جمشید بھائی کا ایک تحقیقی مضمون ۔
امام عیسی بن ابانؒ :حیات وخدمات
عبیداختررحمانی ،نگراں :شعبہ تحقیق،المعہد العالی الاسلامی،حیدرآباد
Jamsed.akhtar@gmail.com
نام ونسب: نام عیسی والد کانام ابان اورداداکانام صدقہ ہے،پورانسب نامہ یہ ہے۔عيسى بن ابان بن صدقۃ بن عدي بن مرادن شاہ۔کنیت ابوموسی ہے۔) الفہرست لابن الندیم۱؍۲۵۵، دار المعرفة بيروت،لبنان(کنیت کے سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقریباًسارے ترجمہ نگاروں نے جن میں قاضی وکیع،قاضی صیمری ،خطیب بغدادی، ابن جوزی ،حافظ ذہبی ،حافظ عبدالقادر قرشی،حافظ قاسم بن قطلوبغا وغیرہ شامل ہیں، سبھی نے آپ کی کنیت ابوموسیٰ ذکر کی ہے، محض حافظ ابن حجر نے آپ کی کنیت ابومحمد ذکر کی ہے(لسان المیزان ۶؍۲۵۶) اورکسی بھی تذکرہ نگار نے اس کی بھی صراحت نہیں کی ہےکہ آپ کی دوکنیت تھی ،ہرایک نے آپ کی محض ایک ہی کنیت ’ابوموسی‘کا ذکر کیاہے،بادی النظر میں ایسامحسوس ہوتاہے کہ شاید اس بارے میں حافظ ابن حجر سے کسی قسم کاذہول ہواہے۔
خاندان :عیسی بن ابان کے خاندان کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چلتاکہ ان کےبیٹے بیٹیاں کتنے تھے،اوردیگر رشتہ دار کون کون تھے،ایسا صرف عیسی بن ابان کے ساتھ نہیں بلکہ دیگر اکابرین کے ساتھ بھی ہوا ہے، عیسی بن ابان کے حالات کی تلاش وتحقیق کے بعد ان کے دورشتہ داروں کا پتہ چلتاہے۔
ابوحمزہ بغدادی:آپ کانام محمد،والد کانام ابراہیم اور کنیت ابوحمزہ ہے، آپ کا شمار کبارصوفیاء میں ہوتاہے، آپ نے اپنےعہد کے جلیل القدر محدثین سے علم حاصل کیاتھا ،علم قرآت بالخصوص ابوعمرو کی قرات میں آپ ممتاز مقام کے مالک تھے،دنیا جہان کا سفر کیاتھا ،آپ کا حلقہ ارادت ومحبت کافی وسیع تھا، ایک جانب جہاں آپ جنید بغدادی ،سری سقطی اوربشرحافی جیسے اکابر صوفیاء کے ہم نشیں تھے تو دوسری جانب امام احمد بن حنبل کے مجلس کے بھی حاضرباش تھے اوربعض مسائل میں امام احمد بن حنبل بھی آپ کی رائے دریافت کرتے تھے،تذکرہ نگاروں میں سے بعض نے آپ کو عیسی بن ابان کا’ مولی‘قراردیاہے ،جب کہ بعض نے آپ کو عیسی بن ابان کی اولاد میں شمار کیاہے،اس بارے میں شاید قول فیصل ابن الاعرابی کا قول ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے بارے میں عیسی بن ابان کی اولاد سے دریافت کیاتوانہوں نے اعتراف کیاکہ آپ کا سلسلہ نسب عیسی بن ابان سے ہی ملتاہے۔(سیر اعلام النبلاء،۱۳؍۱۶۵،تاریخ دمشق ۵۱؍۲۵۲،ترجمہ نمبر۶۰۶۲)آپ کا انتقال ۲۷۰ہجری مطابق ۸۸۳ء میں ہواہے(الاعلام للزرکلی۵؍۲۹۴)
نائل بن نجیح:نام اورکنیت ابوسہل ہے ،نائل بن نجیح کو متعدد تذکرہ نگاروں نے عیسی بن ابان کا ماموں قراردیاہے لیکن مجھ کو اس وجہ سے توقف تھاکہ عیسی بن ابان کے نام سے ایک اور راوی ہیں جورقاشی ہیں ،بظاہربصرہ کا ہونے کی وجہ سے زیادہ احتمال یہی تھا کہ نائل عیسی بن ابان حنفی کے ہی ماموں ہیں، لیکن کہیں اور اس کی وضاحت نہیں مل رہی تھی،تفتیش کے بعد یہ بات ملی کہ حافظ ابن کثیر نے وضاحت کی ہے کہ نائل بن نجیح ،ابوسہل بصری اورجن کو بغدادی بھی کہاجاتاہے، عیسی بن ابان القاضی کے ماموں ہیں، قاضی کی وضاحت سے اس کی تعیین ہوگئی کہ نائل بن نجیح عیسی صاحب تذکرہ عیسی بن ابان کے ہی ماموں ہیں(التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل۱؍۳۳۰)
اساتذہ ومشائخ:آپ نے ابتدائی زندگی میں کس سے تعلیم حاصل کی اورکن شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیا،اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔صرف اتناتذکرہ ملتاہے کہ ابتداء میں اصحاب حدیث میں تھے اورانہیں کے مسلک پر عمل پیراتھے، بعد میں امام محمد سے رابطہ میں آنے پر حنفی فکر وفقہ سے متاثرہوکر حنفی ہوگئے۔
ومنهم أبو موسى عيسى بن أبان بن صدقة: وكان من أصحاب الحديث ثم غلب عليه الرأي(طبقات الفقہاء لابی اسحاق الشیرازی صفحہ50، من مکتبہ مشکاۃ)
اوران میں سے (فقہاء حنفیہ)ایک عیسی بن ابان بن صدقہ بھی ہیں وہ اصحاب حدیث میں تھے پھر ان پرفقہ غالب آگئی۔
علم حدیث کی تحصیل انہوں نے اپنے عہد کے جلیل القدر محدثین سے کی، حافظ ذہبی اس بارے میں لکھتے ہیں:
وحدّث عن: هشيم، وإسماعيل بن جعفر، ويحيى بن أبي زائدة. (تاريخ الإسلام للذهبي 16/ 312)ہشیم، اسماعیل بن جعفر اوریحیی بن ابی زائدہ سے انہوں نے روایت کی ہے۔
امام عیسی بن ابان کس طرح محدثین کی صف سے نقل کراہل فقہ کی جماعت مین شامل ہوئے، اس تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں نقل کیاہے۔
محدثین کی صف سے نکل کر فقیہہ بننے کا دلچسپ واقعہ: خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں عیسی بن ابان کے ترجمہ میں محمد بن سماعہ سے نقل کیاہے:
’’ عیسی بن ابان ہمارے ساتھ اسی مسجد میں نماز پڑھاکرتے تھے جس میں امام محمد بن حسن الشیبانی نماز پڑھتے تھے اورفقہ کی تدریس کیلئے بیٹھاکرتے تھے۔میں (محمد بن سماعہ)عیسی بن ابان کو محمد بن حسن الشیبانی کی مجلس فقہ میں شرکت کیلئے بلاتارہتاتھا لیکن وہ کہتے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جواحادیث کی مخالفت کرتے ہیں۔اصل الفاظ ہیں۔ھولاء قوم یخالفون الحدیث"عیسیٰ بن ابان کو خاصی احادیث یاد تھیں،ایک دن ایساہوا کہ فجر کی نماز ہم نے ساتھ پڑھی،اس کے بعد میں نے عیسی بن ابان کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ امام محمد بن حسن کی مجلس فقہ نہ لگ گئی، پھر میں ان کے قریب ہوا اورکہایہ آپ کے بھانجے ہیں،یہ ذہین ہیں اوران کو حدیث کی معرفت بھی ہے،میں ان کو جب بھی آپ کی مجلس فقہ میں شرکت کی دعوت دیتاہوں تویہ کہتے ہیں کہ آپ حضرات حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔امام محمد ان کی جانب متوجہ ہوئے اورفرمایا :اے میرے بیٹے تم نے کس بناءپر یہ خیال کیاکہ ہم حدیث کی مخالف کرتے ہیں(یعنی ہمارے کونسے ایسے مسائل اورفتاوی ہیں جس میں حدیث کی مخالفت کی جاتی ہے)پھراسی کے ساتھ امام محمد نے نصیحت بھی فرمائیلاتشھد علینا حتی تسمع مناہمارے بارے میں کوئی رائےتب تک قائم مت کرو جب تک ہماراموقف نہ سن لو،عیسی بن ابان نےامام محمد سے حدیث کے پچیس ابواب کے متعلق سوال کیا(جن کے بارے میں ان کو شبہ تھا کہ ائمہ احناف کے مسائل اس کے خلاف ہیں)امام محمد نے ان تمام پچیس ابواب حدیث کے متعلق جواب دیا اوران احادیث میں سے جومنسوخ تھیں، اس کو بتایااوراس پر دلائل اورشواہد پیش کئے۔عیسی بن ابان نے باہر نکلنے کے بعد مجھ سے کہاکہ میرے اورروشنی کے درمیان ایک پردہ حائل تھاجو اٹھ گیا، میرانہیں خیال ہے کہ اللہ کی زمین میں اس جیسا(صاحب فضل وکمال)کوئی دوسرابھی ہے،اس کے بعد انہوں نے امام محمد کی شاگردی اختیار کی ۔(تاریخ بغداد۔جلد12،صفحہ480،تحقیق دکتوربشارعواد معروف۔مطبع دارالغرب الاسلامی)
نوٹ:اس سند کے ایک راوی احمد بن مغلس الحمانی ہیں جن کی محدثین نے تضعیف اورتکذیب کی ہے لیکن تاریخی شخصیات اورروایات کے بارے میں وہی شدت پسندی برقراررکھنا جو کہ حدیث کے بارے میں ہے ،ایک غلط خیال اورنظریہ ہے۔یہ بات تقریباًان کے بیشترترجمہ نگاران نے بیان کی ہے کہ وہ اصحاب حدیث میں سے تھے ،بعد میں انہوں نے فقہ کی جانب رخ کیا،خطیب بغدادی کا بیان کردہ واقعہ ہمیں صرف یہ بتاتاہے کہ محدثین کی جماعت میں سے نکل کر فقہاء کی جماعت میں وہ کیسے داخل ہوگئے،اس کاپس منظرکیاتھا اوربس،ظاہر ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اس واقعہ کو قبول نہ کیاجائے،آخر کوئی تو وجہہ ہوگی جس کی وجہ سے امام عیسی بن ابان محدثین کی صف سے نکل کر فقہاء کی صف میں اوربطور خاص فقہاء احناف کی صف میں شامل ہوئے ،جن کے خلاف ایک عام پروپگنڈہ کیاگیاتھاکہ وہ رائے کو حدیث پرترجیح دیتے ہیں اورحدیث کی مخالفت کرتے ہیں، اسی پس منظر اوروجہ کو احمد بن مغلس الحمانی نے بیان کیاہے۔ اوراس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے اس واقعے کو قبول نہ کیاجائے۔
امام محمد سے تحصیل فقہ:اوپر تاریخ بغداد کے حوالہ سے پیش کردہ واقعہ،اس کے علاوہ حافظ ذہبی نے بھی سیر اعلام النبلاء میں اس کی وضاحت کی ہے کہ امام عیسی بن ابان نے امام محمد سے تحصیل فقہ کیاتھا۔چنانچہ وہ سیر اعلام النبلاء جلد10،صفحہ 440میں لکھتےہیں۔فقیہ العراق، تلمیذ محمد بنالحسن،کہ وہ عراق کے فقیہ اورامام محمد کے شاگرد تھے۔حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں وتفقہ علیہ یعنی عیسی بن ابان کے فقہ میں خصوصی استاد محمد بن الحسنؒ ہیں۔(لسان المیزان ۶؍۲۵۶)
عیسی بن ابان نے کتنی مدت تک امام محمد سے تحصیل علم کیا، ابن ندیم نے الفہرست میں ذکر کیاہے کہ انہوں نے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے بہت کم مدت تک تحصیل علم کیا۔ويقال انه كان قليل الأخذ عن محمد بن الحسن(الفہرست لابن الندیم۱؍۲۵۴)،یہی بات وکیع نے بھی اخبارالقضاۃ میں لکھی ہے کہ ان کا امام محمد سے تحریری طورپر استفادہ کا تعلق کم رہا۔ كان عيسى ابن أبان قليل الكتاب عَن مُحَمَّد بْن الْحَسَن(اخبارالقضاۃ۲؍۱۷۱) الجواہرالمضیئۃ فی طبقات الحنیفہ میں اس مدت کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ وہ مدت چھ مہینے کی تھی چنانچہ صاحب طبقات الحنفیہ ابن ابی الوفاء ذکرکرتے ہیں۔
تفقه على محمد بن الحسن قيل أنه لزمه ستة أشهر.(الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ ص 272،مکتبہ مشکاۃ)لیکن مشکل یہ ہے کہ دونوں جگہ یعنی ابن ندیم کی الفہرست اورالجواہرالمضیئۃ میں اس قول کو "قیل"سے نقل کیاگیاہے جوکہ کمزور اقوال کے نقل کیلئے خاص ہے،جب کہ دوسری جانب ان کے ترجمہ نگاروں نے ان کے فقہ کے اساتذہ میں امام محمد کاخاص طورسے نام لیاہے اس سے اس قیاس کی تائید ہوتی ہے کہ امام عیسی بن ابان کی امام محمد کی شاگردی کی مدت خاصی طویل ہوگی۔چھ مہینے کی مختصر مدت نہیں ہوگی،مشہور حنفی فقیہ قاضی صیمری امام طحاوی کے واسطہ سے ابوخازم سے نقل کرتے ہیں:
أخبرنَا عبد الله بن مُحَمَّد الْأَسدي قَالَ أنبأ أَبُو بكر الدَّامغَانِي الْفَقِيه قَالَ ثَنَا أَحْمد ابْن مُحَمَّد بن سَلمَة بن سَلامَة قَالَ سَمِعت أَبَا خازم يَقُول إِنَّمَا لزم عِيسَى بن أبان مُحَمَّد بن الْحسن سِتَّة أشهر ثمَّ كَانَ يكاتبه إِلَى الرقة أخبار أبي حنيفة وأصحابه۱۴۷؍۱،أبو عبد الله الصَّيْمَري الحنفي (المتوفى: 436هـ)عالم الكتب – بيروت)
ابوخازم کہتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے امام محمد سے چھ مہینےبراہ راست استفادہ کیا، بعد میں جب امام محمدکو ہارون رشید اپنے ساتھ رقہ لے گیا تو عیسی بن ابان نے امام محمد سے خط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کیا۔
صیمری کی نقل کردہ روایت تسلیم کرنے سے یہ تومعلوم ہوتاہے کہ عیسی بن ابان امام محمد کے ’’رقہ ‘‘چلے جانے کے بعد بھی خط وکتابت کے ذریعہ مستفید ہوتے رہے ،ابن ابی العوام کی تصنیف ’فضائل ابی حنیفہ‘ سے معلوم ہوتاہے کہ امام محدم سے براہ راست استفادہ کی مدت ۱۱مہینے تھی، چنانچہ وہ ابوخازم سے ہی روایت نقل کرتے ہیں کہ امام محمد سے عیسی بن ابان کے استفادہ یاشاگردی کی کل مدت گیارہ مہینے ہے۔
أبا خازم القاضي يقول: قال لي عبد الرحمن بن نابل: ما جالس عيسى بن أبان محمد بن الحسن إلا أحد عشر شهراً، وتوفي عيسى بن أبان سنة عشرين ومائتين.( فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ۱؍۳۶۰، الناشر: المكتبة الإمدادية - مكة المكرمة)
ابوخازم قاضی کہتے ہیں کہ مجھ سےعبدالرحمن بن نابل نے کہا:عیسی بن ابان کے امام محمد سے استفادہ کی کل مدت گیارہ مہینے ہےاور عیسی بن ابان کاانتقال ۲۲۰ھجری میں ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ ماقبل میں جوکچھ عرض کیاگیا،یہ تمام ہی باتیں تحقیق کے معیارپر پوری نہیں اترتی ہیں، امام محمد کا رقہ جاناان کے انتقال سے کئی برس قبل کا واقعہ ہے، آپ رقہ میں کتنی مدت رہے،اس کے بارے میں بروکلمان نے لکھاہے کہ کئی سال رہے،پھر رقہ کے قضاء سے آپ کو معزول کردیاگیاہے،اس درمیان آپ بغداد میں رہے،پھر قاضی القضاۃ بنائے گئے اورپھر ہارون رشید کے ساتھ’ رے ‘گئے تھے کہ وہیں انتقال ہوگیا۔(تفصیل کیلئے دیکھئے :امام محمد بن الحسن شیبانی اوران کی فقہی خدمات ص:۱۱۳ تا۱۲۵)اس سے واضح رہے کہ عیسی بن ابان نے آپ سے کئی سال تک استفادہ کیاہے ،کیوں کہ رقہ کا واقعہ امام محمد کی وفات سے کئی سال قبل کا ہے اور یہ بالکل غیرفطری ہے کہ رقہ میں جب تک امام محمد رہیں تو عیسی بن ابان ان سےخط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کریں لیکن جب امام محمد معزول ہوکر بغداد میں تشریف فرماہوں تو عیسی بن ابان استفادہ نہ کریں اورجب ری چلے جائیں تو وہاں جاکر استفادہ نہ کریں، ماقبل میں جتنے اقوال امام محمد سے استفادہ کے سلسلے میں گزرے ہیں، ان کےبارے میں ہماراخیال یہ ہےکہ یہ ابتداء کی مدت بتائی جارہی ہے کہ عیسی بن ابان کو ابتداء میں کس قدر استفادہ کا براہ راست موقع ملا۔
امام محمد علیہ الرحمہ سے طویل استفادہ کا ہی فیض تھاکہ عیسی بن ابان کی امام محمد کے اقوال وعلوم پر گہری نگاہ تھی ،جوبات دوسروں کو بھی معلوم نہیں ہوتی تھی وہ عیسی بن ابان کے علم میں ہوتی تھی،چنانچہ ایک واقعہ میں انہوں نے وراثت کے مسئلہ میں نواسوں اورپوتوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا توبعض فقہاء احناف نے ان پر ائمہ احناف کے قول سے باہر نکلنے کر فیصلہ کرنے کی بات کہی، عیسی بن ابان نے کہا:میں نے جو فیصلہ کیاہے وہ امام محمد کا بھی قول ہے، اس کو بکار بن قتیبہ،ہلال بن یحیی اورامام محمد کےد وسرے شاگرد جان نہ سکے لیکن ابوخازم نے اعتراف کیاکہ یہ امام محمد بن حسن کا ہی قول ہے اور عیسی بن ابان سچ کہتے ہیں ۔(اخبار ابی حنیفۃ۱؍۱۵۲)
امام محمد نے امام ابویوسف سے کوئی استفادہ کیایانہیں کیا،اس بارے میں عیسی بن ابن کے تمام سوانح نگار خاموش ہیں، قاضی وکیع لکھتے ہیں:
ولم يخبرني إنسان أنه رآه عند أبي يوسف (أخبار القضاة۲؍۱۷۱)’’مجھے کسی بھی شخص نے یہ نہیں بتایاکہ اس نے عیسی بن ابان کو ابویوسف کے پاس دیکھاہے‘‘
اس سے انداز ہوتاہےکہ عیسی بن ابان نے امام ابویوسف سے استفادہ نہیں کیاہے،امام ابویوسف سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ آپ نے امام محمد کا دامن ان کے انتقال سے محض گیارہ مہینے قبل تھاما اور امام محمد کے انتقال سے کئی برس قبل امام ابویوسف کا انتقال ہوچکاتھایعنی جس وقت وہ امام محمد سے وابستہ ہوئے،اس سے پہلے امام ابویوسف کاانتقال ہوچکاتھا اورجب امام ابویوسف باحیات تھے ان سے اس مسلکی اورگروہی اختلاف کی بناءپر استفادہ نہیں کیاہوگا۔
امام عیسی بن ابانؒ :حیات وخدمات
عبیداختررحمانی ،نگراں :شعبہ تحقیق،المعہد العالی الاسلامی،حیدرآباد
Jamsed.akhtar@gmail.com
نام ونسب: نام عیسی والد کانام ابان اورداداکانام صدقہ ہے،پورانسب نامہ یہ ہے۔عيسى بن ابان بن صدقۃ بن عدي بن مرادن شاہ۔کنیت ابوموسی ہے۔) الفہرست لابن الندیم۱؍۲۵۵، دار المعرفة بيروت،لبنان(کنیت کے سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقریباًسارے ترجمہ نگاروں نے جن میں قاضی وکیع،قاضی صیمری ،خطیب بغدادی، ابن جوزی ،حافظ ذہبی ،حافظ عبدالقادر قرشی،حافظ قاسم بن قطلوبغا وغیرہ شامل ہیں، سبھی نے آپ کی کنیت ابوموسیٰ ذکر کی ہے، محض حافظ ابن حجر نے آپ کی کنیت ابومحمد ذکر کی ہے(لسان المیزان ۶؍۲۵۶) اورکسی بھی تذکرہ نگار نے اس کی بھی صراحت نہیں کی ہےکہ آپ کی دوکنیت تھی ،ہرایک نے آپ کی محض ایک ہی کنیت ’ابوموسی‘کا ذکر کیاہے،بادی النظر میں ایسامحسوس ہوتاہے کہ شاید اس بارے میں حافظ ابن حجر سے کسی قسم کاذہول ہواہے۔
خاندان :عیسی بن ابان کے خاندان کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چلتاکہ ان کےبیٹے بیٹیاں کتنے تھے،اوردیگر رشتہ دار کون کون تھے،ایسا صرف عیسی بن ابان کے ساتھ نہیں بلکہ دیگر اکابرین کے ساتھ بھی ہوا ہے، عیسی بن ابان کے حالات کی تلاش وتحقیق کے بعد ان کے دورشتہ داروں کا پتہ چلتاہے۔
ابوحمزہ بغدادی:آپ کانام محمد،والد کانام ابراہیم اور کنیت ابوحمزہ ہے، آپ کا شمار کبارصوفیاء میں ہوتاہے، آپ نے اپنےعہد کے جلیل القدر محدثین سے علم حاصل کیاتھا ،علم قرآت بالخصوص ابوعمرو کی قرات میں آپ ممتاز مقام کے مالک تھے،دنیا جہان کا سفر کیاتھا ،آپ کا حلقہ ارادت ومحبت کافی وسیع تھا، ایک جانب جہاں آپ جنید بغدادی ،سری سقطی اوربشرحافی جیسے اکابر صوفیاء کے ہم نشیں تھے تو دوسری جانب امام احمد بن حنبل کے مجلس کے بھی حاضرباش تھے اوربعض مسائل میں امام احمد بن حنبل بھی آپ کی رائے دریافت کرتے تھے،تذکرہ نگاروں میں سے بعض نے آپ کو عیسی بن ابان کا’ مولی‘قراردیاہے ،جب کہ بعض نے آپ کو عیسی بن ابان کی اولاد میں شمار کیاہے،اس بارے میں شاید قول فیصل ابن الاعرابی کا قول ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے بارے میں عیسی بن ابان کی اولاد سے دریافت کیاتوانہوں نے اعتراف کیاکہ آپ کا سلسلہ نسب عیسی بن ابان سے ہی ملتاہے۔(سیر اعلام النبلاء،۱۳؍۱۶۵،تاریخ دمشق ۵۱؍۲۵۲،ترجمہ نمبر۶۰۶۲)آپ کا انتقال ۲۷۰ہجری مطابق ۸۸۳ء میں ہواہے(الاعلام للزرکلی۵؍۲۹۴)
نائل بن نجیح:نام اورکنیت ابوسہل ہے ،نائل بن نجیح کو متعدد تذکرہ نگاروں نے عیسی بن ابان کا ماموں قراردیاہے لیکن مجھ کو اس وجہ سے توقف تھاکہ عیسی بن ابان کے نام سے ایک اور راوی ہیں جورقاشی ہیں ،بظاہربصرہ کا ہونے کی وجہ سے زیادہ احتمال یہی تھا کہ نائل عیسی بن ابان حنفی کے ہی ماموں ہیں، لیکن کہیں اور اس کی وضاحت نہیں مل رہی تھی،تفتیش کے بعد یہ بات ملی کہ حافظ ابن کثیر نے وضاحت کی ہے کہ نائل بن نجیح ،ابوسہل بصری اورجن کو بغدادی بھی کہاجاتاہے، عیسی بن ابان القاضی کے ماموں ہیں، قاضی کی وضاحت سے اس کی تعیین ہوگئی کہ نائل بن نجیح عیسی صاحب تذکرہ عیسی بن ابان کے ہی ماموں ہیں(التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل۱؍۳۳۰)
اساتذہ ومشائخ:آپ نے ابتدائی زندگی میں کس سے تعلیم حاصل کی اورکن شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیا،اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔صرف اتناتذکرہ ملتاہے کہ ابتداء میں اصحاب حدیث میں تھے اورانہیں کے مسلک پر عمل پیراتھے، بعد میں امام محمد سے رابطہ میں آنے پر حنفی فکر وفقہ سے متاثرہوکر حنفی ہوگئے۔
ومنهم أبو موسى عيسى بن أبان بن صدقة: وكان من أصحاب الحديث ثم غلب عليه الرأي(طبقات الفقہاء لابی اسحاق الشیرازی صفحہ50، من مکتبہ مشکاۃ)
اوران میں سے (فقہاء حنفیہ)ایک عیسی بن ابان بن صدقہ بھی ہیں وہ اصحاب حدیث میں تھے پھر ان پرفقہ غالب آگئی۔
علم حدیث کی تحصیل انہوں نے اپنے عہد کے جلیل القدر محدثین سے کی، حافظ ذہبی اس بارے میں لکھتے ہیں:
وحدّث عن: هشيم، وإسماعيل بن جعفر، ويحيى بن أبي زائدة. (تاريخ الإسلام للذهبي 16/ 312)ہشیم، اسماعیل بن جعفر اوریحیی بن ابی زائدہ سے انہوں نے روایت کی ہے۔
امام عیسی بن ابان کس طرح محدثین کی صف سے نقل کراہل فقہ کی جماعت مین شامل ہوئے، اس تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں نقل کیاہے۔
محدثین کی صف سے نکل کر فقیہہ بننے کا دلچسپ واقعہ: خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں عیسی بن ابان کے ترجمہ میں محمد بن سماعہ سے نقل کیاہے:
’’ عیسی بن ابان ہمارے ساتھ اسی مسجد میں نماز پڑھاکرتے تھے جس میں امام محمد بن حسن الشیبانی نماز پڑھتے تھے اورفقہ کی تدریس کیلئے بیٹھاکرتے تھے۔میں (محمد بن سماعہ)عیسی بن ابان کو محمد بن حسن الشیبانی کی مجلس فقہ میں شرکت کیلئے بلاتارہتاتھا لیکن وہ کہتے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جواحادیث کی مخالفت کرتے ہیں۔اصل الفاظ ہیں۔ھولاء قوم یخالفون الحدیث"عیسیٰ بن ابان کو خاصی احادیث یاد تھیں،ایک دن ایساہوا کہ فجر کی نماز ہم نے ساتھ پڑھی،اس کے بعد میں نے عیسی بن ابان کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ امام محمد بن حسن کی مجلس فقہ نہ لگ گئی، پھر میں ان کے قریب ہوا اورکہایہ آپ کے بھانجے ہیں،یہ ذہین ہیں اوران کو حدیث کی معرفت بھی ہے،میں ان کو جب بھی آپ کی مجلس فقہ میں شرکت کی دعوت دیتاہوں تویہ کہتے ہیں کہ آپ حضرات حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔امام محمد ان کی جانب متوجہ ہوئے اورفرمایا :اے میرے بیٹے تم نے کس بناءپر یہ خیال کیاکہ ہم حدیث کی مخالف کرتے ہیں(یعنی ہمارے کونسے ایسے مسائل اورفتاوی ہیں جس میں حدیث کی مخالفت کی جاتی ہے)پھراسی کے ساتھ امام محمد نے نصیحت بھی فرمائیلاتشھد علینا حتی تسمع مناہمارے بارے میں کوئی رائےتب تک قائم مت کرو جب تک ہماراموقف نہ سن لو،عیسی بن ابان نےامام محمد سے حدیث کے پچیس ابواب کے متعلق سوال کیا(جن کے بارے میں ان کو شبہ تھا کہ ائمہ احناف کے مسائل اس کے خلاف ہیں)امام محمد نے ان تمام پچیس ابواب حدیث کے متعلق جواب دیا اوران احادیث میں سے جومنسوخ تھیں، اس کو بتایااوراس پر دلائل اورشواہد پیش کئے۔عیسی بن ابان نے باہر نکلنے کے بعد مجھ سے کہاکہ میرے اورروشنی کے درمیان ایک پردہ حائل تھاجو اٹھ گیا، میرانہیں خیال ہے کہ اللہ کی زمین میں اس جیسا(صاحب فضل وکمال)کوئی دوسرابھی ہے،اس کے بعد انہوں نے امام محمد کی شاگردی اختیار کی ۔(تاریخ بغداد۔جلد12،صفحہ480،تحقیق دکتوربشارعواد معروف۔مطبع دارالغرب الاسلامی)
نوٹ:اس سند کے ایک راوی احمد بن مغلس الحمانی ہیں جن کی محدثین نے تضعیف اورتکذیب کی ہے لیکن تاریخی شخصیات اورروایات کے بارے میں وہی شدت پسندی برقراررکھنا جو کہ حدیث کے بارے میں ہے ،ایک غلط خیال اورنظریہ ہے۔یہ بات تقریباًان کے بیشترترجمہ نگاران نے بیان کی ہے کہ وہ اصحاب حدیث میں سے تھے ،بعد میں انہوں نے فقہ کی جانب رخ کیا،خطیب بغدادی کا بیان کردہ واقعہ ہمیں صرف یہ بتاتاہے کہ محدثین کی جماعت میں سے نکل کر فقہاء کی جماعت میں وہ کیسے داخل ہوگئے،اس کاپس منظرکیاتھا اوربس،ظاہر ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اس واقعہ کو قبول نہ کیاجائے،آخر کوئی تو وجہہ ہوگی جس کی وجہ سے امام عیسی بن ابان محدثین کی صف سے نکل کر فقہاء کی صف میں اوربطور خاص فقہاء احناف کی صف میں شامل ہوئے ،جن کے خلاف ایک عام پروپگنڈہ کیاگیاتھاکہ وہ رائے کو حدیث پرترجیح دیتے ہیں اورحدیث کی مخالفت کرتے ہیں، اسی پس منظر اوروجہ کو احمد بن مغلس الحمانی نے بیان کیاہے۔ اوراس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے اس واقعے کو قبول نہ کیاجائے۔
امام محمد سے تحصیل فقہ:اوپر تاریخ بغداد کے حوالہ سے پیش کردہ واقعہ،اس کے علاوہ حافظ ذہبی نے بھی سیر اعلام النبلاء میں اس کی وضاحت کی ہے کہ امام عیسی بن ابان نے امام محمد سے تحصیل فقہ کیاتھا۔چنانچہ وہ سیر اعلام النبلاء جلد10،صفحہ 440میں لکھتےہیں۔فقیہ العراق، تلمیذ محمد بنالحسن،کہ وہ عراق کے فقیہ اورامام محمد کے شاگرد تھے۔حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں وتفقہ علیہ یعنی عیسی بن ابان کے فقہ میں خصوصی استاد محمد بن الحسنؒ ہیں۔(لسان المیزان ۶؍۲۵۶)
عیسی بن ابان نے کتنی مدت تک امام محمد سے تحصیل علم کیا، ابن ندیم نے الفہرست میں ذکر کیاہے کہ انہوں نے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے بہت کم مدت تک تحصیل علم کیا۔ويقال انه كان قليل الأخذ عن محمد بن الحسن(الفہرست لابن الندیم۱؍۲۵۴)،یہی بات وکیع نے بھی اخبارالقضاۃ میں لکھی ہے کہ ان کا امام محمد سے تحریری طورپر استفادہ کا تعلق کم رہا۔ كان عيسى ابن أبان قليل الكتاب عَن مُحَمَّد بْن الْحَسَن(اخبارالقضاۃ۲؍۱۷۱) الجواہرالمضیئۃ فی طبقات الحنیفہ میں اس مدت کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ وہ مدت چھ مہینے کی تھی چنانچہ صاحب طبقات الحنفیہ ابن ابی الوفاء ذکرکرتے ہیں۔
تفقه على محمد بن الحسن قيل أنه لزمه ستة أشهر.(الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ ص 272،مکتبہ مشکاۃ)لیکن مشکل یہ ہے کہ دونوں جگہ یعنی ابن ندیم کی الفہرست اورالجواہرالمضیئۃ میں اس قول کو "قیل"سے نقل کیاگیاہے جوکہ کمزور اقوال کے نقل کیلئے خاص ہے،جب کہ دوسری جانب ان کے ترجمہ نگاروں نے ان کے فقہ کے اساتذہ میں امام محمد کاخاص طورسے نام لیاہے اس سے اس قیاس کی تائید ہوتی ہے کہ امام عیسی بن ابان کی امام محمد کی شاگردی کی مدت خاصی طویل ہوگی۔چھ مہینے کی مختصر مدت نہیں ہوگی،مشہور حنفی فقیہ قاضی صیمری امام طحاوی کے واسطہ سے ابوخازم سے نقل کرتے ہیں:
أخبرنَا عبد الله بن مُحَمَّد الْأَسدي قَالَ أنبأ أَبُو بكر الدَّامغَانِي الْفَقِيه قَالَ ثَنَا أَحْمد ابْن مُحَمَّد بن سَلمَة بن سَلامَة قَالَ سَمِعت أَبَا خازم يَقُول إِنَّمَا لزم عِيسَى بن أبان مُحَمَّد بن الْحسن سِتَّة أشهر ثمَّ كَانَ يكاتبه إِلَى الرقة أخبار أبي حنيفة وأصحابه۱۴۷؍۱،أبو عبد الله الصَّيْمَري الحنفي (المتوفى: 436هـ)عالم الكتب – بيروت)
ابوخازم کہتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے امام محمد سے چھ مہینےبراہ راست استفادہ کیا، بعد میں جب امام محمدکو ہارون رشید اپنے ساتھ رقہ لے گیا تو عیسی بن ابان نے امام محمد سے خط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کیا۔
صیمری کی نقل کردہ روایت تسلیم کرنے سے یہ تومعلوم ہوتاہے کہ عیسی بن ابان امام محمد کے ’’رقہ ‘‘چلے جانے کے بعد بھی خط وکتابت کے ذریعہ مستفید ہوتے رہے ،ابن ابی العوام کی تصنیف ’فضائل ابی حنیفہ‘ سے معلوم ہوتاہے کہ امام محدم سے براہ راست استفادہ کی مدت ۱۱مہینے تھی، چنانچہ وہ ابوخازم سے ہی روایت نقل کرتے ہیں کہ امام محمد سے عیسی بن ابان کے استفادہ یاشاگردی کی کل مدت گیارہ مہینے ہے۔
أبا خازم القاضي يقول: قال لي عبد الرحمن بن نابل: ما جالس عيسى بن أبان محمد بن الحسن إلا أحد عشر شهراً، وتوفي عيسى بن أبان سنة عشرين ومائتين.( فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ۱؍۳۶۰، الناشر: المكتبة الإمدادية - مكة المكرمة)
ابوخازم قاضی کہتے ہیں کہ مجھ سےعبدالرحمن بن نابل نے کہا:عیسی بن ابان کے امام محمد سے استفادہ کی کل مدت گیارہ مہینے ہےاور عیسی بن ابان کاانتقال ۲۲۰ھجری میں ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ ماقبل میں جوکچھ عرض کیاگیا،یہ تمام ہی باتیں تحقیق کے معیارپر پوری نہیں اترتی ہیں، امام محمد کا رقہ جاناان کے انتقال سے کئی برس قبل کا واقعہ ہے، آپ رقہ میں کتنی مدت رہے،اس کے بارے میں بروکلمان نے لکھاہے کہ کئی سال رہے،پھر رقہ کے قضاء سے آپ کو معزول کردیاگیاہے،اس درمیان آپ بغداد میں رہے،پھر قاضی القضاۃ بنائے گئے اورپھر ہارون رشید کے ساتھ’ رے ‘گئے تھے کہ وہیں انتقال ہوگیا۔(تفصیل کیلئے دیکھئے :امام محمد بن الحسن شیبانی اوران کی فقہی خدمات ص:۱۱۳ تا۱۲۵)اس سے واضح رہے کہ عیسی بن ابان نے آپ سے کئی سال تک استفادہ کیاہے ،کیوں کہ رقہ کا واقعہ امام محمد کی وفات سے کئی سال قبل کا ہے اور یہ بالکل غیرفطری ہے کہ رقہ میں جب تک امام محمد رہیں تو عیسی بن ابان ان سےخط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کریں لیکن جب امام محمد معزول ہوکر بغداد میں تشریف فرماہوں تو عیسی بن ابان استفادہ نہ کریں اورجب ری چلے جائیں تو وہاں جاکر استفادہ نہ کریں، ماقبل میں جتنے اقوال امام محمد سے استفادہ کے سلسلے میں گزرے ہیں، ان کےبارے میں ہماراخیال یہ ہےکہ یہ ابتداء کی مدت بتائی جارہی ہے کہ عیسی بن ابان کو ابتداء میں کس قدر استفادہ کا براہ راست موقع ملا۔
امام محمد علیہ الرحمہ سے طویل استفادہ کا ہی فیض تھاکہ عیسی بن ابان کی امام محمد کے اقوال وعلوم پر گہری نگاہ تھی ،جوبات دوسروں کو بھی معلوم نہیں ہوتی تھی وہ عیسی بن ابان کے علم میں ہوتی تھی،چنانچہ ایک واقعہ میں انہوں نے وراثت کے مسئلہ میں نواسوں اورپوتوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا توبعض فقہاء احناف نے ان پر ائمہ احناف کے قول سے باہر نکلنے کر فیصلہ کرنے کی بات کہی، عیسی بن ابان نے کہا:میں نے جو فیصلہ کیاہے وہ امام محمد کا بھی قول ہے، اس کو بکار بن قتیبہ،ہلال بن یحیی اورامام محمد کےد وسرے شاگرد جان نہ سکے لیکن ابوخازم نے اعتراف کیاکہ یہ امام محمد بن حسن کا ہی قول ہے اور عیسی بن ابان سچ کہتے ہیں ۔(اخبار ابی حنیفۃ۱؍۱۵۲)
امام محمد نے امام ابویوسف سے کوئی استفادہ کیایانہیں کیا،اس بارے میں عیسی بن ابن کے تمام سوانح نگار خاموش ہیں، قاضی وکیع لکھتے ہیں:
ولم يخبرني إنسان أنه رآه عند أبي يوسف (أخبار القضاة۲؍۱۷۱)’’مجھے کسی بھی شخص نے یہ نہیں بتایاکہ اس نے عیسی بن ابان کو ابویوسف کے پاس دیکھاہے‘‘
اس سے انداز ہوتاہےکہ عیسی بن ابان نے امام ابویوسف سے استفادہ نہیں کیاہے،امام ابویوسف سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ آپ نے امام محمد کا دامن ان کے انتقال سے محض گیارہ مہینے قبل تھاما اور امام محمد کے انتقال سے کئی برس قبل امام ابویوسف کا انتقال ہوچکاتھایعنی جس وقت وہ امام محمد سے وابستہ ہوئے،اس سے پہلے امام ابویوسف کاانتقال ہوچکاتھا اورجب امام ابویوسف باحیات تھے ان سے اس مسلکی اورگروہی اختلاف کی بناءپر استفادہ نہیں کیاہوگا۔