سیدنا حضرت خواجہ معین الدین حسن سجزی اجمیری
- خواجۂ خواجگان ِ ہند ،مدار خانوادۂ چشتیاں ،سر چشمۂ ہدایت ہندوستان ،شیخ الاسلام والمسلمین حضرت سیدنا معین الدین چشتی اجمیری ،سلطان الہند!کسے معلوم ہے آپ کی مقدس وپاکیزہ شخصیت کیا تھی ؟ اور دین اسلام کو آپ کی ذت اقدس سے کتنی رونق ملی اور کتنا پھیلاؤ اس ملک میں آپ سے حاصل ہوا۔ سنئے ! جواب میر خورد صاحب سیر الاولیاء کی زبان قلم سے سنئے ،یہ کتاب فاری زبان میں ہے ،حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ نے تاریخ دوت وعزیمت میں اس کی عبارت کا اردو تر جمہ فرمایا ہے ۔ ملاحظہ فر مایئے ، فرماتے ہیں :
- ملک ہندوستان کے آخری مشرقی کنارے تک کفر وشرک کی بستی تھی ،اہل تمرد انا ربکم الاعلی کی صدا لگارہے تھے ،اور خدا کی خدائی میں دوسری ہستیوں کو شریک کرتے تھے اینٹ پتھر ، درخت ، جانور ،گائے وگوبر کو سجدہ کرتے تھے ، کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اور مقفل تھے۔
- ہمہ غافل از حکم دین وشریعت ۔
- ہمہ بے خبر از خدا وپیمبر
- نہ ہر گز کسے دیدہ ہنجار قبلہ
- نہ ہر گز شنیدہ کسے اللہ اکبر
- سب دین وشریعت کے حکم سے غافل تھے ،خدا وپیمبر ے بے خبر تھے ، نہ کسی نے کبھی قبلہ کی سمت پہچا نی ،نہ کسی نے اللہ اکبر کی صدا سنی۔
- اس آفتاب اہل یقین یعنی حضرت خواجہ معین الدین کے قدم مبارک کا اس ملک میں پہنچنا تھا کہ یہاں کی ظلمت نور اسلام سے بدل گئی ۔ان کی کوشش وتا ثیر سے ایساا ہوا کہ کہ جہاں شعائر شرک تھے وہاں مسجد ومحراب ومنبر نظر آنے لگے ، جو فضا شرک کی صداؤں سے تھرا رہی تھی ،وہ نعرۂ اللہ اکبر سے گو نجنے لگی ۔
- اس ملک میں جس کو دوت اسلام ملی اور قیامت تک جو بھی ہ اس دولت سےمشرف ہو گا، نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد در اولاد ، نسل در نسل سب ان کے نامۂ اعمال میں ہوں گے ،اور اس میں قیامت تک جو اضافہ ہوتا رہےگا اور دائرہ اسلام وسیع ہو تا ہے گا ،قیامت تک اس کا ثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجزی کی رو ح کو پہنچتا ہے گا۔( تاریخ دعوت وعزیمت ۔ج:۳)
- حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ کی ولادت با سعادت ۵۳۷ھ میں سجتان میں ہو ئی ،اسی کی طرف نسبت کر کے انھیں " سجزی" لکھا اور بولاا گیا ، مگر کا تبوں نےاسے غلط فہمی سے " سنجری " کردیا ،سنجر صحیح نہیں ہے ،سجزی درست ہے ۔
- حضرت عمر پندرہ سال کی ہو ئی تو والد محترم کا انتقال ہو گیا ، ترکے میں انھیں اک باغ ملا ،ایک مدت تک یہی باغ حصول معاش کا ذریعہ رہا ،ایکروز ایک مجذوب بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی آئے ،حضرت خواجہ نے ان کی خدمت میں انگور کے خوشے پیش کئے، لیکن انہوں نے انگور نہیں کھایا اور کھلی کے ایک ٹکڑے کو دانتوں سے چبا کر خواجہ صاحب کے منہ میں دیا ، کھلی کا کھانا تھا کہ حضرت کا دل نور الہی سے رو شن ہو گیا ، علائق دنیا چھوڑ کر طلب خدا میں اٹھ کھڑے ہو ئے ، بخار اوسمر قند پہنچے ، جہاں کلام مجید حفظ کیا ،اور علوم ظاہری کی تعلیم میں مشگول رہے ( بزم صوفیہ )
- پھر خواجہ صاحب سمر قبد سے نکل کر عراق کی جانب روانہ ہو ئے ، قصبہ ہارون میں حضرت شیخ عثمان ہا رونی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور ان سے شرف بیعت حاصل کیا ، بیعت کے وقت مرشد نے مرید سے وضو کرایا ۔ دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ، پھر فرمایا کہ قبلہ رو ہو کر سورہ بقرہ پڑھو، اس کے بعد اکیس مرتبہ درود شریف پڑھویا ، پھر ساٹھ مرتبہ سبحان اللہ ،اس کے بعد آسمان کی طرف اپنا چہرٔہ مبارک اٹھایا ۔اور مرید کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :ترا بخدا رساندم ومقبول حضر او گردانیدم ( بزم صوفیہ ) تجھ کو میں خدا تک پہنچادیا اور ان کے دربار کا مقبول بنا دیا ۔
- پھر عرصہ تک مرشد گرامی کی خدمت میں ہے ، بیعت کے بعد خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہ کے ساتھ مکہ کا سفر کیا ، خاجہ صاحب فرماتے ہیں :
- پھر خانہ کعبہ کی زیارت کی ،اس جگہ بھی خواجہ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے خدا کے سپرد کیا ،اور خانہ کعبہ کے پر نالے ( میزا رحمت) کے نیچے اس درویش کے بارے میں مناجات کی ،تو آواز آئی کہ میں نے معین الدین کو قبول کیا ، جب وہاں سے لوٹ کر ہم رسول خدا کی زیارت کے لیے آئے،تو فرمایا سلام کرو میں نے سلام کا ،آواز آئی وعلیکم السلام ! جب یہ آواز آئی تو خواجہ صاحب ن ےفرمایا کہ تمہارا کام مکمل ہو گیا ۔
- مدینہ منورہ میں میں بارگاہ رسالت سے حضرت خواجہ صاحب کو ہندوستان جانے کی بشارت ملی ۔
- حضرت خواجہ صاحب نے ایک عرصہ تک سیر وسیاحت کی ۔اسی دوران سیدنا عبد القادر جیلانی کی خدمت میں بھی پہنچے ،اور ستاون روز ان کی خدمت میں ھاضر رہ کر فیوض وبرکات حاصل کئے ( بزم صوفیہ)
- حضرت خواجہ ساحب مختلف بزرگوں کے پاس تشریف لے جاتے رہے ، ریاضات ومجاہدات میں مشغول رہے ،اکثر عشاء کے وجو سے فجر کی نماز پڑھتے ر،پھر اس سیر وسیاحت کے دوران ہندوستان آنے کا قصد کیا تو پہلے لاہور تشریف لائے ،اور حضرت شیخ ابو الحسن ہجوریؒ کے آستان مبارک پر قیام فرمایا ، پھروہاں سے ہلی تشریف لائے دہلی سے اجمیر کا رخ فرمایا