والدِ محترم

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ہمسفر، ہمنوا، ہمنشیں، ہمقدم
والدِ محترم والدِ محترم
اپنی سب خواہشوں کا گَلا گھونٹ کر
روز و شب جس پہ غالب رہے فکرِ گھر
ظاہراً سخت ہیں باطناً ہیں نرم
والدِ محترم والدِ محترم
پرورش تربیت میں نہ چھوڑی کَسَر
فکرِ اولاد میں کی سفر در سفر
اُن کو محبوب ہم، ہم کو جاہ و ہَشَم
والدِ محترم والدِ محترم
نوجوانی بڑھاپے میں ڈھلتا رہا
روز و شب جن کی خاطر وہ گُھلتا رہا
آج بچوں کو وہ یاد آتے ہیں کم
والدِ محترم والدِ محترم
آپ کو دیکھنا ہے عبادت میری
آپ کے کام آنا سعادت میری
آپ میرے تو میرے ہیں لوح و قلم
والدِ محترم والدِ محترم
ہم نے سمجھا نہیں ہے مقام آپ کا
گھر میں رحمت ہی رحمت قیام آپ کا
آپ کو دیکھنا دیکھنا ہے حرم
والدِ محترم والدِ محترم
تحفہِ کبریا سر پہ ہاتھ آپ کا
باعثِ سر بلندی ہے ذات آپ کا
آپ کے دم سے آزاد ہیں غم سے ہم
والدِ محترم والدِ محترم
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
کہتے ہیں عشق اور شاعری ایک ساتھ چلتی ہے۔سلطان کے عشق کا پتہ نہیں شاعر بھی ہیں اب معلوم ہوا۔
شاعری کا شوق ضرور ہے،کبھی کبھی کچھ اشعار ترتیب دے دیتاہوں پر کہیں محفوظ نہیں کرتا،لیکن یہ کلام میرا نہیں
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کبھی اپنا عظیم کلام بھی قلم بند کریں تاکہ ہم جیسے طالبہ فائدہ اٹھا سکے
جی بالکل۔انشاء اللہ عظیم طالبہ کی عظیم خواہش کو عظیم سلطان اپنا عظیم کلام پوری عظمت کے ساتھ کسی عظیم لکھاری کو پکڑ کر وضو بناکر قبلہ کی طرف رخ کر کے املا کرائیں گے
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
جی بالکل۔انشاء اللہ عظیم طالبہ کی عظیم خواہش کو عظیم سلطان اپنا عظیم کلام پوری عظمت کے ساتھ کسی عظیم لکھاری کو پکڑ کر وضو بناکر قبلہ کی طرف رخ کر کے املا کرائیں گے
آپ عرق گلاب سے غسل اور عود کی خوشبو لگا کر اور دانتوں پر زعفران لگاکر آنا لکھنا بھول گئے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر

مجھے دیں نہ غیظ میں دھمکیاں گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
مری سلطنت یہ ہی آشیاں مری ملکیت یہ ہی چار پر


جنہیں کہئے عشق کی وسعتیں جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں
یہ اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر

مرے اشک خوں کی بہار ہے کہ مرقع غم یار ہے
مری شاعری بھی نثار ہے مری چشم سحر نگار پر

عجب انقلاب زمانہ ہے مرا مختصر سا فسانہ ہے
یہی اب جو بار ہے دوش پر یہی سر تھا زانوئے یار پر

یہ کمال عشق کی سازشیں یہ جمال حسن کی نازشیں
یہ عنایتیں یہ نوازشیں مری ایک مشت غبار پر

مری سمت سے اسے اے صبا یہ پیام آخر غم سنا
ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا کہ خزاں ہے اپنی بہار پر

یہ فریب جلوہ ہے سر بسر مجھے ڈر یہ ہے دل بے خبر
کہیں جم نہ جائے تری نظر انہیں چند نقش و نگار پر

میں رہین درد سہی مگر مجھے اور چاہئے کیا جگرؔ
غم یار ہے مرا شیفتہ میں فریفتہ غم یار پر
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وہ تو گلاب کا ظرف ہے کہ ہر حالت میں اپنی مہک باہم پہنچاتا رہتا ہے
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
خون کی ضرورت پر انسان کو بھی مار دینا چاہیے کیا خیال ہے سارا خون نکال لینا چاہیے؟
اساتذہ سے بارہا یہ مثال سنی کہ جس طرح لوہا پھٹی میں جاتا اور باہر نکلتا ہے تو اس قیمت اور ہوتی ہے ،ہر چیز سے پاک ہوجاتا ہے،اسی طرح استاد کی بھٹی میں جب شاگرد آتا ہے تو ایک نیا انسان ہوتا ہے،اس کا دل ہر چیز سے پاک ہوا ہوتا ہے اور یہی مثال بہت سے پیر بھی دیتے ہیں، اب اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کا دل نکال کر سارا کیا جائےبلکہ اس مثال سے یہ سمجھایا جارہاہے کہ جب وہ آتا ہے دنیا اس کے دل میں ہوتی،حسد ہوسکتا،کسی کی غیبت کرسکتا ہے پر جب ہمارے پاس آتا ہے تو ہم اس کو اللہ کے طرف رجوع کراتے ہیں،حسد غیبت سے نقصان بتاکر اس سے بچاتے اس کو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان سناتے ہیں جس سے اس کے دل کی سیاہی صاف ہوجاتی جب وہ پڑھ کر نکلتا ہے تو دل پاک کرچکا ہوتا ہے
اور میرا تو یہ ہرگز مطلب نہیں تھا،بلکہ مطلب یہ ہے کہ عرق گلاب کے بھی فوائد ہیں،اس کو خوشبو میں استعمال کیا جاتا ہے،ادویات کے ذائقہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،چہرے کی خوبصورتی کے لیے استعمال کیا، حتیٰ کے خواتین کے میک اپ میں بھی یہی عرق استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح گلاب اپنی خوشبو پھیلاتا ہے اسی طرح عرق بھی خوشبو پھیلاتا ہے۔
 
Top