بھاگنا چھوڑ تو اس طرح سرابوں سے نکل
سامنا کرلے حقیقت کا حجابوں سے نکل
کب تلک قید رہے گا یوں کُتب خانوں میں
مان لے بات مری اور کتابوں سے نکل
اپنی خوش فہمی کو خوش بختی سمجھنے والے
جان لے کچھ تو حقیقت ذرا خوابوں سے نکل
ٹوٹنے والی ہے اب ڈور مگر سانسوں کی
یاد اللہ کو تُو کر اور حسابوں سے نکل
جیت اور ہار کا یہ کھیل نہیں ہے لیکن
آگ سے خود کو بچا اورعذابوں سے نکل
خواب کا شہر اُجڑنے نہیں دوں گی لیکن
تو بھی اک بار مگر اِس کے خرابوں سے نکل
ایک اندیشۂ بے نام ہے دل کا باسی
تو بھی گل زیست کے بےوجہ عذابوں سے نکل
زنیرہ گل
سامنا کرلے حقیقت کا حجابوں سے نکل
کب تلک قید رہے گا یوں کُتب خانوں میں
مان لے بات مری اور کتابوں سے نکل
اپنی خوش فہمی کو خوش بختی سمجھنے والے
جان لے کچھ تو حقیقت ذرا خوابوں سے نکل
ٹوٹنے والی ہے اب ڈور مگر سانسوں کی
یاد اللہ کو تُو کر اور حسابوں سے نکل
جیت اور ہار کا یہ کھیل نہیں ہے لیکن
آگ سے خود کو بچا اورعذابوں سے نکل
خواب کا شہر اُجڑنے نہیں دوں گی لیکن
تو بھی اک بار مگر اِس کے خرابوں سے نکل
ایک اندیشۂ بے نام ہے دل کا باسی
تو بھی گل زیست کے بےوجہ عذابوں سے نکل
زنیرہ گل