چہرے پہ میرے زخم ہیں دیدار یار کے
پردہ نشین نے مارا ہے برقع اتار کے
بس خواب میں ہوئی تھی ملاقات ایک بار
اس دن سے ڈھونڈتی ہے وہ ٹھیلے اچار کے
معشوق تھا بخیل پسیجا نہ دوستو
دیکھا ہے کتنی مرتبہ مِس کال مار کے
بیوی اڈھیر ہو گئی شوہر جوان ہے
ٹیمپو چلا رہے ہیں یہ شوقین کار کے
ٹیمپو چلا رہے ہیں یہ شوقین کار کے
حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا تمام عمر
پاؤں دبا رہے ہیں جو سرمائے دار کے
ان سے حساب حشر میں علوی کریں گے ہم
بیٹھے ہو ئے ہیں مال جو اپنا ڈکار کے
Last edited: