کیا ارتغل غازی مسلمان تھا؟
ااب سے بیس بائیس سال قبل تک یہ امر عمومامورخین کے نزدیک مسلم تھا کہ ارطغڑل غازی اور اس کے ساتھی ایشیائے کوچک میں میں داخل ہونے سے پہلے ہی مسلمان تھے لیکن انیس سو سولہ میں مسٹر ہر برٹ گینس نے اپنی مسند تالیف لطیف" اساس سلطنت عثمانیہ" کو شائع کرکے یہ تازہ تحقیق پیش کی شغوت میں بودوباش اختیار کرنے کے وقت عثمان اور اس کے قبیلے کے لوگ بت پرست تھے مسٹر گینس کے دلائل حسب ذیل ہیں ۔
تیرھویں صدی عیسوی کے ابتدا میں خراسان اور ماوراءالنہر کے دوسرے علاقوں کی جو قومیں ایشیائے کوچک کی سرحدوں پر نمودار ہوئیں ان کے اسلام لانے کا کوئی صریح ذکر کسی تاریخ میں نہیں ملتا ،'اس سے پہلے کہ ترکوں کے حملہ آور جب اس ملک میں داخل ہوئے تو کئی پستوں سے عربی اسلام کے زیر اثر رہتے آےتھے چنانچہ ال سجوق بھی جو کبھی مسلمان ہی تھے لیکن بعد کے آنے والے ترک جن میں عثمان پیدا ہوا کچھ بہت زیادہ اسلام کے زیر اثر نہیں رہے -خود مورخ نشری کے بیان سے بھی صاف اشارہ ملتا ہے کہ عثمان کا مورث اعلی" سلیمان شاہ" اور اس کے ساتھی جو اپنے وطن سے نکل کھڑے ہوئے تھے اور پچاس ہزار گھرانوں پر مشتمل تھے ' غیر مسلم تھے، وہ کہتا ہے کہ ان میں سے کچھ شامی ترکمانوں کے آباؤ اجداد تھے اور بقیہ ان تمام خانہ بدوش قوموں کے جو روم میں ادھر ادھر پھرا کرتی تھی اور خود نشری کے زمانے میں بھی موجود تھیں۔
بارہویں صدی عیسوی کے اور اور اس کے بعد کے سیاحوں کی بکثرت شہادتوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قومیں بت پرست تھیں،ان مختلف ترکی قبیلوں ترکی قبیلوں نے اس زمانے میں ایشیائے کوچک میں داخل ہوئے، جب عثمان کا قبیلہ وہاں آیا، ملک کے مغربی حصہ میں پہنچ کر اپنے آپ کو ایک اسلامی ماحول میں پایا وہ تعداد میں تھوڑے تھے، ان کے لیے اس سے زیادہ قدرتی بات کوئی نہ تھی کہ اپنے سلجوقی اقرباء کا مذہب اختیار کر لیں، یہ اتنی قدرتی بات تھی کہ اس کے ذکر کی کوئی ضرورت سمجھی ہی نہیں گئی۔
عثمان اوراس کے قبیلے کے اسلام لانے سے عثمانی قوم پیدا ہوئی کیونکہ اسلام ہی نے ان مختلف قوموں کو جو ایشیائے کوچک کے شمالی حصہ میں آباد تھیں متحد کرکے ایک قوم بنا دیا ،یہ سلاجقہ قونیہ کے خاتمہ کا نہیں بلکہ اس تبدیلی یہ مذہب کا نتیجہ تھا کہ چھ سو نواسی ہجری 1290 کے بعد عثمان کی فاتحانہ سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔
حالانکہ کی اس سے سغوت کی زندگی کے پچاس سال ان سرگرمیوں سے خالی تھی، ارطغرل اور عثمان ایک دیہاتی سردار کی حیثیت سے سغوت میں سیدھی سادی زندگی بسر کرتے تھے اور ان کے تمام حوصلے چھوٹے سے گاؤں تک محدود تھے، ان کی اس زمانے کی کسی جنگ کی فتح کا ذکر تاریخ میں موجود نہیں۔
ارطغرل کے ساتھ 400 سپاہی تھے اور عثمان کے ہمراہ اس سے زیادہ سپاہیوں کے ہونے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی، اس کے تعلقات اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بالکل صلح و دوستی کے تھے۔ نشری کا بیان ہے کہ اس ملک کے کافرو مسلم دونوں ارطغرل اور اس کے لڑکے کی عزت کرتے تھے، کافرومسلم کا کوئی سوال ہی نہ تھا پھر دفعتا ہم عثمان کو اپنے پڑوسیوں پر حملہ آور ہوتے اور ان کے قلعوں کو فتح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں 689 ہجری بارہ سو نوے عیسوی سے چھ سو ننانوے ہجری تیرہ سو عیسوی تک اپنے مقبوضات کو وسیع کرتا جاتا ہے یہاں تک کی اس کی سرحد بازنطینی علاقوں سے مل جاتی ہے اس کے سپاہیوں کی تعداد چار سو سے بڑھ کر چار ہزار تک پہنچ جاتی ہے، ہم ایک قوم کا ذکر سننے لگتے ہیں جو ترک نہیں بلکہ اپنے سرداروں کے نام پر "عثمانی" کہلاتی ہے اس کا نام خود بھی اس قوم ہیں کے نام کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے یہ لوگ یونانیوں( بازنطینیوں)اور تاتاریوں دونوں کے یکساں دشمن ہیں اور متعین طور پر اسلام سے وابستہ ہیں، ان میں ایک ایسا تبلیغی جوس ہے جو صرف انہی لوگوں میں پایا جاتا ہے جنہوں نے حال ہی میں مذہب تبدیل کیا ہو ،ان کی با ہمی وحدت اور ایشاءے کوچک کے دوسرے ترکوں سے ان کا قطعی طور پر مختلف ہو نا، چودھویں صدی کے ابتدائی ساٹھ سالوں میں اس قدر نمایاں ہو جاتا ہے کہ یورپ انہیں بحیثیت ایک قوم کے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ، ایشیاے کوچک کی دوسری جماعتوں کے بہ نسبت یہی لوگ یورپ کے سامنے زیادہ آئے، اس لیے اہل یورپ نے انہیں محض" ترک" کہنا شروع کیا اور ان کو اناطولیہ کے تمام تر کو کا نمائندہ سمجھنے لگے آگے۔
پروفیسر گر مانس نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے لکھتے ہیں" اپنے پیشرؤں کی طرح جنہوں نے ایشیائے کوچک میں بودوباش اختیار کرلی تھی" کے خان لی" بھی ترک ہی تھے، البتہ ان کی بولی ذرا ان سے مختلف تھی، ایک اور فرق یہ تھا کہ سلاجقہ تو صدیوں سے اسلام لاچکے تھے لیکن یہ نوارد ہنوز اپنے قدیم خانہ بدوشی کے مسلک پر قائم تھے ،ان کے سردار ارطغرل کے بیٹے عثمان کی شادی کے متعلق جوروایات مشہور ہے اس سے ہمارا قیاس حق بجانب ہے کہ انہوں نے ایشیائے کوچک کی اسلامی فضا میں داخل ہونے کے بعد اسلام قبول کیا ۔
مال خاتون: جاری ہے