چوتھی تراویح

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
{۴} چوتھی تراویح

لَنْ تَنَالُوا تا وَالْمُحْصَنٰتِ ختم​

وَاعْبُدُاللّٰہَ وَلَاتَشْرِکُوْابِہٖ شَیْئاًوَبِاالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاوَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمیٰ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِذِی الْقُرْبیٰ وَالْجَارِالْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ،اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْرًا (سورۃالنسائ۳۶)
(ترجمہ)اوراللہ کی عبادت کرواوراسکے ساتھ کسی بھی چیزکوشریک نہ بنائو اور والدین کیساتھ اچھابرتائوکرو،اورقرابت داروںاور یتیموں اورمسکینوں اورپاس والے پڑوسی اوردوروالے پڑوسی اورپہلوکے ساتھی کے ساتھ اورمسافرکے ساتھ اوران لوگوںکے ساتھ جومالکانہ طورپرتمہارے قبضہ میںہیںاچھاسلوک کرو،بے شک اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیںفرماتاجواپنے آپ کوبڑاسمجھے ۔
بفضلِ خدا آج ھم نے چوتھی تراویح پڑھی،پڑھی گئی آیات مبارکہ میںسے یہ آیتِ شریفہ ہے حق جل مجدہ نے حقوق العبادۃ کی اہمیت کااہتمام سے ذکرکیاہے جسمیںوالدین اوردوسرے رشتہ داراورمتعلقین اورپڑوسیوںاورعام انسانوںکے حقوق کاکچھ تفصیلی بیان ہے ،اس آیت شریفہ میںحقوق بیان کرنے سے پہلے اللہ کی عبادت اورتوحیدکوذکرکرنے میںحکمت یہ ہے کہ جس شخص کوخداتعالیٰ کاخوف اوراس کے حقوق کااہتمام ہوتواس سے دوسروںکے حقوق کی ادائیگی بھی سمجھ میںآتی ہے۔
توحیدکے بعدحقوق والدین تمام رشتہ داروںاورقرابت داروں میں سب سے پہلے والدین کے حقوق کابیان فرمایاخالق کائنات نے اپنی عبادت اوراپنے حقوق کے متصل والدین کے حقوق کوبیان فرماکراسکی طرف بھی اشارہ کردیاکہ حقیقت اوراصل کے اعتبارسے دیکھاجائے تواللہ تعالیٰ کے بعدسب سے زیادہ احسانات انسان پراسکے والدین کے ہیںکیونکہ عالم اسباب میںوہی اسکے وجودکاسبب ہیں،کیونکہ ابتدائے آفرینش سے لیکراسکے جوان ہونے تک سب مشکل مراحل میںظاہری اسباب میںماںباپ ہی اسکے وجوداورپھراسکے بقاء وارتقاء کے ضامن ہیں اسی لئے قرآن کریم میں جگہ جگہ اللہ رب العزت نے ماںباپ کے حقوق کواپنی عبادت واطاعت کے ساتھ بیان فرمایاہے ،ایک جگہ ارشادباری ہے
ان ا شکرلی ولوالدیک یعنی میراشکراداکرواوراپنے ماںباپ کاشکراداکرو
ایک اورجگہ ارشاد خداوندی ہے لَاتَعْبُدُوْنَ اِلَّااللّٰہُ وَبِاالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًایہ نہیںفرمایاگیاکہ انکاحق اداکروبلکہ فرمایا انکے ساتھ حسن سلوک کرواوراحادیث منورہ کا ایک بہت بڑاذخیرہ ایساہے جسمیںوالدین کے ساتھ حسن سلوک اورنرمی کابرتائو کرنے کاحکم دیاہے اورترغیب دی۔
حضرت معاذبن جبلؓ فرماتے ہیںکہ مجھے رسول کریم ؐ نے دس وصیتیںفرمائی تھیںمنجملہ ان میںسے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ کسی کوشریک نہ ٹہرائواگرچہ تمھیںقتل کردیاجائے یاآگ میںجلادیاجائے دوسرے یہ کہ اپنے والدین کی نافرمانی یادل آزاری نہ کرنا اگرچہ وہ یہ حکم دیںکہ تم اپنے اہل اورمال کوچھوڑدو(مسنداحمد)
ترمذی شریف کی ایک روایت میںہے کہ رضی الرب فی رضی الوالدوسخط الرب فی سخط الوالد اللہ تعالیٰ کی رضاباپ کی رضامیںاوراللہ تعالیٰ کی ناراضی باپ کی ناراضی میںہے،شعب الایمان میںبیہقی نے روایت کیاہے کہ نبی کریمؐنے فرمایاکہ جولڑکااپنے والدین کامطیع وفرمابردارہوجب وہ اپنے والدین کوعزت ومحبت کی نظرسے دیکھتاہے توہرنظرمیںاسکوحج مقبول کاثواب ملتاہے ۔
بیہقی ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیتے ہیں لیکن جو شخص ماںباپ کی نافرمانی اوردل آزاری کرے اسکو آخرت سے پہلے دنیا ہی میں طرح طرح کی آفتوں میں مبتلاکردیا جاتا ہے۔
بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جوشخص یہ چاہے کہ اسکے رزق اور عمر میں برکت ہو اسکو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے یعنی اپنے رشتہ داروں کے حقوق اداکرے۔
قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید
آیت مذکورہ میں والدین کے بعد تمام رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید آئی ہے اسکے علاوہ قرآن کریم کی ایک جامع اور مشہور آیت پاک میں جسکو نبی کریمﷺ اکثراپنے خطبات میں اور دنیا کے خطباء جمعہ کے خطبات کے اخیر میں پڑھاکرتے ہیں اس میں بھی اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ سب کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کا اور رشتہ داروں کے حقوق اداکرنے کا جس میں استطاعت مالی اور جانی خدمت وغیرہ بھی داخل ہے۔
حضرت سلمان ابن عامرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ عام مسکینوں فقیروں کو دینے میں تو صرف صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور اگر اپنے ذی رحم رشتہ دار کو دیا جائے تو اس میں دوثواب ہیں ایک صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا یعنی رشتہ داری کے حقوق اداکرنے کا (مسند احمد، نسائی، ترمذی)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ داروں قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی کتنی تاکید کی ہے اور کیسی ترغیب دلائی ہے جس سے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔
یتیم اور مسکین کا حق
تیسرے نمبر پر ارشاد باری ہے والیتٰمیٰ والمساکین یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کو اداکرو، یتیم اور مسکین کا حق رشتہ داروں کے ضمن میں بیان فرمایا کہ لاو ارث بچوں اوربیکس بے سہارالوگوں کی امداد واعانت کو بھی ایسا ہی ضروری سمجھیں جیسا اپنے رشتہ داروں کیلئے کرتے ہیں، اسی سورئہ نساء کی ابتداء میں فرمایا گیا، واٰتواالیتمیٰ اموالہم یتیموں کے مال انہی کو پہنچائو، حضرت ابوہریرہؓ نبیﷺ نے فرمایا بیوہ اور مساکین کی خدمت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اسکے برابر ہے جو تمام دن روزے رکھے اور ساری رات نمازیں پڑھاکرے، حضرت سہل بن سعدؓ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا میں اور یتیم کا کفیل جنت میں اس طرح ہوں گے اور اپنی انگشت شہادت اور اسکے بازووالی انگلی سے اشارہ فرمایاحضرت حسن سے مروی ہے کہ ایک یتیم حضرت ابن عمر کے کھانے پر ہواکرتا تھا ایک دن انہوں نے کھانا منگوایا اور اس یتیم کو تلاش کیا، وہ ملا نہیں ابن عمر کھانا کھاچکے تب وہ یتیم آیا انہوں نے یتیم کیلئے کھانا طلب کیا، انکے یہاں کھانا نہیں تھا تو ستو اور شہد لایا گیا ابن عمر نے فرمایا لوکھالوخداکی قسم، میں نے کھانا چھپاکر نہیں رکھا ہے۔(الادب المفرد)
حضرت ابوھریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے مسلمان کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اسکے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو، اور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اسکے ساتھ براسلوک کیا جاتا ہو، میں اور یتیم کا کفیل جنت میں اسطرح ہوں گے اور اپنی دوانگلیوں سے اشارہ فرمایا(الادب المفرد)
پڑوسی کا حق: چوتھے اور پانچویں نمبر پر فرمایا وَالْجَارِذِی الْقُرْبیٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ بقول حضرات مفسرین کرام اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ پڑوسی جو تمہارے مکان کے قریب رہتا ہے اور وہ پڑوسی جو تمہارے مکان سے کچھ فاصلہ پر رہتا ہے۔
ایک حدیث میںخود رسول کریمؐ نے ارشادفرمایا کہ بعض پڑوسی وہ ہیں جنکا صرف ایک حق ہے بعض وہ ہیں جنکے دوحق ہیں اوربعض وہ جنکے تین حق ہیں، ایک حق والا پڑوسی وہ غیر مسلم ہے جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہیں، دو حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلمان بھی ہے،تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہے مسلمان بھی اور رشتہ داربھی(ابن کثیر)
پڑوسی کے حقوق کی ادائیگی میں بہت ساری حدیثیں نبیٔ کریمﷺ سے مروی ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیلؑ مجھے برابر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوگیا کہ وہ پڑوسی کو وارث ہی بنادیں گے(بخاری ص۸۸۹)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐنے فرمایاکہ پڑوسیوں میں اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں اور حسن سلوک میں سب سے بہتر ہے(ترمذی)
ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں نے اچھا عمل کیا یا برا عمل کیا آپؐ نے فرمایا کہ جب تو اپنے پڑوسیوں سے سنے کہ تیرے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ تونے اچھا کیا تو سمجھ لے کہ واقعی تونے اچھا کیا، اور جب تو اپنے پڑوسیوں سے سنے کہ وہ تیرے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ تونے برا کیا تو سمجھ لے کہ تونے برا کیا(مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ۴۲۴)
ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ کی قسم وہ مومن نہیں اللہ کی قسم وہ مومن نہیں اللہ کی قسم وہ مومن نہیں عرض کیا گیا کہ کون یا رسول اللہؐ؟ آپ نے فرمایا جسکا پڑوسی اسکی شرارتوں سے بے فکرنہیں(بخاری جلد ۲، صفحہ۸۸)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص مومن نہیں جو پیٹ بھرلے اور اسکا پڑوسی اسکی بغل میں بھوکا رہ جائے(بیہقی، مشکوۃ ص ۴۲۴)
ہمنشیں کا حق: آیت پاک میںفرمایا گیا وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ اسکے معنیٰ ہم پہلو ساتھی‘‘ کے ہیں جس میں رفیق سفر بھی داخل ہے جو ریل میں،جہاز میں، بس میں آپکے برابر بیٹھا ہوا ہو، اور وہ شخص بھی داخل ہے جو کسی عام مجلس میں آپکے پاس بیٹھا ہو
شریعت اسلام نے جسطرح دور نزدیک کے دائمی پڑوسیوں کے حقوق کو لازم کیا ہے اسی طرح اس شخص کا بھی حق لازم کردیا جو تھوڑی دیر یا تھوڑے وقت کیلئے کسی مجلس یا سفر میں آپکے ساتھ ہو، اسکے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہدایت فرمائی جسکا کم سے کم ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ آپ کے کسی قول وفعل سے اسکو ایذاء وتکلیف نہ پہنچے۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے خیر الاصحاب عنداللّٰہ خیر ہم لصاحبہ یعنی ساتھیوں میں سے سے بہتر اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ساتھی کیلئے بہتر ہو۔(مشکوۃ صفحہ ۴۲۴)
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ سفر میں جماعت کا سردار وہی ہے جو انکا خدمت گذار ہو سو جو شخص اپنے ساتھیوںسے خدمت میں بڑھ گیا وہ شہید ہونے کے علاوہ کسی عمل کے ذریعہ اس سے آگے نہ بڑھیں گے(مشکوۃ صفحہ ۳۴)
حضرت علی ؓ نے الصاحب بالجنب پہلو کا ساتھی کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد بیوی ہے جو پہلو میں ساتھ رہتی ہے، اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے۔
راہ گیر ومسافر کا حق: پھر ارشاد فرمایا وابن السبیل اس سے مراد وہ شخص ہے جو دوران سفر آپکے پاس آجائے، یا آپکا مہمان ہوجائے تو قرآن کریم نے اسکے اسلامی بلکہ انسانی تعلق کی رعایت کرکے اسکا حق بھی لازم کردیا کہ بقدروسعت واستطاعت اسکے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
غلام،باندی اور ملازموں کا حق: آیت مذکورہ کا آخری حصہ بیان فرمایا وماملکت ایمانکم مراد اسکی مملوک غلام اور باندیاں ہیں انکا بھی یہ حق لازم کردیا گیا کہ انکے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں، استطاعت کے موافق کھلانے پلانے، پہنانے میں کوتاہی نہ کریںاور نہ انکی طاقت سے زیادہ کام ان پر ڈالیں۔
غلاموں اورنوکروں اور اپنے ماتحت رہنے والوں کے ساتھ نبی رحمت ﷺ نے حسن سلوک کی تعلیم وترغیب دی ہے، یہاں تک کہ وفات سے قبل جو اہم اہم نصیحتیں کی ہیں اسمیں قابل ذکر نصیحت یہ بھی ہے کہ اپنے غلاموں اور باندیوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو۔
حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ غلاموں کے بارے میں حسن سلوک کی ہدایت فرمایا کرتے تھے اورفرماتے تھے جیسا کھائو انکو کھلائو، اور جیسا پہنو ویسا انہیں پہنائو، اور اللہ عز وجل کی مخلوق کو عذاب نہ دو(الادب المفرد)
حضرت ابومحذورہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ صفوان بن امیہ ایک بڑا سا بادیہ(برتن) لے کر آئے جو کپڑے میں لپٹا ہوا تھا اور چند لوگ اسے اٹھائے ہوئے تھے انہوں نے لاکر حضرت عمرؓ کے سامنے رکھ ریا حضرت عمرؓ نے بہت سے مساکین اور لوگوں کے غلام جو انکے قریب تھے ان کو بلالیا اور سب نے انکے ساتھ ہی کھایا اسکے بعد حضرت عمرؓ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو برباد کردیا یا شاید یہ کہا کہ رسوا کردیا جس نے اپنے غلاموں کو ساتھ کھلانے سے نفرت کی، صفوان نے فرمایابخدا ہم ان سے نفرت نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنی ذات پر انہیں ترجیح دیتے ہیں بلکہ خداکی قسم ہم اچھے قسم کا کھانا پاتے ہی نہیں جسے خود کھائیں اور انہیں بھی کھلائیں(الادب المفرد)
پروردگار عالم ہم امتِ مسلمہ کو قرآن کریم کے پڑھنے اور سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطافرمائے، اور حقوق العباد کی مکمل طور پر ادائیگی کی توفیق مرحمت فرمائے (آمین)
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
( تفسری خطبات مولانا عبد العلیم رشادی قاسمی)
 
Top