دیوبند ی اور بریلوی اختلاف اور حُسن ظن کا رویہ
ہمارے اس دور میں فرقہ واریت نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ اور مسلسل پہنچ بھی رہا ہے ۔ دل سے خواہش ہے کہ ہمارے لوگوں میں جائز اختلاف کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہو جائے اور جو اختلاف جائز نہیں بھی ہے اس کو بھی حکمت سے حل کیا جائے ۔ ہمارے اس برصغیر میں فرقہ واریت کے کئی محاذ سے بن گئے ہیں ۔ جن میں سنی شیعہ ، حنفی غیر مقلد ، بریلوی دیوبندی ، بڑے محاذ بن گئے ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی ہیں ۔ سنی اور شیعہ کے درمیان اختلاف اصولی ہے ۔ اور یہ دراصل دیوبندی،بریلوی،غیرمقلداہلحدیث تینوں کا شیعوں سے اختلاف ہے ۔ اس کو بھی حکمت سے حل کیا جاسکتا ہے ۔ ابھی اس پر بات نہیں کرنی ۔
بعض جزوی تفردات کو چھوڑ کر اصول میں بہرحال دیوبندی ، بریلوی ، اور غیر مقلد اہل حدیث ۔۔تینوں اہل سنت و الجماعت ہی میں شمار ہوتے ہیں ۔
اور جزوی تفردات پر ہی بحث زیادہ کرکے اور اختلافی مسائل پر پرتشدد بحث کر کے ۔۔۔فرقہ وارنہ بحثوں کو پسند کرنے والے حضرات ان تینوں میں سے کسی کو اہل سنت و الجماعت سے باہر کرتے رہتے ہیں ۔ جس کی آخری حد یہ ہے کہ کافر گستاخ اور مشرک قرار دے دیا جاتا ہے ۔
کئی لوگ فرقہ واریت کا حل بس یہ سمجھتے ہیں کہ تمام لوگ ان کے مسلک پر آ جائیں تو فرقہ واریت ختم ہو جائے گی ۔ اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم تو صحیح راستہ پر ہیں ہم تو فرقہ واریت کرتے ہی نہیں ۔
یہ وہ سوچ ہے جو سنجیدہ طبقہ میں فرقہ واریت کی بنیاد ہے ۔
بریلوی اور دیوبندی اسلامی امہات کتب اور ۱۳۰۰ سال تک کی اسلامی شخصیات تک ۔۔۔اصول و فروع میں متحدد ہیں ۔ لیکن آج یہ عالم ہے کہ دیوبندی کے نزدیک بریلوی مشرک و بدعتی ہے ۔ اور بریلوی کے نزدیک دیوبندی کافر و گستاخ ہے ۔
دونوں مسالک میں سنجیدہ لوگ بھی ہیں ۔ اور پاکستان میں اتحاد مدارس کے تحت اوپر کی سطح پر بعض ملکی مسائل پر اکٹھے بیٹھ بھی جاتے ہیں ۔
اور انفرادی حیثیت سے بعض حضرات ایک دوسرے سے ملنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔
لیکن مسلک میں موجود تشدد پسند لوگ ایسی کوشش کو پسند نہیں کرتے ۔ بلکہ وہ ایسی کوشش کرنے والا چاہے بڑا عالم ہی کیوں نہ ہو اس کو اپنے مسلک سے باہر کر کے تنقید شروع کر دیتے ہیں ۔
دل سے خواہش ہے کہ اتحاد کے لئے ، فرقہ واریت ختم کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں ۔
پچھلے دنوں علامہ سعید احمد اسد صاحب جو بریلوی مکتبہ فکر کے بڑے عالم ہیں وہ اتحاد کے لئے دیوبندی مکتبہ فکر کے
مفتی محمد رفیع عثمانی ۔ مولانا طارق جمیل ۔ اور مولانا الیاس گھمن صاحب سے ملے ۔
یہ دیکھ کر شوق ہوا کہ معلوم کیا جائے کہ کیا قصہ ہے ۔
ان میں سے مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب سے ملاقات کی وڈیو غالبا نہیں ہے ۔ اور مولانا طارق جمیل سے ملاقات کی وڈیو ہے لیکن وہ موبائل سے بنی ہے اور صحیح ملاقات کا حال نہیں معلوم ہوتا ۔ البتہ مولانا الیاس گھمن نے کیمرہ لگا کر پوری ملاقات ریکارڈ پر لائی ہے ۔
جب دو اختلاف رکھنے والے حضرات کی آپس میں بحث کو حل کرنے کے لئے ملاقات ہو تواگر وہ خالص نیت سے ہیں تو ضرور دوسرے کی بات کو زیادہ سننے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اور کچھ اپنی انا اور رویہ کو قربان بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہیے ۔
ان تین حضرات کو جو میں موجودہ بحث کے حوالہ سے جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ۔
مولانا طارق جمیل صاحب تو دعوت و تبلیغ سے منسلک ہیں اور وہ تو پہلے ہی سے نرم رویہ رکھتے ہیں ۔ کسی اختلافی مسئلہ کو ذکر کرنے کا سوال ہی نہیں ۔ درحقیقت وہ دیوبندی ہیں ہی نہیں ۔
مفتی محمد رفیع عثمانی ۔۔۔پاکستان کے دیوبندی مکتبہ فکر کے مفتی اعظم ہیں ۔ اور اتحاد کے اور فرقہ واریت کے خاتمے کے سنجیدہ حامی ہیں ۔ اور پاکستان کے مدارس میں سے دوسرے مسلک کے لئے نرم رویہ رکھنے والا ان کا ادارہ جامعہ دار العلوم کراچی سرفہرست ہے۔
اس کی مثالیں یہ ہیں کہ بریلوی مکتبہ فکر کے عظیم مدرسہ جامعہ نعیمیہ لاہور کے بڑے عالم مولانا سرفرازؒ کی شہادت پر ان کے صاحبزادے مولانا راغب نعیمی کو تعزیتی خط لکھا اور ان کے والد کی بہت تعریف کی ۔ اور یہ بھی لکھا کہ مولانا سرفراز نعیمیؒ بھی فرقہ وارانہ بحثوں سے دور رہتے تھے ۔
دوسری مثال یہ ہے کہ ان کا مدرسہ جامعہ دار العلوم کراچی پاکستان کے سب سے بڑے مدارس میں سے ایک ہے ۔ اور ان کے ادارے سے شائع ہونے والا ماہانامہ البلاغ ،کثیر الاشاعت مجلہ ہے ۔ اس ماہنامہ میں کتب پر تبصرہ بھی کیا جاتا ہے ۔
جامعہ دار العلوم کراچی کے مصالحانہ رویہ کو ہی دیکھتے ہوئے ، بریلوی مکتبہ فکر میں سے مولانا احمد رضا خانؒ کی کتاب
جد الممتار حاشيه رد المحتار ۔ تبصرہ کے لئے بھیجی گئی ۔ اس پر تعریفانہ تبصرہ کیا گیا ۔ ابھی مجلہ سامنے نہیں ۔ یاد نہیں کہ مولانا رفیع عثمانی کا ہی تھا۔ یا ۔۔۔جامعہ کے کسی دوسرے عالم کا ۔۔لیکن بہرحال وہ جامعہ کے نظریہ کا عکاس ہی تھا ۔
اس میں مولانا احمد رضا خان ؒصاحب کا عزت سے نام لیا گیا تھا ۔ اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہمیں ان کی کئی باتوں سے اختلاف ہے لیکن بہر حال ان کی فقہ پر نظر تھی ۔
حتی کے وہ اپنے خطبات میں یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ اپنے کو دیوبندی بھی نہیں کہلانا چاہیے کہ اس سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے ۔
اس لئے یقینا ان سے ملاقات بھی دوستانہ ہی رہی ہوگی کہ مفتی محمد رفیع صاحب نے بھی کسی مسئلہ کو چھیڑے بغیر یہ کہا ہوگا کہ بلکل آج کل اختلافات پر بات نہیں کرنی چاہیے ۔ واللہ اعلم
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن حلقوں میں یہ بحثیں جاری ہیں ۔ انہی کی وجہ سے ہی تو فرقہ واریت ہے ۔ تو جن باتوں میں جھگڑا ہے ان کو ناں چھیڑا جائے ۔۔۔یہ ممکن نہیں ہے ۔
چناچہ مولانا الیاس گھمن جو مناظر ہیں اور اختلافی مسائل ہی سے متعلق زیادہ گفتگو کرتے ہیں ۔ وہ اصل دیوبندی ہوئے کہ جن سے موجودہ مسئلہ پر بات ہوتی ۔ چناچہ وہی ہوا ۔ انہوں نے ریکارڈ کا بھی بندوبست کیا اور نیٹ پر بھی ڈال دیا ۔
بہت شوق سے دیکھا ۔۔۔لیکن افسوس ہوا کہ بات نتیجہ پر نہیں پہنچی ۔
علامہ سعید احمد اسد نے کئی بار یہ فرمایا کہ وہ بڑے درد کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں ۔ لیکن مولانا گھمن صاحب نے یہ کہا کہ جن باتوں سے اختلاف اور جھگڑا شروع ہوا ان پر بات کرنا ضروری ہے ۔ اسی پر پھر بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی کہ
علامہ سعید صاحب جو بڑے درد سے حاضر ہونے کا کہہ رہے تھے ۔انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ اکابر علماء دیوبند کی عبارات گستاخی والی ہیں اور ان پر اعتراض کفر صحیح ہے ۔ یعنی وہ اس بات کے ساتھ اتحاد کے لئے آئے تھے جو ظاہر ہے کہ کہاں ہونا تھا۔
بس یہ ہے کہ ان کی کوشش تھی کہ اس سے بیچ بچا ہو جائے ۔ لیکن مولانا الیاس صاحب نے کہا کہ اس بنیادی بات کے بغیر بات آگے کیسے بڑھ سکتی ہے ۔
ان دو حضرات کی بحث میں یہی چیز محسوس ہوئی کہ جیسے دونوں یہ دیکھ رہے ہوں کہ کون تھوڑا سا دفاعی ہوتا ہے ۔ اور یہ ڈر بھی ہو کہ میں دفاعی ہوا ۔۔اور اگلا اکڑا رہا۔۔تو میں تو ہار گیا ۔ اسی لئے دونوں ہی سخت رہے ۔ اور بات کسی نتیجہ پر نہ پہنچی ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ اتحاد کے خواہش مند ہیں ۔
پہلے تو وہ یہ سمجھیں کہ جس سے وہ اتحاد کر رہا وہ بھی مسلمان ہے ۔
حسن ظن کا رویہ رکھیں ۔
اور جو اختلافی مسائل ہیں ۔ نہ تو ان پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے ۔ بلکہ اپنا موقف ایسے انداز میں پیش کیا جائے کہ نہ اپنی سائیڈ کمزور ہو اور نہ دوسرے پر حرف آئے ۔
میں اپنا نظریہ پیش کرتا ہوں ۔
اس سے پہلے تمہیداََ حدیث مبارکہ پیش خدمت ہے جو کسی سے حسن ظن رکھنے کے لئے بہترین ہے ۔
دو دوستوں میں صلح کی خاطر جھوٹ بولنے کی بھی گنجائش ہے ۔صحاح کی حدیث ہے ۔
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص جھوٹا نہیں ہوتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے کو ئی بات کہہ دیتا ہے۔‘‘
تو پھر اہل علم کی آپس کی عبارات کے درمیان اگر تاویل و حسن ظن کا رویہ اپنایا جائے تو امید ہے کہ بہتر ہی ہے ۔
اور
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے۔ (ابو داؤد)
--------------------------------------------
یہ جو قبروں اور مزاروں پر ہوتا ہے یہ لوگ بریلوی نہیں ہیں ۔ چاہے اپنا انتساب کرتے ہوں ۔ ان پر کڑی تنقید بریلوی علماء کرتے رہتے ہیں ۔ یا پیشہ ور رنگیلے نعت خواں جیسی شرکیہ نعتیں پڑہتے ہیں ان پر بھی وہ تنقید کرتے ہیں ۔
اس وجہ سے علی الاطلاق بریلویوں کو مشرک قرار دینا یا یہ کہنا کہ وہ شرک کرتے ہیں ۔۔سراسر زیادتی ہے ۔
یا حاضر و ناظر ، علم غیب جیسے مسائل جن کو تعبیر کا فرق قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ عوام کے اندر ان اصطلاحات کا اور مفہوم ہے اور بریلوی علماء کے نزدیک اور ہے ۔
درحقیقت عوام میں جو ان اصطلاحات کا معنی رائج ہے اسی سے شرک کا مفہوم زیادہ نکلتا ہے ۔ اور عوام کا فہم کوئی حجت نہیں ہوتا ۔
اور بریلوی علماء کی جو تعبیر ہے تو حسن ظن سے ان کا حل کیا جاسکتا ہے ۔
بعض مناظرہ کی کتب جو علماء ہی کی ہوتی ہیں ۔ ان میں بھی کچھ تشدد سے اور رد عمل کے طور پہ ایسی تعبیرات ہوتی ہیں جو صحیح مفہوم نہیں دیتیں ۔ وہ بھی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مفید نہیں ۔ اور یہ دونوں مسلک کے علماء کی کتب میں ہے ۔
ابھی سنجیدہ حضرات کے لئے صرف اشارہ ہی دے رہا ہوں ۔ ورنہ اس کی مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں ۔ لیکن مثالیں دے کر توجہ پھر ان مسائل کی طرف ہی نہ ہوجائے ۔ اس لئے ابھی اجمالی بات ہی کافی ہے ۔
اور بدعت کے مسائل میں ایک تو علی الاطلاق کسی جماعت کو اہل بدعت یا بدعتی نہیں کہنا چاہیے ۔ اگر کوئی کہتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ فرقہ واریت کے خاتمے کا حامی نہیں ہے ۔خصوصاََ آج کل جب کہ ان مسائل کو بہت عرصہ بیت گیا۔
یہ مسائل اگر ہیں بھی تو گنتی کے چند ہیں ۔ اور یہ نہیں کہ دیوبندی ان کو مان لیں ۔ بلکہ ایسا نظریہ رکھیں کہ جیسے وہ اجتہادی خطا کرنے والے سے رکھتے ہیں ۔ اور بریلوی اپنے اجتہاد میں دیوبندی سے اسی مسئلہ میں ایسا ہی نظریہ رکھیں ۔
مثلاََ میلاد کا مسئلہ ہے ، دیوبندی حضرات کو چاہیے کہ اس بارے میں وہ بریلوی حضرات سے وہی معاملہ رکھیں جو ان علماء جو اس کے جواز کے قائل ہیں اور دیوبندی حضرات کے نزدیک بھی قابل احترام ہیں ۔جیسا رویہ رکھیں ۔ مثلاََ امام سیوطیؒ وغیرہ۔
یہ تو نفس میلاد کا ذکر ہے ۔ اور جو منکرات اور بدعات آج کل اس میں ہوتی ہیں ۔ ان پر تو بریلوی علماء بھی کڑی تنقید کرتے رہتے ہیں ۔
اور بریلوی بھائی بھی دیوبندی بھائیوں کے ساتھ وہ رویہ رکھیں جو کسی میلاد نہ منانے والے پرانے بزرگ یا عالم کے ساتھ رکھتے ہیں ۔ اور اس کو محبت ہونے یا ناں ہونے کا معیار نہ رکھیں ۔
اپنے لئے سب سے اچھی تعبیر و تعریف کا سب کو اختیار ہوتا ہے ۔ اور وہ اس کا مستحق بھی ہوگا ۔
لیکن حسن ظن کا تقاضا ہے کہ دوسرے کے بارے میں بھی بہترین تعبیر ہی اختیار کی جائے ۔
شرک اور بدعت کے علاوہ ایک مولانا احمد رضا ؒ صاحب کی شخصیت اور ان کی تصنیفات ہیں جو بحث کا موضوع بنتی ہیں ۔
اس کے لئے تو ایک مثال پاکستان میں دیوبند مکتبہ فکر کے سب سے بڑے اداروں میں سے ایک ادارے اور سب سے بڑی شخصیات میں سے ایک شخصیت کی تو مثال دے چکا ہوں کہ ان کا رویہ مولانا احمد رضاؒ صاحب کے ساتھ کیسا ہے ۔
اب رہ گئے مولانا گھمن صاحب اور مولانا سعید اسد جیسے حضرات کے لئے کوئی حل ہونا چاہیے ۔
اب یہ پکی بات ہے اور لکھ لینا چاہیے کہ کوئی اپنے آپ کو غلط کہہ کر آگے نہیں بڑھے گا ۔
دیوبندی یہ مان لیں کہ ان کے اکابر کی عبارات گستاخی والی ہیں ۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا ۔
اور نہ بریلوی یہ مان سکتے ہیں کہ مولانا احمد رضاؒ نے ایک پلان کے تحت عبارات اپنی مرضی سے جوڑیں ۔ چناچہ وہ غلط ہیں ۔
اب اس کے ساتھ ہی اس کا حل نکالنا چاہیے کہ کوئی بھی مطعون نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا خیال یہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا احمد رضا خان ؒ صاحب کے علاقے کے عوام میں شہرت ہو گئی ہو کہ دیوبند کے علماء نے گستاخیاں کی ہیں ۔ جب یہ بات ان کے علم میں آئی تواب انہوں نے ایک خیال قائم کر لیا ۔ اور چونکہ دیوبندی علماء کی طرف سے اس وقت میلاد و فاتحہ وغیرہ پر بدعت کے فتاوی دئے گئے تھے تو ایک طرح کی مخالفت تو تھی ہی تو پھر جب گستاخ عبارات کا سنا یا دیکھا تو اسی کا خیال قائم کر لیا۔
یا یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو براہ راست علماء دیوبند کی تصانیف میسر نہیں آسکیں بلکہ کسی نے ان کو عبارات مہیا کیں ۔ جس نے پہلے ہی یہ کہہ کر ان کو مہیا کیں کہ ان میں گستاخی ہے یہ عبارات دیکھیں ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ عبارات مکمل نہیں ہیں اور علماء دیوبند نے یہی اعتراض بھی کیا کہ عبارات کاٹ کر پیش کی گئی ہیں ۔
حتی کہ مولانا تھانویؒ نے اپنی عبارت جب مولانا احمد رضاؒ کی تحریر سے دیکھی یا سنی تو یہ کہا ہے کہ ایسی خبیث بات میں نے کہیں نہیں لکھی ۔ یعنی عبارت جب کٹ گئی تو ان کو خود وہ گستاخانہ لگی ۔
چناچہ یہ نظریہ قائم کیا جاسکتا ہے کہ مولانا احمد رضاؒ کو عبارات کسی کے واسطہ سے ملیں جو کہ مکمل نہیں تھیں اس پر انہوں نے سخت رویہ اپنا لیا ۔ اب وہ اس بارے میں معذور ہیں ۔
تاریخ اسلام میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔
امام بخاریؒ اور امام ابوحنیفہؒ دونوں کی شخصیات بریلوی اور دیوبندی علماء کے نزدیک انتہائی قابل احترام ہیں ۔
لیکن یہ تاریخ کا افسوس ناک واقعہ ہے کہ امام بخاریؒ تک امام ابوحنیفہ ؒ کی معلومات صحیح نہیں پہنچ سکیں ۔ وہ ان کو گمراہ فرقہ مرجئہ سے سمجھتے رہے ۔ وہ معذور تھے کہ ان تک اطلاع ہی صحیح نہیں پہنچ سکی ۔ خود امام بخاری ؒ کے ہم عصر ابو زرعہؒ اور ابن ابی حاتمؒ اور امام ذہلیؒ تک امام بخاریؒ کے عقیدہ کی ایک بات صحیح نہیں پہنچ سکی تو وہ ان کے بارے میں شدید نظریہ کے حامل ہوگئے ۔ وہ بھی معذور ہیں ۔
ابن جارودؒ ایک محدث ہیں ان کی حدیث مبارکہ کی ایک کتاب بھی مشہور ہے اور چھپی ہوئی ہے ۔المنتقی ابن جارود ۔
ان تک تو امام ابو حنیفہؒ جیسے بڑے امام کی ایسی خبریں پہنچیں کے وہ فرماتے ہیں کہ ۔ان کے اسلام میں اختلاف کیا گیا ہے ۔
یعنی مسلمانوں کااتنا بڑا امام جس کی فروع میں تقلید کرنے والے اہل اسلام میں سب سے زیادہ لوگ رہے ہیں ۔ وہ معلوم نہیں کہ مسلم تھے یا نہیں ۔ اب ابن جارودؒ بھی معذور تھے ۔
یعنی کبھی کسی وجہ سے غلط اطلاع بھی پہنچ جاتی ہے ۔ اور اس غلط اطلاع کی بنیاد پر نظریہ قائم کرنے والا کوئی اہل علم کی صف سے نکل نہیں جاتا ۔ بس یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں معذور ہے ۔
یہاں پر پڑھنے والوں کو دوبارہ اسلام کے حکم حسن ظن رکھنے کی طرف توجہ دلاؤں گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممکن ہے مولانا احمد رضاخان ؒ صاحب سے زیادہ عقیدت رکھنے والوں کے لئے یہ بات بھی قابل قبول نہ ہو ۔ حالانکہ مثال میں نے امام بخاریؒ کی پیش کی ہے جو انتہائی بلند مقام والے ہیں ۔
لیکن پھر بھی ایک اور بھی توجیح کی جاسکتی ہے ۔ یہ فرض کر کے کہ ۔۔انہوں نے براہ راست ان کی کتابوں کو دیکھا اور پھر وہاں سے عبارات نقل کیں۔ اور پھر گستاخی اور کفر کا حکم لگایا ۔
یہ ہوسکتا ہے کہ کہ جیسا کہ پیچھے عرض کیا گیا کہ بعض معاملات کے بدعت اور غیر بدعت ہونے کے اختلاف کی وجہ سے کچھ مخالفانہ فضا تو موجود تھی ہی ۔ اس وجہ سے عوام میں یہ عبارات بھی زیر بحث آگئی ہوں ۔ اور ان کے خیال میں اس کا غلط مفہوم بھی نکل سکتا ہے جو گستاخانہ ہے چناچہ سارا اعتراض اس مفہوم کے قائل پر ہے ۔ یعنی حسام الحرمین کتاب یا دوسری کتب میں جو باتیں پیش کی گئی ہیں جو ان کے اس غلط مفہوم کا قائل ہے ۔ یہ سارا اعتراض اور فتوی اسی پر ہے ۔
اگر حسن ظن رکھیں تو آپ کو یہ دور کی تاویل نہیں لگے گی ۔
اور اس کی ایک اچھی مثال بھی ہے کہ مولانا احمد رضا خان ؒ نے مولانا اسماعیل شہید ؒ کی عبارت کو بھی گستاخانہ قرار دیا تھا ۔ اور سخت اعتراض کیا تھا۔ اور آخر میں دوسری کتاب میں پھر فرمایا تھا کہ ان کو کافر نہ کہیں کہ ان کی عبارت کا صحیح مفہوم بھی نکلتا ہے ۔
اس بات میں بظاہر صریح تناقض ہے کہ ایک عبارت گستاخی والی ہے اور اس کا صحیح مفہوم بھی نکلتا ہے ۔ چناچہ پھر دیوبند کی طرف سے جواب دینے والوں نے اس کا خوب ذکر کیا ۔
حالانکہ میں کہتا ہوں کہ یہ تناقض نہیں ہے بلکہ اسی سے علماء دیوبند کی عبارات کی بھی توجیہہ ہو سکتی ہے ۔
بریلوی مکتبہ فکر کے بڑے عالم پیر کرم شاہ الازہریؒ نے بھی ایک جگہہ کچھ ایسا ہی کہا کہ جہاں مولانا قاسم نانوتویؒ کی عبارات زیر بحث تھیں ، کہا کہ مولانا قاسم ؒ کی عبارات سے چونکہ منکرین ختم نبوت ۔۔۔غلط مفہوم کشید کر رہے تھے اس لئے مولانا احمد رضا صاحب ؒ نے ان پر اعتراض کیا ۔
یہاں پر بعض نئے دوست یا پرانے بھی اگر یہ سوچیں کہ ان باتوں کے لئے شروع سے ایک ایک چیز دیکھتے ہیں تو ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کی عرض ہے کہ بس میرے بھائی اب ۱۰۰ سال ہوچکے اب کچھ حسن ظن بھی رکھ لیں ۔ اور حدیث مبارکہ کے مطابق خود کو حق پرسمجھتے ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دیں ۔
اور یہ جھگڑا چھوڑنا یہ بھی نہیں کہ اس بارے میں خاموش رہیں ۔ اور دل میں مخالف کے بارے میں سخت رویہ ہی رکھیں ۔
بلکہ جھگڑا ختم ہونا تو یہ ہے کہ دل سے بھی ختم کریں اور حسن ظن رکھ کر کسی مثبت اچھے نتیجہ پر پہنچ کر اس پر قائم ہو جائیں۔
یہاں اس توجیہہ میں دیوبندی بھائیوں کولگے کہ ان کو کچھ دفاعی دکھایا گیا ہے ۔ اول تو ایسا نہیں ہے ۔ اگر ہے بھی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لئے زیادہ دلچسپی بھی رکھتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں ۔
یعنی مولانا احمد رضا خانؒ نے کسی کے ان عبارات کے غلط مفہوم اخذ کرنے اور اس کا قائل ہونے والے پر فتوی لگایا ہے ۔
اس کی مثال مولانا اسماعیل شہیدؒ کی عبارت کی ہے ۔ کہ کافی عرصہ مولانا احمد رضاؒ اس کو گستاخانہ اس لئے کہتے رہے کہ عوام میں اس کا غلط مفہوم کا اندیشہ تھا۔اور اس کا اخذ کیا گیا غلط مفہوم گستاخانہ ہی ہے ۔
اسی طرح غلط مفہوم کے قائل علماء دیوبند نہیں ہیں ۔ جیسا کہ مولانا تھانویؒ نے کہا کہ یہ خبیث مفہوم میری کسی کتاب میں نہیں ۔ اور علمائے دیوبند نے اپنی عبارات کی خود ہی وضاحت بھی کی ہے ۔ اور ہر قول کی وضاحت اس قول کے کہنے والے ہی کا اصل حق ہے اور اس کی تشریح کو ماننا چاہیے ۔
صحاح کی حدیث کی طرف دوبارہ توجہ فرمائیں ۔
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص جھوٹا نہیں ہوتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے کو ئی بات کہہ دیتا ہے۔‘‘
یعنی جھوٹ بول کر بھی صلح کی گنجائش ہے تو یہاں پر تو حسن ظن کا کہا جا رہا ہے ، جو کہ بہت نیکی کی چیز ہے ۔
اور اگر یہ بات دیوبندی بھائیوں کو بھاری لگے کہ چلیں عبارات گستاخانہ نہیں کہیں گئیں لیکن ان کے مفہوم کے غلط نکلنے کا تو کہا گیا ہے ۔
جیسے قادیانی نے مولانا قاسم کی عبارت سے لیا ۔ تو اس کا جواب تو آسان ہے کہ قادیانی تو پھر قرآن و سنت کے بھی غلط مفہوم لے لیتے ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی کوئی بہترین توجیہہ اور حسن ظن اگر پیش کیا جاسکتا ہے تو ضرور پیش کریں جس سے
نہ تو مولانا احمد رضاخان ؒ پر کوئی حرف آئے اور نہ ہی علمائے دیوبندؒ پر ۔
یہاں پر کسی کی بھی عبارات کو ہرگز ڈسکس نہ کیا جائے ۔ یہاں پر صرف مثبت بات کی جائے ۔
اللہ تعالیٰ سب کے دلوں میں محبت پیدا فرمائے ۔ ہدایت کے راستہ پر چلائے ۔ اس پر استقامت عطا فرمائے ۔ آمین