{۲} دوسری تراویح
سَیَقُوْلُ ربع تا تِـلْکَ الرُّسُلُ نصف
سَیَقُوْلُ ربع تا تِـلْکَ الرُّسُلُ نصف
وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکاًoقَالُوْا اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمَ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِoقَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ0وَاللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo(آیت ۲۴۷، سورہ بقرہ پارہ ۲)
(ترجمہ) اور ان لوگوں سے انکے پیغمبر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقررفرمایا ہے وہ کہنے لگے ان کو ہم پر حکمرانی کا کیسے حق حاصل ہوسکتا ہے؟ حالانکہ بہ نسبت ان کے ہم حکمرانی کے زیادہ مستحق ہیں اور ان کو تو کچھ مالی وسعت بھی نہیں دی گئی، پیغمبر نے فرمایا کہ اول تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقابلہ میں ان کو منتخب فرمایا ہے اور دوسرے علم اور جسامت میں ان کو زیادتی دی ہے، اور تیسرے اللہ تعالیٰ اپنا ملک جس کو چاہیں دیں اور چوتھے اللہ تعالیٰ وسعت دینے والے جاننے والے ہیں۔
خداکے فضل واحسان سے آج ہم نے دوسری تراویح اداکی آج پڑھی گئی آیات مبارکہ میں سے دوسرے پارے کے اخیر میں حضرت طالوت اور جالوت کا واقعہ پروردگار عالم نے بیان فرمایا طالوت اور جالوت کا واقعہ سماعت فرمائیں۔
حضرت موسیٰؑ کے بعد انہی کی قوم میں سے انبیائے کرامؑ مبعوث ہوئے جویکے بعد دیگرے آتے رہے،حضرت یوشعؑ، حضرت شمعونؑ، حضرت شمویلؑ وغیرہ اور یہ حضرات بھی حضرت موسیٰؑ کی شریعت کی تبلیغ کرتے اور تورات کے مضامین بیان فرماتے تھے، بنی اسرائیل میں بددینی آگئی تواللہ تعالیٰ نے انکے دشمنوں کو ان پر مسلط فرمادیا، جو جالوت کی قوم میں سے اور عمالقہ میں سے تھے اور بحرروم کے ساحل پر مصروفلسطین کے درمیان رہتے تھے، یہ لوگ بنی اسرائیل پر غالب ہوگئے انکی زمین چھین لی اور انکو انکی اولاد سمیت قید کرلیا بنی اسرائیل اس موقعہ پر بہت ہی زیادہ مصیبت اور سختی میں مبتلا رہے کوئی ایسانہ رہا جو انکا قائد ہوتا، اس زمانے میں جو نبی تھے انکی خدمت میں بنی اسرائیل نے عرض کیا کہ اللہ کی طرف سے آپ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقررکرادیں تاکہ ہم انکے ساتھ مل کر دشمنوں سے جہاد کریں، اور ان لوگوں کو اپنے علاقوں سے نکال دیں، تو انکے نبیؑ نے (بعض مفسرین کے قول کے مطابق وہ حضرت شمعونؑ تھے) فرمایاکہ تم سے تو یہ امید ہے کہ قتال فرض ہوگیا تو جنگ سے دوربھاگوگے وہ کہنے لگے بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ نہ کریں بلکہ لڑنے کا سبب موجود ہے وہ یہ کہ دشمن نے ہم پر جو مسلط کررکھا ہے جسکی وجہ سے ہم اپنے گھروں سے نکال دئیے گئے ہیں اور اپنی اولاد سے دور کردئے گئے ہیں باتیں توبڑھ چڑھ کر کررہے تھے لیکن جب قتال فرض ہوگیا تو انکے نبی کے کہنے کے مطابق تھوڑے لوگوں کے علاوہ باقی سب ارادوں اور وعدوں سے پھرگئے اور جنگ کرنے سے منہ موڑلیا، اللہ جل شانہ نے انکی درخواست پر حضرت طالوت کو بادشاہ بنایا اور انکے نبی(شمعونؑ) نے اسکا اعلان کردیا۔
حضرت طالوت کی بادشاہت کا اعلان سننے کے بعد قوم کہنے لگی کہ یہ شخص ہمارا بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے اس قوم کے نبی نے انکو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو منتخب فرمالیا ہے اور حکومت کیلئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ان میں پوری طرح موجود ہے حکومت کیلئے علم ہونا چاہئے جسکے ذریعہ وہ تدبیرامورکرسکے اور دشمنوں سے نمٹ سکے اور ساتھ ہی جسمانی قوت بھی ہونی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ وہ جسکو چاہے حکومت اور مملکت عطا فرمائے، اور حضرت شمعون نے حضرت طالوت کی بادشاہت کا ثبوت دینے کیلئے ایک نشانی بھی بیان فرمائی وہ یہ کہ تمہارے پاس وہ تابوت آئیگا جو تمہارے لئے باعث اطمینان وسکون ہوگا،وہ صندوق اللہ تعالیٰ نے اس طرح پہنچایا کہ وہ کافر لوگ جہاں صندوق کو رکھتے تھے وہاں وباء اور بلاء آتی گئی یہاں تک کہ پانچ شہر ویران ہوگئے بالآخر وہ لوگ مجبور ہوکر دوبیلوں پر اسکو لاد کر ہانک دیا، چنانچہ فرشتے بیلوں کو ہانک کر حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا گئے تاکہ بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین لائے۔ اس تابوت میں ان چیزوں کا بقیہ ہوگا جوحضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ نے چھوڑی تھیں وہ تابوت ان لوگوں کے پاس آگیا جسے فرشتے اٹھائے ہوئے تھے اس تابوت کو دشمنوں سے جنگ کرتے وقت سامنے رکھا کرتے تھے، اسکے ذریعہ سے دشمن پر فتح یابی حاصل کرلیتے تھے۔
حضرات مفسرین تحریر فرماتے ہیں کہ اس تابوت میں توراۃ کی دوتختیاں تھیں اور ان تختیوں کا کچھ چوراتھا جو ٹوٹ گئی تھیں اور حضرت موسیٰؑ کا عصا تھا اور حضرت ہارونؑ کی پگڑی تھی اور کچھ من بھی تھا جو سلویٰ کے ساتھ بنی اسرائیل پر نازل ہوا کرتا تھا، اس تابوت کا انکے پاس فرشتوں کا لیکر آنا اور دوبارہ واپس مال جانا، اس بات کی صریح دلیل تھی کہ حضرت طالوت کو واقعی اللہ نے بادشاہ بنایا ہے فرشتے یہ تابوت لاکرحضرت طالوت کے سامنے رکھ دیا، لیکن بنی اسرائیل سے پھربھی یہ بعید نہ تھا کہ انکار کربیٹھیں، اسلئے انکو تنبیہ کرتے ہوئے قرآن گویا ہے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْن بیشک تمہارے لئے اسمیں نشانی ہے اگر تم مومن ہو۔
طالوت کے لشکر کا عمالقہ پر غالب ہونا اور جالوت کا مقتول ہوجانا
جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت طالوت کو بنی اسرائیل کا حکمراں مقررکردیا گیا اور انکے نبی کی خبر کے مطابق تابوت فرشتے لے کر آگئے تو اب بنی اسرائیل کیلئے کوئی حجت باقی رہی نہیں، اور جہاد کرنے کیلئے نکلنا پڑا، جب دشمن سے جنگ کرنے کیلئے روانہ ہوئے تو حضرت طالوت نے اپنے لشکروں سے فرمایا کہ تم لوگوں کا امتحان ہونے والا ہے اللہ تمہارا امتحان ایک پانی کی نہرکے ذریعہ فرمائیں گے زمانہ چونکہ سخت گرمی کا تھا اس لئے اکثر افرادپیاس سے بے تاب ہوکر اس امتحان میں ناکام ہوگئے، یہ نہر فلسطین تھی بعض کے قول کے مطابق اردن اور فلسطین کے درمیان میٹھے پانی والی نہر تھی، حضرت طالوت نے ساتھیوں سے فرمایاکہ جو اس نہرمیں سے چُلّو بھر پانی پئے وہ تو میرا ساتھی ہے اور جو زیادہ پانی پی لیا وہ میری جماعت میں نہیں ہوگا، اکثر افراد نے خوب پانی پی لیاتھا اسلئے انکے حوصلے پست ہوگئے اور ہمت ہارگئے اور کہنے لگے ہم تو آج اپنے دشمن جالوت اور اسکے لشکر کا مقابلہ کرنے سے عاجزہیں، حضرت طالوت کے ساتھ روانہ ہونے والوں کی تعداد ستر یا اسّی ہزارتھے ان میں سے تھوڑے ہی رہ گئے جنہوں نے پانی نہیں پیاجنکی تعدادتین سو تیرہ تھی، ایک چلّو پانی جنہوں نے پیاتھا اللہ تعالیٰ نے اتنے ہی پانی کو ان کیلئے کافی فرمادیا انکی پیاس بجھ گئی، جو لوگ حضرت طالوت کے ساتھ آگے بڑھے انہیںاپنے تھوڑے ہونے کے باوجود یقین تھا کہ ہمیں اللہ کے پاس جانا ہے میدان جہاد سے بھاگنا مومن کا شیوہ نہیں، اس لئے کہ بہت سی کم تعدادجماعتیں بڑی بھاری تعدادوالی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب ہوچکی ہیں صبر وثابت قدمی اللہ کی مددکو لانے والی ہے۔
جب حضرت طالوت کا لشکر دشمن سے جہاد کرنے کیلئے جارہا تھا تو حضرت داوٗدؑ نے اپنے ایک تھیلے میں چند پتھر رکھ لئے تھے جب دونوں فریق آمنے سامنے ہوئے تو جالوت نے کہا کہ تم لوگ اپنے میں سے ایک شخص نکالوجو مجھ سے جنگ کرے اگر اس نے مجھے قتل کردیا تو میراملک تمہارا ہوجائیگا،اور میں نے قتل کردیا تو تمہارا ملک میرے ملک میں شامل ہوجائیگا،حضرت طالوتؑ نے داوٗدؑ کو جالوت کے مقابلہ کیلئے ہتھیار پہنادئے توحضرت داوٗدؑ نے فرمایا مجھے اس سے جنگ کرنے کیلئے ہتھیارپہننا پسند نہیں ہے، اصل اللہ کی مدد ہے، اگر اللہ نے مددنہ فرمائی تو کوئی ہتھیارکام نہیں دے سکتا، یہ کہہ کر جالوت سے مقابلہ کرنے کیلئے نکلے، جالوت نے کہا تم مجھ سے مقابلہ کروگے، انہوں نے فرمایا کہ ہاں، جالوت نے کہا، تم تو یہ پتھر اور غلیل لے آئے ہو جس سے کتے کو ماراجاتا ہے حضرت داوٗدؑ نے فرمایا کہ تو اللہ کا دشمن ہے کتے سے بھی بدتر ہے یہ کہہ کر اپنی غلیل سے ایک پتھر ماراجو اسکی آنکھوں کے درمیان لگا اور دماغ میں گھس گیا جس سے جالوت کا کام تمام ہوااوراسکے لشکر نے شکست کھائی۔
جالوت جو عمالقہ کا بادشاہ تھا اس سے اور اسکے لشکروں سے جب آمنا سامنا ہوا دونوں فریق صف آراہوئے تو حضرت طالوت کے ساتھیوں نے اللہ تعالیٰ سے صبر کی اورثابت قدمی کی اور کافروں کے مقابلہ میں فتح یاب ہونے کی دعا کی۔
اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت طالوت کے لشکر کو فتح یابی ہوئی اور دشمن نے باوجود کثیر تعداد ہونے کے شکست کھائی، اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داوٗدؑ کو حکومت عطا فرمادی بقول حضرات مفسرین کرام ملک سے حکومت اور حکمت سے نبوت مراد ہے، اللہ نے حضرت داوٗدؑ کو ان دونوں سے سرفراز فرمایا،(تفسیر انوارالبیان ج؍۱،ص؍۴۷۷)
علامہ آلوسیؒ تحریرفرماتے ہیں کہ ان کے زمانے کے جو نبی تھے انکی وفات کے بعد اور طالوت کی وفات کے بعد انکو نبوت اور بادشاہت عطافرمائی(روح المعانی ج؍۲، ص۱۷۳)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ اس قصے میں جو احوال واقوال مذکور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں تین قسم کے لوگ تھے ناقص الایمان جو امتحان میں پورے نہ اترے، اورکامل جو امتحان میں پورے اترے مگر اپنی قلت کی فکر ہوئی، اور اکمل جن کو یہ بھی فکر نہیں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ فرماتا تو زمین فساد والی ہوجاتی اور لیکن اللہ تعالیٰ جہانوں پر فضل فرمانے والا ہے، وہ خداقوت اور شوکت والوں کی طاقت کو دوسرے لوگوں کے ذریعہ دفع فرماتا رہتا ہے اور ظالمین تباہ ہوتے رہتے ہیں، اگر کسی ایک ہی قوم کی قوت وشوکت ہمیشہ رہتی تو وہ ساری دنیا کو مصیبت میں ڈال دیتے اور سب کو مجبور بنا لیتے اور ہمیشہ طغیانی سرکشی کرتے رہتے۔
اس واقعہ کے اخیر میں فرمایا گیا، یہ اللہ کی آیات ہیں جنہیں ہم حق کے ساتھ آپ پر تلاوت کرتے ہیں اور بلاشبہ آپ پیغمبروں میں سے ہیں، چونکہ آنحضرتﷺ نے نہ کتابیں پڑھی تھیں نہ پرانی تاریخیں سنی تھیں، اس لئے آپ ؐ کو ان واقعات کا علم ہوجانا اور لوگوں کو بتانا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے آپؐ کو بتایا گیا(روح المعانی ج ۲ ص ۱۷۵)
اللہ تعالیٰ ہم تمام کو اطاعت خداوندی کی توفیق بخشے۔آمین
واٰخردعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
تفسیری خطبات از مولانا عبد العلیم قاسمی رشادی