حضرت خواجہ یوسف الحسین

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت خواجہ یوسف الحسین

آفتاب نہانی ، شمع زندگانی ، شاہباز کونین ،قطب وقت ،خواجہ یوسف الحسین قدس سرہ طبقہ ثانیہ میں سے تھے ۔ آپ کی کنیت ابو یعقوب ہے۔آپ رےؔ کے قدیم مشائخ میں سے تھے ۔آپ تمام علوم ظاہری وباطنی کے عالم تھے اور معارف واسرار میں نہایت اچھا کلام فرمایا ہے ۔آپ نے بہت سے مشائخ سے فیض حاصل کیا ہے َخواجہ ابو تراب کی بھی زیارت کی تھی خواجہ ابو سعید خزازؔ آپ کے رفیقوں میں سے تھے۔آپ خواجہ ذو النون مصری اور ملامتیہ مسلک پر ثابت قدم رہے ۔ کے مرید تھے ۔آپ نے بہت لمبی عمر پائی تھی ۔آپ ہمیشہ مجاہدات میں مشغول رہتے تھے ۔آپ کا ابتدائی حال یو ں ہے کہ ایک عرب رئیس کی لڑکی جو حسن وجمال میں لا ثانی تھی آپ پر فریفتہ ہو گئی اس نے موقع پا کر اپنے آپ کو خواجہ یو سف کے سامنے ڈال دیا۔ آپ وہاں سے بھاگ گئے اورساری رات سو نہ سکے اور اپنا سر زانو پر رکھ کرجنگل میں بیٹھے رہے ۔ وہاں آپ نے ایک ایسا مقام دیکھا کہ اس کے مثل پہلے نہ دیکھا تھا جب اندر گئے تو سبز پوشوں کی ایک جماعت جو وہاں جمع تھے اور ایک آدمی بادشاہوں کی طرح تخت پر پیٹھا تھا ۔جب ان کے قریب پہنچے تو انہوں نے آپ کو اندر آنے کا راستہ دیا اور بہت تعظیم کی ۔ آپ نے پو چھا تم کون ہو انہوں ے کہا ہم فرشتے ہیں اور وہ جو تخت پر بیٹھے ہیں حضرت یو سف علیہ السلام ہیں جو آپ کی زیارت کو آئے ہیں ۔یہ سن کر آپ پر گریہ طاری ہو گیا ۔آپ نے ان سے کہا کہ میں کون ہوں کہ خدا کا پیغمبر میری زیات کو آیا ہے ۔میں یہی کہہ رہا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام تخت سے نیچے اتر آئے اور مجھ سے بغلگیر ہوئے اور مجھے تخت پر بٹھایا ۔میں نے عرض کیا یا نبی اللہ میں کون ہوں کہ آپ مجھ پر اس قدر نوازش فرما رہے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اس وقت کہ اس حسین لڑکی نے اپنے آپ کو آپ کے سامنے پھینک دیا اور آپ نے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کیا اور اس کی پناہ طلب کی تو حق تعالیٰ نے مجھ سے اور فرشتوںسے فرمایا کہ دیکھو اے یوسف تو وہ یوسف ہے جس نے زلیخا کا قصد کیا تھا اور ہ وہ یوسف ہے جس نے شاہ عرب کی لڑکی کا قصد نہ کیا بلکہ اس سے دور بھاگ گیا ۔ لہذا حق تعالیٰ نے مجھے ان فرشتوں کے ساتھ آپ کی زیارت کے لیے بھیجا ہے ۔ اور بشات دی ہے کہ تم حق تعالیٰ کے نورختہ لوگوں میں سے ہو ۔پس حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر زمانے میں ایک مرد علامت ہو تا ہے اور اس زمانے کی علامت ذولنون مصری ہیں اس کے پاس جاؤ ۔جب خواجہ بن حسین بیدار ہو ئے تو ذوق وشوق کے غلبہ میں مصر پہنچے اور حضرت ذو النون مصری کی خدمت میں رہ ر تربیت حاصل کی ۔ کافی عرصہ کے بعد آپ اپنےشیخ کی اجازت سے واپس اپنے شہر رےؔ تشریف لے گئے ،چونک آپ شہر ے بزرگان میں سے لوگوں نے آپ کا استقبال کیا آپ نے وہیں سکونت اخیار کر لی ۔ وہاں آپ کی بڑی عزت وتکریم ہو ئی اور خلقت آپ سے ہدایت کی طبلگار ہوئی لیکن آپ کا مسلک ملا متیہ تھا ۔خواجہ ابرا ہیم خوص آپ کے مرید ہو ئے ۔آپ ی وفات ۳۴۳ھ میں ہو ئی ۔رحمۃ اللہ علیہ ۔
 

احمدچشتی

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
رکن
سبحان اللہ۔نارہ تکبیر۔ اللہ اکبر۔اولیا کا دامن نہیں چھوڑیں گے
اولیاء اللہ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ فرشتے اور پیغمبر زیارت کریں۔غالب نے سچ کہا
تر دامنی پر شیخ ہمارے نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اولیاء اللہ نے تو ماشاء اللہ مرتبہ و مقام پایا اپنی محنت سے اللہ کے احکامات پر نبی کریم ﷺ کے طریقوں سے عمل کر کے
لیکن آج کل کے بیچارے لوگ اولیاء اللہ کے مزارات پر ان کی قبروں کے آگے ڈول تاشے بجا کر مرتبہ و مقام مانگتے ہیں
 

احمدچشتی

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
رکن
اولیاء اللہ نے تو ماشاء اللہ مرتبہ و مقام پایا اپنی محنت سے اللہ کے احکامات پر نبی کریم ﷺ کے طریقوں سے عمل کر کے
لیکن آج کل کے بیچارے لوگ اولیاء اللہ کے مزارات پر ان کی قبروں کے آگے ڈول تاشے بجا کر مرتبہ و مقام مانگتے ہیں
میڈم ۔آپ کو مزارت اولیا سے اتنی چڑھ کیوں۔بازار میں دنیا بھر کے فواحش ہیں تو کیا شاپنگ جانا چھوڑ دیا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
میڈم ۔آپ کو مزارت اولیا سے اتنی چڑھ کیوں۔بازار میں دنیا بھر کے فواحش ہیں تو کیا شاپنگ جانا چھوڑ دیا۔
اگر کوئی شخص پوسٹ کو کھلی آنکھوں سے عقل و شعور کے ساتھ پڑھے تو شاید عقل سلیم میں آئے کہ چڑھ اولیاء کے مزارات سے نہیں بلکہ وہاں ناچ گانے اور قبروں کی عبادت کرنے والوں سے ہے
 

احمدچشتی

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
رکن
یعنی ناچ نہ آوے آنگن ٹیڑھا
تمھارے مجدد الملت فر ماتے ہیں کہ ہمیں گناہ سے نفرت ہے گنہگاروں سے نہیں۔اور ہماری میڈم ۔فورم کی شہزادی اپنے ہی بزرگوں کے قول کے مخالف ہیں۔کیا کہنے
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
حق تعالیٰ نے مجھ سے اور فرشتوںسے فرمایا کہ دیکھو اے یوسف تو وہ یوسف ہے جس نے زلیخا کا قصد کیا تھا اور ہ وہ یوسف ہے جس نے شاہ عرب کی لڑکی کا قصد نہ کیا بلکہ اس سے دور بھاگ گیا ۔
صوفیہ کے واقعات میں مبالغہ آرائی تو ہوتی ہی ہے ۔ لیکن یہ جملہ تو مبالغہ آرائی سے بڑھ کر اچھی خاصی بے ادبی کا تاثر دے رہا ہے ۔
قرآن عظیم جیسی کتاب میں سورۃ یوسف میں عظیم عصمت کا واقعہ ہے جو سارا حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت کا ثبوت ہے ۔ اوریہ خواب نما روایت بالمعنی در معنی قصہ کس طرح پیش کررہا ہے ۔
سورۃ یوسف میں جس قصد کا ذکر ہے ۔وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ اس کی مفسرین نے دو طرح تفسیر کی ہے ۔ اور جو نبی معصوم علیہ السلام کے مقام کے مناسب ہے وہ یہی لگتی ہے کہ۔وہ بھی قصد کرتے اگر برہان رب نہ دیکھتے ۔
بعض مفسرین نے دوسرا معنی لیا ہے تو اُس کی بھی اچھی خاصی وضاحتیں کی ہیں جو نبوت کی شان کو متاثر نہیں کرتیں ۔
بزرگ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بلکہ خود سے روایت بالمعنی کرنی چاہیے جو دین کے موافق ہو کہ ۔۔۔ان ولی ؒ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی سُنت تازہ کردی ۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یعنی ناچ نہ آوے آنگن ٹیڑھا
تمھارے مجدد الملت فر ماتے ہیں کہ ہمیں گناہ سے نفرت ہے گنہگاروں سے نہیں۔اور ہماری میڈم ۔فورم کی شہزادی اپنے ہی بزرگوں کے قول کے مخالف ہیں۔کیا کہنے
کسی ایک ولی کی روایت دکھا دیں جنہوں نے یہ فرمایا ہو کہ میرے بعد میرا ایک عالی شان مزار بنانا اور پھر وہاں عرس رکھنا اور مخلوط محافل کا اہتمام کرنا جس میں مرد اور عورت اپنی خرافات کی حدوں تک پہنچیں اور میری قبر پر سجدے کر کر کے مجھ سے مانگنا اور میں ولی ہوں مجھے روز چھادروں میں ڈھانکنا اور ہاں ڈول تاشہ ضرور بجانا کیوں کہ یہ سب سنے بغیر مجھے نیند نہیں آئےگی؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
صوفیہ کے واقعات میں مبالغہ آرائی تو ہوتی ہی ہے ۔ لیکن یہ جملہ تو مبالغہ آرائی سے بڑھ کر اچھی خاصی بے ادبی کا تاثر دے رہا ہے ۔
قرآن عظیم جیسی کتاب میں سورۃ یوسف میں عظیم عصمت کا واقعہ ہے جو سارا حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت کا ثبوت ہے ۔ اوریہ خواب نما روایت بالمعنی در معنی قصہ کس طرح پیش کررہا ہے ۔
سورۃ یوسف میں جس قصد کا ذکر ہے ۔وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ اس کی مفسرین نے دو طرح تفسیر کی ہے ۔ اور جو نبی معصوم علیہ السلام کے مقام کے مناسب ہے وہ یہی لگتی ہے کہ۔وہ بھی قصد کرتے اگر برہان رب نہ دیکھتے ۔
بعض مفسرین نے دوسرا معنی لیا ہے تو اُس کی بھی اچھی خاصی وضاحتیں کی ہیں جو نبوت کی شان کو متاثر نہیں کرتیں ۔
بزرگ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بلکہ خود سے روایت بالمعنی کرنی چاہیے جو دین کے موافق ہو کہ ۔۔۔ان ولی ؒ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی سُنت تازہ کردی ۔
بقول حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اس کی بہترین مثال ایسی ہے جیسے پیاس کی حالت میں روزہ دار کو ٹھنڈا پانی دیکھ کر طبعی طور پر اس کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے۔ لیکن روزہ توڑنے کا بالکل ارادہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیر اختیار طور پر حضرت یوسفؑ کے دل میں بھی میلان پیدا ہوا اور اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو یہ میلان آگے بھی بڑھ سکتا تھا لیکن اپنے رب کی دلیل دیکھنے کے بعد وہ غیر اختیار جھکاؤ سے آگے نہیں بڑھا۔
تفسیر آسان قران
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یعنی ناچ نہ آوے آنگن ٹیڑھا
تمھارے مجدد الملت فر ماتے ہیں کہ ہمیں گناہ سے نفرت ہے گنہگاروں سے نہیں۔اور ہماری میڈم ۔فورم کی شہزادی اپنے ہی بزرگوں کے قول کے مخالف ہیں۔کیا کہنے
چشتی بھائی الغزالی لال قلعہ کا مغل دربار تو نہیں جہاں ایک عدد شہزادہ اور شہزادی کی ضرورت ہو۔بھیآ جی ہمارے اور اپنے اوپر رحم کھاؤ یہ سب کھیلا چھوڑو ۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
بقول حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اس کی بہترین مثال ایسی ہے جیسے۔۔۔۔۔
دراصل اس وقت سورۃ یوسف کی آیت کی تفسیر و توجیح موضوع بحث لانا نہیں بلکہ دوسری بات کی طرف توجہ دلانا تھا۔
ہمارے نبیﷺ نے انبیاء علیہم السلام کے درمیان تقابل سے منع فرمایا ہے اور اس روایت میں خصوصاََ حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے ،
تو علماء و شارحین نے اس کی وضاحت میں یہ فرمایا ہے کہ نبیوں کی ایسی فضیلت بیان کرنا جس سے دوسرے نبی کی تنقیص لازم آئے ، ایسے تقابل سے منع فرمایا گیا ہے ۔
تو جب انبیاء علیہم السلام کے بارے میں یہ بات ہے توکہاں ولی اور نبی کا ایسا تقابل۔
مولانا شبلی نعمانی ؒ کتنے بڑے عالم تھے اور سیرت النبی ﷺ کتنی مشہور کتاب ہے ۔اُ س میں انہوں نے (یا شاید سیدسلیمانؒ صاحب نے) ایک جگہہ ضمناََ ہمارے نبیﷺ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے دوسرے انبیاء علیہم السلام سے تقابل کردیا ۔ مولانا تھانویؒ نے سیرت النبی کتاب پر خاصی تنقید کی اور اس کو نامناسب بتایا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دراصل اس وقت سورۃ یوسف کی آیت کی تفسیر و توجیح موضوع بحث لانا نہیں بلکہ دوسری بات کی طرف توجہ دلانا تھا۔
ہمارے نبیﷺ نے انبیاء علیہم السلام کے درمیان تقابل سے منع فرمایا ہے اور اس روایت میں خصوصاََ حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے ،
تو علماء و شارحین نے اس کی وضاحت میں یہ فرمایا ہے کہ نبیوں کی ایسی فضیلت بیان کرنا جس سے دوسرے نبی کی تنقیص لازم آئے ، ایسے تقابل سے منع فرمایا گیا ہے ۔
تو جب انبیاء علیہم السلام کے بارے میں یہ بات ہے توکہاں ولی اور نبی کا ایسا تقابل۔
مولانا شبلی نعمانی ؒ کتنے بڑے عالم تھے اور سیرت النبی ﷺ کتنی مشہور کتاب ہے ۔اُ س میں انہوں نے (یا شاید سیدسلیمانؒ صاحب نے) ایک جگہہ ضمناََ ہمارے نبیﷺ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے دوسرے انبیاء علیہم السلام سے تقابل کردیا ۔ مولانا تھانویؒ نے سیرت النبی کتاب پر خاصی تنقید کی اور اس کو نامناسب بتایا۔
درست فرمایا آپ نے ولی اور نبی کے درمیان تقابل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا جبکہ انبیاء کرام کے درمیان منع فرمایا گیا ہے۔

حدیث مبارک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی موقع پر ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان بدکلامی ہوئی، مسلمان نے کہا: اللہ کی قسم جس نے محمد ( ﷺ ) کو سارے جہاں کے لوگوں میں سے بہتر قرار دیا، اس کے جواب میں یہودی نے یہ کہا کہ اس اللہ کی قسم جس نے موسی علیہ السلام کو جہاں کے لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا، اس پر مسلمان نے (طیش میں آکر) یہودی پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے گال پر طمانچہ مارا، یہودی (شکایت لے کر ) نبی کریم ﷺ کے پاس گیا اور آپ ﷺ کے سامنے اپنا اور اس مسلمان کا پورا واقعہ رکھا، نبی کریم ﷺ نے مسلمان کو طلب فرمایا اور اس سے صورتِ حال کی تحقیق کی ، اس نے (یہودی کے بیان کردہ واقعہ کی تردید نہیں کی بلکہ) آپ ﷺ کو جوں کی توں ساری بات بتادی ۔ نبی کریم ﷺ نے (فریقین کے بیانات سن کر ) فرمایا : مجھ کو موسی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو ؛ اس لیے کہ قیامت کے دن (صور پھونکے جانے پر) جب سب لوگ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے تو ان کے ساتھ میں بھی بے ہوش ہو کر گر جاؤں گا، پھر سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص میں ہوں گا ، لیکن (جب میں ہوش میں آؤں گا تو ) دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ موسی بےہوش ہوجانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے اور ان کی بے ہوشی مجھ سے پہلے ختم ہوچکی ہوگی یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا ۔ (اور بے ہوش ہو کر گر پڑنے والے لوگوں میں شامل ہی نہیں ہوں گے ) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ طور پر موسی علیہ السلام کی بے ہوشی کو (قیامت کے دن کی ) اس بے ہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا یا یہ ہوگا کہ (بے ہوش ہو کر گرپڑنے والوں میں وہ بھی شامل ہوں گے مگر) وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آجائیں گے ۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا ) اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے افضل ہے ۔"

اور حضرت ابو سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر ) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو" ( بخاری ومسلم)

اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"۔

اس حدیث مبارک میں آپ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت بیان کی ہے؛ اس لیے کہ آپ ﷺ کے فرمان کے مطابق اگر یہ ہوگا کہ تمام لوگوں کی طرح حضرت موسی علیہ السلام بھی بے ہوش ہوجائیں گے ، تو میرا ہوش میں آنے کے بعد ان کو اس طرح دیکھنا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں ، یہ ثابت کرے گا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آگئے تھے، اس صورت میں مجھ پر ان کی فضیلت بالکل ظاہری بات ہے اور اگر یہ ہوگا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بے ہوش ہوجانے والوں میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ سرے سے بے ہوش ہی نہیں ہوں گے، حال آں کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہوجائے گی ، تو یہ صورت بھی ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے والی ہے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس معاملہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو مجھ پر فضیلت حاصل ہے تو پھر مجھ کو ان پر فضیلت دینے کے کیا معنی ہیں۔اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے : " تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"۔
 

احمدچشتی

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
رکن
محترمہ ساری محفلیں ایسی نہیں ہوتی۔نہ جانے کون سے دبا پیر پر گئیں ہیں۔مجدد الف ثانی کے مرقد مبارک پر ایسا کچھ نہیں ہوتا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محترمہ ساری محفلیں ایسی نہیں ہوتی۔نہ جانے کون سے دبا پیر پر گئیں ہیں۔مجدد الف ثانی کے مرقد مبارک پر ایسا کچھ نہیں ہوتا
اگر ایسا ہے اور ڈھول تاشے نہیں بجائے جاتے اور چادریں نہیں چڑھائی جاتی اور سجدے نہیں کیے جاتے تو پھر وہ مزار سجدہ گروں کی توسط سے دور ہوگا
جنت البقیع میں کوئی سجدہ کر کے دکھائے ڈھول بجا کے دکھائے
 
Top