محبت ہے پہاڑوں سی مجھے چڑھنا نہیں آتا
کٹھن راہوں پہ مجھ کو اس طرح چلنا نہیں آتا
کروں گی کس طرح شکوہ اگر دل میرا ٹوٹا تو
مجھے رونا تو آتا ہے مگر لڑنا نہیں آتا
ادھورا ہے سفر میرا نہ ہی اب تک ملی منزل
کسی بھٹکے ہوئےکو راہ پر لانا نہیں آتا
ملاتی ہاتھ ہوں جب دوست سے تو کانپ جاتی ہوں
مجھے اچھے بُرے کا فرق بھی کرنا نہیں آتا
ثباتِ گل پرکھنے کے لیے گل کو مسل دیکھو
کہ حق کی راہ پر باطل سے بھی ڈرنا نہیں آتا
ممقیدّ کر نہیں سکتی میں خوشبو کو کبھی اپنی
عدو سے بھی مہک کو فاصلہ کرنا نہیں آتا
شکن بھی گلؔ کے ماتھے پر اسے اچھی نہیں لگتی
کہ خود جس کو کسی کے سامنے ہنسنا نہیں آتا
زنیرہ گل