قرآن کی سورتوں پر نکاح

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول (کی رضا) کے لیے ہبہ کر دیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب مجھے عورتوں سے نکاح کی کوئی حاجت نہیں ہے۔

ایک صاحب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کا نکاح مجھ سے کر دیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر انہیں (مہر میں) ایک کپڑا لا کے دے دو۔

انہوں نے عرض کیا کہ مجھے تو یہ بھی میسر نہیں ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر انہیں کچھ تو دو ایک لوہے کی انگوٹھی ہی سہی۔

وہ اس پر بہت پریشان ہوئے (کیونکہ ان کے پاس یہ بھی نہ تھی)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تم کو قرآن کتنا یاد ہے؟

انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں نے تمہارا ان سے قرآن کی ان سورتوں پر نکاح کیا جو تمہیں یاد ہیں۔

صحيح البخاري
حدیث نمبر: 5029
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حدیث عمومی نہیں ہے فقہا نے فرمایا یہ ا جازت ان صحابی کیلئے مخصوص ہے۔اگر حدیث میں عمومیت ہوتی تو حفاظ وعلماء کے وارے نیارے ہو جاتے ۔
پلیز اس طرح کی احادیث شئیر کریں تو مغالطہ سے بچنے کے لیےمختصر صراحت بھی کردیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حدیث عمومی نہیں ہے فقہا نے فرمایا یہ ا جازت ان صحابی کیلئے مخصوص ہے۔اگر حدیث میں عمومیت ہوتی تو حفاظ وعلماء کے وارے نیارے ہو جاتے ۔
پلیز اس طرح کی احادیث شئیر کریں تو مغالطہ سے بچنے کے لیےمختصر صراحت بھی کردیں۔
جی محترم
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سورۃ الأحزاب
اے نبی! بے شک ہم نے تیرے لیے تیری بیویاں حلال کر دیں جن کا تو نے مہر دیا ہے اور وہ عورتیں جن کا مالک تیرا دایاں ہاتھ بنا ہے، اس (غنیمت) میں سے جو اللہ تجھ پر لوٹا کر لایا ہے اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں، جنھوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مومن عورت اگر وہ اپنا آپ نبی کو ہبہ کر دے، اگر نبی چاہے کہ اسے نکاح میں لے لے۔ یہ خاص تیرے لیے ہے، مومنوں کے لیے نہیں۔ بے شک ہم نے جان لیا جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور ان عورتوں کے بارے میں فرض کیا جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں، تاکہ تجھ پر کوئی تنگی نہ ہو اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [50]
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَاللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ» ہے۔ پھر فرمایا ” اور وہ مومنہ عورت جو اپنا نفس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں، تو بغیر مہر دیے اسے نکاح میں لا سکتے ہیں “۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب یہ واقعہ بیان کرنے لگے تو ان کی صاحبزادی بھی سن رہی تھیں۔ کہنے لگیں اس عورت میں بہت ہی کم حیاء تھی۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم سے وہ بہتر تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی رغبت کر رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا نفس پیش کر رہی تھیں ۔ [صحیح بخاری:5120] ‏‏‏‏
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مسند احمد میں ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنی بیٹی کی بہت سی تعریفیں کرکے کہنے لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کرلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا اور وہ پھر بھی تعریف کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ وہ کبھی وہ بیمار پڑیں نہ سر میں درد ہوا یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ۔ [مسند احمد:155/3:ضعیف]
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی بیوی صاحبہ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھیں ۔ [بیهقی فی السنن الکبری:55/7] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے یہ قبلہ بنو سلیم میں سے تھیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23/22:] ‏‏‏‏ اور روایت میں ہے یہ بڑی نیک بخت عورت تھیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23/22:] ‏‏‏‏ ممکن ہے ام سلیم ہی خولہ ہوں رضی اللہ عنہا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری کوئی عورت ہوں۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اشکال یا اشتباہ آپ کی ذات گرامی فداہ ابی وامی ﷺ کی خصوصیت سے نہیں پیدا ہوتا ۔یقینا ً آپ کیلئے استثنائی صورتیں بہت ساری ہیں ۔ترجمہ آیت میں جو یہ ہے " مومنوں کیلئے نہیں" ۔صحابی مومنین کے عموم میں داخل ہیں جبکہ اولین مخاطب "مومنوں "کے صحابہ اکرام رضون اللہ علیھم اجمعین ہی ہیں ۔ اس لیے آپ کو محدثین ،مفسرین وفقہائے اکرام کی تشریحات کا حوالہ دینا ہی ہو گا
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا تھیں لیکن اس میں انقطاع ہے۔ اور یہ روایت مرسل ہے۔ یہ مشہور بات ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی، یہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا تھیں، فبیلہ انصار میں سے تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی انتقال کر گئیں۔ رضی اللہ عنہا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے نفس کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا۔

چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر غیرت کیا کرتی تھی جو اپنا نفس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں اور مجھے بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ عورتیں اپنا نفس ہبہ کرتی ہیں۔ جب یہ آیت اتری کہ «تُرْجِيْ مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَان اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا» [33-الأحزاب:51] ‏‏‏‏، ” تو ان میں سے جسے چاہے اس سے نہ کر اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے اور جن سے تو نے یکسوئی کر لی ہے انہیں بھی اگر تم لے آؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں “۔ تو میں نے کہا بس اب تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب وسعت و کشادگی کردی ۔ [صحیح بخاری:1464] ‏‏‏‏
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کوئی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھی جس نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہو ۔

یونس بن بکیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ مباح تھا کہ جو عورت اپنے تئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے گھر میں رکھ لیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا نہیں۔ کیونکہ یہ امر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر رکھا گیا تھا۔ یہ بات کسی اور کے لیے جائز نہیں ہاں مہر ادا کر دے تو بیشک جائز ہے۔‏‏‏‏“

چنانچہ بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں جنہوں نے اپنا نفس سونپ دیا تھا جب ان کے شوہر انتقال کر گئے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی اور عورتوں کے مثل انہیں مہر دیا جائے۔ جس طرح موت مہر کو مقرر کر دیتی ہے اسی طرح صرف دخول سے بھی مہر واجب ہو جاتا ہے۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے مستثنیٰ تھے۔ ایسی عورتوں کو کچھ دینا آپ پر واجب نہ تھا گو اسے شرف بھی حاصل ہو چکا ہو۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر مہر کے اور بغیر ولی کے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لینے کا اختیار تھا جیسا کہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے قصے میں ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو بغیر ولی اور بغیر مہر کے کسی کے نکاح میں دیدے۔ ہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تھا۔‏‏‏‏“

” اور مومنوں پر جو ہم نے مقرر کر دیا ہے اسے ہم خوب جانتے ہیں “ یعنی وہ چار سے زیادہ بیویاں ایک ساتھ رکھ نہیں سکتے۔ ہاں ان کے علاوہ لونڈیاں رکھ سکتے ہیں۔ اور ان کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔

اسی طرح ولی کی مہر کی گواہوں کی بھی شرط ہے۔ پس امت کا تو یہ حکم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی پابندیاں نہیں۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حرج نہ ہو۔ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مہر کی مقدار کم ازکم دس در ہم ہے یا کوئی ایسی چیز ،سامان اور مال ہو جس سے اتنی قیمت وصول ہو جاے ۔اس مقدار سے کم مہر رکھنا درست نہیں ہو گا ۔حضرت جا بر ؓ سے روایت ہے " لا مھر اقل من عشرۃ دراہم "(دار قطنی)) کم سے کم مہر دس در ہم ہے ۔حضرت علی ؓ سے روایت ہے "لا مھر دون عشرۃ دراہم ( بذل المجہود) دس درہم سے کم مہر نہیں ہے۔
 
Top