{۷} ساتویںتراو یح

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
{۷} ساتویںتراو یح

وَلَوْاَنَّنَا تا قَالَ الْمَلاَ ُثلث
وَاِلیٰ عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْداً ط قَالَ یٰقُوْمِ اعْبُدُوااللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ ط اَفَلاَ تَتَّقُوْنَoقَالَ الْمَلَأُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قُوْمِہٖ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ سَفَاہَۃٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَoقَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ لِیْ سَفَاہَۃٍ وَّلٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo
(ترجمہ:) اور قوم عاد کی طرف انکے بھائی ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لئے اسکے سواکوئی معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں، انکی قوم کے سردار جنہوں نے کفر اختیار کیا جواب میں کہنے لگے کہ بلاشبہ ہم تجھے بے وقوفی میں دیکھ رہے ہیں اور بلاشبہ ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ تو جھوٹوں میں سے ہے، ہودؑ نے کہا، اے میری قوم مجھ میں بے وقوفی نہیں، اور میں تمہاراخیرخواہ ہوں، امانت دار ہوں
اللہ کے کرم اور اسکے فضل سے آج ہم نے ساتویں تراویح اداکی، تراویح میں پڑھی گئی آیات میں سے یہ مذکورہ آیت ہے جس میں حضرت ہودعلیہ السلام کا اپنی قوم کو تبلیغ کرنا اور اس قوم کے ہلاک ہونے کے واقعہ کو تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔
عاد اور ثمود کی مختصر تاریخ:
عاد اصل میں ایک شخص کا نام جو نوحؑ کی پانچویں نسل اور انکے بیٹے سام کی اولاد میں ہے، پھر اس شخص کی اولاد اور پوری قوم عاد کے نام سے مشہور ہوگئی قرآن کریم میں عاد کے ساتھ کہیں لفظ عاد اولیٰ اور کہیں ارم ذات العماد بھی آیا ہے مفسرین کے اقوال میں مشہور قول یہ ہے کہ عاد کے دادا کا نام ارم ہے انکے ایک بیٹے عوص کی اولاد میں عاد ہے یہ عاد اولیٰ کہلاتا ہے اور دوسرے بیٹے جثو کا بیٹا ثمود ہے، یہ عاد ثانی کہلاتا ہے اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ عاد اور ثمود دونوں ارم کی دوشاخیں ہیں ایک شاخ کو عاد اولیٰ اور دوسری کو ثمود یا عاد ثانیہ بھی کہاجاتا ہے اور لفظ ارم عاد وثمود دونوں کیلئے مشترک ہے۔
حضرت تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ بقول بعض مفسرین قوم عاد پر جس وقت عذاب آیا تو انکا ایک وفد مکہ معظمہ گیا ہوا تھا وہ عذاب سے محفوظ رہا اسکو عاد اخریٰ کہتے ہیں (بیان القرآن)
اور حضرت ھود علیہ السلام ایک نبی کا نام ہے یہ بھی نوح علیہ السلام کی پانچویں نسل اور سام کی اولاد میں ہیں قوم عاد اور حضرت ھودؑ کا نسب نامہ چوتھی پشت میں سام پر جمع ہوجاتا ہے اس لئے ھودؑ عاد کے نسبی بھائی ہیں اسی لئے قرآن نے اخاہم ھوداً فرمایاقوم عاد کے تیرہ خاندان تھے عمان سے لیکر حضر موت اور یمن تک انکی بستیاںتھیں انکی زمینیں بڑی سرسبز وشاداب تھیں ہر قسم کے باغات تھے رہنے کیلئے بڑے بڑے شاندار محلات تھے، بڑے قدآور قوی الجثہ آدمی تھے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ساری ہی نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دئے تھے۔
حضرت ھودعلیہ السلام جو اسی نسل میں سے تھے انکو توحید کی دعوت دی اور عذاب سے ڈرایا تو وہ اپنی قوت اور طاقت جتلانے لگے اور کہنے لگے کہ مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃ کہ ہم سے طاقت کے اعتبار سے زیادہ سخت کون ہے، اسکا جواب حق جل مجدہ نے دیا
اَوَلَمْ یَرَوْااَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃٍ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جس ذات نے انہیں پیدا فرمایا وہ ان سے زیادہ طاقتور ہے، حضرت ھودؑ نے انکو سمجھایا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، اللہ نے تمہیں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بعد اس دنیا میں بسادیا اس نے تمہیں اَمَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وَّبَنِیْنٍ وَّجَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، چوپائے دئے بیٹے عطا فرمائے باغات دئے چشمے دئے۔تم کفر سے باز آجائو ورنہ تم پر بڑا عذاب آجائیگا۔
حضرت ھودعلیہ السلام نے انکو یہ بھی سمجھایا کہ تم نے جو معبود اختیار کررکھے ہیں اور انکے نام تم نے اور تمہارے باپ دادائوں نے رکھ لئے ہیں یہ سب تمہاری اپنی تراشیدہ باتیں ہیں تم انکے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو خود ہی معبود تجویز کرتے ہو اللہ نے اس بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، خالق ومالک اللہ ہے، وہی دین اور عقیدہ قابل قبول ہے جو اسکی طرف سے اسکے رسولوں نے بتایا ہو، ان لوگوں نے کہا کہ تم بیوقوف ہو ہمارے خیال میں ہمارے معبودوں نے تم پر کچھ کردیا ہے اسی لئے ایسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو، سَوَآئٌ عَلَیْنَا اَوَعَظْتَ اَمْ لَمْ تَکُنْ مِّنَ الْوَاعِظِیْنَ، کہنے لگے کہ تمہارے وعظ سے ہم پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔
جب انھوں نے تکذیب کی اورکہا کہ عذاب لاکر دکھائو تو حضرت ھود علیہ السلام نے فرمایا کہ بس اب تو تم پر اللہ کا عذاب اورغصہ نازل ہونے والا ہے یعنی اسکے آنے میں دیر نہیں ہے تم بھی انتظار کرو میں بھی انتظارکرتا ہوں۔
قوم کے اس اشتعال آمیز جواب پر عذاب آنے کی خبر تودیدی لیکن پیغمبرانہ شفقت ونصیحت نے پھر مجبور کیا کہ اس کلام کے دوران میں یہ بھی فرمادیا کہ افسوس ہے تم نے اور تمہارے باپ دادائوں نے بے عقل بے جان چیزوں کو اپنا معبود بنالیا جنکے معبود ہونے پر نہ کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی اور پھر تم انکی عبادت میں ایسے پختہ ہوگئے کہ انکی حمایت میں مجھ سے جھگڑا کررہے ہو۔
مگر یہ لوگ اپنی دولت وقوت کے نشہ میں سرشارتھے بات نہ مانی جسکے نتیجہ میں ان پر عذاب تو یہ آیا کہ تین سال تک مسلسل بارش بند ہوگئی، انکی زمینیں خشک ریگستانی صحرا بن گئی باغات جل گئے مگر اس پربھی یہ لوگ شرک وبت پرستی سے باز نہ آئے تو آٹھ دن اور سات راتوں تک ان پر شدید قسم کی آندھی کا عذاب مسلط ہوا، جس نے انکے رہے سہے باغات اور محلات کو زمین پر بچھادیا، انکے آدمی اور جانور ہوا میں اڑتے اور پھر سرکے بل آکر گرتے تھے وَقَطَعْنَا دَابِرَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا ہم نے جھٹلانے والوں کی نسل قطع کردی، یعنی اسوقت جو لوگ موجود تھے وہ سب فنا کردئے گئے، بعض مفسرین نے فرمایا آئندہ کیلئے بھی قوم عاد کی نسل اللہ تعالیٰ نے منقطع کردی۔
جب قوم عاد پر عذاب آیا تو ھودعلیہ السلام اور انکے رفقاء نے ایک گھر میں پناہ لی یہ عجیب بات تھی کہ اس طوفانی ہوا سے بڑے بڑے محلات تو منہدم ہورہے تھے مگر اس گھر میں ہوا نہایت معتدل ہوکر داخل ہوتی تھی ہودعلیہ السلام کے سب رفقاء عین نزول عذاب کے وقت بھی اسی جگہ مطمئن بیٹھے رہے، انکو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی، قوم کے ہلاک ہوجانے کے بعد مکہ معظمہ منتقل ہوگئے اور پھر یہاں وفات پائی(محر محیط)
فَاَرْسَلْنَاعَلَیْہِمْ رِیْحاً صَرْصَرًا فِیْ اَیَّامِ نّحُسَاتٍ(سجدہ) اِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحاً صَرْصَراً عَاتِیَہْ، سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمَانِیَۃَ اَیَّامٍ حُسُوْماً فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعیٰ کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَہْ فَہَلْ تَرٰی لَہُمْ مِنْ بَاقِیَہْ،اور لیکن عاد وہ ہلاک کئے گئے ٹھنڈی تیز ہوا کے ذریعہ اللہ نے ان پر اس ہوا کو سات دن اور آٹھ رات لگاتار مسخرفرمادیا اے مخاطب تو دیکھے قوم کو کہ اس ہوا میں پچھاڑے ہوئے پڑے ہیں گویا کہ وہ کھوکھلے تنے ہیں کھجور کے، کیا تو ان میں دیکھتا ہے کہ کوئی باقی رہا، اور سورئہ ذاریات میں فرمایا گیا وَفی عاد اِذْاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمٍ،اور قوم عاد میں عبرت ہے جبکہ ہم نے بھیجی ان پر ایسی ہوا جو بانجھ تھی یعنی خیر سے بالکل خالی تھی وہ جس چیز پرپہنچتی تھی اسے ایسا بناکر رکھ دیتی تھی جیسے چوراہو، مگر اس سرکش بدمست قوم نے ایک نہ سنی اور وہی جواب دیا جو عام طور پر گمراہ لوگ دیا کرتے ہیں کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم سے ہمارے باپ دادا کا مذہب چھڑادو اور سارے دیوتائوں کو چھوڑکر ہم صرف ایک خداکو ماننے لگیں، یہ تو ہم سے نہ ھوگا، جس عذاب کی دھمکی ہمیں دے رہے ہیں اس عذاب کو بلالو اگر تم سچے ہو۔
سورئہ احقاف میں ہے کہ جب ان لوگوں پر عذاب آنا شروع ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ انکی وادیوں کی طرف بادل آرہا ہے وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ توبادل ہے جو ھم پر برسے گا(برسنے والا بادل کہاں تھا) بلکہ وہ توعذاب ہے جسکی جلدی مچارہے تھے وہ تو ہَوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے وہ اپنے رب کے حکم سے ہرچیز کو ہلاک کررہی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ اس حال میں ہوگئے کہ انکے گھروں کے سوا کچھ بھی نظر نہ آتا تھا، یہ عناصر اربعہ آگ، خاک، آب وہوا سب مامور من اللہ ہیں سب حکم خدا کے تابع ہیں اسی کے حکم کے مطابق کام کرتے ہیں اور اسکی مخلوق کیلئے نفع یا ضرر کا سبب بن جاتے ہیں۔
آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا نُصِرْتُ بِالصَبَّاوَأَھْلِکَتْ عَادٌ بالدُّبور کہ صبا کے ذریعہ میری مدد کی گئی اور قوم عاد دبور کے ذریعہ ھلاک کی گئی(بخاری جلد۱ صفحہ ۱۴۱)
صبا: وہ ہوا ہے جو مشرق سے مغرب کی طرف چلتی ہے
دبور: وہ ہوا ہے جو مغرب سے مشرق کی طرف چلتی ہے
چنانچہ غزوئہ احزاب کے موقعہ پر جب مختلف قبائل اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کیلئے مدینہ پر چڑھائی کئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے سخت ہوابھیجی جس نے دشمن کے خیمے اکھاڑدئیے اور انکے چولہے الٹ دئے اور انہیں وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا، حدیث بالا میں اسی کا تذکرہ ہے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب آسمان میں کوئی بادل دیکھتے تھے تو آپؐ کا رنگ بدل جاتا تھا اور آپؐ کبھی اندر جاتے اور کبھی باہر آتے جب بارش ہوجاتی تو آپؐ کی یہ کیفیت ختم ہوجاتی، میں نے اس بات کو پہچان لیا اور اس بارے میں آپؐ سے سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اے عائشہ! میں ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو جیسا قوم عاد نے بادل کو دیکھ کر کہا جو انکی وادیوں کی طرف آرہا تھا کہ یہ بادل بارش برسانے والا ہے (لیکن بارش برسانے والا بادل نہ تھا) بلکہ ہوا کی صورت میں عذاب تھا جوان پر نازل ہوا۔(مسلم جلد۱،صفحہ ۹۲۹۴)
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہوا، اللہ کی رحمت کی چیز ہے وہ رحمت لاتی ہے اور عذاب بھی لاتی ہے لہٰذا تم اسے بُرا نہ کہو اللہ سے اس کی خیر کا سوال کرو، اور اسکے شر سے پناہ مانگو(مشکٰوۃ ص ۱۳۰، ابوداوٗد وابن ماجہ)
فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَۃُ بِالْحَقِّ یعنی پکڑلیا انکو ایک سخت آواز نے، اس ارشاد قرآنی کی بناء پر بعض مفسرین نے فرمایا کہ قوم عاد پر سخت قسم کی ہیبتناک آواز کا عذاب مسلط ہوا تھا۔
اس میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ سخت آواز بھی ہوئی ہو اور ہَوا کا طوفان بھی مسلط ہوا ہو۔
حضرت ھود علیہ السلام اور انکی قوم کے مفصل واقعہ میں غافل انسانوں کیلئے خدا کی یاد اور اطاعت میں لگ جانے کی ہدایت اورخلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سامان عبرت اور مبلغین و مصلحین اقوام کیلئے پیغمبرانہ طریقہ تبلیغ واصلاح کی تعلیم ہے اسکے علاوہ جتنے بھی پیغمبروں کے قصے اور واقعات قرآن حکیم نے بیان فرمائے ہیں ان سب میں قیامت تک آنے والے افراد امت کیلئے ایک بہت بڑی نصیحت اور عبرت ہے کہ احکامات خداوندی سے غفلت عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے اور اسکے احکامات کی تعمیل اطاعت حفاظت خداوندی کا ضامن ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو کلام الٰہی کو پڑھنے کی اور اسکے واقعات، سے نصیحت حاصل کرنے کی اور اسکو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
واٰخردعواناان الحمد للہ رب العالمین

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
بنائے کیا سمجھ کر شاخِ گل پر آشیاں اپنا
چمن میں آہ کیا رہنا جو بے آبرورہنا
(اقبال)
 
Top