”ترجمہ“ مستقل ایک فن ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اس کی ضرورت واہمیت مسلم ہے، تراجم کی مختلف اصناف میں مذہبی تراجم سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں؛ اس لیے کہ ایک سروے کے مطابق دنیا بھر کے من جملہ تراجم کی خدمات میں نصف سے زائد خدمات مذہبی تراجم پر مشتمل ہیں۔ قرآنِ پاک کا ترجمہ سب سے پہلے لاطینی، پھر فرانسیسی اور پھر انگریزی میں ہوا، ایک سروے کے مطابق دنیا میں چھ ہزار پانچ سو (۶۵۰۰) زبانیں بولی جاتی ہیں، ان میں سے دو ہزار تین سو پچپن (۲۳۵۵) زبانوں میں انجیل کا ترجمہ ہوچکا ہے، اور مسلمان تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ قرآن مجیدکا ترجمہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوچکا ہے، اردو زبان آج سے چھ سات صدی پہلے وجود میں آئی، ترجمہ کی روایت اس میں دو سو سال بعد شروع ہوئی، اس زبان میں سب سے پہلے ”تمہیداتِ عین القضاة“ کا ترجمہ ”تمہیداتِ ہمدانی“ کے نام سے شاہ میراں جی خدانما نے ۱۶۰۳/ میں کیا، اردو زبان میں قرآنِ مجید کا سب سے پہلا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ کے فرزندِ ارجمند شاہ رفیع الدین صاحب رحمه الله نے ۱۷۷۶/ میں کیا، اس وقت اردو زبان کی نثر اچھی خاصی صاف، سادہ اور رواں ہوگئی تھی، لیکن وہ ترجمہ خاصا لفظی تھا؛ اس لیے ان کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمه الله نے ۱۷۹۵/ میں اس وقت کی فصیح وبلیغ رائج ومستند ٹکسالی زبان میں دوسرا ترجمہ کیا، یہ ترجمہ اتنا عمدہ ٹھہراکہ اس سے اہل علم مترجمین نے ترجمہ نویسی کے متعدد اصول وضع کیے۔ (ان ساری باتوں کے حوالوں کے لیے ترجمہ نگاری اور ابلاغیات، ص:۱۷۶ تا ۱۸۰ (مطبوعہ: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد) کو بھی دیکھا جاسکتا ہے) جب یہ ترجمہ بھی قدیم ہوگیا تو حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمه الله نے مالٹا کی جیل میں ان کو سامنے رکھ کر ایک عمدہ ترجمہ کیا، اور اب اسلامی کتب خانوں میں محض اردو زبان میں قرآنِ کریم کے ترجموں کی تعداد ساٹھ سے زائد ہوچکی ہے، اور تفسیروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
یہ حقیقت مسلم ہے کہ تفسیروں کا سب سے بڑا ذخیرہ عربی زبان میں ہے، یہی زبان دین اسلام کی صحیح اور مستند ترجمان ہے، اردو زبان میں مذہب اسلام کا سب سے زیادہ حصہ اسی زبان سے منتقل ہوا ہے، راقم الحروف نے اپنے اس مقالے میں تفسیروں کے محض ان ترجموں کے تعارف کو موضوع بنایا ہے، جو براہِ راست عربی سے اردو میں کیے گئے ہیں۔ ”بارہ تفسیروں“ کے کل تیئس ترجمے میرے محدود استقراء میںآ ئے ہیں، ان میں سے صرف ”پانچ تفسیریں“ ایسی ہیں، جن کے ترجمے مکمل ہوسکے ہیں، بقیہ تفسیروں کے ترجمے اب تک تشنہٴ تکمیل ہیں۔ الحمدللہ یہ سارے ترجمے علماء ہند کے ہیں، ان میں بھی چودہ ترجمے علماء دیوبند نے کیے ہیں، بقیہ کے بارے میں تحقیق نہ ہوسکی کہ وہ کس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اُن ترجموں کاتعارف پیش خدمت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از مولانا اشتیاق احمد مدرس دارلعلوم دیوبند
تفسیر ابن عباس رضي الله عنه
اصولِ تفسیر میں قرآنِ کریم کے معانی کی وضاحت کے لیے مفسرین نے چھ مآخذ ذکر فرمائے ہیں:
(۱) آیات کی تفسیر آیات ہی سے ہو۔
(۲) آیات کی تفسیر صحیح احادیث سے ہو۔
(۳) آیات کو آثارِ صحابہ رضي الله عنه کی روشنی میں سمجھا جائے۔
(۴) آیات کو تابعین رحمه الله کے ارشادات سے سمجھا جائے۔
(۵) لغتِ عربِ اولین سے بھی مرادِ الٰہی کی تعیین میں مدد ملتی ہے۔
(۶) آخری درجہ عقلِ سلیم اور فہمِ صحیح کا ہے۔
ان میں قرآن وحدیث کے بعد سب سے قابلِ اعتماد مآخذ صحابہٴ کرام رضي الله عنهم کے آثار ہیں؛ اس لیے کہ ہم تک دین کے پہنچنے کا سب سے اہم واسطہ صحابہٴ کرام رضي الله عنهم ہیں، انھوں نے ہی مشکوٰةِ نبوت سے اولین مرحلے میں روشنی حاصل کی، اگر ان پر ہمارا اعتماد نہ رہا تو دین کا سارا دفتر بے اعتبار ہوجائیگا، نعوذ باللہ قرآن کی آیات بھی مشکوک ہوجائیں گی؛ اس لیے کہ یہ بھی انھیں کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مفسرین نے آثارِ صحابہ رضي الله عنهم کو بڑی اہمیت دی ہے، ان میں بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنه کا امتیاز مسلم ہے، یہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے، فہمِ آیات میں انھیں ایک خاص ذوق حاصل تھا، اور وہ دعائے نبوی کی برکت تھی (فتح الباری:۱/۱۷۰) آپ کو ”ترجمانُ القرآن“ کے مبارک لقب سے نوازاگیا (ابن مسعود رضي الله عنه ، مستدرکِ حاکم) آپ رضي الله عنه میں سارے صحابہٴ کرام رضي الله عنهم کے علوم جمع تھے، ناچیز کے محدود علم میں دوہی صحابہٴ کرام رضي الله عنهم ایسے ہیں، جن کی تفسیری روایات اکٹھا کتابی شکل میں دستیاب ہیں، ایک تو حضرت ابن عباس رضي الله عنه ہیں اور دوسرے حضرت ابن مسعود رضي الله عنه ، حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس کے اردو ترجمہ سے بھی امت مستفید ہورہی ہے، میرے علم میں ابھی تک ”تفسیر ابن مسعود رضي الله عنه “ کا اردو ترجمہ نہیں ہوسکا ہے۔
تفسیرابن عباس رضي الله عنه کے مراتب
اس کے موٴلف علامہ ابوالطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین فیروزآبادی شیرازی، شافعی ہیں، (ولادت:۷۴۹ھ مطابق ۱۳۳۹/ وفات: ۲۰/شوال ۸۱۷ھ مطابق ۳/جنوری ۱۴۱۵/) یہ جلیل القدر مفسر، محدث اور ادیب تھے، علمِ لغت میں اپنا ایک نمایاں مقام رکھتے تھے، علامہ فیروزآبادی رحمه الله نے دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کی ہے، حرمین شریفین، ایشیائے کوچک، ترکی، قاہرہ کے علاوہ ہندوستان آنے کی تاریخ بھی ملتی ہے، ان کی تصانیف درج ذیل ہیں:
(۱) بصائر ذوالتمیز في لطائف الکتاب العزیز: یہ قرآن مجید کی تفسیر ہے، چھ جلدوں پر مشتمل ہے، قاہرہ اور بیروت سے بارہا چھپ چکی ہے۔
(۲) سِفر السعادة یا الصراط المستقیم کے نام سے سیرت النبی صلے اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر ایک مختصر مگر جامع تصنیف ہے۔
(۳) صحیح بخاریکی ایک شرح کا ذکر بھی ان کے تراجم میں ملتا ہے، مگر وہ نایاب ہے۔
(۴) علامہ زمخشری رحمه الله کی کشاف کے خطبہ کی ایک مستقل شرح بھی تحریر فرمائی تھی۔
(۵) البُلغہ في تاریخ أئمة اللغة: یہ کتاب بھی اہلِ علم کے نزدیک اہم اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
(۶) القاموس: یہ سب سے مشہور اور مفید ترین لغت ہے، محققین علماء اس پر اعتماد کرتے ہیں، سیدمرتضیٰ زبیدی (وفات ۱۷۹۱/) نے ”تاج العروس“ کے نام سے اس کی دس جلدوں میں شرح لکھی ہے۔
(۷) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما: علامہ فیروزآبادی رحمه الله نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیری روایات کو اکٹھا کرکے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، اشاعت کے بعد سے ہی اس کی مقبولیت چہار دانگِ عالم میں پھیل گئی؛ اس لیے کہ آپ کی شخصیت بالاتفاق امت میں ترجمان القرآن کی حیثیت سے مسلم ہے، آپ کی تفسیر وروایت کی بہت سی خصوصیات ہیں، مثلاً:
الف) روایات اکثر رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہیں، حضرت عمر رضي الله عنه جیسے بڑے بڑے صحابہ کرام رضي الله عنهم آپ سے تفسیر قرآنی میں استفادہ کرتے تھے۔
ب) ان کی تفسیر سارے صحابہٴ کرام رضي الله عنهم کی تفسیروں کا مظہرِ جمیل ہے؛ اس لیے کہ انھوں نے سارے صحابہٴ کرام رضي الله عنهم کے علوم کو اکٹھا کرلیاتھا۔
ج) ان میں لغت، اشعار، محاورات، لہجات اور ایام وتاریخ سے استدلال؛ بلکہ ان کی دقیق اور مفید علمی بحث ہے۔
د) یہ تفسیر حضرت ابن عباس رضي الله عنه کے حزم و احتیاط کا نمونہ بھی ہے، حافظ ابن حجر رحمه الله فرماتے ہیں کہ: اگر ان سے کوئی مسئلہ پوچھتا تو سب سے پہلے آیات سے اس کا جواب دیتے؛ لیکن اگر کوئی حکم قرآنِ پاک میں واضح نہ ملتا تو حدیث وسنت کو بنیاد بناتے، اور اگر قولِ نبی سے مسئلہ صراحتاً ثابت نہ ہوتا تو شیخین کے اقوال میں جواب تلاشتے تھے؛ لیکن اگران میں بھی جواب کی جانب اشارہ نہ پاتے تو اپنی رائے بیان فرماتے، اور اپنی رائے کے دلائل بھی اچھی طرح واضح فرمادیتے تھے۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ ۱/۳۲۵)
ھ) علامہ ذہبی رحمه الله کے بہ قول حضرت ابن عباس رضي الله عنه نے قرآنِ پاک کے اجمال کی تفصیل میں بعض جگہ انجیل سے بھی استفادہ کیا ہے، مگر بڑے ہی حزم واحتیاط کے ساتھ۔
و) حضرت ابن عباس رضي الله عنه کے دور میں بہت سے ایسے مسائل بھی سامنے آئے، جن کا واضح حکم قرآن وحدیث میں نہیں تھا، ان میں سے بہت سے اہم مسائل کو آپ نے آیات سے مستنبط کیا؛ اس طرح کے مجتہدات بھی آپ رضي الله عنه سے منقول ہیں۔
ز) آپ رضي الله عنه کی مرویات کی تعداد ایک ہزار چھ سو ساٹھ (۱۶۶۰) یا ایک ہزار سات سو دس (۱۷۱۰) ہے، یہ ساری روایتیں بخاری شریف اورمسلم شریف کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں بھی ہیں، حدیث شریف کا کوئی بھی مجموعہ ایسا نہیں جس میں آپ رضي الله عنه کی روایات درج نہ ہوں، کوئی مفسر آپ کے فہمِ قرآن سے بے اعتنائی نہیں کرسکتا، آپ کے اقوال کا بہت بڑا ذخیرہ ”جامع البیان في تفسیر القرآن“ میں ہے، یہ علامہ ابن جریر طبری رحمه الله (۲۲۴ھ تا ۳۱۰ھ) کی مرتب کردہ ہے، یہ تفسیر کے ذخیرہ میں سب سے پہلی اور مفصل کتاب ہے۔
یہ قیمتی ذخیرہ آٹھویں صدی تک مختلف کتابوں میں منتشر تھا، اللہ تعالیٰ نے علامہ فیروزآبادی رحمه الله کو توفیق بخشی اور انھوں نے ان مرویات کو ایک جگہ جمع فرماکر امت پر احسان فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا عنایت فرمائیں (آمین)
تفسیر ابن عباس کی اسنادی حیثیت
حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنه کے تفسیری افادات دنیا میں ہر طرف پھیلے ، حرمین شریفین کے علاوہ عراق دمشق اور دیگر بلادِ اسلامیہ میں بھی آپ رضي الله عنه ہی کے شاگردوں نے آپ کی روایات؛ بلکہ فن تفسیر کو عروج بخشا، مشہور تلامذہ درج ذیل ہیں:
حضرت سعید بن جبیر امام مجاہد بن جبر، امام ضحاک بن علی بن ابی طلحہ، مقاتل بن سلیمان اور حضرت عکرمہ وغیرہ۔ (تلخیص از عرض مترجم، مع ترجمہ تفسیر ابن عباس رضي الله عنه ،ص:۲۳)
حضرت ترجمانُ القرآن رضي الله عنه کی روایات اِنھیں شاگردوں سے تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں مروی ہیں، کتبِ ستہ کے علاوہ مسند احمد، مسند ابوداؤد طیالسی، مسند شافعی، مسند حمیدی، معجم طبرانی، سنن دارمی، سنن دارقطنی اور المنتقیٰ لابن جارود وغیرہ میں بھی کتاب التفسیر میں کثرت سے روایات ملتی ہیں، اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو خلافِ واقعہ حضرت ابن عباس رضي الله عنه کی طرف منسوب ہیں، اس طرح کی موضوع اور الحاقی روایات کو صحیح اور مستند روایات سے الگ کرنا ضروری ہے؛ لیکن اتفاق سے اب تک یہ کام نہیں ہوسکا ہے، رہا یہ مجموعہ جس کو علامہ فیروزآبادی رحمه الله نے ترتیب دیا ہے، وہ ایک ہی سند پرمشتمل ہے، جو محدثین و مفسرین کے نزدیک نہایت کمزور اور ناقابلِ اعتماد ہے؛ البتہ مقاصدِ شریعت اور درایت ومعانی کے لحاظ سے ذکر کردہ باتیں اکثر قابلِ اعتماد ہیں، ضرورت ہے کہ تحقیق کے کام کو کوئی محقق عالم انجام دے، جس کی نظر احادیث ورجال پر ہو، نیز مضامینِ قرآن اور تفسیرِ آیات سے اچھی خاصی مناسبت ہو، وباللہ التوفیق!
تفسیر ابن عباس رضي الله عنه کے نسخے
اس تفسیر کے درج ذیل نسخے موجود ہیں:
(الف) ایک قلمی نسخہ مخطوطہ کی شکل میں پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں ہے۔
(ب) ۱۳۱۴ھ میں مصر سے ”دُرِّمنثور“ کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔
(ج) ۱۳۱۶ھ میں علاحدہ طور پر مصر سے ہی شائع ہوئی۔
(د) ۱۲۸۵ھ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ کے ”ترجمہ قرآن مجید“ کے ساتھ شائع ہوئی۔
(ھ) اس کے بعد حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کے ”ترجمہ قرآن مجید“ کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔ (مستفاد: از عرض مترجم، تفسیر ابن عباس رضي الله عنه ،ص:۷)
تفسیر ابن عباس رضي الله عنه کے ساتھ علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ (۹۱۱ھ) کی مشہور ومعروف کتاب ”لباب النقول في اسباب النزول“ بھی مطبوع ومترجم ہے، ”شانِ نزول“ کے موضوع پر یہ بڑی قابلِ اعتماد کتاب ہے،اس میں حدیث، اصولِ حدیث اور اصولِ درایت نصوص کو سامنے رکھ کر روایات کی تلخیص کی گئی ہے، شروع میں قدرے تفصیل سے مقدمہ لکھا ہے، اس میں شانِ نزول کی اہمیت روایات کے درمیان ترجیح کے اصول، ائمہ کے اقوال اور اپنے طرزِ تلخیص کو بڑے عمدہ انداز میں بیان فرمایا ہے، غرض یہ کہ علامہ سیوطی رحمه الله نے اسبابِ نزول والی روایات کی سندوں کی اچھی طرح چھان بین کی ہے،راویوں کے سلسلے میں یہ بھی تحقیق کی ہے کہ کون سے راوی مذکورہ واقعہ کے وقت موجود تھے اور کون سے نہیں؟ اور آیا وہ اعلیٰ درجہ کے مفسر تھے یا نہیں؟ خود انھوں نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ میں نے اختصار کے پیش نظر سندوں کو بیان کرنے کے بجائے، اس کتاب کا حوالہ دے دیا ہے، جس میں وہ روایت مذکور ہے؛ تاکہ قاری خود بھی تحقیق کرسکے، اسی طرح اپنے پیش رو مصنف علامہ واحدی رحمه الله کے بیان کردہ مباحث کو بھی ”ک“ کے رمز کے ساتھ اس تصنیف میں شامل فرمالیا ہے، متعارض روایات کے درمیان دفعِ تعارض کی بھی کوشش کی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ”لبابُ النقول“ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنه کی روایات بہت زیادہ ہیں، لبابُ النقول کی جامعیت اور مذکورہ بالا خصوصیات کی وجہ سے امت نے اسے قبول کیا ہے۔
”لبابُ النقول“ کا اردو ترجمہ
تفسیر ابن عباس رضي الله عنه کے ساتھ ”لبابُ النقول“ کی طباعت چوں کہ عربی زبان میں ایک ساتھ عمل میں آئی تھی؛ اس لیے ترجمہ میں بھی اس کو الگ نہیں کیاگیا:
(الف) مولانا عابدالرحمن صدیقی رحمه الله کے ترجمہ میں بھی لباب النقول کا ترجمہ ہے۔
(ب) اور حافظ محمد سعید احمد عاطف نے بھی اس کا اردو ترجمہ کیاہے۔
جس طرح ”تفسیر“ میں پہلے حضرت ابن عباس رضي الله عنه کی مرویات نقل کی گئی ہیں؛ پھر اس آیت سے متعلق شانِ نزول کی روایت اگر موجود ہے تو اس کو ذکر کیا ہے؛ اسی طرح ترجمہ میں بھی پہلے آیات کا ترجمہ ہے، پھر حضرت ابن عباس رضي الله عنه کی تفسیر کا، اس کے بعد علامہ سیوطی رحمه الله کی ”لباب النقول“ کا ترجمہ ہے، لباب النقول کے ترجمہ سے پہلے ہر جگہ ”شانِ نزول“ اورآیت کا ابتدائی ٹکڑا عنوان کے طور پر لکھا گیا ہے،اور جہاں پر بات پوری ہوئی ہے، وہاں قوسین کے درمیان ”لباب النقول في اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمه الله “ درج ہے؛ البتہ بعض جگہوں پر بین القوسین والی عبارت کتابت سے رہ گئی ہے۔
تفسیر ابن عباس کے اردو ترجمے
علامہ ابوطاہر فیروزآبادی رحمه الله کی جمع کردہ تفسیر ابن عباس رضي الله عنه کے دو ترجمے نظرنوازہوئے:
(الف) ایک کے مترجم پروفیسر حافظ محمد سعید احمد عاطف ہیں، ان کا آبائی وطن بالاکوٹ (پاکستان) ہے۔
(ب) دوسرے کے مترجم حضرت مولانا عابدالرحمن صدیقی رحمة اللہ علیہ ہیں۔ اس ترجمہ کو پہلے ۱۹۷۰/ میں ”کلام کمپنی کراچی“ نے شائع کیا۔ اوّل الذکر مترجم نے آخرالذکر مترجم کے ترجمہ سے خصوصی استفادہ کیا ہے، جس کی صراحت خودانھوں نے ”عرضِ مترجم“ (ص:۸) میں کی ہے، دونوں مترجمین میں سے کسی کے شخصی احوال معلوم نہ ہوسکے؛ اس لیے مزید تعارف رقم نہیں کرسکتا۔
(ج) ایک اور ترجمہ کا ذکر بھی اول الذکر مترجم نے کیا ہے، یہ ۱۹۲۶/ میں آگرہ سے شائع ہوا ہے (عرضِ مترجم،ص:۸)
راقم الحروف کے خیال میں یہی اولین ترجمہ ہے، لیکن یہ ترجمہ دریافت نہ ہوسکا، اورنہ ہی اس کی مزید تفصیلات معلوم ہوسکیں۔
ترجمہ پروفیسر حافظ محمد سعید احمد عاطف
۲۰۰۶/ میں ”اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی“ نے اس ترجمہ کو شائع کیا، یہ تین جلدوں پر مشتمل ہے، پہلی جلد کے صفحات کی تعداد پانچ سو پینتیس (۵۳۵) ہے، دوسری جلد چار سو چونسٹھ (۴۶۴) اور تیسری پانچ سو چار (۵۰۴) صفحات پر مشتمل ہے، صفحات کی کل تعداد پندرہ سو تین ہے، قیمت چھ سو پچھتّر (۶۷۵) روپے درج ہے۔
روزنامہ ’منصف“ حیدرآباد کے توسط سے طباعت کے بعدہی راقم الحروف کے پاس برائے تبصرہ یہ ترجمہ آیا تھا، تبصرہ لکھاگیا اور چھپا بھی، اس نسخہ میں کتابتِ قرآن کی تصحیح کی سند مع مہر تیسری جلد کے اخیر میں درج ہے، اوپر دائیں کالم میں آیات اور بائیں کالم میں مولانا فتح محمد جالندھری رحمه الله کا ترجمہ قرآن ہے، ترجمہ کی زبان سلیس اور بامحاورہ ہے۔
تفسیرکا ترجمہ لفظی نہیں، بلکہ آزاد کیاگیا ہے، اکثر جگہوں پر لفظ دو لفظ کے اضافہ کو بھی گوارا کیاگیا ہے، تاکہ اردو خواں حلقہ کو ترجمہ پن کا احساس نہ ہو،اسی طرح ہر آیت کی تفسیر سے پہلے اس کا نمبر بھی دے دیاگیا ہے، تاکہ مقارنہ میں آسانی ہو، ”لباب النقول“ کے شانِ نزول کو بھی آیت نمبر کی تعیین کے بعد لکھا گیا ہے،اور اہم بات یہ ہے کہ دیوبند سے چھپے ہوئے ترجمہ کو سامنے رکھ کر یہ ترجمہ کیاگیا ہے،اس سے استفادہ کی صراحت خود مترجم نے کی ہے(ص:۸)
اس ترجمہ میں پہلے ”نقشِ اول“ کے نام سے ”عرضِ ناشر“ ہے،اس میں تفسیر اور اس کے جامع ومرتب کے ساتھ ترجمہ کی ضرورت بیان کی گئی ہے، ساتھ ہی مترجم ومعاونین کا شکریہ ادا کیاگیا ہے، پھر چار صفحات پر مشتمل عرضِ مترجم ہے، اس میں قرآنِ پاک، ترجمہ و تفسیر، سیرت نبوی اور آثارِ صحابہ وغیرہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے، ”تنویر المقباس“ کے مقام ومرتبہ کو بیان کیاگیا ہے،اس کے مخطوطہ اور مطبوعہ نسخوں کی تفصیلات درج کی گئی ہیں، ساتھ ہی اس کے دو اردو ترجمے کا ذکر بھی ہے، پھر مترجم نے اپنے ترجمے کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں، اخیر میں معاونین کا شکریہ اور قارئین سے دعا کی درخواست ہے،اس کے بعد پندرہ صفحات پر مشتمل ایک مقالہ ہے،اس میں ترجمانُ القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنه کی زندگی کو کافی تفصیل سے پیش کیاگیاہے، نام ونسب، حلیہ، شوقِ علم، دعائے نبوی کا فیضان، حیرت انگیز ذہانت، علم کے لیے اسفار، علومِ اسلامی سے عمومی اور علومِ قرآنی سے خصوصی دلچسپی، طرزِ تفسیر اور مرویات کی تعداد وغیرہ بھی بیان کی گئی ہے، اس کے بعد دو مضمون ہے، ایک میں علامہ سیوطی رحمه الله کا تعارف اور مختصر احوال ذکر کیے گئے ہیں، دوسرے میں علامہ ابوالطاہر فیروزآبادی رحمه الله موٴلف تفسیر ابن عباس رضي الله عنه کا تعارف دو صفحات میں مرقوم ہے۔
ان سب کے بعد ترجمہ کی ابتداء کی گئی ہے، سب سے پہلے علامہ سیوطی کی ”لباب النقول“ کا مقدمہ ہے، پھر ”تنویرالمقباس“ کا مقدمہ ہے، آخر الذکر مقدمہ میں حمد وصلوة کے بعد تفسیر کے سلسلہٴ سند کو بیان کیاگیا ہے، اس کے بعد بسم اللہ کی تفسیر سے کتاب شروع ہوئی ہے، ترجمہ کی کتابت کمپیوٹر کے ذریعہ کی گئی ہے، تصحیح کے کافی جتن کے باوجود غلطیاں رہ گئی ہیں، اس ترجمہ میں سورتوں کی فہرست تو دی گئی ہے، لیکن فہرستِ مضامین نہیں ہے، اگر اس کے ساتھ فہرست مضامین بھی ہوتی تو اس کا افادہ کثیراور آسان ہوتا؛ اس لیے کہ آج کل پوری پوری کتاب پڑھ ڈالنے کا مزاج علماء میں بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے تو عوام سے کس طرح اس کی امید کی جائے؟ غرض یہ کہ اردو میں ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ عوام ہی زیادہ پڑھے گی، ان کے لیے فہرست ہوتی تو اور بھی اچھا ہوتا، ان سب کے باوجود ترجمہ کا کام ٹھیک ہے، طباعت اورکاغذ وغیرہ عمدہ ہے، ٹائٹل بھی دیدہ زیب ہے۔
ترجمہ مولانا عابدالرحمن صدیقی رحمه الله
تفسیر ابن عباس رضي الله عنه کا دوسرا ترجمہ حضرت مولاناعابدالرحمن صاحب صدیقی رحمه الله کا ہے، اس ترجمہ میں بھی علامہ سیوطی رحمه الله کی ”لباب النقول في اسباب النزول“ شامل ہے، اس کی اشاعت دیوبند کے ”ادارہ درسِ قرآن“ نے کی ہے، ترجمہ نہایت عمدہ اور سلیس ہے، اصل متن کی مکمل تصویر ترجمہ میں جھلکتی ہے،اردو کے محاورات اور روزمروں کے استعمال سے زبان کافی معیاری بن گئی ہے، ثقیل اور مشکل الفاظ سے حددرجہ احتراز کیا ہے، اس میں آیات کے ترجمے کے لیے حضرت تھانوی رحمه الله کے ترجمہ کو منتخب کیاگیاہے، اس سے قاری کا اعتماد اور زیادہ ہوجاتا ہے،آیات کو قدرے جلی خط میں لکھا گیا ہے، پھر اس کے نیچے لکیریں کھینچ کر اردو ترجمہ قدرے باریک خط میں دیاگیا ہے، فقہ کی روشنی میں ترجمہ چھاپنے کا یہ طریقہ مستحسن اور بہتر بھی ہے۔
اس ترجمہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دارالعلوم دیوبند کے دو عظیم مفتیانِ کرام کی نظر سے گذرا ہوا ہے، ایک حضرت مفتی کفیل الرحمن صاحب نشاط# عثمانی رحمة اللہ علیہ ہیں اور دوسرے حضرت الاستاذ مفتی محمد ظفیرالدین صاحب دامت برکاتہم ہیں، یہ دونوں حضرات ”دارالافتاء“ کے بڑے قابلِ اعتماد مفتی تھے، اوّل الذکر ابھی چند سال پہلے وفات پاگئے اورآخر الذکر اپنی کبرِ سنی کی وجہ سے استعفا دے کر اپنے گھر میں آرام فرما ہیں۔ حضرت مفتی کفیل الرحمن صاحب نشاط عثمانی رحمه الله اردو زبان وادب کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے،اور بہت بڑے شاعر تھے، ان کے تین شعری مجموعے زندگی میں ہی شائع ہوکر اہلِ ذوق سے داد تحسین حاصل کرچکے ہیں (راقم الحروف نے اپنے ”ایم ،فل“ کے مقالہ میں ان شعری مجموعوں کے تجزیاتی مطالعہ کو بھی شامل کیا ہے) موصو نے پورے ترجمہ کو بڑی گہرائی سے مطالعہ فرماکر ”عنوان بندی“ بھی کی ہے، جس سے اس ترجمہ کی افادیت میں چار چاند لگ گئے ہیں، ترجمہ کی تکمیل کے بعد اشاعت کے موقع سے چھ اشعار میں ”ہدیہٴ عقیدت“ بھی پیش فرمایا ہے،اور حضرت مفتی محمد ظفیرالدین صاحب دامت برکاتہم نے اس ترجمہ پر تقریظ رقم فرمائی ہے، اور مترجم نے ”عرضِ مترجم“ کے عنوان سے سات صفحات پر مشتمل ایک دستاویزی تحریر شامل اشاعت فرمائی ہے، ان تمام خصوصیات کی وجہ سے یہ ترجمہ حافظ محمد سعید احمد عاطف مدظلہُ کے ترجمہ سے بہتر معلوم ہوتا ہے، خود مترجم کو بھی اس کا اعتراف ہے، راقم الحروف کی سمجھ میں اب تک یہ بات نہ آسکی کہ اچھے ترجمہ کی موجودگی میں پھر الگ سے ترجمہ کی ضرورت ہی کیا رہ گئی تھی کہ جناب حافظ عاطف صاحب نے زحمت فرمائی؟
طریقِ اشاعت
اس ترجمہ کی اشاعت کے لیے ”ادارہ“ نے پہلے ممبر بننے کا اعلان دیا، پھر ان ممبران کو قسطوں میں ترجمہ بھیجا گیا، دیوبند سے عربی تفسیروں کے اردو ترجموں میں چند ایک کی اشاعت کا یہی طریقہ لکھا ہوا دیکھا گیا،اور بعض وقت تاخیر وغیرہ کی معذرت بھی بعض قسطوں میں رقم نظر آئی۔
”جامع البیان في تفسیر القرآن“ جسے تفسیر طبری کہا جاتا ہے، تفاسیر میں سب سے قدیم ہے،اس کے موٴلف علامہ محمد بن جریر رحمة اللہ علیہ ہیں، ان کی کنیت ابوجعفر ہے، طبرستان کی طرف نسبت کی وجہ سے ”طبری“ کہلاتے ہیں، ان کی ولادت باسعادت ۲۲۴ھ اور وفات ۳۱۰ھ بتائی جاتی ہے، ”تفسیرابن جریر“ جیسی کوئی تفسیر اسلامی کتب خانوں میں نہیں ہے، امت کے ہر طبقہ میں مقبول ومتداول ہے، شاید ہی کوئی مفسر ایسا ہو، جس نے اس تفسیر سے خوشہ چینی نہ کی ہو، اس تفسیر کو بالاتفاق مأخذ ومرجع ہونے کی حیثیت حاصل ہے، اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
(الف) احادیث اور روایات سے تفسیر میں بعد والی ساری تفسیروں کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
(ب) آیات کی تفسیر میں اقوالِ صحابہ رضي الله عنهم سے بھرپور استفادہ کیاگیاہے۔
(ج) صحابہ رضي الله عنهم ، تابعین رحمهم الله اور تبعِ تابعین رحمهم الله میں سے مفسرین کی آرا بھی نقل کی گئی ہیں۔
(د) غرائب القرآن میں خصوصی طور سے لغت وزبان، محاورات و اشعار سے استفادہ کیاگیا ہے۔
(ھ) متعدد مسائل میں ”اجماعِ امت“ کی نشان دہی کی گئی ہے۔
(و) مفسر طبری چوں کہ خود مجتہد ہیں؛ اس لیے بہت سے مسائل میں اپنی رائے اور اپنا فیصلہ بھی انھوں نے رقم فرمایا ہے، نیز دوسرے کے اقوال پر محاکمہ بھی کیا ہے، یہ بات اور ہے کہ بعض مسائل میں اپنی رائے سے بعد کی تصانیف میں رجوع بھی کرلیا ہے۔
(ز) یہ تفسیر ان کے علاوہ دوسرے علوم وفنون اوراسرار وحکم کا گنجینہ بھی ہے۔
عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اردو داں حلقہ کے لیے ناقابل رسائی تھی؛ اس لیے حضرت مولانا ظہور الباری اعظمی نے اس کا ترجمہ کیا،اور دیوبند کے مکتبہ ”بیت الحکمت“ کے ذریعہ اس کی اشاعت عمل میںآ ئی، ممبرسازی کے ذریعہ قسط وار طبع ہوکر ممبران تک وی،پی پوسٹ کے ذریعہ پہنچتی رہی، چونتیس (۳۴) پینتیس (۳۵) قسطوں میں شائع کیے جانے کا اعلان دیاگیا تھا، مگر معلوم نہیں کہ ساری قسطیں مکمل ہوئیں یا نہیں؟ تین پاروں کے چھ اجزاء مطبوع شکل میں نظرنواز ہوئے۔
ترجمہ بہت عمدہ ہے، زبان وبیان کے لحاظ سے کہیں کمی محسوس نہ ہوئی، وقت کے بہت بڑے صاحب طرز ادیب مولانا عبدالماجد دریابادی رحمة اللہ علیہ نے اپنے رسالے ہفتہ وار ”صدق جدید“ میں ترجمہ کی عمدگی کا اعتراف فرمایا ہے، اس عظیم علمی تفسیری سرمایہ کے اردو زبان میں منتقل ہونے سے ان کو بہت خوشی ہورہی تھی، تبصرہ نہایت حوصلہ افزا ہے، ۱۶/شوال ۱۳۸۴ھ کے ”صدق جدید“ کے فائل کو دیکھا جاسکتا ہے، اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہٴ دینیات کے صدر حضرت مولانا سعید احمد اکبرآبادی رحمه الله نے بھی ماہ نامہ ”برہان“ دہلی میں ”تفسیر ابن جریر طبری“ کے اردو ترجمہ کی بڑی تعریف فرمائی ہے، ان بزرگوں کے اعتماد کے بعد ترجمہ کی خوبی سے کسی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا، اور سب سے بہتر تجربہ اپنا مطالعہ ہے؛ چوں کہ یہ ترجمہ اردو خواں حلقہ کو پیش کیا جارہا ہے؛ اس لیے ان کی رعایت میں نحو وصرف کے دقیق مسائل کا ترجمہ جان بوجھ کر چھوڑ دیاگیا ہے؛ تاکہ عوام کی گرفت سے باہر نہ ہوجائے؛ البتہ قراء ت اور زبان ولغت کی بحث کو تسہیل کے ساتھ ترجمہ میں پیش کیا ہے، اسی طرح شروع میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ : کتاب کے ابتدائی حصے (مقدمہ) کاترجمہ چھوڑدیاگیا ہے۔
راقم الحروف کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ قراء ت اور زبان کی بحث کو جب تسہیل کے ساتھ بیان کرنے کی شکل نکالی گئی تو پھر نحو وصرف کے مسائل کو کیوں چھوڑدیاگیا؛ کیا ان کو تسہیل بیانی کے ذریعہ ترجمہ میں شامل کرنا ممکن نہ تھا؟ یہ طے کرلینا کہ اس کو عوام ہی پڑھے گی خواص اور درمیان کے اہل ذوق استفادہ نہیں کریں گے، محلِ نظر ہے؛ اس لیے ہر جزء کا سلیقہ سے ترجمہ ہونا ضروری تھا، اسی طرح ”مقدمہ“ کو ترجمہ سے مستثنیٰ کرنا بھی مناسب نہیں تھا، اس کو بھی تسہیل کے ساتھ ترجمہ میں شامل کیا جاتا تو بہتر تھا، خیر! پسند اپنی اپنی ․․․
اس تفسیر میں اچھی خاصی تعداد میں اسرائیلی روایات؛ بلکہ ضعیف کے ساتھ موضوع روایات بھی ہیں، ترجمہ کے ساتھ اگر ان کے درمیان صحیح اور غلط، ثابت اور غیر ثابت کی نشاندہی کردی جاتی تو اور بھی بہتر تھا، جیساکہ ”ابن کثیر“ میں مفسر نے خود یہ کام کرکے اپنا اعتماد حاصل کیا ہے، اللہ کرے! ”مردے از غیب نماید وکارے بہ کند“!
غرض یہ کہ ترجمہ معیاری اور سلیقہ مند ہے،اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں قرآنی آیات کے ترجمہ کے لیے سب سے قابل اعتماد ترجمہ قرآن کو منتخب کیاگیا ہے اور وہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمه الله کا ترجمہ ہے۔
ترجمہ تفسیر کبیر
امام فخرالدین رازیؒ (ولادت ۵۴۴ھ وفات ۶۰۶ھ) کی تفسیر کبیر کی اہمیت سے اہلِ علم واقف ہیں، موصوف چھٹی صدی ہجری کے عالم ہیں، ان پر معقولات کا غلبہ تھا، تفسیر میں بھی وہی رنگ ہے، ان کی کنیت ابوعبداللہ اور نام محمد ہے، ان کے والد مرحوم ضیاء الدین عمر خطیب سے معروف تھے، وہ بھی بہت بڑے عالم اور صاحبِ تصنیف تھے، تفسیر کبیر میں مسائل کو دلائل کے ساتھ لکھا گیا ہے، آیت پر ہونے والے امکانی سوال قائم کرکے جواب تحریر کیاگیاہے، زبان بھی کافی عمدہ ہے، آٹھ نو سوسال کے بعد بھی مقبولیت میں ایک حرف کی کمی نہیں آئی اور نہ اس کے مماثل کوئی دوسری تفسیر تصنیف کی جاسکی ہے، فقہی مسائل میں شافعی مسلک کی ترجمانی ہوتی ہے۔
راقم الحروف کو اس کے دو نامکمل ترجمے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں نظر آئے:
الف) ایک ترجمہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب، اسرائیلیؒ کا ہے، اس کا نام ’’سراجِ منیر‘‘ ہے۔
ب) دوسراترجمہ مولانا مرزا حیرت کی سرپرستی میں شائع ہوا ہے، مترجم کا علم نہ ہوسکا۔
سراجِ منیر ترجمہ اردو تفسیر کبیر
جناب مولانا خلیل احمد صاحب اسرائیلی ابن جناب سراج احمد صاحبؒ کا یہ ترجمہ اپنے وقت کا فصیح ترجمہ ہے، یہ بات اور ہے کہ ایک صدی کا عرصہ گذرجانے کی وجہ سے اس میں قدامت آگئی ہے، زبان میں فارسیت کا غلبہ ہے، آیات کے ترجمے ہر سطر کے نیچے دیے گئے ہیں، ’’سوال وجواب‘‘ کو جلی خط میں اور قوسین کے درمیان لکھا گیا ہے، نیز ہر مسئلہ میں بحث کی تعداد کی ترقیم بھی کی گئی ہے، صرف پہلی جلد کے دو نسخے نظر نواز ہوسکے، جو ’’تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خلت لہا مَا کَسَبَتْ الخ‘‘ تک کی تفسیر کو شامل ہیں۔
یہ ترجمہ امرت سر پنجاب کے ’’مطبع شمس الاسلام‘‘ سے شائع ہوا ہے، صفحات کی تعداد پانچ سو بتیس (۵۳۲) ہے، اس ترجمہ کی طباعت اشاعت کے جملہ اخراجات دوشخصوں نے برداشت کیے ہیں، یہ دونوں پنجاب کے کتب خانہ اسلامیہ کے مالک ہیں، ان کے اسمائے گرامی شیخ عبدالرحمن اور ماسٹر جھنڈے خان ہیں، تاریخ طباعت ذی الحجہ ۱۳۱۷ھ مطابق ۱۹۰۰ء درج ہے، ہر صفحہ کا حاشیہ ’’الم‘‘ کے خوب صورت طُغرے سے آراستہ ہے۔
تفسیرکبیر کا ایک اور ترجمہ
مولانا مرزا حیرت رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی وسرپرستی میں ایک ترجمہ شائع ہوا تھا، وہ بھی دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں ہے؛ مگر مکمل نہیں ہے،اس کی صرف ایک جلد نظرنواز ہوئی، صفحات کی تعداد تین سو اٹھائیس (۳۲۸) ہے، ’’مطبع کرزن پریس دہلی‘‘ کے ذریعہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا تھا، غالباً یہ سب سے قدیم ترجمہ ہے، اس پر ایک صدی سے زائد عرصہ گزرچکا ہے، کاغذ بوسیدہ، کِرم خوردہ ہے، یہ نسخہ ناقابلِ استفادہ ہے؛ ہاں! اگر جدید ٹکنالوجی سے اس کے سارے صفحات الگ الگ کیے جائیں اور پھر اس کی فوٹوکاپی کرائی جائے، تو دوسروں کے لیے استفادہ ممکن ہوسکے گا۔ یہ درمیانی تقطیع پر مطبوع ہے، کتب خانہ دارالعلوم دیوبند میں ’’ترتیبِ کتب اردو تفاسیر‘‘ میں اس کا نمبر ۱۷۹ ہے۔
’’معالم التنزیل‘‘ علامہ بغویؒ کی ہے، اس کو ہندوستانی علماء اپنے عرف میں ’’تفسیرِ بغوی‘‘ کہتے ہیں، علامہ بغوی مصر کے رہنے والے ہیں اور مسلکاً شافعی ہیں، ان کی کنیت ’’ابومحمد‘‘ اور نام حسین بن مسعود ہے، ۵۱۶ھ میںان کی وفات ہوئی، علمِ لغت، علمِ قرأت کے علاوہ فقہ میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں، انھوں نے اپنی تفسیر میں عہدِ رسالت سے لے کر پانچویں صدی تک کے اکابرِ امت کے ارشادات سے استفادہ کیا ہے، احادیث،آثارِ صحابہ وتابعین سے یہ تفسیر بھری پڑی ہے، شانِ نزول بھی روایات کے حوالوں سے بیان فرماتے ہیں، اس تفسیر میں تفسیرِ خازن اور تفسیرِ ابن کثیر کے حوالے بھی خوب ملتے ہیں؛ البتہ روایات کے ضمن میں اسرائیلیات بھی درآئی ہیں، علامہ بغویؒ تحقیقِ لغات میںاپنا ایک مقام رکھتے ہیں، اس تفسیر میں اس کے مظاہر ملتے ہیں، اسی طرح فقہی مسالک اور مسائل کو بھی بیان کیاہے؛ چوںکہ مختلف قراء توں کی وجہ سے تفسیر کے معانی ومفاہیم میں وسعت پیدا ہوتی ہے؛ اس لیے موصوف نے قراء ت کی تفصیلات بھی خوب بیان فرمائی ہیں؛ لیکن یہ سب عربی زبان میں ہے، اردو خواں حلقہ کے لیے استفادہ مشکل تھا؛ اس لیے ایک بڑے عالمِ دین، زبان وادب کے شہسوار، نثر کے ساتھ نظم پر عظیم تر قدرت رکھنے والی شخصیت نے اس تفسیر کو اردو کا جامہ پہنانا شروع کیا، میری مراد ’’ہدایتُ القرآن‘‘ کے اولین مؤلف حضرت مولانا محمد عثمان رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جو علمی اور ادبی حلقوں میں ’’کاشف الہاشمی‘‘ سے جانے جاتے ہیں۔
ترجمہ کی زبان بہت عمدہ اور ادب کی چاشنی سے لبریز ہے، آیات اور ترجمۂ قرآن کے درمیان دو خط کھینچے ہوئے ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’فارسی ترجمۂ قرآن‘‘ کو اس میں شامل کیاگیاہے، اس ترجمہ کے بارے میں تو کوئی کلام نہیں، یقینا وہ معیاری ہے، اہلِ علم کے نزدیک قابلِ اعتماد ہے؛ مگر اس کی وجہ سے خالص اردو حلقوں میں ترجمۂ قرآن اجنبی رہے گا، پہلے تو فارسی زبان کا کچھ کچھ رواج تھا، آج تو اردو داں طبقہ فارسی جانتا ہی نہیں ہے، محض علما اور مدارس کے افراد ہی اس زبان سے واقف ہیں؛ اس لیے فارسی ترجمہ کا انتخاب راقم الحروف کے نزدیک زیادہ مناسب نہیں؛ اس وجہ سے بھی کہ عربی تفسیر کو اردو میں ترجمہ کرنے کا مقصد عوام اور اردو جاننے والوں کو قرآن سے قریب کرنا ہے نہ کہ خواص اور فارسی جاننے والے علماء کو؛ بہرحال! مترجم نے ترجمۂ تفسیر بغویؒ میںاپنی پوری مہارت وصلاحیت کو بروئے کار لایا ہے، ترجمہ کے ساتھ حواشی بھی بڑھائے ہیں، تشریحات بھی کی ہیں، عناوین کا اضافہ بھی کیاہے، جس سے ترجمہ کی افادیت بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ایک نایاب ترجمہ
حضرت کاشف الہاشمیؒ سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحبؒ عثمانی نے تفسیر بغوی کا اردو زبان میں ترجمہ کیاتھا، وہ محض ترجمہ نہیں تھا؛ بلکہ اس میں مضامین کی تلخیص وتسہیل بھی کی گئی تھی، اس کانام ’’منحۃ الجلیل في بیان ما في معالم التنزیل‘‘ رکھا تھا، یہ ترجمہ اہلِ علم کے درمیان بہت مقبول ہوا؛ مگر اب وہ معدوم ونایاب ہے، اس کی تاریخ ۱۳۱۵ھ بتائی جاتی ہے۔
غرض یہ کہ کاشف الہاشمی مرحوم کے ترجمہ تک ہی راقم الحروف کی رسائی ہوسکی، اس ترجمہ کے شروع میں تین صفحات پر مشتمل ناشر کی تحریر ہے،اس میں ترجمہ کی اہمیت وافادیت اور ضرورت بیان کی گئی ہے، اسی کے ساتھ ممبربناکر قسطوں پر اس کی اشاعت کا طریقہ بھی رقم کیا ہوا ہے، یہ طریقہ متعدد تفسیروں کے ترجمے کے لیے دیوبند کے کتب خانوں نے اپنایاتھا، اس کے بعد ’’عرضِ مترجم‘‘ ہے۔
حضرت کاشف الہاشمی مرحوم کے ترجمہ کے ابتدائی صفحات میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ احادیث کے ترجمہ میںسند حذف کردی گئی ہے، جب یہ ترجمہ چھپا تو اہلِ علم نے اسے خوب سراہا،اس پر تین عبقری شخصیات کی تقریظ بھی ہے؛ جنھوں نے ترجمہ کی عمدگی کو دادِ تحسین سے نوازا ہے، زبان وبیان کی سلاست وروانی اور دل نشینی کا بڑے اچھے انداز میںاعتراف کیا ہے، وہ شخصیات درج ذیل ہیں:
الف) حضرت مولانا سعیداحمد اکبر آبادیؒ مدیر ماہ نامہ ’’برہان‘‘ دہلی، وصدر شعبۂ اسلامیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔
ب) حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہارویؒ، سابق ایم، پی، وناظم جمعیۃ علمائے ہند۔
ج) حضرت مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانیؒ، بانی ندوۃ المصنّفین دہلی، ورکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند۔
تفسیر بغوی کی اشاعت دیوبند کے مکتبہ ’’ندوۃ الفرقان‘‘ کے ذریعہ عمل میں آئی؛ لیکن افسوس اس پر ہے کہ میری رسائی ’’صرف پہلی جلد‘‘ تک ہوسکی، وہ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میںموجود ہے یہ چھیانوے (۹۶) صفحات کا ترجمہ فَذَبَحُوْہَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ الخ: تک کی تفسیر کو شامل ہے، بازار میں تلاشِ بسیار کے باوجود مل نہ سکا، جب مترجم کے فرزندِ ارجمند جناب مولوی محمد سفیان صاحب سلّمہ سے ربط کیا تو انھوں نے بتایا کہ اس کی ایک ہی جلد زیورِ طباعت سے آراستہ ہوسکی تھی؛ بقیہ ترجمہ شائع نہ ہوسکا اور نہ ہی اس کا مسودہ دریافت ہوسکا ہے۔
ضرورت ہے کہ کوئی صاحبِ قلم، اہلِ علم اس طرف متوجہ ہو اوراس ترجمہ کو ایک نہج متعین کرکے پایۂ تکمیل تک پہنچائے، وباللہ التوفیق!
تفسیر ابن کثیر
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ (۷۰۰ھ تا ۷۷۴ھ) کی ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ اہلِ علم کے نزدیک سب سے قابلِ اعتماد تفسیر ہے، اس کو عرف میںلوگ تفسیر ابن کثیر ہی کہتے ہیں، ان کا نام اسماعیل، کنیت ابوالفداء اور لقب عماد الدین ہے، تفسیر، حدیث، تاریخ میںاہلِ علم ان پر اعتماد کرتے ہیں، اساطین علمائے امت نے ان کی علمی قدرومنزلت کا کھل کر اعتراف کیا ہے اور تصانیف کو بڑے اونچے الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیاہے، موصوف کی زندگی میں ہی چہار دانگِ عالم میں تصانیف پہنچ چکی تھیں، قرآنِ پاک کی تفسیر کے سلسلہ میں علامہ سیوطیؒ نے فرمایا: لَمْ یُؤلَّف علی نَمْطِہٖ مثلُہٗ (اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی) اور یہ واقعہ ہے کہ آج بھی اسلامی کتب خانہ میںکوئی تفسیر ایسی نہیں ملتی،جو حافظ ابن کثیر کی تفسیر کا مقابلہ کرسکے اور محدث کوثریؒ نے فرمایا: ہُو مِنْ أفْیَدِ کُتُبِ التَّفْسِیْرِ بالروایۃ (یعنی تفسیر ابن کثیر، تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید کتاب ہے)
مولانا عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’مصنف اس کتاب میں سب سے پہلے ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ کے اصول پر ایک آیت کی تفسیر، اُس مضمون کی دوسری آیات کی روشنی میںکرتے ہیں، پھر محدثین کی مشہور کتابوں سے اس کے بارے میں جواحادیث مروی ہیں، ان کو نقل کرکے ان کی اسانید ورجال پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں اور اس کے بعد آثارِ صحابہؓ وتابعین کو لاتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ کا یہ سب سے بڑا علمی کارنامہ ہے کہ انھوں نے تفسیر اور تاریخ سے اسرائیلیات کو بہت کچھ چھانٹ کر علاحدہ کردیاہے اور سچ یہ ہے کہ اس اہم کام کے لیے ان جیسے بالغ نظر محدث ہی کی ضرورت تھی، یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اگر ان کی علمی خدمات میں صرف یہی ایک خدمت ہوتی، تب بھی وہ اُن کے فخر کے لیے کافی تھی۔۔۔ الحمدللہ! یہ کتاب متداول ہے اور بارہا طبع ہوچکی ہے۔‘‘ (از مقالہ: در ابتدائے ترجمہ تفسیرابن کثیر ص۹)
ترجمہ کے شروع میں مولانا محمد عبدالرشید نعمانیؒ کا نوصفحات پر مشتمل ایک مقالہ شاملِ اشاعت ہے، یہ نہایت ہی محقق ومدلل ہے، اس کی تیاری میں تراجم ورجال کی ایک درجن کتابوں سے استفادہ کیاگیاہے، ہر ہر بات کی تحقیق میں بڑی عرق ریزی کی گئی ہے، اہلِ علم کے لیے بہت مفید ہے۔
تفسیر ابن کثیر کے دو اردو ترجمے
تفسیر ابن کثیر کے دو اردو ترجمے تک راقم الحروف کی رسائی ہوسکی ہے:
الف) ایک ترجمہ ’’اعتقاد پبلشنگ ہائوس نئی دہلی‘‘ نے شائع کیا ہے، یہ ترجمہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہے، جناب اعتقاد حسین صدیقی نے عرض ناشر میں یہ وضاحت کی ہے کہ ’’یہ ترجمہ بار بار لیتھوپر چھپتارہا؛ مگر طباعت کے صاف نہ ہونے کی وجہ سے قارئین کو ناپسند تھا، میں نے ’’نورمحمد کارخانۂ تجارت کراچی‘‘ کے نسخہ سے فوٹولے کر اس کتاب کو آفسیٹ پر چھاپا ہے؛ تاکہ قارئین کے نزدیک یہ طباعت شرف مقبولیت حاصل کرسکے‘‘ (تلخیص:ص۲)
اس ترجمہ میںکتابت ہاتھ کی ہے اور اچھی ہے، اس نسخہ میں قرآن پاک کی آیات اورترجمہ کے درمیان لکیریں کھینچی ہوئی ہیں، ’’ترجمۂ قرآن‘‘ جناب مولانا محمد جوناگڈھیؒ کا ہے جو مسلکاً اہل حدیث ہیں؛ البتہ یہ عقدہ میرے لیے اب تک لاینحل ہے کہ تفسیر کے مترجم کون ہیں؟ بعض لوگوں نے حضرت مولانا عبدالرشید نعمانیؒ کو مترجم سمجھ لیاہے؛ حالاںکہ اس ترجمہ کی پہلی جلد کے شروع میں صرف ان کا ایک مقالہ ہے، جس کے شروع میں مقالہ نگار کی حیثیت سے نام بھی لکھا ہواہے، ترجمہ کو پڑھ کر مجھ ناچیز کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا نعمانیؒ کا نہیں ہوسکتا، مثلاً (ج۱،ص۱۳۲ پر) ’’والنجم والشجر الخ‘‘ میں نجم کا ترجمہ ’’ستارہ‘‘ کیاہے؛ حالاںکہ محققین کے نزدیک اس جگہ ’’نجم‘‘ کا ترجمہ ’’بے تنا درخت‘‘ ہے، جیساکہ حضرت تھانویؒ کے ترجمۂ قرآن میں بھی ہے، تفصیل کا موقع نہیں؛ اس لیے ایک ہی مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے، بعض لوگوں نے مولانا محمدجوناگڈھی کا ترجمہ سمجھا ہے، اس کی بھی میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے؛ اس لیے مترجم کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اس ترجمہ کے پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا مشورہ دینا سمجھ میں نہیں آتا؛ البتہ زبان وبیان کا پیرایہ ٹھیک ہے۔
اس ترجمہ میں ہرجلد کے شروع میں مضامین کی مفصل فہرست دی گئی ہے،جس سے اپنے مقصد کے مضامین کا مطالعہ آسان ہوگیا ہے، ہر صفحہ میںدو کالم بنائے گئے ہیں؛ تاکہ اردو قارئین کو زحمت نہ ہو، ہندوپاک میںیہ ترجمہ بھی اصل کی طرح متداول ہے؛ لیکن کسی اہلِ علم نے اس پر اعتماد کا اظہار کیا ہو،اس کا حوالہ راقم الحروف کے پاس نہیں ہے۔
ب) تفسیر ابن کثیر کا دوسرا ترجمہ دیوبند کے ’’مکتبہ فیض القرآن‘‘ نے پانچ جلدوں میں شائع کیا ہے، یہ ترجمہ مشہور ومعروف عالمِ دین وانشاپرداز حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمیریؒ، شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند کا ہے، یہ ترجمہ اپنی گوناگوں خصوصیت کی وجہ سے پہلے ترجمہ کی بہ نسبت بہتر اور قابلِ اعتماد ہے، حضرت مولانا مرحوم نے اس پر حواشی بھی تحریر فرمائے ہیں، ظاہر ہے کہ حافظ ابن کثیرؒ شافعی مسلک کے ہیں، انھوںنے تفسیر میں مسائل ودلائل اپنے مسلک کے مطابق لکھے ہیں؛ ان مقامات پر حنفی قاری کا تشویش میں مبتلا ہوجانا بدیہی تھا؛ اس لیے مولانا کشمیری مرحوم نے ان سارے مقامات پر عمدہ حواشی تحریر فرمائے، مزید علوم ومعارف سے حواشی کا دامن لبریز ہے، اس ترجمہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میںآیات کا ترجمہ حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کا ہے، جس کی صحت پر اردو زبان وادب کے ساتھ قرآنیات سے دلچسپی رکھنے والے سارے علمائے کرام کا اتفاق ہے، اسی طرح ’’تفسیر تھانویؒ‘‘ کے عنوان کے تحت مولانا کشمیری مرحوم نے ’’بیان القرآن‘‘ کے مضامین کا اختصار پیش فرمایا ہے۔
پہلے یہ ترجمہ بھی ہاتھ کی کتابت اور لیتھوکی طباعت سے مزین تھا، اب مزید عمدگی پیدا کرنے کے لیے کمپیوٹر کے ذریعہ کتابت کرائی گئی ہے اور طباعت آفسیٹ کی ہے (عرض ناشر) مولانا کشمیری مرحوم نے کئی عربی تفسیروں کے اردو ترجمے شروع کیے تھے؛ مگر یہی ایک ترجمہ ایسا ہے جو مکمل ہوسکا، بقیہ سارے ترجمے ادھورے ہی رہ گئے؛ یہاں تک کہ مرحوم راہیِ ملکِ عدم ہوگئے، اللہ تعالیٰ بال بال ان کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائیں! (آمین)
پانچ صدی سے یہ تفسیر امت میں متداول ومقبول ہے، یہ تفسیر نہیں؛ بلکہ قرآن پاک کا ’’عربی ترجمہ‘‘ ہے،اس میں تفسیری کلمات قرآنِ پاک کے الفاظ کے برابر ہیں، کہیں کہیں چند الفاظ یا جملے زائد ہیں، اس تفسیر کو پڑھنے پڑھانے اور استفادہ کرنے والے جانتے ہیں کہ شروع سے ’’سورئہ مدثر‘‘ تک ایسا ہی ہے، اس کے بعد تفسیر کے الفاظ آیات سے کچھ زائد ہیں۔
علامہ سیوطیؒ (۸۴۹ھ تا ۹۱۱ھ) اور علامہ محلی (۷۹۱ھ تا ۸۶۴ھ) دونوں کا لقب؛ چوںکہ جلال الدین ہے؛ اس لیے ان کی تفسیر، ’’تفسیر الجلالین‘‘ سے موسوم ہوئی، علامہ سیوطیؒ کا نام عبدالرحمان ہے، ان کو دولاکھ احادیث یاد تھیں، متعدد فنون پر دست رس حاصل تھی، ’’الاتقان في علوم القرآن، لباب النقول في أسباب النزول‘‘ وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں، یہ علامہ محلیؒ کے شاگرد ہیں، جن کا نام محمد بن احمد بن محمد ہے، ان کی مشہور تصانیف میں سرفہرست ’’جمع الجوامع‘‘ ہے، علامہ محلیؒ نے ’’سورئہ کہف‘‘ سے اخیر قرآن تک کی تفسیر لکھی اور شروع سے ’’سورئہ فاتحہ‘‘ کی تفسیر لکھی تھی کہ فرشتۂ اجل آدھمکا، بالآخر علامہ سیوطیؒ نے اپنے استاذِ محترم کے نہج کو باقی رکھتے ہوئے ہی، تفسیر پوری کی، کوئی عالم محض مطالعہ کی بنیاد پر دونوں کے درمیان خطِ امتیاز نہیں کھینچ سکتا، دونوں شخصیتوں کے سامنے خصوصیت کے ساتھ شیخ موفق الدینؒ کی دو تفسیریں رہی ہیں، ایک کا نام ’’تفسیر کبیر‘‘ ہے، جسے اہلِ علم ’’تبصرہ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور دوسرے کا نام ’’تفسیر صغیر‘‘ ہے، جسے ’’تلخیص‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کے علاوہ تفسیر وجیز، بیضاوی اور ابن کثیر سے بھی استفادہ کیاگیاہے۔
جلالین کی اردو شروحات
راقم الحروف کے علم واطلاع میں اردو زبان میں اس کے تین ترجمے اور شرحیں ہیں:
(الف) کمالین (ب) فیض الامامین (ج) جمالین۔
کمالین شرح اردو جلالین
’’کمالین‘‘ نام کی جلالین کی ایک شرح عربی زبان میں بھی ہے،اس کی زیارت حیدرآباد کے ’’سالارجنگ میوزیم‘‘ میں ہوئی، شیشے کے اوپر سے ہی کھلے ہوئے ورق کو دیکھ سکا،یہ شرح اردو زبان میںہے، اس کے ’’تیس اجزائ‘‘ ہیں، ہر پارے کوالگ جزء میں لکھا گیا ہے، سولہ، سترہ اور اٹھارہ ویں پارے کاترجمہ اور اس کی تشریح حضرت مولانا انظرشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے، بقیہ سارے اجزاء حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ استاذ تفسیر دارالعلوم دیوبند نے لکھے ہیں، یہ شرح مدارس کے طلبہ کے درمیان متعارف ہے،اس کی اشاعت ’’مکتبہ تھانوی دیوبند‘‘ کے توسط سے عمل میں آئی ہے، حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دارالعلوم کے قدیم اساتذہ میں سے تھے، ان کی بھی متعدد علمی تصانیف ہیں، جو اہلِ علم سے دادِ تحسین حاصل کرچکی ہیں۔
زبان و بیان کے لحاظ سے کسی طرح کی کمی نہیں ہے، جلالین کے حل کرنے اور اردو سے سمجھنے والے علماء وطلبہ کے لیے معاون ہے، طباعت بہت عمدہ نہیں ہے، اب تک قدیم پلیٹوں پر ہی چھاپی جارہی ہے۔
راقم الحروف کو دارالعلوم حیدرآباد میں چھ سال مسلسل جلالین شریف پڑھانے کا موقع نصیب ہوا اور الحمدللہ یکے بعد دیگرے دونوں حصوں کے پڑھانے کی توفیق ملی، اس دوران تین مشکل مقامات پر ’’کمالین‘‘ کو دیکھنے کی نوبت آئی، ان میں سے دو مقام پر عبارت کا ترجمہ بھی نظر نہیں آیا اور ایک مقام پر ترجمہ تو تھا؛ مگر قاری کی مشکل حل ہوتی ہوئی نظر نہ آئی، اس کے بعد اور اس سے پہلے اس کو دیکھنے کا موقع میسر نہ آیا، بعض ایسی شروحات جو محض تجارتی نقطئہ نظر سے بعض تجار لکھواتے ہیں، ان میں لکھنے والوں کو بعض جگہوں پر جلدی کی وجہ سے تحقیق کا موقع نہیں ملتا اور ویسے ہی مسودہ کاتب کے پاس چلاجاتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو معاف فرمائیں! غرض یہ کہ ’’کمالین شرح جلالین‘‘ بھی ان شرحوں میں سے ہے، جن کو کسی بالغ نظر عالم کی تحقیق کے بعد ہی اعتبار حاصل ہوسکتا ہے۔
فیض الامامین شرح اردو تفسیر الجلالین
جلالین کی مقبولیت اور اس کے درسِ نظامی کے نصاب میں داخل ہنے کی وجہ سے متعدد علماء نے اردو زبان میں اس کی شرح لکھی ہے، ان میں ایک اور عظیم شخصیت ہیں، جنھوں نے بخاری، مسلم اور دیگر عربی درسی کتابوں کی شرحیں لکھی ہیں، ان کے نوٹس شائع کیے ہیں، میری مراد مظاہرعلوم سہارن پور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عثمان غنی ہیں، ان کا قلم بہت عمدہ ہے، طلبۂ کرام کے نزدیک ان کی شرحیں پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں، موصوف نے جلالین کی اردو شرح ’’فیض الامامین‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی، یہ چھ جلدوں میں ہے، مکتبہ فیض القرآن دیوبند سے چھپی ہے، دیوبند اور سہارن پور کے تجارتی کتب خانوں میںدست یاب ہے، موصوف نے ایک بار خود سنایا تھا کہ میں جس کتاب کو بھی پڑھاتا ہوں،اس کی شرح لکھ ڈالتا ہوں، بعض کتب خانہ والوں نے میری شرح کو دوسرے کے نام سے بھی چھاپ دیا ہے، ایسا ہی اتفاق ایک بار بنگلہ دیش میںہوا، ایک کتاب میں نے دیکھی، مجھے اچھی لگی؛ لیکن پڑھنے کے بعد میری اپنی تحریر محسوس ہوئی تو میں نے غور سے دیکھا تو حواشی پر میرے نام کے مختصرات (ع،غ چلمل) لکھے ہوئے تھے، چلمل میرا وطن ہے، بہار کے بیگوسرائے ضلع میںہے، تب مجھے نام بدل کر چھاپنے والوں پر بہت افسوس اور تعجب ہوا، راقم الحروف کو افسوس کے ساتھ یہ کھنا پڑرہا ہے کہ مولانا مرحوم آج بہ تاریخ ۸؍۲؍۱۴۳۲ھ مطابق ۱۳؍۱؍۲۰۱۱ء رات چار بجے اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے؛ غرض یہ کہ ’’فیض الامامین‘‘ میںکتاب کو اچھی طرح حل کیاگیا ہے، واللہ اعلم۔
جمالین شرح اردو جلالین
’’جمالین‘‘ حضرت الاستاذ مولانا محمد جمال ابن حکیم شیخ سعدی صاحب بلندشہری دامت برکاتہم (ولادت ۱۹۳۸ء) استاذِ فقہ وتفسیر دارالعلوم دیوبند کی ہے، یہ میرٹھ کے رہنے والے ہیں، ابتدائی تعلیم کو رانہ ضلع بلندشہر اور مفتاح العلوم جلال آباد میں حاصل کی، پنجم عربی سے دارالعلوم دیوبند میں پڑھا، مولانا مدنیؒ اور علامہ بلیاویؒ سے کسبِ فیض کیا، ۵۶-۱۹۵۵ء میں فراغت ہوئی، طب کے ساتھ فنون کی تعلیم حاصل کی، ۱۹۸۶ء میں وسطیٰ (ب) میں تقرر ہوا، اس لحاظ سے دارالعلوم دیوبند میںپچیس سال سے استاذ ہیں، موصوف کی متعدد شرحیں منصہ شہود پر آچکی ہیں، ہدایہ، حسامی اور مقاماتِ حریری کی شرحیں طبع ہوکر قبولِ عام حاصل کرچکی ہیں، تقریباً سترہ (۱۷) سال سے جلالین شریف کا درس دے رہے ہیں، ’’قرۃ العینین‘‘ کے نام سے جلالین کا اردو ترجمہ فرمایا، اس کے بعد اپنے درسی افادات کو خود سے مرتب فرماکر ’’جمالین‘‘ کے نام سے ’’مکتبۂ جمال‘‘ سے شائع فرمایا ہے، چھ جلدوں میں پوری تفسیر کا احاطہ کیاگیاہے؛ چوںکہ علامہ محلیؒ نے بعد کے پاروں کی تفسیر پہلے فرمائی تھی؛ اس لیے آپ نے بھی پہلے اخیر کی تین جلدیں شائع کیں، شروع کی تین جلدوں کی تصنیف، کتابت، طباعت اور اشاعت بعد میں عمل میں آئی ہیں۔
شروع میں فہرستِ مضامین مفصل ہے، یہ شرح جملہ شروحات میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے، یہ طلبہ کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے؛ اس لیے مشکل مفردات کی لغوی وصرفی تحقیق کے ساتھ مشکل جملوں کی ترکیب بھی کی گئی ہے، علامہ سیوطیؒ اور محلیؒ کے تفسیری الفاظ وتعبیرات کے مقاصد اور فوائدِ قیود کو اچھی طرح واضح کیاگیاہے، مثلاً یہ کہ کہاں محض لغوی ترجمہ بتانا مقصد ہے؟ کہاں ابہام کی وضاحت ہے؟ کہاں اجمال کی تفصیل ہے؟ کہاں معنی مرادی کی تعیین کاارادہ ہے؟ اور کہاں بیانِ مذہب ہے؟ کہاں ترکیبِ نحوی، قرأت اور تعلیل بتانا مقصد ہے؟ غرض یہ کہ عبارت کے حل کرنے میںکوئی دقیقہ چھوڑا نہیں گیا ہے، جہاں فقہی مسائل ودلائل بیان کیے ہیں، ان مقامات پر شارح نے حنفی نقطئہ نظر کو بھی دلائل سے واضح فرمایاہے، ’’ارض القرآن‘‘ کے نقشوں کو بھی افادہ کے لیے شاملِ اشاعت کیاگیاہے، اکابر علماء نے اس شرح کو خوب سرایا ہے، دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث، زبان وقلم کے بے تاج بادشاہِ نظم ونثر کے معروف قلم کار حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی ظفرؔ بجنوری دامت برکاتہم نے اس پر قیمتی تقریظ تحریر فرمائی ہے، صفحہ نمبر بارہ(۱۲) تا اکیس (۲۱) پر شارح نے تفصیلی مقدمہ تحریر فرمایا ہے، اس میں شیخین کاتعارف، وحی کی ضرورت واہمیت، اقسام، مکی، مدنی سورتوں کی تعریف، نزولِ قرآن اور حفاظتِ قرآن کی تاریخ بیان کی ہے، قرآنِ پاک سے متعلق اعداد وشمار مثلاً سورہ، رکوع، آیات، مکی، مدنی، بصری، شامی آیات اور کلماتِ قرآنی کی تعداد تحریر فرمائی ہے، ساتھ ہی تفسیر کی لغوی اور اصطلاحی تعریفات بھی لکھی ہیں، یعنی تفسیر پڑھنے والے ابتدائی طالب علموں کو جتنی معلومات ضروری ہیں، اُن کو تفصیل سے جمع فرمادیا ہے، تفسیر وتشریح کا انداز بہتر ہے، ہربات کو نئے عنوان کے تحت لکھا ہے، آیات اور ان کے ترجمے پر خط کھینچ دیا ہے؛ غرض یہ کہ جلالین کی شرح میںجتنی جمال آفرینی موصوف سے ممکن تھی سب بروئے کار لائی گئی ہے۔
تفسیر بیضاوی
درس نظامی میںجلالین کی طرح ’’بیضاوی‘‘ بھی ہمیشہ سے مقبول رہی ہے، مشکوٰۃ المصابیح کے ساتھ اس کا ابتدائی حصہ اب بھی مدارس میں نصاب کا جزء ہے اور دارالعلوم دیوبند میں دورئہ حدیث شریف کے بعد ’’تکمیل تفسیر‘‘ میں بیضاوی کا ایک معتدبہ حصہ پڑھایا جاتا ہے، امام فخرالدین رازیؒ کی تفسیر کے بعد مشکل تفسیروں میںاس کا شمار ہوتا ہے، اس میںنحو، صرف، کلام اور قراء ت وغیرہ کے مباحث کو بھی بیان کرتے ہیں؛ اس لیے اس کے لیے اردو شرح کی ضرورت ایک مسلم بدیہی حقیقت ہوگئی۔
اس تفسیر کا مکمل ترجمہ اردو زبان میں ہوا ہو، اس کا علم تو مجھے نہیں؛ البتہ اتنا ضرور ہے کہ جتنا حصہ داخلِ نصاب رہا ہے؛ اس کی مختلف اوقات میں مختلف انداز کی شرحیں شائع ہوئی ہیں، میرے علم میں اس کی دو شرحیں ہیں:
(الف) التقریر الحاوي في حل تفسیر البیضاوي۔
(ب) تقریر شاہی۔۔۔ یہ دونوں مستقل شرحیں نہیں ہیں؛ بلکہ درسی افادات ہیں۔
التقریر الحاوی
یہ حضرت مولانا سید فخرالحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کے درسی افادات ہیں، مکتبہ فخریہ دیوبند نے اسے شائع کیاہے، اس کی تین جلدوں کے دیکھنے کا شرف حاصل ہوسکا ہے، مرتب کی حیثیت سے پہلی اور دوسری جلد پر دو نام ہیں:
(الف) مولانا شکیل احمد صاحب صدرمدرس مدرسہ محمودیہ سروٹ، مظفرنگر(یوپی)
(ب) مولانا جمیل احمد سہارن پوری۔
اور تیسری جلد پر صرف پہلا نام ہے، پہلی جلد کے ابتدائی دس صفحات میں ’’مقدمہ‘‘ ہے، اس کے بعد اصل شرح شروع ہوتی ہے، پہلے عبارت، پھر ترجمہ اس کے بعد تشریح ہے، تیسری جلد ہُو الذی خلق لکم ما في الأرض جمیعاً الخ تک کے ترجمہ وتشریح پر مشتمل ہے، اس پر حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمیؒ کا ’’پیش لفظ‘‘ بھی ہے،اس میں شرح کی خوبیوں پر گفتگو کی گئی ہے، زبان وبیان کے لحاظ سے بھی کوئی سقم نظر نہ آیا، اس میں انھیں افادات کو شائع کیاگیا ہے جو حضرت مولانا شکیل احمد صاحب سیتاپوری مدظلہٗ نے دورانِ درس ضبطِ تحریر میں لائے تھے۔ (مقالاتِ حبیب۱؍۸۰)
تقریر شاہی
حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے درسی افادات کو اس میں جمع کیاگیا ہے، یہ صرف سورئہ فاتحہ کی تفسیر پر مشتمل ہے، اس کی زیارت ۱۹۹۳ء یا ۱۹۹۴ء میں مدرسہ ریاض العلوم گورینی، جون پور (یوپی) میںہوئی تھی، دیوبند میںاسے نہیں دیکھ سکا، تجارتی کتب خانوں میں نایاب ہے۔
’’مدارک التنزیل‘‘ علامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد نسفی کی تفسیر ہے، یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے، جامعیت اور پیرایۂ بیان کی دلکشی میں منفرد ہے، اس میںگمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کی بھی بھرپور تردید کی گئی ہے، حافظ ابن کثیرؒ کی تفسیر کی طرح اسرائیلیات سے بالکل پاک ہے، اہلِ علم نے ہمیشہ اسے پذیرائی بخشی ہے، پہلے ہندوپاک کے مدارس میں داخلِ نصاب تھی،اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں فقہی مسائل ودلائل حنفی نقطئہ نظر سے بیان ہوئے ہیں، تفسیر اور علمِ تفسیر سے بے اعتنائی کے دور میں جس طرح دوسری تفسیریں بے توجہی کا شکار ہوئی ہیں، اسی طرح یہ تفسیر بھی ہوئی، فإلی اللہ المشتکٰی!
مذکورہ بالا خصوصیات کی وجہ سے حضرت مولانا انظرشاہ کشمیریؒ نے اس کا ترجمہ شروع فرمایا اور بڑے ہی آب وتاب سے دیوبند کے ’’ادارہ فکرِ اسلامی‘‘ کے ذریعہ اس کی اشاعت عمل میں آئی، ترجمہ کا اسلوب نہایت عمدہ اور زبان شیریں ہے، قاری کو ترجمہ پن کا بالکل احساس نہیںہوتا، ’’فُٹ نوٹ‘‘ میں بڑی مفید باتیں بیان کی گئی ہیں، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میںامام جصاص اور ابن العربی رحمہما اللہ کی ’’احکام القرآن‘‘ سے مترجم نے جزوی احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں، اس طرح ہر رکوع کے بعد ’’قرآن کا پیغام‘‘ کے عنوان کے تحت تفسیر کا خلاصہ تحریر فرمایا ہے، آیات اور ترجمہ میں خط کھینچ کر فصل پیدا کردیاگیا ہے، اہلِ علم کے نزدیک کتابتِ ترجمہ کا یہ طرز بہترہے، ترجمہ میں حضرت تھانویؒ کے ترجمہ کو منتخب فرمایا ہے۔
مترجم مرحوم (۱۳۴۷ھ تا ۱۴۲۹ھ) برصغیر کے عظیم ترین باپ کے عظیم سپوت تھے، عربی زبان وادب پر صدرجمہوریہ ایوارڈ یافتہ تھے، مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی تھے، دو درجن علمی، ادبی اور مذہبی کتابیں تصنیف فرمائیں، مرحوم کو عربی تفاسیر کے اردو ترجمہ کی طباعت واشاعت کے ساتھ ترجمہ نگاری سے بڑی دلچسپی تھی، اس کو عمدہ سے عمدہ بنانے کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے، ابن کثیر، مدارک، جلالین اور مظہری کے ترجمے کیے؛ لیکن اتفاق سے اوّل الذکر کے علاوہ کوئی ترجمہ مکمل نہ ہوسکا، جلالین کا ترجمہ مکمل ہوا؛ مگر اس کے صرف تین پاروں کا ترجمہ اور اس کی شرح مرحوم ومغفور نے فرمائی تھی (یعنی سولہ، سترہ، اٹھارہ) بقیہ کی توفیق حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ استاذِ تفسیر دارالعلوم دیوبند کے نصیبے میںآئی۔ مرحوم عصری دانش گاہوں کے فیض یافتہ بھی تھے، زبان وقلم دونوں کے بے نظیر شہسوار تھے، انھوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے، اللہ تعالیٰ ان سب کو قبول فرماکر مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں!
جب تفسیر مدارک کا ترجمہ چھپا تو مہبطِ وحی مکہ مکرمہ سے نکلنے والے اخبار ’’رابطۃ العالم الاسلامی‘‘ میں اس کی خوش خبری شائع ہوئی، یہ جمادی الثانیہ ۱۳۸۰ھ کی بات ہے (ترجمہ مدارک ص۹۶) ہندوستان میں بھی متعدد رسالوں نے اس پر تبصرے لکھے اور مترجم وناشر کو دادِتحسین سے نوازا، مثلاً: حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒ نے ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی میں ۸؍ستمبر ۱۹۶۳ء کو عمدہ تبصرہ لکھا اور مولانا سید محمد ازہرشاہ قیصرؔ نے رسالہ دارالعلوم دیوبند کے نومبر ۱۹۶۳ء کے شمارے میں اس اقدام کو نہایت بہتر بتایا۔
میں نے اس کے دو حصے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں دیکھے، دونوں حصے چھیانوے، چھیانوے صفحات کے ہیں، جب تک یہ تفسیر نصاب میں شامل تھی، اس کے ترجمے بھی مارکیٹ میںملتے تھے، اب دیوبند کے تجارتی کتب خانوں میں یہ ترجمہ بھی نایاب ہے۔
ترجمہ تفسیر خازن
حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی زیدمجدہ استاذِ حدیث ومدیر رسالہ دارالعلوم دیوبند نے اپنے ’’مقالاتِ حبیب‘‘ (۷۶۱) میں تفسیر خازن کے ترجمے کا ذکر فرمایا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے مفتیِ اعظم حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ترجمہ کیا ہے؛ مگر کوشش کے باوجود وہ ترجمہ نظرنواز نہ ہوسکا؛ اس لیے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ واللہ اعلم۔
ترجمہ تفسیر طنطاوی
علامہ طنطاویؒ کی تفسیر بھی اہلِ علم کے نزدیک نظرِاعتبار سے دیکھی جاتی ہے، حضرت مولانا انظرشاہ کشمیریؒ کے فرزندارجمند جناب سید احمد خضرشاہ صاحب زیدمجدہٗ نے راقم الحروف کو بتایا کہ والد صاحب نے تفسیر طنطاوی کا ترجمہ بھی شروع فرمایا تھا؛ لیکن وہ مکمل نہ ہوسکا، تجارتی کتب خانوں میں تو نایاب ہے ہی، خود ان کے پاس بھی نہیں ہے؛ البتہ حضرت مولانا احمد رضا صاحب بجنوری دامت برکاتہم کے کتب خانہ میں اس کے دو یا تین اجزاء کو انھوں نے دیکھا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
تفسیر مظہری
حضرت علامہ قاضی محمد ثناء اللہ صاحب پانی پتیؒ کی یہ تفسیر، اسلامی کتب خانہ کی بڑی قیمتی متاع ہے، محدثِ کبیر علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے تھے کہ: ’’شاید ایسی تفسیر بسیطِ ارض میں نہ ہو‘‘ (روایت: حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمیریؒ) حضرت قاضی صاحبؒ نے اپنے پیرومرشد کی طرف نسبت کرکے اس کا نام ’’تفسیر مظہری‘‘ رکھا، حضرت مرزا مظہرجانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ: اگر اللہ تعالیٰ نے کسی تحفے کا مطالبہ فرمایا تو میں ’’ثناء اللہ‘‘ کو پیش کردوںگا؛ حضرت مرزا صاحب اپنے مریدوں میں سب سے زیادہ آپ سے محبت کرتے تھے، آپ کو ’’عَلَمُ الہدیٰ‘‘ کے لقب سے یاد فرماتے تھے، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ موصوف کو ’’بیہقیِ وقت‘‘ کہتے تھے، آپ نے حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ سے باقاعدہ علم حاصل کیا ہے، آپ کا سلسلۂ نسب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
حضرت قاضی صاحبؒ کی تصانیف تیس سے زائد ہیں، ان میں سے دو کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، ایک تویہی تفسیر ہے اور دوسری ’’مالابدمنہ‘‘ (فارسی) اس تفسیر کے بارے میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ تفسیر بہت سادہ اور واضح ہے اور اختصار کے ساتھ آیاتِ قرآنی کی تشریح معلوم کرنے کے لیے نہایت مفید، انھوں نے الفاظ کی تشریح کے ساتھ متعلقہ روایات کو بھی کافی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور دوسری تفسیروں کے مقابلے میں زیادہ چھان پھٹک کر روایات لینے کی کوشش کی ہے‘‘ (معارف القرآن ۱/۵۸)
مسائل اور دلائل میںحنفی نقطئہ نظر کی ترجمانی نہایت ہی سلیقہ سے کی گئی ہے، برِصغیر میں؛ چوںکہ زیادہ تعداد احناف ہی کی ہے؛ اس لیے اس تفسیر کو اہلِ علم کے درمیان بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔
اردو ترجمے
راقم الحروف کے محدود علم واطلاع میں عربی زبان کی تفسیروں میںسب سے زیادہ اسی تفسیر کے ترجمے ہوئے ہیں، میری رسائی چارترجموں تک ہوسکی ہے:
(الف) ترجمہ جناب محمد یعقوب بیگ، مدیر رسالہ: ’’کاشف العلوم‘‘
(ب) ایک نام معلوم مترجم کا ترجمہ
(ج) ترجمہ حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمیریؒ شیخ الحدیث، دارالعلوم وقف دیوبند۔
(د) ترجمہ مولانا سیدعبدالدائم صاحب الجلالی رحمۃ اللہ علیہ۔
ترجمہ مظہری، از: جناب محمد یعقوب بیگ
یہ ترجمہ تین جلدوں پر مشتمل ہے، تینوں جلدوں کے صفحات کی تعداد پانچ سو نو (۵۰۹) ہے، تیسری جلد دوسرے پارے تک کے ترجمہ کو شامل ہے، اس کی اشاعت ’’مطبع انوری دہلی‘‘ کے ذریعہ عمل میںآئی ہے، تاریخِ طباعت ۱۳۲۶ھ درج ہے، اس ترجمہ کی زبان بھی مناسب ہے؛ البتہ ایک صدی سے زائد عرصہ گذرجانے کی وجہ سے قدامت آگئی ہے، پھربھی قابلِ قدر ہے۔
ایک اور ترجمہ
دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میںایک ترجمہ ہے، جس پر مترجم کا نام لکھا ہوا نہیں ہے؛ لیکن تقابلی نظر ڈالنے سے یہ اندازہ ہوا کہ یہ ترجمہ بھی جناب محمد یعقوب بیگ مدیررسالہ: ’’کاشف العلوم‘‘ کے ترجمہ سے ملتا جلتا ہے، بعض جگہ تعبیرات کافرق ہے؛ لیکن بہت زیادہ نہیں، راقم الحروف کے خیال میں دونوں ترجموں کے مترجم ایک ہی شخصیت ہیں اور شاید الگ ایڈیشن تیار کرنے میں کچھ حذف واضافہ کیاگیا ہے، اس ترجمہ کے شروع یا اخیر میں لوح یا فہرست وغیرہ نہیں ہے کہ حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے؛ البتہ اخیر میں ’’ترقیمہ‘‘ ہے، جس میں ماہ ذی الحجہ ۱۳۲۵ھ درج ہے، اس سے اوّل الذکر ترجمہ سے پہلے کی طباعت کافیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
نامعلوم مترجم کا ترجمہ مظہری
یہ ترجمہ بھی دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں ہے، بڑی تقطیع پر مطبوع ہے، طباعت ’’لیتھو‘‘ کی ہے، صفحات کی تعداد ایک سو پندرہ (۱۱۵) ہے، یہ ترجمہ جناب سید محمد عبدالمجید اور سید محمد یامین کے زیراہتمام ’’مطبع شمس الانور‘‘ میرٹھ سے شائع ہوا ہے، مسودہ کی کتابت جناب نصرت علی میرٹھیؒ نے کی ہے اور ٹائٹل کی کتابت اثرمیرٹھی کی ہے، یہ جلد ایک پارہ کے ترجمے کو شامل ہے، ویسے فہرست میں چوتھے پارہ تک ترجمہ کی طباعت کی صراحت ہے اور ساتھ ہی سب کی قیمت بھی درج ہے اور پانچویں، چھٹے اور ساتویں پارہ کے زیرطبع ہونے کا اعلان ہے۔
ترجمہ قابلِ اعتماد اور معیاری معلوم ہوتا ہے، ترجمہ کی زبان اور رسم الخط نیز کاغذ و طباعت سے ایک صدی سے زیادہ قدامت نظر آتی ہے، مترجم کی طرف سے کچھ بھی اضافہ نہیں کیاگیا ہے، بس اصل عربی میںقاضی صاحبؒ نے جتنا کچھ لکھا ہے، بس اس کو ہی اردو کا جامہ پہنادیا گیا ہے، اس ترجمہ میںآیات کو کافی جلی، ترجمہ کو اس سے خفی اور مفسر کے حاشیہ کے ترجمہ کو اس سے باریک خط میںلکھاگیا ہے۔
’’ترجمہ مظہری‘‘، از: مولانا انظرشاہ صاحب کشمیریؒ
حضرت مولانا انظرشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کئی تفسیروں کے ترجمے اور ان کی طباعت واشاعت کا پروگرام بنایا تھا؛ لیکن نہ جانے کیوں ’’ابن کثیر‘‘ کے علاوہ کسی تفسیر کا ترجمہ پایۂ تکمیل کو نہ پہہنچ سکا؟ مرحوم نے تفسیر مظہری کا ترجمہ بھی بڑے ہی آب وتاب سے شروع فرمایا تھا، اس کا پہلا حصہ چھیانوے صفحات پر مشتمل ہے، اس کی اشاعت ’’مکتبہ ندائے قرآن دیوبند‘‘ کے ذریعہ عمل میں آئی، اس میں بھی ترجمۂ آیات کے لیے حضرت تھانویؒ کا ترجمہ منتخب کیاگیا ہے، مولانا مرحوم کے ترجمہ کی زبان بہت عمدہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ زبان وبیان کے بادشاہ تھے، تعبیر کی جدت استعارہ کی کثرت اور افسانوی طرزِ ادا کے وہ بے مثال ادیب تھے، اس ترجمہ پر حواشی بھی نہایت عمدہ اور مفید تحریر فرمائے ہیں، طباعت کی تاریخ جون ۱۹۶۰ء درج ہے اور ’’ترقیمہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’الحمدللہ! کہ آج ۵؍رجب المرجب ۱۳۷۹ھ بروز سہ شنبہ بوقت ۱۲؍بجے دن میں ’’تفسیر مظہری‘‘ کا پہلا جزء ترجمہ ہوکر ختم ہوا، وذلک من فضل اللّٰہ۔‘‘ درمیان میں اپنے اور والدین کے لیے مغفرت ورحمت کی دعاء ہے، پھر انظرشاہ الکشمیری، خادم التدریس بدارالعلوم دیوبند‘‘ رقم ہے۔
’’ترجمۂ مظہری‘‘ از مولانا سید عبدالدائم الجلالیؒ
’’تفسیرمظہری‘‘ کا یہی ترجمہ اپنی مکمل شکل میں راقم الحروف کی نگاہ سے گذرا، اور یہ ہندوپاک کے تجارتی کتب خانوں میں موجود بھی ہے، دیوبند کے ’’زکریا بک ڈپو‘‘ نے لاہور پاکستان کے ’’دارالاشاعت‘‘ والے مطبوعہ نسخے کا فوٹو لے کر شائع کیا ہے۔
شروع کے دو صفحات میں تفسیر اور مفسر کا تعارف ہے، پھر فہرست مضامین ہے، اس میں سارے مضامین کا احاطہ کیاگیاہے، ترجمہ کی زبان نہایت عمدہ اور رواں دواں ہے، مترجم کا مکمل تعارف حاصل نہ ہوسکا، ایک جگہ صرف ’’رفیق ندوۃ المصنّفین دہلی‘‘ لکھاہوا دیکھا، ترجمہ پڑھنے سے شخصیت وقیع معلوم ہوتی ہے، مترجم کی طرف سے مفیدحواشی کا اضافہ بھی ہے، جو قارئین کے لیے متاعِ گراں مایہ ہے؛ غرض یہ کہ یہ ترجمہ راقم الحروف کے نزدیک سب سے عمدہ اور مکمل ہے، کتابت کمپیوٹر کی اور طباعت آفسیٹ کی ہے، آیاتِ قرآنی کو ہندوپاک کے مروجہ رسم الخط میں اور ترجمہ کو قوسین کے درمیان لکھاگیا ہے۔