ام زرع کی حدیث

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امام ترمذی نے شمائل ترمذی میں گیارہ بیبیوں کی کہانی نقل کی ہے جو درج ذیل ہیں:

ام زرع کی حدیث
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: گیارہ عورتوں نے مل بیٹھ کر آپس میں پختہ معاہدہ کیا کہ وہ اپنے خاوندوں کے حالات (ایک دوسرے سے ) نہیں چھپائیں گیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند دشوار گزار پہاڑی پر دبلے اونٹ کے گوشت کی طرح ہے، نہ تو وہ پہاڑ اتنا آسان ہے کہ اس پر چڑھا جا سکے اور نہ ہی وہ گوشت اتنا موٹا ہے کہ محنت سے لایا جائے (یعنی میرا خاوند نا کارہ ہے) دوسری عورت نے کہا میرا خاوند (ایسا ہے) کہ میں اس کا حال ظاہر نہیں کر سکتی مجھے ڈر ہے کہ میں اسے چھوڑ ہی نہ دوں۔ اگر میں اس کا حال بیان کروں تو تمام عیوب بیان کروں گی (یعنی میرے خاوند کے حالات ناقابل بیان ہیں) تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند (بے تکا) لمبا ہے، اگر اس کو میں کچھ کہوں تو (مجھے) طلاق دے دی جاتی ہے اور اگر خاموش رہوں تو لٹکائی جاتی ہوں (یعنی کسی طرف کی نہیں رہتی)۔ چوتھی عورت نے کہا میرا خاوند مکہ مکرمہ کی رات کی طرح نہ گرم نہ سرد نہ خوف اور نہ رنج (یعنی میرا خاوند معتدل مزاج ہے)۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند گھر آئے تو چیتا باہر جائے تو شیر ہے، وہ گھریلو معاملات کی تحقیق نہیں کرتا۔ چھٹی عورت نے کہا میرا خاوند جب کھانا کھاتا ہے تو سب سمیٹ لیتا ہے، پانی پیئے تو سب چڑھا لیتا ہے، جب لیٹتا ہے تو کپڑا خوب لپیٹ لیتا ہے اور میرے کپڑے میں ہاتھ ڈال کر (میرے) رنج وراحت کو معلوم نہیں کرتا (یعنی لاپرواہ ہے) ساتویں عورت نے کہا میرا خاوند سست ہے (یا اس عورت نے کہا) ناکارہ بیوقوف ہے۔ وہ ہر بیماری میں مبتلا ہے تجھے زخمی کر دے یا تیری ہڈی توڑ دے یا تیرے لیے دونوں جمع کر دے (یعنی وہ بیوقوف اور ناکارہ شخص ہے) آٹھویں عورت نے کہا میرے خاوند کو ہاتھ لگانا خرگوش کو ہاتھ لگانے کے برابر ہے (نہایت ملائم بدن والا ہے) اور وہ زعفران کی طرح خوشبودار ہے۔ نویں عورت نے کہا میرا خاوند اونچے ستونوں والا (عالی نسب) بہت بڑی راکھ والا (سخی) لمبے پر تلے والا (دراز قد) اور اس کا گھر مشورہ گاہ کے قریب ہے (یعنی معتبر آدمی ہے) دسویں عورت نے کہا میرے خاوند کا نام مالک ہے اور کیسا مالک؟ وہ مالک اس (نویں عورت کے خاوند) سے بہتر ہے۔ وہ اونٹوں کا مالک ہے اور اس کے اونٹ اکثر باڑے میں رہتے ہیں اور بہت کم چراگاہ میں جاتے ہیں۔ جب وہ (اونٹ) گانے بجانے کی آواز سنتے ہیں (مہمانوں کے استقبال سے کنایہ ہے) تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (یعنی یہ شخص امیر بھی ہے اور مہمان نواز بھی) گیارہویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند ابو زرع ہے اور ابو زرع کیا ہے؟ اس نے زیورات سے میرے کان ہلا دیے اور چربی سے میرے بازو بھر دیے (خوب کھلایا پلایا) اس نے مجھے خوش کیا تو میں اپنے آپ سے خوش ہوئی۔ اس نے مجھے تھوڑی سی بکریوں والوں (غریب خاندان) میں پایا تو مجھے امیروں میں لے آیا، جہاں اونٹوں اور گھوڑوں کی آوازیں آتی ہیں اور گاہنے والے بیل اور بھوسہ جدا کرنے والے آدمی ہیں (یعنی مالدار سسرال) میں بات کرتی ہوں تو برا نہیں منایا جاتا۔ جب میں سوتی ہوں تو صبح تک سوئی رہتی ہوں اور پیتی ہوں تو سیراب ہو کر پیتی ہوں، ابو زرع کی ماں بھی کیسی (باکمال) عورت ہے۔ اس کے برتن بڑے بڑے ہیں اور اس کا گھر کشادہ ہے۔ ابوزرع کے بیٹے کی شان بھی عجیب ہے، اس کا پہلو کھجور کی بے پھل ٹہنی کی طرح ہے اور اسے بکری کے بچے کا صرف ایک باز و سیر کر دیتا ہے۔ ابو زرع کی بیٹی بھی کیا ہی (لائق تعریف) ہے۔ ماں باپ کی فرمانبردار اور چادر کو بھرنے والی ہے (موٹی تازی) اور اپنی ہمسایہ عورت (سوکن) کو جلانے والی ہے۔ ابو زرع کی لونڈی بھی کیا ہی (قابل ستائش) ہے نہ ہمارے راز ظاہر کرتی ہے نہ ہمارا غلہ چوری کرتی ہے اور نہ ہی ہمارے گھر کو کوڑے کرکٹ سے بھرتی ہے۔ ام زرع نے کہا کہ ابو زرع گھر سے نکلا۔ اس وقت دودھ کی مشکیں بلوئی جا رہی تھیں (یعنی دودھ سے مکھن نکالا جا رہا تھا) اس نے ایک عورت سے ملاقات کی جس کے ساتھ (اس کے) چیتے کی طرح دو بچے اس کے پہلو میں دو اناروں سے کھیل رہے تھے۔ (اس کے بعد) ابو زرع نے مجھے طلاق دے دی اور (پھر) میں نے بھی ایک ایسے سردار سے شادی کر لی جو گھوڑے پر سوار ہوتا، ہاتھ میں خطی نیزہ ہوتا (مقام خط، جو بحرین کی بندرگاہ کے پاس ہے کا نیزہ خطی کہلاتا ہے) اور سہ پہر کو وہ میرے پاس کثرت سے چوپائے لے آتا، اس نے مجھے ان چوپایوں میں سے ایک ایک جوڑا دیا اور کہا اے ام زرع ! تو خود بھی کھا اور اپنے اقارب کو بھی غلہ دے (اس کے باوجود) اگر میں اس کے دیے ہوئے تمام عطیات جمع کروں تو بھی ابو زرع کے چھوٹے سے چھوٹے برتن کے برابر نہ ہوں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (اے عائشہ!) میں تیرے لیے ایسا ہوں جیسا ابوزرع ، ام زرع کے لیے تھا (یعنی نہایت شفیق اور مہربان)

امام ترمذی، الشمائل المحمدية، 1: 209، رقم:254، مؤسسة الکتب الثقافية بيروت
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
14۔ باب: ام زرع کی حدیث کابیان۔
حدیث نمبر: 6305
حدثنا علي بن حجر السعدي ، واحمد بن جناب كلاهما، عن عيسى واللفظ لابن حجر، حدثنا عيسى بن يونس، حدثنا هشام بن عروة ، عن اخيه عبد الله بن عروة ، عن عروة ، عن عائشة ، انها قالت: " جلس إحدى عشرة امراة، فتعاهدن، وتعاقدن ان لا يكتمن من اخبار ازواجهن شيئا، قالت الاولى: زوجي لحم جمل غث، على راس جبل وعر لا سهل، فيرتقى ولا سمين، فينتقل، قالت الثانية: زوجي لا ابث خبره إني اخاف، ان لا اذره إن اذكره اذكر عجره وبجره، قالت الثالثة: زوجي العشنق إن انطق اطلق، وإن اسكت اعلق، قالت الرابعة: زوجي كليل تهامة، لا حر، ولا قر، ولا مخافة، ولا سآمة، قالت الخامسة: زوجي إن دخل فهد، وإن خرج اسد ولا يسال عما عهد، قالت السادسة: زوجي إن اكل لف، وإن شرب اشتف، وإن اضطجع التف، ولا يولج الكف ليعلم البث، قالت السابعة: زوجي غياياء، او عياياء طباقاء، كل داء له داء شجك، او فلك، او جمع كلا لك، قالت الثامنة: زوجي الريح ريح زرنب، والمس مس ارنب، قالت التاسعة: زوجي رفيع العماد، طويل النجاد، عظيم الرماد، قريب البيت من النادي، قالت العاشرة: زوجي مالك، وما مالك مالك خير من ذلك، له إبل كثيرات المبارك، قليلات المسارح إذا سمعن صوت المزهر ايقن انهن هوالك، قالت الحادية عشرة: زوجي ابو زرع فما ابو زرع اناس من حلي اذني، وملا من شحم عضدي وبجحني، فبجحت إلي نفسي، وجدني في اهل غنيمة بشق، فجعلني في اهل صهيل، واطيط، ودائس، ومنق، فعنده اقول فلا اقبح وارقد، فاتصبح واشرب فاتقنح ام ابي زرع، فما ام ابي زرع عكومها رداح، وبيتها فساح ابن ابي زرع، فما ابن ابي زرع مضجعه كمسل شطبة، ويشبعه ذراع الجفرة بنت ابي زرع، فما بنت ابي زرع طوع ابيها، وطوع امها، وملء كسائها، وغيظ جارتها جارية ابي زرع، فما جارية ابي زرع لا تبث حديثنا تبثيثا، ولا تنقث ميرتنا تنقيثا، ولا تملا بيتنا تعشيشا، قالت: خرج ابو زرع والاوطاب تمخض، فلقي امراة معها ولدان لها كالفهدين يلعبان من تحت خصرها برمانتين، فطلقني ونكحها، فنكحت بعده رجلا سريا ركب شريا، واخذ خطيا، واراح علي نعما ثريا واعطاني من كل رائحة زوجا، قال: كلي ام زرع، وميري اهلك، فلو جمعت كل شيء اعطاني، ما بلغ اصغر آنية ابي زرع، قالت عائشة، قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: كنت لك كابي زرع لام زرع "۔

‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان تمام نے یہ اقرار کیا اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا: میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا: میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی، اس قدر اس میں عیوب ہیں ظاہری بھی اور باطنی بھی (اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں اگر بیان کروں تو اس کو چھوڑ دوں گی یعنی وہ خفا ہو کر مجھ کو طلاق دے گا اور اس کو چھوڑنا پڑے گا)۔ تیسری عورت نے کہا: میرا خاوند لمبا ہے (یعنی احمق) اگر میں اس کی برائی بیان کروں تو مجھ کو طلاق دے دے گا اور جو چپ رہو ں تو اوہڑ رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی نے کہا:میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات نہ گرم ہے نہ سرد (یعنی معتدل المزاج ہے) نہ ڈر ہے نہ رنج (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے عمدہ اخلاق ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے۔) پانچویں عورت نے کہا: میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا) اور جب باہر نکلتا ہ ےتو شیر ہے اور جو مال اسباب گھر چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا: میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب تمام کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ اور درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں عورت کی خبر تک نہیں لیتا۔) ساتویں عورت نے کہا: میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام نہیں کرنا جانتا سب جہاں بھر کے عیب اس میں موجود ہیں ایسا ظالم کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا: میراخاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں۔ نویں عورت نے کہا: میرا خاوند اونچے محل والا لمبے پر تلے والا (یعنی قدآور) بڑی راکھ والا (یعنی سخی ہے اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے) اس کا گھر نزدیک ہے مجلس اور مسافر خانہ سے (یعنی سردار اور سخی ہے اس کا لنگر جاری ہے)۔ دسویں عورت نے کہا: میرے خاوند کا نام مالک ہے مالک افضل ہے میری اس تعریف سے، اس کے اونٹوں کے بہت شترخانے ہیں اور کمتر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں اس سبب سے شترخانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) جب کہ اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا: میرے خاوند کا نام ابوزرع ہے، سو واہ! کیا خوب ابوزرع ہے، اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھ کو موٹا کیا اور مجھ کو بہت خوش کیا) سو میری جان بہت چین میں رہی۔ مجھ کو اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے سو اس نے مجھ کو گھوڑے اور اونٹ اور کھیت اور خرمن کا مالک کر دیا (یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی اس نے مجھ کو باعزت اور مالدار کر دیا) میں اس کی بات کرتی ہوں وہ مجھ کو برا نہیں کہتا سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ ماں ابوزرع کی! سو کیا خوب ہے ماں ابوزرع کی اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں کشادہ اور کشادہ گھر۔ بیٹا ابوزرع کا! سو کیا خوب ہے بیٹا ابوزرع کا اس کی خواب گاہ جیسے تلوار کی میان (یعنی نازنین بدن ہے) اس کو آسودہ کر دیتا ہے حلوان کا ہاتھ۔ (یعنی کم خور ہے) بیٹی ابوزرع کی! سو کیا خوب ہے بیٹی ابوزرع کی، اپنے ماں باپ کی تابعدار اپنے لباس کے بھرنے والی (یعنی موٹی ہے) اور اپنے سوت کی رشک (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے) اس واسطے اس کی سوت اس سے جلتی ہے۔ لونڈی ابوزرع کی! کیا خوب ہے لونڈی ابوزرع کی ہماری بات مشہور نہیں کرتی ظاہر کر کے اور ہمارا کھانا نہیں لے جاتی اٹھا کر اور ہمارا گھر آلودہ نہیں رکھتی کوڑے سے۔ ابوزرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ متھا جاتا تھا (گھی نکالنے کے واسطے) سو وہ ملا ایک عورت سے، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے تھے سو ابوزرع نے مجھے طلاق دے دی اور اس عورت سے نکاح کیا، پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز۔ اس نے مجھ کو چوپائے جانور بہت دیے اور اس نے مجھ کو ہر مویشی سے جوڑا جوڑا دیا سو اس نے مجھ سے کہا کہ اے ام زرع! اور کھلا اپنے لوگوں کو سو اگر میں جمع کروں جو دوسرے خاوند نے دیا تو ابوزرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچے (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”میں تیرے لیے ایسا ہوں جیسے ابوزرع تھا ام زرع کے لیے۔“ (یعنی ویسی تیری خاطر کرتا ہوں اور سب باتوں میں تشبیہ ضروری نہیں تو آپ نے طلاق نہیں دی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اور یہ غیبت میں داخل نہیں جو عورتوں نے اپنے خاوندوں کا ذکر کیا کیونکہ انہوں نے اپنے خاوندوں کا نام نہیں لیا اور جب تک نام لےکر کسی کی برائی نہ کرے وہ غیبت نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ عورتیں مجہول ہیں یہ اگر غیبت بھی کرتی ہوں تو کیا بعید ہے اور اس وقت میں اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی برائی کرے ان لوگوں کے سامنے جو اس کے خاوند کو پہنچانتے ہوں تو وہ غیبت ہو جائے گی گو نام نہ لے نووی)۔
 
Top