ذکر ولادت اور دیگر حالات حضور ﷺ کے مساوی درجہ میں ہے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ذکر ولادت اور دیگر حالات حضور ﷺ کے مساوی درجہ میں ہے​

اسی طرح حضور ﷺ کا ذکر شریف ہے کہ اس واسطے کسی اہتمام کی کیا ضرورت ہے ؟ وہ تو ہر بات میں آنا چاہیے نیز اس کی بھی کیا ضرورت ہے کہ اگر بیان ہو تو صرف ولادت شریف اور معجزات ہی کا بیان ہو ۔آپ ﷺ کی ہر ہر بات ذکر کے قابل ہے نششت وبر خاست ،اخلاق وعادات ، مجاہدات وریا ضات ،افعال واحکام اور امر ونہی ۔مگر بات یہ ہے کہ انسان کا نفس راحت طلب ہے جس بات میں کچھ کرنا پڑتا ہے اس سے جان چراتا ہے تو ہر ہر بات کے تذکرہ میں چونکہ احکام پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے اس لیے اس کو با لکل ترک کردیا ۔ کانپور میں مجھ سے ایک شخص کہنے لگے کہ لو گوں نے مو لود شریف کے مٹانے کا ایک اور بھی طریقہ ایجاد کیا ہے کہ اس میں نماز ،روزہ وغیرہ کا ذکر کیاجاتا ہے ۔اللہ اکبر بتلا یئے !کہ جو لوگ نماز وغیرہ کے تذکرہ کو حضور ﷺ کے ذکر کا مٹا نا کہیں کیا وہ محب رسول ﷺ ہیں ۔ صاحبو!یہ سب امور بھی تو حضور ﷺ کا ہی تذکرہ ہے ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے مولود کی با بت پو چھا گیا ۔ فرمایا ! کہ میاں ہم تو ہر وقت ذکر مولد کرتے ہیں ۔کیونکہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پڑھتے ہیں ۔اگر حضور ﷺ پیدا نہ ہوئے ہو تے تو ہم یہ کیوں پڑھتے غرض آپ ﷺ کا ذکر تو ہر وقت ہی ہو نا چاہیے ۔حتیٰ کہ آپ ﷺ کے غصہ اور خفگی کا بھی ذکر ہو نا چاہیے ۔محبوب کو تو خفگی اور تیزی بھی محبوب ہو تی ہے ۔کسی نے کہا ہے ۔

تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم کو غصہ پہ پیار آتا ہے​
محبت وہ چیز ہے کہ واللہ العظیم اگر حضور ﷺ کے غصہ اور عتاب کا بھی ذکر ہو تو مزے لے کر ذکر کریں ۔صحابہ ؓ کرام نے اس راز کو سمجھا تھا اور محبت کی یہ دولت ان حضرات کو نصیب تھی ۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ کی محبت کی حکایت​
حضرت ابو ذر غفاریؓ اکثر آزادی سے پو چھتے تھے اور ان کے مزاج میں تحقیق کامادہ زیادہ تھا اور وہ ذرا آزاد تھے لیکن یہ ان کا حال تھا ۔ان پر اس سے ملامت بھی نہیں ہو سکتی ۔مولانا کہتے ہیں َ

گفتگو ئ عاشقاں درکار رب
جو ششِ عشق ست نے ترک ادب
بے ادب تر نیست زوکس در جہاں
با ادب تر نیست زد کس در جہاں​
با ادب اس لیے کہ جان ومال سے حاضر ہے اور بے ادب اس معنیٰ کر کہ اس کےالفاظ ذرا بے ٹھکانے ہو تے ہیں ۔ غرض حضرت ابو ذر غفاری ؓ ایک حدیث کے متعلق بار بار دریافت کر رہے تھے تو حضور ﷺ نے تیسری بار فرما یا "وان رغم انف ابی ذر" یعنی تمہارا جی چاہے یا نہ چاہے مگر اسی طرح ہوگا ۔حدیث یہ تھی کہ جوشخص " لا الہ الا اللہ" کہنے لگے وہ جنت میں داخل ہو جائے گا ۔اور حضرت ابو ذرؓ کو اس لیے تعجب ہو رہا تھا کہ انہوں نے نفس ایمان لانے پر دخول اول کو مرتب سمجھا تو حضرت ابو ذرغفاریؓ کی یہ حالت تھی کہ جب کہیں اس حدیث کو ذکر کرتے تھے وہیں پیار میں آکر مزے لینے کو یہ بھی کہتے تھے "وان ترغم انف ابی ذر"(اشرف المواعظ)
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت ابو المعالی کی حکایت​
حضرت شاہ ابو المعالی ؒ کے ایک مرید حج کو گیے انہوں نے فرمایا کہ جب مدینہ جاؤ تو روضۂ اقدس پر میرا سلام عرض کر دینا ۔چنا نچہ انہوں نے عرض کیا وہاں سے اشارہ ہوا کہ اپنے بدعتی پیر سے ہمارا بھی سلام کہنا۔ بدعتی اس لیے فرمایا کہ ان سے بعض باتیں بصورت بدعت صادر ہو جاتی تھیں ۔اگر چہ واقع میں وہ بدعت نہیں ۔ یعنی کسی معذوری کی وجہ سے ان سے بعض افعال ظاہر سنت کے خلاف صادر ہو جاتے تھے۔ تو یہ جب واپس ہو ئے تو حضرت شاہ ابو المعالیؒ صاحب نے پو چھا کہ ہمارا بھی سلام کہا تھا ۔انہوں عرض کردیا کہ میں نے عرض کر دیا تھا ۔ حضور ﷺ نے بھی ارشاد فرما یا ہے کہ اپنے پیر سے میرا سلام کہد ینا ۔حضرت شاہ صاحب نے فرما یا کہ وہی لفظ کہو جو وہاں سے ارشاد ہوا ہے ۔مرید نے عرض کیا کہ حضرت جب آپ کو وہ لفظ معلوم ہے تو پھر میرے کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ نیز وہ لفظ میں کیسے عرض کروںَ آپ نے فرما یا گو یا کہ معلوم ہے مگر سننے میں اور ہی مزہ ہے ۔اور میاں تم خود تو نہیں کہتے وہ تو حضور ﷺ کی ہی زبان سے ادا ہو گا ۔ آخر انھوں نے وہی لفظ ادا کر دیا پس ان کی یہ حالت ہو ئی کہ وجد میں کھڑے ہو گیے اور بے ساختہ یہ شعر زبان پر جاری تھا ۔

بدم گفتی وخر سند م عفاک اللہ نگو گفتی
جواب تلخ می زیبد لب لعلِ شکر خارا​
وجد کر تے تھے اور اس شعر کو پڑھتے تھے ۔خلاصہ یہ ہے کہ محبت وہ چیز ہے جس کے آثار کی نسبت میں میں نے پہلے کہا ہے

تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم کو غصہ پہ پیار آتا ہے​

اسی لیے اگر حضور ﷺ نا خوش بھی ہو تے تھے تو صحابہ کرامؓ اس کا بھی ذکر لذت لے کر فرماتے تھے کیوں؟ اس لیے از محبت تلخہا شیریں بود ۔

ٖفضیلت وتر جیح ذکر افعال واحکام بر ذکر دلادت​
تو اگر کسی کو حضور ﷺ سے محبت ہو تو وہ ذکر مولد میں نماز روزہ کے ذکر کو نا گوار سمجھے گا ۔ ہر گز نہیں ۔صاحبو!
حضور ﷺ کا تو اٹھنا ، بیٹھنا ،سونا ، جاگنا حتی کہ حوائج ضروریہ میں مشغول ہونا سب عبادت ہے ۔بلکہ ذکر ولادت سے بھی زیادہ بر کت کی چیز ہے ۔یہ احکام اور افعال کا ذکر کرنا اس واسطے کہ حضور ﷺ کی ولادت شریف تو محض ایک ہی حیثیت سے ایک نعمت عظیمہ ہے جس پر شکر کر کے ہم اپنے درجات بڑھا لیں ۔(اشرف المواعظ)
 
Top