دل کا درد لبوں تک آئے تو میں نعت کہوں

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
دل کا درد لبوں تک آئے تو میں نعت کہوں
ہر دھڑکن مصرع بن جائے تو میں نعت کہوں

دل کے مطلع پر ہو صبح عرفان و ایقان
چھٹ جائیں تشکیک کے سائے تو میں نعت کہوں

حسنِ عمل کے کھیت ہرے ہوں خیر پھلے پھولے
دامانِ رحمت لہرائے تو میں نعت کہوں

جو بادل نیسا نستانِ عشق سے اٹھا ہے
وہ برسے موتی برسائے تو میں نعت لکھوں

تخیل و وجدان میں‌جشن فصل بہاراں ہو
من مہکے اور جاں مسکائے تو میں نعت کہوں

روز فقیر محمد افضل اور حفیظ ملیں
صحبت ان کی جوت جگائے تو میں نعت کہوں

نعت نگاری کی جعفر بس ایک ہی صورت ہے
خود اللہ مضموں سمجھائے تو میں نعت کیوں​
 
Top