم(
ذہانت وفطانت:، ابوحازم جواپنے دور کے انتہائی نامورقاضی وفقیہ تھے، ان کا قول ہے،میں نے اہل بصرہ کے نوجوانوں میں عیسی بن ابان اوربشربن الولید سے زیادہ ذہین کسی کو نہیں دیکھا،اس سے پتہ چلتاہے کہ وہ ابتداء سے ہی بہت ذہین وفطین تھے،حافظ ذہبی نے بھی ان کے ترجمہ میں ایک جگہ ان کو وکان معدود من الاذکیاءکے الفاظ سے یاد کیاہے یعنی وہ منتخب ترین ذہین لوگوں میں سے ایک تھے۔(تاریخ الاسلام للذہبی۔جلد16،صفحہ312)حافظ ذہبی نے ہی دوسری جگہ ان کوذکاء مفرط(وفور ذہانت)سے متصف کیاہے۔چنانچہ وہ سیر اعلام النبلاء میں انکی اس خصوصیت کاذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَلَهُ تَصَانِيْفُ وَذَكَاءٌ مُفْرِطٌ،(سیراعلام النبلاء10/440)

فقہ وحدیث میں مقام ومرتبہ :
عیسی بن ابان کا دور علم حدیث وفقہ کا زریں دور ہے، آپ نے اپنے عہد کے مشہور اورجلیل القدر محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیاتھا اورخاصی بڑی عمر تک آپ کا تعلق محدثین کے گروہ کےساتھ تھا،اورامام محمد سے رابطہ سے قبل آپ کی دلچسپی کا محور فقط علم حدیث ہی تھا، آپ کو اللہ نے جس ذہانت وفطانت سے نوازاتھا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آپ کا علم حدیث میں بھی ممتاز مقام تھا،یہی وجہ ہے کہ ا بن سماعہ جیسے مشہورمحدث اورفقیہ کا آپ کا متعلق تاثریہ وکان عیسیٰ حسن الحفظ للحدیث (اخبارابی حنیفۃ واصحابہ ۱؍۱۳۲)عیسی بن ابان حدیث کو اچھی طرح یاد رکھنے والے تھے،ابن سماعہ نے جب عیسی بن ابان کاامام محمد سے تعارف کرایاتو یہ کہا:
’’ هَذَا ابْن أَخِيك أبان بن صَدَقَة الْكَاتِب وَمَعَهُ ذكاء وَمَعْرِفَة بِالْحَدِيثِ‘‘(اخبارابی حنیفۃ واصحابہ ۱؍۱۳۲)
یہ آپ کے بھتیجے ابان بن صدقہ ہیں ،یہ ذہین ہیں اور علم حدیث سےگہری واقفیت رکھتے ہیں،پھر اسی واقعہ میںیہ بھی اعتراف ہے کہ امام محمد سے انہوں نے حدیث کے پچیس ابواب کے متعلق اپنے اشکالات دوہرائے،جس سےپتہ چلتاہےکہ ان کو علم حدیث میں کتنا ممتاز مقام حاصل تھا، اگریہ سب اعتراف نہ بھی ہوتا ،تب بھی ان کی کتاب الحجج الصغیر کا جوخلاصہ امام جصاص رازی نے ’’الفصول فی الاصول ‘‘میں پیش کیاہے،اس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ کا علم حدیث میں مقام کتنا بلند اور حدیث وآثار سےاصول وفروع کے استنباط میں آپ کو کتنی مہارت اور کتنا رسوخ تھا، احادیث وآثار سے آپ نےاحناف کے اصول فقہ پر جودادتحقیق دی ہے،اس کو دیکھ کر بے ساختہ یہ کہنا پڑتاہے کہ امام شافعی کے بعد اصول فقہ پر اس طرح سے مجتہدانہ کلام کی نظیر نہیں ملتی ۔
امام محمد کی شاگردی میں آکر ان کی خفتہ صلاحیتوں کو جلاملی اورجلد ہی انہوں نے فقہ میں درک اورمہارت حاصل کرلیاوررفتہ رفتہ فقہ کے فن شریف میں اتنی مہارت پہنچائی کہ اس دور کے اوربعد کے اجلہ علماء فقہ میں آپ کی معرفت تامہ اوررسوخ کامل کے معترف ہوگئے۔ بلکہ بعض اجلہ علماء نے توان کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیاکہ بصرہ میں ابتداء اسلام سے لے کرعیسی بن ابان کے قاضی ہونے تک ان سے زیادہ بڑافقیہہ بصرہ میں کوئی قاضی نہیں ہوا۔
جلیل القدر علماء کے اعترافات:
"قال الطحاوي سمعت بكار بن قتيبة يقول سمعت هلال بن يحيي يقول ما في الإسلام قاض أفقه منه يعني عيسى بن أبان في وقته". أخبار أبي حنيفة وأصحابه۱؍۱۵۰)امام طحاوی فرماتے ہیں کہ میں نے بکار بن قتیبہ کو کہتے سناوہ ہلال بن یحیی کا قول نقل کررہے تھے کہ ۔(اس دور میں)مسلمانوں میں عیسی بن ابان سے فقاہت میں بڑھاہوا قاضی کوئی اورنہیں ہے۔
جب کہ قاضی بکار بن قتیبہ خود کہتے ہیں:
" قال الطحاوي وسمعت بكار بن قتيبة يقول كنا لنا قاضيان لا مثل لهما إسماعيل بن حماد وعيسى بن أبان"۔ امام طحاوی کہتے ہیں کہ میں بکار بن قتیبہ سے سناہے کہ ہمارے (فقہاء حنفیہ)دوقاضی ایسے ہیں جن کی کوئی مثال نہیں، ایک اسماعیل بن حماد اوردوسرے عیسی بن ابان۔(الجواہر المضئیۃ۱؍۴۰۱)
خود حافظ حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ان کے فضل وکمال کااعتراف ’’فقیہ العراق‘‘ کے الفاظ سے کیاہے۔(سیر اعلام النبلاء ۱۰؍۴۴۰)اورتاریخ اسلام میں نام کے ساتھ ’’الفقیہ ‘‘کا لاحقہ لگایاہے(تاریخ الاسلام ۵؍۶۵۱)مشہور شافعی عالم ابواسحاق الشیرازی نے طبقات الفقہاء میں ان کو احناف کاممتاز فقیہ تسلیم کیاہے۔حافظ عبدالقادر القرشی نے ’’الامام الکبیر‘‘کے گراں قدر لقب سے متصف کیاہے(الجواہرالمضئیۃ۱؍۴۰۱)تو حافظ قاسم بن قطلوبغا نے ’’ أحد الأئمة الأعلام‘‘کاگراں قدر لقب تحریر کیاہے۔(تاج التراجم ۱؍۲۲۷)اوراسی کےساتھ ان کے ’’وسعت علم‘‘ کا بھی اعتراف کیاہے(مصدرسابق)مشہور حنفی مورخ ابوالمحاسن یوسف بن تغری بردی لکھتے ہیں: وكان مع كرمه من أعيان الفقهاء (النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة۲؍۲۳۶)سخاوت کے ساتھ ساتھ آپ ممتاز فقہاء میں سےایک تھے،مشہور حنفی امام وعلامہ زاہد الکوثری آپ کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حاصل کلام یہ کہ عیسی بن ابان علم فقہ کے پہاڑ تھے جس کی بلندی اور عظمت کے سامنے سب سرجھکانے لگے۔)سیرت امام محمدبن الحسن الشیبانی ص۲۰۷(
قضاء:
قضاء کی ذمہ داری بہت بھاری اورگرانقدر ذمہ داری ہے اس میں مسائل واحکام کی واقفیت کے ساتھ ساتھ مردم شناسی اورلوگوں کے مزاج سے واقفیت،بیداری مغزی اورکسی کی ظاہری صورت سے متاثرنہ ہونے کی شرطیں شامل ہیں۔عیسی بن ابان ان اوصاف سے متصف تھے لہذاان کی انہی خوبیوں کودیکھتے ہوئے عباسی خلافت میں مامون الرشید کے دور میں قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم نے ان کو مامون کے ساتھ ’’فم الصلح‘‘جاتے وقت عسکرمہدی میں اپنانائب بنایااورپھرواپسی پران کو مستقل طورپر بصرہ کاقاضی بنادیا۔ خطیب بغدادی نےبیان کیاہے کہ ان کو211ہجری میں اسماعیل بن حماد کی معزولی کے بعد بصرہ کاقاضی بنایاگیاتھااورانتقال تک وہ بصرہ کے قاضی رہے۔اس زمانہ میں بصرہ علمی لحاظ سے عالم اسلام کے گنے چنے شہروں میں شمار ہوتاتھا،ایسے میں ان کوبصرہ کاقاضی بنانایہ بتاتاہے کہ قاضی یحیی بن اکثم ان کے علم وفضل سے کتنے متاثر تھے۔
قضاکے باب میں ان کی خاص صفت یہ تھی کہ وہ اپنے حکموں کا اجراء اورفیصلوں کانفاذ بہت جلد کرایاکرتے تھے۔چنانچہ ابن ندیم ان کی اس خصوصیت کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔"كان فقيها سريع الانفاذ للحكم"وہ فقیہ تھے اورحکم کو جلد نافذ کرتے تھے۔(الفہرست لابن الندیم)،یہی بات قاضی وکیع نے بھی لکھاہے ’’ وكان عيسى سهلاً فقيهاً سريع الانقاذ للأحكام،(اخبارالقضاۃ۲؍۱۷۰)عیسی نرم رو،فقیہ تھے اوراپنے احکام جلد جاری کرایاکرتے تھے۔قاضی وکیع نے لکھاہے کہ بسااوقات وہ فیصلوں کے اجراء میں اس تیزی سے کام لیتے تھے جس سے بعض حضرات کوشبہ ہوتاتھاکہ احکام کا اتنا اتیز اجراونفاذ قاضیوں کیلئے مناسب ہے یانہیں ہے،قضاکے باب میں آپ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ جب تک آپ کو اپنے زیر بحث معاملہ کے فیصلہ پرپورا اطمینان نہ ہوجاتا،فیصلہ صادر نہ کرتے، چاہے اس میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائےاوراگرکوئی اصرار کرتا توصاف فرمادیتے کہ قاضی کو تمہارے مسئلہ کے بارے میں علم نہیں ہے،اگرتم چاہو تو انتظار کرو یاپھر چاہو تو کسی دوسرے کے پاس جاؤ(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ۱؍۱۵۰(
جودوسخا:
x
آپ نے مالدار گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں،یہی وجہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی مالداروں کی سی گزری اوراس مالداری کے ساتھ اللہ نے آپ کی فطرت میں سخاوت کا مادہ بدرجہ اتم رکھاتھا،بسااوقات ایسابھی ہے کہ قرضدار قرض ادانہ کرسکا اورقرضخواہ قرضدار کو جیل میں بند کرانے کیلئے لایا اورآنے قرضخواہ کو اس کی رقم اپنی جیب سے اداکردی۔
خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں یہ واقعہ نقل کیاہے کہ ایک شخص نے ان کی عدالت میں محمد بن عبادالمھلبی پر چارسو دینار کادعوی کیا، عیسی بن ابان نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے مقروض ہونے کااعتراف کیا، اس شخص نے قاضی عیسی ابن ابان سے کہاکہ آپ اس کو میرے حق کی وجہ سے قید کردیجئے۔ عیسی بن ابان نے کہاکہ تمہاراحق اس پر واجب ہے؛ لیکن ان کو قید کرنا مناسب نہیں ہے ، اورجہاں تک بات تمہارے چار سو دینارکی ہے تو وہ میں تمہیں اپنے جانب سے ان کے بدلے میں دے دیتاہوں۔(تاریخ بغداد11/480
خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں قاضی ابوحازم سے نقل کیاہے کہ عیسی بن ابان بہت سخی شخص تھے اوران کا قول تھا کہ اگرمیرے پاس کسی ایسےشخص کو لایاگیاجواپنے مال میں اسی قدرسخاوت سے کام لیتاہے جس قدر سخاوت سے میں لیتاہوں تومیں اس کوسزادوں گایااس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دوں گا۔(تاریخ بغداد/جلد12)حافظ ذہبی بھی سیراعلام النبلاء میں ان کی اس خصوصیت کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ وَفِيْهِ سَخَاءٌ وَجُودٌ زَائِد(تاریخ الاسلام 16/320(
حساب اورفلکیات میں مہارت:فقہاء احناف کاامام محمد کے دور سے ایک خاص وصف یہ رہاہے جس میں وہ دیگر مسالک کےفقہاء سے ممتاز رہے ہیں کہ ان کو علم حساب سےبڑی اچھی اورگہری واقفیت رہی ہے۔امام محمد کو حساب کےفن میں گہرا رسوخ تھا اورانہوں نے حساب دانی کے اس فن کو اصول سے فروع کی تفریع میں بطور خاص استعمال کیا،دکتور دسوقی اس ضمن میں لکھتے ہیں:
امام محمد جس طرح عربی زبان میں امام تھے،اسی طرح حساب میں بھی آگے تھے، اصول سے فروع اخذکرنے میں ماہر تھے، قاری کیلئے آپ کی کتاب الاصل یاالجامع الکبیر کا مطالعہ کرلینا یہ جاننے کیلئے کافی ہوگا کہ امام محمد کو مسائل پیش کرنے اوران کے احکام بیان کرنے میں گہری مہارت حاصل تھی،آپ کوحسابی حصوں اوران کی مقداروں پرعلمی قدرت تھی۔(امام محمدبن الحسن الشیبانی اوران کی فقہی خدمات ،ص۱۸۶(
امام محمد کی فقہی تفریعات کی انہی باریکیوں اور دقائق سے امام احمد بن حنبل نے بھی فائدہ اٹھایا،چنانچہ جب ان سے ابراہیم حربی نے سوال کیاکہ یہ باریک اوردقیق مسائل آپ نے کہاں سے حاصل کیے، توانہوں نے امام محمد کی خدمات کا پورا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: امام محمد کی کتابوں سے(مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه،ص۸۶(
امام محمدسے حساب كا یہ فن ان کے شاگردوں نے بھی سیکھا اوراس میں کمال پیداکیا، چنانچہ عیسی بن ابان کے تذکرہ میں متعدد ان کے معاصرین اورشاگردوں نے اعتراف کیاکہ آپ کو حساب کے فن میں کامل دستگاہ تھی اورنہ صرف حساب کے فن میں بلکہ آپ کو فلکیات میں بھی مہارت حاصل تھی، چنانچہ اسی اعتبار سے آپ اپنے کام کو ترتیب دیاکرتے تھے،آپ کے شاگرد ہلال بن یحیی الرائے کہتےہیں:
هلال الرأي يقول: لقد كتب عيسى بْن أبان سجلات لآل جعفر بْن سليمان، مواريث مناسخة، وحسب حسابها وكتب ذلك في الكتب بأمر يصير به المفتي فصلاً عَن القضاة قَالَ: هلال: هَلْ والله لو سكت عَن ذلك التفصيل لضقت ذرعاً به.( أخبار القضاة،۲؍۱۷۲(
ہلال الرائے کہتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے جعفر بن سلیمان کیلئے دستاویزات لکھیں، جس میں وراثت کے احکام اور وراثت کی تقسیم کا پورا حساب تھا اوراس کے ساتھ ایسے قواعد وضوابط بھی بیان کئے تھے جس کی ضرورت مفتی اور قاضی دونوں کو پڑتی ہے ،ہلال کہتے ہیں :خدا کی قسم اگر وہ اتنی تفصیل سے یہ سب نہ لکھتے تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی،عباس بن میمون آپ کی فلکیات دانی کے بارے میں لکھتے ہیں:
عباس بْن ميمون سمعت أهل المسجد والأجرياء يقولون: أحدث عيسى في القضاء شيئاً لم يحدثه أحد لعلمه بحساب الدور.( أخبار القضاة،۲؍۱۷۲)
عباس بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے مسجد والوں اورپڑوسیوں کو کہتے سناکہ عیسی بن ابان نے قضا میں ایک نئی چیز ایجاد کی ہے اور وہ فلکیات کے علم سے کام لینا،اس کے بعد انہوں نےتفصیل بتائی ہے کہ وہ فلکیات کے علم سے واقفیت کا کس طرح مفید استعمال کرتے تھے۔س میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائےاوراگرکوئی اصرار کرتا توصاف فرمادیتے :
قاضی کو تمہارے مسئلہ کے بارے میں علم نہیں ہے،اگرتم چاہو تو انتظار کرو یاپھر چاہو تو کسی دوسرے کے پاس جاؤ(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ۱؍۱۵۰)
جودوسخا:آپ نے مالدار گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں،یہی وجہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی مالداروں کی سی گزری اوراس مالداری کے ساتھ اللہ نے آپ کی فطرت میں سخاوت کا مادہ بدرجہ اتم رکھاتھا،بسااوقات ایسابھی ہےکہ قرضدار قرض ادانہ کرسکا اورقرضخواہ قرضدار کو جیل میں بند کرانے کیلئے لایا اورآنے قرضخواہ کو اس کی رقم اپنی جیب سے اداکردی۔
خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں یہ واقعہ نقل کیاہے کہ ایک شخص نے ان کی عدالت میں محمد بن عبادالمھلبی پر چارسو دینار کادعوی کیا، عیسی بن ابان نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے مقروض ہونے کااعتراف کیا، اس شخص نے قاضی عیسی ابن ابان سے کہاکہ آپ اس کو میرے حق کی وجہ سے قید کردیجئے۔ عیسی بن ابان نے کہاکہ تمہاراحق اس پر واجب ہے؛ لیکن ان کو قید کرنا مناسب نہیں ہے ، اورجہاں تک بات تمہارے چار سو دینارکی ہے تو وہ میں تمہیں اپنے جانب سے ان کے بدلے میں دے دیتاہوں۔(تاریخ بغداد11/480)

خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں قاضی ابوحازم سے نقل کیاہے کہ عیسی بن ابان بہت سخی شخص تھے اوران کا قول تھا کہ اگرمیرے پاس کسی ایسےشخص کو لایاگیاجواپنے مال میں اسی قدرسخاوت سے کام لیتاہے جس قدر سخاوت سے میں لیتاہوں تومیں اس کوسزادوں گایااس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دوں گا۔(تاریخ بغداد/جلد12)حافظ ذہبی بھی سیراعلام النبلاء میں ان کی اس خصوصیت کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ وَفِيْهِ سَخَاءٌ وَجُودٌ زَائِد(تاریخ الاسلام 16/320)
حساب اورفلکیات میں مہارت:فقہاء احناف کاامام محمد کے دور سے ایک خاص وصف یہ رہاہے جس میں وہ دیگر مسالک کےفقہاء سے ممتاز رہے ہیں کہ ان کو علم حساب سےبڑی اچھی اورگہری واقفیت رہی ہے۔امام محمد کو حساب کےفن میں گہرا رسوخ تھا اورانہوں نے حساب دانی کے اس فن کو اصول سے فروع کی تفریع میں بطور خاص استعمال کیا،دکتور دسوقی اس ضمن میں لکھتے ہیں:
امام محمد جس طرح عربی زبان میں امام تھے،اسی طرح حساب میں بھی آگے تھے، اصول سے فروع اخذکرنے میں ماہر تھے، قاری کیلئے آپ کی کتاب الاصل یاالجامع الکبیر کا مطالعہ کرلینا یہ جاننے کیلئے کافی ہوگا کہ امام محمد کو مسائل پیش کرنے اوران کے احکام بیان کرنے میں گہری مہارت حاصل تھی،آپ کوحسابی حصوں اوران کی مقداروں پرعلمی قدرت تھی۔(امام محمدبن الحسن الشیبانی اوران کی فقہی خدمات ،ص۱۸۶)
امام محمد کی فقہی تفریعات کی انہی باریکیوں اور دقائق سے امام احمد بن حنبل نے بھی فائدہ اٹھایا،چنانچہ جب ان سے ابراہیم حربی نے سوال کیاکہ یہ باریک اوردقیق مسائل آپ نے کہاں سے حاصل کیے، توانہوں نے امام محمد کی خدمات کا پورا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: امام محمد کی کتابوں سے(مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه،ص۸۶)
امام محمدسے حساب كا یہ فن ان کے شاگردوں نے بھی سیکھا اوراس میں کمال پیداکیا، چنانچہ عیسی بن ابان کے تذکرہ میں متعدد ان کے معاصرین اورشاگردوں نے اعتراف کیاکہ آپ کو حساب کے فن میں کامل دستگاہ تھی اورنہ صرف حساب کے فن میں بلکہ آپ کو فلکیات میں بھی مہارت حاصل تھی، چنانچہ اسی اعتبار سے آپ اپنے کام کو ترتیب دیاکرتے تھے،آپ کے شاگرد ہلال بن یحیی الرائے کہتےہیں:
هلال الرأي يقول: لقد كتب عيسى بْن أبان سجلات لآل جعفر بْن سليمان، مواريث مناسخة، وحسب حسابها وكتب ذلك في الكتب بأمر يصير به المفتي فصلاً عَن القضاة قَالَ: هلال: هَلْ والله لو سكت عَن ذلك التفصيل لضقت ذرعاً به.( أخبار القضاة،۲؍۱۷۲)
ہلال الرائے کہتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے جعفر بن سلیمان کیلئے دستاویزات لکھیں، جس میں وراثت کے احکام اور وراثت کی تقسیم کا پورا حساب تھا اوراس کے ساتھ ایسے قواعد وضوابط بھی بیان کئے تھے جس کی ضرورت مفتی اور قاضی دونوں کو پڑتی ہے ،ہلال کہتے ہیں :خدا کی قسم اگر وہ اتنی تفصیل سے یہ سب نہ لکھتے تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی۔
عباس بن میمون آپ کی فلکیات دانی کے بارے میں لکھتے ہیں:
عباس بْن ميمون سمعت أهل المسجد والأجرياء يقولون: أحدث عيسى في القضاء شيئاً لم يحدثه أحد لعلمه بحساب الدور.( أخبار القضاة،۲؍۱۷۲)

عباس بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے مسجد والوں اورپڑوسیوں کو کہتے سناکہ عیسی بن ابان نے قضا میں ایک نئی چیز ایجاد کی ہے اور وہ فلکیات کے علم سے کام لینا،اس کے بعد انہوں نےتفصیل بتائی ہے کہ وہ فلکیات کے علم سے واقفیت کا کس طرح مفید استعمال کرتے تھے۔​
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
تصنیفات وتالیفات:
قضاء کی ذمہ داریوں اوردرس وتدریس کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ انہوں نے تصنیف وتالیف کی خدمات بھی انجام دی ہیں،اوربطورخاص اصول فقہ میں گرانقدر اضافہ کیاہے،ان کے تقریباًتمام ہی ترجمہ نگاروں نے ان کے نام کے ساتھ ’’صاحب التصانیف‘‘کااضافہ کیاہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ تصنیف کے لحاظ سے بہت مشہور تھے اوران کی تصانیف کی خاصی تعداد رہی ہوگی، اصول فقہ کے مختلف موضوعات پر انہوں نے مستقل کتابیں لکھی ہیں،مختلف مصنفین جنہوں نے ان کی تصنیفات کا فہرست دی ہے، ہم اس کا ذکر کرتے ہیں۔
1: کتاب الحجۃ
2: کتاب خبر الواحد
3: کتاب الجامع
4: کتاب اثبات القیاس
5: کتاب اجتہاد الرائے
(الفہرست لابن الندیم)
امام جصاص رازی درج ذیل کتاب کا اضافہ کیاہے:
6: الحجج الصغیر (الفصول فی الاصول۱؍۱۵۶)
صاحب ہدیۃ العارفین نے درج ذیل کتابوں کا اضافہ کیاہے۔
7: الحجة الصغيرة في الحديث.(اس کاپتہ نہیں چلاکہ آیا یہ وہی الحجج الصغیر ہے جس کا تذکرہ جصاص رازی نے کیاہے یاپھر الگ سے کوئی اورکتاب ہے)
8: كتاب الجامع في الفقه.
9: كتاب الحج.
10: كتاب الشهادات.
10: كتاب العلل.
11: في الفقه.
(هدية العارفين أسماء المؤلفين وآثار المصنفين۱؍۸۰۶،دار إحياء التراث العربي بيروت – لبنان)

گیارہویں نمبرپر موجود کتاب کانام معجم المولفین میں ’’العلل فی الفقہ ہے اور شاید یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔(۸؍۱۸،مکتبۃ المثنی ،بیروت)

12: الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم:
اس کتاب کا تذکرہ علامہ زاہدالکوثری نے کیاہے۔اس کے علاوہ علامہ لکھتے ہیں :
اس کےعلاوہ عیسی بن ابان نے ایک کتاب حدیث قبول کرنے کی شروط کے سلسلہ میں مریسی اور شافعی کےرد میں بھی لکھی، عیسی بن ابان نے اپنی کتابوں میں وہی اصول بیان کئے امامام محمد سے جن کی تعلیم انہوں نے حاصل کی تھی۔(’’سیرت امام محمد بن الحسن الشیبانی ،اردو ترجمہ بلوغ الامانی فی سیرت الامام محمد بن الحسن الشیبانی،ص ۲۰۷)
کتابوں کے نام سے اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے دور میں محدثین اوراہل فقہ کے درمیان جن مسائل میں شدید اختلافات تھے ان پر قلم اٹھایاہے۔مثلاکتاب اثبات القیاس،بعض شدت پسند ظاہری محدثین کا موقف تھاکہ قیاس کرناصحیح نہیں اوروہ شرعی دلیل نہیں ہے،اس کی تردید میں یہ کتاب لکھی گئی ہوگی،اسی طرح اس زمانے میں محدثین جہاں ایک طرف خبرواحد کو قطعی اوریقینی دلیل مانتے تھے دوسری جانب معتزلہ اوردیگرگمراہ فرقے خبرواحد کی اہمیت کم کررہے تھے، ایسے عالم میں انہوں نے خبرواحدپر قلم اٹھایااوراحناف کا موقف سامنے رکھا۔
الحجج الصغیر:
عیسی ٰ بن ابان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ناپید ہے لیکن خوش قسمتی سےاب امام جصاص رازی کی ’’الفصول فی الاصول ‘‘طبع ہوکر آگئی ہے، اس کے مطالعہ سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ گویا امام جصاص کی یہ کتاب الحجج الصغیر کی شرح یااس کا بہتر خلاصہ ہے۔تقریباتمام مباحث میں انہوں نے الحجج الصغیر سے استفادہ کیاہے اورالاماشاء اللہ ایک دومقامات کو چھوڑکر ہرجگہ وہ عیسی بن ابان کے ہی موقف کے حامل نظرآتے ہیں،گویااس کتاب کے واسطہ سے براہ راست نہ سہی؛ لیکن بہت قریب سے ہم عیسی بن ابان کے نظریات وخیالات سے واقف ہوسکتے ہیں۔ صاحب کشف الظنون حاجی خلیفہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
وحجج عيسى بن أبان أدق علماً، وأحسن ترتيباً من كتابي المزني.(کشف الظنون ۱؍۶۳۲، مکتبۃ المثنی،بغداد)
اورعیسی بن ابان کی حجج(شاید الصغیر مراد ہو) علم کی باریکی اور ترتیب کے حسن کے لحاظ سے مزنی کی دونوں کتابوں سے بہتر ہے۔اسی کتاب میں عیسی بن ابان نے اپناوہ مشہور نظریہ دوہرایاہے جس کی بنیاد پر احناف آج تک مخالفین کے طعن وتشنیع کے شکار ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ فقیہ نہیں تھے اور ان کی وہ روایت جو قیاس کے خلاف ہوگی رد کردی جائے، راقم الحروف نے اس پر ایک طویل مضمون لکھاہے، جس میں عیسی بن ابانؒ اور بعد کے علماء جنہوں نے عیسی بن ابان کی رائے اختیار کی ہے، ان کے حوالوں سے بتایاہےکہ عیسی بن ابان کی یہ رائے مطلق نہیں ہے بلکہ تین یاچارشرطوں کے ساتھ مقید ہے اوراگران شرائط کالحاظ وخیال رکھاجائے توپھر عیسی بن ابان اوردوسروں کےنظریہ میں اختلاف حقیقی نہیں بلکہ محض لفظی بن کر رہ جاتاہے۔
کتاب الحجج کی تصنیف:اس کی تصنیف کا ایک دلچسپ پس منظر ہے،وہ یہ کہ مامون الرشید کے قریبی رشتہ دار عیسی بن ہارون ہاشمی نے کچھ احادیث جمع کیں اوران کومامون الرشید کے سامنے پیش کیا اورکہاکہ احناف جوآپ کے دربار میں اعلیٰ مناصب اور عہدوں پر مامور ہیں ،ان کا عمل اورمسلک وموقف ان احادیث کے خلاف ہے اوریہ وہ حدیثیں جس کو ہم دونوں نے اپنے عہد تعلیم میں محدثین کرام سے سناہے ، یہ بات سن کر عیسی بن ابان نے اپنے دربار کے حنفی علماء کو اس کا جواب لکھنے کیلئے کہا؛لیکن انہوں نے جوکچھ لکھا وہ مامون کو پسند نہ آیا، یہ دیکھ کرعیسی بن ابان نے کتاب الحجج تصنیف کی جس میں انہوں بتایاکہ کسی روایت کو قبول کرنے اورنہ کرنے کا معیار کیاہوناچاہئے اوراس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے مسلک کے دلائل بھی بیان کئے۔ جب مامون الرشید نے یہ کتاب پڑھی توبہت متاثرہوااوربے ساختہ کہنے لگا۔
حسدوا الفتى إذا لم ينالوا سعيهفالنّاس أعداءٌ له وخصوم
كضرائر الحسّناء قلن لوجهها حسداً وبغياً إنّه لذميم
کسی بھی باصلاحیت ادمی کا جب مقابلہ نہیں کیاجاسکتاتولوگ اس سے حسد کرنے لگتے ہیں اوراس کے دشمن بن جاتے ہیں جیساکہ خوبصورت عورت کی سوتنیں محض جلن میں کہتی ہیں کہ وہ تو بدصورت ہے(بحوالہ تاج التراجم227/تاریخ الاسلام للذہبی 16/320)اس واقعہ کو سب سےز یادہ تفصیل کے ساتھ صیمری نے اخبارابی حنیفۃ واصحابہ میں بیان کی ہے۱؍۱۴۷)
تصنیفات کے باب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عیسی بن ابان نے ایک کتاب بطور خاص امام شافعی کے رد میں لکھی تھی[1]، اس کتاب کے بارے میں تاریخ بغداد کی روایت کے مطابق داؤد ظاہری اور اخبارالقضاۃ کے مصنف قاضی کا الزام ہے کہ انہوں نےاس کتاب کی تصنیف میں سفیان بن سحبان[2] سے احادیث کے سلسلے میں مدد لی تھی، قاضی وکیع لکھتے ہیں:وقيل لي إن الأحاديث التي ردها على الشافعي أخذها من كتاب سُفْيَان بْن سحبان(اخبارالقضاۃ لوکیع:۲؍۱۷۱)’’مجھ سے کہاگیاہے کہ وہ احادیث جو عیسی بن ابان نے امام شافعی کے رد میں اپنی کتاب میں لکھی لکھی ہیں، سفیان بن سحبان کی کتاب سے ماخوذ ہے‘‘۔اورداؤد ظاہری سے جب عیسی بن ابان کی کتاب کا جواب دینے کیلئے کہاگیاتوانہوں نے کہاکہ عیسی بن ابان کی اس کتاب کی تصنیف میں ابن سختان [3]نے مدد کی ہے۔(تاریخ بغداد۶؍۲۱،دارالکتب العلمیۃ)
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عیسی بن ابان پر اس سلسلے میں ابن سحبان سے مدد لینے کا الزام ایک غلط الزام ہے اوراس کی تردید خود عیسی بن ابان نے کی ہے،ایسامحسوس ہوتاہے کہ ان کی زندگی میں ہی یہ چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ ان کی فلاں تصنیف ابن سحبان کی اعانت کا نتیجہ ہے، کسی نے جاکر پوچھ لیاتوانہوں نے بات واضح کردی اوریہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وہ کون سی کتاب ہے:
قال أبو خازم: فسمعت الصريفيني شعيب بن أيوب يقول: قلت لعيسى ابن أبان: هل أعانك على كتابك هذا أحدٌ؟ قال: لا، غير أني كنت أضع المسألة وأناظر فيها سفيان بن سختيان. ( فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ۱؍۳۶۰،الناشر: المكتبة الإمدادية - مكة المكرمة)
ابوخازم کہتے ہیں ،میں نے شعیب بن ایوب کو یہ کہتے سناکہ میں نے عیسی بن ابان سے پوچھاکہ اس کتاب (کتاب الحجج)کی تصنیف میں کیاکسی نے آپ کی مدد کی ہے، فرمایاکہ نہیں،ہاں اتنی سی بات تھی کہ میں اولا ًمسئلہ کو لکھ لیتاتھا پھر اس کےبعد اس بارے میں سفیان بن سختیان [4]سے مناظرہ کرتاتھا۔

عیسی بن ابان کے ناقدین:
ہرصاحب تصنیف جو مجتہدانہ فکر ونظر کا مالک ہو،ہرمسئلہ میں جمہور کے ساتھ نہیں چلتا بلکہ بسااوقات وہ اپنی راہ الگ بناتاہے بقول غالب’’ہرکہ شد صاحب نظر دین بزرگاں خوش نکرد‘‘امام عیسی بن ابان کے بھی بعض نظریات وخیالات ایسے ہیں جن سے جمہور اتفاق نہیں کرتے اور جن پر ان کے معاصرین اوربعد والوں نے تنقید کی ہے۔ان پر جن لوگوں نے تنقید کی ہے، ان کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
امام طحاوی:آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کی تصنیفات کے ضمن مین ایک کتاب کا ذکرکیاہے جس کا نام ’خطاالکتب‘ ہے،اس میں شاید ایک باب یاکوئی خاص فصل عیسی بن ابان کے رد میں ہے۔‘‘(الجواہر المضئیۃ فی طبقات الحنفیۃ ۱؍۱۰۴)
ابن سیریج :مشہور شافعی فقیہ ہیں، ان کے حالات میں ترجمہ نگاروں نے لکھاہے کہ انہوں نے ایک کتاب عیسی بن ابان کے فقہی آراء کے رد میں لکھی ہےوله رد على عيسى بن أبان العراقي في الفقه(موسوعۃ أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله۱؍۷۶،عالم الکتب للنشر والتوزیع)
اسماعیل بن علی بن اسحاق:آپ نے بھی ایک کتاب عیسی بن ابان کے رد میں لکھی ہے،جس کا نام ہے’’ النقض على مسألة عيسى بن أبانفي الاجتهاد، مصنف کا تعلق شیعہ سے فرقہ سے ہے ۔ (لسان المیزان۱؍۴۲۴) کتاب کے نام سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ عیسی بن ابان علیہ الرحمہ کی جوکتاب الاجتہادفی الرائےہے، یہ کتاب اسی کی تردید میں لکھی گئی ہے۔
خلق قرآن کے موقف کاالزام اور حقیقت
امام عیسی بن ابان پر سب سےبڑااورسنگین الزام خلق قران کے عقیدہ کے حامل ہونے کاہے،یہ الزام مشہور شافعی محدث حافظ ابن حجرنے لگایاہے،(اگرچہ حافظ ابن حجر سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے خلق قرآن کے موقف کا الزام لگایاہے لیکن انہوں نے قیل کے ساتھ یہ بات کہی ہے یادیگرصیغہ تمریض کے ساتھ )حافظ ابن حجر کے تعلق سے اگرچہ متعدد احناف کو شکایت رہی ہے کہ وہ احناف کے ترجمہ میں اس فیاضی اور دریادلی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو شوافع کے ساتھ برتتے ہیں، ان شکوہ وشکایات سے قطع نظر خلق قرآن یادوسری کسی بھی جرح کے ثبوت کیلئے کچھ پیمانے ہیں، پہلا پیمانہ یہ ہے کہ جو امام جرح وتعدیل کسی راوی پر کوئی جرح کررہاہے، اس علم جرح وتعدیل کے ماہر تک صحیح سند سے یہ جرح ثابت ہو ،دوسراپیمانہ یامعیار یہ ہے کہ یہ جرح بادلیل ہو، تیسرا معیار یہ ہے کہ جس پر الزام لگایاجارہاہے،اس کا موقف اسی کے الفاظ میں ثابت ہو۔
سب سے پہلے یہ الزام تاریخ بغداد میں خطیب بغداد نے لگایاہے۔چنانچہ خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں۔
ویُحکی عن عیسی انہ کان یذھب الی القول بخلق القران(تاریخ بغداد جلد12صفحہ 482،)عیسی بن ابان سےنقل کیاجاتاہے کہ وہ خلق قران کا عقیدہ رکھتے تھے۔
یہی بات حافظ ذہبی نے بھی تاریخ الاسلام میں دہرایاہے:
ويُحکی عنه القول بخلق القرآن، أجارنا الله، وهو معدودٌ من الأذكباء(تاریخ الاسلام للذہبی ،صفحہ 312،جلد16) ان سے خلق قران کا قول نقل کیاگیاہے اللہ ہمیں اس سے بچائے،اور وہ ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔
یہی بات ابن جوزی نے بھی کہی ہے:
ويذكر عنه أنه كَانَ يذهب إِلَى القول بخلق القرآن.( المنتظم في تاريخ الأمم والملوك۱۱؍۶۷،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)اوران کے بارے مین ذکر کیاجاتاہے کہ ان کا موقف خلق قرآن کا تھا۔
واضح رہے کہ خطیب بغدادی نے جس سند سے اس حدیث کو روایت کیاہے اس میں بعض مجہول اور بعض ضعیف راوی ہیں ،جس کی وجہ سے یہ سند اس قابل نہیں کہ اس کی وجہ سے کسی پر خلق قرآن کا سنگین الزام عائد کیاجائے،علاوہ ازیں خطیب نے اس روایت کو نقل کرنے کے باوجود خلق قرآن کے الزام کو صیغہ تمریض کے ساتھ بیان کیاہے،اگریہ سند ان کے نزدیک صحیح ہوتی تو وہ اس کو ضرور بالضرور جزم اورقطعیت کے ساتھ نقل کرتےاوریہی بات حافظ ذہبی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے جن کے رجال کی معرفت اور علم جرح وتعدیل میں گہرائی وگیرائی پر اتفاق ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دو مورخ یعنی خطیب بغدادی اورحافظ ذہبی اس قول کو تمریض کے صیغہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں ،جواس بات کی نشاندہی ہے کہ ان کا خلق قران کے عقیدہ کا حامل ہونا کمزور بات ہے،کوئی پکی بات نہیں ہے،چنانچہ خود حافظ ذہبی نے جب سیر اعلام النبلاء میں ان کا ترجمہ نقل کیا تو عقیدہ خلق قران کے حامل ہونے کی بات نقل نہیں کی ؛کیونکہ وہ پکی بات نہ تھی؛چنانچہ سیراعلام النبلاء میں حافظ ذہبی عیسی بن ابان کے ترجمہ میں محض اتنا ہی نقل کرتے ہیں۔
فَقِيْهُ العِرَاقِ، تِلْمِيْذُ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، وَقَاضِي البَصْرَةِ.حَدَّثَ عَنْ: إِسْمَاعِيْلَ بنِ جَعْفَرٍ، وَهُشَيْمٍ، وَيَحْيَى بنِ أَبِي زَائِدَةَ.وَعَنْهُ: الحَسَنُ بنُ سَلاَّمٍ السَّوَّاقُ، وَغَيْرُهُ.وَلَهُ تَصَانِيْفُ وَذَكَاءٌ مُفْرِطٌ، وَفِيْهِ سَخَاءٌ وَجُودٌ زَائِدُ.تُوُفِّيَ: سَنَةَ إِحْدَى وَعِشْرِيْنَ وَمائَتَيْنِ.أَخَذَ عَنْهُ: بَكَّارُ بنُ قُتَيْبَةَ. (سیراعلام النبلاء للذہبی10/441)
عراق کے فقیہ ہیں۔محمد بن الحسن کے شاگرد ہیں اوربصرہ کے قاضی تھے۔انہوں نے اسماعیل بن جعفر،ہشیم، یحیی بن ابی زائدہ سے روایت بیان کی ہے اوران سے حسن بن سلام السواق اوردیگر نے روایت بیان کی ہے۔ان کی متعدد تصانیف ہیں وہ بہت زیادہ ذہین تھے اسی کے ساتھ وہ بہت سخی بھی تھے۔221میں ان کا انتقال ہوا۔
اگرخلق قران کے عقیدہ کی بات پکی ہوتی توکیایہ مناسب تھاکہ حافظ ذہبی اس کا یہاں ذکر نہ کرتے ،ضرورکرتے جیساکہ سیراعلام النبلاء میں انہوں نے دوسرے خلق قران کے عقیدہ کے حاملین کا ذکر کیاہے،پھردیکھئے حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کا صرف ایک سطری جملہ لکھتے ہیں اوراس میں بھی خلق قران کے عقیدہ کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے، بلکہ صاف صاف یہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے ان کی توثیق یاتضعیف کی ہے۔
عيسى بن أبان، الفقيه صاحب محمد بن الحسن ما علمت أحدا ضعفه ولاوثقه
(ميزان الاعتدال : ج5، ص 374)
خلق قران کاعقیدہ کا حامل ہونابجائے خود ایک جرح ہے اوراس کے حاملین مجروح رواۃ میں شمارہوتے ہیں اورکسی کے مجروح یاضعیف راوی ہونے کیلئے اس کاخلق قران کے عقیدہ کا حامل ہونابھی کافی ہے، اس کے باوجود حافظ ذہبی صاف صاف کہہ رہے کہ ماعلمت احدا ضعفہ ولاوثقہ کیایہ اس کی بات بالواسطہ صراحت نہیں ہے کہ عیسی بن ابان کی جانب خلق قران کا جوعقیدہ منسوب کیاگیاہے ،وہ غلط اوربے بنیاد اورانتہائی کمزور ولچربات ہے،
ان سب کے برخلاف حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں:
لكنه كان يقول بخلق القرآن ويدعو الناس إليه(لسان الميزان :ابن حجر: 4/390)
عیسی بن ابان نہ صرف خلق قرآن کے قائل تھے بلکہ وہ اس کے داعی بھی تھے۔
حافظ ابن حجر کے علاوہ کسی بھی دوسرے ترجمہ نگارنے جس میں شوافع اوراحناف سبھی شامل ہیں، عیسی بن ابان پر خلق قرآن کے عقیدہ کا الزام نہیں لگایاہے،چاہے وہ مشہور شافعی فقیہ ابواسحاق شیرازی صاحب طبقات الفقہاء ہوں، حافظ عبدالقادر قرشی ہوں، حافظ قاسم بن قطلوبغاہوں۔
اس تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ خلق قرآن کا الزام لگانے کے سلسلے میں حافظ ابن حجر منفرد ہیں اور انہوں نے اپنے دعویٰ کی بھی کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے،اور دعویٰ کی جب تک کوئی دلیل نہ ہو ،اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
حافظ ابن حجر نے خلق قران کی بات ضرور نقل کی ہے اوراس کاداعی بھی بتایاہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ ان کے سامنے ایسی کونسی نئی بات اورنئی دلیل تھی کہ جو چیز خطیب بغدادی اور ذہبی کے یہاں صیغہ تمریض کے ساتھ اداکی جارہی تھی ، وہ یہاں آکر صیغہ جزم میں بدل گئی ،اورجس میں وہ محض ایک عقیدہ کے حامل نظرآتے ہیں ،وہ یہاں آکر داعی میں بدل جاتے ہیں،جتنے ماخذ اس وقت تک ہمارے سامنے ہیں، اس میں سے کسی سے بھی حافظ ابن حجر کے قول کی تائید نہیں ہوتی۔
علم جرح وتعدیل کی رو سے بھی حافظ ابن حجر کی یہ بات اس لئے غیرمعتبر ہے کہ حافظ ابن حجر عیسی بن ابان کے معاصر نہیں، بہت بعد کے ہیں، لازما ان کی یہ بات کسی اور واسطہ اورسند سے منقول ہونی چاہئے،اورسند یاکسی معاصر شخصیت کی شہادت کا اہتمام خود حافظ ابن حجر نے نہیں کیاہے، اس لئے کہاجاسکتاہے کہ علم جرح وتعدیل کی رو سے ان کی یہ بات ناقابل قبول ہے۔
اگرکوئی یہ کہے کہ لسان المیزان میں حافظ ابن حجر کے ذہبی پر بہت سارے تعقبات اوراضافے ہیں، اس میں سے ایک یہ بھی ہے، اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ جہاں بھی حافظ ابن حجر نے ذہبی کے کسی قول پر اعتراض کیاہے، باحوالہ کیاہے،محض اپنے قول کے طورپر ذکر نہیں کیاہے۔
ہاں جن لوگوں کواصرار ہے کہ وہ خلق قران کے عقیدہ کے حامل اورداعی تھے توانہیں چاہئے کہ وہ ان کی معاصرکسی شخصیت کا کوئی قول یاکوئی سند پیش کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ خلق قرآن کےالزام کی حقیقت پر غورکرنے کیلئے چند باتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہے،ایک تویہ کہ یہ عقیدہ خلق قران ایک مبہم لفظ ہے،محض کسی کا یہ کہہ دینا کہ فلاں خلق قرآن کا قائل تھا،کافی نہیں ہے، یہ واضح ہوناچاہئے کہ وہ کن الفاظ میں خلق قرآن کا قائل تھا، ورنہ تو خلق قرآن کا الزام یا دیگر سنگین الزامات مشہور محدثین پر بھی لگے ہیں،لیکن جب ان کے ہی الفاظ میں ان کےموقف کو جاناگیاتو حقیقت واضح ہوگئی ۔
اس کی واضح مثال خود امام بخاری کا واقعہ ہے جب امام ذہلی سے وابستہ ایک شخص نے امام بخاری سے اس مسئلہ میں پوچھاتوانہوں نے اس مسئلہ کی حقیقت کوصاف اورواضح کرتے ہوئے کہاتھاکہ جوقران کی کی تلاوت ہم کرتے ہیں، وہ افعال مخلوق ہونے کے لحاظ سے مخلوق ہے ورنہ قران کلام اللہ ہونے کے لحاظ سے غیر مخلوق ہے۔ان کے الفاظہیں،القران کلام اللہ غیرمخلوق،وافعال العباد مخلوقۃ والامتحان بدعۃ(ہدی الساری494) اگر خلق قرآن کے سلسلے میں ہمارے سامنے امام بخاری کی عبارت نہ ہو محض ذہلی کا بیان اور ابوحاتم وابوزرعہ کی تنقید ہو توکوئی بھی امام بخاری کو خلق قرآن کے عقیدہ کا قائل قراردے دے گا۔دوسری بات یہ بھی ہے خلق قرآن کے معاملہ میں امام احمد بن حنبل کی آزمائش کے بعد امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ اوردیگر محدثین انتہائی شدید ذکی الحس ہوگئے اوراس تعلق سے اگرکوئی ان کے الفاظ سے ہٹ کر کچھ کہتاتو وہ اسے برداشت نہ کرتےاورفورا اس کے متروک اورضعیف ہونے یاخلق قرآن کے قائل ہونے کی بات کہہ دیتے تھے۔تفصیل کیلئے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تصنیف لطیف وقیم "مسألة خلق القرآن وأثرها في صفوف الرواة والمحدثين وكتب الجرح والتعديل"کی جانب رجوع کریں۔اس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہےاورحوالوں کے ساتھ بتایاہےکہ آگے چل کر اس مسئلہ میں محدثین کے درمیان کس قدر غلو ہوگیا تھا۔

انتقال:آپ تادم واپسیں بصرہ کے قاضی رہے،آپ کو معزول کرنے کی بعض حضرات نے کوشش کی لیکن قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم اور ابن ابی داؤد تک کو آپ کو معزول کرنے کی ہمت نہیں ہوئی،محمد بن عبداللہ کلبی کہتے ہیں کہ میں انتقال کے وقت ان کے پاس موجود تھا، انہوں نے مجھ سے کہاکہ ذرا میرے مال ودولت کا شمار تو کردو،میں نے گنا تو بہت زیادہ مال نکلا، پھر انہوں نے فرمایاکہ اب مجھ پر جو قرضے ہیں، ان کو جوڑ کر بتائوکہ کل قرضہ کتنا ہے؟جب میں نے ان کے قرضوں کو جوڑا توپایاکہ یہ ان کی کل مالیت کے قریب ہے، اس پر عیسی بن ابان کہنے لگے ،اسلاف کہاکرتے تھے کہ زندگی مال داروں کی سی جی جیئو اور موت فقیروں کی سی ہونی چاہئے۔(اخبارابی حنیفۃ واصحابہ۱؍۱۴۹)
بالآخر وہ گھڑی آہی گئی جس سے ہرایک کو دوچار ہونا ہے، اورجونہ ٹل سکتی ہے، نہ آگے پیچھے ہوسکتی ہے، ماہ صفر کی ابتدائی تاریخ اور سنہ ۲۲۱ہجری میں علم کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔
امام عیسی بن ابان کاانتقال کب ہوا، اس بارے میں مورخین کے اقوال مختلف ہیں،بعض نے220ہجری قراردیاہے جب کہ بعض نے 221ہجری بتایاہے۔لیکن 221کاقول زیادہ معتبر ہے ،کیونکہ خلیفہ بن خیاط جن کا انتقال عیسی بن ابان کے محض ۱۹-۲۰؍سال بعد ہوا ہے،انہوں نے عیسی بن ابان کی تاریخ وفات ۲۲۱ہجری ہی بتائی ہے،علاوہ ازیں خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں سند کے ساتھ نقل کیاہے کہ ماہ صفر کی ابتداء221ہجری میں ان کاانتقال ہوگیا۔اسی طرح حافظ ذہبی نے تاریخ الاسلام اورسیر اعلام النبلاء میں بھی تاریخ وفات 221ہجری ہی ذکرکیاہے اورحافظ ذہبی چونکہ انتقال کی تاریخ وغیرہ بتانے میں کافی محتاط ہیں اوراس سلسلے میں بہت احتیاط اورتحقیق سے کام لیتے ہیں لہذا ان مورخین کی بات زیادہ معتبر ہے۔



[1]:یہ شاید وہی کتاب ہے جس کانام شیخ زاہد الکوثری ؒ نے الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم نے لکھاہے۔
[2]:یہ سفیان بن سحبان حنفی ہیں اورامام محمد کےشاگرد ہیں (تاج التراجم لابن قطلوبغا ۱؍۱۷۱)
[3]:تاریخ بغداد میں ایساہی ہے لیکن صحیح ابن سحبان ہے جیساکہ الفہرست لابن الندیم اور تاج التراجم لابن قطلوبغا میں ہے۔
[4]:صحیح سفیان بن سحبان ہے جیساکہ ماقبل میں وضاحت کی جاچکی ہے۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
جمشید بھائی کا مضمون مکمل ہوگیا ہے ۔
میں بعض جگہہ کچھ جو باتیں میرے ذہن میں ہیں کہنا چاہتا ہوں۔
نوٹ:اس سند کے ایک راوی احمد بن مغلس الحمانی ہیں جن کی محدثین نے تضعیف اورتکذیب کی ہے لیکن تاریخی شخصیات اورروایات کے بارے میں وہی شدت پسندی برقراررکھنا جو کہ حدیث کے بارے میں ہے ،ایک غلط خیال اورنظریہ ہے۔

بالکل اصول کی بات ہے ۔ اس کی مثال میں واقدی کو پیش کیا جاسکتا ہے ۔جن کے بارے میں ائمہ نے یہ کہا ہے ۔

وقال علي بن الحُسَين بن حِبَّان: وجدتُ في كتاب أَبي بخط يده: سأَلتُ أبا زكريا، عن الوَاقِديّ؟ قال: كان كَذَّابًا،
قَالَ لِي الشَّافِعِيُّ: كُتُبُ الوَاقِدِيِّ كَذِبٌ
قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: الوَاقِدِيُّ كَذَّابٌ
قال إِسْحَاق بْن رَاهَوَيْه: هُوَ عندي ممّن يضع الحديث
قَالَ النَّسَائِيُّ: المَعْرُوْفُونَ بِوَضعِ الحَدِيْثِ عَلَى رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-..........الوَاقِدِيُّ بِبَغْدَادَ

يحيي بن معين نے ایک روایت میں کذاب کہا ہے ۔
اور ذہبیؒ نے امام شافعیؒ ، امام احمدؒ ، امام اسحاقؒ ، اور امام نسائیؒ سے کذاب اور یضع الحدیث نقل کیا ہے ۔

اس کے باوجود نقد رجال میں انتہائی مہارت رکھنے والے ذہبیؒ یہ فرماتے ہیں کہ واقدی کے ضعف پہ اتفاق ہونے کے باوجود
تاریخ اور مغازی میں اس کی ضرورت پڑتی ہے ۔

وَمَعَ هَذَا، فَلاَ يُسْتَغنَى عَنْهُ فِي المَغَازِي، وَأَيَّامِ الصَّحَابَةِ، وَأَخْبَارِهِم۔۔۔۔۔۔

اور دوسری جگہہ

وَقَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ الوَاقِدِيَّ ضَعِيْفٌ، يُحْتَاجُ إِلَيْهِ فِي الغَزَوَاتِ وَالتَّارِيْخِ، وَنُوْرِدُ آثَارَهُ مِنْ غَيْرِ احْتِجَاجٍ، أَمَّا فِي الفَرَائِضِ، فَلاَ يَنْبَغِي أَنْ يُذْكَرَ

سیرت النبیﷺ اور سیرت صحابہؓ کی روایات میں واقدی کی غلط روایات موجود ہیں ۔ جن میں بعض اوقات عقائد کے خلاف روایات ہیں ۔ اور اتنے بڑے بڑے ائمہ شافعیؒ ، احمدؒ ، یحییؒ ، اسحاقؒ کی کذب اور وضع کی جروح کے باوجود

محتاط اور متشدد حافظ ذہبیؒ یہ کہتے ہیں کہ سیر مغازی میں اس کی روایات سے مستغنی نہیں ہوا جاسکتا ۔

تو احمد بن الصلت ؒ پر تو مرکزی جرح کرنے والے ابن حبانؒ ، ابن عدیؒ ، دارقطنیؒ ، خطیبؒ سب کے بارے میں ان کی کتب واضح طور پر گواہ ہیں کہ یہ حضرات حنفی ائمہ کے بارے میں مسلکی مخالفت کی وجہ سے اعتدال نہیں رکھ سکے ۔ اس لئے ان کی جرح کس درجہ کی ہوگی ۔اور ان کی جرح کو بلا دلیل کس طرح تقلیداََ مانا جاسکتا ہے ۔مثلاََ

دارقطنیؒ نے احمد بن الصلت کے بارے میں ایک جگہہ یہ کہا ہے ۔

حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِم الأَزْهَرِيّ، قَالَ: سئل أَبُو الْحَسَن عَلِيّ بْن عُمَر الدَّارَقُطْنِيّ، وأنا أسمع عَنْ جمع مكرم بْن أَحْمَدَ فضائل أَبِي حنيفة، فَقَالَ: موضوع كله كذب، وضعه أَحْمَد بْن المغلس الحماني، قرابة جبارة، وَكَانَ فِي الشرقية.

اب اس جملے کو تقلیداََ لکھتے جائیں کہ دارقطنی ؒ نے اس کو کذاب وضاع کہا ہے ۔

حالانکہ اس جملہ کو غور سے دیکھیں کہ دارقطنی سے مکرم بن احمد نے جو فضائل ابی حنیفہ لکھی ہے کہ بارے میں سوال ہوا ۔ تو دارقطنی نے کہا کہ یہ ساری کتاب موضوع اور جھوٹ ہے ۔ اور اسے احمد بن المغلس نے وضع کیا ہے ۔

حالانکہ مکرم بن احمد ؒ اور ہیں اور ثقہ محدث ہیں ان کو تو خطیب بغدادی نے بھی ثقہ کہا ہے ۔اور انہوں نے بھی مناقب ابی حنیفہ کتاب لکھی ہے ۔اور وہ اپنی کتاب میں احمد بن الصلت کی روایات بھی نقل کرتے ہیں ۔ تو اس کو ابن الصلت نے کہاں سے وضع کر لیا ۔ جبکہ اس میں ابن الصلت کے علاوہ بھی روایات ہیں ۔

موارد تاریخ بغداد میں د۔ العمری نے بتایا ہے کہ مکرمؒ کی کتاب سے خطیب نے تقریباََ ۴۳ عبارات نقل کی ہیں
ان میں ۳۱ ابن الصلت کے طریق سے ہیں اور ۱۲ ابن الصلت کے علاوہ دوسرے راویوں سے ہیں ۔
اور امام ابوحنیفہؒ کے ترجمہ میں مزیؒ ، ذہبیؒ وغیرہ سارے مکرم بن احمدؒ کی کتاب سے مناقب کی روایات احتجاج کے طور پر نقل کرتے ہیں ۔ پھر ساری کتاب موضوع کیسے ہوگئی ۔ کیسے بغیر دلیل کے بات مانی جائے۔

دوسری مثال یہ ہے کہ ابن الصلت کے طریق سے خطیب نے امام ابوحنیفہ ؒ کی روایت حضرت انسؓ سے کی ۔ اور پھر دارقطنی سے اس پر یہ نقل کیا کہ ابوحنیفہ نے نہ تو حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے اور نہ دیکھا ہے ۔ اور کسی صحابی سے ابوحنیفہ ؒ کی ملاقات نہیں ہوئی ۔

اب یہاں بھی دارقطنی نے انتہائی موقف اختیار کیا ۔ جس میں رویت کا بھی انکار کر دیا ۔
جس کو خطیب سمیت بعد کے تمام حضرات نے قبول نہیں کیا ۔

ابن حبان کی بھی تصانیف دیکھیں تو ان کی ایک کتاب ہے ۔ مناقب مالک۔
ایک کتاب ہے مناقب شافعی ۔
لیکن جس کے مناقب کے وہ قائل نہیں اس کے مثالب کے لئے ۳ کتابیں مختص کیں جن میں سے ایک علل مناقب ابی حنیفہ ومثالبہ ہے

دراصل یہ حضرات اور ابن عدی وغیرہ یہ نتیجہ طے کرچکے تھے کہ امام ابوحنیفہؒ کے مناقب نہیں ہیں ۔ اب جوکثرت سے بیان کرے گا تو ان کو تو جھوٹ ہی لگے گا۔

خطیب بغدادی البتہ کچھ کنفیوز سے رہے ہیں کہ کیا کریں اس لئے احمد بن الصلت کو وضاع بھی کہتے ہیں ۔ اور کئی جگہہ ان کی مناقب کی روایات پر خاموش رہتے ہیں ۔
دوسری تصانیف الفقیہ والمتفقہ میں بھی ان کی روایات اس طرح بیان کرتے ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ و فضائل میں ان کی روایت لکھنے کے قائل ہیں ۔

ثقہ محدث مکرم بن احمد ؒ ۔۔اپنی کتاب مناقب ابی حنیفہ میں ابن الصلت کی روایات کثرت سے بیان کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے وہ احتجاج کرتے ہیں ۔

امام صیمریؒ بہت بڑے ثقہ محدث اور فقیہ اپنی کتاب اخبار ابی حنیفہ میں کثرت سے ابن صلت کی روایات کو احتجاجا بیان کرتے ہیں ۔

امام جصاصؒ جن کو ذہبیؒ ۔۔الإمام العلامة المفتي المجتهد ، عالم العراق ۔۔کہتے ہیں ۔اپنی مشہور کتاب احکام القرآن میں کئی جگہہ ابن الصلت کی روایات احتجاجا نقل کرتے ہیں ۔
اور یہ روایات اپنے شیخ مکرم بن احمدؒ کے واسطہ سے کرتے ہیں ۔

بعد کے اصحاب مناقب بھی ان کی روایات بیان کرتے ہیں ۔

ابو یعلی خلیلیؒ ایک محدث ہیں وہ اپنی کتاب الارشاد میں ایک لفظ استعمال کرتے ہیں
جرح و تعدیل کے ضمن میں ۔۔۔بہت سارے ائمہ کی تعدیل اور بہت سارے ائمہ کی جرح وہ اکٹھی بیان کرنے کے لئے لفظ کہتے ہیں ۔ رَضِيَهُ الحفاظ ، رَضِيَهُ الائمہ رَضِيَهُ مَشَايِخُنَا

اختلاف مسلک کی مثال کے لئے ان کی کتاب میں بعض حنفی ائمہ کے بارے میں الفاظ دیکھیں ۔

بَشَّارُ بْنُ قِيرَاطٍ الْبَلْخِيُّ سَمِعَ الثَّوْرِيَّ، وَأَبَا حَنِيفَةَ، وَغَيْرَهُمَا، وَكَانَ يَتَفَقَّهُ عَلَى رَأْيِ أَبِي حَنِيفَةَ،
رَضِيَهُ الْحَنَفِيُّونَ بِخُرَاسَانَ، وَلَا يَتَّفِقُ عَلَيْهِ حُفَّاظُ خُرَاسَانَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أَبُو مُطِيعٍ الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيُّ عِيبَ عَلَيْهِ الْإِرْجَاءُ، وَسَمَّوْهُ الْمُرْجِئَ، أَخَذَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، وَسَمِعَ شُعْبَةَ، وَمَالِكًا، وَغَيْرَهُمَا، وَكَانَ عَلَى قَضَاءِ بَلْخَ،
وَهُوَ كَبِيرُ الْمَحِلِّ عِنْدَ الْحَنَفِيِّينَ، بِخُرَاسَانَ، رَوَى عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ بِالرَّيِّ، وَمُوسَى بْنُ نَصْرٍ، وَبَجْلَانَةُ، مَاتَ سَنَةَ ثَمَانٍ وَمِائَتَيْنِ، وَيُقَالُ إِحْدَى وَتِسْعِينَ وَمِائَةٍ، فَأَمَّا الْحُفَّاظُ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، وَخُرَاسَانَ فَلَا يَرْضَوْنَهُ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن الصلت یعنی احمد بن محمد المغلس الحمانی سے بھی حنفی ائمہ راضی ہیں ۔ اور دوسرے حفاظ ان کے خلاف ہیں ۔ جن میں مرکزی جرح کرنے والے شوافع علماء مخالفت مذہب کی وجہ سے خلاف ہیں اور متاخرین ان کی تقلید کرتے ہیں۔

البتہ ان کے اصول پر بھی ابن الصلت ۔۔۔واقدی۔۔۔سے بہتر نہیں تو کم از کم برابر تو ضرور ہونے چاہییں ۔ جن کی روایات مناقب، تاریخ اور فضائل میں بالکل مقبول ہیں ۔

واللہ اعلم۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
تصنیفات وتالیفات:
الحجج الصغیر:
عیسی ٰ بن ابان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ناپید ہے لیکن خوش قسمتی سےاب امام جصاص رازی کی ’’الفصول فی الاصول ‘‘طبع ہوکر آگئی ہے، اس کے مطالعہ سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ گویا امام جصاص کی یہ کتاب الحجج الصغیر کی شرح یااس کا بہتر خلاصہ ہے۔
عیسی بن ابان ؒ کی الحجۃ الصغیرۃ مفقود نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا مخطوطہ موجود ہے ۔

معجم التاريخ التراث الإسلامي في مكتبات العالم : المخطوطات والمطبوعات
ص ۲۳۲۹ پہ عیسی بن ابان ؒ کی تصنیفات میں الحجہ الصغیرہ کے مخطوطہ کا بتایا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحجة الصغيرة = الحجج الصغيرة – في الفقه
المكتبة القادرية رقم 1/233 ورقة 108 ، رقم 234 ورقة 219 ، 1303ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بھی جگہہ اس کے مخطوطے ہوں گے اسی وجہ سے مجلس الالوکۃ پہ ایک بھائی نے بتایا ہے کہ کلیہ امام اعظم بغداد میں اس پر تحقیق بھی ہوئی ہے ۔

(نبیل جزائری)

عيسى بن أبان، أحد أعلام القضاة وأحد أئمة الحنفية الأوائل، المتوفي سنة221هـ، بعد نحو 70 سنة من وفاة أبي حنيفة، ونحو 40 سنة من وفاة مالك، ونحو 15 سنة من وفاة الشافعي، وقبل 20 سنة من وفاة أحمد بن حنبل.
يقول حاجي خليفة في"كشف الظنون" عن كتاب (الحجة الصغيرة): "ذكر الخوارزمي في مسند أبي حنيفة، عن الصيمري بإسناده إلى المأمون: أنه جُمع في عصره كتاب في الأحاديث، ووُضع بين يديه. وقالوا: أن أصحاب أبي حنيفة؛ هم الذين مقدمون عندك لا يعملون بها في قصة طويلة، إلى أن صنف عيسى هذا الكتاب (الحجة الصغيرة)، وبين فيه وجوه الأخبار، وما يجب قبوله، وما يجب تأويله، وما يجب العمل فيه بالمتضادين، وبين حجج أبي حنيفة، فلما قرأه المأمون، ترحم على أبي حنيفة."

ما سبق يبين أهمية كتاب (الحجة الصغيرة) لعيسى بن أبان. وقد علمت أنه تم تحقيقه في رسالة دكتوراه للباحثة ريم جاسم محمد، وبإشراف الدكتور عبد المنعم خليل الهيتي، وتمت مناقشتها سنة 2008 بقسم الشريعة والقانون - كلية الإمام الأعظم - ببغداد بعنوان: الحجة الصغيرة لعيسى بن أبان - دراسة وتحقيق.


فأرجو من الإخوة الاهتمام بهذا الكتاب وتوفيره.
http://majles.alukah.net/t116236/

اسی طرح علامۃ کوثریؒ جن كے مخطوطات کے بارے میں وسعت علم کا سارے اعتراف کرتے ہیں ۔
حسن التقاضی کے آخر میں شاہ ولی اللہ ؒ پر تنقید کرتے ہوئے ان کے الفاظ سے تو لگتا ہے کہ وہ الحجج الصغیر کے علاوہ الحجج الکبیر سے بھی واقف ہیں ۔

هذا من الدليل علي مبلغ قلة وعيه وعلي ضيق دائرة اطلاعه وعدم خبرته بكتب المتقدمين المبثوث فيها كثير من اصول المذهب بالنقل عن ائمتنا القدماء ،
فأين هو من الاطلاع على كتاب الحجج الكبير أو الصغير لعيسى بن أبان؟ وفصول ابي بكر الرازي في الاصول ، و شامل الاتقاني؟ وشروح كتب ظاهر الرواية ؟ التي فيها كثير جدا مما يتعلق باصول المذهب المنقولة عن ائمتنا ، فلا يصح ان يعول على مثله فى هذا الموضوع.

حافظ ذہبی میزان الاعتدال ۔۔
عيسى بن أبان، الفقيه صاحب محمد بن الحسن ما علمت أحدا ضعفه ولاوثقه
آج کل کے مزاج کے مطابق بعض دوستوں کو کسی خاص لفظ کی تلاش ہوتی ہے ان کے لئے خصوصاََ لفظ ۔ثقہ۔تلاش کیا گیا ہے (مسکراہٹ)

امام نووی ؒ جن کو حافظ ذہبیؒ نے ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل – طبقہ ۲۱ میں

الامام شیخ الاسلام محیی الدین ابو زکریا یحیی بن شرف بن مری النواوی ، الشافعی الحافظ ۔ فرمایا ہے ۔

انہوں نے مجموع شرح المھذب ۱۔۱۵۰ میں امام شافعیؒ کی ایک روایت ماء مستعمل کے ضمن میں عیسی بن ابان ؒ کے بارے میں گفتگو کی ہے ۔
(الشرح) يعنى بطهارة الْحَدَثِ الْوُضُوءَ وَالْغُسْلَ وَاجِبًا كَانَ أَوْ مَنْدُوبًا كَالْأَغْسَالِ الْمَسْنُونَةِ وَتَجْدِيدِ الْوُضُوءِ وَالْغَسْلَةِ الثَّانِيَةِ ثُمَّ قَسَّمَ طَهَارَةَ الْحَدَثِ إلَى مَا رَفَعَ حَدَثًا وَغَيْرَهُ: وَأَمَّا قَوْلُهُ الْمَنْصُوصُ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ فَخَصَّ هَذَا بِأَنَّهُ مَنْصُوصٌ مَعَ أَنَّ هَذَا الثَّانِي عِنْدَ هَذَا الْقَائِلِ مَنْصُوصٌ أَيْضًا ثَابِتٌ عَنْ الشَّافِعِيِّ فَجَوَابُهُ أَنَّهُ أَرَادَ بِالْمَنْصُوصِ الْمَسْطُورَ فِي كُتُبِ الشَّافِعِيِّ: وَقَدْ اسْتَعْمَلَ الْمُصَنِّفُ مِثْلَ هَذِهِ الْعِبَارَةِ فِي مَوَاضِعَ: مِنْهَا فِي بَابِ الْآنِيَةِ فِي نَجَاسَةِ الشُّعُورِ:

وَأَمَّا قَوْلُهُ وَرُوِيَ عنه فيعني روى عن الشافعي وهذا الرواى هُوَ عِيسَى بْنُ أَبَانَ الْإِمَامُ الْمَشْهُورُ:

قَالَ الشَّيْخُ أَبُو حَامِدٍ نَصَّ الشَّافِعِيُّ فِي جَمِيعِ كُتُبِهِ الْقَدِيمَةِ وَالْجَدِيدَةِ أَنَّ الْمُسْتَعْمَلَ لَيْسَ بِطَهُورٍ: وَقَالَ أَبُو ثَوْرٍ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الْوُضُوءِ بِهِ فَتَوَقَّفَ فِيهِ: وَحَكَى عِيسَى بْنُ أَبَانَ أَنَّ الشَّافِعِيَّ أَجَازَ الْوُضُوءَ بِهِ وَتَكَلَّمَ عَلَيْهِ: قَالَ أَبُو حَامِدٍ فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا مَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ غَيْرُ طَهُورٍ: وَقَوْلُ أَبِي ثَوْرٍ لَا نَدْرِي مَنْ أَرَادَ بِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ هَلْ هُوَ الشَّافِعِيُّ أَوْ مَالِكٌ أَوْ أَحْمَدُ وَلَوْ أَرَادَ الشَّافِعِيَّ فَتَوَقُّفُهُ لَيْسَ حُكْمًا بِأَنَّهُ طَهُورٌ: وَعِيسَى بْنُ أَبَانَ مُخَالِفٌ لَنَا: وَلَا نَأْخُذُ مَذْهَبَنَا عَنْ الْمُخَالِفِينَ: وَقَالَ بَعْضُ الْأَصْحَابِ عِيسَى ثِقَةٌ لَا يُتَّهَمُ فِيمَا نحكيه: فَفِي الْمَسْأَلَةِ قَوْلَانِ.

وَقَالَ صَاحِبُ الْحَاوِي نَصُّهُ فِي كُتُبِهِ الْقَدِيمَةِ وَالْجَدِيدَةِ وَمَا نَقَلَهُ جَمِيعُ أَصْحَابِهِ سَمَاعًا وَرِوَايَةً أَنَّهُ غَيْرُ طَهُورٍ: وَحَكَى عِيسَى بْنُ أَبَانَ فِي الْخِلَافِ عَنْ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ طَهُورٌ: وَقَالَ أَبُو ثَوْرٍ سَأَلْتُ الشَّافِعِيَّ عنه فتوقف: فقال أبو اسحق وأبو حامد المروروذى فِيهِ قَوْلَانِ.

وَقَالَ ابْنُ سُرَيْجٍ
وَأَبُو عَلِيِّ بْنُ أَبِي هُرَيْرَةَ لَيْسَ بِطَهُورٍ قَطْعًا.

وَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ عِيسَى وَإِنْ كَانَ ثِقَةً فَيَحْكِي مَا حَكَاهُ أَهْلُ الْخِلَافِ.

وَلَمْ يَلْقَ الشَّافِعِيَّ فَيَحْكِيه سَمَاعًا وَلَا هُوَ مَنْصُوصٌ فَيَأْخُذُهُ مِنْ كُتُبِهِ وَلَعَلَّهُ تَأَوَّلَ كَلَامَهُ فِي نَصْرَةِ طَهَارَتِهِ ردا على أبي يوسف فجمله عَلَى جَوَازِ الطَّهَارَةِ بِهِ.

وَقَالَ الْمَحَامِلِيُّ قَوْلُ من رد رواية عيسى ليس بشئ لِأَنَّهُ ثِقَةٌ وَإِنْ كَانَ مُخَالِفًا قُلْتُ هَذَا هُوَ الصَّوَابُ.


یعنی ماء مستعمل کی طہارت کی روایت امام شافعیؒ سے عیسی بن ابان نے نقل کی ہے ۔

اور امام نوویؒ نے انہیں امام المشہور فرمایا ہے ۔ اور اگرچہ بعض شوافع نے اس روایت کو تسلیم نہیں کیا تو صرف یہ فرمایا ہے کہ
عیسی مخالف مذہب (یعنی حنفی) سے ہیں اس لئے ان کی روایت کو ترجیح نہیں ۔ اور پھر بھی بڑے بڑے ائمہ شوافع ابن سریج ؒ ، ابو علی بن ابی ہریرہؒ ، المحاملیؒ وغیرہ نے فرمایا ہے کہ عیسیؒ ثقہ ہیں ۔ اور امام نوویؒ بھی تائید کر رہے ہیں ۔

ابھی مسئلہ سے بحث نہیں بس یہ بتانا ہے کہ اتنے بڑے بڑے ائمہ شوافع خصوصاََ امام نوویؒ اپنے مخالف مذہب کے امام کے بارے میں کتنا اچھا گمان رکھتے ہیں ۔اور کیسے ان کی توثیق کر رہے ہیں ۔
 
Top