۱۲ بارھویںتراو یح

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
{۱۲} بارھویںتراو یح
رُبَمَا تا سُبْحٰنَ الَّذِیْ ختم​

وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِoقُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْررَبِّیْ، وَمَااُوْتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً
(ترجمہ)اور لوگ آپؐ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بس تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے(سورۃ الاسراء آیت۸۵)
بفضل خدا آج ھم نے بارھویں تراویح اداکی، آج پڑھی گئی آیات مبارکہ میں سے پندرھویں پارہ کی یہ مذکورہ آیت شریفہ ہے جسمیں ایک بہت ہی اھم اور نازک موضوع روح کے متعلق تذکرہ کیا گیا ہے یہ اصل میں یہودیوں کے ان تین سوالوں کے جوابوں میں سے ایک ہے جسکو علماء یہود نے رسول اللہﷺ سے پوچھا تھا، اور آپؐ نے انکا تفصیلی جواب بھی دیا تھا، اس آیت کا شان نزول ملاحظہ فرماتے چلیں، درحقیقت سوال کرنے والوں کا مقصد رسول اللہﷺ کی رسالت کا امتحان لینا تھا۔
شان نزول مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ قریش مکہ جو بجاوبے جا سوالات نبی کریمﷺ سے کرتے رہتے تھے انکو خیال پیدا ہوا کہ یہود علم والے ہیں انکو پچھلی کتابوں کا بھی علم ہے ان سے کچھ سوالات حاصل کئے جائیں جنکے ذریعہ رسول اللہﷺ کا امتحان لیا جائے اس لئے قریش نے یہود سے دریافت کرنے کیلئے اپنے آدمی بھیجے انہوں نے کہا کہ تم ان سے روح کے متعلق سوال کرو(ابن کثیر) اس وقت تک نبی کریمﷺ پر روح کے بارے میں کوئی بات نازل نہ ہوئی تھی آپﷺ نے فوری جواب نہیں دیا پھر جبرئیل امین یہ آیت لیکر نازل ہوئے قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ۔
امام بغویؒ نے اس جگہ تحریر فرمایا حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی مفصل روایت نقل فرمائی ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جبکہ مکہ کے قریشی سرداروں نے جمع ہوکر مشورہ کیا محمدؐ ہمارے میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے انکی امانت ودیانت اور سچائی میںکبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا اور کبھی انکے متعلق جھوٹ بولنے کی تہمت بھی کسی نے نہیں لگائی، اور اسکے باوجود اب جو دعویٰ نبوت کا وہ کررہے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتا، اس لئے ایک وفد مدینہ طیبہ کے علماء یہود کے پاس بھیج کر انکے بارے میں تحقیقات کریں، چنانچہ قریش کا ایک وفد علماء یہود کے پاس مدینہ پہنچا، ان علماء نے انکو مشورہ دیا کہ ہم تمہیں تین چیزیں بتلاتے ہیں تم ان سے سوال کرو اگر انہوں نے تینوں کا جواب دیدیا تو وہ نبی نہیں اسی طرح تینوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا تو بھی نبی نہیں، اوراگر دو کا جواب دیا تیسری چیز کا جواب نہ دیا تو سمجھ لو کہ وہ نبی ہیں وہ تین سوال یہ ہیں۔ (۱)ان لوگوں کا حال پوچھو جو قدیم زمانے میں شرک سے بچنے کیلئے کسی غار میں چھپ گئے تھے کیونکہ انکا واقعہ عجیب ہے(تفسیر خطبات جلد اول میں اصحاب کہف کے عنوان سے اسکا مفصل جواب اور تفسیر وتشریح موجود ہے)
(۲)دوسرے اس شخص کا حال پوچھو جس نے زمین کے مشرق ومغرب کا سفر طے کیا اسکا کیا واقعہ ہے(یہ ذوالقرنین کا واقعہ ہے جو انشاء اللہ منتخب تفسیری خطبات کی تیسری جلد میںبیان کیا جائیگا)
(۳)تیسرے روح کے متعلق دریافت کرو۔
یہ وفد واپس آیا اورتینوں سوال رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کئے آپؐ نے فرمایا کہ میں اسکا جواب تمہیں کل دونگا مگر اس پر انشاء اللہ کہنا بھول گئے جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز تک وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا بارہ سے پندرہ سے لیکر چالیس دن تک کی مختلف روایات ہیں جنمیں سلسلۂ وحی بند رہا قریش مکہ کو طعن وتشنیع کا موقع ملا کہ کل جواب دینے کوکہا تھا آج اتنے دن ہوگئے جواب نہ ملا نبیﷺ کو بھی پریشانی ہوئی پھر جبرئیل ؑ یہ آیت لیکر نازل ہوئے وَلَاتَقُوْلَنَّ لِشَیْیٍٔ اِنِّیِ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَداً اِلاَّ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ جسمیں آپ کو تلقین کی گئی کہ آئندہ کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہہ کر کیا جائے اسکے بعد روح کے متعلق قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِرَبِّیْ آیت سنائی۔
اس آیت مذکورہ میں کفار کی طرف سے روح کے متعلق سوال کیا تو حق تعالیٰ شانہٗ نے جواب دیا ہے، لفظ روح لغات ومحاورات میں نیز قرآن کریم میں متعدد معانی کیلئے استعمال ہوا ہے مشہور معنیٰ تو وہی ہیں جو عموماً اس لفظ سے سمجھے جاتے ہیں یعنی جان جس سے حیات اور زندگی قائم ہے، قرآن میں یہ لفظ جبرئیلؑ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنِ،اورحضرت عیسیٰ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے اَلْقٰہااِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ اورخود قرآن کریم اور وحی کو بھی روح کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے وَاَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحاًمِّنْ اَمْرِنَا۔
احادیث صحیحہ مرفوعہ میں جو اس آیات کا شان نزول بتلا یا گیا ہے وہ تقریباً اس میں صریح ہے کہ سوال کرنے والوں نے روح حیوانی کا سوال کیا تھا اور مقصد سوال کا روح کی حقیقت معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا چیز ہے بدن انسانی میں کس طرح آتی جاتی ہے، اور کس طرح اس سے حیوان اور انسان زندہ ہوجاتا ہے۔
بخاری ومسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ میں ایک روز نبی کریمﷺ کے ساتھ مدینہ کے غیر آباد حصے میں چل رہا تھا رسول اللہﷺ کے دست مبارک میں ایک چھڑی کھجور کی شاخ کی تھی آپ کا گذر چند یہودیوں پر ہوا یہ لوگ آپس میں کہنے لگے کہ محمدؐ آرہے ہیں ان سے روح کے متعلق سوال کرو، دوسروں نے منع کیا مگرسوال کرنے والوں نے سوال کرہی ڈالا یہ سوال سنکر رسول اللہﷺ لکڑی پر ٹیک لگا کر خاموش کھڑے ہوگئے جس سے مجھے اندازہ ہواکہ آپؐپر وحی نازل ہونے والی ہے، کچھ وقفہ کے بعدوحی نازل ہوئی توآپؐ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ، قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ، اس جواب کی تشریح میں حضرات مفسرین کے تعبیرات مختلف ہیں، سب سے زیادہ اقرب اورواضح وہ ہے جو تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے اختیار کیا ہے وہ یہ کہ اس جواب میں جتنی بات کا بتلانا ضروری تھا اور جو عام لوگوں کی سمجھ سے باہر بھی تھی اور انکی کوئی ضرورت اسکے سمجھنے پر موقوف بھی نہ تھی یہاں رسول اللہﷺ کو یہ حکم ہوا کہ آپ انکے جواب میں یہ فرمادیجئے، کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے، یعنی وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں جو مادہ کے توالدوتناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہے بلکہ وہ بلا واسطہ حق تعالیٰ کے حکم کن سے پیدا ہونے والی چیز ہے روح کو عام مادیات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، جس سے وہ تمام شبہات رفع ہوگئے جو روح کو عام مادیات پر قیاس کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں، اور انسان کیلئے اتنا ہی علم روح کے متعلق کا فی ہے، اسکی حقیقت کا سمجھنا عوام کیلئے کیا بڑے بڑے حکماء وعقلاء کیلئے بھی آسان نہیں ہے۔
قرآن کریم کی سورئہ حجر میں ایک جگہ تخلیق آدمؑ کی منظر کشی کرتے ہوئے ارشاد خداوندی ہے فَاِذَاسَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ (سورۃ الحجرآیت۲۹)
روح کوئی جسم ہے یا جو ہر مجرد اس میں علماء وحکماء کا اختلاف قدیم زمانے سے چلا آتا ہے شیخ عبد الرئوف متاوی نے فرمایا کہ اس میں حکماء کے اقوال ایک ہزار تک پہنچے ہیں مگر سب قیاسات اورتخمینے ہی ہیں کسی کو یقینی نہیں کہا جاسکتا، حضرت امام غزالیؒ ، امام رازیؒ اور عمومًا صوفیہ وفلاسفہ کا قول یہ ہے کہ وہ جسم نہیں بلکہ جوہر مجرد ہے امام رازیؒ نے اسکے بارہ دلائل پیش کئے ہیں، مگر جمہور علماء امت روح کو ایک جسم لطیف قرار دیتے ہیں۔
نفح کے معنیٰ ہیں پھونک مارنے کے، اگر بقول جمہور روح کو جسم لطیف قرار دیا جائے تو اسکو پھونکنا ظاہر ہے اور جوہر مجرد مان لیا جائے تو پھونکنے کے معنیٰ اسکا بدن سے تعلق پیدا کردینا ہوگا(بیان القرآن)
روح اور نفس کی تحقیق:
تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ روح کی دوقسم ہیں علوی اورسفلی، روحِ علوی مادہ سے مجرد اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جسکی حقیقت کا ادراک مشکل ہے اہل کشف کو اسکا اصل مقام عرش کے اوپردکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ عرش سے زیادہ لطیف ہے اور وح علوی بنظر کشفی اوپر نیچے پانچ درجات میں محسوس کی جاتی ہے وہ پانچ یہ ہیں قلب، روح،یسر، خفی، اخفیٰ، اور یہ سب عالم امر کے لطائف میں سے ہیں جسکی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی
اور روح سفلی وہ بخار لطیف ہے جو بدنِ انسانی کے عناصر اربعہ آگ، پانی مٹی ہوا، سے پیدا ہوتا ہے اور اسی روح سفلی کو نفس کہا جاتا ہے، اللہ تعالی ٰنے اس روح سفلی کو ارواح علویہ کا آئینہ بنادیا ہے جس طرح آئینہ جب آفتاب کے مقابل کیا جائے تو آفتاب کے بہت بعید ہونے کے باوجود اس میں آفتاب کا عکس آجاتا ہے، اور روشنی کی وجہ سے وہ بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھتا ہے، اور آفتاب کی حرارت بھی اس میں آجاتی ہے
اسی طرح ارواح علویہ اگر چہ اپنے تجرد کی وجہ سے بہت اعلیٰ وارفع اوربہت مسافتِ بعیدہ پر ہیں مگر انکا عکس اس روح سفلی کے آئینہ میں آکر ارواح علویہ کی کیفیات وآثار اس میں منتقل کردیتا ہے پھر یہ روح سفلی جسکو نفس کہتے ہیں اپنی ان کیفیات وآثار کے ساتھ جنکو ارواح علویہ سے حاصل ہے یا اسکا تعلق بدن انسانی میں سب سے پہلے مضغۂ قلبیہ سے ہوتا ہے اور اس تعلق ہی کا نام حیات اورزندگی ہے یہ روح سفلی پورے بدن میں پھیلی ہوئی باریک رگوں میں سرایت کرتی ہے اس طرح وہ تمام بدن انسانی کے ہر حصہ میں پہنچ جاتی ہے۔
روح سفلی کے بدن انسانی میں سرایت کرنے ہی کو نفخ روح سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہ کسی چیز میں پھونک بھرنے سے بہت مشابہ ہے، اور آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے روح کو اپنی طرف منسوب کرکے من روحی اسی لئے فرمایا ہے کہ تمام مخلوقات میں روح انسانی کا اشرف واعلیٰ ہونا واضح ہوجائے کیونکہ وہ بغیر مادّے کے محض امر الٰہی سے پیدا ہوئی ہے، نیز اس میں تجلیات رحمانیہ کے قبول کرنے کی ایسی استعداد ہے جو انسان کے علاوہ کسی دوسرے جاندار کی روح میں نہیں ہے، اور انسان کی پیدائش میں اگرچہ عنصر غالب مٹی کا ہے اوراسی وجہ سے قرآن کریم میں انسان کی پیدائش کو مٹی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
لیکن درحقیقت وہ دس چیزوں کا جامع ہے جن میں پانچ عالم خلق کی ہیں اور پانچ عالم امر کی عالم خلق کے چار عنصر، آگ پانی مٹی ہوا، اور پانچواں ان چاروں سے پیدا ہونے والا بخار لطیف ہے جسکو روح سفلی یا نفس کہا جاتا ہے اور عالم امر کی پانچ چیزیں، قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ ہیں
اسی جامعیت کے سبب انسان خلافت الٰہیہ کا مستحق بنا، اور نور معرفت اور نارعشق ومحبت کا متحمل ہوا، جسکا نتیجہ بے کیف معیت الٰہیہ کا حصول ہے، کیونکہ نبی پاکؑ کا ارشاد گرامی ہے اَلْمَرْء ُمَعَ مَنْ اَحَبَّ یعنی ہر انسان اس فرد کے ساتھ ہوگا جس سے اسکو محبت ہے
اور انسان میں تجلیات الٰہیہ کی قابلیت اور معیت الٰہیہ کا جودرجہ اسکو حاصل ہے اسی کی وجہ سے حکمتِ الٰہیہ کا تقاضا یہ ہوا کہ اسکو مسجود ملائکہ بنایا جائے ، اسی لئے ارشاد باری عزاسمہ ہوا تھا فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْنَ
علاوہ اس تفصیل کے آیات کریمہ اور احادیث شریفہ میں روح انسانی کے بارے میں بہت سی باتیں مذکور ہیں عالم ارواح میں روح کا مجتمع ہونا وہاں تعارف یا تناکر ہونا(جیسا کہ بخاری سے مروی ہے) حضرت آدمؑ کا پتلا تیار ہوجانے کے بعد اسمیں روح پھونکا جانا، پھر مادر بطن میں ہر انسان میں روح کا پھونکا جانا(رواہ الشیخان) اور اسی روح کے ذریعہ زندہ رہنا پھر موت کے وقت اس روح کا نکل جانا حضرت ملک الموت کا روح کو قبض کرنا پھر انکے ہاتھ سے لیکر فرشتوں کا آسمان کی طرف جانا پھر قبر میں روح کا لوٹا یا جانا اورسوال وجواب ہونا اور دنیا سے جانے والی روح کا پہلے سے برزخ میں پہنچی ہوئی روحوں کے پاس جمع ہونا(مشکوۃ ۱۴۱) اور قبر میں آرام یا عذاب میں رہنا پھر صور پھونکے جانے پر روحوں کا جسموں میں داخل ہونا یہ سب ایسی چیزیں ہیں جنہیں اہل ایمان جانتے ہیں اور مانتے ہیں، یہودیوں اور مشرکوں نے روح کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کیا ہے تو اللہ نے اسکے جواب میں ارشاد فرمایا یہ اللہ کے حکم سے ہے اسکی حقیقت ظاہر نہیں فرمائی، اور یہ بتادیا کہ یہ بھی اللہ کی ایک مخلوق ہے۔
علامہ قرطبیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ روح کی حقیقت اس لئے نہیں بتائی گئی کہ انسان کو یہ پتہ چل جائے کہ وہ تو اپنی ذات کی حقیقت جاننے سے بھی عاجز ہے خالق کائنات تبارک وتعالیٰ کی پوری معرفت سے بطریق اولیٰ عاجز ہوگا۔
علامہ بغویؒ نے معالم لتنزیل میں روح کے بارے میں مختلف اقوال لکھے ہیں پھر اخیر میں لکھا ہے واولی الاقاویل ان یوکل علمہ الی اللّٰہ عزوجل وہو قول اہل السنۃ (سب سے بہتر بات یہ ہے کہ اسکا علم اللہ کے ہی سپرد کیا جائے اہل سنت کا یہی قول ہے۔
اسکے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ نے بطور تنبیہ کے فرمایا وَمَااُوْتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً اورتمہیں صرف تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے، یہ خطاب سارے انسانوں کو ہے جنکے عموم میں سوال کرنے والے یہود بھی شامل ہیں تفسیر درمنثور جلد ۴، صفحہ۲۰۰ میں حضرت ابن جریج سے اس آیت شریفہ کے سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے محمدوالناس اجمعین یعنی اے محمدﷺ آپ اور آپکے علاوہ جو لوگ ہیں سب کو تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے ویسے تو رسول اللہﷺ کا علم تو بہت زیادہ ہے اور ساری مخلوق سے زیادہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں تھوڑا ہی سا ہے، جب یہودیوں نے آیت مذکورہ کا یہ حصّہ سنا تو کہنے لگے کہ ہم توتورات پڑھے ہوئے ہیں اس میں ہرچیز کا بیان ہے، تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں قلیل ہی ہے۔
اس تمام تفصیل وتشریح سے یہ معلوم ہواکہ روح اللہ کا ایک حکم ہے جو اللہ تعالیٰ انسان کے اندر ڈالتے ہیں جب تک یہ روح موجود ہے تو انسان باقی ہے اور جب اسکو قبض کرلی جائے تو انسان بھی مردہ قراردیا جائیگا۔
خالق کائنات سے دعا ہے کہ رب العالمین ھم تمام کو اسکی کتاب کی تلاوت کی توفیق عطافرمائے اور اسکے احکام پر یقین کرتے ہوئے اسپر عمل پیرا ہونے کی طاقت پیدا کرے۔ آمین۔ واٰخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
 
Top