افتتا حی خطبہ: مولانا محمد سالم صاحب

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
خطبہ افتتاحیہ
مولانا محمد سالم صاحب قاسمی
الحمداللہ علی صاحب الجلالۃ و الصلوۃ والسلام علی صاحب الرسالۃ اما بعد !
معززین ملت !میرے لئے یہ ایک غیر معمولی عز وشرف ہے کہ ارباب فضل و کمال نے اس مبارک محفل میں طالب علمانہ معروضات پیش کرنے کی عزت بخشی، میں صمیم قلب سے شکر گزاری کے بعد عرض گزار ہوں کہ بیسویں صدی کی حیرت ناک سائنسی ترقیات کے ذریعے چاند اور مریخ تک ریسرچ کی کمندیں ڈالنے والےمادیت میں غرق سائنسدانوں کو 21 ویں صدی نے بھولے ہوئے اس فکر کو تشویش انگیز انداز میں یاد دلایا ہے کہ گزشتہ صدی میں تمہاری تمام تر سائنسی ترقیات کا "محور"انسان" اور انسانیت سے یکسر بے علاقہ رہا ہے.
آج اعلم وخبر کے حیرتناک وسائل کی ایجاد نےفاصلوں کو ختم کرکے وحی ربانی کے عقلی استبعادکو بے معنی بنا دیا ،ایسے ہی تیز رفتار سواریوں نے عقلا "براق" کے انکار کو نا ممکن بنا دیا ،ایرکنڈیشنگ نے موسموں پر انسان کو قابو یافتہ بنا دیا ہے ،آسائش اور آرائش کے دلکش و عجیب سا مانوں نے عالم جنت کی عقل سے ماورا عجیب و غریب نعمتوں سے اعزاض و انکار کو ناممکن بنا دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشا"لا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر" کو انسان کے لئے مزید قریب الفہم کردیا ہے.
نیز زمین کے پوشیدہ خزانوں پر قدرت وتصرف، ہوا اور اس کی لمحہ بھر میں عالمی گردش کرنے والی لہروں پر انسانی اختیار ،آگ کے وحشت ناک احراک کو ماچس کی تیلیوں میں بند کر کے انسان نے عناصر کوتابع فرمان بنا لیا ہے ،لیکن یہ سب ایجاداتی عجائب سے تمہارے بیرون کے لیے کارآمد ہیں لیکن تمہارا اندرون ارتقا سے یکسر محروم اور بے نصیب ہی رہا ہے ۔
لیکن کیا ان تمام ایجاد نے انسانیت کو ظلم سے، قتل و غارت گری سے، عزتوں کی پامالی سے، فریب کاریوں سے ،حقوق کے اتلاف سے اور ایذا رسانیوں سے نجات دی ہے، اگر نہیں ملی اور یقینا نہیں ملی تو یہ صورتحال اس کی متقاضی ہے کہ اپنے تمدنی نظام سے سے پیدا شدہ آلام ومصائب سے نجات کے لئے علمی و سائنسی کوششوں کا رخ فلاح انسانیت کے نظام فطرت کی جانب موڑ دیا جائے۔
نیز یہ بھی لائق توجہ ہے کہ آج یورپ اور امریکہ میں اسلام کی غیر معمولی عوامی رجحان، سابق نا مکمل نظام سے اکتاہٹ کے بعد انسانی فطرت کے لیے آسودگی کا ضامن ہے، کہ جو اپنی اصل اور حقیقی صورت میں قائلین لا الہ الا اللہ کے سوا کسی کے پاس موجود نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ سائنس میں غیر معمولی ترقی کے باوجود امریکہ ا،نگلینڈ ،فرانس اور جرمنی وغیرہ کی چکا چوند نے صراط مستقیم کو نگاہوں سے اوجھل کر دیا ہے اور ان کے دلوں کی بے تحاشاتاریکیاں یا انسانی شعورکو تمیز حق و باطل سے محروم کر رہی ہیں، آج اکیسویں صدی میں عقیدہ توحید کی سکول آفریں دولت سے مالا مال ملت اسلامیہ کے در پر مادیت زدہ طبقہ کو دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
بس اس عبرتناک پس منظر نے مسلمانوں پر اس بھولی ہوئی حقیقت کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے کہ عالمی قیادت کی قطعی یقینی اور عجیب و غریب حکیمانہ رہنمائی مختصر ترین تعبیر میں صرف ان ہی کے پاس ہے، کہ جو خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل ہادیانہ ارشاد فرمائی ہے، ضرورت ہے کہ رہنمائی کے حقدار علماءکرام اسے بطور خاص ہمیشہ بلکہ ہمہ وقت پیش نظر رکھیں" قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :من ا ستوا یوماہ فھو مغبون ومن کان امسہ خیرامن یوم فھو محروم" یعنی جس شخص کا دو دن ترقی میں برابر ہے وہ نقصان میں ہے اور جس کا گزرا ہوا دن ترقی میں آج سے بہتر رہا وہ محروم ہے ۔
اس بے مثل رہنمائی نبوت کی روشنی میں اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ اگر ہماری موجودہ صدی عیسوی سے علمی فکری اور مادی اعتبار سے برابر رہی ہے تو ہم فلاحی لحاظ سے نقصان میں ہیں اور اگر ہماری انیسویں صدی بیسویں صدی سے بہتر رہی ہے تو ہمیں اپنی محرومی کے اعتراف کے ساتھ اس حرماں نصیبی سے نکلنے کی راہوں کی تلاش کو اپنا موضوع فکر بنا نہ چاہیے۔
(قرآن مجید اور عصر حاضر) جاری ہے
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گذشتہ سے پیوستہ
غالبا اس بارے میں دو رائیں نہیں ہو گی کہ اکیسویں صدی میں ہمارا موضوع اول الذکر یعنی تلافی نقصان نہیں بنے گا بلکہ ثانی الذکر یعنی اپنی متاع گمشدہ کی بازیابی کے عزم و احساسات کے ساتھ ماضی کے اسباب محرومی کا تجسس اور مستقبل میں مکمل سیادت و حفاظت کا نظم کرنا ہوگا تاکہ کہ ان دونوں یعنی اپنی دینی معنویت کے برقراری کے ساتھ ہدایت نبوت کی روشنی میں دنیوی لحاظ سے ترقی یافتہ اقوام عالم کے دوش بدوش باعزت زندگی گزارنے کا متوازی مسلمانہ لائحہ عمل تیار کرسکیں ،جس کے لئے ہمیں آج کے مادی ارتقا کی اس تدریج کا کو ملحوظ رکھنا ہوگا، کیوں انیسویں صدی میں انسان نے بھاپ کی طاقت پر غلبہ حاصل کیا اور پھر اسی ارتقائی کامیابی کے سہارے بیسویں صدی میں انسان کوایٹمک انرجی رسائی حاصل ہوئی اور اب اکیسویں صدی میں فضاؤں، ہواؤں اور خلاؤں تک سائنس ایسے نئے عالمی انکشافات سامنے لا رہا ہے، کہ جس سے دین فطرت اسلام کے سوا تمام اقوام وامم کے بے شمار مختلف مذہبی یا فکری مسلمات ومزعومات کا تار و پود بکھرتا جا رہا ہے،بالفاظ دیگر اکیسویں صدی ا"وسخر لکم ما فی السموات وما فی الارض" (الجاثیہ:١٣)کے نئے قرآنی مصداقات کے انکشافات کی صدی ہے ۔
آج انٹرنیشنل وسائل علم وخبر کے دور میں عالمی پیمانے پر عصری تعلیم میں مشغول نئی مسلم نسل میں اعلی علمی دینی ذوق کی تولید کے لئے یہ تجرباتی طرز تعلیم کامیاب ثابت ہو رہا ہے کہ پاکٹ سائز(جیبی سائز) پر زیادہ سے زیادہ چالیس تا پچاس صفحات پر ابتدائی درجے کے طلبہ و طالبات کے لیے بک لیٹ میں اسلامی بنیادی عقائد ان کی سمجھ کے مطابق آسان زبان میں ان کے اجماعی دلائل کے ساتھ تیار کئے جائیں دوسرے درجہ کے لیے اسے آگے کی بک لیٹ تیار کی جائے، اس ترتیب سے تمام درجات کے مطابق آخر تک ہر سال کی بک لیٹ جو ضروریات دین پر مشتمل ہوں تیار کی جائیں اوراس مختصرترین بک لیٹ کا حفظ کرانا لازمی قرار دیا جاىے، ان کا امتحان بھی حفظ ہی لیا جائے اوریہ ہر سال کی بک لیٹ کو لازمی سبجیکٹ کی حیثیت سے دے کر ترقی کا مدار کامیابی قرار دیا جائے، اس کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ اس مختصر آسان کورس کے ذریعہ بہ تسلسل تمام ضروریات دین سےبآسانی طلبہ کے لئے واقفیت کا حصول متوقع ہی نہیں بلکہ متعین ہو جاتا ہے کہ یہ مختصر ذریعہ تعلیم ضروری تعلیم دین کا ایک کامیاب ذریعہ ثابت ہوگا،جس میں تجرباتی شواھد بھی موجود ہیں اور دوسرا فائدہ یہ ہے جو اصل مقصود ہے وہ یہ کی اس طرز تعلیم سے طلباء میں اعلی تعلیم دین کا ذوق و شوق کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔
یہود کی یہ معاندانہ فتنہ انگیزی ہے کہ مسلمانوں کے مدمقابل خود آنے کے بجائے انہوں نے مسلمانوں اور قرآن کو مسیحیت کا واحد مخالف بلکہ دشمن باور کرا دیا ہے اور اسلام کے بارے میں یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ وہ نفسانی خواہشات کی تکمیل میں بلا کسی قسم کی اخلاقی یا دینی عقائد کے کھلے عام اجازت دیتا ہے اور مسلمان قوم کو مجموعہ عیوب ہونے کی وجہ سے جرائم پیشگی کو اپنا حق سمجھتی ہے، یہ تمام بدترین سازشیں اس اسلامی عقیدۂ توحید کے برخلاف کی جاری ہیں، جو کہ کائنات کے جزو و کل پر غالب اور تمام انسانی اعمال و افکار پر غلبہ و استیلاء کی خدائی کلید ہے۔
یہی اسلامی عقیدۂ توحید ہے کہ جس نے" شرک "و شاہت"زدہ اہل دانش کو اس حقیقت سے آشنا کیا کہ خالق کائنات خدا واحد ہے ،بادشاہ نہیں ہے ,توحیداسلامی کا یہ فکری انقلاب شاہی عتاب عظیم کا ذریعہ ضرور بنا ،لیکن دانشوروں میں فکرتوحید کوبدترین شاہی مظالم ختم نہ کر سکے۔
پھر اقتدار و دولت کی ہوس میں عیسائی چرچ (یعنی مذہبی مقتدائیت) شاہیت کے بے پناہ مظالم کا ہم نوا بن گیا ،اس لیے وہ مذہبی مقتدائیت بھی شاہئیت کے ساتھ ذلت ناک شکست اور زبردست عوامی غیض و غضب کا شکار بن کر اپنی مقتدائیت کھو بیٹھی،پھر استشراق کے عنوانی فریب کے درپردہ یہودی عزائم کا پردہ مسلمانوں نے بروقت چاک کر دیا ،اس لیے سراپا عناد یہود نے اسلام کو اپنے زعم و باطل کے تحت مشکوک و مشتبہ بنانے کے لیے عالمی میڈیا کو اپنایا ،ماضی کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے یہ عالمی عنادی طرز وطریق شدید ترتو تھا ہی لیکن میڈیا کی عالمگیری نے اس کو بدترین بنا دیا ،لیکن اس مرحلے پر مدد خدا وندی بھی لائق شکر اور قابل ذکر ہے کہ بے شمار شدید ترین مراحل عناد کا مقابلہ کرنے والی ملت قرآن لاچارگی اور بے بسی سے فضل خدا وندی سے چونکہ آشنا نہیں ہے ،اس لئے مسلمان میڈیا کی فتنہ پروری کے برخلاف تعلیمی راہوں سے تحریری، تقریری ،اشاعتی اور تدریسی طریقوں سے نئی نسل کے ذریعے اس کا توڑ تیار کرنے سے بھی غافل نہں۔
لیکن مسلمانوں پر عائد کردہ یہودی جھوٹ جب عیسائیوں پر کھلے تو اس کے ساتھ ان کے سامنے تمام اخلاقی قدروں سے خالی نہ صرف خود اپنی نام نہاد تہذیب و ثقافت آئی، بلکہ سائنسی ارتقاء کی راہ سے عیسائیوں کے سامنے اپنی بد اخلاقی کو عالمگیر بنانے کا اپنا جرم عظیم بھی سامنے آیا، لیکن اس کے باوجود اسلام کو ہدف تنقیص بنانے کے لیے یہود نے" استشراق "کا عنوان ایجاد کیا ، تاکہ اپنی سراپا جرم تہذیب کی طرف سےقومی توجہات کو ہٹا کر اسلام کے بر خلاف یہودی فکر بد نہاد کو دنیا کے دماغوں پر مسلط کیا جائے، پس اسلام دشمن مفسد مستشرقین نے اپنے بد فکر شاگردوں یعنی نام نہاد مسلمانوں کے ذریعے مصر میں جہالت پر مبنی فرعونی تہذیب، عراق میں عاشوری تہذیب اور فلسطین و لبنان میں فینیقی تہذیبوں کو زبانوں کے احیاء کے نام پر اسلام دشمنی کے تحت برپا کرنے کی بدترین کوششیں شروع کیں، لیکن اسلام کی فطری اور دین حق پر مبنی تھذیب نے بحمدللہ ان تمام فاسقانہ کوششوں کو زندگی پانے کا موقع ہی نہیں دیا ،آج پھر یہ معاندین خاص طور پر یہود ،اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں، لیکن اسلام کی بقاء و ارتقاء کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہے اس لیے یہ خدا کا مقابلہ کرنے والے انشاءاللہ ناکامی سے دوچار ہی ہوں گے ہی، لیکن ملت اسلامیہ پر دور حاضر میں اس کے مقابلے کا یہ فرض اس اعلان کے ساتھ پوری قوت سے عائد کر رہا ہے کہ:
د ے کےاس تہذیب نمرودی کو پیغام خلیل
آؤ اس آتش کدےمیں گلستاں پیدا خدا کرے
(قرآن مجید اور عصر حاضر)
 
Last edited:
Top