ذکر ولادت اور دیگر حالات حضور ﷺ کے مساوی درجہ میں ہے
اسی طرح حضور ﷺ کا ذکر شریف ہے کہ اس واسطے کسی اہتمام کی کیا ضرورت ہے ؟ وہ تو ہر بات میں آنا چاہیے نیز اس کی بھی کیا ضرورت ہے کہ اگر بیان ہو تو صرف ولادت شریف اور معجزات ہی کا بیان ہو ۔آپ ﷺ کی ہر ہر بات ذکر کے قابل ہے نششت وبر خاست ،اخلاق وعادات ، مجاہدات وریا ضات ،افعال واحکام اور امر ونہی ۔مگر بات یہ ہے کہ انسان کا نفس راحت طلب ہے جس بات میں کچھ کرنا پڑتا ہے اس سے جان چراتا ہے تو ہر ہر بات کے تذکرہ میں چونکہ احکام پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے اس لیے اس کو با لکل ترک کردیا ۔ کانپور میں مجھ سے ایک شخص کہنے لگے کہ لو گوں نے مو لود شریف کے مٹانے کا ایک اور بھی طریقہ ایجاد کیا ہے کہ اس میں نماز ،روزہ وغیرہ کا ذکر کیاجاتا ہے ۔اللہ اکبر بتلا یئے !کہ جو لوگ نماز وغیرہ کے تذکرہ کو حضور ﷺ کے ذکر کا مٹا نا کہیں کیا وہ محب رسول ﷺ ہیں ۔ صاحبو!یہ سب امور بھی تو حضور ﷺ کا ہی تذکرہ ہے ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے مولود کی با بت پو چھا گیا ۔ فرمایا ! کہ میاں ہم تو ہر وقت ذکر مولد کرتے ہیں ۔کیونکہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پڑھتے ہیں ۔اگر حضور ﷺ پیدا نہ ہوئے ہو تے تو ہم یہ کیوں پڑھتے غرض آپ ﷺ کا ذکر تو ہر وقت ہی ہو نا چاہیے ۔حتیٰ کہ آپ ﷺ کے غصہ اور خفگی کا بھی ذکر ہو نا چاہیے ۔محبوب کو تو خفگی اور تیزی بھی محبوب ہو تی ہے ۔کسی نے کہا ہے ۔
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم کو غصہ پہ پیار آتا ہے
محبت وہ چیز ہے کہ واللہ العظیم اگر حضور ﷺ کے غصہ اور عتاب کا بھی ذکر ہو تو مزے لے کر ذکر کریں ۔صحابہ ؓ کرام نے اس راز کو سمجھا تھا اور محبت کی یہ دولت ان حضرات کو نصیب تھی ۔ہم کو غصہ پہ پیار آتا ہے
حضرت ابو ذر غفاریؓ کی محبت کی حکایت
حضرت ابو ذر غفاریؓ اکثر آزادی سے پو چھتے تھے اور ان کے مزاج میں تحقیق کامادہ زیادہ تھا اور وہ ذرا آزاد تھے لیکن یہ ان کا حال تھا ۔ان پر اس سے ملامت بھی نہیں ہو سکتی ۔مولانا کہتے ہیں َگفتگو ئ عاشقاں درکار رب
جو ششِ عشق ست نے ترک ادب
بے ادب تر نیست زوکس در جہاں
با ادب تر نیست زد کس در جہاں
Last edited: