نام و نسب
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد، کنیت ابوعیسیٰ اور والد کا نام عیسیٰ ہے۔ پورا سلسلۂ نسب یوں ہے: ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک ضریراور نسبت کے اعتبارسے سلمی،بوغی اور ترمذی کہلاتے ہیں جیسا کہ ابن اثیرنے جامع الاصول میں بیان کیا ہے۔
آخر عمر میں نابینا ہونے کی وجہ سے ضریراور قبیلہ بنوسلیم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سُلمي کہلائے۔جبکہ بوغی قریہ بوغ کی جانب نسبتہے جو ترمذ سے 18؍میل کی مسافت پرواقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسی بستی میں مدفون ہیں ۔علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الأنساب میں اور حافظ ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے نسب نامہ میں موسیٰ کی بجائے شداد ذکر کیا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا مروزی الاصل تھے ۔ لیث بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں شہرترمذ میں منتقل ہوئے اور پھر وہیں اقامت گزیں ہوگئے ۔
سن پیدائش اور لفظ تِرمذکی تحقیق
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ 209ھ میں تِرمذ مقام میں پیدا ہوئے۔ حافظ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے جامع الأصول میں تاریخ پیدائش 200ھ لکھی ہے۔ ترمذ ایک قدیم شہرہے جو نہر بلخ کے ساحل پر واقع ہے، اسے جیحون بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ماوراء النهرمیں بھی نہر سے اکثریہی نہر بلخ مراد لی گئی ہے۔ کسی زمانہ میں یہ شہر نہایت مشہور تھا لیکن چنگیز خاں کے ہنگامہ میں تباہ وبرباد ہو کر صرف ایک قصبہ رہ گیا ہے۔ علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
''لفظ ترمذکے تلفظ میں اختلاف ہے، اسے 'ت' کی تینوں حرکتوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس شہر کے باسی اسے تَرْمِذْبولتے ہیں ۔جبکہ قدیم زمانہ میں یہ تِرْمِذْ کے نام سے معروف تھا۔ جب کہ بعض اہل علم وتحقیق اسے تُرْمُذْ بھی پڑھتے ہیں اور ہر ایک نے اپنے دعوے کی معنوی توجیہ پیش کی ہے۔اور ابن دقیق العید نے کہا ہے کہ تِرْمِذْ ہی زیادہ مشہور ہے بلکہ یہ خبر متواتر کی طرح یقینی ہے۔''
تحصیل علم اور رحلات
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جس دور میں پیداہوئے، اس زمانہ میں علم حدیث درجہ شہرت کو پہنچ چکا تھا بالخصوص خراسان اور ماوراء النہر کے علاقے اس فن میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے اوروہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر محدث کی مسند ِعلم بچھ چکی تھی۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو شروع میں ہی تحصیل علم حدیث کا شوق دامن گیر ہوگیاتھا چنانچہ آپ نے علوم و فنون کے مرکز ترمذمیں ابتدائی تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے بعد طلب ِحدیث کے لئے مختلف شہروں ، علاقوں اور ملکوں کا سفر کیا اوربصرہ، کوفہ، واسط،بخارا، رَے، خراسان اور حجاز میں برسوں قیام پذیر رہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی تہذیب التہذیبمیں فرماتے ہیں :
''طاف البلاد وسمع خلقا من الخراسانیین والعراقیین والحجازیین''
''امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے شہروں کا سفر کیا اور خراسان، عراق اور حجاز کے بہت سے علما سے حدیث کا سماع کیا۔''
معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ مصر اور شام نہیں گئے کیونکہ اُن شیوخ سے آپ بالواسطہ روایت کرتے ہیں ۔اور غالباً بغداد بھی نہیں گئے کیونکہ وہاں جاتے تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے ضرور ملاقات وسماع حدیث کرتے لیکن ان سے ان کا سماع ثابت نہیں ،کیونکہ خطیب رحمۃ اللہ علیہ بغدادی نے تاریخ بغداد میں اور امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء میں اس سماع کا ذکرتک نہیں کیا۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے 235ھ میں تحصیل علم کے لئے سفر کا آغاز کیا ہے جب ان کی عمر 25 یا 26 سال تھی کیونکہ اس سے پہلے جو شیوخ فوت ہوگئے تھے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے بالواسطہ روایت کی ہے جیسے علی بن مدینی (ف234ھ)، محمد بن عبد اللہ بن عمیر کوفی (ف234) اور ابراہیم بن منذر (ف236؍235ھ) وغیرہ۔ جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے پہلے شیوخ محمد بن عمرو سواق بلخی (ف 236ھ)، محمود بن غیلان مروزی (ف239ھ) ، قتیبہ بن سعید (ف240ھ) اور اسحق بن راہویہ (ف238ھ) نظر آتے ہیں ۔
شیوخ واساتذہ
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ کی مفصل فہرست امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرأعلام النبلائ میں اور امام مزی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الکمال میں ذکرکی ہے اور ان شیوخ میں کچھ وہ بھی ہیں جن سے ائمہ صحاحِ ستہ نے روایت کی ہے جیسے
ابوبکر محمد بن بشار (م 252ھ)
محمد بن معمر القیسی(م 256ھ)
ابوعیسیٰ محمد بن مثنیٰ (م 252ھ)
نصر بن علی جہضمی(م 250ھ)
زیاد بن یحییٰ حملانی (م254ھ)
اور
ابوالعباس عبدالعظیم عنبری (م246ھ)
ابو حفص عمرو بن علی الفلاس (م 249ھ)
ابوسعید عبداللہ بن سعید کندی (م 257ھ)
یعقوب بن ابراہیم الدورقی (م 252ھ)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے شیوخ ہیں جن سے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے اوراپنی جامع مںں ان سے احادیث بھی روایت کی ہیں ۔ان میں سے چند مشہور اساتذہ کے نام یہ ہیں : محمد بن عبدالعزیز مروزی(م 241ھ)، ابوبکر محمد بن علائ(م 248ھ)،ابواسحق ابراہیم بن عبدالرحمن الہروی،ابومحمداسماعیل بن موسیٰ فزاری، محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن حجر مروزی رحمۃ اللہ علیہ ، ہناد بن سرّی رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ ، ابومصعب زہری رحمۃ اللہ علیہ ، ابراہیم بن عبداللہ ہروی رحمۃ اللہ علیہ ، اسماعیل بن موسیٰ سدی رحمۃ اللہ علیہ ،سوید بن نصر مروزی رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن عبد المالک بن ابی الشوارب رحمۃ اللہ علیہ ، عبداللہ بن معاویہ جمعی رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن بشار رحمۃ اللہ علیہ ،ابواسحق ابراہیم بن سعید جوہری رحمۃ اللہ علیہ ، بشر بن آدم رحمۃ اللہ علیہ ، جارود بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ ، رجاء بن محمد رحمۃ اللہ علیہ ، زیاد بن ایوب رحمۃ اللہ علیہ ، سعید بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ ، صالح بن عبداللہ بن ذکوان رحمۃ اللہ علیہ ، عباس بن عبدالعظیم رحمۃ اللہ علیہ ، فضل بن سہل رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن ابان مستملی رحمۃ اللہ علیہ ، نصر بن علی رحمۃ اللہ علیہ ، ہارون بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ ، یحییٰ بن اکثم رحمۃ اللہ علیہ ، یحییٰ بن طلحہ یربوعی،یوسف بن حماد معنی اور اسحق بن موسی خطمی وغیرہ ...اور جن شیوخ سے آپ نے جامع میں حدیثیں بیان کی ہیں ، ان کی کل تعداد تقریباً 206 ہے۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد، کنیت ابوعیسیٰ اور والد کا نام عیسیٰ ہے۔ پورا سلسلۂ نسب یوں ہے: ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک ضریراور نسبت کے اعتبارسے سلمی،بوغی اور ترمذی کہلاتے ہیں جیسا کہ ابن اثیرنے جامع الاصول میں بیان کیا ہے۔
آخر عمر میں نابینا ہونے کی وجہ سے ضریراور قبیلہ بنوسلیم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سُلمي کہلائے۔جبکہ بوغی قریہ بوغ کی جانب نسبتہے جو ترمذ سے 18؍میل کی مسافت پرواقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسی بستی میں مدفون ہیں ۔علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الأنساب میں اور حافظ ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے نسب نامہ میں موسیٰ کی بجائے شداد ذکر کیا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا مروزی الاصل تھے ۔ لیث بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں شہرترمذ میں منتقل ہوئے اور پھر وہیں اقامت گزیں ہوگئے ۔
سن پیدائش اور لفظ تِرمذکی تحقیق
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ 209ھ میں تِرمذ مقام میں پیدا ہوئے۔ حافظ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے جامع الأصول میں تاریخ پیدائش 200ھ لکھی ہے۔ ترمذ ایک قدیم شہرہے جو نہر بلخ کے ساحل پر واقع ہے، اسے جیحون بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ماوراء النهرمیں بھی نہر سے اکثریہی نہر بلخ مراد لی گئی ہے۔ کسی زمانہ میں یہ شہر نہایت مشہور تھا لیکن چنگیز خاں کے ہنگامہ میں تباہ وبرباد ہو کر صرف ایک قصبہ رہ گیا ہے۔ علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
''لفظ ترمذکے تلفظ میں اختلاف ہے، اسے 'ت' کی تینوں حرکتوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس شہر کے باسی اسے تَرْمِذْبولتے ہیں ۔جبکہ قدیم زمانہ میں یہ تِرْمِذْ کے نام سے معروف تھا۔ جب کہ بعض اہل علم وتحقیق اسے تُرْمُذْ بھی پڑھتے ہیں اور ہر ایک نے اپنے دعوے کی معنوی توجیہ پیش کی ہے۔اور ابن دقیق العید نے کہا ہے کہ تِرْمِذْ ہی زیادہ مشہور ہے بلکہ یہ خبر متواتر کی طرح یقینی ہے۔''
تحصیل علم اور رحلات
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جس دور میں پیداہوئے، اس زمانہ میں علم حدیث درجہ شہرت کو پہنچ چکا تھا بالخصوص خراسان اور ماوراء النہر کے علاقے اس فن میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے اوروہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر محدث کی مسند ِعلم بچھ چکی تھی۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو شروع میں ہی تحصیل علم حدیث کا شوق دامن گیر ہوگیاتھا چنانچہ آپ نے علوم و فنون کے مرکز ترمذمیں ابتدائی تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے بعد طلب ِحدیث کے لئے مختلف شہروں ، علاقوں اور ملکوں کا سفر کیا اوربصرہ، کوفہ، واسط،بخارا، رَے، خراسان اور حجاز میں برسوں قیام پذیر رہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی تہذیب التہذیبمیں فرماتے ہیں :
''طاف البلاد وسمع خلقا من الخراسانیین والعراقیین والحجازیین''
''امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے شہروں کا سفر کیا اور خراسان، عراق اور حجاز کے بہت سے علما سے حدیث کا سماع کیا۔''
معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ مصر اور شام نہیں گئے کیونکہ اُن شیوخ سے آپ بالواسطہ روایت کرتے ہیں ۔اور غالباً بغداد بھی نہیں گئے کیونکہ وہاں جاتے تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے ضرور ملاقات وسماع حدیث کرتے لیکن ان سے ان کا سماع ثابت نہیں ،کیونکہ خطیب رحمۃ اللہ علیہ بغدادی نے تاریخ بغداد میں اور امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء میں اس سماع کا ذکرتک نہیں کیا۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے 235ھ میں تحصیل علم کے لئے سفر کا آغاز کیا ہے جب ان کی عمر 25 یا 26 سال تھی کیونکہ اس سے پہلے جو شیوخ فوت ہوگئے تھے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے بالواسطہ روایت کی ہے جیسے علی بن مدینی (ف234ھ)، محمد بن عبد اللہ بن عمیر کوفی (ف234) اور ابراہیم بن منذر (ف236؍235ھ) وغیرہ۔ جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے پہلے شیوخ محمد بن عمرو سواق بلخی (ف 236ھ)، محمود بن غیلان مروزی (ف239ھ) ، قتیبہ بن سعید (ف240ھ) اور اسحق بن راہویہ (ف238ھ) نظر آتے ہیں ۔
شیوخ واساتذہ
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ کی مفصل فہرست امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرأعلام النبلائ میں اور امام مزی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الکمال میں ذکرکی ہے اور ان شیوخ میں کچھ وہ بھی ہیں جن سے ائمہ صحاحِ ستہ نے روایت کی ہے جیسے
ابوبکر محمد بن بشار (م 252ھ)
محمد بن معمر القیسی(م 256ھ)
ابوعیسیٰ محمد بن مثنیٰ (م 252ھ)
نصر بن علی جہضمی(م 250ھ)
زیاد بن یحییٰ حملانی (م254ھ)
اور
ابوالعباس عبدالعظیم عنبری (م246ھ)
ابو حفص عمرو بن علی الفلاس (م 249ھ)
ابوسعید عبداللہ بن سعید کندی (م 257ھ)
یعقوب بن ابراہیم الدورقی (م 252ھ)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے شیوخ ہیں جن سے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے اوراپنی جامع مںں ان سے احادیث بھی روایت کی ہیں ۔ان میں سے چند مشہور اساتذہ کے نام یہ ہیں : محمد بن عبدالعزیز مروزی(م 241ھ)، ابوبکر محمد بن علائ(م 248ھ)،ابواسحق ابراہیم بن عبدالرحمن الہروی،ابومحمداسماعیل بن موسیٰ فزاری، محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن حجر مروزی رحمۃ اللہ علیہ ، ہناد بن سرّی رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ ، ابومصعب زہری رحمۃ اللہ علیہ ، ابراہیم بن عبداللہ ہروی رحمۃ اللہ علیہ ، اسماعیل بن موسیٰ سدی رحمۃ اللہ علیہ ،سوید بن نصر مروزی رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن عبد المالک بن ابی الشوارب رحمۃ اللہ علیہ ، عبداللہ بن معاویہ جمعی رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن بشار رحمۃ اللہ علیہ ،ابواسحق ابراہیم بن سعید جوہری رحمۃ اللہ علیہ ، بشر بن آدم رحمۃ اللہ علیہ ، جارود بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ ، رجاء بن محمد رحمۃ اللہ علیہ ، زیاد بن ایوب رحمۃ اللہ علیہ ، سعید بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ ، صالح بن عبداللہ بن ذکوان رحمۃ اللہ علیہ ، عباس بن عبدالعظیم رحمۃ اللہ علیہ ، فضل بن سہل رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن ابان مستملی رحمۃ اللہ علیہ ، نصر بن علی رحمۃ اللہ علیہ ، ہارون بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ ، یحییٰ بن اکثم رحمۃ اللہ علیہ ، یحییٰ بن طلحہ یربوعی،یوسف بن حماد معنی اور اسحق بن موسی خطمی وغیرہ ...اور جن شیوخ سے آپ نے جامع میں حدیثیں بیان کی ہیں ، ان کی کل تعداد تقریباً 206 ہے۔
Last edited: