صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بارے میں بنیادی عقائد
۱ - ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے دل اور اپنی زبان کو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بالکل صاف ستھری رکھے ۔ اس پر اجماعِ امت ہے ۔
۲ - جو مسلمان اپنے آپ کو صحیح نبوی طریقے پر رکھنا چاہتا ہو ، اس کے لیے ضروری ہے کہ بلا تفریق تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرے اور ان کے ساتھ محبت کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لے اور ان میں کسی ایک سے محبت اور اس کے مقابلے میں دوسرے سے بغض کسی صورت میں درست نہیں ؛ بلکہ یہ بدعت اور ضلالت ہے ۔
۳ - اہل سنت والجماعت یعنی پکے اورسچے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابہ میں جو آپسی اختلاف اورجنگیں ہوئیں اس پر سکوت اختیار کرے ؛ لہٰذا انہیں کوئی بھی بہانہ بناکر برا بھلا کہنا سراسر ضلالت ہے ۔
۴ - صحابہ کے بارے میں صحیح اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کی افضلیت کو برقرار رکھی جائے ، اس کی بنیادی ترتیب اس طرح ہے :
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔
۵ - جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی وہ جنتی ہیں ، اس پر مکمل یقین رکھے ۔ جیسے عشرۂ مبشرہ یعنی وہ صحابہ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت دی ۔ خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیرابن العوام اور حضرت سعید ابن زید ۔
۶ - اہل سنت والجماعت کے نزدیک آیتِ کریمہ ’’ وکلا وعد اللہ الحسنیٰ ‘‘ کے مطابق تمام صحابہ فضیلت کے حامل ہیں ، ان میں فضل مراتب ہے جیسے انبیاء میں بھی ہے ۔ البتہ شرف صحابیت میں سب مشترک ہیں ۔
۷ - اہل سنت کے عقیدے کے مطابق مہاجرین افضل ہیں انصار سے ۔
۸ - اہل سنت کے عقیدے کے مطابق اہل بدرکے تمام صحابہ کواللہ نے بخش دیاہے ؛ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ’’ اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم ‘‘ اسی طرح بیعت رضوان والے ۱۴۰۰ ؍ سے زائد صحابہ میں سے بھی کوئی جہنم میں نہیں جائے گا ، اس لیے کہ اعلان خداوندی ہے : { لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ } ۔
۹ - اہل سنت والجماعت کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جو اختلاف ہوئے اس کے بارے میں سکوت اورخاموشی واجب ہے ۔ اس پر کسی بھی طرح کا کلام جائز نہیں ، چاہے وہ حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اختلاف ہو یا حضرتِ علی رضی اللہ عنہ اور حضرتِ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اختلاف ۔
۱۰ - اہل سنت و الجماعت کے نزدیک صحابہ کا شمار خیر القرون میں ہوتا ہے ، وہ معصوم نہیں مگر محفوظ ضرور ہیں ، اگر صحابہ میں کسی سے کوئی چوک یا گناہ بھی ہوگیا ، تو ان کی مغفرت ہوجائے گی اس لیے کہ وہ مغفرت اور شفاعت نبوی کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ، اگر ان میں سے کسی سے کوئی خطا بھی ہوگئی تو تمام صحابہ اجتہاد کے درجہ پر فائز تھے ، لہٰذا اجتہاد ی خطاؤں کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوں گے بل کہ خطاپر بھی ماجور ہوں گے ۔
( عقیدہ اہل السنۃ فی الصحابۃ )
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں مذکورہ دس عقائد کتاب و سنت سے ثابت ہیں اور امت کا چودہ سوسال سے اس پر اجماع چلا آرہا ہے ؛ لہٰذا کسی کے لیے ہر گز یہ گنجائش نہیں کہ وہ اس سے اختلاف کرے یا یہ کہے کہ وہ دینی امور میں عدالت کے حامل تھے اور سیاسی امور میں نہیں ؛ جیساکہ بعض حضرات سیاسی مسئلہ بتلاکر بعضے صحابہ پر تنقید اور جرح کو درست تصور کرتے ہیں ۔ اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے : ’’ الصحابۃ کلہم عدول ‘‘ تمام کے تمام صحابہ عدول ہیں ، یعنی ان پر کسی صورت میں جرح کی کوئی گنجائش بالکل نہیں ۔ اجمالی محبت ضروری ہے ، جن کے نام ہمیں معلوم نہیں اور جن کے نام معلوم ہیں ان سے انفرادی طورپر بھی محبت ضروری ہے ۔
منقول.... بشکریہ*قاسمی آواز گروپ
Last edited: