برصغیر میں علم و عمل کے چراغ کو باقی رکھنے اور انہیں گوشہائے عالم میں پھیلانے میں بڑا کردار امام محمد قاسم نانوتوی اور قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہما کا ہے۔ ان دونوں حضرات نے اپنے رفقاء کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کی شکل میں امت مسلمہ کو وہ عظیم تحفہ دیا ہے جس کے ثمرات سے آج تک عالم اسلام مستفید ہورہا ہے۔ انہیں دونوں شخصیات سے علماء دیوبند کا علمی و روحانی سلسلہ جاری ہے۔ روحانیت میں ان دونوں حضرات کے راہنما سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے اور علمیت میں ان دونوں حضرات کے رہبر و استاد مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ لیکن عجیب اتفاق یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے واقفیت تو ہے لیکن حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایسی واقفیت نہیں ہے جن کے وہ مستحق ہیں۔
ولادت با سعادت
آپ نانوتہ میں خاندان صدیقی شیوخ کے چشم وچراغ ہیں۔ آپ کی ولادت ایک روایت کے مطابق 1204 ہجری میں ہے۔ تاریخ ولادت میں گرچہ کچھ اختلاف ہے لیکن قرین قیاس مذکورہ سن ہی ہے۔ آپ کے والد محترم مولوی احمد علی نانوتوی نہایت متقی اور پرہیز گار تھے۔ چنانچہ آپ کی تربیت ابتدا سے ہی ایسے ماحول میں ہوئی جو ہر قسم کے لہو و لعب سے پاک تھا۔ دینی ماحول اور والد محترم کی تربیت نے بچپن سے ہی حصول علم کا گرویدہ بنا دیا تھا۔
تعلیم و تربیت
آپ نے ابتدائی تعلیم گھر کے ماحول میں رہ کر حاصل کی۔ والد محترم نے ابتداء میں علمی ذوق و شوق کو پروان چڑھایا اور آپ کے اس شوق نے آپ کو وقت کا عظیم معلم بنا دیا۔
اس دور میں مفتی الہٰی بخش علاقہ میں ممتاز ترین عالم دین کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ آپ کے حلقہ درس میں دور دراز کے طلباء کا ہجوم رہتا تھا۔ آپ کے ممتاز طلباء میں شیخ محدث احمد علی سہارنپوری اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جیسے اشخاص شامل تھے۔ مولانا مملوک علی نے آپ کے درس میں شامل ہوکر علمی تشنگی کی سیرابی حاصل کی۔ آپ نے کچھ عرصہ بعد سید محمد قلندر جلال آبادی کے حلقہ درس میں شمولیت اختیار کی۔ ان دونوں حضرات سے آپ نے علمی فیض حاصل کیا۔
یہ وہ دور تھا جب دہلی علم و فضل کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ خاندان ولی اللہ کے چشم وچراغ علم حدیث کے فیوض و برکات کے پیمانے چھلکا رہے تھے۔ دوسری جانب دیگر اہل علم کی درسگاہوں نے دہلی کی فضا کو علم کی خوشبو سے معطر کر رکھا تھا۔ انہی چاشنی اور لگن نے مولانا مملوک علی کو دہلی کی درسگاہوں تک پہنچا دیا۔
دہلی کے قیام میں کچھ دنوں تک آپ مولانا عبداللہ علوی مرشد آبادی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔ انہیں ایام میں غالباً ہدایہ النحو کا ایک سبق آپ نے مسند ہند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پڑھا ہے۔ وہاں سے آپ حضرت مولانا رشید الدین خان کشمیری دہلوی کی درسگاہ میں پہنچے۔ یہاں آپ نے بقیہ علوم کی تکمیل فرمائی اور یہ آپ کے حصول علم کے سفر کی آخری درسگاہ ثابت ہوئی۔ مولانا رشید الدین خان کشمیری سے آپ کے تعلقات کافی گہرے تھے۔ حتی کہ آپ کی فرمائش پر مولانا رشید الدین خان نے کتاب بھی ترتیب دی ہے۔
دہلی کالج کا قیام
1825 میں دہلی کالج کا قیام عمل میں آیا۔ قیام سے قبل ہی صدر مدرس کے طور پر مولانا رشید الدین خان کشمیری اور نائب کی حیثیت سے مولانا مملوک علی نانوتوی کا تقرر عمل میں آچکا تھا۔ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے لکھا ہے کہ ابتدا کے تین سالوں تک اس کا مکمل نظام مدرسہ کے طرز پر رہا ہے، پھر بعد میں اسے باضابطہ نئی شکل دے دی گئی۔
دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ نے بے لوث خدمت انجام دی اور کالج کو ترقی و کامیابی کے راستہ پر گامزن کیا۔ آپ کی شبانہ روز کی محنت شاقہ نے دہلی کالج کے ماحول کو ایسے دور میں جب پورے ہندوستان کا علمی ڈھانچہ لارڈ میکالے کے اشاروں پر گھوم رہا تھا اور عیسائی مشنری ہر جانب عیسائیت کی تبلیغ لگی ہوئی تھی یہ واحد ادارہ تھا جو ایسے حالات میں آب و تاب سے چمک دمک رہا تھا، اور جو ان شرور سے مکمل طور پر محفوظ تھا۔
مولانا رشید الدین خان کشمیری کی وفات کے بعد جب صدر مدرس کا عہدہ خالی ہوا تو اس خلا کو پر کرنے کیلئے آپ سے بہتر کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔ آپ کو دہلی کالج کا طویل تجربہ تھا علاوہ ازیں آپ طویل زمانے سے نائب صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے۔
1841 میں باقاعدہ آپ کو دہلی کالج کیلئے صدر مدرس کی حیثیت سے منتخب کیاگیا۔
دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ کیلئے کلکتہ کالج ( مدرسہ عالیہ) کیلئے امین کے عہدہ کی پیشکش ہوئی۔ بلکہ باضابطہ تعلیمی کونسل نے مہر ثبت لگادی تھی، لیکن دہلی والوں سے لگاؤ اور دوست و احباب کے اصرار کی وجہ سے آپ نے عہدہ قبول کرنے سے معذرت پیش کردی۔ آپ کے قوت حافظہ اور علمی تبحر کو بیان کرتے ہوئے سر سید احمد خان لکھتے ہیں کہ ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر تمام کتابیں خاکستر ہو جائیں تو بھی ان کے قوت حافظہ سے انہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ دہلی کالج کے علاوہ فرصت کے اوقات میں طلباء کو پڑھایا کرتے تھے۔ انہیں ایام میں آپ کی معیت اور صحبت کا فیض امام محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو نصیب ہوا۔ آپ نے دہلی کالج کے علاوہ بیشتر کتابیں مولانا سے ذاتی طور پر پڑھی ہیں۔ امام محمد قاسم نانوتوی کے دہلی میں قیام کے دوران ہی قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی دہلی تشریف لے گئے اور یہاں مولانا مملوک علی نانوتوی کی خدمت میں امام محمد قاسم نانوتوی کے ساتھ علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی۔
دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ نے صدر مدرس کے علاوہ بھی کئی اہم شعبوں کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کالج کے انگریز پرنسپل بھی آپ کی غیر معمولی خدا داد صلاحیتوں کے قائل تھے اور وقتاً فوقتاً ان باتوں کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔
سید احمد شہید کی تحریک سے وابستگی
جس وقت آپ دہلی میں مقیم تھے انہیں ایام میں سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ دہلی کالج میں ملازمت کی وجہ سے آپ فعال کردار تو ادا نہیں کرسکے لیکن آپ نے ایسے اسباب و وسائل اختیار کئے جن کی وجہ سے نانوتہ اور اطراف کے لوگ کثیر تعداد میں اس تحریک کا حصہ بنے، خود سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اس علاقہ کا دورہ کیا اور یہاں ایک نئی امنگ ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کرکے رخصت ہوئے۔
تصنیفات
درس وتدریس کی مشغولیت اور طلباء کے ہجوم کی وجہ سے آپ نے تصنیف و تالیف کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ پھر بھی تقریباً چھ کتابوں پر آپ نے کام کیا ہے۔ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے انہیں اس طرح ترتیب سے بیان کیا ہے۔
تصحیح سنن ترمذی
اردو ترجمہ سنن ترمذی
تصحیح و حواشی تاریخ یمینی
کتاب المختار فی الاخبار والآثار
ترجمہ اردو تحریر اقلیدس
نتیجہ تحریر
یہ چھ کتابیں ہیں جنہیں آپ نے تمام تر مصروفیات کے باوجود علمی حلقوں کیلئے مرتب فرمایا تھا۔ آپ نے دیوان حماسہ کے حاشیہ پر کام شروع کیا تھا لیکن وہ کسی وجہ سے تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔
وفات
1267 ہجری 1 ذی الحجہ کو آپ کی طبیعت خراب ہوئی اور یہی بیماری آپ کے لئے مرض الموت ثابت ہوئی۔ تقریباً گیارہ دنوں تک بستر مرگ پر رہے۔ ان ایام میں آپ کے صاحبزادہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی اور آپ کے شاگرد امام محمد قاسم نانوتوی ہمہ وقت خدمت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ بالآخر 11 ذی الحجہ بمطابق 7 اکتوبر 1851 کو آپ اس دار فانی سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئے۔ آپ کے کارناموں کو بیان کرنا اور شمار کرانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث آپ کے شاگرد اور صاحبزادہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی ہیں۔ دارالعلوم کے بانی امام محمد قاسم نانوتوی آپ کے شاگرد ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے سرپرست مولانا رشید احمد گنگوہی آپ کے شاگرد ہیں۔دار العلوم دیوبند کی بنیاد آپ کے ہونہار شاگردوں کا کارنامہ ہے۔
ولادت با سعادت
آپ نانوتہ میں خاندان صدیقی شیوخ کے چشم وچراغ ہیں۔ آپ کی ولادت ایک روایت کے مطابق 1204 ہجری میں ہے۔ تاریخ ولادت میں گرچہ کچھ اختلاف ہے لیکن قرین قیاس مذکورہ سن ہی ہے۔ آپ کے والد محترم مولوی احمد علی نانوتوی نہایت متقی اور پرہیز گار تھے۔ چنانچہ آپ کی تربیت ابتدا سے ہی ایسے ماحول میں ہوئی جو ہر قسم کے لہو و لعب سے پاک تھا۔ دینی ماحول اور والد محترم کی تربیت نے بچپن سے ہی حصول علم کا گرویدہ بنا دیا تھا۔
تعلیم و تربیت
آپ نے ابتدائی تعلیم گھر کے ماحول میں رہ کر حاصل کی۔ والد محترم نے ابتداء میں علمی ذوق و شوق کو پروان چڑھایا اور آپ کے اس شوق نے آپ کو وقت کا عظیم معلم بنا دیا۔
اس دور میں مفتی الہٰی بخش علاقہ میں ممتاز ترین عالم دین کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ آپ کے حلقہ درس میں دور دراز کے طلباء کا ہجوم رہتا تھا۔ آپ کے ممتاز طلباء میں شیخ محدث احمد علی سہارنپوری اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جیسے اشخاص شامل تھے۔ مولانا مملوک علی نے آپ کے درس میں شامل ہوکر علمی تشنگی کی سیرابی حاصل کی۔ آپ نے کچھ عرصہ بعد سید محمد قلندر جلال آبادی کے حلقہ درس میں شمولیت اختیار کی۔ ان دونوں حضرات سے آپ نے علمی فیض حاصل کیا۔
یہ وہ دور تھا جب دہلی علم و فضل کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ خاندان ولی اللہ کے چشم وچراغ علم حدیث کے فیوض و برکات کے پیمانے چھلکا رہے تھے۔ دوسری جانب دیگر اہل علم کی درسگاہوں نے دہلی کی فضا کو علم کی خوشبو سے معطر کر رکھا تھا۔ انہی چاشنی اور لگن نے مولانا مملوک علی کو دہلی کی درسگاہوں تک پہنچا دیا۔
دہلی کے قیام میں کچھ دنوں تک آپ مولانا عبداللہ علوی مرشد آبادی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔ انہیں ایام میں غالباً ہدایہ النحو کا ایک سبق آپ نے مسند ہند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پڑھا ہے۔ وہاں سے آپ حضرت مولانا رشید الدین خان کشمیری دہلوی کی درسگاہ میں پہنچے۔ یہاں آپ نے بقیہ علوم کی تکمیل فرمائی اور یہ آپ کے حصول علم کے سفر کی آخری درسگاہ ثابت ہوئی۔ مولانا رشید الدین خان کشمیری سے آپ کے تعلقات کافی گہرے تھے۔ حتی کہ آپ کی فرمائش پر مولانا رشید الدین خان نے کتاب بھی ترتیب دی ہے۔
دہلی کالج کا قیام
1825 میں دہلی کالج کا قیام عمل میں آیا۔ قیام سے قبل ہی صدر مدرس کے طور پر مولانا رشید الدین خان کشمیری اور نائب کی حیثیت سے مولانا مملوک علی نانوتوی کا تقرر عمل میں آچکا تھا۔ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے لکھا ہے کہ ابتدا کے تین سالوں تک اس کا مکمل نظام مدرسہ کے طرز پر رہا ہے، پھر بعد میں اسے باضابطہ نئی شکل دے دی گئی۔
دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ نے بے لوث خدمت انجام دی اور کالج کو ترقی و کامیابی کے راستہ پر گامزن کیا۔ آپ کی شبانہ روز کی محنت شاقہ نے دہلی کالج کے ماحول کو ایسے دور میں جب پورے ہندوستان کا علمی ڈھانچہ لارڈ میکالے کے اشاروں پر گھوم رہا تھا اور عیسائی مشنری ہر جانب عیسائیت کی تبلیغ لگی ہوئی تھی یہ واحد ادارہ تھا جو ایسے حالات میں آب و تاب سے چمک دمک رہا تھا، اور جو ان شرور سے مکمل طور پر محفوظ تھا۔
مولانا رشید الدین خان کشمیری کی وفات کے بعد جب صدر مدرس کا عہدہ خالی ہوا تو اس خلا کو پر کرنے کیلئے آپ سے بہتر کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔ آپ کو دہلی کالج کا طویل تجربہ تھا علاوہ ازیں آپ طویل زمانے سے نائب صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے۔
1841 میں باقاعدہ آپ کو دہلی کالج کیلئے صدر مدرس کی حیثیت سے منتخب کیاگیا۔
دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ کیلئے کلکتہ کالج ( مدرسہ عالیہ) کیلئے امین کے عہدہ کی پیشکش ہوئی۔ بلکہ باضابطہ تعلیمی کونسل نے مہر ثبت لگادی تھی، لیکن دہلی والوں سے لگاؤ اور دوست و احباب کے اصرار کی وجہ سے آپ نے عہدہ قبول کرنے سے معذرت پیش کردی۔ آپ کے قوت حافظہ اور علمی تبحر کو بیان کرتے ہوئے سر سید احمد خان لکھتے ہیں کہ ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر تمام کتابیں خاکستر ہو جائیں تو بھی ان کے قوت حافظہ سے انہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ دہلی کالج کے علاوہ فرصت کے اوقات میں طلباء کو پڑھایا کرتے تھے۔ انہیں ایام میں آپ کی معیت اور صحبت کا فیض امام محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو نصیب ہوا۔ آپ نے دہلی کالج کے علاوہ بیشتر کتابیں مولانا سے ذاتی طور پر پڑھی ہیں۔ امام محمد قاسم نانوتوی کے دہلی میں قیام کے دوران ہی قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی دہلی تشریف لے گئے اور یہاں مولانا مملوک علی نانوتوی کی خدمت میں امام محمد قاسم نانوتوی کے ساتھ علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی۔
دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ نے صدر مدرس کے علاوہ بھی کئی اہم شعبوں کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کالج کے انگریز پرنسپل بھی آپ کی غیر معمولی خدا داد صلاحیتوں کے قائل تھے اور وقتاً فوقتاً ان باتوں کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔
سید احمد شہید کی تحریک سے وابستگی
جس وقت آپ دہلی میں مقیم تھے انہیں ایام میں سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ دہلی کالج میں ملازمت کی وجہ سے آپ فعال کردار تو ادا نہیں کرسکے لیکن آپ نے ایسے اسباب و وسائل اختیار کئے جن کی وجہ سے نانوتہ اور اطراف کے لوگ کثیر تعداد میں اس تحریک کا حصہ بنے، خود سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اس علاقہ کا دورہ کیا اور یہاں ایک نئی امنگ ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کرکے رخصت ہوئے۔
تصنیفات
درس وتدریس کی مشغولیت اور طلباء کے ہجوم کی وجہ سے آپ نے تصنیف و تالیف کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ پھر بھی تقریباً چھ کتابوں پر آپ نے کام کیا ہے۔ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے انہیں اس طرح ترتیب سے بیان کیا ہے۔
تصحیح سنن ترمذی
اردو ترجمہ سنن ترمذی
تصحیح و حواشی تاریخ یمینی
کتاب المختار فی الاخبار والآثار
ترجمہ اردو تحریر اقلیدس
نتیجہ تحریر
یہ چھ کتابیں ہیں جنہیں آپ نے تمام تر مصروفیات کے باوجود علمی حلقوں کیلئے مرتب فرمایا تھا۔ آپ نے دیوان حماسہ کے حاشیہ پر کام شروع کیا تھا لیکن وہ کسی وجہ سے تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔
وفات
1267 ہجری 1 ذی الحجہ کو آپ کی طبیعت خراب ہوئی اور یہی بیماری آپ کے لئے مرض الموت ثابت ہوئی۔ تقریباً گیارہ دنوں تک بستر مرگ پر رہے۔ ان ایام میں آپ کے صاحبزادہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی اور آپ کے شاگرد امام محمد قاسم نانوتوی ہمہ وقت خدمت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ بالآخر 11 ذی الحجہ بمطابق 7 اکتوبر 1851 کو آپ اس دار فانی سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئے۔ آپ کے کارناموں کو بیان کرنا اور شمار کرانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث آپ کے شاگرد اور صاحبزادہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی ہیں۔ دارالعلوم کے بانی امام محمد قاسم نانوتوی آپ کے شاگرد ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے سرپرست مولانا رشید احمد گنگوہی آپ کے شاگرد ہیں۔دار العلوم دیوبند کی بنیاد آپ کے ہونہار شاگردوں کا کارنامہ ہے۔