روئے زمین کی تقسیم اور تاریخ کی ابتداء
محمد صالح اور شعبی سے مروی ہے کہ جس وقت حضرت ا ٓدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتار اور زمین میں ان کی نسل ایک بڑی تعداد میں پھیل چکی تو ان کے بیٹوں نے تاریخ کی ابتداء نزول ا ٓدم علیہ السلام سے کی اور یہ تاریخ کا سلسلہ نوح علیہ السلام کی بعثت تک جاری رہا ۔پھر اس کے بعد نوح علیہ السلام سے تاریخ لکھنے کا سلسلہ جاری ہوا یہاں تک کہ زمین کی ہر چیز تباہ وبرد کردی گئی ۔ پھر نو ح علیہ السلام اور ان کے پیرو کار کشتی ؔسے اترے تو نوح نے اپنے بیٹوں کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔
(۱)سام:کو زمین کا وسطی حصہ دے دیا جس میں بیت المقدس نیل ، فرات ،دجلہ ، سیحون ، جیحون وفیشون کےعلاقے تھے یہ تمام فیشون سے نیل کے مشرقی جانب اور جنوبی ہواؤں کے چلنے کی جگہ سے شمالی ہواؤں کے چلنے کی جگہ تک محیط ہے ۔
حام: کو نیل کے مغربی کنارے سے شام کی ہواؤں کے چلنے تک کی جگہ عطا کی گئی ۔
یافث: کو فیشون سے لے کر صبح کی ہواؤں کے چلنے کی جگہ تک علاقہ عطا کیا گیا ۔
یہ سلسلہ تاریخ طوفان نوح علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں میں ڈالنے تک چلتا رہا ۔
اس کے بعد تاریخ کا سلسلہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے سے حضرت یوسف علیہ السلام تک چلا۔
پھر حضرت یو سف علیہ السلام کی بعثت سے مو سیٰ علیہ السلام کی بعثت تک چلا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے یہ سلسلہ سلیمان علیہ السلام کی بعثت تک۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت سے حضور اکرم ﷺ تک چلتا۔
غرض ہر نبی کے دور میں تاریخ کا نئے سرے سے اجراء ہوس ۔ یہ تمام تواریخ یہود استعمال کیا کرتے تھے۔جب کہ مسلمان نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے تاریخ شمار کرتے ہیں ۔صرف قریش اسلام سے قبل واقعہ نیل سے تاریخ شمار کرتے تھے ۔ باقی تمام عرب کے لوگ مذکورہ انبیاء ہی کی تاریخ استعمال کرتے تھے ۔مثلا ًً رجبؔ کے دن سے تاریخ شمار کرنا اور گلابؔ اول وثانی سے تاریخ شمار کرنا وغیرہ ۔نصرانی آج تک ذو القرنینؔ بادشاہ کے زمانہ سے تاریخ شمار کرتے ہیں ۔
اہل فارسؔ اپنے بادشاہوں کے زمانہ سے تاریخ شمار کرتے ہیں آج کل وہ اپنے آخری بادشاہ یزد گرد بن شہر یار کے زمانہ میں تاریخ شمار کرتے ہیں ۔جو کہ با بل اور مشرق کا باشاہ تھا ۔تاریخ طبری اردو ،جلد1
Last edited: