ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں
سنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں

جودِ شاہ کوثر اپنے پیاسوں کا جویا ہے آپ
کیا عجب اڑ کر جو آپ آئے پیالی ہاتھ میں

ابر نیساں مومنوں کو ، تیغ عریاں کفر پر
جمع ہیں شانِ جمالی و جلالی ہاتھ میں

مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الہی جھوم کر
جب لواء الحمد لے امت کا والی ہاتھ میں

ہر خط کف ہے یہاں اے دست بیضائے کلیم
موجزن دریائے نورِ بے مثالی ہاتھ میں

وہ گراں سنگی قدرِ مس وہ ارزانی جور
نوعیہ بدلا کئے سنگ و لـآلی ہاتھ میں

دستگیرِ ہر دوعالم کر دیا سبطین کو
اے میں قرباں جان جاں انگشتِ لیالی ہاتھ میں

آہ وہ عالم کہ آنکھیں بند اور لب پر درود
وقفِ سنگِ در جبیں روضہ کی جالی ہاتھ میں

جس نے بیعت کی بہار حسن پر قرباں رہا
ہیں لکیریں نقشِ تسخیر جمالی ہاتھ میں

کاش ہو جاوں لب کوثر میں یوں وارفتہ ہوش
لے کر اس جانِ کرم کا ذیلِ عالی ہاتھ میں

آنکھ محوِجلوہِ دیدار ، دل پر جوشِ وجد
لب پہ شکرِ بخششِ ساقی پیالی ہاتھ میں

حشر میں کیا کیا مزے وارفتگی کے لوں رضــا
لوٹ جاوں پاکے وہ دامانِ عالی ہاتھ میں
 
Top