جو دل میں عشق محمد کا آستانہ رہے

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
جو دل میں عشق محمد کا آستانہ رہے
سحر کا حسن رہے رونقِ شبانہ رہے

بدن میں سانس کا جب تک یہ آنا جانا رہے
مرئے لبوں پہ فقط نعت کا ترانہ رہے

جیوں تو آپ کا ذکرِ جمیل کرتا رہوں
زبان پر دمِ آخر یہی فسانہ رہے

درودِ پاک کا یہ ورد میری دولت ہے
یہ میری دولتِ بیدار تازمانہ رہے

حضور آپ کی بستی بسی ہے آنکھوں میں
دعا یہی ہے کہ آباد یہ خزانہ رہے

پھر اس کے بعد نہیں کوئی آرزوئے بہشت
اگر نصیب مدینے میں آب ودانہ ملے

حضور حشر میں‌ بھی آپ کی غلامی ملے
یہ افتخارِ حضوری بھی دائمانہ رہے

وہاں بھی نعت کی نسبت مرا مقدر ہو
گناہگار کی بخشش کا یہ بہانہ بنے

میں‌نعت پڑھتا ہوا سرو ساتھ ساتھ چلوں
مرے عروج پہ حیراں اک زمانہ رہے
 
Top