سورش کاشمیری جنت البقیع میں
میں باب جبرائیل سے نکل کر جنت البقیع میں چلا گیا اور سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی بارگاہ تک پہنچا قبر جاگ رہی تھی، مسافر سو رہے تھے، ما ں حسن سے کہہ رہی ہیں نور نظر مجھ ر کیا بیتی! وہ کہتے ہیں" ماں وہی ہوا جو اہل بیت کے دشمن طے کرچکے تھے۔میں نے نانا ابا کی امت میں خون خرابہ روکنے کے لئے خلافت چھوڑ دں، لیکن جن کے دلوں میں ہمارے لئے بغض تھا کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ میری بیوی جعدہ بنت اشعث نے مجھے زہر دے دیا جس سے قلب و جگر کٹ گئے میں نے روزے نبی میں دفن ہونا چاہا ،مروان تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اعلان کیا کہ نانا کے پہلو میں نواسہ دفن نہیں ہوگا اب ماں کا دامن ہے اور میں ہوں" زین العابدین :دادی اماں سے کہہ رہے ہیں" نانا کی امت میں ہم پر سلام بھیجنے والے اتنے شقی القب نکلے کہ خاندان رسول مار ڈالا مجھے تین سو اشرفی کے لالچ میں باندھ کر ابن زیاد کے حوالے کردیا۔ اباجان کا سر کاٹنے سے پہلے اصرار کیا کہ حسین جلدی کرو نماز کا وقت ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہی قوم ہمارا کلمہ پڑھتی اور ہم پر درود بھیجتی ہے"۔
با قر: ابا سےکہہ رہے ہیں "دادا شہید ہوئے تو میں اس وقت تین برس کا تھا "
امام حسین نے کہا! "میری بیٹی کے بیٹے اور میرے بھائی کے پوتے ہم پہ جو بیت گئی پہاڑوں پر بیتی تو ان کا پتہ پانی ہوجاتا لیکن موت نے بھی معاندوں کے دلوں کی سنگینی کو نرم نہیں کیا "
جعفر صادق نے کہا" دنیا کسی کے موافق ہوتی تو دوسروں کی بھلائیاں بھی اسے دے دیتی ہے اور جب منہ پھیر لیتی ہے تو خود اسکی خوبیاں بھی چھین لیتی ہے"
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا!" میرے بھتیجے (صلی اللہ علیہ وسلم )کے جگر پارو!"تمہارے ساتھ انھوں نے جو سلوک کیا وہ میرے اندازہ میں تھا میں نے علی سے کہا تھا خاندان عبدالمطلب کے چہرے موت کے وقت شگفتہ ہو جایا کرتے ہیں رسول اللہ صل وسلم کا عالم عالم رخصت ہے ان سے پوچھ لیں میرا اندیشہ اندازہ درست نکلا ال رسول شہید کی گئی جب تک وہ زندہ رہے تلوار نیام سے باہر رہیں رحلت کر گئے تو ان کے قلم تلوار ہو گئے اب ان کے لیے کوئی نیا م نہیں" اس وقت میں تنہا تھا پندرہ منٹ اسی سوچ میں مستغرق رہا آخر ہچکی بندھ گئی آنسوؤں کی بوندابادی موسلادھار ہوگی میں ڈھائیں مار مار کے رونے لگا اور سپاہی جو باہر کھڑا تھا اندر آ گیا اس نے کہا شیعہ! مڑ کر دیکھا تو مدینہیونیور سٹی کے طالبعلم کہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ موحد سپاہی نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔طیب۔ رح رح اور چلا گیا وہ طالبعلم غالبا مطیع الر سول تھا جو مدینہ یونیورسٹی کے پاکستانی طلبہ کی طرف سے دعوت دینے ڈھونڈتا ڈھونڈتا یہاں تک آ گیا اور مجھے اس حالت میں پا کر خود آبدیدہ تھا۔ میں نے اس سے کہا ان عربوں کو کیا ہو گیا ہے ان مزارات کی بے حرمتی کا نام ان کے نزدیک قرآن و سنت ہے! کیا انہیں روحوں کے اس سفینے کی عظمت کا اندازہ نہیں۔ اس نے کہا جذبات ہر مسلمان کے یہی ہیں اور جو مسلمان عقیدتوں کے آبگینے لے کر باہر سے آتا ہے اس کو ایسی ٹھیس لگتی ہے لیکن آل سعود کی فرمانروائی سے پہلے بدعت گمراہی اور شرک انتہا کو پہنچ چکے تھے میں نے مطیع الر سول کی بات کاٹتے ہوئے کہا منطق کے ڈھیر الگ کیجیے۔ سوال اتنا ہے کہ اس بدعت اور اس شدت میں کیا رشتہ ہے گمراہی کو روکنے کی آڑ میں بے حرمتی جائز ہے ؟کیا اس کا نام عربوں کی لغت میں شرک ہے یا ان کے یہاں سرے سے یہ لفظ ہی موجود نہیں ان کے دل ابھی تک بنو امیہ ہیں۔
میں عربی سے واقف ہوتا تو کوہ صفا اور جبل احد پر کھڑا ہو کر پکارتا ہے محمد کے ہموطنوں تم نے جنت البقیع میں ھل پھروا کر ہمارے دل کے شیشے توڑ دیے ہیں اور اب ان میں کوئی صدا باقی نہیں رہ گئی ہے۔( شب جائے کہ من بودم صفحہ 172)
Last edited: