ہمارے اسلاف کا تکرار وعلمی مذاکرہ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بسا اوقات ہم ساٹھ ساٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں رہا کرتے تھے ، آپ ہم سے حدیث بیان کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد ہم لوگ آپس میں اس حدیثوں کا مذاکرہ کیا کرتے تھے اور اس حال میں مجلس مذاکرہ سے اٹھتے تھے کہ گویا وہ حدیثیں ہمارے دلوں میں پودے کی طرح جڑ پکڑ چکی ہیں.
علی بن الحسین بن شقیق راوی ہیں کہ ایک رات میں عشاء کی نماز پڑھ کر حضرت عبد اللہ بن مبارک کے ساتھ مسجد سے باہر نکلا، شدید سردی کی رات تھی دروازے پر پہنچ کر ابن مبارک نے ایک حدیث کا ذکر چھیڑا اور ہم دونوں میں اس حدیث پر برابر مذاکرہ ومباحثہ ہوتا رہا ، یہاں تک کہ مؤذن نے آکر فجر کی اذان دیدی۔.
اصمعی سے پو چھا گیا کہ آپ نے علم کیونکر محفوظ رکھا ؟ حالانکہ آپ کے ساتھی بھول گئے ، کہنے لگے میرے ساتھیوں نے علم حاصل کر نے کے بعد اس کو چھوڑ دیا اور میں برابر اس کا چر چا کرتا رہا . پہلے دور کے طلبہ میںمذاکرہ وتکرار عام معمول تھا ، جب موقع ملا حدیث کا مذاکرہ اور علمی چر چا کیا کرتے تھے .
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے کثرت تفقہ کا سبب اہل علم سے مذاکرہ ومنا ظرہ بتا یا جاتا ہے ، کہتے ہیں کہ امام صاحب جب کپڑوں کی تجارت کرتے تھے ،اس وقت بھی ان کا محبوب ترین مشغلہ علمی مذاکرہ ہی رہتا تھا ۔
امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ فقہا ء کے ساتھ فقہ کا مذاکرہ بڑی رغبت اور بشاشت کے ساتھ کرتے تھے ، کئی کئی روز کے مسلسل فاقوں کے با وجود اس میں فرق نہ آتا تھا ۔
صاحب تعلیم المتعلم لکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ استاذ شیخ بر ہان الدین فر ماتے تھے کہ میں اپنے تمام ساتھیوں پر اس وجہ سے فوقیت لے گیا کہ تکرا ر ومذاکرہ کبھی نہ چھوڑتا تھا ۔
حضرت نانوتی اور حضرت گنگوہی کا باہمی علمی مباحثہ
حضرت مولانا قاسم نانوتی ؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کا طلب علمی کا زمانہ قریب قریب یکجا گزرا ہے ، دونوں بزرگوں میں علمی مباحثے اور مذاکرے بھی خوب ہوتے تھے ، کبھی کسی مسئلہ پر بحث چھڑ جاتی تو گھنٹوں تک چلا کرتی تھی، ان دونوں مشہور طالب علموں کا مباحثہ کچھ ایسا نہ تھا جس کو دلچسپی کی نظر سے نہ دیکھا جاتا ،اساتذہ بڑے شوق اور تعجب سے اس بحث کو سنتے اور سر تا پا کان ہو کر اس جانب متوجہ ہو جاتے تھے ، کبھی لوگوں کے ڈھٹ لگ جاتے اور خاص وعام کا مجمع ہو جایا کرتا تھا ، جانبین سے وہ نکتہ سنجیاں اور باریک بینیاں ہو تی تھیں کہ شاید وباید ۔
ایک بار ایک استاذ نے دونوں کی گفتگو سن کر یوں فیصلہ فر مایای کہ قاسم ذہین ا ٓدمی ہے اپنی ذہانت سے قابو میں نہیں آتا ورنہ اس مسئلہ میں رشید احمد حق پر ہے ۔( تذکرۃ الرشید)
حضرت مولانا اعزاز علی صاحب اور تکرار ومذاکرہ
شیخ الادب حضرت مولانا اعجاز علی صاحبؒ کا مشہور قصہ ہے کہ انہوں نے ایک طالب علم سے جو '' کنز ''پڑھتا تھا اور مولانا کی خدمت میں تھا،پوچھا کہ کنز کا تکرار کیایا نہیں؟اس نے عرض کیا جی ہاں!حضرت!پوچھا کتنی مرتبہ ؟ اس نے کہا تین مرتبہ ،تومولانا نے فر مایاواہ ! ما شاء اللہ ! آپ تو بڑے ذہین معلوم ہوتے ہیں، ہم نے تو اپنے پڑھنے کے زمانے میں کنز کا اکیس مرتبہ تکرار کیا اور ہر مرتبہ نئی بات سمجھ میں آتی تھی۔