لیکن گلاب گلاب نہیں رہتا نہ ہی گلاب کی خوبصورتی رہتی ہے
خوشبو کے لیے گلاب کا قتللیکن گلاب کی خوشبو رہتی ہے
سلطان ہیں ان سے کچھ بھی ہو سکتا ہے بس آپ نے گھبرانا نہیںکہتے ہیں عشق اور شاعری ایک ساتھ چلتی ہے۔سلطان کے عشق کا پتہ نہیں شاعر بھی ہیں اب معلوم ہوا۔
پہلے کسی بکری کو سنائیں اسکے کان پکڑ کر سنانے کے بعد دیکھیں کان جھاڑتی ہے یا بے ہوش ہو جاتی ہے ،، کان جھاڑتی ہے تو دو باتیں ہونگی یا تو اسے سمھج نہیں آئی ۔۔ یا وہ کہ رہی ہوگی مجھے معاف کردوجی بالکل۔انشاء اللہ عظیم طالبہ کی عظیم خواہش کو عظیم سلطان اپنا عظیم کلام پوری عظمت کے ساتھ کسی عظیم لکھاری کو پکڑ کر وضو بناکر قبلہ کی طرف رخ کر کے املا کرائیں گے
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر
مجھے دیں نہ غیظ میں دھمکیاں گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
مری سلطنت یہ ہی آشیاں مری ملکیت یہ ہی چار پر
جنہیں کہئے عشق کی وسعتیں جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں
یہ اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر
مرے اشک خوں کی بہار ہے کہ مرقع غم یار ہے
مری شاعری بھی نثار ہے مری چشم سحر نگار پر
عجب انقلاب زمانہ ہے مرا مختصر سا فسانہ ہے
یہی اب جو بار ہے دوش پر یہی سر تھا زانوئے یار پر
یہ کمال عشق کی سازشیں یہ جمال حسن کی نازشیں
یہ عنایتیں یہ نوازشیں مری ایک مشت غبار پر
مری سمت سے اسے اے صبا یہ پیام آخر غم سنا
ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا کہ خزاں ہے اپنی بہار پر
صحرائے غم میں ورد ہیں پروردگار کے
مسند نشیں نے بھیجے ہیں پھرجام زہر کے
لکھیں گے سوئے دار ستم تاجدار کے
آفت رسیدہ بستیوں کے لٹ گئے مکیں
دریا میں خواب ڈوب گئے ہونہار کے
رقصاں ہیں آج خلق کے چہرے پہ وحشتیں
دیکھے ہیں ہم نے رنگِ فتن اقتدار کے
اس شہر بے چراغ کی صبحیں بھی ہیں سیاہ
پڑھتی ہے شام نوحے شبِ اشک بار کے
یہ فریب جلوہ ہے سر بسر مجھے ڈر یہ ہے دل بے خبر
کہیں جم نہ جائے تری نظر انہیں چند نقش و نگار پر
میں رہین درد سہی مگر مجھے اور چاہئے کیا جگرؔ
غم یار ہے مرا شیفتہ میں فریفتہ غم یار پر
آپ نے کیا سمجھا سلطان ایسی ویسی شاعری کرتے ہیں، سالطان کی شاعری میںپہلے کسی بکری کو سنائیں اسکے کان پکڑ کر سنانے کے بعد دیکھیں کان جھاڑتی ہے یا بے ہوش ہو جاتی ہے ،، کان جھاڑتی ہے تو دو باتیں ہونگی یا تو اسے سمھج نہیں آئی ۔۔ یا وہ کہ رہی ہوگی مجھے معاف کردو
واہ کیا بات ہے محترمآپ نے کیا سمجھا سلطان ایسی ویسی شاعری کرتے ہیں، سالطان کی شاعری میں
ہواؤںکا ٹھراؤ، لہروں کا ٹکراؤ،غلاب کی خوشبو، اور شھد جیسی مٹھاس ہوتی ہے
یہ والے (غلاب) میں تو خوشبو ہی نہیں ہوتیآپ نے کیا سمجھا سلطان ایسی ویسی شاعری کرتے ہیں، سالطان کی شاعری میں
ہواؤںکا ٹھراؤ، لہروں کا ٹکراؤ،غلاب کی خوشبو، اور شھد جیسی مٹھاس ہوتی ہے
انٹرنیٹ سپیڈ سلو اسے ہی درست کررہا تھا،اب جاکر درست ہوایہ والے (غلاب) میں تو خوشبو ہی نہیں ہوتی
میں ریزہ ریزہ ہوں اپنے وجود کے اندرخوشبو کے لیے گلاب کا قتل
جب بھی کھلتا ہے سر شاخ کوئی تازہ گلابمیں ریزہ ریزہ ہوں اپنے وجود کے اندر
وہ حرف حرف چُنے گا، کِتاب کر دے گا
مُجھے یقین ہے، اِک روز میرا چارہ گر،
اُداس رُوح کو تازہ گلاب کر دے گا
گلاب تو گلاب ہیے اپ بھی گلاب ہیں ۔۔ گلاب کو کیا گلاب دیں گلاب خود گلاب ہےجب بھی کھلتا ہے سر شاخ کوئی تازہ گلاب
تم اسے توڑ کے جوڑے میں سجا لیتے ہو
جانے کیا بات ہے تم اپنے سوا دنیا میں
ہر حسیں چیز کو جھنجلا کے مٹا دیتے ہو
حسینوں کو مٹایا نہیں جاتاجب بھی کھلتا ہے سر شاخ کوئی تازہ گلاب
تم اسے توڑ کے جوڑے میں سجا لیتے ہو
جانے کیا بات ہے تم اپنے سوا دنیا میں
ہر حسیں چیز کو جھنجلا کے مٹا دیتے ہو