حیض کی حالت میں قرآن کریم پڑھنا جائزنہیں

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
خواتین کے لیے ماہوری کے دنوں میں یعنی حیض کی حالت میں قرآن کریم پڑھنا جائزنہیں ہے اور نہ ہی زبانی پڑھنے یا سنانے کی اجازت ہے

سننِ ترمذی میں ایک روایت عبد اللہ ابن عمر سے منقول ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ حائضہ اور جنبی قرآن مجید میں سے کچھ بھی نہیں پڑھ سکتے۔

حائضہ وہ خاتون جو حیض کے ایام میں ہو
جنبی وہ مرد جس پر غسل فرض ہو
 
ت

تمر

خوش آمدید
مہمان گرامی
باجی میری دوست نے مجھے یہ لکھ کے بھیجا ہے
اسی مسئلہ میں اہل علم کے تین اقوال ہیں:
پہلا قول: مطلقاََ ممانعت کا ہے ، اور وہ یہ کہ حائضہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ کچھ بھی تلاوت کرے قرآن کریم میں سے اور دلیل کی بنیاد اسی آیت کو بنایا ہے :’’نماز کے قریب بھی نہ ہو اس حالت میں کہ تم نشے میں ہو یہاں تک کہ تمہیں علم ہونے میں لگے کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور نہ ہی خیانت کی حالت میں مگر یہ کہ راستہ عبور کرنے کے لئے ، یہاں تک کہ تم غسل کرو‘‘۔ (النساء:۴۳)
لہٰذا حائضہ کو جنبی کے ساتھ لاحق کیانماز کی ممانعت کے اعتبار سے کیونکہ نماز میں قرأت ہوتی ہے اور نماز کی جگہ سے ممانعت گویا کہ قرأت سے بھی ممانعت ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ حائضہ کو قرأت قرأن سے منع کرنے کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں لہٰذا ہم کہیں گے کہ حائضہ قرآن کی تلاوت کرے گی اور جس نے حائضہ کا قیاس جنسی پر کیاقرأت کی ممانعت کے بارے میں تو ایسا قیاس قابل توجہ نہیں ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حائضہ جنبی سے متعدد جہات سے وہ مختلف ہے۔
پہلی جہت: حائضہ کا حدث غیر اختیاری ہوتاہے برخلاف جنبی کے کیونکہ اس کا حدث غالباََ اختیاری ہوتاہے ۔
دوسری جہت: حائضہ کے لئے ممکن نہیں کہ حدث کو رفع کرسکے جبکہ جنبی غسل کے ذریعہ حدث رفع کرسکتاہے ۔
تیسری جہت: حائضہ کے لئے اللہ کا ذکر اور عمل صالح کے بارے میں استحباب وارد ہواہے ، نبیﷺنے عائشہؓ سے فرمایاجیسا کہ صحیحین میں آیاہے :’’وہ کچھ کرو جو حاجی کرتاہے مگر یہ کہ بیت اللہ کا طوا ف نہ کرو‘‘۔ اور نبیﷺنے حائضہ کا عورتوں کو حکم دیا کہ وہ نماز عید کے لئے نکلیں اور نماز و دعا کا مشاہدہ کریں ۔ اور یہ دونوں حکم جنبی کے بارے میں نہیں آئے کیونکہ نہ اس کو ذکر کے لئے کہا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اور ایسا مطالبہ کیا گیا ہے بلکہ اس سے تو یہ مطالبہ کیاگیاہے کہ وہ جتنا جلدی ہوسکے اپنے حدث کو زائل کرے ۔ اور یہ تمام فرق حائضہ کو جنبی کے ساتھ لاحق کرنے میں مانع نہیں ہیں ۔ لہٰذا صحیح طور پر حائضہ کو قرأت قرآن سے منع کرنے میں اہل علم کے کوئی قول نہیں ، اگر چہ جمہور علماء ممانعت کے قائل ہیں مگر جنبی پر قیاس کے علاوہ کوئی دلیل موجودنہیں اوراگر دلیل قیاس ہی ہوتی ہے تو ہم نے دونوں کے درمیان فرق بیان کردیا ہے لہٰذا قیاس کارآمدنہیں ہوگا۔ کیونکہ جنبی کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ کیا یہ قرأت کرسکتاہے یا نہیں ؟ بنیادی دلیل اس میں علیؓ کی حدیث ہے کہ نبیﷺکوکوئی چیز بھی قرآن سے نہیں روکتی سوائے جنابت کے ۔علماء کی ایک جماعت نے اسی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ، لہٰذا اگرچہ جمہور اسی بات کے قائل ہیں کہ جنبی قرآن نہیں پڑھے گااور یہی قول صحیح ہے لیکن حائضہ کو جنبی سے ملحق کرنا ٹھیک نہیں۔
اور اہل علم کے دونوں قول میں سے صحیح یہ ہے کہ حائضہ قرآن پڑھے گی مگر مصحف کو نہیں چھوسکتی۔اور اس میں رمضان اور غیر رمضان کاکوئی فرق نہیں کیونکہ حائضہ عمل صالح زیادہ کرنا چاہے گی اور ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ اس کو کسی چیز سے بغیر حجت و برہان کے روکیں ۔ لہٰذا اگر کسی نے دوسرے کو عمل صالح سے روکا تو اس کے لئے جائز نہیں کہ بغیر واضح حجت کے منع کرے ۔ اس بنیاد پر اس کے لئے یہ جائز ہے کہ قرأت قرآن کرسکتی ہے چاہے اپناحفظ برقرار رکھنے کے لئے تلاوت کرے ، یا رمضان میں قرآن ختم کرنے کے لئے یا اس کے علاوہ کسی اور سبب کے تحت ۔ اوریہی قول زیادہ أصح ہے ۔ واللہ أعلم۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ہر وہ شخص جس کو غسل کی حاجت ہو یعنی جنبی ہو یا عورت حیض ونفاس کی حالت میں ہو تو قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور محدثین،مفسرین،فقہاوعلما کا اتفاق ہے کہ اس کے لیے جائز نہیں کہ قرآن کریم کو چھوئے یا بغیر چھوئےتلاوت کرے۔

ترمذی حدیث نمبر: 131
حدثنا علي بن حجر ، والحسن بن عرفة ، قالا: حدثنا إسماعيل بن عياش، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تقرا الحائض ولا الجنب شيئا من القرآن "۔ قال: وفي الباب عن علي۔ قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث لا نعرفه إلا من حديث إسماعيل بن عياش، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تقرا الجنب ولا الحائض " ، وهو قول اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم، مثل: سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: لا تقرا الحائض ولا الجنب من القرآن شيئا، إلا طرف الآية والحرف ونحو ذلك، ورخصوا للجنب والحائض في التسبيح والتهليل، قال: وسمعت محمد بن إسماعيل يقول: إن إسماعيل بن عياش يروي، عن اهل الحجاز واهل العراق احاديث مناكير، كانه ضعف روايته عنهم فيما ينفرد به، وقال: إنما حديث إسماعيل بن عياش، عن اهل الشام، وقال احمد بن حنبل: إسماعيل بن عياش اصلح من بقية، ولبقية احاديث مناكير عن الثقات۔ قال ابو عيسى: حدثني احمد بن الحسن، قال: سمعت احمد بن حنبل يقول ذلك۔

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ نہ پڑھیں“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۲- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کو ہم صرف اسماعیل بن عیاش ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ جس میں ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنبی اور حائضہ (قرآن) نہ پڑھیں“،
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثر اہل علم اور ان کے بعد کے لوگ مثلاً سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ حائضہ اور جنبی آیت کے کسی ٹکڑے یا ایک آدھ حرف کے سوا قرآن سے کچھ نہ پڑھیں، ہاں ان لوگوں نے جنبی اور حائضہ کو تسبیح و تہلیل کی اجازت دی ہے۔

ہر وہ شخص جس کو غسل کی حاجت ہو یعنی جنبی ہو یا عورت حیض ونفاس کی حالت میں ہو تو قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور محدثین،مفسرین،فقہاوعلما کا اتفاق ہے کہ اس کے لیے جائز نہیں کہ قرآن کریم کو چھوئے یا بغیر چھوئےتلاوت کرے۔

متعدد صحابہ کرام،تابعین امام ابو حنیفہ،امام شافعی امام احمد رحمہم اللّٰہ کا اسی بات پر اتفاق ہے جمہورعلما نےاس کے لیے قرآن وحدیث سے دلائل پیش کیے ہیں۔

دلائل سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ حدث(ناپاکی) دو طرح کی ہوتی ہے؛

حدث اصغر:وہ ناپاکی جو وضو سے دور ہوتی ہےجیسے قضائے حاجت
حدث اکبر:وہ ناپاکی جس کے لیے غسل ضروری ہےجیسے حیض

⑴لايمسه إلا المطهرون

یہاں مطہر کا لفظ مطلق ہےاس میں کوئی قید نہیں اور عربی کا قاعدہ ہے کہ مطلق سے مراد فرد کامل ہوتا ہے ناقص نہیں اور لفظ مطہر ہے طاہر نہیں یعنی وہ لوگ جو باقاعدہ پاک کر دیے گئے ہوں یعنی حدث اصغر واکبر سے پاک ہوں تو جب حدث اصغر کی حالت میں چھونے سے منع کیا گیا ہے تو حیض وجنابت جو حدث اکبر ہے جس کو زائل کرنے کے لیے غسل کی ضرورت ہوتی ہے اس کا حکم بے وضو سے بڑھ کر ہوگا کہ حدث اصغر کی حالت میں چھو نہیں سکتےلیکن بغیر چھوئے تلاوت کر سکتے ہیں اور حدث اکبر میں نہ چھو سکتے ہیں اور نہ چھوئے بغیر زبانی تلاوت کر سکتے ہیں جب ناپاکی بڑی ہے تو حکم بھی بڑا لگے گا

⑵لا تقرأالحائض ولا الجنب شيئاً من القرآن (ترمذى،رقم الحديث:١٣١)

یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن جمہور کا استدلال صرف اسی حدیث پر موقوف نہیں بلکہ دیگر دلائل بھی موجود ہیں

دوسری بات یہ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت اگرچہ موقوف ہے لیکن اس جیسے مسئلے میں موقوف روایت مرفوع کا درجہ رکھتی ہے۔ عن ابن عمر إلخ: قال وفي إسنادہ إسماعیل بن عیاش عن الحجازیین ضعیفة: ․․․ وصوب أبو حاتم وقفہ علی ابن عمر انتہی (۱/۱۰۲) قال الموٴلف: لا یضرنا وقفہ فإن الموقوف في مثل ہذا کالمرفوع․ ودلالتہ علی الباب ظاہرة، والنفساء وإن لم تذکر في الحدیث لکنہا في حکم الحائض فالحکم یشملہا إھ (إعلاء السنن: ۱/ ۲۶۶، باب أن الحائض والجنب لا یقرء ان شیئا من القرآن․

⑶عن على قال:كان النبي صلى الله عليه وسلم يخرج من الخلاءفيقرئناالقرآن وياكل معنا اللحم ولم يكن يحجبه عن القران شيء ليس الجنابة(سنن ابي داود،كتاب الصلاة رقم الحديث:٢٢٩)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا سے نکلتے اور ہمیں قرآن کریم کی تعلیم دیتےاور ہمارے ساتھ گوشت تناول فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی تلاوت سے جنابت کے سوا کوئی چیز نہیں روکتی تھی

جب جنابت کا یہ حکم (تلاوت سے رکنا) ہےتو حیض ونفاس کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کیونکہ دونوں کی اصل ناپاکی ہے جیسے

١۔جنابت سے پاکی حاصل کرنے کے لیے غسل ضروری ہے حیض ونفاس سے پاک ہونے کے لیے بھی غسل ضروری ہے
۲۔حالت جنابت میں بھی نماز نہیں پڑھ سکتے حیض ونفاس میں بھی نماز پہ پابندی ہے
۳۔جنبی کے لیے بھی دخول مسجد،طواف،اعتکاف منع ہے حائضہ کے لیے بھی منع ہے

تو معلوم ہوا کہ قدرے مشترک چیز ناپاکی ہے تو ناپاکی کی وجہ سے جنابت اور حیض کا حکم ایک ہی ہوگا کہ دونوں حالتوں میں تلاوت جائز نہیں ہوگی۔

⑷ عن عائشة رضي الله عنها انها قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتكئ فى حجرة وأنا حائض فيقرأ القرآن (بخارى،كتاب الحيض،رقم الحديث:٣٠١)

“حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں ٹیک لگائے ہوئے ہوتے اور قرآن کریم کی تلاوت فرمارہے ہوتے حالانکہ میں حیض کی حالت میں ہوا کرتی تھی”

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ:ابن دقیق نے کہا کہ یہ فعل اشارہ ہے اس جانب کہ حائضہ عورت قرآن کی تلاوت نہیں کرے گی اس لیے کہ اگر اس کے لیے تلاوت جائز ہوتی تو عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں قرآن پڑھنے کی ممانعت کا گمان نہ ہوتا اور اس کے جواز کے لیےاس عمل سے استدلال کرنے کی ضرورت نہ ہوتی(فتح الباری:١/٣١٩)

بہرحال مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حائضہ عورت تلاوت نہیں کر سکتی اس لیے کہ اگر حائضہ عورت کے لیے یہ جائز ہوتا تو عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو اس انداز میں بیان نہ کرتیں

البتہ معلمہ کے لیے گنجائش ہے کہ وہ آ یت کو توڑ توڑ کر پڑھے (یعنی آیت کا ایک ایک ٹکڑا یا ایک ایک لفظ)کیونکہ ایک لفظ پڑھنے کو تلاوت نہیں کہا جاسکتا۔

دلائل کی روشنی میں معلوم ہوا کہ حائضہ کے لیے قرآن کی تلاوت کرنا منع ہے، حائضہ معلمہ کے لیے گنجائش ہے کہ آیت کو توڑ توڑکر پڑھے (یعنی آیت کا ایک ایک ٹکڑا یا ایک ایک لفظ) یہی امام ابوحنیفہ، امام شافعی واحمد اور اکثر علماء وائمہ کا مسلک ہے او رابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت اگرچہ موقوف ہے لیکن اس جیسے مسئلے میں موقوف روایت مرفوع کا درجہ رکھتی ہے۔
 
ت

تمر

خوش آمدید
مہمان گرامی
شکریہ باجی ۔اتنی لمبی تحریر پڑھنی مشکل ہے ۔پلیز خلاصہ لکھ دیں ۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شکریہ باجی ۔اتنی لمبی تحریر پڑھنی مشکل ہے ۔پلیز خلاصہ لکھ دیں ۔

تحریر کے آخر میں یہی لکھا ہے کہ :

دلائل کی روشنی میں معلوم ہوا کہ حائضہ کے لیے قرآن کی تلاوت کرنا منع ہے، حائضہ معلمہ کے لیے گنجائش ہے کہ آیت کو توڑ توڑکر پڑھے (یعنی آیت کا ایک ایک ٹکڑا یا ایک ایک لفظ) یہی امام ابوحنیفہ، امام شافعی واحمد اور اکثر علماء وائمہ کا مسلک ہے او رابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت اگرچہ موقوف ہے لیکن اس جیسے مسئلے میں موقوف روایت مرفوع کا درجہ رکھتی ہے۔
 
ت

تمر

خوش آمدید
مہمان گرامی
پہلی جہت: حائضہ کا حدث غیر اختیاری ہوتاہے برخلاف جنبی کے کیونکہ اس کا حدث غالباََ اختیاری ہوتاہے ۔
دوسری جہت: حائضہ کے لئے ممکن نہیں کہ حدث کو رفع کرسکے جبکہ جنبی غسل کے ذریعہ حدث رفع کرسکتاہے ۔
حائضہ کا حدث غیر اختیاری ہے ۔اور حدث کو رفع کرنا حائضہ کیلئے ممکن نہیں ۔
سوال یہ ہے اس کو جنبی پر کس طرح قیاس کر سکتے ہیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حائضہ کا حدث غیر اختیاری ہے ۔اور حدث کو رفع کرنا حائضہ کیلئے ممکن نہیں ۔
سوال یہ ہے اس کو جنبی پر کس طرح قیاس کر سکتے ہیں
حیض اور جنابت دونوں کی مشترکہ چیز ہے ناپاکی چوں کہ دونوں حالتوں کی ناپاکی کو پاک کرنے کے لیے غسل ضروری ہے اس لیے دونوں کا حکم ایک ہے حیض کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتے اسی طرح جنبی بھی نماز نہیں پڑھ سکتے
 
Top