صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سورہ توبہ کی اس آیت ۔۔ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ[113] ۔۔ جس کا ترجمہ ہے " یہ بات نہ تو نبی کو زیب دیتی ہے اور نہ دوسرے مومنوں کو کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ وہ دوزخی لوگ ہیں۔ " کا شان نزول یہ بیان ہوا ہے کہ آنحضرتﷺ کے چچا ابو طالب نے اگرچہ آپ کی بڑی مدد کی تھی، لیکن انہوں نے آخر وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو آنحضرتﷺ نے انہیں ترغیب دی کہ وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائیں، مگر اس وقت ابو جہل وغیرہ نے مخالفت کی۔ اور وہ مسلمان نہیں ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے اس وقت یہ فرمایا تھا کہ میں آپ کے لیے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے۔ چنانچہ اس آیت نے آپ کو ان کے لیے استغفار سے منع فرما دیا۔
اس کے علاوہ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں روایت ہے کہ بعض مسلمانوں نے اپنے مشرک باپ دادوں کے لیے استغفار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد کے لیے استغفار کیا تھا، اس لیے ہم بھی کر سکتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اس کے علاوہ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں روایت ہے کہ بعض مسلمانوں نے اپنے مشرک باپ دادوں کے لیے استغفار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد کے لیے استغفار کیا تھا، اس لیے ہم بھی کر سکتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔