روداد چندہ بلقان ان کی دینی ، ملی، تاریخی اہمیت اس منظر ،اور بعد کے عہد پر اس کے اثرات۔قسط1
از نور الحسن راشد کاندھلوی
آئندہ صفحات میں جس کتابچہ یا روداد کی نقل پیش کی جارہی ہے وہ ہماری دینی ،ملی، تاریخ خصوصا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حزب ولی اللہی اور اس کے غیور و باحمیت زندگی کی ایک اہم ،قابل ذکر، قابل فخر ،مگر گمشدہ ورق کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ مختصر کتابچہ ہماری اس گم گشتہ تاریخ کا ایک قابل ذکر حصہ ہے جس پر علماء اسلام ہمارے اسلاف کی غیرت و حمیت اور دینی قربانیوں کے لازوال نشان ثبت ہیں ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
اس کتابچہ میں علماء اسلام اورعامۃا لمسلمین کی اہمیت دین ،غیرت ملی جذبہ جہاد اور علم و عمل کی ایک داستان اور دفتر پوشیدہ ہے کہ جب کبھی عالم اسلام پر کوئی سانحہ رونما ہوتا تھا ہمارے بزرگ کس طرح تڑپ جاتے تھے اور مظلوم ستم رسیدہ مسلمانوں کی مدد کے لیے کس عزم و حوصلہ بلند جذبات کے ساتھ آگے بڑھتے تھے اس موقع پر مسلمانوں کی امداد و تعاون کی ترغیب دینے کے لیے کیسی جدوجہد اورکوسش فرمایا کرتے تھے۔ یہ کوشش صرف زبانی جمع خرچ یا رقم فراہم کرنے یا چندہ بھجوانے تک محدود نہیں تھی , بلکہ چاہتے تھے کہ خود موقع پر میدان جنگ میں جاکر اس جماعت اور قافلہ جہاد میں شریک ہوں، قافلہ ایمان کو اپنے لہو سے سیراب کریں اور چمن اسلام کو اپنی جان دے کر سادہ فرمائیں۔یہ مختصر کتابچہ اس عہد کا ایک گمشدہ نشان ہے جب ہم اسلام کے آفاقی تصور سے سرشار تھے ملت کے قدم سے قدم ملا کر چلنا سعادت سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ :
آبرو باقی تری ملت کی جمیعت تھی
جب جمیت گئی، دنیا میں تو رسوا ہو
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اس کتابچہ میںسب سے پہلے روس کی ترکی پر یورش اور اس کے نقصانات کا مختصرا ذکر کیا گیا ہے کہ کس قدر مسلمان شہید ہو گئے،کس قدر عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے اور کس قدر مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔پھریہ بتایا گیا ہے کہ اس وقت حرمین شریفین کی حفاظت و حرمت خلیفۃ المسلمین ان کی وجہ سے محفوظ ہے اگر خدا نہ کرےخلیفۃ المسلمین اور عالمی نظام نظام خلافت کوکچہ صدمہ پہنچا تو اس کے اثرات حرمین شریفین تک اثر کر سکتے ہیں اور اگر اللہ نہ کرے ok اس مقدس مقامات کی حرمت کسی بھی طرح متاثر ہوئی تو خود مسلمانوں کی کیا حقیقت باقی رہے گی اس لیے خلیفۃ المسلمین کی اعانٹ و حمایت بنیادی اسلامی ضرورت اور گویا فرض عین ہے اگر یہ نظام حکومت نہ رہی تو پورے عالم اسلام کا نظام متاثر ہوگا( بدقسمتی سے ان کا یہ خیال بعد کے دور میں صحیح ثابت ہوا)جب جمیت گئی، دنیا میں تو رسوا ہو
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اس لیے دینی غیرت کو جگایا گیا اور پوری ملت کو آواز دی گئی اٹھو!غازیان اسلام کے قدم سے قدم ملا کر چلو، اگر اس کا موقع نہیں تو ان کی بھرپور مالی مدد کرو اور یہ کہہ دیا گیا تھا کہ اس وقت مدرسہ کی خدمت، مسجدوں کی تعمیر اور تمام دینی کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں یہ کام اگر وقتی طورپر رک جائیں گے ، یا اس کی تعمیر و ترقی میں کچھ کمی رہ جاتی ہے تو اس سے کچھ بڑا نقصان نہیں ،یہ ادارے اور مسجد بعد میں تعمیر ہو سکتی ہیں ، لیکن اگر ملت پر کوئی حرف آیا اور خدا نہ کرے فرمائے حرمین شریفین کی حرمت پامال ہوئی تو اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ یہ بہت اور غیر معمولی ہے اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آ رہی ہے ،یہی اس کتابچہ کی اصل روح اور دعوت ہے ۔ زیر تعارف کتابچہ یا روداد کی تفصیل یہ ہےکہ:
یہ روداد یا کتابچہ ½٢٠/١١سائز کے 12 صفحات پر مشتمل ہے پہلے پانچ صفحات میں ترکی ،روس کی جنگ کے عالمی ملی نقصان کا ذکر کیا گیا ہے، اور ترکی کی مدد پر توجہ دلائی ہے ،صفحہ 5،6 پر موصول نہ رقموں کا جو بمبئی کے ترکی کونسل خانہ کو بھیجی گئی، حساب درج ہے۔ اس کے بعد ترکی حکومت کے اس وقت کے کونسلر حسین حسیب عثمان آفندی کے خطوط یا رقومات کی سات رسید درج ہیں،جس میں پانچ ارباب مدرسہ دیوبند کے نام ہیں، اور ایک ایک امداد علی خاں اور جیون خان صاحب سہارن پور کے نام ہے اس کے بعد اردو میں یہ اطلاع ہے کہ خلیفۃ المسلمین کے دفتر خاص سے بھی رقم کی رسیدیں آئی ہیں ،مگر وہ سب ترکی میں ہیں، اس لئے یہاں شامل نہیں کی گئیں۔ اس تین سطری مختصر اطلاع کے بعد، وزیراعظم ترکی ابراہیم ادھم کا شکریہ کا فارسی میں مفصل خط ہے ، جس کا علماء کرام نے بہت عقیدت اور احترام کے ساتھ مرصع جواب لکھا تھا ،مگر تمام رسیدیں اور جملہ خطوط فارسی میں ہیں، ترجمہ درج نہیں۔ حسابات بھی رقم درج ہے جس کے جاننے پڑھنے والے اب کم ہی رہ گىے ہیں، اس لیے راقن سطور نے اس کو ہندسوں میں لکھ دیا ہے ،رسیدوں اور خطوط کا اردو میں ترجمہ کر دیا ہے۔ اصل روداد کی تحریر اور کتابت ایسی ہے کہ پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے ،اس لیے اس کو علیحدہ سے کمپوز کر آ کر بھی شامل کر دیا ہے، نیز اصل اشاعت میں کہیں کوئی عنوان درج نہیں تھا ،عنوانات کا بھی اضافہ کیا اور احتیاط کے طور پر اصل نسخہ کا عکس بھی شامل کر دیا ہے، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔اس کے بعد حضرت مولانا کا ایک خط اور فتوی ضمیمہ کے طور پر شامل ہے ۔
حضرت مولانا نے ترکی کی حمایت کا فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر مطالعہ واستدلال کی روشنی میں کیا تھا،اور اس سلسلے میں زیر تعارف کتابچہ کے علاوہ کم از کم دو تحریریں اور مرتب فرمائی تھیں، ان میں سے پہلی تحریر( جس کا حضرت مولانا نے اپنے ایک خط میں ذکر کیا ہے) راقم السطور کو نہیں ملی, اور دوسری تحریر حافظ احمد سعید،مرادا آباد کے نام خط اور مفصل فتوی تھا ،یہ خط اور فتویٰ چھپا ہے اور اس کے پرانے قلمی نسخے بھی موجود ہیں ،یہ فتوی اور خط ایک پرانی تحریر سے اخذ کرکے اس مضمون کے ضمیمہ کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے ۔
مگر تعجب اور افسوس ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے عالی مرتبت علماء اور بانیان کرام اور اس کے فیض یافتگان کی طویل ووسیع تاریخ میں اس کتابچہ کا اب پک غالبا کہیں ذکرنہ آیا،حالان کہ یہ ہماری ملی غیرت کا نشان، حمیت کی علامت اور قومی تاریخ کا ا اہم اور قابل ذکر کا ورثہ ہے ۔
یہاں بھی یہاں یہ بھی عرض کر دینا چاہیے کہ راقم سطور کے خیال میں حضرت شیخ الہند کی زندگی اور اولو العزمی پر حضرت مولانا نانوتوی کی اس خدمت بلکہ کارنامہ کا بہت بڑا حصہ شہرہ اثر معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ 1857 کی تحریک شیخ الہند کے شعور سے پہلے برپا ہوئی تھی، اس وقت شیخ الہند کا حضرت مولانا سے رابطہ تھا نہ کاروان حریت کے اور قافلہ سالاروں سے ۔ روس اور ترکی کی جنگ وہ پہلا اہم واقعہ ہے جس کے حضرت مولانا نانوتوی اور اس کاررواں کے قائدین پر وزیع اثرات کا شیخ الہند نے خود مشاہدہ کیا ہوگا، اس وقت شیخ الہند جوان تھے، شیخ الہند نے اس وقت ان حضرات کی کڑہن اور چبھن دیکھی اور محسوس کی ہو گی اور شیخ الہند نے اسی وقت فیصلہ کر لیا ہوگا کہ ان حضرات کے دل میں جو الاؤ دہک رہا ہے، یہی ہمارا مقصد حیات،اور نشان راہ ہونی چاہیے ۔ چونکہ یہ سب واقعات شیخ الہند کے سامنے پیش آئے تھے، انھوں نے اپنے استاد و مربی مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی بے چینی دیکھی تھی جو یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور علماء کا ایک بڑا قافلہ جہاد میں عملی شرکت کے ارادے سے مکہ معظمہ کےسفر پر نکلا تھا، شیخ الہند بھی اس قافلے میں شریک اور اپنے حضرت استاد کی ہم قدم تھے اوراس میں بھی شبہ نہیں کہ جنگ میں شرکت کے لئے جو خاص مجلس ہوتی ہونگی اور میدان جنگ تک پہنچنے کے لئے جو تجویز یں منظور ہوتی ہونگی شیخ الہند ان سب میں برابر شریک رہتے ہوں گے ۔اس لیے یہی فکر، یہی درد اور غم شیخ الہند کے رگ و پے میں سما گیا،اور یہی وہ چنگاری تھی کہ شعلہ جوالا بن کر ابھری اور شیخ الہند کو کو ایک نہ ختم ہونے والا جذبہ اور صدیوں تک زندہ و تازہ رہنے والا حوصلہ عطا کر گئی، یہی چنگاری اور حوصلہ تھا، جس نے بعد کے دور کی ہند اسلامی تاریخ پر اپنے عزم و حوصلہ کے گہرے اثرات چھوڑے ۔ہیں اور امید ہے کہ آئندہ بھی یہ قافلہ اسی طرح تازہ دم اور رواں دواں رہے گا، اور یہ بزرگان دین اور حضرت شیخ الہند وغیرہ احیائے دین اور احیائے جہاد کے جس جذبے کو لے کر حجاز گئے تھے ، وہ زندہ و پائندہ رہے گا اور تازہ برگ و بار لاتا رہے گا۔جاری
Last edited: