{
(ترجمہ) (۱) سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں جو مربی ہیں ہرہرعالم کے (۲)جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں (۳)جو مالک ہیں روز جزاکے (۴)ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست اعانت کی کرتے ہیں (۵)بتلادیجئے ہم کو سیدھا رستہ (۶) ان لوگوں کا رستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے(۷)نہ ان لوگوں کا رستہ جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا رستہ جو گم ہوگئے۔
بفضل خدا ہمیں رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں ملیں جس میں دن کی عبادت روزہ اورر ات کی عبادت نماز تراویح کی توفیق بھی عطا کی گئی اور حسب سابق بعد تراویح قرآن کریم کی تفسیر کا مبارک سلسلہ بھی جاری ہوا، اللہ رب العالمین ہمارے قرآن کے پڑھنے سمجھنے اور اسپر عمل کرنیکی توفیق عطا فرمائے، میں مناسب سمجھتا ہوں آج قرآن کی پہلی سورت سورۃ الفاتحہ کے سلسلہ میں چند ضروری مضامین آپ کے سامنے پیش کروں کیونکہ یہ وہ سورت مبارکہ ہے جو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اسکی فضیلت واہمیت ملاحظہ فرمائیں۔
سورہ فاتحہ کی فضیلت: احادیث شریفہ میں سورئہ فاتحہ کی بہت سی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں سورئہ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ہے اور آخری تین آیتوں میں انسان کی طرف سے دعاودرخواست کا مضمون ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں کچھ حمد وثنااور کچھ دعا کا پہلو۔
{۱} آنحضرتﷺ کا ارشاد گرامی ہے اعظم سورۃ فی القرآن سورئہ فاتحہ قرآن کی عظیم ترین سورۃ ہے ۔(بخاری ج؍۲ ص؍۶۴۲)
{۲} رسول اللہﷺ نے فرمایا والذی نفسی بیدہ ماانزلت فی التوراۃ ولافی الانجیل ولا فی الزبور ولا فی الفرقان مثلہا، قسم اس خدا کی جسکے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اس جیسی (سورئہ فاتحہ) سورت نہ تورات میں اتاری گئی نہ انجیل میں نہ زبور میں نہ قرآن میں (ترمذی ج؍۲ ص؍۱۱۵)
{۳} حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا چار چیزیں اس خزانہ سے اتاری گئی ہیں جو عرش کے نیچے ہے ان چار کے علاوہ اس میں سے کوئی چیز نہیں اتاری گئی (۱) ام الکتاب (۲)آیۃ الکرسی (۳)سورئہ بقرہ کی آخری آیات (۴)سورئہ کوثر (درمنثور ج ؍۱ص؍۵)
{۴} حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ ابلیس ملعون چارمرتبہ رویا ایک تو اسوقت رویا جب سورئہ فاتحہ نازل ہوئی، دوسرے اس وقت جب وہ ملعون قرار دیا گیا، تیسرے جب زمین پر اتارا گیا چوتھے اس وقت جب سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی بعثت ہوئی (درمنثورج؍۱ ص؍۵)
{۵} حضرت عبد اللہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی تو حضرت جبرئیلؑ نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا ہے جو اس سے پہلے کبھی کھولا نہ گیا تھا ایک فرشتہ نے آنحضرتﷺ کو سلام کیا اورعرض کیا کہ آپ خوشخبری سن لیجئے دونور آپ کو ایسے ملے ہیںجوآپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے (۱)فاتحۃ الکتاب (۲)سورئہ بقرہ کی آخری دو آیتیں، ان دونوں میں سے جو بھی کچھ آپ تلاوت کریں گے اللہ تعالیٰ ضرور آپ کا سوال پورا فرمائیں گے(مسلم ج؍۱ ص ۲۷۱)
{۶} حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور بندہ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا ہے اور بندہ جو سوال کرے اسکے لئے وہی ہے اسکے بعد اس تقسیم کی تفصیل اسطرح بیان فرمائی کہ جب بندہ کہتا ہے الحمدللّٰہ رب العالمین‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حَمدنی عبدی یعنی میرے بندہ نے میری تعریف کی پھربندہ کہتا ہے الرحمن الرحیم تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اثنیٰ عَلَیَّ عَبدی یعنی میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی پھر جب بندہ کہتا ہے مٰلک یوم الدین تو اللہ فرماتے ہیں مَجدّنی عبدی یعنی بندہ نے میری بزرگی بیان کی پھر جب وہ کہتا ہے ایاک نعبد وایاک نستعین تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے اسکے لئے وہی ہے۔پھر جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَoصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْoغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَo تواللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ میرے بندے کیلئے ہے اور جو میرا بندہ سوال کریگا اسکے لئے وہی ہے (مسلم ج؍۱ ص؍۱۷۰)
{۷} حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے کتب سابقہ کے علوم قرآن کریم میں ودیعت فرمائے ہیں اور پھر قرآن کے علوم کو سورئہ فاتحہ میں جمع کردئے ہیں لہٰذا جو شخص اس سورۃ کی تفسیر معلوم کرلیگا وہ گویا تمام کتب منزلہ کی تفسیرکا (مجملاً) عالم ہوجائیگا۔
قاضی بیضاویؒ نے فرمایا ہے کہ یہ سورت ایسی نظری حکمتوں اور عملی حکمتوں پر مشتمل ہے جو کہ طریق مستقیم پر چلنا اور سعید لوگوں کے مراتب اور بدبختوں کے منازل معلوم کراتی ہے۔
امام فخرالدین رازیؒ فرماتے ہیں کہ تمام قرآن کا مقصد صرف چارامورکاثابت کرنا ہے ۔
(۱) الٰھیات (۲)معاد (۳)نبوات (۴)اوراللہ تعالیٰ کیلئے قضا اور قدرکا ثابت کرنا ۔ الحمد للہ رب العالمین الٰہیات پر دلالت کرتی ہے اور مٰلک یوم الدین معاد پر اور ایاک نعبد وایاک نستعین تمام امور اللہ تعالیٰ کی قضااورقدرہی سے ہیں اور اھدنا الصراط المستقیم تا آخر قضائے الٰہی کے اثبات اور نبوتوں پر دلالت کرتی ہے۔
علامہ طیبیؒ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ سورت ان علوم کی چارانواع پر مشتمل ہے جو علوم کہ دین کا مدار ہیں ۔
{۱} علم الاصول ذات باری تعالیٰ اور اسکی صفات کی معرفت اوران پر ایمان رکھنا چنانچہ الحمد للّٰہ رب العالمین سے ذات وصفات کی معرفت کی طرف اشارہ ہے اور انعمت علیہم سے نبوت کی معرفت کی طرف مٰلک یوم الدین سے معاد کی طرف اشارہ ہے یہ وہ امور ہیں جنکو اصول کہا جاتا ہے۔
{۲} علم الفرع: اسکی بنیاد عبادات ہیں چنانچہ ایاک نعبد سے یہی امر مقصود ہے۔
{۳} علم الاخلاق: جنکے ذریعہ سے کمال حاصل ہوتا ہے اوراسمیں سے بڑا شعبہ بارگاہ خداوندی تک رسائی اور اسکے راستے کا سالک بنے اور سلوک میں استقامت حاصل ہو اور اسی ذات واحد کے حضور پناہ لے اپنے جملہ امور کو اس پر چھوڑدے وایاک نستعین اھدناالصراط المستقیم سے اسی کی جانب اشارہ ہے ۔
{۴} علم قصص: جن سے اصل غرض یہ معلوم کرنا ہے کہ سعید کون ہے اور شقی کون، اسی ضمن میں یہ بھی معلوم ہوگا کہ سعید لوگوں کیلئے عمدہ وعدے اور بدبختوں کیلئے وعید۔انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین میںاسی امر کا بیان ہے (تفسیر فیض الامامین ج؍۶،ص؍۴۶۵)
اسمائے سورئہ فاتحہ
تفسیر قرطبی میں علامہ قرطبی نے سورئہ فاتحہ کے بارہ نام اور اتقان میں علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے پچیس نام ذکر کئے ہیں
{۱} فاتحۃ الکتاب: حضرت ابوھریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا، ہی ام القرآن وہی فاتحۃ الکتاب،فاتحۃ الکتاب نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اسی سے شروع ہوتا ہے اورنماز میں قرأت اسی سے شروع ہوتی ہے اور نزول کے اعتبار سے مکمل سورت یہی پہلی سورت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ لوح محفوظ میں لکھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ اسی سورت سے قرآن مجیدشروع ہوتا ہے۔
{۲} فاتحۃ القرآن: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسی سورت سے قرآن مجید شروع ہوتا ہے۔
{۳} ام الکتاب: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسمیں حلال وحرام کے احکامات ہیں اور ام لکتاب لوح محفوظ کا بھی نام ہے۔
{۴} ام القرآن: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورت قرآن کی شروع اور اصل ہے اورتمام علوم قرآن کو محیط ہے جیسا کہ مکۃ المکرمہ کو ام لقریٰ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ شہر مکہ زمین کا اول اور پہلا حصہ ہے۔
{۵} القرآن العظیم: آپؐ کا ارشاد گرامی ہے وہی القرآن العظیم، قرآن عظیم اس لئے نام رکھا گیا ہے یہ سورت قرآن مجید کے معانی پر مشتمل ہے۔
{۶} السبع المثانی: ارشاد باری عزاسمہ ہے ’’ولقد اٰتینٰک سبعاً من المثانی‘‘ اس سورت کو سبع مثانی نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسمیں سات آیتیں ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ اسمیں سات آداب ہیں ہرآیت میں ایک ادب ہے۔
{۷} الوافیہ: قرآن مجید میں جو معانی ہیں یہ سورت انکا احاطہ کرنے والی ہے۔
{۸ } الکنز: اس سورت کو نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ یہ سورت اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
{۹} الکافیہ: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورت نماز کیلئے کافی ہے اپنے ماسواء سے ۔
{۱۰} الاساس: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورت اصل القرآن ہے اور یہ سورت قرآن کی پہلی سورت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا علیک باساس القرآن یعنی تم سورئہ فاتحہ کو لاز م پکڑو۔
{۱۱} النور:
{۱۲} سورۃ الحمد:
{۱۳} سورۃ الشکر
{۱۴} سورۃ الحمد الاولیٰ:
{۱۵} سورۃ الحمد القصریٰ:
{۱۶} الرقیہ: آپؐ نے اس سورت کے متعلق فرمایا وماادراک انہا رقیۃ کیا تم جانتے ہو کہ یہ سورت رقیہ ہے۔
{۱۷} الشفا: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا فاتحۃ الکتاب شفاء من کل دائٍ یعنی سورئہ فاتحہ میں ہر بیماری کی دوا ہے۔
{۱۸} الشافیہ:
{۱۹} سورۃ الصلاۃ:
{۲۰} الصلاۃ: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سورت کو میں نے اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کرلیا ہے قسمت الصلاۃ بینی وبین عبدی نصفین۔
{۲۱} سورۃ الدعا: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں اھدنا جیسے الفاظ دعا موجود ہیں۔
{۲۲} سورۃ السوال: اللہ نے اس سورئہ فاتحہ کے ذریعہ بندہ کو دعا مانگنا سکھایا ہے۔
{۲۳} تعلیم المسئلہ: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں اللہ سے مانگنے کے آداب موجود ہیں۔
{۲۴} سورۃ المناجاۃ: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔
{۲۵} سورۃ التفویض: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وایا ک نستعین جیسے الفاظ کے ذریعہ اپنے معاملات کو خدا کے حوالے کرکے خداہی سے مانگتا ہے۔
خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ خدا ہمیں اس سورت کے فضائل کو جان کر اسکے مضامین کا استحضار کرتے ہوئے اسے پڑھ کر اسپر عمل کرنیکی توفیق عطا فرمائیں ۔آمین
وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا
اے لاالٰہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ کردار قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبۂ قلندرانہ
(اقبالؒ)
تفسیری خطبات از مولانا عبد العلیم قاسمی رشادی
۱} پہلی تراویح
الم تا سَیَقُوْلُ ربع
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیمo اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنoالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِoاِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُoاِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَoصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْoغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَoالم تا سَیَقُوْلُ ربع
(ترجمہ) (۱) سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں جو مربی ہیں ہرہرعالم کے (۲)جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں (۳)جو مالک ہیں روز جزاکے (۴)ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست اعانت کی کرتے ہیں (۵)بتلادیجئے ہم کو سیدھا رستہ (۶) ان لوگوں کا رستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے(۷)نہ ان لوگوں کا رستہ جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا رستہ جو گم ہوگئے۔
بفضل خدا ہمیں رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں ملیں جس میں دن کی عبادت روزہ اورر ات کی عبادت نماز تراویح کی توفیق بھی عطا کی گئی اور حسب سابق بعد تراویح قرآن کریم کی تفسیر کا مبارک سلسلہ بھی جاری ہوا، اللہ رب العالمین ہمارے قرآن کے پڑھنے سمجھنے اور اسپر عمل کرنیکی توفیق عطا فرمائے، میں مناسب سمجھتا ہوں آج قرآن کی پہلی سورت سورۃ الفاتحہ کے سلسلہ میں چند ضروری مضامین آپ کے سامنے پیش کروں کیونکہ یہ وہ سورت مبارکہ ہے جو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اسکی فضیلت واہمیت ملاحظہ فرمائیں۔
سورہ فاتحہ کی فضیلت: احادیث شریفہ میں سورئہ فاتحہ کی بہت سی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں سورئہ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ہے اور آخری تین آیتوں میں انسان کی طرف سے دعاودرخواست کا مضمون ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں کچھ حمد وثنااور کچھ دعا کا پہلو۔
{۱} آنحضرتﷺ کا ارشاد گرامی ہے اعظم سورۃ فی القرآن سورئہ فاتحہ قرآن کی عظیم ترین سورۃ ہے ۔(بخاری ج؍۲ ص؍۶۴۲)
{۲} رسول اللہﷺ نے فرمایا والذی نفسی بیدہ ماانزلت فی التوراۃ ولافی الانجیل ولا فی الزبور ولا فی الفرقان مثلہا، قسم اس خدا کی جسکے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اس جیسی (سورئہ فاتحہ) سورت نہ تورات میں اتاری گئی نہ انجیل میں نہ زبور میں نہ قرآن میں (ترمذی ج؍۲ ص؍۱۱۵)
{۳} حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا چار چیزیں اس خزانہ سے اتاری گئی ہیں جو عرش کے نیچے ہے ان چار کے علاوہ اس میں سے کوئی چیز نہیں اتاری گئی (۱) ام الکتاب (۲)آیۃ الکرسی (۳)سورئہ بقرہ کی آخری آیات (۴)سورئہ کوثر (درمنثور ج ؍۱ص؍۵)
{۴} حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ ابلیس ملعون چارمرتبہ رویا ایک تو اسوقت رویا جب سورئہ فاتحہ نازل ہوئی، دوسرے اس وقت جب وہ ملعون قرار دیا گیا، تیسرے جب زمین پر اتارا گیا چوتھے اس وقت جب سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی بعثت ہوئی (درمنثورج؍۱ ص؍۵)
{۵} حضرت عبد اللہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی تو حضرت جبرئیلؑ نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا ہے جو اس سے پہلے کبھی کھولا نہ گیا تھا ایک فرشتہ نے آنحضرتﷺ کو سلام کیا اورعرض کیا کہ آپ خوشخبری سن لیجئے دونور آپ کو ایسے ملے ہیںجوآپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے (۱)فاتحۃ الکتاب (۲)سورئہ بقرہ کی آخری دو آیتیں، ان دونوں میں سے جو بھی کچھ آپ تلاوت کریں گے اللہ تعالیٰ ضرور آپ کا سوال پورا فرمائیں گے(مسلم ج؍۱ ص ۲۷۱)
{۶} حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور بندہ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا ہے اور بندہ جو سوال کرے اسکے لئے وہی ہے اسکے بعد اس تقسیم کی تفصیل اسطرح بیان فرمائی کہ جب بندہ کہتا ہے الحمدللّٰہ رب العالمین‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حَمدنی عبدی یعنی میرے بندہ نے میری تعریف کی پھربندہ کہتا ہے الرحمن الرحیم تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اثنیٰ عَلَیَّ عَبدی یعنی میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی پھر جب بندہ کہتا ہے مٰلک یوم الدین تو اللہ فرماتے ہیں مَجدّنی عبدی یعنی بندہ نے میری بزرگی بیان کی پھر جب وہ کہتا ہے ایاک نعبد وایاک نستعین تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے اسکے لئے وہی ہے۔پھر جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَoصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْoغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَo تواللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ میرے بندے کیلئے ہے اور جو میرا بندہ سوال کریگا اسکے لئے وہی ہے (مسلم ج؍۱ ص؍۱۷۰)
{۷} حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے کتب سابقہ کے علوم قرآن کریم میں ودیعت فرمائے ہیں اور پھر قرآن کے علوم کو سورئہ فاتحہ میں جمع کردئے ہیں لہٰذا جو شخص اس سورۃ کی تفسیر معلوم کرلیگا وہ گویا تمام کتب منزلہ کی تفسیرکا (مجملاً) عالم ہوجائیگا۔
قاضی بیضاویؒ نے فرمایا ہے کہ یہ سورت ایسی نظری حکمتوں اور عملی حکمتوں پر مشتمل ہے جو کہ طریق مستقیم پر چلنا اور سعید لوگوں کے مراتب اور بدبختوں کے منازل معلوم کراتی ہے۔
امام فخرالدین رازیؒ فرماتے ہیں کہ تمام قرآن کا مقصد صرف چارامورکاثابت کرنا ہے ۔
(۱) الٰھیات (۲)معاد (۳)نبوات (۴)اوراللہ تعالیٰ کیلئے قضا اور قدرکا ثابت کرنا ۔ الحمد للہ رب العالمین الٰہیات پر دلالت کرتی ہے اور مٰلک یوم الدین معاد پر اور ایاک نعبد وایاک نستعین تمام امور اللہ تعالیٰ کی قضااورقدرہی سے ہیں اور اھدنا الصراط المستقیم تا آخر قضائے الٰہی کے اثبات اور نبوتوں پر دلالت کرتی ہے۔
علامہ طیبیؒ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ سورت ان علوم کی چارانواع پر مشتمل ہے جو علوم کہ دین کا مدار ہیں ۔
{۱} علم الاصول ذات باری تعالیٰ اور اسکی صفات کی معرفت اوران پر ایمان رکھنا چنانچہ الحمد للّٰہ رب العالمین سے ذات وصفات کی معرفت کی طرف اشارہ ہے اور انعمت علیہم سے نبوت کی معرفت کی طرف مٰلک یوم الدین سے معاد کی طرف اشارہ ہے یہ وہ امور ہیں جنکو اصول کہا جاتا ہے۔
{۲} علم الفرع: اسکی بنیاد عبادات ہیں چنانچہ ایاک نعبد سے یہی امر مقصود ہے۔
{۳} علم الاخلاق: جنکے ذریعہ سے کمال حاصل ہوتا ہے اوراسمیں سے بڑا شعبہ بارگاہ خداوندی تک رسائی اور اسکے راستے کا سالک بنے اور سلوک میں استقامت حاصل ہو اور اسی ذات واحد کے حضور پناہ لے اپنے جملہ امور کو اس پر چھوڑدے وایاک نستعین اھدناالصراط المستقیم سے اسی کی جانب اشارہ ہے ۔
{۴} علم قصص: جن سے اصل غرض یہ معلوم کرنا ہے کہ سعید کون ہے اور شقی کون، اسی ضمن میں یہ بھی معلوم ہوگا کہ سعید لوگوں کیلئے عمدہ وعدے اور بدبختوں کیلئے وعید۔انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین میںاسی امر کا بیان ہے (تفسیر فیض الامامین ج؍۶،ص؍۴۶۵)
اسمائے سورئہ فاتحہ
تفسیر قرطبی میں علامہ قرطبی نے سورئہ فاتحہ کے بارہ نام اور اتقان میں علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے پچیس نام ذکر کئے ہیں
{۱} فاتحۃ الکتاب: حضرت ابوھریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا، ہی ام القرآن وہی فاتحۃ الکتاب،فاتحۃ الکتاب نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اسی سے شروع ہوتا ہے اورنماز میں قرأت اسی سے شروع ہوتی ہے اور نزول کے اعتبار سے مکمل سورت یہی پہلی سورت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ لوح محفوظ میں لکھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ اسی سورت سے قرآن مجیدشروع ہوتا ہے۔
{۲} فاتحۃ القرآن: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسی سورت سے قرآن مجید شروع ہوتا ہے۔
{۳} ام الکتاب: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسمیں حلال وحرام کے احکامات ہیں اور ام لکتاب لوح محفوظ کا بھی نام ہے۔
{۴} ام القرآن: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورت قرآن کی شروع اور اصل ہے اورتمام علوم قرآن کو محیط ہے جیسا کہ مکۃ المکرمہ کو ام لقریٰ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ شہر مکہ زمین کا اول اور پہلا حصہ ہے۔
{۵} القرآن العظیم: آپؐ کا ارشاد گرامی ہے وہی القرآن العظیم، قرآن عظیم اس لئے نام رکھا گیا ہے یہ سورت قرآن مجید کے معانی پر مشتمل ہے۔
{۶} السبع المثانی: ارشاد باری عزاسمہ ہے ’’ولقد اٰتینٰک سبعاً من المثانی‘‘ اس سورت کو سبع مثانی نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسمیں سات آیتیں ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ اسمیں سات آداب ہیں ہرآیت میں ایک ادب ہے۔
{۷} الوافیہ: قرآن مجید میں جو معانی ہیں یہ سورت انکا احاطہ کرنے والی ہے۔
{۸ } الکنز: اس سورت کو نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ یہ سورت اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
{۹} الکافیہ: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورت نماز کیلئے کافی ہے اپنے ماسواء سے ۔
{۱۰} الاساس: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورت اصل القرآن ہے اور یہ سورت قرآن کی پہلی سورت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا علیک باساس القرآن یعنی تم سورئہ فاتحہ کو لاز م پکڑو۔
{۱۱} النور:
{۱۲} سورۃ الحمد:
{۱۳} سورۃ الشکر
{۱۴} سورۃ الحمد الاولیٰ:
{۱۵} سورۃ الحمد القصریٰ:
{۱۶} الرقیہ: آپؐ نے اس سورت کے متعلق فرمایا وماادراک انہا رقیۃ کیا تم جانتے ہو کہ یہ سورت رقیہ ہے۔
{۱۷} الشفا: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا فاتحۃ الکتاب شفاء من کل دائٍ یعنی سورئہ فاتحہ میں ہر بیماری کی دوا ہے۔
{۱۸} الشافیہ:
{۱۹} سورۃ الصلاۃ:
{۲۰} الصلاۃ: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سورت کو میں نے اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کرلیا ہے قسمت الصلاۃ بینی وبین عبدی نصفین۔
{۲۱} سورۃ الدعا: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں اھدنا جیسے الفاظ دعا موجود ہیں۔
{۲۲} سورۃ السوال: اللہ نے اس سورئہ فاتحہ کے ذریعہ بندہ کو دعا مانگنا سکھایا ہے۔
{۲۳} تعلیم المسئلہ: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں اللہ سے مانگنے کے آداب موجود ہیں۔
{۲۴} سورۃ المناجاۃ: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔
{۲۵} سورۃ التفویض: نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وایا ک نستعین جیسے الفاظ کے ذریعہ اپنے معاملات کو خدا کے حوالے کرکے خداہی سے مانگتا ہے۔
خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ خدا ہمیں اس سورت کے فضائل کو جان کر اسکے مضامین کا استحضار کرتے ہوئے اسے پڑھ کر اسپر عمل کرنیکی توفیق عطا فرمائیں ۔آمین
وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا
اے لاالٰہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ کردار قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبۂ قلندرانہ
(اقبالؒ)
تفسیری خطبات از مولانا عبد العلیم قاسمی رشادی